• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاجارۃ
باب : اگر کوئی زمین کو ٹھیکہ پر لے پھر ٹھیکہ دینے والا یا لینے والا مرجائے

وقال ابن سيرين ليس لأهله أن يخرجوه إلى تمام الأجل‏.‏ وقال الحكم والحسن وإياس بن معاوية تمضى الإجارة إلى أجلها‏.‏ وقال ابن عمر أعطى النبي صلى الله عليه وسلم خيبر بالشطر، فكان ذلك على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وصدرا من خلافة عمر، ولم يذكر أن أبا بكر وعمر جددا الإجارة بعد ما قبض النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اور ابن سیرین نے کہا کہ زمین والے بغیر مدت پوری ہوئے ٹھیکہ دار کو ( یا اس کے وارثوں کو ) بے دخل نہیں کر سکتے۔ اور حکم، حسن اور ایاس بن معاویہ نے کہا اجارہ مدت ختم ہونے تک باقی رہے گا۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا اجارہ آدھوں آدھ بٹائی پر یہودیوں کو دیا تھا۔ پھر یہی ٹھیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک رہا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بھی شروع خلافت میں۔ اور کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نیا ٹھیکہ کیا ہو۔

حدیث نمبر : 2285
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية بن أسماء، عن نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال أعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها، وأن ابن عمر حدثه أن المزارع كانت تكرى على شىء سماه نافع لا أحفظه‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماءنے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہودیوں کو ) خیبر کی زمین دے دی تھی کہ اس میں محنت کے ساتھ کاشت کریں اور پیداوار کا آدھا حصہ خود لے لیا کریں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بیان کیا کہ زمین کچھ کرایہ پر دی جاتی تھی۔ نافع نے اس کرایہ کی تعیین بھی کردی تھی لیکن وہ مجھے یا دنہیں رہا۔

حدیث نمبر : 2286
وأن رافع بن خديج حدث أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن كراء المزارع‏.‏ وقال عبيد الله عن نافع عن ابن عمر حتى أجلاهم عمر‏.‏
اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمینوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا تھا اور عبید اللہ نے نافع سے بیان کیا، اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ( خیبر کے یہودیوں کے ساتھ وہاں کی زمین کا معاملہ برابر چلتا رہا ) یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جلاوطن کردیا۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ کا منشائے باب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے زمین کی بٹائی کا ٹھیکہ طے فرمایا، جو حیات نبوی تک جاری رہا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تب اسی معاملہ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ اسلام ہونے کی حیثیت میں جاری رکھا حتی کہ ان کا بھی وصال ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی شروع خلافت میں اس معاملہ کو جاری رکھا۔ بعد میں یہودیوں کی مسلسل شرارتیں دیکھ کر ان کو خیبر سے جلاوطن کر دیا۔ پس ثابت ہوا کہ دو معاملہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کی موت ہوجانے سے وہ معاملہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ان کے وارث اسے جاری رکھیں گے ہاں اگر کسی معاملہ کو فریقین میں سے کسی ایک کی موت کے ساتھ مشروط کیا ہے تو پھر یہ امر دیگر ہے۔

روایت میں زمینوں کو کرایہ پر دینے کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی کہ فالتو زمین پڑی ہو جیسا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں حالات تھے، تو ایسے حالات میں مالکان زمین یا تو فالتو زمینوں کی خود کاشت کریں یا پھر بجائے کرایہ پر دینے کے اپنے کسی حاجت مند بھائی کو مفت دے دیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الحوالات


صحیح بخاری -> کتاب الحوالات
باب : حوالہ یعنی قرض کو کسی دوسرے پر اتارنے کا بیان اور اس کا بیان کہ حوالہ میں رجوع کرنا درست ہے یا نہیں

وهل يرجع في الحوالة وقال الحسن وقتادة إذا كان يوم أحال عليه مليا جاز‏.‏ وقال ابن عباس يتخارج الشريكان وأهل الميراث، فيأخذ هذا عينا وهذا دينا، فإن توي لأحدهما لم يرجع على صاحبه‏.‏
اور حسن اور قتادہ نے کہا کہ جب کسی کی طرف قرض منتقل کیا جارہا تھا تو اگر اس وقت وہ مالدار تھا تو رجوع جائز نہیں حوالہ پورا ہو گیا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر ساجھیوں اور وارثوں نے یوں تقسیم کی، کسی نے نقد مال لیا کسی نے قرضہ، پھر کسی کا حصہ ڈوب گیا تو اب وہ دوسرے ساجھی یا وارث سے کچھ نہیں لے سکتا۔

تشریح : یعنی جب محتال لہ نے حوالہ قبول کر لیا، تو اب پھر اس کو محیل سے مواخدہ کرنا اور اس سے اپنے قرض کا تقاضا کرنا درست ہے یا نہیں۔ حوالہ کہتے ہیں قرض کا مقابلہ دوسرے پر کر دینے کو جو قرض دار حوالہ کرے اس کو محیل کہتے ہیں اور جس کے قرض کا حوالہ کیا جائے اس کو محتال لہ اور جس پر حوالہ کیا جائے اس کو محتال علیہ کہتے ہیں۔ درحقیقت حوالہ دین کی بیع ہے بعوض دین کے مگر ضرورت سے جائز رکھا گیا ہے۔

قتادۃ اورحسن کے اثروں کو ابن ابی شیبہ اور اثرم نے وصل کیا، اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر محتال علیہ حوالہ ہی کے وقت مفلس تھا تو محتال لہ پھر محیل پر رجوع کرسکتا ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ محتال کسی حالت میں حوالہ کے بعد پھر محیل پر رجوع نہیں کرسکتا۔ حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ توی کی صورت میں محتال لہ محیل پر رجوع کرسکتا ہے۔ توی یہ ہے کہ محتال علیہ حوالہ ہی سے منکر ہو جائے اور حلف کھالے اور گواہ نہ ہوں۔ یا افلاس کی حالت میں مرجائے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا محتال محیل پر جب رجوع کر سکتا ہے کہ محتال علیہ کے مالداری کی شرط ہوئی ہو پھر وہ مفلس نکلے۔ مالکیہ نے کہا اگر محیل نے دھوکہ دیا ہو مثلاً وہ جانتا ہو کہ محتال علیہ دیوالیہ ہے لیکن محتال کو خبر نہ کی اس صورت میں رجوع جائز نہ ہوگا ورنہ نہیں۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2287
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏مطل الغني ظلم، فإذا أتبع أحدكم على ملي فليتبع‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قرض ادا کرنے میں ) مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جاے تو اسے قبول کرے۔

اس سے یہی نکلتا ہے کہ حوالہ کے لیے محیل اور محتال کی رضا مندی کافی ہے۔ محتال علیہ کی رضا مندی ضروری نہیں۔ جمہوری کا یہی قول ہے اور حنفیہ نے اس کی رضا مندی بھی شرط رکھی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحوالات
باب : قرض کسی مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں

حدیث نمبر : 2288
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن ابن ذكوان، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏مطل الغني ظلم، ومن أتبع على ملي فليتبع‏"‏‏.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ذکوان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مالدار کی طرف سے ( قرض ادا کرنے میں ) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالہ کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔

مطلب یہ ہے کہ کسی مالدار نے کسی کاقرض اگر اپنے سر لے لیا تو اس ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہوگا۔ چاہئیے کہ اسے فوراً ادا کردے، نیز جس کا قرض حوالہ کیا گیا ہے اسے بھی چاہئیے کہ اس کو قبول کرکے اس مالدار سے اپنا قرض وصول کرلے اور ایسے حوالہ سے انکار نہ کرے۔ ورنہ اس میں وہ خود نقصان اٹھائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحوالات
باب : اگر کسی میت کا قرض کسی ( زندہ ) شخص کے حوالہ کیا جائے تو جائز ہے

حدیث نمبر : 2289
حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة بن الأكوع ـ رضى الله عنه ـ قال كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ أتي بجنازة، فقالوا صل عليها‏.‏ فقال ‏"‏هل عليه دين‏"‏‏. ‏ قالوا لا‏.‏ قال ‏"‏فهل ترك شيئا‏"‏‏. ‏ قالوا لا‏.‏ فصلى عليه ثم أتي بجنازة أخرى، فقالوا يا رسول الله، صل عليها‏.‏ قال ‏"‏هل عليه دين‏"‏‏. ‏ قيل نعم‏.‏ قال ‏"‏فهل ترك شيئا‏"‏‏. ‏ قالوا ثلاثة دنانير‏.‏ فصلى عليها، ثم أتي بالثالثة، فقالوا صل عليها‏.‏ قال ‏"‏هل ترك شيئا‏"‏‏. ‏ قالوا لا‏.‏ قال ‏"‏فهل عليه دين‏"‏‏. ‏ قالوا ثلاثة دنانير‏.‏ قال ‏"‏صلوا على صاحبكم‏"‏‏. ‏ قال أبو قتادة صل عليه يا رسول الله، وعلى دينه‏.‏ فصلى عليه‏.‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوںنے آپ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ اس پر آپ نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پرہے؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ سلم نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگو ںنے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ بولے، یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز پڑھا دیجئے، ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے اس پر نماز پڑھائی۔

تشریح : ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے میں اس کا ضامن ہوں۔ حاکم کی روایت میں یوں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا، وہ اشرفیاں تجھ پر ہیں اور میت بری ہو گیا۔ جمہور علماءنے اس سے استدلال کیا ہے کہ ایسی کفالت صحیح ہے اور کفیل کو پھر میت کے مال میں رجوع کا حق نہیں پہنچتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر رجوع کی شرط کر لے تو رجوع کرسکتاہے۔ اوراگر ضامن کو یہ معلوم ہو کہ میت نادار ہے تو رجوع نہیں کرسکتا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میت بقدر قرض کے جائیداد چھوڑ گیا ہے تب تو ضمانت درست ہوگی ورنہ ضمانت درست نہ ہوگی۔ امام صاحب کا یہ قول صراحتاً حدیث کے خلاف ہے۔ ( وحیدی )

اور خود حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت ہے کہ حدیث نبوی کے خلاف میرا کوئی قول ہو اسے چھوڑ دو۔ جو لوگ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کے خلاف کرتے ہیں وہ سوچیں کہ قیامت کے دن حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کو کیا منہ دکھلائیں گے۔
ہر مسلمان کو یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ و رسول کے بعد جملہ ائمہ دین، مجتہدین، اولیاءکاملین، فقہائے کرام، بزرگان اسلام کا ماننا یہی ہے کہ ان کا احترام کامل دل میں رکھا جائے۔ ان کی عزت کی جائے، ان کی شان میں گستاخی کا کوئی لفظ نہ نکالا جائے۔ اور ان کے کلمات و ارشادات جو کتاب و سنت سے نہ ٹکرائیں وہ سر آنکھوں پر رکھے جائیں۔ ان کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور اگر خدانخواستہ ان کا کوئی فرمان ظاہر آیت قرآن یا حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو خود ان ہی کی وصیت کے تحت اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث کی اتبا ع کی جائے۔ یہی راہ نجات اور صراط مستقیم ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور ان کے کلمات ہی کو بنیاد دین ٹھہرا لیا گیا تو یہ اس آیت کے تحت ہوگا۔ ام لہم شرکٰوٓا شرعوا لہم من الدین ما لم باذن بہ اللہ ( الشوری : 21 ) کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں ( جو شریعت سازی میں خدا کی شرکت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ شریعت سازی دراصل محض ایک اللہ پاک کا کام ہے۔ ) جنہو ںنے دین کے نام پر ان کے لیے ایسی ایسی چیزوں کو شریعت کا نام دے دیا ہے جن کا اللہ پاک نے کوئی اذن نہیں دیا۔

صد افسوس کہ امت اس مرض میں ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے گرفتار ہے اور ابھی تک اس وباءسے شفائے کامل کے آثار نظر نہیں آتے۔ اللہم ارحم علی امۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم

خود ہندو پاکستان میں دیکھ لیجئے ! کونے کونے میں نئی نئی بدعات، عجیب عجیب رسومات نظر آئیں گی۔ کہیں محرم میں تعزیہ سازی ہو رہی ہے تو کہیں کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کہیں قبروں پر غلافوں کے جلوس نکالے جارہے ہیں تو کہیں علم اٹھائے جارہے ہیں تعجب مزیدیہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اس طرح اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ علماءہیں کہ منہ میں لگام لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ جواز تلاش کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ اس طرح باآسانی ان کی دکان چل سکتی ہے۔ ان اللہ و انا الیہ راجعون۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں : زاد الحاکم فی حدیث جابر فقال ہما علیک و فی مالک و المیت منہما بری قال نعم فصلی علیہ فجعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا لقی ابا قتادۃ یقول ما صنعت الدینار ان حتی کان اخر ذلک ان قال قد قضیتہا یا رسول اللہ قال الان حین بردت علیہ جلدہ و قد وقعت ہذہ القصۃ مرۃ اخری فروی۔ الدار قطنی من حدیث علی کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اتی بجنازۃ لم یسال عن شی من عمل الرجل و یسال عن دینہ فان قیل علیہ دین کف و ان قیل لیس علیہ دین صلی فاتی بجنازۃ فلما قام لیکبر سال ہل علیہ دین؟ فقالوا دینار ان فعدل عنہ فقال علی ہما علی یا رسول اللہ وہوبری منہما فصلی علیہ ثم قال لعلی جزاک اللہ خیرا و فک اللہ رہناک ( فتح الباری )

