• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم
باب : اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو

مثلاً ایک شخص کے پاس کھجور نہیں ہے اور کسی نے اس سے کھجور لینے کے لیے سلم کیا۔ بعض نے کہا اصل سے مراد ا س کی بنا ہے، مثلاً غلہ کی اصل کھیتی ہے اور میوے کی اصل درخت ہے۔ اس باب سے یہ غرض ہے کہ سلم کے جواز کے لیے اس مال کا مسلم الیہ کے پاس ہونا ضروری نہیں۔

حدیث نمبر : 2244
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الشيباني، حدثنا محمد بن أبي المجالد، قال بعثني عبد الله بن شداد وأبو بردة إلى عبد الله بن أبي أوفى ـ رضى الله عنهما ـ فقالا سله هل كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون في الحنطة قال عبد الله كنا نسلف نبيط أهل الشأم في الحنطة، والشعير، والزيت، في كيل معلوم، إلى أجل معلوم‏.‏ قلت إلى من كان أصله عنده قال ما كنا نسألهم عن ذلك‏.‏ ثم بعثاني إلى عبد الرحمن بن أبزى، فسألته فقال: كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولم نسألهم: ألهم حرث أم لا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی مجالد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما کے یہاں بھیجا اور ہدایت کی کہ ان سے پوچھو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے زمانے میں گیہوں کی بیع سلم کرتے تھے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم شام کے انباط ( ایک کاشتکار قوم ) کے ساتھ گیہوں، جوار، زیتون کی مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے سودا کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا صرف اسی شخص سے آپ لوگ یہ بیع کیا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال موجود ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کے متعلق پوچھتے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد ان دونوں حضرات نے مجھے عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کے خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے عہد مبارک میں بیع سلم کیا کرتے تھے اور ہم یہ بھی نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے کھیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے یہی حدیث۔ اس روایت میں یہ بیان کیا کہ ہم ان سے گیہوں اور جو میں بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے شیبانی نے بیان کیا، اس میں انہوں نے زیتون کا بھی نام لیا ہے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، اور اس میں بیان کیا کہ گیہوں، جو اور منقی میں ( بیع سلم کیا کرتے تھے )۔

تشریح : یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ یعنی اس بات کو ہم دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے پاس مال ہے یانہیں۔ معلوم ہوا کہ سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔ مسلم فیہ یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازار سے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدور وغیرہ سے حاصل کرکے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے بھائی مسلمان کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ادائیگی کی نیت خالص رکھنے والے کی اللہ بھی مدد کرتا ہے کہ وہ وقت پر ادا کردیتا ہے اور جس کی ہضم کرنے ہی کی نیت ہو تو قدرتی امداد بھی اس کو جواب دے دیتی ہے۔

لفظ انباط کی تحقیق میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں : جمع نبیط و ہم قوم معروفون کانوا ینزلون بالبطائح من العراقین قالہ الجوہری و اصلہم قوم من العرب دخلوا فی العجم و اختلطت انسابہم و فسدت السنتہم و یقال لہ النبط بفتحتین و النبیط بفتح اولہ و کسر ثانیہ و زیادۃ تحتانیۃ وانما سموا بذلک لمعرفتہم بانباط الماءای استخراجہ لکثرۃ معالجتہم الفلاحۃ و قیل ہم نصاری الشام و ہم عرب دخلوا فی الروم و نزلوا بوادی الشام و یدل علی ہذا قولہ من انباط الشام و قیل ہم طائفتان طائفۃ اختلطت بالعجم و نزلوا البطائح و طائفۃ اختلطت بالروم و نزلوا الشام ( نیل الاوطار ) یعنی لفظ انباط نبیط کی جمع ہے۔ یہ لوگ اہل عراق کے پتھریلے میدانوں میں سکونت پذیر ہوا کرتے تھے، اصل میں یہ لوگ عربی تھے، مگر عجم میں جانے سے ان کے انساب اور ان کی زبانیں سب مخلوط ہو گئیں۔ نبط بھی ان ہی کو کہا گیا ہے اور نبیط بھی۔ یہ اس لیے کہ یہ قوم کھیتی کیاری کے فن میں بڑا تجربہ رکھتی تھی۔ اور پانی نکالنے کا ان کو خاص ملکہ تھا۔ انباط پانی نکالنے کو ہی کہتے ہیں۔ اسی نسبت ان کو قوم انباط کہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شام کے نصاریٰ تھے جو نسلاً عرب تھے۔ مگر روم میں جاکر وادی شام میں مقیم ہو گئے۔ روایت میں لفظ انباط الشام اس پر دلالت کررہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے دو گروہ تھے ایک گروہ عجمیوں کے ساتھ اختلاط کرکے عراقی میدانوں میں سکونت پذیر تھا۔ اور دوسرا گروہ رومیوں سے مخلوط ہو کر شام میں قیام پذیر ہو گیا۔ بہرحال یہ لوگ کاشتکار تھے، اور گندم کے ذخائر لے کر ملک عرب میں فروخت کے لیے آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر مسلمانان مدینہ سے ان کا تجارتی تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ یہاں ہر جائز نقد اور ادھار سودا کرنا ان کا معمول تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 2246
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، أخبرنا عمرو، قال سمعت أبا البختري الطائي، قال سألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن السلم، في النخل‏.‏ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل، حتى يؤكل منه وحتى يوزن‏.‏ فقال الرجل وأى شىء يوزن قال رجل إلى جانبه حتى يحرز‏. وقال معاذ: حدثنا شعبة، عن عمرو: قال أبو البختري: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما: نهى النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالبختری طائی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کیا۔

