• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : چند قیراط کی مزدوری پر بکریاں چرانا

حدیث نمبر : 2262
حدثنا أحمد بن محمد المكي، حدثنا عمرو بن يحيى، عن جده، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم‏"‏‏. ‏ فقال أصحابه وأنت فقال ‏"‏نعم كنت أرعاها على قراريط لأهل مكة‏"‏‏.
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا سعید بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔

تشریح : امیر المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ مزدوری کے طور پر بکریاں چرانا بھی ایک حلال پیشہ ہے۔ بلکہ انبیاءعلیہم السلام کی سنت ہے۔ بکریوں پر گائے بھینس، بھیڑوں اور اونٹوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کو مزدوری پر چرانا چگانا جائز اور درست ہے۔ ہر پیغمبر نے بکریاں چرائی ہیں اس میں حکمت یہ ہے کہ بکریوں پر رحم اور شفقت کرنے کی ابتدائے عمر ہی سے عادت ہو اور رفتہ رفتہ بنی نوع انسان کی قیادت کرنے سے بھی وہ متعارف ہوجائیں۔ اور جب اللہ ان کو یہ منصب جلیلہ بخشے تو رحمت اور شفقت سے وہ ابن آدم کو راہ راست پر لاسکیں۔ اس اصول کے تحت جملہ انبیاءکرام کی زندگیوں میں آپ کو رحمت اور شفقت کی جھلک نظر آئے گی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی ہدایت کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ ساتھ ہی تاکید کی جاری ہے فقولا قولا لینا لعلہ یتذکراو یخشی ( طہ : 44 ) یعنی دونو ں بھائی فرعون کے ہاں جاکر اس کو نہایت ہی نرمی سے سمجھانا۔ شاید وہ نصیحت پکڑ سکے یا وہ اللہ سے ڈر سکے۔ اسی نرمی کا نتیجہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو گروں پر فتح عظیم حاصل فرمائی۔ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بچپن میں مکہ والوں کی بکریاں اجرت پر چرائی ہیں۔ اس لیے بکری چرانا ایک طرح سے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ ولسم کی سنت بھی ہے۔ آپ اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط اجرت پر چرایا کرتے تھے۔ قیراط آدھے ودانق کو کہتے ہیں جس کا وزن 5جو کے برابر ہوتا ہے۔

الحمد للہ ! آج مکہ شریف کے اطراف میں وادی منیٰ میں بیٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوںاور اطراف کی پہاڑیوں پر نظر ڈال رہا ہوں اور یاد کر رہا ہوں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جس میں رسول کریم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ان پہاڑوں میں مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ کاش ! میں اتنی طاقت رکھتا کہ ان پہاڑوں کے چپہ چپہ پر پیدل چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش اقدام کی یاد تازہ کرسکتا۔ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و سلم۔
بعض لوگوں نے کہا کہ اطراف مکہ میں قراریط نام سے ایک موضع تھا۔ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ حافظ فرماتے ہیں لکن رجح الاول لان اہل مکۃ لا یعرفون بہا مکانا یقال لہ قراریط یعنی قول اول کہ قراریط سے درہم اور دینار کے بعض اجزاءمراد ہیں اسی کو ترجیح حاصل ہے اس لیے کہ مکہ والے کسی ایسے مکان سے ناواقف تھے جسے قراریط کے نام سے پکارا جاتا ہو۔

و قال العلماءالحکمۃ فی الہام الانبیاءمن رعی الغنم قبل النبوۃ ان یحصل لہم التمرن برعیہا علی ما یکلفونہ من القیام بامر امتہم یعنی علماءنے کہا ہے کہ انبیاءکو بکری چرانے کے الہام کے بارے میں حکمت یہ ہے کہ ان کو نبوت سے پہلے ہی ان کو چرا کر امت کی قیادت کے لیے مشق ہو جائے۔

بکری خود ایک ایسا بابرکت جانور ہے کہ اللہ پاک کا فضل ہو تو بکری پالنے میں چند ہی دنوں میں وارے کے نیارے ہو جائیں۔ اسی لیے فتنوں کے زمانوں میں ایک ایسے شخص کی تعریف کی گئی ہے جو سب فتنوں سے دور رہ کر جنگلوں میں بکریاں پالے۔ اور ان سے گزران کرکے جنگوں ہی میں اللہ کی عبادت کرے۔ ایسے وقت میں یہ بہترین قسم کا مسلمان ہے۔ اس وقت مسجد نبوی روضۃ من ریاض الجنۃ مدینہ منورہ میں بہ سلسلہ نظر ثانی اس مقام پر پہنچتا ہوا حرمین شریفین کے ماحول پر نظر ڈال کر حدیث ہذا پر غور کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم ملک میں بکریوں کے مزاج کے موافق کتنے مواقع پیدا کر رکھے ہیں۔ مکہ شریف میں ایک مخلص دوست کے ہاں ایک بکری دیکھی جو2 کلو وزن سے زیادہ دودھ دیتی تھی۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من نبی الا رعی الغنم آج صفر1390ھ مقام مبارک مذکورہ میں یہ چند الفاظ لکھے گئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : جب کوئی مسلمان مزدور نہ ملے تو ضرورت کے وقت مشرکوں سے مزدوری کرانا جائز ہے کیو ںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر کے یہودیوں سے کام لیا ( ان سے بٹائی پر معاملہ کیا تھا )

تشریح : اس باب کے مضمنون سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت مسلمان کو چھوڑ کر کافر کو نوکر رکھنا، اس سے مزدوری لینا منع ہے۔ کافر حربی ہو۔ یا ذمی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو کاشتکاری کے کام پر اس وجہ سے قائم رکھا کہ اس وقت مسلمان کاشتکار ایسے موجود نہ تھے، جو خیبر کو آباد رکھتے۔ اگر آپ یہودیوں کو فوراً نکال دیتے تو خیبر اجاڑ ہو جاتا۔ اور خود مسلمانوں کی آمدنی میں بڑا نقصان ہوتا۔ مگر افسوس کہ خبیر کے یہودیوں نے جو بظاہر وفاداری کا دم بھر کر اسلامی زمین پر کاشت کر رہے تھے اپنی اندرونی سازشوں اورمسلمانوں کے خلاف خفیہ کوششوں سے خلافت اسلامی کو پریشان کر رکھا تھا۔ چنانچہ ان حالات سے مجبور ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ان یہودیوں کی اندرونی سازشوں کو ختم کرنے اور ان کی ناپاک کوششوں کو خاک میں ملانے کے لیے ان کو خبیر سے جلا وطن کر دیا اور وہاں مسلمانوں کوآباد کر دیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر غیر مسلم مفسد سازشی نہ ہوں تو مسلمان ان سے حسب ضرورت اپنی نوکری کراسکتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان کے لیے اگر غیر مسلم کے ہاں اپنے مذہب کی ذلت اور خواری کا احتمال ہو تو مناسب نہیں کہ وہ ایسی جگہ نوکری کرے۔