یعنی حدیث جابر میں حاکم نے یوں زیادہ کیا ہے کہ میت کے قرض والے وہ دو دینار تیرے اوپر تیرے مال میں سے ادا کرنے واجب ہو گئے۔ اور میت ان سے بری ہو گیا۔ اس پرصحابہ نے کہا، ہاں یا رسول اللہ واقعہ یہی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت پر نماز جنازہ پڑھائی۔ پس جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوقتادہ سے ملاقات فرماتے آپ دریافت کرتے تھے کہ اے ابوقتادہ ! تمہارے ان دو دیناروں کا وعدہ کیا ہوا؟ یہاں تک کہ ابوقتادہ نے کہہ دیا کہ حضور ان کو میں ادا کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا اب تم نے اس میت کی کھال کو ٹھنڈا کردیا۔ ایسا ہی واقعہ ایک مرتبہ اور بھی ہوا ہے جسے دارقطنی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا آپ اس کے کسی عمل کے بارے میں نہ پوچھتے مگر قرض سے متعلق ضرور پوچھتے۔ اگر اسے مقروض بتلایا جاتا تو آپ اس کا جنازہ نہ پڑھتے اور اگراس کے خلاف ہوتا تو آپ جناز پڑھا دیتے۔ پس ایک دن ایک جنازہ لایا گیا۔ جب آپ نماز کی تکبیر کہنے لگے تو پوچھا کہ کیا یہ مقروض ہے؟ کہا گیا کہ ہاں دو دینار کا مقروض ہے۔ پس آپ جنازہ پڑھنے سے رک گئے۔ یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ میں ادا کردوں گا۔ اور یہ میت ان سے بری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور فرمایا کہ اے علی ! اللہ تم کو جزائے خیر دے، اللہ تم کو بھی تمہارے رہن سے آزاد کرے یعنی تم کو جنت عطا کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی میت مقروض ہو اور اس وجہ سے اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھائی جارہی ہو تو اگرکوئی مسلمان اس کی مدد کرے اور اس کا قرضہ اپنے سر لے لے تو یہ بہت بڑا ثواب اور باعث رضائے خدا اور رسول ہے اور ا س حدیث کے ذیل میں داخل ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔ خاص طور پر جب کہ وہ دنیا سے کوچ کر رہا ہے۔ ایسے وقت ایسی امداد بڑی اہمیت رکھتی ہے مگر بعض نام نہاد مسلمانوں کی عقلوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایسی امداد پر ایک کوڑی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ویسے نام نمود کے لیے مردہ کی فاتحہ، تیجہ، چالیسواں، من گھڑت رسموں میں کتنا ہی روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ رسوم ہیں جن کا قرآن وحدیث و اقوال صحابہ حتی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر شکم پرور علماءنے ایسی رسموں کی حمایت میں ایک طوفان جدال کھڑا کر رکھا ہے۔ اور ان رسمو ںکو عین خوشنودی خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں اور ان کے اثبات کے لیے آیا ت قرآنی و احادیث نبوی میں وہ وہ تاویلات فاسدہ کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے سچ ہے
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا۔ من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد جو ہمارے دین میں ایسی نئی چیز نکالے جس کا ثبوت ہماری شریعت سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔ ظاہر ہے کہ رسوم مروجہ نہ عہد رسالت میں تھیں نہ عہد صحابہ و تابعین میں جب کہ ان زمانوں میں مسلمان وفات پاتے تھے، شہید ہوتے تھے مگر ان میں کسی کے بھی تیجہ چالیسویں کا ثبوت نہیں حتی کہ خود حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بھی ثبوت نہیں کہ ان کا تیجہ، چالیسواں کیا گیا ہو۔ نہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تیجہ فاتحہ ثابت ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو اپنی طرف سے شریعت میں کمی بیشی کرنا، خود لعنت خداوندی میں گرفتار ہونا ہے۔ اعاذنا اللہ منہا آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الکفالۃ


صحیح بخاری -> کتاب الکفالۃ

باب : قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں

شریعت میں یہ دونوں درست ہیں۔ ضامن کو مدینہ والے زعیم اور مصر والے حمیل اور عراق والے کفیل کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2290
وقال أبو الزناد عن محمد بن حمزة بن عمرو الأسلمي، عن أبيه، أن عمر ـ رضى الله عنه ـ بعثه مصدقا، فوقع رجل على جارية امرأته، فأخذ حمزة من الرجل كفيلا حتى قدم على عمر، وكان عمر قد جلده مائة جلدة، فصدقهم، وعذره بالجهالة‏.‏ وقال جرير والأشعث لعبد الله بن مسعود في المرتدين استتبهم، وكفلهم‏.‏ فتابوا وكفلهم عشائرهم‏.‏ وقال حماد إذا تكفل بنفس فمات فلا شىء عليه‏.‏ وقال الحكم يضمن‏.‏
اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد ( حمزہ ) نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے عہد خلافت میں ) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ ( جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے ) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کر لی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو معذور رکھا تھا اور جریر اور اشعث نے عبداللہ بن مسعود سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کی ضمانت طلب کیجئے ( کہ دوبارہ مرتد نہ ہوں گے ) چنانچہ انہوں نے توبہ کر لی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا جس کا حاضر ضامن ہو اگر وہ مر جائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا۔ لیکن حکم نے کہا کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔

