• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : اگر کوئی مسلمان دار الحرب یا دار الاسلام میں کسی حربی کافر کو اپنا وکیل بنائے تو جائز ہے

حدیث نمبر : 2301
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن أبيه، عن جده عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ قال كاتبت أمية بن خلف كتابا بأن يحفظني في صاغيتي بمكة، وأحفظه في صاغيته بالمدينة، فلما ذكرت الرحمن قال لا أعرف الرحمن، كاتبني باسمك الذي كان في الجاهلية‏.‏ فكاتبته عبد عمرو فلما كان في يوم بدر خرجت إلى جبل لأحرزه حين نام الناس فأبصره بلال فخرج حتى وقف على مجلس من الأنصار فقال أمية بن خلف، لا نجوت إن نجا أمية‏.‏ فخرج معه فريق من الأنصار في آثارنا، فلما خشيت أن يلحقونا خلفت لهم ابنه، لأشغلهم فقتلوه ثم أبوا حتى يتبعونا، وكان رجلا ثقيلا، فلما أدركونا قلت له ابرك‏.‏ فبرك، فألقيت عليه نفسي لأمنعه، فتخللوه بالسيوف من تحتي، حتى قتلوه، وأصاب أحدهم رجلي بسيفه، وكان عبد الرحمن بن عوف يرينا ذلك الأثر في ظهر قدمه‏.‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے صالح کے دادا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے امیہ بن خلف سے یہ معاہدہ اپنے اور اس کے درمیان لکھوایا کہ وہ میرے بال بچوں یا میری جائیداد کی جو مکہ میںہے، حفاظت کرے اور میں اس کی جائیداد کی جو مدینہ میں ہے حفاظت کروں۔ جب میں نے اپنا نام لکھتے وقت رحمان کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میں رحمن کو کیا جانوں۔ تم اپنا وہی نام لکھواؤ جو زمانہ جاہلیت میں تھا۔ چنانچہ میں نے عبد عمرو لکھوایا۔ بدر کی لڑائی کے موقع پر میں ایک پہاڑ کی طرف گیا تاکہ لوگوں سے آنکھ بچا کر اس کی حفاظت کرسکوں، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور فوراً ہی انصار کی ایک مجلس میں آئے۔ انہوں نے مجلس والوں سے کہا کہ یہ دیکھو امیہ بن خلف ( کافر دشمن اسلام ) ادھر موجود ہے۔ اگر امیہ کافر بچ نکلا تو میری ناکامی ہوگی۔ چنانچہ ان کے ساتھ انصار کی ایک جماعت ہمارے پیچھے ہولی۔ جب مجھے خوف ہوا کہ اب یہ لوگ ہمیں آلیں گے تو میں نے اس کے لڑکے کو آگے کر دیا تاکہ اس کے ساتھ ( آنے والی جماعت ) مشغول رہے، لیکن لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور پھر بھی وہ ہماری ہی طرف بڑھنے لگے۔ امیہ بہت بھاری جسم کا تھا۔ آخر جب جماعت انصار نے ہمیں آلیا ا تو میں نے اس سے کہا کہ زمین پر لیٹ جا۔ جب وہ زمین پر لیٹ گیا تو میں نے اپنا جسم اس کے اوپر ڈال دیا۔ تاکہ لوگوں کو روک سکوں، لیکن لوگوں نے میرے جسم کے نیچے سے اس کے جسم پر تلوار کی ضربات لگائیں اور اسے قتل کرکے ہی چھوڑا۔ ایک صحابنی نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں کو بھی زخمی کردیا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اس کا نشان اپنے قدم کے اوپر ہمیں دکھایا کرتے تھے۔

تشریح : اس کا نام علی بن امیہ تھا۔ اس کی مزید شرح غزوہ بدر کے ذکر میں آئے گی۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ امیہ کافر حربی تھا۔ اور دار الحرب یعنی مکہ میں مقیم تھا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مسلمان تھے لیکن انہوں نے اس کو وکیل کیا اور جب دار الحرب میں اس کو وکیل کرنا جائز ہوا تو اگر وہ امان لے کر دار الاسلام میں آئے جب بھی اس کو وکیل کرنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ ابن منذر نے کہا اس پر علماءکا اتفاق ہے۔ کسی کا اس میں اختلاف نہیں کہ کافر حربی مسلمان کو وکیل یا مسلمان کافر حربی کو وکیل بنائے دونوں درست ہیں۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلے اسی امیہ کے غلام تھے۔ اس نے آپ کو بے انتہا تکالیف بھی دی تھیں۔ تاکہ آپ اسلام سے پھر جائیں۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آخر تک ثابت قدم رہے یہاں تک کہ بدر کا معرکہ ہوا۔ اس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس ملعون کو دیکھ کر انصار کو بلایا۔ تاکہ ان کی مدد سے اسے قتل کیا جائے۔ مگر چونکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اور اس ملعون امیہ کی باہمی خط و کتاب تھی اس لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اسے بچانا چاہا۔ اور اس کے لڑکے کو انصار کی طرف دھکیل دیا۔ تاکہ انصار اسی کے ساتھ مشغول رہیں۔ مگر انصار نے اس لڑکے کو قتل کرکے امیہ پر حملہ آور ہونا چاہا کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس کے اوپر لیٹ گئے تاکہ اس طرح اسے بچا سکیں۔ مگر انصار نے اسے آخر میں قتل کر ہی دیا۔ اور اس جھڑپ میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کا پاؤں بھی زخمی ہوگیا۔ جس کے نشانات وہ بعد میں دکھلایا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر فرماتے ہیں : و وجہ اخذ الترجمۃ من ہذا الحدیث ان عبدالرحمن بن عوف و ہو مسلم فی دار الاسلام فوض الی امیۃ بن خلف وہو کافر فی دار الحرب ما یتعلق بامورہ و الظاہر اطلاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم و لم ینکرہ و قال ابن المنذر توکیل المسلم حربیا مستامنا و توکیل الحربی المستامن مسلما لا خلاف فی جوازہ یعنی اس حدیث سے ترجمۃ الباب اس طرح ثابت ہوا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان تھے۔ اور دار الاسلام میں تھے۔ انہوں نے اپنا مال دار الحرب میں امیہ بن خلف کافر کے حوالہ کردیا اور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہیں فرمایا۔ اس لیے ابن منذر نے کہا ہے کہ مسلمان کا کسی امانت دار حربی کافر کو وکیل بنانا اور کسی حربی کافر کا کسی امانت دار مسلمان کو اپنا وکیل بنا لینا ان کے جوازمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : صرافی اور ماپ تول میں وکیل کرنا

