Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : چند قیراط کی مزدوری پر بکریاں چرانا
حدیث نمبر : 2262
حدثنا أحمد بن محمد المكي، حدثنا عمرو بن يحيى، عن جده، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم". فقال أصحابه وأنت فقال "نعم كنت أرعاها على قراريط لأهل مكة".
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا سعید بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
تشریح : امیر المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ مزدوری کے طور پر بکریاں چرانا بھی ایک حلال پیشہ ہے۔ بلکہ انبیاءعلیہم السلام کی سنت ہے۔ بکریوں پر گائے بھینس، بھیڑوں اور اونٹوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کو مزدوری پر چرانا چگانا جائز اور درست ہے۔ ہر پیغمبر نے بکریاں چرائی ہیں اس میں حکمت یہ ہے کہ بکریوں پر رحم اور شفقت کرنے کی ابتدائے عمر ہی سے عادت ہو اور رفتہ رفتہ بنی نوع انسان کی قیادت کرنے سے بھی وہ متعارف ہوجائیں۔ اور جب اللہ ان کو یہ منصب جلیلہ بخشے تو رحمت اور شفقت سے وہ ابن آدم کو راہ راست پر لاسکیں۔ اس اصول کے تحت جملہ انبیاءکرام کی زندگیوں میں آپ کو رحمت اور شفقت کی جھلک نظر آئے گی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی ہدایت کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ ساتھ ہی تاکید کی جاری ہے فقولا قولا لینا لعلہ یتذکراو یخشی ( طہ : 44 ) یعنی دونو ں بھائی فرعون کے ہاں جاکر اس کو نہایت ہی نرمی سے سمجھانا۔ شاید وہ نصیحت پکڑ سکے یا وہ اللہ سے ڈر سکے۔ اسی نرمی کا نتیجہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو گروں پر فتح عظیم حاصل فرمائی۔ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بچپن میں مکہ والوں کی بکریاں اجرت پر چرائی ہیں۔ اس لیے بکری چرانا ایک طرح سے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ ولسم کی سنت بھی ہے۔ آپ اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط اجرت پر چرایا کرتے تھے۔ قیراط آدھے ودانق کو کہتے ہیں جس کا وزن 5جو کے برابر ہوتا ہے۔
الحمد للہ ! آج مکہ شریف کے اطراف میں وادی منیٰ میں بیٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوںاور اطراف کی پہاڑیوں پر نظر ڈال رہا ہوں اور یاد کر رہا ہوں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جس میں رسول کریم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ان پہاڑوں میں مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ کاش ! میں اتنی طاقت رکھتا کہ ان پہاڑوں کے چپہ چپہ پر پیدل چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش اقدام کی یاد تازہ کرسکتا۔ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و سلم۔
بعض لوگوں نے کہا کہ اطراف مکہ میں قراریط نام سے ایک موضع تھا۔ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ حافظ فرماتے ہیں لکن رجح الاول لان اہل مکۃ لا یعرفون بہا مکانا یقال لہ قراریط یعنی قول اول کہ قراریط سے درہم اور دینار کے بعض اجزاءمراد ہیں اسی کو ترجیح حاصل ہے اس لیے کہ مکہ والے کسی ایسے مکان سے ناواقف تھے جسے قراریط کے نام سے پکارا جاتا ہو۔
و قال العلماءالحکمۃ فی الہام الانبیاءمن رعی الغنم قبل النبوۃ ان یحصل لہم التمرن برعیہا علی ما یکلفونہ من القیام بامر امتہم یعنی علماءنے کہا ہے کہ انبیاءکو بکری چرانے کے الہام کے بارے میں حکمت یہ ہے کہ ان کو نبوت سے پہلے ہی ان کو چرا کر امت کی قیادت کے لیے مشق ہو جائے۔
بکری خود ایک ایسا بابرکت جانور ہے کہ اللہ پاک کا فضل ہو تو بکری پالنے میں چند ہی دنوں میں وارے کے نیارے ہو جائیں۔ اسی لیے فتنوں کے زمانوں میں ایک ایسے شخص کی تعریف کی گئی ہے جو سب فتنوں سے دور رہ کر جنگلوں میں بکریاں پالے۔ اور ان سے گزران کرکے جنگوں ہی میں اللہ کی عبادت کرے۔ ایسے وقت میں یہ بہترین قسم کا مسلمان ہے۔ اس وقت مسجد نبوی روضۃ من ریاض الجنۃ مدینہ منورہ میں بہ سلسلہ نظر ثانی اس مقام پر پہنچتا ہوا حرمین شریفین کے ماحول پر نظر ڈال کر حدیث ہذا پر غور کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم ملک میں بکریوں کے مزاج کے موافق کتنے مواقع پیدا کر رکھے ہیں۔ مکہ شریف میں ایک مخلص دوست کے ہاں ایک بکری دیکھی جو2 کلو وزن سے زیادہ دودھ دیتی تھی۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من نبی الا رعی الغنم آج صفر1390ھ مقام مبارک مذکورہ میں یہ چند الفاظ لکھے گئے۔
باب : چند قیراط کی مزدوری پر بکریاں چرانا
حدیث نمبر : 2262
حدثنا أحمد بن محمد المكي، حدثنا عمرو بن يحيى، عن جده، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم". فقال أصحابه وأنت فقال "نعم كنت أرعاها على قراريط لأهل مكة".