قال ابن بطال عامۃ الفقہاءیجیزون استجارہم عند الضرورۃ الخ ( فتح الباری ) یعنی عام فقہائے نے غیر مسلموں سے مزدوری کرانے کو بوقت ضروری جائز قرار دیا ہے۔
صاحب المہذب لکھتے ہیں : و اختلفوا فی الکافر اذا استاجر مسلما اجارۃ معینۃ فمنہم من قال فیہ قولان لانہ عقد یتضمن حبس المسلم فصار کبیع العبد المسلم منہ و منہم ما قال یصح قولاً واحدا لان علیا کرم اللہ وجہہ کان یستسقی الماءلامراۃ یہودیۃ۔ ( المہذب جزءرابع عشر، ص : 259 )

الشرح : خبر علی رواہ احمد و جود الحافظ ابن حجر اسنادہ و لفظہ جعت مراۃ جوعا شدیدا فخرجت لطلب العمل فی عوالی المدینۃ فاذا انا بامراۃ قد جمعت مدرا فظنتہا ترید بلہ فقاطعتہا کل ذنوب علی تمرۃ فمددت ستۃ عشر ذنوبا حتی مجلت یدای ثم اتیتہا فعدت لی ست عشر تمرۃ فاتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاخبرتہ فاکل معی منہا و ہذا الخبر یدل دلالۃ یعجز القلم من استقصاءماتو حی بہ من بیان ما کانت الصحابۃ علیہ من الحاجۃ و شدۃ الفاقۃ و الصبر علی الجوع و بذل الوسع و اتعاب النفس فی تحصیل القوام من العیش للتعفف عن السوال و تحمل المتن و ان تاجیر النفس لا یعد دنائۃ و ان کان المستاجر غیر شریف او کافر او الاجیر من اشراف الناس و عظماءہم و قد اوردہ صاحب المنتقی لیستدل بہ علی جواز الاجارۃ معاودۃ یعنی ان یفعل الاجیر عددا معلوماً من العمل بعدد معلوم من الاجرۃ ( کتاب مذکور ص 291 ) یعنی علماءنے اس میں اختلاف کیا ہے کہ کوئی کافر کسی مسلمان کو بطور مزدور رکھے تو کیا فتوی ہے۔ اس بارے میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ مسلمان کو ایک طرح سے قید کرنا، گویا اس مسلمان بندے کو بطور غلام بیچنا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ جائز ہے اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی عورت کے ہاں مزدوری پر پانی کھینچا تھا۔ خود ان کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک دفعہ مجھ کو سخت بھوک نے ستایا تو میں اطراف مدینہ میں مزدوری کرنے نکلا۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ کچھ مٹی کو گیلا کرانا چاہتی تھی۔ میں نے اس سے ہر ایک ڈول کے بدلے میںایک کھجور پر معاملہ طے کر لیا۔ اور میں نے ایک دم سولہ ڈول کھینچ ڈالے یہاںتک کہ میرے ہاتھوں میں چھالے ہو گئے۔ پھر میں اس عورت کے پاس آیا اور اس نے مجھ کو سولہ عدد کھجور دے دیں جن کو لے کر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ کو جملہ تفصیلات سے آگاہ کیا، چنانچہ ان کھجوروں میں سے میرے ساتھ آپ نے بھی چند کھجوروں کو تناول فرمایا۔ صحابہ کرام ابتداءاسلام میں کس قدر تکالیف میں مبتلا تھے۔ اور وہ بھوک پر کس قدر صبر کرتے تھے اور وہ سوال سے بچ کر اپنی شکم پری کے لیے کیسی کیسی سخت مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے یہ اس خبر سے واضح ہے۔

اس واقعہ سے یہ ثابت ہوا کہ شریف نفس کو کسی کی مزدوری میں ڈال دینا کوئی ذلیل پیشہ نہیں ہے اگرچہ مزدوری کرانے والا خود ذلیل بھی کیوں نہ ہو یا کافر بھی کیوں نہ ہو۔ اور اگرچہ مزدوری کرنے والا بڑا شریف آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ صاحب منتقی نے اس سے یہ ثابت کیا کیا ہے مزدوری مقررہ کام کے ساتھ مقررہ اجرت پر کرناجائز ہے۔
آج یکم محرم 1390ھ کو کعبہ شریف میں بوقت تہجد یہ نوٹ لکھا گیا۔ اور2 صفر90ھ یوم جمعہ میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کی گئی۔

حدیث نمبر : 2263
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ واستأجر النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر رجلا من بني الديل ثم من بني عبد بن عدي هاديا خريتا ـ الخريت الماهر بالهداية ـ قد غمس يمين حلف في آل العاص بن وائل، وهو على دين كفار قريش، فأمناه فدفعا إليه راحلتيهما، ووعداه غار ثور بعد ثلاث ليال، فأتاهما براحلتيهما، صبيحة ليال ثلاث، فارتحلا، وانطلق معهما عامر بن فهيرة، والدليل الديلي فأخذ بهم أسفل مكة وهو طريق الساحل‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن عروہ نے خبردی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( ہجرت کرتے وقت ) بنودیل کے ایک مرد کو نوکر رکھا جو بنو عبد بن عدی کے خاندان سے تھا۔ اور اسے بطور ماہر راہبر مزدوری پر رکھا تھا ( حدیث کے لفظ ) خریت کے معنی راہبری میں ماہر کے ہیں۔ اس نے اپنا ہاتھ پانی وغیرہ میں ڈبو کر عاص بن وائل کے خاندان سے عہد کیا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے دین پر تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس پر بھروسہ تھا۔ اسی لیے اپنی سواریاں انہوں نے اسے دے دیں اور غارثور پر تین رات کے بعد اس سے ملنے کی تاکید کی تھی۔ وہ شخص تین راتوں کے گزرتے ہی صبح کو دونوں حضرات کی سواریاں لے کر وہاں حاضر ہوگیا۔ اس کے بعدیہ حضرات وہا ں سے عامر بن فہیرہ اور اس دیلی راہبر کو ساتھ لے کر چلے۔ یہ شخص ساحل کے کنارے سے آپ کو لے کر چلا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : کوئی شخص کسی مزدور کو اس شرط پر رکھے کہ

