Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم
باب : اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو
مثلاً ایک شخص کے پاس کھجور نہیں ہے اور کسی نے اس سے کھجور لینے کے لیے سلم کیا۔ بعض نے کہا اصل سے مراد ا س کی بنا ہے، مثلاً غلہ کی اصل کھیتی ہے اور میوے کی اصل درخت ہے۔ اس باب سے یہ غرض ہے کہ سلم کے جواز کے لیے اس مال کا مسلم الیہ کے پاس ہونا ضروری نہیں۔
حدیث نمبر : 2244
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الشيباني، حدثنا محمد بن أبي المجالد، قال بعثني عبد الله بن شداد وأبو بردة إلى عبد الله بن أبي أوفى ـ رضى الله عنهما ـ فقالا سله هل كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون في الحنطة قال عبد الله كنا نسلف نبيط أهل الشأم في الحنطة، والشعير، والزيت، في كيل معلوم، إلى أجل معلوم. قلت إلى من كان أصله عنده قال ما كنا نسألهم عن ذلك. ثم بعثاني إلى عبد الرحمن بن أبزى، فسألته فقال: كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولم نسألهم: ألهم حرث أم لا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی مجالد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما کے یہاں بھیجا اور ہدایت کی کہ ان سے پوچھو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے زمانے میں گیہوں کی بیع سلم کرتے تھے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم شام کے انباط ( ایک کاشتکار قوم ) کے ساتھ گیہوں، جوار، زیتون کی مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے سودا کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا صرف اسی شخص سے آپ لوگ یہ بیع کیا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال موجود ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کے متعلق پوچھتے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد ان دونوں حضرات نے مجھے عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کے خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے عہد مبارک میں بیع سلم کیا کرتے تھے اور ہم یہ بھی نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے کھیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے یہی حدیث۔ اس روایت میں یہ بیان کیا کہ ہم ان سے گیہوں اور جو میں بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے شیبانی نے بیان کیا، اس میں انہوں نے زیتون کا بھی نام لیا ہے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، اور اس میں بیان کیا کہ گیہوں، جو اور منقی میں ( بیع سلم کیا کرتے تھے )۔
تشریح : یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ یعنی اس بات کو ہم دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے پاس مال ہے یانہیں۔ معلوم ہوا کہ سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔ مسلم فیہ یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازار سے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدور وغیرہ سے حاصل کرکے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے بھائی مسلمان کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ادائیگی کی نیت خالص رکھنے والے کی اللہ بھی مدد کرتا ہے کہ وہ وقت پر ادا کردیتا ہے اور جس کی ہضم کرنے ہی کی نیت ہو تو قدرتی امداد بھی اس کو جواب دے دیتی ہے۔
لفظ انباط کی تحقیق میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں : جمع نبیط و ہم قوم معروفون کانوا ینزلون بالبطائح من العراقین قالہ الجوہری و اصلہم قوم من العرب دخلوا فی العجم و اختلطت انسابہم و فسدت السنتہم و یقال لہ النبط بفتحتین و النبیط بفتح اولہ و کسر ثانیہ و زیادۃ تحتانیۃ وانما سموا بذلک لمعرفتہم بانباط الماءای استخراجہ لکثرۃ معالجتہم الفلاحۃ و قیل ہم نصاری الشام و ہم عرب دخلوا فی الروم و نزلوا بوادی الشام و یدل علی ہذا قولہ من انباط الشام و قیل ہم طائفتان طائفۃ اختلطت بالعجم و نزلوا البطائح و طائفۃ اختلطت بالروم و نزلوا الشام ( نیل الاوطار ) یعنی لفظ انباط نبیط کی جمع ہے۔ یہ لوگ اہل عراق کے پتھریلے میدانوں میں سکونت پذیر ہوا کرتے تھے، اصل میں یہ لوگ عربی تھے، مگر عجم میں جانے سے ان کے انساب اور ان کی زبانیں سب مخلوط ہو گئیں۔ نبط بھی ان ہی کو کہا گیا ہے اور نبیط بھی۔ یہ اس لیے کہ یہ قوم کھیتی کیاری کے فن میں بڑا تجربہ رکھتی تھی۔ اور پانی نکالنے کا ان کو خاص ملکہ تھا۔ انباط پانی نکالنے کو ہی کہتے ہیں۔ اسی نسبت ان کو قوم انباط کہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شام کے نصاریٰ تھے جو نسلاً عرب تھے۔ مگر روم میں جاکر وادی شام میں مقیم ہو گئے۔ روایت میں لفظ انباط الشام اس پر دلالت کررہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے دو گروہ تھے ایک گروہ عجمیوں کے ساتھ اختلاط کرکے عراقی میدانوں میں سکونت پذیر تھا۔ اور دوسرا گروہ رومیوں سے مخلوط ہو کر شام میں قیام پذیر ہو گیا۔ بہرحال یہ لوگ کاشتکار تھے، اور گندم کے ذخائر لے کر ملک عرب میں فروخت کے لیے آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر مسلمانان مدینہ سے ان کا تجارتی تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ یہاں ہر جائز نقد اور ادھار سودا کرنا ان کا معمول تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
حدیث نمبر : 2246
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، أخبرنا عمرو، قال سمعت أبا البختري الطائي، قال سألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن السلم، في النخل. قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل، حتى يؤكل منه وحتى يوزن. فقال الرجل وأى شىء يوزن قال رجل إلى جانبه حتى يحرز. وقال معاذ: حدثنا شعبة، عن عمرو: قال أبو البختري: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما: نهى النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالبختری طائی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کیا۔
تشریح : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کی پختگی نہ کھل جائے اس وقت تک سلم جائز نہیں کیوں کہ یہ سلم خاص درختوں کے پھل پر ہوئی۔ اگر مطلق کھجور میں کوئی سلم کرے تو وہ جائز ہے۔ گو درخت پر پھل نکلے بھی نہ ہوں۔ یا مسلم الیہ کے پاس درخت بھی نہ ہوں۔ اب بعض نے کہا کہ یہ حدیث درحقیقت بعد والے باب سے متعلق ہے۔ بعض نے کہا اسی باب سے متعلق ہے اور مطابقت یوں ہوتی ہے کہ جب معین درختوں میں باوجود درختوں کے سلم جائز نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ درختوں کے وجود سے سلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر درخت نہ ہوں جو مال کی اصل ہیں جب بھی سلم جائز ہوگی۔ باب کا یہی مطلب ہے۔
باب : اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو
مثلاً ایک شخص کے پاس کھجور نہیں ہے اور کسی نے اس سے کھجور لینے کے لیے سلم کیا۔ بعض نے کہا اصل سے مراد ا س کی بنا ہے، مثلاً غلہ کی اصل کھیتی ہے اور میوے کی اصل درخت ہے۔ اس باب سے یہ غرض ہے کہ سلم کے جواز کے لیے اس مال کا مسلم الیہ کے پاس ہونا ضروری نہیں۔
حدیث نمبر : 2244
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الشيباني، حدثنا محمد بن أبي المجالد، قال بعثني عبد الله بن شداد وأبو بردة إلى عبد الله بن أبي أوفى ـ رضى الله عنهما ـ فقالا سله هل كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون في الحنطة قال عبد الله كنا نسلف نبيط أهل الشأم في الحنطة، والشعير، والزيت، في كيل معلوم، إلى أجل معلوم. قلت إلى من كان أصله عنده قال ما كنا نسألهم عن ذلك. ثم بعثاني إلى عبد الرحمن بن أبزى، فسألته فقال: كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يسلفون على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولم نسألهم: ألهم حرث أم لا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی مجالد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما کے یہاں بھیجا اور ہدایت کی کہ ان سے پوچھو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے زمانے میں گیہوں کی بیع سلم کرتے تھے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم شام کے انباط ( ایک کاشتکار قوم ) کے ساتھ گیہوں، جوار، زیتون کی مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے سودا کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا صرف اسی شخص سے آپ لوگ یہ بیع کیا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال موجود ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کے متعلق پوچھتے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد ان دونوں حضرات نے مجھے عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کے خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے عہد مبارک میں بیع سلم کیا کرتے تھے اور ہم یہ بھی نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے کھیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے یہی حدیث۔ اس روایت میں یہ بیان کیا کہ ہم ان سے گیہوں اور جو میں بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے شیبانی نے بیان کیا، اس میں انہوں نے زیتون کا بھی نام لیا ہے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، اور اس میں بیان کیا کہ گیہوں، جو اور منقی میں ( بیع سلم کیا کرتے تھے )۔
