• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : اگر کسی نے کوئی مزدور کیا اور وہ مزدور اپنی اجرت لیے بغیر چلا گیا

من استأجر أجيرا فترك أجره، فعمل فيه المستأجر فزاد، أو من عمل في مال غيره فاستفضل
پھر ( مزدور کی اس چھوڑی ہوئی رقم یا جنس سے ) مزدوری لینے والے نے کوئی تجارتی کام کیا۔ اس طرح وہ اصل مال بڑھ گیا اور وہ شخص جس نے کسی دوسرے کے مال سے کوئی کام کیا اور اس میں نفع ہوا ( ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے )

حدیث نمبر : 2272
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏انطلق ثلاثة رهط ممن كان قبلكم حتى أووا المبيت إلى غار فدخلوه، فانحدرت صخرة من الجبل فسدت عليهم الغار فقالوا إنه لا ينجيكم من هذه الصخرة إلا أن تدعوا الله بصالح أعمالكم‏.‏ فقال رجل منهم اللهم كان لي أبوان شيخان كبيران، وكنت لا أغبق قبلهما أهلا ولا مالا، فنأى بي في طلب شىء يوما، فلم أرح عليهما حتى ناما، فحلبت لهما غبوقهما فوجدتهما نائمين وكرهت أن أغبق قبلهما أهلا أو مالا، فلبثت والقدح على يدى أنتظر استيقاظهما حتى برق الفجر، فاستيقظا فشربا غبوقهما، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخرة، فانفرجت شيئا لا يستطيعون الخروج‏"‏‏. ‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏وقال الآخر اللهم كانت لي بنت عم كانت أحب الناس إلى، فأردتها عن نفسها، فامتنعت مني حتى ألمت بها سنة من السنين، فجاءتني فأعطيتها عشرين ومائة دينار على أن تخلي بيني وبين نفسها، ففعلت حتى إذا قدرت عليها قالت لا أحل لك أن تفض الخاتم إلا بحقه‏.‏ فتحرجت من الوقوع عليها، فانصرفت عنها وهى أحب الناس إلى وتركت الذهب الذي أعطيتها، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه‏.‏ فانفرجت الصخرة، غير أنهم لا يستطيعون الخروج منها‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم وقال الثالث اللهم إني استأجرت أجراء فأعطيتهم أجرهم، غير رجل واحد ترك الذي له وذهب فثمرت أجره حتى كثرت منه الأموال، فجاءني بعد حين فقال يا عبد الله أد إلى أجري‏.‏ فقلت له كل ما ترى من أجرك من الإبل والبقر والغنم والرقيق‏.‏ فقال يا عبد الله لا تستهزئ بي‏.‏ فقلت إني لا أستهزئ بك‏.‏ فأخذه كله فاستاقه فلم يترك منه شيئا، اللهم فإن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه‏.‏ فانفرجت الصخرة فخرجوا يمشون‏"‏‏.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جارہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، اور اس میں اندر داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہوگئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ ( میرے ماں باپ ) سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا۔ جب ان کے پا س لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی۔ اب میں اس پر قابو پاچکا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آگیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی، لیکن اب بھی ا س سے باہر نہیں نکلا جاسکتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پا س آیا اور کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دے دے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ تو اے اللہ ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔

تشریح : اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں اور باب کا مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے جو حدیث مذکور میں تیسرے شخص سے متعلق ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہے۔ آیت کریمہ وابتغوا الیہ الوسلیۃ کا یہی مطلب ہے کہ اس اللہ کی طرف نیک اعمال کا وسیلہ ڈھونڈو۔ جو لوگ بزرگوں، ولیوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں یا محض ذات نبوی کو بعد وفات بطور وسیلہ پیش کرتے ہیں وہ ایسا عمل کرتے ہیں جس پر کتاب و سنت سے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک استسقاءکی دعا کے موقع پر ایسا نہ کہتے کہ یا اللہ ! ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دعا کرانے کے لیے آپ کو پیش کیا کرتے تھے۔ اب اللہ کے نبی دنیا سے چلے گئے اور آپ کے محترم چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی موجود ہے لہٰذا دعا کرانے کے لیے ہم ان کو پیش کرتے ہیں تو ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول فرما کر ہم کو باران رحمت سے شاداب فرمادے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : جس نے اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کی یعنی حمالی کی اور پھر اسے صدقہ کر دیا اور حمال کی اجرت کا بیان