تشریح : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کی پختگی نہ کھل جائے اس وقت تک سلم جائز نہیں کیوں کہ یہ سلم خاص درختوں کے پھل پر ہوئی۔ اگر مطلق کھجور میں کوئی سلم کرے تو وہ جائز ہے۔ گو درخت پر پھل نکلے بھی نہ ہوں۔ یا مسلم الیہ کے پاس درخت بھی نہ ہوں۔ اب بعض نے کہا کہ یہ حدیث درحقیقت بعد والے باب سے متعلق ہے۔ بعض نے کہا اسی باب سے متعلق ہے اور مطابقت یوں ہوتی ہے کہ جب معین درختوں میں باوجود درختوں کے سلم جائز نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ درختوں کے وجود سے سلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر درخت نہ ہوں جو مال کی اصل ہیں جب بھی سلم جائز ہوگی۔ باب کا یہی مطلب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم
باب : درخت پر جوکھجور لگی ہوئی ہو اس میں بیع سلم کرنا

یعنی جس صورت میں کہ ہم کو بھروسہ ہوجائے کہ یہ درخت یقینا پھل دیں گے بلکہ پھل اب پختہ ہونے کے قریب ہی آگیا ہے تو ان حالات میں درخت پر لٹکی ہوئی کھجوروں میں بیع سلم جائز ہے۔

حدیث نمبر : 2247-48
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن عمرو، عن أبي البختري، قال سألت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن السلم، في النخل فقال نهي عن بيع النخل، حتى يصلح، وعن بيع الورق، نساء بناجز‏. وسألت ابن عباس عن السلم في النخل، فقال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل حتى يؤكل منه، أو يأكل منه، وحتى يوزن.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابوالبختری نے بیان کیا، کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کھجور میں جب کہ وہ درخت پر لگی ہوئی ہو بیع سلم کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ جب تک وہ کسی قابل نہ ہو جائے اس کی بیع سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح چاندی کو ادھار، نقد کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا۔ پھر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کی درخت پر بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے بھی یہی کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کھجور کی بیع سے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھائی نہ جاسکے یا ( یہ فرمایا کہ ) جب تک وہ اس قابل نہ ہوجائے کہ اسے کوئی کھاسکے اور جب تک وہ تولنے کے قابل نہ ہوجائے۔

حدیث نمبر : 2249-50
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن عمرو، عن أبي البختري، سألت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن السلم، في النخل فقال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمر حتى يصلح، ونهى عن الورق بالذهب نساء بناجز‏. وسألت ابن عباس فقال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل حتى يأكل، أو يؤكل، وحتى يوزن. قلت: وما يوزن؟ قال رجل عنده: حتى يحرز‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابوالبختری نے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کھجور کی درخت پر بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک وہ نفع اٹھانے کے قابل نہ ہو جائے، اسی طرح چاندی کو سونے کے بدلے بیچنے سے جب کہ ایک ادھار اور دوسرا نقد ہو منع فرمایا ہے۔ پھر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو درخت پر بیچنے سے جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے، اسی طرح جب تک وہ وزن کرنے کے قابل نہ ہوجائے منع فرمایا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وزن کئے جانے کا کیا مطلب ہے؟ تو ایک صاحب نے جو ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اس قابل نہ ہوجائے کہ وہ اندازہ کی جاسکے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم
باب : سلم یا قرض میں ضمانت دینا