أو بعد سنة جاز، وهما على شرطهما الذي اشترطاه إذا جاء الأجل‏.
کام تین دن یا ایک مہینہ یا ایک سال کے بعد کرنا ہوگا تو جائز ہے اور جب وہ مقررہ وقت آجائے تو دونوں اپنی شرط پر قائم رہیں گے۔

تشریح : اس باب کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں ہے کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام کرے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی دیل کے مقرر کردہ نوکر سے تین رات بعد غار ثور پر آنے کا وعدہ لیا تھا۔

حدیث نمبر : 2264
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، قال ابن شهاب فأخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت واستأجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر رجلا من بني الديل، هاديا خريتا وهو على دين كفار قريش، فدفعا إليه راحلتيهما، وواعداه غار ثور بعد ثلاث ليال براحلتيهما صبح ثلاث‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آجائے۔

تشریح : اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے متعلق ایک جزوی ذکر ہے کہ آپ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شب ہجرت میں سفر شروع کرنے سے پہلے ایک ایسے شخص کو بطور راہبر مزدور مقرر فرما لیا تھا جو کفار قریش کے دین پر تھا اور یہ بنودیل میں سے تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اس پر اعتماد تھا اس لیے اپنی ہر دو سواریوں کو اس کے حوالہ کرتے ہوئے اس سے وعدہ لے لیا کہ وہ تین راتیں گزر جانے کے بعد دونوں سواریوں کو لے کر غار ثور پر چلا آئے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور آپ ہر دو نے سفر شروع کیا۔ یہ شخص بطور ایک ماہر راہبر کے تھا اور عامر بن فہیرہ کو ہر دو سواریوں کے لیے نگران کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اگلے باب میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اس شرط پر مزدور مقرر کیا کہ وہ اپنا مقرر کام تین راتیں گزرنے کے بعد انجام دے۔ اسی طرح اگر ایک ماہ بعد یا سال بعد کی شرط پر کسی کو مزدور رکھا جائے اور ہر دو فریق راضی ہوں تو ایسا معاملہ کرنا درست ہے۔

اس حدیث سے بھی ضرورت کے وقت کسی معتمد غیر مسلم کو بطور مزدور رکھ لینا جائز ثابت ہوا۔ و ہذا ہو المراد الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں غار ثور کی طرف بیٹھے ہوئے یہ حدیث اور اس کی یہ تشریح حوالہ قلم کر رہا ہوں، چودہ سو سال گزررہے ہیں مگر حیات طیبہ کا ایک ایک ورق ہر طرح سے اتنامحفوظ ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ یہی وہ غار ثور ہے جس کو آج جبل الثور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین راتوں تک قیام فرمایا تھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

اس باب کے ذیل میں حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کا تشریحی نوٹ یہ ہے کہ اس باب کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام شروع کرے۔ اسماعیلی نے اعتراض کیا ہے کہ باب کی حدیث سے یہ نہیں نکلتا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ تین دن کے بعد اپنا کام شروع کرے، مگر یہ اعتراض صحیح نہیں کیوں کہ حدیث مذکورہ میں باب کی مطابقت واضح طور پر موجود ہے۔
بہ ثبوت اجارہ صاحب المہذب لکھتے ہیں : فقد ثبت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابابکر استاجر عبداللہ بن الاریقط الدیلی و کان حزینا و ہواخبر بمسالک الصحراءو الوہاد العالم بجغرافیۃ بلاد العرب علی الطبیعۃ لیکون ہادیا و مرشدا لہما فی ہجرتہما من مکۃ الی المدینۃتحقیق ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اریقط دیلی کو مزدور بنایا۔ وہ صحرائی راستے کا بہت بڑا ماہر تھا۔ و ہ بلاد عرب کے طبعی جغرافیہ سے پورے طور پر واقف تھا۔ اس کو اس لیے مزدور رکھا تھا تاکہ وہ بوقت ہجرت مکہ سے مدینہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ا بوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے رہنمائی کا فر ض انجام دے۔ جس سے غیر مسلم کو جس پر اعتماد ہو مزدور بنا کر رکھنا ثابت ہوا۔

