Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : اگر کسی نے کوئی مزدور کیا اور وہ مزدور اپنی اجرت لیے بغیر چلا گیا
من استأجر أجيرا فترك أجره، فعمل فيه المستأجر فزاد، أو من عمل في مال غيره فاستفضل
پھر ( مزدور کی اس چھوڑی ہوئی رقم یا جنس سے ) مزدوری لینے والے نے کوئی تجارتی کام کیا۔ اس طرح وہ اصل مال بڑھ گیا اور وہ شخص جس نے کسی دوسرے کے مال سے کوئی کام کیا اور اس میں نفع ہوا ( ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے )
حدیث نمبر : 2272
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "انطلق ثلاثة رهط ممن كان قبلكم حتى أووا المبيت إلى غار فدخلوه، فانحدرت صخرة من الجبل فسدت عليهم الغار فقالوا إنه لا ينجيكم من هذه الصخرة إلا أن تدعوا الله بصالح أعمالكم. فقال رجل منهم اللهم كان لي أبوان شيخان كبيران، وكنت لا أغبق قبلهما أهلا ولا مالا، فنأى بي في طلب شىء يوما، فلم أرح عليهما حتى ناما، فحلبت لهما غبوقهما فوجدتهما نائمين وكرهت أن أغبق قبلهما أهلا أو مالا، فلبثت والقدح على يدى أنتظر استيقاظهما حتى برق الفجر، فاستيقظا فشربا غبوقهما، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخرة، فانفرجت شيئا لا يستطيعون الخروج". قال النبي صلى الله عليه وسلم "وقال الآخر اللهم كانت لي بنت عم كانت أحب الناس إلى، فأردتها عن نفسها، فامتنعت مني حتى ألمت بها سنة من السنين، فجاءتني فأعطيتها عشرين ومائة دينار على أن تخلي بيني وبين نفسها، ففعلت حتى إذا قدرت عليها قالت لا أحل لك أن تفض الخاتم إلا بحقه. فتحرجت من الوقوع عليها، فانصرفت عنها وهى أحب الناس إلى وتركت الذهب الذي أعطيتها، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه. فانفرجت الصخرة، غير أنهم لا يستطيعون الخروج منها. قال النبي صلى الله عليه وسلم وقال الثالث اللهم إني استأجرت أجراء فأعطيتهم أجرهم، غير رجل واحد ترك الذي له وذهب فثمرت أجره حتى كثرت منه الأموال، فجاءني بعد حين فقال يا عبد الله أد إلى أجري. فقلت له كل ما ترى من أجرك من الإبل والبقر والغنم والرقيق. فقال يا عبد الله لا تستهزئ بي. فقلت إني لا أستهزئ بك. فأخذه كله فاستاقه فلم يترك منه شيئا، اللهم فإن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه. فانفرجت الصخرة فخرجوا يمشون".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جارہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، اور اس میں اندر داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہوگئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ ( میرے ماں باپ ) سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا۔ جب ان کے پا س لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی۔ اب میں اس پر قابو پاچکا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آگیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی، لیکن اب بھی ا س سے باہر نہیں نکلا جاسکتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پا س آیا اور کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دے دے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ تو اے اللہ ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔
تشریح : اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں اور باب کا مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے جو حدیث مذکور میں تیسرے شخص سے متعلق ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہے۔ آیت کریمہ وابتغوا الیہ الوسلیۃ کا یہی مطلب ہے کہ اس اللہ کی طرف نیک اعمال کا وسیلہ ڈھونڈو۔ جو لوگ بزرگوں، ولیوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں یا محض ذات نبوی کو بعد وفات بطور وسیلہ پیش کرتے ہیں وہ ایسا عمل کرتے ہیں جس پر کتاب و سنت سے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک استسقاءکی دعا کے موقع پر ایسا نہ کہتے کہ یا اللہ ! ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دعا کرانے کے لیے آپ کو پیش کیا کرتے تھے۔ اب اللہ کے نبی دنیا سے چلے گئے اور آپ کے محترم چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی موجود ہے لہٰذا دعا کرانے کے لیے ہم ان کو پیش کرتے ہیں تو ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول فرما کر ہم کو باران رحمت سے شاداب فرمادے۔