تشریح : یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ یعنی اس بات کو ہم دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے پاس مال ہے یانہیں۔ معلوم ہوا کہ سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔ مسلم فیہ یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازار سے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدور وغیرہ سے حاصل کرکے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے بھائی مسلمان کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ادائیگی کی نیت خالص رکھنے والے کی اللہ بھی مدد کرتا ہے کہ وہ وقت پر ادا کردیتا ہے اور جس کی ہضم کرنے ہی کی نیت ہو تو قدرتی امداد بھی اس کو جواب دے دیتی ہے۔
لفظ انباط کی تحقیق میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں : جمع نبیط و ہم قوم معروفون کانوا ینزلون بالبطائح من العراقین قالہ الجوہری و اصلہم قوم من العرب دخلوا فی العجم و اختلطت انسابہم و فسدت السنتہم و یقال لہ النبط بفتحتین و النبیط بفتح اولہ و کسر ثانیہ و زیادۃ تحتانیۃ وانما سموا بذلک لمعرفتہم بانباط الماءای استخراجہ لکثرۃ معالجتہم الفلاحۃ و قیل ہم نصاری الشام و ہم عرب دخلوا فی الروم و نزلوا بوادی الشام و یدل علی ہذا قولہ من انباط الشام و قیل ہم طائفتان طائفۃ اختلطت بالعجم و نزلوا البطائح و طائفۃ اختلطت بالروم و نزلوا الشام ( نیل الاوطار ) یعنی لفظ انباط نبیط کی جمع ہے۔ یہ لوگ اہل عراق کے پتھریلے میدانوں میں سکونت پذیر ہوا کرتے تھے، اصل میں یہ لوگ عربی تھے، مگر عجم میں جانے سے ان کے انساب اور ان کی زبانیں سب مخلوط ہو گئیں۔ نبط بھی ان ہی کو کہا گیا ہے اور نبیط بھی۔ یہ اس لیے کہ یہ قوم کھیتی کیاری کے فن میں بڑا تجربہ رکھتی تھی۔ اور پانی نکالنے کا ان کو خاص ملکہ تھا۔ انباط پانی نکالنے کو ہی کہتے ہیں۔ اسی نسبت ان کو قوم انباط کہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شام کے نصاریٰ تھے جو نسلاً عرب تھے۔ مگر روم میں جاکر وادی شام میں مقیم ہو گئے۔ روایت میں لفظ انباط الشام اس پر دلالت کررہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے دو گروہ تھے ایک گروہ عجمیوں کے ساتھ اختلاط کرکے عراقی میدانوں میں سکونت پذیر تھا۔ اور دوسرا گروہ رومیوں سے مخلوط ہو کر شام میں قیام پذیر ہو گیا۔ بہرحال یہ لوگ کاشتکار تھے، اور گندم کے ذخائر لے کر ملک عرب میں فروخت کے لیے آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر مسلمانان مدینہ سے ان کا تجارتی تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ یہاں ہر جائز نقد اور ادھار سودا کرنا ان کا معمول تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
حدیث نمبر : 2246
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، أخبرنا عمرو، قال سمعت أبا البختري الطائي، قال سألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن السلم، في النخل. قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل، حتى يؤكل منه وحتى يوزن. فقال الرجل وأى شىء يوزن قال رجل إلى جانبه حتى يحرز. وقال معاذ: حدثنا شعبة، عن عمرو: قال أبو البختري: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما: نهى النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالبختری طائی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کیا۔
تشریح : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کی پختگی نہ کھل جائے اس وقت تک سلم جائز نہیں کیوں کہ یہ سلم خاص درختوں کے پھل پر ہوئی۔ اگر مطلق کھجور میں کوئی سلم کرے تو وہ جائز ہے۔ گو درخت پر پھل نکلے بھی نہ ہوں۔ یا مسلم الیہ کے پاس درخت بھی نہ ہوں۔ اب بعض نے کہا کہ یہ حدیث درحقیقت بعد والے باب سے متعلق ہے۔ بعض نے کہا اسی باب سے متعلق ہے اور مطابقت یوں ہوتی ہے کہ جب معین درختوں میں باوجود درختوں کے سلم جائز نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ درختوں کے وجود سے سلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر درخت نہ ہوں جو مال کی اصل ہیں جب بھی سلم جائز ہوگی۔ باب کا یہی مطلب ہے۔