حدیث نمبر : 2291
قال أبو عبد الله وقال الليث حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أنه ذكر رجلا من بني إسرائيل سأل بعض بني إسرائيل أن يسلفه ألف دينار، فقال ائتني بالشهداء أشهدهم‏.‏ فقال كفى بالله شهيدا‏.‏ قال فأتني بالكفيل‏.‏ قال كفى بالله كفيلا‏.‏ قال صدقت‏.‏ فدفعها إليه إلى أجل مسمى، فخرج في البحر، فقضى حاجته، ثم التمس مركبا يركبها، يقدم عليه للأجل الذي أجله، فلم يجد مركبا، فأخذ خشبة، فنقرها فأدخل فيها ألف دينار، وصحيفة منه إلى صاحبه، ثم زجج موضعها، ثم أتى بها إلى البحر، فقال اللهم إنك تعلم أني كنت تسلفت فلانا ألف دينار، فسألني كفيلا، فقلت كفى بالله كفيلا، فرضي بك، وسألني شهيدا، فقلت كفى بالله شهيدا، فرضي بك، وأني جهدت أن أجد مركبا، أبعث إليه الذي له فلم أقدر، وإني أستودعكها‏.‏ فرمى بها في البحر حتى ولجت فيه، ثم انصرف، وهو في ذلك يلتمس مركبا، يخرج إلى بلده، فخرج الرجل الذي كان أسلفه، ينظر لعل مركبا قد جاء بماله، فإذا بالخشبة التي فيها المال، فأخذها لأهله حطبا، فلما نشرها وجد المال والصحيفة، ثم قدم الذي كان أسلفه، فأتى بالألف دينار، فقال والله ما زلت جاهدا في طلب مركب لآتيك بمالك، فما وجدت مركبا قبل الذي أتيت فيه‏.‏ قال هل كنت بعثت إلى بشىء قال أخبرك أني لم أجد مركبا قبل الذي جئت فيه‏.‏ قال فإن الله قد أدى عنك الذي بعثت في الخشبة فانصرف بالألف الدينار راشدا‏"‏‏. ‏
ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی صفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری ( کشتی وغیرہ ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کرکے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ ( اور اس کا قرض ادا کردے ) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک ( اس مضمون کا ) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف ( یہ دینار بھیجے جارہے ہیں ) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور ( تو جانتا ہے کہ ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک ( مدت مقررہ میں ) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں ( کہ تو اس تک پہنچا دے ) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب ( قرض دار ) واپس ہو چکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں ( بندرگاہ ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینا رنکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ ( کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے ) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور ( یہ خیال کرکے کہ شادی وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھرانہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کر دیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ کا قول جو یہاں مذکور ہوا ہے اس کو امام بیہقی نے وصل کیا۔ اور ایک قصہ بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ ابن نواحہ کا موذن اذان میں یوں کہتا ہے اشہد ان مسیلمۃ رسول اللہ۔ انہوں نے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ ابن نواحہ کی تو گردن مار دی اور اس کے ساتھیوں کے باب میں مشورہ لیا۔ عدی بن حاتم نے کہا قتل کرو۔ جریر اور اشعث نے کہا ان سے توبہ کراؤ اور ضمانت لو۔ وہ ایک سو ستر آدمی تھے۔ ابن ابی شیبہ نے ایسا ہی نقل کیاہے۔

ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدود میں کفالت سے دیون میں بھی کفالت کا حکم ثابت کیا، لیکن حدود اور قصاص میں کوئی کفیل ہو اور اصل مجرم یعنی مکفول عنہ غائب ہو جائے تو کفیل پر حد یا قصاص نہ ہوگا اس پر اتفاق ہے لیکن قرضہ میں جو کفیل ہو اس کو قرض ادا کرنا ہوگا۔ ( وحیدی )
حدیث میں بنی اسرائیل کے جن دو شخصوں کا ذکر ہے ان کی مزید تفصیلات جو حدیث ہذا میں نہیں ہیں تو اللہ کے حوالہ ہیں کہ وہ لوگ کون تھے، کہاں کے باشندے تھے؟ کون سے زمانہ سے ان کا تعلق ہے؟ بہرحال حدیث میں مذکورہ واقعہ اس قابل ہے کہ اس سے عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہ دنیا دار الاسباب ہے اور یہاں ہر چیز ایک سبب سے وابستہ ہے۔ قدرت نے اس کارخانہ عالم کو اسی بنیاد پر قائم کیا مگر کچھ چیزیں مستثنیٰ بھی وجود پذیر ہوجاتی ہیں۔
ان ہر دو میں سے قرض لینے والے نے دل کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ محض ایک اللہ پاک ہی کا نام بطور ضامن اور کفیل پیش کر دیا۔ کیوں کہ اس کے دل میں قرض کے ادا کرنے کا یقینی جذبہ تھا۔ اور وہ قرض حاصل کرنے سے قبل عزم مصمم کر چکا تھا کہ اسے کسی نہ کسی صورت یہ قرض بالضرور واپس کرنا ہوگا، اسی عزم صمیم کی بنا پر اس نے یہ قدم اٹھایا۔ حدیث میں اسی لیے فرمایا گیا کہ جو شخص قرض لیتے وقت ادائیگی کا عزم صمیم رکھتا ہے اللہ پاک ضرور اس کی مدد کرتا اور اس کا قرض ادا کردیتا ہے۔ اسی لیے ادائیگی کے وقت وہ شخص کشتی کی تلاش میں ساحل بحر پر آیا کہ سوار ہو کر وقت مقررہ پر قرض ادا کرنے کے لیے قرض خواہ کے گھر حاضر ہوجائے۔ مگر اتفاق کہ تلاش بسیار کے باوجود اس کو سواری نہ مل سکی اور مجبوراً اس نے قرض کے دینار ایک لکڑی کے سوراخ میں بند کرکے اور اس کے ساتھ تعارفی پرچھ لکھ کر لکڑی کو دریا میں اللہ کے بھروسہ پر ڈال دیا۔ اس نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ لکڑی کی یہ رقم اگر اس قرض خواہ بھائی کو اللہ وصول کرا دے تو فبہا ورنہ وہ جب بھی وطن لوٹے گا اس کو دوبارہ یہ رقم ادا کرے گا۔ ادھر وہ قرض دینے والا ساحل بحر پر کسی آنے والی کشتی کا انتظار کررہا تھا کہ وہ بھائی وقت مقررہ پر اس کشتی سے آئے گا اور رقم ادا کردے گا۔ مگر وہ بھی ناکام ہو کر جا ہی رہا تھا کہ اچانک دریا میں اس بہتی ہوئی لکڑی پر نظر جاپڑی اور اس نے ایک عمدہ لکڑی جان کر ایندھن وغیرہ کے خیال سے اسے حاصل کر لیا۔ گھر لے جانے پر اس لکڑکو کو کھولا۔ تو حقیقت حال سے اطلاع پاکر اور اپنی رقم وصول کرکے مسرور ہوا چونکہ ادا کرنے والے حضرت کو وصول کرنے کی اطلاع نہ تھی وہ احتیاطا ً وطن آنے پر دوبارہ یہ رقم لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور تفصیلات سے ہر دو کو علم ہوا اور دونوں بے انتہا مسرور ہوئے۔
یہ توکل علی اللہ کی وہ منزل ہے جو ہر کسی کو نہیں حاصل ہوتی۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا تھا کہ اپنے اونٹ رات کو خوب مضبوط باندھ کر اللہ پر بھروسہ رکھو کہ اسے کوئی نہیں چرائے گا۔
گفت پیغمبر با آواز بلند بر توکل زانوے اشتر بہ بند
آج بھی ضرورت ہے کہ قرض حاصل کرنے والے مسلمان اس عزم صمیم و توکل علی اللہ کا مظاہر کریں کہ وہ اللہ کی توفیق سے ضرور ضرور قرض کی رقم جلد ہی واپس کریں گے۔ وہ ایسا کریں گے تو اللہ بھی ان کی مدد کرے گا اور ان سے ان کا قرض ادا کرادے گا۔
ان دونوں شخصوں کا نام معلوم نہیں ہوا۔ حافظ نے کہا محمد بن ربیع نے مسند صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ قرض دینے والا نجاشی تھا۔ اس صورت میں اس کو بنی اسرائیل فرمانا اس وجہ سے ہوگا کہ وہ بنی اسرائیل کا متبع تھا نہ یہ ہے کہ ان کی اولاد میں تھا۔ علامہ عینی نے اپنی عادت کے موافق حافظ صاحب پر اعتراض کیا اور حافظ صاحب کی وسعت نظر اور کثرت علم کی تعریف نہ کی۔ اور کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا حالانکہ حافظ نے خود فرمایا ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول ہے۔ ( وحیدی )
اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
و فی الحدیث جواز الاجل فی القرض ووجوب الوفاءبہ و فیہ التحدیث عما کان فی بنی اسرائیل و غیرہم من العجائب للاتعاظ و الائتساءو فیہ التجارۃ فی البحر و جواز رکوبہ و فیہ بداۃ الکاتب بنفسہ و فیہ طلب الشہود فی الدین و طلب الکفیل بہ و فیہ فضل التوکل علی اللہ و ان من صح توکلہ تکفل اللہ بنصرہ و عونہ الخ ( فتح )