حدیث نمبر : 2251
حدثنا محمد: حدثنا يعلى: حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة رضي الله عنها قالت: اشترى رسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما من يهودي بنسيئة، ورهنه درعا له من حديد.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعلیٰ بن عبید اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے بیان کیا ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا اور اپنی ایک لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔

تو وہ زرہ بطور ضمانت یہودی کے پاس رہی، معلوم ہوا کہ سلم یا قرض میں اگر دوسرا کوئی شخص سلم والے یا قرض دار کا ضامن ہو تو یہ درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم
باب : بیع سلم میں گروی رکھنا

حدیث نمبر : 2252
حدثنا محمد، حدثنا يعلى، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت اشترى رسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما من يهودي بنسيئة، ورهنه درعا له من حديد‏.‏
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیا ن کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے سامنے بیع سلم میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ہم سے اسود نے بیان کیا، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مقررہ مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی تھی۔

تشریح : یہ مسئلہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیٰ فاکتبوہ ( البقرۃ : 38 ) آخر تک۔ پھر فرمایا فرہانا مقبوضۃ ( البقرۃ283 ) یعنی جب کسی مقررہ وقت کے لیے قرض لو تو کوئی چیز بطور ضمانت گروی رکھ لو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم
باب : سلم میں میعاد معین ہونی چاہئے

وبه قال ابن عباس وأبو سعيد والأسود والحسن‏.‏ وقال ابن عمر لا بأس في الطعام الموصوف بسعر معلوم إلى أجل معلوم، ما لم يك ذلك في زرع لم يبد صلاحه‏.‏
ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور اسود اور امام حسن بصری نے یہی کہا ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اگر غلہ کا نرخ اور اس کی صفت بیان کر دی جائے تو میعاد معین کرکے اس میں بیع سلم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر یہ غلہ کسی خاص کھیت کا نہ ہو، جوابھی پکا نہ ہو۔

تشریح : یعنی اگر کسی خاص کھیت کے غلہ میں یا کسی خاص درخت کے میوہ میں سلم کرے اور ابھی وہ غلہ یا میوہ تیار نہ ہوا ہو تو سلم درست نہ ہوگی، لیکن تیار ہونے کے بعد خاص کھیت اور خاص پیداوار میں بھی سلم کرنا درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک غلہ یا میوہ پختگی پر نہ آیا ہو اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہوسکتا کہ غلہ یا میوہ اترے گا یا نہیں۔ احتمال ہے کہ کسی آفت ارضی یا سماوی سے یہ غلہ اور میوہ تباہ ہو جائے پھر دونوں میں جھگڑا ہو۔ ( وحیدی )

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لا کر شافعیہ کا رد کیا ہے جو سلم کو بن میعاد یعنی نقد بھی جائز رکھتے ہیں۔ حنفیہ اور مالکیہ امام بخاری کے موافق ہیں۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ کم سے کم مدت کیا ہونی چاہئے۔ پندرہ دن سے لے کر آدھے دن تک کی مدت کے مختلف اقوال ہیں۔ طحاوی نے تین دن کو کم سے کم مدت قرار دیا ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مہینہ مدت ٹھہرائی ہے۔
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جن کا یہاں ذکر ہے ابوالحسن کے بیٹے ہیں۔ ان کی کنیت ابوسعید ہے، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ ان کے والد ابوالحسن کا نام یسار ہے۔ یہ قبیلہ بن سبئی یلسان سے ہیں۔ یسار کو ربیع بنت نضر نے آزاد کیا تھا۔ امام حسن بصری جب کہ خلافت عمری کے دو سال باقی تھے۔ عالم وجود میں آئے۔ مدینہ منورہ مقام ولادت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے کھجور منہ میں چبا کر ان کے تالو سے لگائی۔ ان کی والدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتی تھیں۔ بسااوقات ان کی والدہ کہیں چلی جاتیں تو حسن بصری کو بہلانے کے لیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنی چھاتی ان کے منہ میں دے دیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی والدہ لوٹ کر آتیں تو ام المومنین کے دودھ بھر آتا اور یہ حضرت اسے پی لیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضای فرزند ثابت ہوئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جس علم و حکمت پر امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ پہنچے یہ اسی کا طفیل ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یہ بصرہ چلے آئے۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ اور کہا گیا ہے کہ مدینہ میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ملے۔ لیکن بصرہ میں ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت حسن بصری جس وقت بصرہ کو جارہے تھے تو وہ وادی قریٰ ہی میں تھے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس وقت بصرہ میں تشریف لا چکے تھے۔ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور دوسرے اکابر صحابہ سے روایت کی ہے۔ اور ان سے بھی ایک بڑی جماعت تابعین اور تبع تابعین نے روایات کی ہیں۔ وہ اپنے زمانہ میں علم و فن، زہد و تقوی و عبادت اور ورع کے امام تھے۔ رجب110ھ میں وفات پائی۔ حشرنا اللہ معہم و جمع اللہ بیننا و بینہم فی اعلیٰ علیین آمین