حدیث نمبر : 2273
حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن أبي مسعود الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمر بالصدقة انطلق أحدنا إلى السوق فيحامل فيصيب المد، وإن لبعضهم لمائة ألف، قال ما نراه إلا نفسه‏.‏
ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ( یحییٰ بن سعید قریش ) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شفیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، تو بعض لوگ بازاروں میں جاکر بوجھ اٹھاتے جن سے ایک مدمزدوری ملتی ( وہ اس میں سے بھی صدقہ کرتے ) آج ان میں سے کسی کے پاس لاکھ لاکھ ( درہم یا دینار ) موجود ہیں۔ شفیق نے کہا ہمارا خیال ہے کہ ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کسی سے اپنے ہی تیئں مراد لیا تھا۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عہد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محنت مزدوری بخوشی کیا کرتے تھے۔ حتی کہ وہ حمالی بھی کرتے پھر جو مزدوری ملتی اس میں سے صدقہ بھی کرتے۔ اللہ پاک ان کو امت کی طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے کہ اس محنت سے انہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی، آج الحمد للہ وہی مدینہ ہے جن کے باشندے فراخی اور کشادگی میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ آج مدینہ میں کتنے ہی عظیم محلات موجود ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : دلالی کی اجرت لینا

ولم ير ابن سيرين وعطاء وإبراهيم والحسن بأجر السمسار بأسا‏.‏ وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك‏.‏ وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك، أو بيني وبينك، فلا بأس به‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏المسلمون عند شروطهم‏"‏‏. ‏
اور ابن سیرین اور عطاءاور ابراہیم اور حسن بصری رحمہم اللہ دلالی پر اجرت لینے میں کوئی برائی نہیں خیال کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر کسی سے کہا جائے کہ یہ کپڑا اتنی قیمت میں بیچ لا۔ جتنا زیادہ ہو وہ تمہارا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ اگر کسی نے کہا کہ اتنے میں بیچ لا، جتنا نفع ہوگا وہ تمہار ہے یا ( یہ کہا کہ ) میرے اور تمہارے درمیان تقسیم ہوجائے گا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اپنی طے کردہ شرائط پر قائم رہیں گے۔

تشریح : ابن سیرین اور ابراہیم کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور عطاءکے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا اور حسن کے قول کو نہ حافظ نے بیان کیا نہ قسطلانی نے کہ کس نے وصل کیا۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا عطا سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، جمہور علماءنے اس کو جائز نہیں رکھا۔ کیوں کہ اس میں دلالی کی اجرت مجہول ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو اس وجہ سے جائز رکھا ہے کہ یہ ایک مضاربت کی صورت ہے۔ ابن سیرین کے اس دوسرے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے فرمان رسالت المسلمون عند شروطہم کو اسحاق نے اپنی مسند میں عمرو بن عوف مزنی سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور ابوداؤد اور احمد اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ ( وحیدی )

سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو ایک تاریخ سامنے آگئی۔ اس لیے کہ حرم نبوی مدینہ طیبہ میں اصحاب صفہ کے چبوترے پر بیٹھ کر یہ چند حروف لکھ رہا ہوں۔ یہی وہ چبوترہ ہے جہاں اصحاب صفہ بھوکے پیاسے علوم رسالت حاصل کرنے کے لیے پروانہ وار قیام فرمایا کرتے تھے۔ اسی چبوترہ کی تعلیم و تربیت سے حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے فاضل اسلام پیدا ہوئے۔ اللہ پاک ان سب کو ہماری طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے۔ ان کی قبرو ںکو نور سے بھر دے۔
وہی اصحاب صفہ کا چبوترہ ہے جہاں آج شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہے۔ غالیچوں پر غالیچے بچھے ہوئے ہیں، ہر وقت عطر سے فضا معطر رہتی ہے۔ کتنے ہی بندگان خدا اس چبوترہ پر تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں۔ الحمد للہ میں ناچیز عاجز گنہگار اس چبوترہ میں بیٹھ کر بخاری شریف کا متن پڑھ رہا ہوں اور ترجمہ و تشریحات لکھ رہا ہوں۔ اس امید پر کہ قیامت کے دن اللہ پاک میرا حشر بھی اپنے ان نیک بندوں کے ساتھ کرے اور ان کے جوار میں فردوس بریں میں جگہ دے۔ مجھ کو میری آل اولاد کواورجملہ معاونین اشاعت بخاری شریف کو اللہ پاک یہ درجات نصیب فرمائے اورلواءالحمد کے نیچے حشر فرمائے۔ آج 2 صفر 1390ھ کو حرم نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر یہ چند لفظ لکھے گئے۔

حدیث نمبر : 2274
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يتلقى الركبان، ولا يبيع حاضر لباد‏.‏ قلت يا ابن عباس ما قوله لا يبيع حاضر لباد قال لا يكون له سمسارا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تجارتی ) قافلوں سے ( منڈی سے آگے جاکر ) ملاقات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ کہ شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں، میں نے پوچھا، اے ابن عباس رضی اللہ عنہما ! ” شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں “ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ ہے کہ ان کے دلال نہ بنیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : کیا کوئی مسلمان دار الحرب میں کسی مشرک کی مزدوری کرسکتا ہے؟

حدیث نمبر : 2275
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن مسلم، عن مسروق، حدثنا خباب، قال كنت رجلا قينا فعملت للعاص بن وائل فاجتمع لي عنده فأتيته أتقاضاه فقال لا والله لا أقضيك حتى تكفر بمحمد‏.‏ فقلت أما والله حتى تموت ثم تبعث فلا‏.‏ قال وإني لميت ثم مبعوث قلت نعم‏.‏ قال فإنه سيكون لي ثم مال وولد فأقضيك‏.‏ فأنزل الله تعالى ‏{‏أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا‏}‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم بن صبیح نے، ان سے مسروق نے، ان سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں لوہار تھا، میں نے عاص بن وائل ( مشرک ) کا کام کیا۔ جب میری بہت سی مزدوری اس کے سر چڑھ گئی تو میں اس کے پاس تقاضا کرنے آیا، وہ کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! میں تمہاری مزدوری اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پھر جاؤ۔ میں نے کہا، خدا کی قسم ! یہ تو اس وقت بھی نہ ہوگا جب تو مر کے دوبارہ زندہ ہوگا۔ اس نے کہا، کیا میں مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کیا جاؤ ںگا؟ میں نے کہا کہ ہاں ! اس پر وہ بولا پھر کیا ہے۔ وہیںمیرے پاس مال اور اولاد ہوگی اور وہیں میں تمہارا قرض ادا کردوں گا۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ” اے پیغمبر ! کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتو ں کا انکار کیا، اور کہا کہ مجھے ضرور وہاں مال و اولاد دی جائے گی۔ “

حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے عاص بن وائل کی مزدوری کی، حالانکہ وہ کافر اور دار الحرب کا باشندہ تھا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ عاص بن وائل نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بات سن کر بطور مذاق ایسا کہا۔ اللہ پاک نے اسی کی مذمت میں آیت مذکورہ نازل فرمائی کہ ”اے نبی ! تو نے اس کافر کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مرنے کے بعد ضرور مال اور اولاد دیا جاؤں گا“ گویا اس نے اللہ کے یہاں کوئی عہد حاصل کر لیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : سورہ فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لے لینا