یعنی اس حدیث میں جواز ہے کہ قرض میں وقت مقرر کیا جائے اور وقت مقرر پر ادائیگی کا وجوب بھی ثابت ہوا اور اس سے بنی اسرائیل کے عجیب و اقعات کا بیان کرنا بھی جائز ثابت ہوا تاکہ ان سے عبرت حاصل کی جائے، اور ان کی اقتداءکی جائے اور اس سے دریائی تجارت کا بھی ثبوت ہوا اور دریائی سواریوں پر سوار ہونا بھی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کاتب شروع میں اپنا نام لکھے اور اس سے قرض کے متعلق گواہوں کا طلب کرنا اور اس کے کفیل کا طلب بھی ثابت ہوا۔ اور اس سے توکل علی اللہ کی فضیلت بھی نکلی اور یہ بھی کہ جو حقیقی صحیح متوکل ہوگا اللہ پاک اس کی مدد اور نصرت کا ذمہ دار ہوتاہے۔
خود قرآن پاک میں ارشاد باری ہے و من یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ( الطلاق3 ) جو اللہ پر توکل کرے گا اللہ اس کے لیے کافی و وافی ہے۔ اس قسم کی بہت سی آیات قرآن مجید میں وارد ہیں۔ مگر اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جانے کا نام توکل نہیں ہے۔ بلکہ کام کو پوری قوت کے ساتھ انجام دینا اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کر دینا اور خیر کے لیے اللہ سے پوری پوری امید رکھنا یہ توکل ہے جو ایک مسلمان کے لیے داخل ایمان ہے۔ حدیث قدسی میں فرمایا انا عند ظن عبدی بی میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں وہ میرے متعلق جو بھی گمان قائم کرے گا۔ مطلب یہ کہ بندہ اللہ پر جیسا بھی بھروسہ کرے گا اللہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا۔ اسرائیلی مومن نے اللہ پر بھروسہ کرکے ایک ہزار اشرفیوں کی خطیر رقم کو اللہ کے حوالہ کر دیا۔ اللہ نے اس کے گمان کو صحیح کرکے دکھلایا۔

شروع میں ابولزناد کی روایت سے جو اوقعہ مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی کو اپنا ہی مال سمجھ کر اس سے بوجہ نادانی صحبت کر لی یہ مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت عالیہ میں آیا تو آپ نے اس کی نادانی کے سبب اس پر رجم کی سزا معاف کر دی مگر بطور تعزیر سو کوڑے لگوائے۔ پھر جب حضرت حمزہ اسلمی وہاں زکوٰۃ وصول کرنے بطور تحصیل دار گئے، تو ان کے سامنے بھی یہ معاملہ آیا۔ ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کا علم نہ تھا۔ لوگوں نے ذکرکیا تب ان کو یقین نہ آیا۔ اس لیے قبیلہ والوں میں سے کسی نے اپنی ضمانت پیش کی کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی تصدیق فرما لیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ ضمانت قبول کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس واقعہ کی تصدیق چاہی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے حاضر ضمانت کو ثابت فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکفالۃ
باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “

حدیث نمبر : 2292
حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا أبو أسامة، عن إدريس، عن طلحة بن مصرف، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما – ‏{‏ولكل جعلنا موالي‏}‏ قال ورثة ‏{‏والذين عقدت أيمانكم‏}‏ قال كان المهاجرون لما قدموا المدينة يرث المهاجر الأنصاري دون ذوي رحمه للأخوة التي آخى النبي صلى الله عليه وسلم بينهم، فلما نزلت ‏{‏ولكل جعلنا موالي‏}‏ نسخت، ثم قال ‏{‏والذين عقدت أيمانكم ‏}‏ إلا النصر والرفادة والنصيحة، وقد ذهب الميراث ويوصي له‏.‏
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ ( قرآن مجید کی آیت لکل جعلنا موالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا کہ ( موالی کے معنی ) ورثہ کے ہیں۔ اور والذین عقدت ایمانکم ( کا قصہ یہ ہے کہ ) مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اس بھائی پنے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی تھی۔ پھر جب آیت و لکل جعلنا موالی نازل ہوئی تو پہلی آیت والذین عقدت ایمانکم منسوخ ہو گئی۔ سوا امداد، تعاون اور خیر خواہی کے۔ البتہ میراث کا حکم ( جو انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا ) وہ منسوخ ہو گیا اور وصیت جنتی چاہے کی جاسکتی ہے۔ ( جیسی اور شخصوں کے لیے بھی ہو سکتی ہے تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جاسکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا۔ )

تشریح : یعنی مولی الموالاۃ سے عرب لوگوں میں دستور تھا کسی سے بہت دوستی ہو جاتی تو اس سے معاہدہ کرتے اور کہتے کہ تیرا خون ہمارا خون ہے اور تو جس سے لڑے ہم اس سے لڑیں تو جس سے صلح کرے ہم اس سے صلح کریں۔ تو ہمارا وارث ہم تیرے وارث، تیرا قرضہ ہم سے لیا جائے گا ہمارا قرضہ تجھ سے، تیری طرف سے ہم دیت دیں تو ہماری طرف سے۔

شروع زمانہ اسلام میں ایسے شخص کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملنے کا حکم ہوا تھا۔ پھر یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔ و اولوا الارحام بعضہم اولی ببعض فی کتب اللہ ( الانفال : 75 ) ابن منیر نے کہا کفالت کے باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کو اس لیے لائے کہ جب حلف سے جو ایک عقد تھا، شروع زمانہ اسلام میں ترکہ کا استحقاق پیدا ہو گیا تو کفالت کرنے سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر پیدا ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک عقد ہے۔

عربوں میں جاہلی دستور تھا کہ بلا حق وناحق دیکھے کسی اہم موقع پر محض قبائلی عصبیت کے تحت قسم کھا بیٹھتے کہ ہم ایسا ایسا کریں گے۔ خواہ حق ہو تا یا ناحق، اسی کو حلف جاہلیت کہا گیا۔ اور بتلایا کہ اسلام میں ایسی غلط قسم کی قسموں کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام سراسر عدل کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا ولا یجرمنکم شنان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقوی ( المائدۃ : 8 )