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے صرافی میں وکیل کیا تھا۔

صرافی بیع صرف کو کہتے ہیں۔ یعنی روپوں، اشرفیوں کو بدلنا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو سعید بن منصور نے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کو بھی انہیں نے وصل کیا ہے۔ حافظ نے کہا اس کی اسناد صحیح ہے۔

حدیث نمبر : 2302-2303
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد المجيد بن سهيل بن عبد الرحمن بن عوف، عن سعيد بن المسيب، عن أبي سعيد الخدري، وأبي، هريرة رضى الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر، فجاءهم بتمر جنيب فقال ‏"‏أكل تمر خيبر هكذا‏"‏‏. ‏ فقال إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة‏.‏ فقال ‏"‏لا تفعل، بع الجمع بالدراهم، ثم ابتع بالدراهم جنيبا‏"‏‏. ‏ وقال في الميزان مثل ذلك‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالمجید بن سہل بن عبدالرحمن بن عوف نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجور لائے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی قسم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور ( اس سے گھٹیا قسم کی ) دو صاع کھجور کے بدل میں اور دو صاع، تین صاع کے بدلے میں خریدتے ہیں۔ آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ایسا نہ کر، البتہ گھٹیا کھجوروں کو پیسوں کے بدلے بیچ کر ان سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔ اور تولے جانے کی چیزوں میں بھی آپ نے یہی حکم فرمایا۔

حافظ نے کہا کہ خیبر پر جس کو عامل مقرر کیا گیا تھا اس کا نام سواد بن غزیہ تھا۔ معلوم ہوا کہ کوئی جنس خواہ گھٹیا ہی کیوں نہ ہو وزن میں اسے بڑھیا کے برابر ہی وزن کرنا ہوگا۔ ورنہ گھٹیا چیز الگ بیچ کر اس کے پیسوں سے بڑھیا جنس خرید لی جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : چرانے والے نے یا کسی وکیل نے کسی بکری کو مرتے ہوئے یا کسی چیز کو خراب ہوتے دیکھ کر ( بکری کو ) ذبح کردیا یا جس چیز کے خراب ہوجانے کے ڈر تھا اسے ٹھیک کر دیا، اس بارے میں کیا حکم ہے؟

تشریح : ابن منیر نے کہا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس باب سے یہ نہیں ہے کہ وہ بکری حلال ہوگی یا حرام بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں چرواہے پر ضمان نہ ہوگا، اسی طرح وکیل پر۔ اور یہ مطلب اس باب کی حدیث سے نکلتا ہے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس لونڈی سے مواخذہ نہیں کیا، بلکہ اس کا گوشت کھانے میں تردد کیا۔ مگر بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر گوشت کھایا گیا۔

حدیث نمبر : 2304
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، سمع المعتمر، أنبأنا عبيد الله، عن نافع، أنه سمع ابن كعب بن مالك، يحدث عن أبيه، أنه كانت لهم غنم ترعى بسلع، فأبصرت جارية لنا بشاة من غنمنا موتا، فكسرت حجرا فذبحتها به، فقال لهم لا تأكلوا حتى أسأل النبي صلى الله عليه وسلم، أو أرسل إلى النبي صلى الله عليه وسلم من يسأله‏.‏ وأنه سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذاك، أو أرسل، فأمره بأكلها‏.‏ قال عبيد الله فيعجبني أنها أمة، وأنها ذبحت‏.‏ تابعه عبدة عن عبيد الله‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے معتمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبید اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنے والد سے بیان کرتے تھے کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ جو سلع پہاڑی پر چرنے جاتا تھا ( انہوں نے بیان کیا کہ ) ہماری ایک باندی نے ہماری ہی ریوڑ کی ایک بکری کو کو ( جب کہ وہ چر رہی تھی ) دیکھا کہ مرنے کے قریب ہے۔ اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے اس بکری کو ذبح کر دیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں میں پوچھ نہ لوں اس کا گوشت نہ کھانا۔ یا ( یوں کہا کہ ) جب تک میں کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے بارے میں پوچھنے کے لیے نہ بھیجوں، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا، یاکسی کو ( پوچھنے کے لیے ) بھیجا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھانے کے لیے حکم فرمایا۔ عبید اللہ نے کہا کہ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ باندی ( عورت ) ہونے کے باوجود اس نے ذبح کردیا۔ اس روایت کی متابعت عبدہ نے عبید اللہ کے واسطہ سے کی ہے۔