آج 29ذی الحجہ1389ھ کو بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔ والحمد للہ علی ذلک اور2صفر یوم جمعہ کو مسجد نبوی جنت کی کیاری میں بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کی گی۔ والحمد للہ علی ذلک۔
غار ثور پر حاضری :
اس حدیث کو لکھتے ہوئے دل میں خیال آیا تھا کہ مکۃ المکرمہ میں موجود ہونے پر مناسب ہوگا کہ ہجرت نبوی کی اولین منزل یعنی غار ثور کو خو داپنی آنکھوں سے دیکھ کر عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہاں جانا نہ کوئی رکن حج ہے نہ اس کے لیے کوئی شرعی حکم ہے مگر سیروا فی الارض کے تحت بتاریخ 16محرم 1390ھ دیگر رفقاءحجاج کرام کے ہمراہ غار ثور پر جانے کا عزم کرلیا۔ حرم شریف سے کئی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں جانے پر چاروں طرف پہاڑوں کی خوفناک مناظر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان ٹائم کے مطابق اندازا دن کے گیارہ بجے ہمارا قافلہ دامن کوہ ثور میں پہنچ گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر نظر ڈالی گئی تو ہمت نے جواب دے دیا۔ مگر رفقاءکرام کے عزم کو دیکھ کر چڑھائی شروع کی گئی۔ حال یہ تھا کہ جس قدر اوپر چڑھتے جاتے وہ مقام دور ہی نظر آتا جا رہا تھا۔ آخر بیٹھ بیٹھ کر بصد مشکل تقریباً گھنٹہ بھر کی محنت کے بعد غار ثور تک رسائی ہو سکی۔ یہاں اس قسم کے کئی غار ہیں جن کے اوپر عظیم پتھروں کی چھت قدرتی طور پر بنی ہوئی ہیں۔ ایک غار پر غار ثور لکھا ہوا تھا یہی وہ غار ثور ہے جس کے اندر بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ما ظنک باثنین اللہ ثالثہما جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دشمنوں کا خوف محسوس ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذکورہ بالا لفظوں میں تسلی دلائی تھی کہ اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اللہ پاک ہے۔ ( اللہ پاک کے خود ساتھ ہونے سے اس کی مدد و نصرت مراد ہے، جب کہ وہ خو داپنی ذات سے عرش عظیم پر ہے ) مطلب یہ تھا کہ خود اللہ ہمارا محافظ و ناصر ہے۔ پھر ہم کو دشمنوں کی طرف سے کیا غم ہو سکتا ہے اور اللہ پاک نے اپنے ہر دو محبوب بندوں کو بچا لیا۔
غار کے اندر دو آدمیوں کے بیٹھنے لیٹے کی جگہ ہے ایک طرف سے بیٹھ کر داخل ہو ا جاسکتا ہے میں اور ہمارے رفیق اندر داخل ہوئے اور سارا منظر دیکھا۔ اور بار بار قدرت الٰہی یاد آتی رہی۔ اور تاریخ اسلام کے عظیم واقعہ کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ چند الفاظ یاد داشت غار کے اندر ہی بیٹھ کر حوالہ قلم کئے گئے۔ جی چاہتا ہے کہ یہا ںکافی دیر ٹھہرا جائے کیوں کہ منظر بہت ہی روح افزا تھا۔ مگر نیچے گاڑی والا منتظر تھا۔ اس لیے دوستوں کے ساتھ واپسی کا مرحلہ طے کیا گیا۔ غار اونچائی اور راستہ پر خطر ہونے کے لحاظ سے اس قابل نہیں ہے کہ ہر شخص وہاں تک جاسکے۔ چڑھنا بھی خطرناک اور اترنا اس سے زیادہ خطرناک ہے، چنانچہ اترنے میں دو گنا وقت صرف ہوا اور نماز ظہر کا وقت بھی اترتے اترتے ہی ہوگیا۔ بصد مشکل نیچے اتر کر گاڑی پکڑی اور حرم شریف میں ایسے وقت حاضری ہوئی کہ ظہر کی نماز ہو چکی تھی مگر الحمد للہ کہ زندگی کی ایک حسرت تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی اولین منزل کو دیکھا جائے سو اللہ پاک نے یہ موقع نصیب فرمایا۔ و الحمد للہ اولا و آخراوالصلوۃ و السلام علی رسول اللہ و علی صاحبہ الصدیق رضی اللہ عنہ۔

( محترم حاجی اللہ بخش صاحب بیجا پوری اور محترم حاجی منشی حقیق اللہ صاحب ناظر مدرسہ دار الہدی یوسف پور، یوپی ساتھ تھے جن کی ہمت سے مجھ جیسے ضعیف کمزور نے بھی اس منزل تک رسائی حاصل کی۔ جزاہم اللہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : جہاد میں کسی کومزدور کرکے لے جانا

حدیث نمبر : 2265
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا إسماعيل ابن علية، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني عطاء، عن صفوان بن يعلى، عن يعلى بن أمية ـ رضى الله عنه ـ قال غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم جيش العسرة فكان من أوثق أعمالي في نفسي، فكان لي أجير، فقاتل إنسانا، فعض أحدهما إصبع صاحبه، فانتزع إصبعه، فأندر ثنيته فسقطت، فانطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأهدر ثنيته وقال ‏"‏أفيدع إصبعه في فيك تقضمها ـ قال أحسبه قال ـ كما يقضم الفحل‏"‏‏. ‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں صفوان بن یعلی نے، ان کو یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش عسرۃ ( غزوۃ تبوک ) میں گیا تھا یہ میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ قابل اعتماد نیک عمل تھا۔ میرے ساتھ ایک مزدور بھی تھا وہ ایک شخص سے جھگڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے مقابل والے کی انگلی چبا ڈالی۔ دوسرے نے جو اپنی ہاتھ زور سے کھینچا تو اس کے آگے کے دانت بھی ساتھ ہی کھینچے چلے آئے اور گر گئے۔ اس پر وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانت ( ٹوٹنے کا ) کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ بلکہ فرمایا کہ کیا وہ انگلی تمہارے منہ میں چبانے کے لیے چھوڑ دیتا۔ راوی نے کہا کہ میں خیال کرتا ہو ںکہ آپ نے یوں بھی فرمایا۔ جس طرح اونٹ چبا لیا کرتا ہے۔

حدیث نمبر : 2266
قال ابن جريج وحدثني عبد الله بن أبي مليكة، عن جده، بمثل هذه الصفة أن رجلا، عض يد رجل، فأندر ثنيته، فأهدرها أبو بكر رضى الله عنه‏.‏
ابن جریج نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے دادا نے بالکل اسی طرح کا واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ ( دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو ) اس کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔

تشریح : باب کا مضمون اس سے ظاہر ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے جنگ تبوک کے سفر میں اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو بطور مزدور ساتھ لگا لیا تھا۔ حدیث میں جنگ تبوک کا ذکر ہے جس کو جیش العسرۃ بھی کہا گیا ہے۔ الحمد للہ مدینۃ المنورۃ میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ یہاں سے تبوک کئی سو میل کے فاصلہ پر اردن کے راستے پر واقع ہے۔ اور حکومت سعودیہ ہی کا یہ ایک ضلع ہے۔ شام کے عیسائیوں نے یہاں سرحد پر اسلام کے خلاف ایک جنگی منصوبہ بنایا تھا جس کی بروقت اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو کئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدافعت کے لیے پیش قدمی فرمائی۔ جس کی خبر پاکر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔

یہ سفر عین موسم گرما کے شباب میں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلمان مجاہدین کو بہت سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ سورۃ توبہ کی گئی آیات میں اس کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان منافقین کا بھی جو اس امتحان میں حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔ جن کے متعلق آیت یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیہم ( التوبہ : 94 ) نازل ہوئی۔ مگر چند مخلص مومن بھی تھے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئے تھے۔ بعد میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ الحمد للہ آج 22 صفر کو مسجد نبوی میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : ایک شخص کو ایک میعاد کے لیے نوکر رکھ لینا اور کام بیان نہ کرنا

لقوله ‏{‏إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتى هاتين‏}‏ إلى قوله ‏{‏على ما نقول وكيل‏}‏ يأجر فلانا يعطيه أجرا، ومنه في التعزية أجرك الله‏.‏
سورۃ قصص میں اللہ تعالیٰ نے ( حضرت شعیب علیہ السلام کا قول یوں ) بیان فرمایا ہے کہ ” میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے کسی کا تم سے نکاح کر دوں “ آخر آیت واللہ علی ما نقول وکیل تک۔ عربوں کے ہاں یاجر فلانا بول کر مراد ہوتا ہے، یعنی فلاں کو وہ مزدوری دیتا ہے۔ اسی لفظ سے مشتق تعزیت کے موقعہ پر یہ لفظ کہتے اجرک اللہ ( اللہ تجھ کو اس کا اجر عطا کرے )

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں باب کا مقصد بیان کرنے کے لیے صرف آیت قرآن لائے جس میں حضرت شعیب علیہ السلام کی زبان سے مذکور ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یوں فرمایا کہ میں اپنی دو لڑکیوںمیں سے ایک کا آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال میرے ہاں نوکری کریں۔ یہاں حضرت شعیب علیہ السلام نے نوکری کے کام مقرر نہیں فرمائے۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ آیت مذکورہ میں لفظ تاجرنی مذکور ہے۔ اس کی لغوی وضاحت حضرت امام نے یوں فرمائی کہ عربوں میں یاجر فلانا کا محاورہ مزدور کو مزدوری دینے پر مستعمل ہے آیت میں لفظ تاجرنی اسی سے مشتق ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : اگر کوئی شخص کسی کو اس کام پر مقرر کرے کہ وہ گرتی ہوئی دیوار کو درست کردے تو جائز ہے

اسی سے معماری یعنی مکان تعمیر کرنے کا پیشہ بھی ثابت ہوا اور یہ کہ معماری کا پیشہ حضرت خضر علیہ السلام کی سنت ہے۔

حدیث نمبر : 2267
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام بن يوسف، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني يعلى بن مسلم، وعمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، يزيد أحدهما على صاحبه، وغيرهما قال قد سمعته يحدثه عن سعيد قال قال لي ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ حدثني أبى بن كعب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏فانطلقا فوجدا جدارا يريد أن ينقض‏"‏‏. ‏ قال سعيد بيده هكذا، ورفع يديه فاستقام، قال يعلى حسبت أن سعيدا قال‏.‏ فمسحه بيده فاستقام ‏{‏قال‏}‏ ‏"‏لو شئت لاتخذت عليه أجرا‏"‏‏. ‏ قال سعيد أجرا نأكله‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے سعید سے خبر دی۔ یہ دونوں حضرات ( سعید بن جبیر سے اپنی روایتوں میں ) ایک دوسرے سے کچھ زیادہ روایت کرتے ہیں۔ ابن جریج نے کہا میں نے یہ حدیث اوروں سے بھی سنی ہے۔ وہ بھی سعید بن جبیر سے نقل کرتے تھے کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اور ان سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں ( موسیٰ اور خضر علیہما السلام ) چلے۔ تو انہیں ایک گاؤں میں ایک دیوار ملی جو گرنے ہی والی تھی۔ سعید نے کہا خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا اور ہاتھ اٹھایا، وہ دیوار سیدھی ہوگئی۔ یعلی نے کہامیرا خیال ہے کہ سعید نے کہا، خضر علیہ السلام نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا، اور وہ سیدھی ہو گئی، تب موسیٰ علیہ السلام بولے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سعید نے کہا کہ ( حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ) کوئی ایسی چیز مزدوری میں ( آپ کو لینی چاہئیے تھی ) جسے ہم کھا سکتے ( کیو ںکہ بستی والوں نے ان کو کو کھانا نہیں کھلایا تھا۔ )

تشریح : حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا یہ واقعہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔ اسی جگہ یہ دیوار کا واقعہ بھی ثابت ہے جو گرنے ہی والی تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کو درست کر دیا۔ اسی سے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیال تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اس خدمت پر گاؤں والو ںسے مزدوری لینی چاہئے تھی کیوں کہ گاؤں والوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو کھانا نہیں کھلایا تھا حضرت خضر علیہ السلام نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے الہام الٰہی سے معلوم کر لیا تھا کہ یہ دیوار یتیم بچوں کی ہے اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن ہے۔ اس لیے اس کا سیدھا کرنا ضروری ہوا تاکہ یتیموں کی امداد بایں طور پر ہو سکے اور ان کا خزانہ ظاہر نہ ہو کہ لوگ لوٹ کر لے جائیں۔

آج 3صفر کو محترم حاجی عبدالرحمن سندی کے مکان واقع مجیدی مدینہ منور میں یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ اللہ پاک محترم کو دونوں جہاں کی برکتیں عطا کرے۔ بہت ہی نیک مخلص اور کتاب و سنت کے دلدادہ ذی علم بزرگ ہیں۔ جزاہ اللہ خیرا فی الدارین ۔ امید ہے کہ قارئین بھی ان کے لیے دعائے خیر کریں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : آدھے دن کے لیے مزدور لگانا ( جائز ہے )

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض ان بابوں کے لانے سے یہ ہے کہ اجارے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کم سے کم ایک دن کی مدت ہو بلکہ اس سے کم مدت بھی درست ہے جیسا کہ باب میں دوپہر تک پھر عصر تک پھر عصر سے مغرب تک مزدوری کرانے کا ذکر ہے۔ مزدوری کا معاملہ مزدور اور مالک پر موقوف ہے وہ جس طور پر جن شرائط کے تحت معاملہ طے کر لیں درست ہوگا۔