محض قومی عصبیت کی بنا پر ہرگز ظلم پر کمر نہ باندھو، انصاف کرو کہ تقویٰ سے انصاف ہی قریب ہے۔
قال الطبری ما استدل بہ انس علی اثبات الحلف لا ینافی حدیث جبیر بن مطعم فی نفیہ فان الاخاءالمذکور کان فی اول الہجرۃ و کانوا یتوارثون بہ ثم نسخ من ذلک المیراث و بقی مالکم یبطلہ القرآن و ہو التعاون علی الحق والنصر و الاخذ علی ید الظالم کما قال ابن عباس الا النصر والنصیحۃ و الوفادۃ و یوصی لہ و قد ذہب المیراث ( فتح )

یعنی طبری نے کہا کہ اثبات حلف کے لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو استدلال کیا وہ جبیر بن مطعم کی نفی کے خلاف نہیں ہے۔ اخاءمذکور یعنی اس قسم کا بھائی چارہ شروع ہجرت میں قائم کیا گیا تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میراث کو منسوخ کر دیا گیا اور وہ چیز اپنی حالت پر باقی رہ گئی جس کو قرآن مجید نے باطل قرار نہیں دیا۔ اور وہ حق پر باہمی تعاون اور امداد کرنا اور ظالم کے ہاتھ پکڑنا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میراث تو چلی گئی مگر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا یہ چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔ بلکہ اپنے بھائیوں کے لیے وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔
واقعہ مواخات اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ مہاجر جو اپنے گھر بار وطن چھوڑ کر مدینہ شریف چلے آئے تھے ان کی دلجوئی بہت ضروری تھی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے باشندگان انصار میں ان کو تقسیم فرما دیا۔ انصاری بھائیوں نے جس خلوص اور رفاقت کا ثبوت دیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنی ناممکن ہے۔ آخر یہی مہاجر مدینہ کے زندگی میں گھل مل گئے۔ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر خود انصار کے لیے باعث تقویت ہو گئے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
آج مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر انصار مدینہ اور مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم کا یہ ذکر خیر یہاں لکھتے ہوئے دل پر ایک رقت آمیز اثر محسوس کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ انصار و مہاجرین قصر اسلام کے دو اہم ترین ستون ہیں جن پر اس عظیم قصر کی تعمیر ہوئی ہے۔ آج بھی مدینہ کی فضا ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے تاثرات سے بھر پور نظر آرہی ہے۔ مسجد نبوی حرم نبوی میں مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر عبادت الٰہی و صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور سب میں مواخات اور اسلامی محبت کی ایک غیر محسوس لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر مسلمان یہاں سے جانے کے بعد بھی باہمی مواخات کو ہر ہر جگہ قائم رکھیں تو دنیائے انسانیت کے لیے وہ ایک بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔ 4 صفر 1390ھ کو محترم بھائی حاجی عبدالرحمن سندی باب مجیدی مدینہ منور کے دولت کدہ پر یہ الفاظ نظر ثانی کرتے ہوئے لکھے گئے۔ بہ سلسلہ اشاعت بخاری شریف مترجم اردو حاجی صاحب موصوف کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے امید ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والے بھائی دعائے خیر کریں گے۔

حدیث نمبر : 2293
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قدم علينا عبد الرحمن بن عوف فآخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ یہاں آئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کرایا تھا۔

حدیث نمبر : 2294
حدثنا محمد بن الصباح، حدثنا إسماعيل بن زكرياء، حدثنا عاصم، قال قلت لأنس رضى الله عنه أبلغك أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا حلف في الإسلام‏"‏‏. ‏ فقال قد حالف النبي صلى الله عليه وسلم بين قريش والأنصار في داري‏.
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، اسلام میں جاہلیت والے ( غلط قسم کے ) عہد و پیمان نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود انصار اور قریش کے درمیان میرے گھر میں عہد و پیمان کرایا تھا۔

معلوم ہوا کہ عہد و پیمان اگر حق اور انصاف اور عدل کی بنا پر ہو تو وہ مذموم نہیں ہے بلکہ ضروری ہے مگر اس عہد وپمان میں صرف باہمی مدد و خیر خواہی مد نظر ہوگی۔ اور ترکہ کا ایسے بھائی چارہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا کہ وہ وارثوں کا حق ہے۔ یہ امردیگر ہے کہ ایسے مواقع پر حسب قائدہ شرعی مرنے والے کو وصیت کا حق حاصل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکفالۃ
باب : جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کرسکتا، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا

حدیث نمبر : 2295
حدثنا أبو عاصم، عن يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة بن الأكوع ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بجنازة، ليصلي عليها، فقال ‏"‏هل عليه من دين‏"‏‏. ‏ قالوا لا‏.‏ فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقال ‏"‏هل عليه من دين‏"‏‏. ‏ قالوا نعم‏.‏ قال ‏"‏صلوا على صاحبكم‏"‏‏. ‏ قال أبو قتادة على دينه يا رسول الله‏.‏ فصلى عليه‏.‏
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھادی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا، کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ ضامن اپنی ضمانت سے رجوع نہیں کرسکتا۔ جب وہ میت کے قرضے کا ضامن ہو۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ابوقتادہ کی ضمانت کے سبب اس پر نماز پڑھ لی۔ اگر رجوع جائز ہوتا تو جب تک ابوقتادہ رضی اللہ عنہ یہ قرض ادا نہ کردیتے آپ اس پر نماز نہ پڑھتے۔

حدیث نمبر : 2296
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، سمع محمد بن علي، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهم ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لو قد جاء مال البحرين، قد أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا‏"‏‏. ‏ فلم يجئ مال البحرين حتى قبض النبي صلى الله عليه وسلم فلما جاء مال البحرين أمر أبو بكر فنادى من كان له عند النبي صلى الله عليه وسلم عدة أو دين فليأتنا‏.‏ فأتيته، فقلت إن النبي صلى الله عليه وسلم قال لي كذا وكذا، فحثى لي حثية فعددتها فإذا هي خمسمائة، وقال خذ مثليها‏.
ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن علی باقر سے سنا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بحرین سے ( جزیہ کا ) مال آیا تو میں تمہیں اس طرح دونوں لپ بھر بھر کر دوں گا لیکن بحرین سے مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک نہیں آیا پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرا دیا کہ جس سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی وعدہ ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہو وہ ہمارے یہاں آجائے۔ چنانچہ میں حاضر ہوا۔ اور میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ وہ باتیں فرمائی تھیں۔ جسے سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے دو گنا اور لے لو۔