حدیث نمبر : 2253
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، عن عبد الله بن كثير، عن أبي المنهال، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يسلفون في الثمار السنتين والثلاث، فقال ‏"‏أسلفوا في الثمار في كيل معلوم إلى أجل معلوم‏"‏‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ پھلوں میں دو اور تین سال تک کے لیے بیع سلم کیا کرتے تھے۔ آپ نے انہیں ہدایت کی کہ پھلوں میں بیع سلم مقررہ پیمانے اور مقررہ مدت کے لیے کیا کرو۔ اور عبداللہ بن ولید نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا، اس روایت میں یوں ہے کہ ” پیمانے اور وزن کی تعیین کے ساتھ “ ( بیع سلم ہونی چاہئیے۔

حدیث نمبر : 2254-2255
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا سفيان، عن سليمان الشيباني، عن محمد بن أبي مجالد، قال أرسلني أبو بردة وعبد الله بن شداد إلى عبد الرحمن بن أبزى وعبد الله بن أبي أوفى فسألتهما عن السلف،‏.‏ فقالا كنا نصيب المغانم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يأتينا أنباط من أنباط الشأم فنسلفهم في الحنطة والشعير والزبيب إلى أجل مسمى‏.‏ قال قلت أكان لهم زرع، أو لم يكن لهم زرع قالا ما كنا نسألهم عن ذلك‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں سلیمان شیبانی نے، انہیں محمد بن ابی مجالد نے، کہا کہ مجھے ابوبردہ اور عبداللہ بن شداد نے عبدالرحمن بن ابزیٰ اور عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان دونوں حضرات سے بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غنیمت کا مال پاتے، پھر شام کے انباط ( ایک کاشتکار قوم ) ہمارے یہاں آتے تو ہم ان سے گیہوں، جو اور منقی کی بیع سلم ایک مدت مقرر کرکے کر لیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے پوچھا کہ ان کے پاس اس وقت یہ چیزیں موجود بھی ہوتی تھیں یا نہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم اس کے متعلق ان سے کچھ پوچھتے ہی نہیں تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم

باب : بیع سلم میں یہ میعاد لگانا کہ جب اونٹی بچہ جنے

یہ جاہلیت کا رواج تھا۔ مہینے اور دن تو متعین نہ کرتے، جہالت اس درجہ کی تھی کہ اونٹنی کے جننے کو وعدہ ٹھہراتے۔ گو اونٹنی اکثر قریب قریب ایک سال کی مدت میں جنتی ہے۔ مگر پھر بھی آگے پیچھے کئی دن کا فرق ہوجاتا ہے اور نیز نزاع کا باعث ہوگا، اس لیے ایسی مدت لگانے سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر : 2256
حدثنا موسى بن إسماعيل، أخبرنا جويرية، عن نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال كانوا يتبايعون الجزور إلى حبل الحبلة، فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عنه‏.‏ فسره نافع أن تنتج الناقة ما في بطنها‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہیں جویریہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ اونٹ وغیرہ حمل کے حمل ہونے کی مدت تک کے لیے بیچتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ نافع نے حبل الحبلۃ کی تفسیر یہ کی ” یہاں تک کہ اونٹی کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ اسے جن لے۔ “

پھر اس کا بچہ بڑا ہو کر وہ بچہ جنے جیسے دوسری روایت میں اس کی تصریح ہے۔ اس میعاد میں جہالت تھی۔ دوسرے دھوکہ تھا کہ معلوم نہیں وہ کب بچہ جنتی ہے۔ پھر اس کا بچہ زندہ بھی رہ جاتا ہے یا مرجاتا ہے۔ اگر زندہ رہے تو کب حمل رہتا ہے، کب وضع حمل ہوتا ہے۔ ایسی میعاد اگر سلم میں لگائے تو سلم جائز نہ ہوگی۔ گو عادتاً اس کا وقت معلوم بھی ہو سکے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الشفعۃ