حدیث نمبر : 2268
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏مثلكم ومثل أهل الكتابين كمثل رجل استأجر أجراء فقال من يعمل لي من غدوة إلى نصف النهار على قيراط فعملت اليهود، ثم قال من يعمل لي من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط فعملت النصارى ثم، قال من يعمل لي من العصر إلى أن تغيب الشمس على قيراطين فأنتم هم، فغضبت اليهود والنصارى، فقالوا ما لنا أكثر عملا، وأقل عطاء قال هل نقصتكم من حقكم قالوا لا‏.‏ قال فذلك فضلي أوتيه من أشاء‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کئی مزدور کام پر لگائے اور کہا کہ میرا کام ایک قیراط پر صبح سے دوپہر تک کون کرے گا؟ اس پر یہودیوں نے ( صبح سے دوپہر تک ) اس کا کام کیا۔ پھر اس نے کہا کہ آدھے دن سے عصر تک ایک قیراط پر میرا کام کون کرے گا؟ چنانچہ یہ کام پھر نصاری نے کیا، پھر اس شخص نے کہا کہ عصر کے وقت سے سورج ڈوبنے تک میرا کام دو قیراط پر کون کرے گا؟ اور تم ( امت محمدیہ ) ہی وہ لوگ ہو ( جن کو یہ درجہ حاصل ہوا ) اس پر یہود و نصاری نے برا مانا، وہ کہنے لگے کہ کام تو ہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کم ملے، پھر اس شخص نے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کیا تمہارا حق تمہیں پورا نہیں ملا؟ سب نے کہا کہ ہمیں تو ہمارا پورا حق مل گیا۔ اس شخص نے کہا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں زیادہ دوں۔

تم کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔ اس سے اہل سنت کا مذہب ثابت ہوا کہ اللہ کی طرف سے ثواب ملنا بطریق احسن کے ہے۔ امت محمدیہ پر یہ خدا کا کرم ہے کہ وہ جو بھی نیکی کرے اس کو دس گنا بلکہ بعض دفعہ اور بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں مگر ثواب پچاس وقت کا دیا جاتاہے۔ یہ اس امت مرحومہ کی خصوصیات میں سے ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : عصر کی نماز تک مزدور لگانا

تشریح : یعنی عصر کی نماز شروع ہونے یا ختم ہونے تک۔ اب یہ استدلال صحیح نہ ہوگا کہ عصر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے۔ حافظ نے کہا دوسری روایت میں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے توحید میں نکالی ہے یوں ہے کہ ایسا کہنے والے صرف یہودی تھے۔ اور ان کا وقت مسلمانوں کے وقت سے زیادہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اسماعیلی نے کہا کہ اگر دونوں فرقوں نے یہ کہا ہو تب بھی حنفیہ کا استدلال چل نہیں سکتا۔ اس لیے کہ نصاریٰ نے اپنا عمل جو زیادہ قرار دیا وہ یہود کا زمانہ ملا کر ہے۔ کیوں کہ نصاری حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں پر ایمان لائے تھے۔ حافظ نے کہا ان تاویلات کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ ظہر سے لے کر عصر تک کا زمانہ اس سے زیادہ ہوتا ہے جتنا عصر اور مغرب کے بیچ میں ہوتا ہے۔ ( وحیدی )

احادیث صحیحہ واردہ کی بنا پر عصر کا وقت سایہ ایک مثل کے برابر ہوجانے پر شروع ہوجاتا ہے۔ الحمد للہ آج بھی مکہ شریف اور مدینہ شریف میں یہی معمول ہے۔ ہر دو جگہ عصر کی نماز ایک مثل پر ہو رہی ہے۔ اور پوری دنیائے اسلام جو حج کے لیے لاکھوں کی تعداد میں حرمین شریفین آتی ہے ان ایام میں یہا ں اول وقت ہی عصر کی نماز پڑھتی ہے۔ پھر بعض متعصب احناف کا سختی کے ساتھ اس کا انکار کرنا اور ایک مثل پر عصر کی نماز کا پڑھنا ناروا جاننا انتہائی جمود کا ثبوت دینا ہے۔ اسی کو اندھی تقلید کہا گیا ہے۔ جس میں ہمارے یہ محترم و معزز متعصب بھائی گرفتار ہیں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کو برحق بھی کہتے ہیں اور عملی طور پر اس شدت کے ساتھ اس قول کا الٹ بھی کرتے ہیں۔ جب کہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ ایک مثل پر عصر کی نماز کے قائل ہیں اور ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ میں ان اماموں کا بھی اہم مقام ہے۔ خلاصہ یہ کہ عصر کی نماز کا اول وقت ایک مثل سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں شک و بشہ کی مطلق گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل اپنے مقام پر گزر چکی ہے۔ الحمد للہ مدینہ طیبہ حرم نبوی میں یہ نوٹ لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ فللہ الحمد ولہ الشکر۔