تشریح : سند میں نافع کی سماعت ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے۔ مزی نے اطراف میں لکھا ہے کہ ابن کعب سے مراد عبداللہ ہیں۔ لیکن ابن وہب نے اس حدیث کو اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے۔ حافظ نے کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن ہیں۔

اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا ثبوت ملتا ہے کہ بوقت ضرورت مسلمان عورت کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور عورت اگر باندی ہو تب بھی اس کا ذبیحہ حلال ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ چاقو، چھری پاس نہ ہونے کی صورت میں تیز دھار پتھر سے بھی ذبیحہ درست ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی حلال جانور اگر اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو مرنے سے پہلے اس کا ذبح کر دینا ہی بہتر ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مسئلہ کی تحقیق مزید کر لینا بہرحال بہتر ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ ریوڑکی بکریاں سلع پہاڑی پر چرانے کے لیے ایک عورت ( باندی ) بھیجی جایا کرتی تھی۔ جس سے بوقت ضرورت جنگلوں میں پردہ اور ادب کے ساتھ عورتوں کا جانا بھی ثابت ہوا۔ عبید اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی باندی عورت کے ذبیحہ پر اظہار تعجب کیا جایا کرتا تھا۔ کیوں کہ دستور عام ہر قرن میں مردوں ہی کے ہاتھ سے ذبح کرنا ہے۔ سلع پہاڑی مدینہ طیبہ کے متصل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ابھی ابھی مسجد فتح و بئر عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ پر جانا ہوا تو ہماری موٹر سلع پہاڑی ہی کے دامن سے گزری تھی۔ الحمد للہ کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم کے صدقہ میں عمر کے اس آخری حصہ میں پھر ان مقامات مقدسہ کی دید سے مشرف فرمایا۔ فللہ الحمد والشکر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : حاضر اور غائب دونوں کو وکیل بنانا جائز ہے

وكتب عبد الله بن عمرو إلى قهرمانه وهو غائب عنه أن يزكي عن أهله الصغير والكبير‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے وکیل کو جو ان سے غائب تھا یہ لکھا کہ چھوٹے بڑے ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے وہ صدقہ فطر نکال دیں۔

تشریح : ابن بطال نے کہا جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ جو شخص شہر میں موجود ہو اور اس کو کوئی عذر نہ ہو وہ بھی وکیل کر سکتا ہے۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ بیماری کے عذر سے ایسا کرنا درست ہے یا فریق مقابل کی رضامندی سے، اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اس شخص کو وکیل کرنا درست نہیں جس کی فریق مقابل سے دشمنی ہو۔ اور طحاوی نے جمہور کے قول کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حاضر کو وکیل کرنا بلا شرط بالاتفاق جائز رکھا ہے اور غائب کی وکالت وکیل کے قبول پر موقوف رہے گی بالاتفاق اور جب قبول پر موقوف رہی تو حاضر اور غائب ہر دو کا حکم برابر ہے۔ ( فتح الباری )

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کے بارے میں حافظ نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس اثر کو کس نے نکالا۔ لیکن یہ کہا کہ مجھ کو اس وکیل کا نام معلوم نہیں ہوا۔

حدیث نمبر : 2305
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن سلمة، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان لرجل على النبي صلى الله عليه وسلم سن من الإبل فجاءه يتقاضاه فقال ‏"‏أعطوه‏"‏‏. ‏ فطلبوا سنه فلم يجدوا له إلا سنا فوقها‏.‏ فقال ‏"‏أعطوه‏"‏‏. ‏ فقال أوفيتني أوفى الله بك‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن خياركم أحسنكم قضاء‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا توآپ نے ( اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ) فرمایا کہ ادا کردو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا ( مل سکا ) آپ نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔

مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔ اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہل جزاءالاحسان الا الاحسان ( الرحمن : 60 ) کے تحت ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : قرض ادا کرنے کے لیے کسی کو وکیل کرنا

حدیث نمبر : 2306
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، سمعت أبا سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رجلا، أتى النبي صلى الله عليه وسلم يتقاضاه، فأغلظ، فهم به أصحابه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏دعوه فإن لصاحب الحق مقالا‏"‏‏. ‏ ثم قال ‏"‏أعطوه سنا مثل سنه‏"‏‏. ‏ قالوا يا رسول الله لا نجد إلا أمثل من سنه‏.‏ فقال ‏"‏أعطوه فإن من خيركم أحسنكم قضاء‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے سنا اور انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( اپنے قرض کا ) تقاضا کرنے آیا، اور سخت سست کہنے لگا۔ صحابہ کرام غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیوں کہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ کہنے سننے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ ( لیکن اس عمر کا نہیں ) آپ نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو۔ کیوں کہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کردے۔

تشریح : یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔ اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔ حافظ ابن حجر نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔ حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفہم۔ ( وحیدی )

اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : اگر کوئی چیز کسی قوم کے وکیل یا سفارشی کو ہبہ کی جائے تو درست ہے