صحیح بخاری -> کتاب الشفعۃ

باب : شفعہ کا حق اس جائیداد میں ہوتا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو جب حد بندی ہو جائے تو شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔

تشریح : شفعہ کہتے ہیں شریک یا ہمسائے کا حصہ وقت بیع کے اس کے شریک یا ہمسایہ کو جبراً منتقل ہونا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ ہر چیز میں شفعہ ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جانور میں ہے اور کسی منقولہ جائیداد میں نہیں اور شافعیہ اور حنفیہ کہتے ہیں کہ شفعہ صرف جائیداد غیر منقولہ میں ہوگا۔ اور شافعیہ کے نزدیک شفعہ صرف شریک کو ملے گا نہ کہ ہمسایہ کو۔ اور امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہمسایہ کو بھی حق شفعہ ہے اور اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے۔ وہی ماخوذۃ لغۃ من الشفع و ہو الزوج و قیل من الزیادۃ و قیل من الاعانۃ و فی الشرع انتقال حصۃ شریک الی شریک کانت انتقلت الی اجنبی بمثل العوض المسمی و لم یختلف العلماءفی مشروعیتہا ( فتح ) اور وہ شفع سے ماخود ہے جس کے معنی جوڑا کے ہیں۔ کہا گیا کہ زیادتی کے معنی میں ہے۔ بعض نے کہا اعانت کے معنی میں ہے۔ شرع میں ایک کے حصہ کو اس کے دوسرے شریک کے حوالہ کرنا، جب کہ وہ کچھ قیمت پر کسی اجنبی کی طرف منتقل ہو رہا ہو۔ اس کی مشروعیت پر علماءکا اتفاق ہے۔

حدیث نمبر : 2257
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہو گئیں اور راستے بدل دیئے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔

تشریح : قسطلانی نے کہا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر شریک نے شفیع کو بیع کی خبر دی اور اس نے بیع کی اجازت دی پھر شریک نے بیع کی تو شفیع کو حق شفعہ نہ پہنچے گا اور اس میں اختلاف ہے کہ بائع کو شفیع کا خبر دینا واجب ہے یا مستحب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشفعۃ
باب : شفعہ کا حق رکھنے والے کے سامنے بیچنے سے پہلے شفعہ پیش کرنا

وقال الحكم إذا أذن له قبل البيع فلا شفعة له‏.‏ وقال الشعبي من بيعت شفعته وهو شاهد لا يغيرها فلا شفعة له‏.‏
حکم نے کہا کہ اگر بیچنے سے پہلے شفعہ کا حق رکھنے والے نے بیچنے کی اجازت دی تو پھر اس کا حق شفعہ ختم ہو جاتا ہے۔ شعبی نے کہا کہ حق شفعہ رکھنے والے کے سامنے جب مال بیچا گیا اور اس نے اس بیع پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو اس کا حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔

حدیث نمبر : 2258
حدثنا المكي بن إبراهيم، أخبرنا ابن جريج، أخبرني إبراهيم بن ميسرة، عن عمرو بن الشريد، قال وقفت على سعد بن أبي وقاص، فجاء المسور بن مخرمة فوضع يده على إحدى منكبى إذ جاء أبو رافع مولى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا سعد ابتع مني بيتى في دارك‏.‏ فقال سعد والله ما أبتاعهما‏.‏ فقال المسور والله لتبتاعنهما‏.‏ فقال سعد والله لا أزيدك على أربعة آلاف، منجمة أو مقطعة‏.‏ قال أبو رافع لقد أعطيت بها خمسمائة دينار، ولولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏الجار أحق بسقبه‏"‏‏. ‏ ما أعطيتكها بأربعة آلاف، وأنا أعطى بها خمسمائة دينار‏.‏ فأعطاها إياه‏.‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہو ںے کہا مجھ کو ابراہیم بن میسرہ نے خبر دی، انہیں عمرو بن شرید نے، کہا کہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا تھا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اپنا ہاتھ میرے شانے پر رکھا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابورافع رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور فرمایا کہ اے سعد ! تمہارے قبیلہ میں جو میرے دو گھر ہیں، انہیں تم خرید لو۔ سعد رضی اللہ عنہ بولے کہ بخدا میں تو انہیں نہیں خریدوں گا۔ اس پر مسور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہی جی تمہیں خریدنا ہوگا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میں چار ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ اور وہ بھی قسط وار۔ ابورافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حق دار ہے۔ تو میں ان گھروں کو چار ہزار پر تمہیں ہرگز نہ دیتا۔ جب کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں گھر ابورافع رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو دے دئیے۔