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا سعید بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
تشریح : امیر المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ مزدوری کے طور پر بکریاں چرانا بھی ایک حلال پیشہ ہے۔ بلکہ انبیاءعلیہم السلام کی سنت ہے۔ بکریوں پر گائے بھینس، بھیڑوں اور اونٹوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کو مزدوری پر چرانا چگانا جائز اور درست ہے۔ ہر پیغمبر نے بکریاں چرائی ہیں اس میں حکمت یہ ہے کہ بکریوں پر رحم اور شفقت کرنے کی ابتدائے عمر ہی سے عادت ہو اور رفتہ رفتہ بنی نوع انسان کی قیادت کرنے سے بھی وہ متعارف ہوجائیں۔ اور جب اللہ ان کو یہ منصب جلیلہ بخشے تو رحمت اور شفقت سے وہ ابن آدم کو راہ راست پر لاسکیں۔ اس اصول کے تحت جملہ انبیاءکرام کی زندگیوں میں آپ کو رحمت اور شفقت کی جھلک نظر آئے گی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی ہدایت کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ ساتھ ہی تاکید کی جاری ہے فقولا قولا لینا لعلہ یتذکراو یخشی ( طہ : 44 ) یعنی دونو ں بھائی فرعون کے ہاں جاکر اس کو نہایت ہی نرمی سے سمجھانا۔ شاید وہ نصیحت پکڑ سکے یا وہ اللہ سے ڈر سکے۔ اسی نرمی کا نتیجہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو گروں پر فتح عظیم حاصل فرمائی۔ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بچپن میں مکہ والوں کی بکریاں اجرت پر چرائی ہیں۔ اس لیے بکری چرانا ایک طرح سے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ ولسم کی سنت بھی ہے۔ آپ اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط اجرت پر چرایا کرتے تھے۔ قیراط آدھے ودانق کو کہتے ہیں جس کا وزن 5جو کے برابر ہوتا ہے۔
الحمد للہ ! آج مکہ شریف کے اطراف میں وادی منیٰ میں بیٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوںاور اطراف کی پہاڑیوں پر نظر ڈال رہا ہوں اور یاد کر رہا ہوں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جس میں رسول کریم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ان پہاڑوں میں مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ کاش ! میں اتنی طاقت رکھتا کہ ان پہاڑوں کے چپہ چپہ پر پیدل چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش اقدام کی یاد تازہ کرسکتا۔ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و سلم۔
بعض لوگوں نے کہا کہ اطراف مکہ میں قراریط نام سے ایک موضع تھا۔ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ حافظ فرماتے ہیں لکن رجح الاول لان اہل مکۃ لا یعرفون بہا مکانا یقال لہ قراریط یعنی قول اول کہ قراریط سے درہم اور دینار کے بعض اجزاءمراد ہیں اسی کو ترجیح حاصل ہے اس لیے کہ مکہ والے کسی ایسے مکان سے ناواقف تھے جسے قراریط کے نام سے پکارا جاتا ہو۔
و قال العلماءالحکمۃ فی الہام الانبیاءمن رعی الغنم قبل النبوۃ ان یحصل لہم التمرن برعیہا علی ما یکلفونہ من القیام بامر امتہم یعنی علماءنے کہا ہے کہ انبیاءکو بکری چرانے کے الہام کے بارے میں حکمت یہ ہے کہ ان کو نبوت سے پہلے ہی ان کو چرا کر امت کی قیادت کے لیے مشق ہو جائے۔
بکری خود ایک ایسا بابرکت جانور ہے کہ اللہ پاک کا فضل ہو تو بکری پالنے میں چند ہی دنوں میں وارے کے نیارے ہو جائیں۔ اسی لیے فتنوں کے زمانوں میں ایک ایسے شخص کی تعریف کی گئی ہے جو سب فتنوں سے دور رہ کر جنگلوں میں بکریاں پالے۔ اور ان سے گزران کرکے جنگوں ہی میں اللہ کی عبادت کرے۔ ایسے وقت میں یہ بہترین قسم کا مسلمان ہے۔ اس وقت مسجد نبوی روضۃ من ریاض الجنۃ مدینہ منورہ میں بہ سلسلہ نظر ثانی اس مقام پر پہنچتا ہوا حرمین شریفین کے ماحول پر نظر ڈال کر حدیث ہذا پر غور کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم ملک میں بکریوں کے مزاج کے موافق کتنے مواقع پیدا کر رکھے ہیں۔ مکہ شریف میں ایک مخلص دوست کے ہاں ایک بکری دیکھی جو2 کلو وزن سے زیادہ دودھ دیتی تھی۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من نبی الا رعی الغنم آج صفر1390ھ مقام مبارک مذکورہ میں یہ چند الفاظ لکھے گئے۔