اس کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طب میں وصل کیا ہے۔ جمہور علماءنے اس سے یہ دلیل لی ہے کہ تعلیم قرآن کی اجرت لینا درست ہے مگر حنفیہ نے اس کو ناجائز رکھا ہے۔ البتہ اگر دم کے طور پر اس کو پڑھے تو ان کے نزدیک بھی اجرت لے سکتا ہے، لیکن تعلیم کی نہیں لے سکتا کیوں کہ وہ عبادت ہے۔ ( فتح )

وقال ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله‏"‏‏. ‏ وقال الشعبي لا يشترط المعلم إلا أن يعطى شيئا فليقبله وقال الحكم لم أسمع أحدا كره أجر المعلم‏.‏ وأعطى الحسن دراهم عشرة‏.‏ ولم ير ابن سيرين بأجر القسام بأسا‏.‏ وقال كان يقال السحت الرشوة في الحكم‏.‏ وكانوا يعطون على الخرص‏.‏
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ کتاب اللہ سب سے زیادہ مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔ اور شعبی رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ قرآن پڑھانے والا پہلے سے طے نہ کرے۔ البتہ جو کچھ اسے بن مانگے دیا جائے لے لینا چاہئیے۔ اور حکم رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ میں نے کسی شخص سے یہ نہیں سنا کہ معلم کی اجرت کو اس نے ناپسند کیا ہو اور حسن رحمہ اللہ علیہ نے ( اپنے معلم کو ) دس درہم اجرت کے دیئے۔ اور ابن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے قسام ( بیت المال کا ملازم جو تقسیم پر مقرر ہو ) کی اجرت کو برا نہیں سمجھا۔ اور وہ کہتے تھے کہ ( قرآن کی آیت میں ) سحت فیصلہ میں رشوت لینے کے معنی میں ہے اور لوگ ( اندازہ لگانے والوں کو ) انداز لگانے کی اجرت دیتے تھے۔

تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے۔ حکم کے قول کو بغوی نے جعد یات میں وصل کیا ہے۔ اورحسن کے قول کو ابن سعد نے طبقات میں وصل کیا ہے اور ابن ابی شیبہ نے حسن سے نکالا کہ کتابت کی اجرت لینے میں قباحت نہیں ہے اور ابن سیرین کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا لیکن عبد بن حمید وغیرہ نے ابن سیرین سے اس کی کراہیت نقل کی اور ابن سعد نے ابن سیرین سے یوں نکالا کہ اجرت کی اگر شرط کرے تو مکروہ ہے ورنہ نہیں۔ اور اس روایت سے دونوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ قرآن میں جس سحت کا ذکر ہے، وہ حرام ہے اس سے رشوت ہی مراد ہے اور ابن مسعود اور زید بن ثابت سے بھی سحت کی یہی تفسیر منقول ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2276
حدثنا أبو النعمان، حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن أبي المتوكل، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال انطلق نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في سفرة سافروها حتى نزلوا على حى من أحياء العرب فاستضافوهم، فأبوا أن يضيفوهم، فلدغ سيد ذلك الحى، فسعوا له بكل شىء لا ينفعه شىء، فقال بعضهم لو أتيتم هؤلاء الرهط الذين نزلوا لعله أن يكون عند بعضهم شىء، فأتوهم، فقالوا يا أيها الرهط، إن سيدنا لدغ، وسعينا له بكل شىء لا ينفعه، فهل عند أحد منكم من شىء فقال بعضهم نعم والله إني لأرقي، ولكن والله لقد استضفناكم فلم تضيفونا، فما أنا براق لكم حتى تجعلوا لنا جعلا‏.‏ فصالحوهم على قطيع من الغنم، فانطلق يتفل عليه ويقرأ ‏{‏الحمد لله رب العالمين‏}‏ فكأنما نشط من عقال، فانطلق يمشي وما به قلبة، قال فأوفوهم جعلهم الذي صالحوهم عليه، فقال بعضهم اقسموا‏.‏ فقال الذي رقى لا تفعلوا، حتى نأتي النبي صلى الله عليه وسلم فنذكر له الذي كان، فننظر ما يأمرنا‏.‏ فقدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له، فقال ‏"‏وما يدريك أنها رقية ـ ثم قال ـ قد أصبتم اقسموا واضربوا لي معكم سهما‏"‏‏. ‏ فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال شعبة حدثنا أبو بشر سمعت أبا المتوكل بهذا‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا، اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آکر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو ! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پا س کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد للہ رب العالمین پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کردی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کرلو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ شعبہ نے کہا کہ ابوالبشر نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے ابوالمتوکل سے ایسا ہی سنا۔