لقول النبي صلى الله عليه وسلم لوفد هوازن حين سألوه المغانم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏نصيبي لكم‏"‏‏. ‏
کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ہوازن کے وفد سے فرمایا، جب انہوں نے غنیمت کا مال واپس کرنے کے لیے کہا تھا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرا حصہ تم لے سکتے ہو۔ “

تشریح : حافظ نے کہا یہ حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو ابن اسحاق نے مغازی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے نکالا ہے۔ ہوازن قیر کے ایک قبیلے کا نام تھا۔ ابن منیر نے کہا گو بظاہر یہ ہبہ ان لوگوں کے لیے تھاجو اپنی قوم کی طرف سے وکیل اور سفارشی بن کر آئے تھے، مگر درحقیقت سب کے لیے ہبہ تھا، جو حاضر تھے ان کے لیے بھی اور جو غائب تھے ان کے لیے بھی۔ خطابی نے کہا اس سے یہ نکلتا ہے کہ وکیل کا اقرار موکل پر نافذ ہوگا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ و شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا وکیل کا اقرار موکل پر نافذ نہ ہوگا۔ ( وحیدی )

اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی انسان پروری پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ نے ازراہ مہربانی جملہ سیاسی قیدیوں کو معافی دے کر سب کو آزاد فرما دیا۔ اور اس حدیث سے صحابہ کرام کے ایثار اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی معلوم کرکے ایثار کا بے مثال نمونہ پیش کردیا کہ اس زمانہ میں غلام قیدی بڑی دولت سمجھے جاتے تھے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ پاکر وہ سب اپنے اپنے قیدیوں کو آزاد کر دینے کے لیے آمادہ ہو گئے اور دنیاوی نفع و نقصان کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں کیا۔
حضرت امام الدنیا فی الحدیث کا منشاءباب یہ ہے کہ جب کوئی اجتماعی معاملہ درپیش ہو تو انفرادی طور پر بات چیت کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر قوم کے نمائندے طلب کرنا اور ان سے بات چیت کرنا مناسب ہے۔ کسی قوم کا کوئی بھی قومی مسئلہ ہو اسے ذمہ دار نمائندوں کے ذریعہ حل کرنا مناسب ہوگا۔ وہ نمائندے قومی وکیل ہوں گے اور کوئی قومی امانت وغیرہ ہو تو وہ ایسے ہی نمائندوں کے حوالہ کی جائے گی۔

حدیث نمبر : 2307-2308
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال وزعم عروة أن مروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة، أخبراه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسألوه أن يرد إليهم أموالهم وسبيهم فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أحب الحديث إلى أصدقه‏.‏ فاختاروا إحدى الطائفتين إما السبى، وإما المال، وقد كنت استأنيت بهم‏"‏‏. ‏ وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة، حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين قالوا فإنا نختار سبينا‏.‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال ‏"‏أما بعد فإن إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين، وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم، فمن أحب منكم أن يطيب بذلك فليفعل، ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل‏"‏‏. ‏ فقال الناس قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏إنا لا ندري من أذن منكم في ذلك ممن لم يأذن، فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم أمركم‏"‏‏. ‏ فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبروه أنهم قد طيبوا وأذنوا‏.‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ عروہ یقین کے ساتھ بیان کرتے تھے اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( غزوہ¿ حنین کے بعد ) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ میں ) تقریباً دس رات تک انتظا رکیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کرسکتے کہ تم میں سے کسی نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔

تشریح : غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد8ھ میں واقع ہوا۔ قرآن مجید میں اس کا ان لفظوں میں ذکر ہے۔ و یوم حنین اذا اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ الی آخر الایات ( التوبۃ : 25-26 )

یعنی حنین کے دن بھی ہم نے تمہاری مدد کی، جب تمہاری کثرت نے تم کو گھمنڈ میں ڈال دیا تھا۔ تمہارا گھمنڈ تمہارے کچھ کام نہ آیا۔ اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ اور تم منہ پھیر کر بھاگنے لگے۔ مگر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایمان والوں پر بھی، اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے اور کافروں کو اللہ نے عذاب کیا اور کافروں کا یہی بدلہ مناسب ہے۔
ہوا یہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال ہوگیا تھا کہ عرب میں ہر طرف اسلامی پرچم لہرا رہا ہے اب کون ہے، جو ہمارے مقابلے پر آسکے، ان کا یہ غرور اللہ کو ناپسند آیا۔ ادھر حنین کے بہادر لوگ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے مقابلہ پر آگئے۔ اور میدان جنگ میں انہوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کئے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بڑی تعداد میں راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد ہوا انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں اللہ کا سچا نبی ہوں جس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے۔ اور میں عبدالمطلب جیسے نامور بہادر قریش کا بیٹا ہوا۔ پس میدان چھوڑنا میرا کام نہیں ہے۔