یہ حدیث بظاہر حنفیہ کی دلیل ہے کہ ہمسایہ کو شفع کا حق ہے۔ شافعیہ اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ مراد وہی ہمسایہ ہے جو جائیداد مبیعہ میں بھی شریک ہوتا کہ حدیثوں میں اختلاف باقی نہ رہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشفعۃ
باب : کون پڑوسی زیادہ حق دار ہے

معلوم ہوا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ متفق ہیں کہ ہمسایہ کو حق شفعہ ثابت ہے۔

حدیث نمبر : 2259
حدثنا حجاج، حدثنا شعبة، ح وحدثني علي بن عبد الله، حدثنا شبابة، حدثنا شعبة، حدثنا أبو عمران، قال سمعت طلحة بن عبد الله، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قلت يا رسول الله، إن لي جارين، فإلى أيهما أهدي قال ‏"‏إلى أقربهما منك بابا‏"‏‏. ‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شبابہ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران نے بیان کیا، کہا کہ میں نے طلحہ بن عبداللہ سے سنا، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجو؟ آپ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔

تشریح : قسطلانی نے کہا کہ اس سے شفعہ کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ حافظ نے کہا کہ ابورافع کی حدیث ہمسایہ کے لیے حق شفعہ ثابت کرتی ہے اب اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ اگر کئی ہمسائے ہوں تو وہ ہمسایہ حق شفعہ میں مقدم سمجھا جائے گا جس کا دروازہ جائیداد مبیعہ سے زیادہ نزدیک ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الاجارۃ


صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ

{‏إن خير من استأجرت القوي الأمين‏}‏ والخازن الأمين، ومن لم يستعمل من أراده‏.‏
اچھا مزدور جس کو تو رکھے وہ ہے جو زور دار، امانت دار ہو، اور امانت دار خزانچی کا ثواب اور اس کا بیان کہ جو شخص حکومت کی درخواست کرے اس کو حاکم نہ بنایا جائے۔

اجارہ کے معنی مزدوری کے ہیں اصطلاح میں یہ کہ کوئی شخص کسی مقررہ اجرت پر مقررہ مدت کے لیے اپنی ذات کا کسی کو مالک بنا دے۔

حدیث نمبر : 2260
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن أبي بردة، قال أخبرني جدي أبو بردة، عن أبيه أبي موسى الأشعري ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏الخازن الأمين الذي يؤدي ما أمر به طيبة نفسه أحد المتصدقين‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ یزید بن عبداللہ نے کہا کہ میرے دادا، ابوبردہ عامر نے مجھے خبر دی اور انہیں ان کے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ ( صدقہ ادا کردے ) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔

حدیث نمبر : 2261
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن قرة بن خالد، قال حدثني حميد بن هلال، حدثنا أبو بردة، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال أقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الأشعريين، فقلت ما علمت أنهما يطلبان العمل‏.‏ فقال ‏"‏لن أو لا نستعمل على عملنا من أراده‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے قرۃ بن خالد نے کہا کہ مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ میرے ساتھ ( میرے قبیلہ ) اشعر کے دو مرد اور بھی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دونوں صاحبان حاکم بننے کے طلب گار ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بننے کا خود خواہش مند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔ ( یہاں راوی کو شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لن یا لفظ لا استعمال فرمایا )

تشریح : لفظ ”اجارات“ اجارۃ کی جمع ہے۔ اجارہ لغت میں اجرت یعنی اس مزدوری کو کہتے ہیں جو کسی مقررہ خدمت پر جو مقررہ مدت تک انجام دی گئی ہو، اس کام کے کرنے والے کو دینا، وہ نقد یا جنس جس مقررہ صورت میں ہو۔ مزدوری پر اگر کسی نیک اچھے امانت دار آدمی کو رکھا جائے تو کام کرانے والے کی یہ عین خوش قسمتی ہے کہ مزدور اللہ سے ڈر کر پورا حق ادا کرے گا اور کسی کوتاہی سے کام نہ لے گا۔ باب استیجار الرجل الصالح منعقد کرنے سے پہلے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے مزدوری کرنا کوئی شرم اور عار کی بات نہیں ہے اور نیک صالح لوگو ںسے مزدوری پر کام کرانا بھی کوئی بری با ت نہیں ہے بلکہ ہر دو کے لیے باعث برکت اور اجر و ثواب ہے۔