تشریح : مجتہد مطلق، امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ا س باب اور روایت کردہ حدیث کے تحت بہت سے مسائل جمع فرما دیئے ہیں۔ اصحاب نبوی چوں کہ سفر میں تھے اور اس زمانے میں ہوٹلوں کا کوئی دستور نہ تھا۔ عربو ںمیں مہمان نوازی ہی سب سے بڑی خوبی تھی۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک رات کی مہمانی کے لیے قبیلہ والوں سے درخواست کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ اسی اثنا میں ان قبیلے والوں کا سردار سانپ یا بچھو سے کاٹا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سردار کی عقل میں فتور آگیا تھا۔ بہرحال جو بھی صورت ہو وہ قبیلہ والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پا س آکر دم جھاڑ کے لیے متمنی ہوئے اور حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے آمادگی ظاہر فرمائی اور اجرت میں تیس بکریوں پر معاملہ طے ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس سردار پر سات بار یا تین بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ اور وہ سردار اللہ کے حکم سے تندرست ہو گیا اور قبیلہ والوں نے بکریاں پیش کر دیں جن کی اطلاع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تائید فرمائی اور ساتھ ہی ان کی دلجوئی کے لیے بکریوں کی تقسیم میں اپنا حصہ مقرر کرنے کا بھی ارشاد فرمایا۔ شعبہ کی روایت کو ترمذی نے وصل کیا ہے اس لفظ کے ساتھ۔ اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی طب میں عنعنہ کے ساتھ ذکرکیا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی آیتوں اوراسی طرح دیگر اذکار و ادعیہ ماثورہ کے ساتھ دم کرنا درست ہے۔ دیگر روایت میں صاف مذکور ہے لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو دم جھاڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جو لوگ شرکیہ لفظوں سے اور پیروں فقیروں کے نام سے منتر جنتر کرتے ہیں، وہ عند اللہ مشرک ہیں۔ ایک موحد مسلمان کو ہرگز ایسے ڈھکوسلوں میں نہ آنا چاہئے اور ایسے مشرک و مکار تعویذ و منتر والوں سے دور رہنا چاہئے کہ آج کل ایسے لوگوں کے ہتھکنڈے بہت کثرت کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اس حدیث سے بعض علماءنے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت کیا ہے۔ صاحب المہذب لکھتے ہیں : و من ادلۃ الجواز حدیث عمر المتقدم فی کتاب الزکوٰۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ ما اتاک من ہذا المال من غیر مسئلۃ و لا اشراف نفس فخذہ و من ادلۃ الجواز حدیث الرقیۃ المشہور الذی اخرجہ البخاری عن ابی عباس و فیہ ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ( ص 268 )

اور جواز کے دلائل میں سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ ہے جو کتاب الزکوۃ میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ اس مال میں سے جو تمہارے پاس بغیر سوال کئے اور بغیر تانکے جھانکے خود آئے، اس کو قبول کرلو اور جواز کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں دم کرنے کا واقعہ مذکور ہے جس کو امام بخاری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا ہے اوراس میں یہ بھی ہے کہ بلاشک جس پر تم بطور اجر لینے کا حق رکھتے ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔
صاحب لمعات لکھتے ہیں و فیہ دلیل علی ان الرقیۃ بالقران و اخذ الاجرۃ علیہا جائز بلا شبھۃ یعنی اس میں اس پر دلیل ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ دم کرنا اور اس پر اجرت لینا بلاشبہ جائز ہے۔