ادھر بھاگنے والے صحابہ کو جو آواز دی گئی تو وہ ہوش میں آئے۔ اور اس طرح جوش و خروش کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو واپس لوٹے کہ میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا اور مسلمان بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہوئے اور ساتھ میں کافی تعداد میں لونڈی، غلام اور مال حاصل کرکے لائے۔ بعد میں لڑنے والوں میں سے قبیلہ ہوازن نے اسلام قبول کر لیا اور یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنے اموال اور لونڈی غلام حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ اور طائف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر دو مطالبات میں سے ایک پر غور کیا جاسکتا ہے یا تو اپنے آدمی واپس لے لویا اپنے اموال حاصل کرلو۔ آپ نے ان کو جواب کے لیے مہلت دی۔ اور آپ دس روز تک جعرانہ میں ان کا انتظار کرتے رہے یہی جعرانہ نامی مقام ہے جہاں سے آپ اسی اثناءمیں احرام باندھ کر عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے تھے۔ جعرانہ حد حرم سے باہر ہے۔
اس دفعہ کے حج 1389ھ میں اس حدیث پر پہنچا تو خیال ہوا کہ ایک دفعہ جعرانہ جاکر دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ جانا ہوا۔ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ شریف واپسی ہوئی اور عمرہ کرکے احرام کھول دیا۔ یہاں اس مقام پر اب عظیم الشان مسجد بنی ہوئی ہے اور پانی وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبہ کے سلسلہ میں اپنے حصہ کے قیدی واپس کر دئیے۔ اور دوسرے جملہ مسلمانوں سے بھی واپس کرا دئیے۔ اسلام کی یہی شان ہے کہ وہ ہر حال میںا نسان پروری کو مقدم رکھتا ہے۔ آپ نے یہ معاملہ قوم کے وکلاءکے ذریعہ طے کرایا۔ اسی سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اجتماعی قومی معاملات کو حل کرنے کے لیے قوم کے نمائندگان کا ہونا ضروری ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں ان کو چودھری پنچ ممبر کہا جاتاہے۔ قدیم زمانے سے دنیا کی ہر قوم میںایسے اجتماعی نظام چلے آرہے ہیں کہ ان کے چودھری پنچ جو بھی فیصلہ کردیں وہی قومی فیصلہ مانا جاتا ہے۔ اسلام ایسی اجتماعی تنظیموں کا حامی ہے بشرطیکہ معاملات حق و انصاف کے ساتھ حل کئے جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو کچھ دینے کے لیے وکیل کیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنا دے، اور وکیل نے لوگوں کے جانے ہوئے دستور کے مطابق دے دیا

حدیث نمبر : 2309
حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا ابن جريج، عن عطاء بن أبي رباح، وغيره،، يزيد بعضهم على بعض، ولم يبلغه كلهم رجل واحد منهم عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فكنت على جمل ثفال، إنما هو في آخر القوم، فمر بي النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏من هذا‏"‏‏. ‏ قلت جابر بن عبد الله‏.‏ قال ‏"‏ما لك‏"‏‏. ‏ قلت إني على جمل ثفال‏.‏ قال ‏"‏أمعك قضيب‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏أعطنيه‏"‏‏. ‏ فأعطيته فضربه فزجره، فكان من ذلك المكان من أول القوم قال ‏"‏بعنيه‏"‏‏. ‏ فقلت بل هو لك يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏بعنيه قد أخذته بأربعة دنانير، ولك ظهره إلى المدينة‏"‏‏. ‏ فلما دنونا من المدينة أخذت أرتحل‏.‏ قال ‏"‏أين تريد‏"‏‏. ‏ قلت تزوجت امرأة قد خلا منها‏.‏ قال ‏"‏فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك‏"‏‏. ‏ قلت إن أبي توفي وترك بنات، فأردت أن أنكح امرأة قد جربت خلا منها‏.‏ قال ‏"‏فذلك‏"‏‏. ‏ فلما قدمنا المدينة قال ‏"‏يا بلال اقضه وزده‏"‏‏. ‏ فأعطاه أربعة دنانير، وزاده قيراطا‏.‏ قال جابر لا تفارقني زيادة رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فلم يكن القيراط يفارق جراب جابر بن عبد الله‏.
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی ( کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو ) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ مجھے دے دے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے ٓاگے رہنے لگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کردے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کردے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں ( دوسری طرف ) جانے لگا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پاچکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ بلال ! ان کی قیمت ادا کردو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قیراط جابر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔

تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو صاف یہ نہیں فرمایا کہ اتنا زیادہ دے دو۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے زمانہ کے رواج کے مطابق ایک قیراط جھکتا ہوا سونا زیادہ دیا۔ الفاظ فلم یکن القیراط یفارق جراب جابر بن عبداللہ کا ترجمہ بعض نے یوں کیا کہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا۔ امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب حرہ کے دن یزید کی طرف سے شام والوں کا بلوہ مدینہ منورہ پر ہوا تو انہوں نے یہ سونا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے چھین لیا تھا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی اپنے کسی بزرگ کے عطیہ کو یا اس کی اور کسی حقیقی یادگار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
اس حدیث سے آیت قرآنی لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم کی تفسیر بھی سمجھ میں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مسلمان کی ادنی تکلیف کو بھی دیکھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو جب دیکھا کہ وہ اس سست اونٹ کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو خود اس کا احساس ہوا۔ اور آپ نے اللہ کا نام لے کر اونٹ پر جو چھڑی ماری اس سے وہ اونٹ تیز رفتار ہو گیا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مزید دل جوئی کے لیے آپ نے اسے خرید بھی لیا۔ اور مدینہ تک اس پر سواری کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے شادی کی بابت بی گفتگو فرمائی۔ معلوم ہوا کہ اس قسم کی گفتگو معیوب نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ تعلیم و تربیت محمدی نے ان کے اخلاق کو کس قدر بلندی بخش دی تھی کہ محض بہنوں کی خدمت کی خاطر بیوہ عورت سے شادی کو ترجیح دی اور باکرہ کو پسند نہیں فرمایا جب کہ عام جوانوں کا رجحان طبع ایسا ہی ہوتا ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔

مسلم شریف کتاب البیوع میں یہ حدیث مزید تفصیلات کے ساتھ موجود ہے جس پر علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فیہ حدیث جابر و ہو حدیث مشہور احتج بہ احمد ومن وافقہ فی جواز بیع الدابۃ و یشترط البائع لنفسہ رکوبہا یعنی حدیث مذکور جابر کے ساتھ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے موافقین نے دلیل پکڑی ہے کہ جانور کا بیچنا اور بیچنے والے کا اس کی وقتی سواری کے لیے شرط کر لینا جائز ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ جواز اس وقت ہے جب کہ مسافت قریب ہو۔ اور یہ حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔

اسی حدیث جابر کے ذیل میں علامہ نووی دوسری جگہ فرماتے ہیں :
و اعلم ان فی حدیث جابر ہذا فوائد کثیرۃ احداہا : ہذہ المعجزۃ الظاہرۃ لرسول صلی اللہ علیہ وسلم فی انبعاث جمل جابر و ا سراعہ بعد اعیائہ، الثانیۃ : جواز طلب البیع لمن لم یعرض سلعۃ للبیع، الثالثۃ : جواز المماکسۃ فی البیع، الرابعۃ : استحباب سوال الرجل الکبیر اصحابہ عن احوالہم و الا شارۃ علیہم بمصالحہم، الخامسۃ : استحباب نکاح البکر، السادسۃ : استحباب ملاعبۃ الزوجین السابعۃ فضیلۃ جابر فی ان ترک حظ نفسہ من نکاح البکر و اختار مصلحۃ اخوانہ بنکاح ثیب تقوم بمصالحہن، الثامنۃ : استحباب الابتداءبالمسجد و صلاۃ رکعتین فیہ عند القدوم من السفر التاسعۃ استحباب الدلالۃ علی الخیر المعاشرۃ استحباب ارجاع المیزان فیما یدفعہ الحادیۃ عشرۃ ان اجرۃ وزن الثمن علی البائع الثانیۃ عشرۃ التبرک بآثار الصالحین لقولہ لا تفارقہ زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الثالثۃ عشرۃ جواز تقدم بعض الجیش الراجعین باذن الامیر الرابعۃ عشرۃ جواز الوکالۃ فی اداءالحقوق و نحوہا و فیہ غیر ذلک مما سبق۔ واللہ اعلم ( نووی )
یعنی یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے ایک تو اس میں ظاہری معجزہ نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے تھکے ہوئے اونٹ کو چست و چالاک بنا دیا۔ اور وہ خوب چلنے لگ گیا۔ دوسرا امر یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنا سامان نہ بیچنا چاہے تو بھی اس سے اسے بیچنے کے لیے کہا جاسکتا ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ بیچنا نہیں چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو یہ اونٹ بیچ دینے کے لیے فرمایا۔ تیسرے بیع میں شرط کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ چوتھے یہ استحباب ثابت ہوا کہ بڑا آدمی اپنے ساتھیوں سے ان کے خانگی احوال دریافت کرسکتا ہے اور حسب مقتضائے وقت ان کے فائدے کے لیے مشورہ بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں کنواری عورت سے شادی کرنے کا استحباب ثابت ہوا۔ چھٹے میاں بیوی کا خوش طبعی کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ ساتویں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ انہوں نے اپنی بہنوں کے فائدے کے لیے اپنی شادی کے لیے ایک بیوہ عورت کو پسند کیا۔ آٹھواں یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جانا اور دو رکعت شکرانہ کی ادا کرنا مستحب ہے۔ نواں امر یہ ثابت ہوا کہ نیک کام کرنے کے لیے رغبت دلانا بھی مستحب ہے۔ دسواں امر یہ ثابت ہوا کہ کسی حق کا ادا کرتے وقت ترازو کو جھکا کر زیادہ ( یابصورت نقد کچھ زیادہ ) دینا مستحب ہے۔ گیارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ تولنے والے کی اجرت بیچنے والے کے سر ہے۔ بارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے مطابق زیادہ پایا ہوا سونا اپنے پاس عرصہ دراز تک محفوظ رکھا۔ تیرہواں امر یہ بھی ثابت ہوا بعض اسلامی لشکر کو مقدم رکھا جاسکتا ہے جو امیر کی اجازت سے مراجعت کرنے والے ہوں۔ چودہواں امر ادائے حقوق کے سلسلہ میں وکالت کرنے کا جواز ثابت ہوا اور بھی کئی امور ثابت ہوئے جو گزر چکے ہیں۔