باب : اگر کسی نے کوئی مزدور کیا اور وہ مزدور اپنی اجرت لیے بغیر چلا گیا
من استأجر أجيرا فترك أجره، فعمل فيه المستأجر فزاد، أو من عمل في مال غيره فاستفضل
پھر ( مزدور کی اس چھوڑی ہوئی رقم یا جنس سے ) مزدوری لینے والے نے کوئی تجارتی کام کیا۔ اس طرح وہ اصل مال بڑھ گیا اور وہ شخص جس نے کسی دوسرے کے مال سے کوئی کام کیا اور اس میں نفع ہوا ( ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے )
حدیث نمبر : 2272
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "انطلق ثلاثة رهط ممن كان قبلكم حتى أووا المبيت إلى غار فدخلوه، فانحدرت صخرة من الجبل فسدت عليهم الغار فقالوا إنه لا ينجيكم من هذه الصخرة إلا أن تدعوا الله بصالح أعمالكم. فقال رجل منهم اللهم كان لي أبوان شيخان كبيران، وكنت لا أغبق قبلهما أهلا ولا مالا، فنأى بي في طلب شىء يوما، فلم أرح عليهما حتى ناما، فحلبت لهما غبوقهما فوجدتهما نائمين وكرهت أن أغبق قبلهما أهلا أو مالا، فلبثت والقدح على يدى أنتظر استيقاظهما حتى برق الفجر، فاستيقظا فشربا غبوقهما، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخرة، فانفرجت شيئا لا يستطيعون الخروج". قال النبي صلى الله عليه وسلم "وقال الآخر اللهم كانت لي بنت عم كانت أحب الناس إلى، فأردتها عن نفسها، فامتنعت مني حتى ألمت بها سنة من السنين، فجاءتني فأعطيتها عشرين ومائة دينار على أن تخلي بيني وبين نفسها، ففعلت حتى إذا قدرت عليها قالت لا أحل لك أن تفض الخاتم إلا بحقه. فتحرجت من الوقوع عليها، فانصرفت عنها وهى أحب الناس إلى وتركت الذهب الذي أعطيتها، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه. فانفرجت الصخرة، غير أنهم لا يستطيعون الخروج منها. قال النبي صلى الله عليه وسلم وقال الثالث اللهم إني استأجرت أجراء فأعطيتهم أجرهم، غير رجل واحد ترك الذي له وذهب فثمرت أجره حتى كثرت منه الأموال، فجاءني بعد حين فقال يا عبد الله أد إلى أجري. فقلت له كل ما ترى من أجرك من الإبل والبقر والغنم والرقيق. فقال يا عبد الله لا تستهزئ بي. فقلت إني لا أستهزئ بك. فأخذه كله فاستاقه فلم يترك منه شيئا، اللهم فإن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه. فانفرجت الصخرة فخرجوا يمشون".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جارہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، اور اس میں اندر داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہوگئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ ( میرے ماں باپ ) سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا۔ جب ان کے پا س لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی۔ اب میں اس پر قابو پاچکا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آگیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی، لیکن اب بھی ا س سے باہر نہیں نکلا جاسکتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پا س آیا اور کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دے دے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ تو اے اللہ ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔
تشریح : اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں اور باب کا مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے جو حدیث مذکور میں تیسرے شخص سے متعلق ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہے۔ آیت کریمہ وابتغوا الیہ الوسلیۃ کا یہی مطلب ہے کہ اس اللہ کی طرف نیک اعمال کا وسیلہ ڈھونڈو۔ جو لوگ بزرگوں، ولیوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں یا محض ذات نبوی کو بعد وفات بطور وسیلہ پیش کرتے ہیں وہ ایسا عمل کرتے ہیں جس پر کتاب و سنت سے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک استسقاءکی دعا کے موقع پر ایسا نہ کہتے کہ یا اللہ ! ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دعا کرانے کے لیے آپ کو پیش کیا کرتے تھے۔ اب اللہ کے نبی دنیا سے چلے گئے اور آپ کے محترم چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی موجود ہے لہٰذا دعا کرانے کے لیے ہم ان کو پیش کرتے ہیں تو ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول فرما کر ہم کو باران رحمت سے شاداب فرمادے۔