ایسا ہی واقعہ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں خارجۃ بن صلت عن عمہ کی روایت سے مذکور ہے راوی کہتے ہیں اقبلنا من عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم فاتینا علی حی من العرب فقالوا نا انبئنا انکم قد جئتم من عند ہذا الرجل بخیر فہل عندکم من دواء اور قیۃ فان عندنا معتوہا فی القیود فقلنا نعم فجاوا بمعتوہ فی القیود فقرات علیہ بفاتحۃ الکتاب ثلاثۃ ایام غدوۃ و عشیۃ اجمع بزاقی ثم اتفل قال فکانما انشط من عقال فاعطونی جعلا فقلت لا حتی اسال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال کل فلعمری لمن اکل برقیۃ باطل لقد اکلت برقیۃ حق ( رواہ احمد و ابوداود )

مختصر مطلب یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے جدا ہو کر ایک عرب قبیلہ پر سے گزرے۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تم اس آدمی کے پاس سے کچھ نہ کچھ خیر لے کر آئے ہو۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید اور ذکر اللہ سیکھ کر آئے ہو۔ ہمارے ہاں ایک دیوانہ بیڑیوں میں مقید ہے۔ تمہارے پاس کوئی دوا یا دم جھاڑ ہو تو مہربانی کرو۔ ہم نے کہا کہ ہاں ! ہم موجود ہیں۔ پس وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک آدمی کو لائے اور میں نے ا س پر صبح و شام تین روز تک برابر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ میں یہ سورۃ پڑھ پرھ کر اپنے منہ میں تھوک جمع کرکے اس پر دم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ مریض اتنا آزاد ہو گیا کہ جتنا اونٹ اس کی رسی کھولنے سے آزاد ہوجاتاہے یعنی وہ تندرست ہو گیا۔ پس ان قبیلہ والوں نے مجھ کو اجرت دینا چاہی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ تو جھوٹ موٹ فریب دے کر دم جھاڑا سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں، تم نے تو حق اور سچا دم کیا ہے جس پر کھانا حق ہے جو حلال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک کے بہانہ سے غلط قسم کے لوگوں کی کثرت بھی پہلے ہی سے چلی آرہی ہے۔ اور بہت سے نادان لوگ اپنی طبعی کمزوری کی بناءپر ایسے لوگوں کا شکار بنتے چلے آرہے ہیں۔ تاریخ میں اقوام قدیم کلدانیوں، مصریوں، سامیو ںوغیرہ وغیرہ کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ لوگ بیشتر تعداد میں دم، جھاڑ، پھونک پھانک منتر، جنتر کرنے والو ں کے زبردست معتقد ہوتے تھے۔ اکثر تو موت و حیات تک کو ایسے ہی مکار دم جھاڑ کرنے والو ں کے ہاتھوں میں جانتے تھے۔ صد افسوس کہ امت مسلمہ بھی ان بیماریوں سے نہ بچ سکی اور ان میں بھی منتر جنتر کے ناموں پر کتنے ہی شرکیہ طور طریقے جاری ہو گئے۔ اور اب بھی بکثرت عوام ایسے ہی مکار لوگوں کا شکار ہیں۔ کتنے ہیں نقش و تعویذ لکھنے والے صرف ہندسوں سے کام چلاتے ہیں۔ جن کو خود ان ہندسوں کی حقیقت کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا۔ کتنے ہی صرف پیروں، درویشوں، فوت شدہ بزرگوں کے نالکھ کر دے دیتے ہیں۔ کتنے یا جبرئیل، یا میکائیل یا عزرائیل لکھ کر استعمال کراتے ہیں۔ کتنے من گھڑت شرکیہ دعائیں لکھ کر خود مشرک بنتے اور دوسروں کو مشرک بناتے ہیں کتنے حضرت پیر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کی دہائی لکھ کر لوگوں کو بہکاتے رہتے ہیں۔ الغرض مسلمانوںکی ایک کثیر تعداد ایسے ہتھکنڈوں کی شکار ہے، پھر ان تعویذ گنڈہ کرنے والے اور لوگوں کا مال اس دھوکہ فریب سے کھانے والے غور کریں کہ وہ اللہ اورا س کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن کیا منہ دکھلائیں گے۔

