Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : اگر کوئی مسلمان دار الحرب یا دار الاسلام میں کسی حربی کافر کو اپنا وکیل بنائے تو جائز ہے
حدیث نمبر : 2301
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن أبيه، عن جده عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ قال كاتبت أمية بن خلف كتابا بأن يحفظني في صاغيتي بمكة، وأحفظه في صاغيته بالمدينة، فلما ذكرت الرحمن قال لا أعرف الرحمن، كاتبني باسمك الذي كان في الجاهلية. فكاتبته عبد عمرو فلما كان في يوم بدر خرجت إلى جبل لأحرزه حين نام الناس فأبصره بلال فخرج حتى وقف على مجلس من الأنصار فقال أمية بن خلف، لا نجوت إن نجا أمية. فخرج معه فريق من الأنصار في آثارنا، فلما خشيت أن يلحقونا خلفت لهم ابنه، لأشغلهم فقتلوه ثم أبوا حتى يتبعونا، وكان رجلا ثقيلا، فلما أدركونا قلت له ابرك. فبرك، فألقيت عليه نفسي لأمنعه، فتخللوه بالسيوف من تحتي، حتى قتلوه، وأصاب أحدهم رجلي بسيفه، وكان عبد الرحمن بن عوف يرينا ذلك الأثر في ظهر قدمه.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے صالح کے دادا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے امیہ بن خلف سے یہ معاہدہ اپنے اور اس کے درمیان لکھوایا کہ وہ میرے بال بچوں یا میری جائیداد کی جو مکہ میںہے، حفاظت کرے اور میں اس کی جائیداد کی جو مدینہ میں ہے حفاظت کروں۔ جب میں نے اپنا نام لکھتے وقت رحمان کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میں رحمن کو کیا جانوں۔ تم اپنا وہی نام لکھواؤ جو زمانہ جاہلیت میں تھا۔ چنانچہ میں نے عبد عمرو لکھوایا۔ بدر کی لڑائی کے موقع پر میں ایک پہاڑ کی طرف گیا تاکہ لوگوں سے آنکھ بچا کر اس کی حفاظت کرسکوں، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور فوراً ہی انصار کی ایک مجلس میں آئے۔ انہوں نے مجلس والوں سے کہا کہ یہ دیکھو امیہ بن خلف ( کافر دشمن اسلام ) ادھر موجود ہے۔ اگر امیہ کافر بچ نکلا تو میری ناکامی ہوگی۔ چنانچہ ان کے ساتھ انصار کی ایک جماعت ہمارے پیچھے ہولی۔ جب مجھے خوف ہوا کہ اب یہ لوگ ہمیں آلیں گے تو میں نے اس کے لڑکے کو آگے کر دیا تاکہ اس کے ساتھ ( آنے والی جماعت ) مشغول رہے، لیکن لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور پھر بھی وہ ہماری ہی طرف بڑھنے لگے۔ امیہ بہت بھاری جسم کا تھا۔ آخر جب جماعت انصار نے ہمیں آلیا ا تو میں نے اس سے کہا کہ زمین پر لیٹ جا۔ جب وہ زمین پر لیٹ گیا تو میں نے اپنا جسم اس کے اوپر ڈال دیا۔ تاکہ لوگوں کو روک سکوں، لیکن لوگوں نے میرے جسم کے نیچے سے اس کے جسم پر تلوار کی ضربات لگائیں اور اسے قتل کرکے ہی چھوڑا۔ ایک صحابنی نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں کو بھی زخمی کردیا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اس کا نشان اپنے قدم کے اوپر ہمیں دکھایا کرتے تھے۔
تشریح : اس کا نام علی بن امیہ تھا۔ اس کی مزید شرح غزوہ بدر کے ذکر میں آئے گی۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ امیہ کافر حربی تھا۔ اور دار الحرب یعنی مکہ میں مقیم تھا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مسلمان تھے لیکن انہوں نے اس کو وکیل کیا اور جب دار الحرب میں اس کو وکیل کرنا جائز ہوا تو اگر وہ امان لے کر دار الاسلام میں آئے جب بھی اس کو وکیل کرنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ ابن منذر نے کہا اس پر علماءکا اتفاق ہے۔ کسی کا اس میں اختلاف نہیں کہ کافر حربی مسلمان کو وکیل یا مسلمان کافر حربی کو وکیل بنائے دونوں درست ہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلے اسی امیہ کے غلام تھے۔ اس نے آپ کو بے انتہا تکالیف بھی دی تھیں۔ تاکہ آپ اسلام سے پھر جائیں۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آخر تک ثابت قدم رہے یہاں تک کہ بدر کا معرکہ ہوا۔ اس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس ملعون کو دیکھ کر انصار کو بلایا۔ تاکہ ان کی مدد سے اسے قتل کیا جائے۔ مگر چونکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اور اس ملعون امیہ کی باہمی خط و کتاب تھی اس لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اسے بچانا چاہا۔ اور اس کے لڑکے کو انصار کی طرف دھکیل دیا۔ تاکہ انصار اسی کے ساتھ مشغول رہیں۔ مگر انصار نے اس لڑکے کو قتل کرکے امیہ پر حملہ آور ہونا چاہا کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس کے اوپر لیٹ گئے تاکہ اس طرح اسے بچا سکیں۔ مگر انصار نے اسے آخر میں قتل کر ہی دیا۔ اور اس جھڑپ میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کا پاؤں بھی زخمی ہوگیا۔ جس کے نشانات وہ بعد میں دکھلایا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر فرماتے ہیں : و وجہ اخذ الترجمۃ من ہذا الحدیث ان عبدالرحمن بن عوف و ہو مسلم فی دار الاسلام فوض الی امیۃ بن خلف وہو کافر فی دار الحرب ما یتعلق بامورہ و الظاہر اطلاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم و لم ینکرہ و قال ابن المنذر توکیل المسلم حربیا مستامنا و توکیل الحربی المستامن مسلما لا خلاف فی جوازہ یعنی اس حدیث سے ترجمۃ الباب اس طرح ثابت ہوا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان تھے۔ اور دار الاسلام میں تھے۔ انہوں نے اپنا مال دار الحرب میں امیہ بن خلف کافر کے حوالہ کردیا اور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہیں فرمایا۔ اس لیے ابن منذر نے کہا ہے کہ مسلمان کا کسی امانت دار حربی کافر کو وکیل بنانا اور کسی حربی کافر کا کسی امانت دار مسلمان کو اپنا وکیل بنا لینا ان کے جوازمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
باب : اگر کوئی مسلمان دار الحرب یا دار الاسلام میں کسی حربی کافر کو اپنا وکیل بنائے تو جائز ہے
حدیث نمبر : 2301
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن أبيه، عن جده عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ قال كاتبت أمية بن خلف كتابا بأن يحفظني في صاغيتي بمكة، وأحفظه في صاغيته بالمدينة، فلما ذكرت الرحمن قال لا أعرف الرحمن، كاتبني باسمك الذي كان في الجاهلية. فكاتبته عبد عمرو فلما كان في يوم بدر خرجت إلى جبل لأحرزه حين نام الناس فأبصره بلال فخرج حتى وقف على مجلس من الأنصار فقال أمية بن خلف، لا نجوت إن نجا أمية. فخرج معه فريق من الأنصار في آثارنا، فلما خشيت أن يلحقونا خلفت لهم ابنه، لأشغلهم فقتلوه ثم أبوا حتى يتبعونا، وكان رجلا ثقيلا، فلما أدركونا قلت له ابرك. فبرك، فألقيت عليه نفسي لأمنعه، فتخللوه بالسيوف من تحتي، حتى قتلوه، وأصاب أحدهم رجلي بسيفه، وكان عبد الرحمن بن عوف يرينا ذلك الأثر في ظهر قدمه.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے صالح کے دادا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے امیہ بن خلف سے یہ معاہدہ اپنے اور اس کے درمیان لکھوایا کہ وہ میرے بال بچوں یا میری جائیداد کی جو مکہ میںہے، حفاظت کرے اور میں اس کی جائیداد کی جو مدینہ میں ہے حفاظت کروں۔ جب میں نے اپنا نام لکھتے وقت رحمان کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میں رحمن کو کیا جانوں۔ تم اپنا وہی نام لکھواؤ جو زمانہ جاہلیت میں تھا۔ چنانچہ میں نے عبد عمرو لکھوایا۔ بدر کی لڑائی کے موقع پر میں ایک پہاڑ کی طرف گیا تاکہ لوگوں سے آنکھ بچا کر اس کی حفاظت کرسکوں، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور فوراً ہی انصار کی ایک مجلس میں آئے۔ انہوں نے مجلس والوں سے کہا کہ یہ دیکھو امیہ بن خلف ( کافر دشمن اسلام ) ادھر موجود ہے۔ اگر امیہ کافر بچ نکلا تو میری ناکامی ہوگی۔ چنانچہ ان کے ساتھ انصار کی ایک جماعت ہمارے پیچھے ہولی۔ جب مجھے خوف ہوا کہ اب یہ لوگ ہمیں آلیں گے تو میں نے اس کے لڑکے کو آگے کر دیا تاکہ اس کے ساتھ ( آنے والی جماعت ) مشغول رہے، لیکن لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور پھر بھی وہ ہماری ہی طرف بڑھنے لگے۔ امیہ بہت بھاری جسم کا تھا۔ آخر جب جماعت انصار نے ہمیں آلیا ا تو میں نے اس سے کہا کہ زمین پر لیٹ جا۔ جب وہ زمین پر لیٹ گیا تو میں نے اپنا جسم اس کے اوپر ڈال دیا۔ تاکہ لوگوں کو روک سکوں، لیکن لوگوں نے میرے جسم کے نیچے سے اس کے جسم پر تلوار کی ضربات لگائیں اور اسے قتل کرکے ہی چھوڑا۔ ایک صحابنی نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں کو بھی زخمی کردیا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اس کا نشان اپنے قدم کے اوپر ہمیں دکھایا کرتے تھے۔
تشریح : اس کا نام علی بن امیہ تھا۔ اس کی مزید شرح غزوہ بدر کے ذکر میں آئے گی۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ امیہ کافر حربی تھا۔ اور دار الحرب یعنی مکہ میں مقیم تھا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مسلمان تھے لیکن انہوں نے اس کو وکیل کیا اور جب دار الحرب میں اس کو وکیل کرنا جائز ہوا تو اگر وہ امان لے کر دار الاسلام میں آئے جب بھی اس کو وکیل کرنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ ابن منذر نے کہا اس پر علماءکا اتفاق ہے۔ کسی کا اس میں اختلاف نہیں کہ کافر حربی مسلمان کو وکیل یا مسلمان کافر حربی کو وکیل بنائے دونوں درست ہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلے اسی امیہ کے غلام تھے۔ اس نے آپ کو بے انتہا تکالیف بھی دی تھیں۔ تاکہ آپ اسلام سے پھر جائیں۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آخر تک ثابت قدم رہے یہاں تک کہ بدر کا معرکہ ہوا۔ اس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس ملعون کو دیکھ کر انصار کو بلایا۔ تاکہ ان کی مدد سے اسے قتل کیا جائے۔ مگر چونکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اور اس ملعون امیہ کی باہمی خط و کتاب تھی اس لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اسے بچانا چاہا۔ اور اس کے لڑکے کو انصار کی طرف دھکیل دیا۔ تاکہ انصار اسی کے ساتھ مشغول رہیں۔ مگر انصار نے اس لڑکے کو قتل کرکے امیہ پر حملہ آور ہونا چاہا کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس کے اوپر لیٹ گئے تاکہ اس طرح اسے بچا سکیں۔ مگر انصار نے اسے آخر میں قتل کر ہی دیا۔ اور اس جھڑپ میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کا پاؤں بھی زخمی ہوگیا۔ جس کے نشانات وہ بعد میں دکھلایا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر فرماتے ہیں : و وجہ اخذ الترجمۃ من ہذا الحدیث ان عبدالرحمن بن عوف و ہو مسلم فی دار الاسلام فوض الی امیۃ بن خلف وہو کافر فی دار الحرب ما یتعلق بامورہ و الظاہر اطلاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم و لم ینکرہ و قال ابن المنذر توکیل المسلم حربیا مستامنا و توکیل الحربی المستامن مسلما لا خلاف فی جوازہ یعنی اس حدیث سے ترجمۃ الباب اس طرح ثابت ہوا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان تھے۔ اور دار الاسلام میں تھے۔ انہوں نے اپنا مال دار الحرب میں امیہ بن خلف کافر کے حوالہ کردیا اور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہیں فرمایا۔ اس لیے ابن منذر نے کہا ہے کہ مسلمان کا کسی امانت دار حربی کافر کو وکیل بنانا اور کسی حربی کافر کا کسی امانت دار مسلمان کو اپنا وکیل بنا لینا ان کے جوازمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