سب تین لپ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لپ کا وعدہ فرمایا تھا جیسے دوسری روایت میں ہے جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شہادات میں نکالا، اس کی تصریح ہے۔ باب کا مطلب اس سے یوں نکالا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور جانشین ہوئے تو گویا آپ کے سب معاملات اور وعدوں کے وہ کفیل ٹھہرے اور ان کو ان وعدوں کا پورا کرنا لازم ہوا۔ ( قسطلانی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکفالۃ
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ( ایک مشرک کا ) امان دینا اور اس کے ساتھ آپ کا عہد کرنا

جو حدیث اس باب میں لائے اس کی مطابقت اس طرح ہے کہ پناہ دینے والے نے جس کو پناہ دی، گویا اس کی عدم ایذا کا متکفل ہوا۔ اور اس پر اس کفالت کا پورا کرنا لازم ہوا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ عدم ایذا دستی اور لسانی کی ضمانت کرنا درست ہے۔ جیسے ہمارے زمانے میں رائج ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2297
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، قال ابن شهاب فأخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لم أعقل أبوى إلا وهما يدينان الدين‏.‏ وقال أبو صالح حدثني عبد الله عن يونس عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لم أعقل أبوى قط، إلا وهما يدينان الدين، ولم يمر علينا يوم إلا يأتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفى النهار بكرة وعشية، فلما ابتلي المسلمون خرج أبو بكر مهاجرا قبل الحبشة، حتى إذا بلغ برك الغماد لقيه ابن الدغنة ـ وهو سيد القارة ـ فقال أين تريد يا أبا بكر فقال أبو بكر أخرجني قومي فأنا أريد أن أسيح في الأرض فأعبد ربي‏.‏ قال ابن الدغنة إن مثلك لا يخرج ولا يخرج، فإنك تكسب المعدوم، وتصل الرحم، وتحمل الكل، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، وأنا لك جار فارجع فاعبد ربك ببلادك‏.‏ فارتحل ابن الدغنة، فرجع مع أبي بكر، فطاف في أشراف كفار قريش، فقال لهم إن أبا بكر لا يخرج مثله، ولا يخرج، أتخرجون رجلا يكسب المعدوم، ويصل الرحم، ويحمل الكل، ويقري الضيف، ويعين على نوائب الحق‏.‏ فأنفذت قريش جوار ابن الدغنة وآمنوا أبا بكر وقالوا لابن الدغنة مر أبا بكر فليعبد ربه في داره، فليصل وليقرأ ما شاء، ولا يؤذينا بذلك، ولا يستعلن به، فإنا قد خشينا أن يفتن أبناءنا ونساءنا‏.‏ قال ذلك ابن الدغنة لأبي بكر، فطفق أبو بكر يعبد ربه في داره، ولا يستعلن بالصلاة ولا القراءة في غير داره، ثم بدا لأبي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره، وبرز فكان يصلي فيه، ويقرأ القرآن، فيتقصف عليه نساء المشركين وأبناؤهم، يعجبون وينظرون إليه، وكان أبو بكر رجلا بكاء لا يملك دمعه حين يقرأ القرآن، فأفزع ذلك أشراف قريش من المشركين، فأرسلوا إلى ابن الدغنة فقدم عليهم، فقالوا له إنا كنا أجرنا أبا بكر على أن يعبد ربه في داره، وإنه جاوز ذلك، فابتنى مسجدا بفناء داره، وأعلن الصلاة والقراءة، وقد خشينا أن يفتن أبناءنا ونساءنا، فأته فإن أحب أن يقتصر على أن يعبد ربه في داره فعل، وإن أبى إلا أن يعلن ذلك فسله أن يرد إليك ذمتك، فإنا كرهنا أن نخفرك، ولسنا مقرين لأبي بكر الاستعلان‏.‏ قالت عائشة فأتى ابن الدغنة أبا بكر، فقال قد علمت الذي عقدت لك عليه، فإما أن تقتصر على ذلك وإما أن ترد إلى ذمتي، فإني لا أحب أن تسمع العرب أني أخفرت في رجل عقدت له‏.‏ قال أبو بكر إني أرد إليك جوارك، وأرضى بجوار الله‏.‏ ورسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ بمكة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏قد أريت دار هجرتكم، رأيت سبخة ذات نخل بين لابتين‏"‏‏. ‏ وهما الحرتان، فهاجر من هاجر قبل المدينة حين ذكر ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجع إلى المدينة بعض من كان هاجر إلى أرض الحبشة، وتجهز أبو بكر مهاجرا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏على رسلك فإني أرجو أن يؤذن لي‏"‏‏. ‏ قال أبو بكر هل ترجو ذلك بأبي أنت قال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏ فحبس أبو بكر نفسه على رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصحبه وعلف راحلتين كانتا عنده ورق السمر أربعة أشهر‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیرو کار پایا۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ ان سے یونس نے، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک الغماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا۔ اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کرلیا کریں۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں اور نہ اس کا اظہار کریں، کیوں کہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اند رہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کروہاں نماز پڑھنے لگے۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے، لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑجائیں۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں، پھر تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کردیں۔ کیوں کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑد یں۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا توآپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کردیں۔ کیوں کہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کرکے چلے گئے۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کرکے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جلدی نہ کرو، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا آپ کو اس کی امید ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ضرور ! چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے، تاکہ آپ کے ساتھ ہجرت کریں۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔

تشریح : یہ حدیث واقعہ ہجرت سے متعلق بہت سی معلومات پر مشتمل ہے، نیز اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا استقلال اور توکل علی اللہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسی شہر مکہ میں ( جہاں بیٹھ کر کعبہ مقدس میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثاروں کو انتہائی ایذائیں دی جارہی تھیں۔ جن سے مجبور ہو کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یہ مقدس شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اور ہجرت حبشہ کے ارادے سے برک الغماد نامی ایک مقام قریب مکہ میں پہنچ چکے تھے۔ کہ آپ کو قارہ قبیلے کا ایک سردار مالک بن دغنہ ملا۔ قارہ بنی اہون قبیلہ کی ایک شاخ تھی جو تیراندازی میں مشہورتھے۔ اس قبیلے کے سردار مالک بن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب حالت سفر میں کوچ کرتے دیکھا تو فوراً اس کے منہ سے نکلا کہ آپ جیسا شریف آدمی جو غریب پرور ہو، صلہ رحمی کرنے والا ہو، جو دوسروں کا بوجھ اپنے سر اٹھا لیتا ہو اور جو مہمان نوازی میں بے نظیر خوبیوں کا مالک ہو، ایسا نیک ترین انسان ہرگز مکہ سے نہیں نکل سکتا۔ نہ وہ نکالا جاسکتا ہے۔ آپ میری پناہ میں ہو کر واپس مکہ تشریف لے چلئے اور وہیں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔ اور ابن دغنہ نے مکہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے امن دینے کا اعلان عام کر دیا۔ جسے قریش نے بھی منظور کر لیا، مگر یہ شرط ٹھہرائی کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ علانیہ نماز نہ پڑھیں۔ نہ تلاوت قرآن فرمائیں، جسے سن کر ہمارے نوجوان بگڑ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گھر کے اندر تنگی محسوس فرما کر باہر دالان میں بیٹھنا اور قرآن شریف پڑھنا شروع فرما دیا۔ اسی پر کفار قریش نے شکوہ وشکایتوں کا سلسلہ شروع کرکے ابن دغنہ کو ورغلایا اور وہ اپنی پناہ واپس لینے پر تیار ہو گیا۔ جس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صاف فرما دیا کہ انی ارد الیک جوارک و ارضی بجوار اللہ یعنی اے ابن دغنہ ! میں تمہاری پناہ تم کو واپس کرتا ہوں اور میں اللہ پاک کی امان پر راضی ہوں۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف ہی میں موجود تھے، آپ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات فرمائی تو بتلایا کہ جلد ہی ہجرت کا واقعہ سامنے آنے والا ہے۔ اور اللہ نے مجھے تمہاری ہجرت کا مقام بھی دکھلایا دیا ہے۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ طیبہ سے تھی۔ اس بشارت کو سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹینوں کو سفر کے لیے تیا رکرنے کے خیال سے ببول کے پتے بکثرت کھلانے شروع کر دیئے۔ تاکہ وہ تیز رفتاری سے ہجرت کے وقت سفر کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ آپ چار ماہ تک لگاتار ان سواریوں کو سفر ہجرت کے لیے تیار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہجرت کا وقت آگیا۔

اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ ابن دعنہ نے گویا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ضمانت کی تھی، کہ ان کو مالی اور بدنی ایذا نہ پہچنے۔ حافظ فرماتے ہیں : و الغرض من ہذا الحدیث ہنا رضا ابی بکر بجوار ابن الدعنۃ و تقریر النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہ علی ذلک ووجہ دخولہ فی الکفالۃ انہ لائق بکفالۃ الابدان لان الذی اجارہ کانہ تکفل بنفس المجار ان لا یضام قالہ ابن المنیر ( فتح ) یعنی یہاں اس حدیث کے درج کرنے سے غرض یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کی پڑوس اور اس کی پناہ دینے پر راضی ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو ثابت رکھا۔ اور اس حدیث کو باب الکفالۃ میں داخل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ابدان کا کفالت میں دینا جائز ثابت ہوا۔ گویا جس نے ان کو پناہ دی وہ ان کی جان کے کفیل بن گئے کہ ان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے گی۔

اللہ کی شان ایک وہ وقت تھا اور ایک وقت آج ہے کہ مکہ معظمہ ایک عظیم اسلامی مرکز کی حیثیت میں دنیائے اسلام کے ستر کروڑ انسانوں کا قبلہ و کعبہ بنا ہوا ہے۔ جہاں ہر سال بر تقریب حج 20-25 لاکھ مسلمان جمع ہو کر صداقت اسلام کا اعلان کرتے ہیں۔ الحمد للہ الذی صدق وعدہ و نصر عبدہ و ہزم الاحزاب و حدہ فلا شی بعدہ۔
آج 22ذی الجحجہ 1389ھ کو بعد مغرب مطاف مقدس میں بیٹھ کر یہ نوٹ حوالہ قلم کیا گیا۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکفالۃ
باب : قرض کا بیان

حدیث نمبر : 2298
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤتى بالرجل المتوفى عليه الدين فيسأل ‏"‏هل ترك لدينه فضلا‏"‏‏. ‏ فإن حدث أنه ترك لدينه وفاء صلى، وإلا قال للمسلمين ‏"‏صلوا على صاحبكم‏"‏‏. ‏ فلما فتح الله عليه الفتوح قال ‏"‏أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن توفي من المؤمنين فترك دينا فعلى قضاؤه، ومن ترك مالا فلورثته‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسے میت کو لایا جاتا جس پر کسی کا قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کیا اس نے اپنے قرض کے ادا کرنے کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ پھر اگر کوئی آپ کو بتا دیتا کہ ہاں اتنا مال ہے جس سے قرض ادا ہو سکتا ہے۔ تو آپ اس کی نماز پڑھاتے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں ہی سے فرمادیتے کہ اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح کے دروازے کھول دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ مستحق ہوں۔ اس لیے اب جو بھی مسلمان وفات پا جائے اور وہ مقروض رہا ہو تو اس کا قرض ادا کرنا میرے ذمے ہے اور جو مسلمان مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔

تشریح : معلوم ہوا کہ قرض داری بری بلا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ سے نماز نہیں پڑھائی، اسی لیے قرض سے ہمیشہ بچنے کی دعا کرنا ضروری ہے۔ اگر مجبوراً قرض لینا پڑے تو اس کی ادائیگی کی کامل نیت رکھنا چاہئے۔ اس طرح اللہ پاک بھی اس کی مدد کرے گا۔ اور اگر دل میں بے ایمانی ہو تو پھر اللہ بھی ایسے ظالم کی مدد نہیں کرتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الوکالۃ


صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
(کتاب وکالت کے مسائل کے بیان میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

لغت میں وکالت کے معنی سپرد کرنا اور شریعت میں وکالت اس کو کہتے ہیں کہ آدمی اپنا کوئی کام کسی کے سپرد کرے بشرطیکہ اس کام میں نیابت اور قائم مقامی ہو سکتی ہو۔ آج یوم عاشورہ کو کعبہ شریف میں بوقت تہجد یہ نوٹ لکھا گیا۔

باب : تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا

وقد أشرك النبي صلى الله عليه وسلم عليا في هديه ثم أمره بقسمتها‏.‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی قربانی کے جانور میں شریک کر لیا پھر انہیں حکم دیا کہ فقیروں کو بانٹ دیں۔

حدیث نمبر : 2299
حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن علي ـ رضى الله عنه ـ قال أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أتصدق بجلال البدن التي نحرت وبجلودها‏.‏
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کی، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو میں خیرات کردوں جنہیں قربانی کیا گیا تھا۔

اس روایت میں گوشت کا ذکر نہیں، مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو کتاب الشرکۃ میں نکالا ہے۔ اس میں صاف یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قربانی میں شریک کر لیا تھا۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وکیل بنایا۔ اسی سے وکالت کا جواز ثابت ہوا جو باب کا مقصد ہے۔

حدیث نمبر : 2300
حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا الليث، عن يزيد، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أعطاه غنما يقسمها على صحابته، فبقي عتود فذكره للنبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ضح أنت‏"‏‏.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بکریاں ان کے حوالہ کی تھیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کو تقسیم کردیں۔ ایک بکری کا بچہ باقی رہ گیا۔ جب اس کا ذکر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی تو قربانی کرلے۔

اس سے بھی وکالت ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو اس کی اپنے موکل سے تحقیق کرلے۔
 
Top