اس سلسلہ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت ان خیر من استاجرت نقل فرما کر اپنے مقصد کے لیے مزید وضاحت فرمائی ہے اور بتلایا ہے کہ مزدوری کے لئے کوئی طاقتور آدمی جو امانت دار بھی ہو مل جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ باری تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی کی زبان پر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے گھر پہنچ کر یہ کہا کہ ابا جان ! ایسا زبردست اور امانت دار نوکر اور کوئی نہیں ملے گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے پوچھا کہ تجھے کیو ںکر معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پتھر جس کو دس آدمی مشکل سے اٹھاتے تھے، اس جوان یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے اٹھا کر پھینک دیا اور میں اس کے آگے چل رہی تھی۔ حیا دار اتنا ہے کہ میرا کپڑا ہوا سے اڑنے لگا تو اس نے کہا میرے پیچھے ہو کر چلو۔ اور اگر میں غلط راستے پر چلنے لگوں تو پیچھے سے ایک کنکری سیدھے راستے پر پھینک دینا۔ اس سے سمجھ کر سیدھا راستہ جان لوں گااور اسی پر چلوں گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ عین عالم شباب تھا اور حیا اور شرم کا یہ عالم اور خدا ترسی کا یہ حال کہ دختر شعیب علیہ السلام کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ جانا۔ اسی بناءاس لڑکی نے حضرت شعیب علیہ السلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان شاندار لفظوں میں تعارف کرایا۔ بہرحال امیر المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہسلسلہ کتاب البیوع اجارات یعنی مزدوری کرنے سے متعلق جملہ مسائل تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
باب کے آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص از خود نوکر یا حاکم بننے کی درخواست کرے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے وسائل ڈھونڈھے، بادشاہ اور حاکم وقت کا فرض ہے کہ ایسے حریص آدمی کو ہرگز حاکم نہ بنائے اور جو نوکری سے بھاگے اس کو اس نوکری پر مقرر کرنا چاہئے بشرطیکہ وہ اس کا اہل بھی ہو۔ وہ ضرور ایمانداری اورخیر خواہی سے کام کرے گا، لیکن یہ اصول صرف اسلامی پاکیزہ ہدایات سے متعلق ہے جس کو عہد خلافت راشدہ ہی میں شاید برتا گیا ہو۔ ورنہ اب تو کوئی اہل ہو یا نہ ہو محض خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اور اس زمانہ میں تو نوکری کا حاصل کرنا اور اس کے لیے دفاتر کی خاک چھاننا ایک عام فیشن ہو گیا ہے۔
مسلم شریف کتاب الامارت میں یہی حدیث مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں : قال العلماءو الحکمۃ فی انہ لا یولی من سال الولایۃ انہ یوکل الیہا و لا تکون معہ اعانۃ کما صرح بہ فی حدیث عبدالرحمن بن سمرۃ السابق و اذا لم تکن معہ اعانۃ لم یکن کفئا و لا یولی غیر الکف و لان فیہ تمہۃ للطالب و الحرص ( نووی ) یعنی طلب گار کو امارت نہ دی جائے، اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ امارت پر مقرر کیا جائے گا مگر اس کو اعانت حاصل نہ ہوگی، جیسا کہ حدیث عبدالرحمن بن سمرہ میں صراحت ہے۔ اور جب اس کو اعانت نہ ملے گی تو اس کا مطلب یہ کہ وہ اس کا اہل ثابت نہ ہوگا۔ اور ایسے آدمی کو امیر نہ بنایا جائے اوراس میں طلب گار کے لیے خود تہمت بھی ہے اور اظہار حرص بھی۔ علماءنے اس کی صراحت کی ہے۔