آج 29 ذی الحجہ1389ھ کو مقام ابراہیم کے قریب بوقت مغرب یہ نوٹ لکھا گیا۔ اور بعونہ تعالیٰ2 صفر1390ھ کو مدینہ منورہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چپوترہ پر بیٹھ کر نظر ثانی کی گئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ

باب : غلام لونڈی پر روزانہ ایک رقم مقرر کردینا

عہد غلامی میں آقا اپنے غلاموں لونڈیوں پر روزانہ یاہفتہ وار یا ماہانہ ایک ٹیکس مقرر کر دیاکر تھے۔ اس کے لیے حدیث میں خراج غلہ اجر ضریبہ وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ باب کی حدیث میں صرف ابو طیبہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جو غلام تھا۔ لیکن لونڈی کو غلام پرقیاس کیا۔ اب یہ احتمال کہ شاید لونڈی زنا کرکے کمائے غلام میں بھی چل سکتا ہے کہ شاید وہ چوری کرکے کمائے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور سعید بن منصور نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے نکالا۔ انہوں نے کہا اپنی لونڈی کی کمائی پر نگاہ رکھو اور ابوداؤد نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کی کمائی سے منع فرمایا جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کس ذریعہ سے کمایا ہے۔

حدیث نمبر : 2277
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال حجم أبو طيبة النبي صلى الله عليه وسلم، فأمر له بصاع أو صاعين من طعام، وكلم مواليه فخفف عن غلته أو ضريبته‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوطیبہ حجام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجرت میں ایک صاع یا دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے سفارش کی کہ جو محصول اس پر مقرر ہے اس میں کچھ کمی کردیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان

حدیث نمبر : 2278
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال احتجم النبي صلى الله عليه وسلم، وأعطى الحجام أجره‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور پچھانے لگانے والے کو اجرت بھی دی۔ اگر پچھنا لگوانا ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پچھنا لگواتے نہ اجرت دیتے۔

حدیث نمبر : 2279
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، عن خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال احتجم النبي صلى الله عليه وسلم وأعطى الحجام أجره، ولو علم كراهية لم يعطه‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو اجرت بھی دی، اگر اس میں کوئی کراہت ہوتی تو آپ کاہے کو دیتے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے گویا اس شخص کا رد کیا، جو حجام کی اجرت کو حرام کہتا تھا۔ جمہور کا یہی مذہب ہے کہ وہ حلال ہے۔ حدت خون میں پچھنا لگانا بہت مفید ہے۔ عربوں میں یہ علاج اس مرض کے لیے عام تھا۔

حدیث نمبر : 2280
حدثنا أبو نعيم، حدثنا مسعر، عن عمرو بن عامر، قال سمعت أنسا ـ رضى الله عنه ـ يقول كان النبي صلى الله عليه وسلم يحتجم، ولم يكن يظلم أحدا أجره‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور آپ کسی کی مزدوری کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔

باب کی احادیث سے حضرت امام بخاری نے یہ ثابت فرمایا کہ حجام یعنی پچھنا لگانے والے کی اجرت حلال ہے اور یہ پیشہ بھی جائز ہے اگریہ پیشہ ناجائز ہوتا تو نہ آپ پچھنا لگواتے نہ اس کو اجرت دیتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے کاموں کو بنظر حقارت دیکھنے والے غلطی پر ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : اس کے متعلق جس نے کسی غلام کے مالکوں سے غلام کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کے لیے سفارش کی