یہ حدیث حضرت مجتہد مطلق امام الائمہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کئی جگہ نقل فرما کر اس سے مختلف مسائل کا اثبات فرمایا ہے۔ اس میں یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام کا ایک تقابل تمثیلی طور پر دکھلایا گیا ہے۔ دین آسمانی کی امانت پہلے یہود کو سونپی گئی، مگر انہوں نے اپنے دین کو بدل کر مسخ کر دیا۔ اورباہمی حسد و بغض میں گرفتار ہو کر دین کی بربادی کے موجب ہوئے۔ اس طرح گویا انہوںنے حفاظت دین کا کام بالکل بیچ ہی میں چھوڑ دیا اور وہ ناکام ہو گئے۔ پھر نصاریٰ کا نمبر آیا اور ان کو اس دین کا محافظ بنایا گیا۔ مگر انہوں نے دین عیسوی کو اس قدر مسخ کیا کہ آسمانی تعلیمات کی اصلیت کو جڑ اوربنیادوں سے بدل دیا۔ اور تثلیث اور صلیب پرستی میں ایسے گرفتار ہوئے کہ یہود کو بھی مات کرکے رکھ دیا۔ ان کے بعد مسلمانوں کا نمبر آیا۔ اور اللہ پاک نے اس امت کو خیر امت قرار دیا۔ اور قرآن مجید اور سنت نبوی کو ان کے حوالہ کیا گیا۔ الحمد للہ قرآن مجید آج تک محفوظ ہے اور سنت کا ذخیرہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاتھوں اللہ نے قیامت تک کے لیے محفوظ کرا دیا۔ یہی کام کا پورا کرنا ہے جس پر امت کو دو گنا اجر ملے گا۔
مسلمانوں میں بھی اہل بدعت نے جو غلو اور افراط و تفریط سے کام لیا ہے وہ اگرچہ یہود و نصاریٰ سے بھی بڑھ کر شرمناک حرکت ہے کہ اللہ کے سچے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کے متعلق بے حد باطل اور گمراہ کن عقائد ایجاد کر لئے۔ اپنے خود ساختہ ائمہ کو مطاع مطلق کا درجہ دے دیا، اور پیروں، شہیدوں، بزرگوں کے مزارات کو کعبہ و قبلہ بنا لیا، یہ حرکتیں یہودو نصاریٰ سے کم نہیں ہیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ ایسے غالی اہل بدعت کے ہاتھوں قرآن مجید محفو ظ ہے۔ اور ذخیرہ سنت احادیث صحیحہ کی شکل میں محفوظ ہے۔ یہی وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر امت کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے نوازا۔ اور یہود و نصاری پر فوقیت عطا فرمائی۔ اللہ پاک ہم کو اس فضیلت کا مصداق بنائے۔ آمین، سفر حج سے واپسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے 23اپریل کو یہ نوٹ حوالہ قلم کیا گیا۔ والحمد للہ علی کل حال۔

حدیث نمبر : 2269
حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، قال حدثني مالك، عن عبد الله بن دينار، مولى عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إنما مثلكم واليهود والنصارى كرجل استعمل عمالا فقال من يعمل لي إلى نصف النهار على قيراط قيراط فعملت اليهود على قيراط قيراط، ثم عملت النصارى على قيراط قيراط، ثم أنتم الذين تعملون من صلاة العصر إلى مغارب الشمس على قيراطين قيراطين، فغضبت اليهود والنصارى وقالوا نحن أكثر عملا وأقل عطاء، قال هل ظلمتكم من حقكم شيئا قالوا لا‏.‏ فقال فذلك فضلي أوتيه من أشاء‏"‏‏.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند مزدور کام پر لگائے اور کہا کہ ایک ایک قیراط پر آدھے دن تک میری مزدوری کون کرے گا؟ پس یہود نے ایک قیراط پر یہ مزدوری کی۔ پھر نصاریٰ نے بھی ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم لوگوں نے عصر سے مغرب تک دو دو قیراط پر کام کیا۔ اس پر یہود و نصاریٰ غصہ ہو گئے کہ ہم نے تو زیادہ کام کیا اور مزدوری ہم کو کم ملی۔ اس شخص نے کہا کہ کیا میں نے تمہارا حق ذرہ برابر بھی مارا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر اس شخص نے کہا کہ یہ مرا فضل ہے جسے چاہوں زیادہ دیتا ہوں۔

اس روایت میں گو یہ صراحت نہیں کہ نصاریٰ نے عصر تک کام کیا، مگر یہ مضمون اس سے نکلتا ہے کہ تم مسلمانوں نے عصر کی نماز سے سورج ڈوبنے تک کام کیا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا عمل نصاریٰ کے عمل کے بعد شروع ہوا ہوگا۔ اس میں امت محمدیہ کے خاتم الامم ہونے کا بھی اشارہ ہے اوریہ بھی کہ ثواب کے لحاظ سے یہ امت سابقہ جملہ امم پر فوقیت رکھتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : اس امر کا بیان کہ مزدور کی مزدوری مار لینے کا گناہ کتنا ہے

حدیث نمبر : 2270
حدثنا يوسف بن محمد، قال حدثني يحيى بن سليم، عن إسماعيل بن أمية، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏قال الله تعالى ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره‏"‏‏. ‏
ہم سے یوسف بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سلیم نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن امیہ نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا۔ ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا، اور پھر وعدہ خلافی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا، پھر کام تو اس سے پورا لیا، لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔

تشریح : قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے اکثر مقامات پر اوصاف اہل ایمان بیان کرتے ہوئے ایفائے عہد کا وصف نمایاں بیان کیا ہے پھر جو وعدہ اور قسم اللہ تعالیٰ کا پاک نام درمیان میں ڈال کر کیا جائے، اس کا توڑنا اور پورا نہ کرنا بہت بڑا اخلاقی جرم ہے۔ جس کے لیے قیامت کے دن خود اللہ پاک مدعی بنے گا اور وہ غدار بندہ مدعی علیہ ہوگا۔ جس کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ اور وہ محض اس عظیم جرم کی بناءپر دوزخ میں دھکیلا جائے گا۔ اس لیے ایک حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی ایک علامت بتلایا گیا ہے۔ جس کے ساتھ اگر آدمی خیانت کا بھی عادی ہو اور جھوٹ بھی اس کی گھٹی میں داخل ہو تو پھر وہ از روئے شرع محمدی پکا منافق شمار کیا جاتاہے۔ اور نور ایمان سے اس کا دل قطعاً خالی ہو جاتا ہے۔

دوسرا جرم کسی آزاد آدمی کو غلام بنا کر اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانا اس میں نمبروار تین جرم شامل ہیں۔ اول تو کسی آزاد کو غلام بنانا ہی جرم ہے پھر اسے ناحق بیچنا جرم، پھر اس کی قیمت کھانا۔ یہ اور بھی ڈبل جرم ہے۔ ایسا ظالم انسان بھی وہ ہے جس پر قیامت کے دن اللہ پاک خود مدی بن کر کھڑا ہوگا۔ تیسرا مجرم جس نے کسی مزدور سے پورا پورا کام کرایا مگر مزدوری ادا کرتے وقت اس کو دھتکار دیا اور وہ غریب کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔ یہ بھی بہت ہی بڑا ظلم ہے۔ حکم یہ ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دی جائے۔ سرمایہ داروں کے ایسے ہی پے در پے مظالم نے مزدوروں کی تنظیم کو جنم دیا ہے جو آج ہر ملک میں مستحکم بنیادوں پر قائم اور مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اسلام نے ایک زمانہ قبل ہی اس قسم کے مفاسد کے خلاف آواز بلند کی تھی، جو اسلام کے مزدور اور غریب پرور ہونے کی اٹل دلیل ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ

باب : عصر سے لے کر رات تک مزدوری کرانا

حدیث نمبر : 2271
حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏مثل المسلمين واليهود والنصارى كمثل رجل استأجر قوما يعملون له عملا يوما إلى الليل على أجر معلوم، فعملوا له إلى نصف النهار فقالوا لا حاجة لنا إلى أجرك الذي شرطت لنا، وما عملنا باطل، فقال لهم لا تفعلوا أكملوا بقية عملكم، وخذوا أجركم كاملا، فأبوا وتركوا، واستأجر أجيرين بعدهم فقال لهما أكملا بقية يومكما هذا، ولكما الذي شرطت لهم من الأجر‏.‏ فعملوا حتى إذا كان حين صلاة العصر قالا لك ما عملنا باطل، ولك الأجر الذي جعلت لنا فيه‏.‏ فقال لهما أكملا بقية عملكما، فإن ما بقي من النهار شىء يسير‏.‏ فأبيا، واستأجر قوما أن يعملوا له بقية يومهم، فعملوا بقية يومهم حتى غابت الشمس، واستكملوا أجر الفريقين كليهما، فذلك مثلهم ومثل ما قبلوا من هذا النور‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسلمانوں کی اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند آدمیوں کو مزدور کیا کہ یہ سب اس کا ایک کام صبح سے رات تک مقررہ اجرت پر کریں۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے یہ کام دوپہر تک کیا۔ پھر کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری اس مزدوری کی ضرورت نہیں ہے جو تم نے ہم سے طے کی ہے بلکہ جو کام ہم نے کر دیا وہ بھی غلط رہا۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اپنا کام پورا کرلو اور اپنی پوری مزدوری لے جاؤ، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر اس نے دوسرے مزدور لگائے اور ان سے کہا کہ باقی دن پورا کرلو تو میں تمہیں وہی مزدوری دوں گا جو پہلے مزدوروں سے طے کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کام شروع کیا، لیکن عصر کی نماز کا وقت آیا تو انہوں نے بھی یہی کیا کہ ہم نے جو تمہارا کام کر دیا ہے وہ بالکل بیکار رہا۔ وہ مزدوری بھی تم اپنے ہی پاس رکھو جو تم نے ہم سے طے کی تھی۔ اس شخص نے ان کو سمجھایا کہ اپنا باقی کام پورا کرلو۔ دن بھی اب تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے، لیکن وہ نہ مانے، آخر اس شخص نے دوسرے مزدور لگائے کہ یہ دن کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے اس میں یہ کام کردیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے سورج غروب ہونے تک دن کے بقیہ حصہ میں کام پورا کیا اور پہلے اور دوسرے مزدوروں کی مزدوری بھی سب ان ہی کو ملی۔ تو مسلمانوں کی اور اس نور کی جس کو انہوں نے قبول کیا، یہی مثال ہے۔

تشریح : یہ بظاہر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے خلاف ہے۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ اس نے صبح سے لے کر دوپہر تک کے لیے مزدور لگائے تھے۔ اور یہ درحقیقت دو الگ الگ قصے ہیں۔ لہٰذا باہمی طور پر دونوں حدیثوں میں کوئی تخالف نہیں ہے۔ ان احادیث میں یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی شرعی ذمہ داریو ںکو پورے طور پر ادا نہیں کیا۔ بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام چھوڑ کر بھاگ نکلے مگر مسلمانوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ قرآن مجید آج تک لفظ بہ لفظ موجود ہے اور جب تک اللہ چاہے گا موجود رہے گا۔ جس میں ایک شوشے کی بھی رد و بدل نہیں ہوئی اور قرآن مجید کے ساتھ اسوہ رسالت بھی پورے طور پر محفوظ ہے۔ اس طور پر کہ انبیاءسابقہ میں ایسی مثال ملنی ناممکن ہے کہ ان کی زندگی اور ان کی ہدایات کو بایں طور پر محفوظ رکھا گیا ہو۔

حدیث مذکور کے آخری الفاظ سے بعضوں نے نکالا کہ اس امت کی بقا ہزار برس سے زیادہ رہے گی اور الحمد للہ یہ امر اب پورا ہو رہا ہے کہ امت محمدیہ پر چودھویں صدی پوری ہونے والی ہے اور مسلمان دنیا میں آج بھی کروڑہا کی تعداد میں موجود ہیں۔ اس دنیا کی عمر کتنی ہے یا یہ کہ امت مسلمہ کتنی عمر لے کر آئی ہے، شریعت اسلامیہ نے ان باتوں کو علم الٰہی پر موقوف رکھا ہے۔ اتنا ضرور بتلایا گیا ہے کہ امت مسلمہ سے قبل جو بھی انسانی دور گزر چکا ہے وہ مدت کے لحاظ سے ایسا ہے جیسا کہ فجر سے عصر تک کا وقت ہے۔ اور امت مسلمہ کا دور ایسے وقت میں شروع ہورہا ہے گویا اب عصر سے دن کا باقی حصہ شروع ہورہاہے۔ اس لیے اس امت کو آخری امت اور اس دین کو آخری دین اور قرآن مجید کو آخری کتاب اور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی و خاتم الرسل کہا گیا ہے۔ اب علم الٰہی میں دنیا کی عمر کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے آخر تک یہی دین آسمانی رہے گا۔ یہی شریعت آسمانی رہے گی اوراس کے خلاف جو بھی مدعی ہو وہ خواہ اسلام کا ہی دعوے دار کیوں نہ ہو وہ کذاب، مکار، دجال سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ ایسے دجاجلہ کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ نظر ثانی میں یہ نوٹ حرم نبوی کے نزدیک مدینہ المنورہ میں حوالہ قلم کیا گیا۔
 
Top