حدیث ہذا کے آخر میں خزانچی کا ذکر آیا ہے جس سے حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ خزانچی بھی ایک قسم کا نوکر ہی ہے وہ امانت داری سے کام کرے گا تو اس کو بھی اجر و ثواب ہی ملے گا جتنا کہ مالک کو ملے گا۔ خزانچی کا امین ہونا بہت ہی اہم ہے ورنہ بہت سے نقصانات کا احتمال ہوسکتا ہے۔ اس کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آئے گی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و قد روی ابن جریر من طریق شعیب الجبئی انہ قال اسم المراۃ التی تزوجہا موسی صفورہ و اسم اختہا لیا و کذ روی من طریق ابن اسحاق الا انہ قال اسم اختہا شرقا و قیل لیا و قال غیرہ ان اسمہما صفورا و عبرا و انہما کانتا تواما و روی من طریق علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس فی قولہ ان خیر من استاجرت القوی الامین قال قوی فیما ولی امین فیما استودع و روی من طریق ابن عباس و مجاہد فی آخرین ان اباہا سالہا عمارات من قوتہ و امانتہ فذکرت قوتہ فی حال السقی و امانتہ فی غض طرفہ عنہما و قولہ لھا امشی خلفی و دلینی علی الطریق و ہذا اخرجہ البیہقی باسناد صحیح عن عمر بن الخطاب و زاد فیہ فزوجہ واقام موسی معہ یکفیہ او یعمل لہ فی رعایۃ غنمہ ( فتح الباری )

دختر حضرت شعیب علیہ السلام کی تفصیلات کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس عورت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شادی کی تھی اس کا نام صفورہ تھا اور اس کی دوسری بہن کا نام ”لیا“ تھا۔ بعض نے دوسری بہن کا نام شرقا بتلایا ہے۔ اور بعض نے ”الیا“ اور بعض نے کوئی اور نام بتلایا ہے اور بعض کی تحقیق یہ کہ پہلی کا نام صفورہ اور دوسری بہن کا نام عبرا تھا۔ اور یہ دونوں جوڑ کے ساتھ بیک وقت پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت شریفہ ان خیر من استاجرت کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قوی ( طاقتور ) ان امور کے لیے جن کا ان کو ذمہ دار والی بنایا جائے۔ اور امین ( امانت دار ) ان چیزوں کے لیے جو اس کو سونپی جائیں۔ اور ابن عبا س رضی اللہ عنہما اور مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اس کے والد نے اپنی لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اس کی قوت اور امانت کے متعلق کیا دیکھا۔ تو انہوں نے بکریوں کو پانی پلانے کے سلسلہ میں ان کی قوت کا بیان کیا۔ اور امانت کا ان کی آنکھوں کو نیچا کرنے کے سلسلہ میں جب کہ وہ آگے چل رہی تھی اور قدم کا بعض حصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نظر آگیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کہ میرے پیچھے پیچھے چلو اور راستہ سے مجھ کومطلع کرتی چلو۔ پس حضرت شعیب علیہ السلام نے اس لڑکی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نکاح کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کواپنے ساتھ اپنی خدمت کے لیے نیز بکریاں چرانے کے لیے ٹھہرایا۔ جیسا کہ آٹھ سال کے لیے طے کیا گیا تھا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو سال اوراپنی طرف سے بڑھا دیئے۔ اس طرح پورے دس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں مقیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
حدیث عتبہ بن منذر میں مروی ہے قال کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان موسی اجر نفسہ ثمان سنین او عشرا علی عفۃ فرجہ و طعام بطنہ اخرجہ ابن ماجہ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال یا دس سال کے لیے اپنے نفس کو حضرت شعیب علیہ السلام کی ملازت کے سپرد کر دیا تاکہ آپ شکم پری کے ساتھ ازداوجی زندگی میں عفت کی زندگی گزار سکیں۔
المجموع شرح المہذب للاستاذالمحقق محمد نجیب المطیعی میں کتاب الاجارہ کے ذیل میں لکھا ہے یجوز عقد الاجارۃ علی المنافع المباحۃ و الدلیل علیہ قولہ تعالیٰ فان ارضعن لکم فاتوہن اجورہن ( الجزءالرابع عشر ص255 ) یعنی منافع مباح کے اوپر مزدوری کرنا جائز ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے کہ اگر وہ مطلقہ عورتیں تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدوری ادا کردو۔ معلوم ہوا کہ مزدروی کرنے کرانے کا ثبوت کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ہے اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ اسے شرافت کے خلاف سمجھا جائے جیسا کہ بعض غلط قسم کے لوگوں کا تصور ہوتا ہے اور آج تو مزدوروں کی دنیا ہے، ہر طرف مزدروں کی تنظیم ہیں۔ مزدور آج کے دور میں دنیا پر حکومت کر رے ہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
 
Top