یعنی برسبیل تفضل اور احسان، نہ یہ کہ بطور وجوب کے حکم دینا۔ بعض نے کہا کہ اگر غلام کو اس کی ادائیگی کی طاقت نہ ہو تو حاکم تخفیف کا حکم بھی دے سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 2281
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال دعا النبي صلى الله عليه وسلم غلاما حجاما فحجمه، وأمر له بصاع أو صاعين، أو مد أو مدين، وكلم فيه فخفف من ضريبته‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پچھنالگانے والے غلام ( ابوطیبہ ) کو بلایا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا۔ اور آپ نے انہیں ایک یا دو صاع، یا ایک یا دو مد ( راوی حدیث شعبہ کو شک تھا ) اجرت دینے کے لیے حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کے مالکوں سے بھی ) ان کے بارے میں سفارش فرمائی تو ان کا خراج کم کر دیا گیا۔

پچھلی حدیث میں پچھنا لگانے والے غلام کی کنیت ابوطیبہ رضی اللہ عنہ مذکور ہے۔ ان کا نام نافع بتلایا گیا ہے۔ حافظ نے اسی کو صحیح کہا ہے۔ ابن حذاءنے کہا کہ ابوطیبہ نے 134سال کی عمر پائی تھی۔ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ غلام یا لونڈی کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کرانے کی سفارش کرنا درست ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا یہ بدترین دور تقریباً دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔ مگر اب غلامی کے دوسرے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جو اور بھی بدتر ہیں۔ اب قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جن کے لیے اقلیت اور اکثریت کی اصطلاحات مروج ہو گئی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان

وكره إبراهيم أجر النائحة والمغنية‏.‏ وقول الله تعالى ‏{‏ولا تكرهوا فتياتكم على البغاء إن أردن تحصنا لتبتغوا عرض الحياة الدنيا ومن يكرههن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم‏}‏‏.‏ ‏{‏وقال مجاهد‏}‏ ‏{‏فتياتكم‏}‏ إماؤكم‏.‏
اور ابرہیم نخعی نے نوحہ کرنے والیوں اور گانے والیوں کی اجرت کو مکروہ قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نور میں ) یہ فرمان کہ ” اپنی باندیوں کو جب کہ وہ پاک دامنی چاہتی ہوں، زنا کے لیے مجبور نہ کرو تاکہ تم اس طرح دنیا کی زندگی کا سامان ڈھونڈو، لیکن اگر کوئی شخص انہیں مجبور کرتا ہے تو اللہ ان پر جبر کئے جانے کے بعد ( انہیں ) معاف کرنے والا، ان پر رحم کرنے والا ہے ( قرآن کی آیت میں لفظ ) فتیاتکم، امائکم کے معنی ہے ( یعنی تمہاری باندیاں )

حدیث نمبر : 2282
حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن ابن شهاب، عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن أبي مسعود الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن‏.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے بیان کیا، ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ ( کے زنا ) کی خرچی اور کاہن کی مزدوری سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر : 2283
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا شعبة، عن محمد بن جحادة، عن أبي حازم، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن كسب الإماء‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حجادہ نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باندیوں کی زنا کی کمائی سے منع فرمایا تھا۔

آیت قرآنی اور ہر دو احادیث سے حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایا کہ رنڈی کی کمائی اور لونڈی کی کمائی حرام ہے۔ عہد جاہلیت میں لوگ اپنی لونڈیوں سے حرام کمائی حاصل کرتے اور ان سے بالجبر پیشہ کراتے تھے۔ اسلام نے نہایت سختی کے ساتھ اسے روکا اور ایسی کمائی کو لقمہ حرام قرار دیا۔ اسی طرح کہانت کا پیشہ بھی حرام قرار پایا نیز کتے کی قیمت سے بھی منع کیا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : نر کی جفتی ( پر اجرت ) لینا

حدیث نمبر : 2284
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الوارث، وإسماعيل بن إبراهيم، عن علي بن الحكم، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث اور اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علی بن حکم نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کدانے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ( حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے
 
Top