آثار صالحین کو تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا، یہ نازک معاملہ ہے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً صحیح طور پر آثار صالحین ہوں، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یقینا معلوم تھا کہ یہ قیراط مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود از راہ کرام فالتو دلایا ہے ایسا یقین کامل حاصل ہونا ضروری ہے ورنہ غیر ثابت شدہ اشیاءکو صالحین کی طرف منسوب کرکے ان کو بطور تبرک رکھنا یہ کذب اور افتراءبھی بن سکتا ہے۔ اکثر مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کچھ بال محفوظ کرکے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ہے۔ پھر ان سے تبرک حاصل کرنا شرک کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسی مشکوک چیزوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ حقیقت کے خلاف ہیں تو یہ منسوب کرنے والے زندہ دوزخی بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا افترا کرنے والوں کو زندہ دوزخی بتلایا ہے بصورت دیگر اگر ایسی چیز تاریخ سے صحیح ثابت ہے تو اسے چومنا چاٹنا، اس کے سامنے سر جھکانا، اس پر نذر و نیاز چڑھانا اس کی تعظیم میں حد اعتدال سے آگے گزر جانا یہ جملہ امور ایک مسلمان کو شرک جیسے قبیح گناہ میں داخل کردیتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بلاشبہ اس کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔ مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کو چوما چاٹا ہو، اسے نذ ر نیاز کا حق دار گردانا ہو۔ اس پر پھول ڈالے ہوں یا اس کو وسیلہ بنایا ہو۔ ان میں سے کوئی بھی امر ہرگز ہرگز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے پس اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔ شرک ایک بدترین گناہ ہے اور باریک بھی اس قدر کہ کتنے ہی دینداری کا دعوی کرنے والے امور شرک کے مرتکب ہو کر عند اللہ دوزخ میں خلود کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ہر قسم کے شرک خفی و جلی، صغیر و کبیر سے محفوظ رکھے، آمین۔ ثم آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : کوئی عورت اپنا نکاح کرنے کے لیے بادشاہ کو وکیل کردے

حدیث نمبر : 2310
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إني قد وهبت لك من نفسي‏.‏ فقال رجل زوجنيها‏.‏ قال ‏"‏قد زوجناكها بما معك من القرآن‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے، انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے خود کو آپ کو بخش دیا۔ اس پر ایک صحابی نے کہا کہ آپ میرا ان سے نکاح کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس مہر کے ساتھ کیا جو تمہیں قرآن یاد ہے۔

یہ وکالت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عورت کے اس قول سے نکالی کہ میں نے اپنی جان آپ کو بخش دی۔ داؤدی نے کہا حدیث میں وکالت کا ذکر نہیں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر مومن اور مومنہ کے ولی ہیں بموجب آیت النبی اولی بالمومنین الخ اور اسی ولایت کی وجہ سے آپ نے اس عورت کا نکاح کر دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مہر میں تعلیم قرآن بھی داخل ہوسکتی ہے۔ اگرکچھ اس کے پاس مہر میں پیش کرنے کے لیے نہ ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دختر حضرت شعیب علیہ السلام کے مہر میں اپنی جان کو دس سال کے لیے بطور خادم پیش فرمایا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : کسی نے ایک شخص کو وکیل بنایا پھر وکیل نے ( معاملہ میں ) کوئی چیز ( خود اپنی رائے سے ) چھوڑ دی

فترك الوكيل شيئا فأجازه الموكل فهو جائز، وإن أقرضه إلى أجل مسمى جاز.
اور بعد میں خبر ہونے پر موکل نے اس کی اجازت دے دی تو جائز ہے اسی طرح اگر مقرر مدت تک کے لیے قرض دے دیا تو یہ بھی جائز ہے۔

حدیث نمبر : 2311
وقال عثمان بن الهيثم أبو عمرو حدثنا عوف، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان، فأتاني آت فجعل يحثو من الطعام، فأخذته، وقلت والله لأرفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال إني محتاج، وعلى عيال، ولي حاجة شديدة‏.‏ قال فخليت عنه فأصبحت فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يا أبا هريرة ما فعل أسيرك البارحة‏"‏‏. ‏ قال قلت يا رسول الله شكا حاجة شديدة وعيالا فرحمته، فخليت سبيله‏.‏ قال ‏"‏أما إنه قد كذبك وسيعود‏"‏‏. ‏ فعرفت أنه سيعود لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم إنه سيعود‏.‏ فرصدته فجاء يحثو من الطعام فأخذته فقلت لأرفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال دعني فإني محتاج، وعلى عيال لا أعود، فرحمته، فخليت سبيله فأصبحت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏يا أبا هريرة، ما فعل أسيرك‏"‏‏. ‏ قلت يا رسول الله شكا حاجة شديدة وعيالا، فرحمته فخليت سبيله‏.‏ قال ‏"‏أما إنه قد كذبك وسيعود‏"‏‏. ‏ فرصدته الثالثة فجاء يحثو من الطعام، فأخذته فقلت لأرفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهذا آخر ثلاث مرات أنك تزعم لا تعود ثم تعود‏.‏ قال دعني أعلمك كلمات ينفعك الله بها‏.‏ قلت ما هو قال إذا أويت إلى فراشك فاقرأ آية الكرسي ‏{‏الله لا إله إلا هو الحى القيوم‏}‏ حتى تختم الآية، فإنك لن يزال عليك من الله حافظ ولا يقربنك شيطان حتى تصبح‏.‏ فخليت سبيله فأصبحت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ما فعل أسيرك البارحة‏"‏‏. ‏ قلت يا رسول الله زعم أنه يعلمني كلمات، ينفعني الله بها، فخليت سبيله‏.‏ قال ‏"‏ما هي‏"‏‏. ‏ قلت قال لي إذا أويت إلى فراشك فاقرأ آية الكرسي من أولها حتى تختم ‏{‏الله لا إله إلا هو الحى القيوم‏}‏ وقال لي لن يزال عليك من الله حافظ ولا يقربك شيطان حتى تصبح، وكانوا أحرص شىء على الخير‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏أما إنه قد صدقك وهو كذوب، تعلم من تخاطب منذ ثلاث ليال يا أبا هريرة‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال ‏"‏ذاك شيطان‏"‏‏. ‏
اور عثمان بن ہیثم ابوعمرو نے بیان کیا کہ ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ ( رات میں ) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھر بھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اس کے اظہار معذرت پر ) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آگیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ ابھی وہ پھر آئے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آکے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آگیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آکر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤگے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھاوہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آسکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ( اس کے پڑھنے سے ) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی یہ بات سن کر ) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔

تشریح : ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صدقہ کی کھجور میں ہاتھ کا نشان دیکھا تھا۔ جیسے اس میں سے کوئی اٹھا کر لے گیا ہو۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کیا تو اس کو پکڑنا چاہتا ہے؟ تو یوں کہہ سبحان من سخرک لمحمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہی کہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اس کو پکڑ لیا۔ ( وحیدی )

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور اٰمن الرسول سے اخیر سورۃ تک۔ اس میں یوں ہے کہ صدقہ کی کھجور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری حفاظت میں دی تھی۔ میں جو دیکھوں تو روز بروز وہ کم ہو رہی ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا شکوہ کیا، آپ نے فرمایا، یہ شیطان کا کام ہے۔ پھر میں اس کو تاکتا رہا۔ وہ ہاتھی کی صورت میں نمودار ہوا۔ جب دروازے کے قریب پہنچا تو دراڑوں میں سے صورت بدل کر اند رچلا آیا اور کھجوروں کے پاس آکر اس کے لقمے لگانے لگا۔ میں نے اپنے کپڑے مضبوط باندھے اور اس کی کمر پکڑی، میں نے کہا اللہ کے دشمن تو نے صدقہ کی کھجور اڑادی۔ دوسرے لوگ تجھ سے زیادہ اس کے حقدار تھے۔ میں تو تجھ کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا۔ وہاں تیری خوب فضیحت ہوگی۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے پوچھا تو میرے گھر میں کھجور کھانے کے لیے کیوں گھسا۔ کہنے لگا میں بوڑھا، محتاج، عیالدار ہوں اور نصیبین سے آرہا ہوں۔ اگر مجھے کہیں اور کچھ مل جاتا تو میں تیرے پاس نہ آتا۔ اور ہم تمہارے ہی شہر میں رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ تمہارے پیغمبر صاحب ہوئے۔ جب ان پر یہ دو آیتیں اتریں تو ہم بھاگ گئے۔ اگر تو مجھ کو چھوڑ دے تو میں وہ آتیں تجھ کو سکھلا دوں گا۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر اس نے آیت الکرسی اور اٰمن الرسول سے سورۃ بقرۃ کے اخیر تک بتلائی ( فتح )
نسائی کی روایت میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے یوں روایت ہے۔ میرے پاس کھجور کا ایک تھیلا تھا۔ اس میں سے روز کھجور کم ہو رہی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا، ایک جوان خوبصورت لڑکا وہاں موجود ہے۔ میں نے پوچھا تو آدمی ہے یا جن ہے۔ وہ کہنے لگا میں جن ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم تم سے کیسے بچیں؟ اس نے کہا آیت الکرسی پڑھ کر۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا۔ آپ نے فرمایا : اس خبیث نے سچ کہا۔ معلوم ہوا جس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس میں شیطان شریک ہو جاتے ہیں۔ اور شیطان کا دیکھنا ممکن ہے جب وہ اپنی خلقی صورت بدل لے۔ ( وحیدی )
حافظ صاحب فرماتے ہیں : و فی الحدیث من الفوائد غیر ما تقدم ان الشیطان قد یعلم ما ینتفع بہ المومن و ان الحکمۃ قد ینلقاہا الفاجر فلا ینتفع بہا و توخذ عنہ فینتفع بہا و ان الشخص قد یعلم الشی و لا یعمل بہ و ان الکافر قد یصدق ببعض ما یصدق بہ المومنین و لا یکون بذلک مومنا و بان الکذاب قد یصدق و بان الشیطان من شانہ ان یکذب و ان من اقیم فی حفظ شی سمی وکیلا و ان الجن یاکلون من طعام الانس و انہم یظہرون للانس لکن بالشرط المذکور وانہم یتکلمون بکلام الانس و انہم یسرقون و یخدعون و فیہ فضل آیۃ الکرسی و فضل آخر سورۃ البقرۃ و ان الجن یصیبون من الطعام الذی لا یذکر اسم اللہ علیہ الخ ( فتح الباری )

یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ شیطان ایسی باتیں بھی جانتا ہے جن سے مومن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کبھی حکمت کی باتیں فاجر کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے۔ وہ خود تو ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا مگر دوسرے اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اور نفع حاصل کرسکتے۔ اور بعض آدمی کچھ اچھی بات جانتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور بعض کافر ایسی قابل تصدیق بات کہہ دیتے ہیں جیسی اہل ایمان مگر وہ کافر اس سے مومن نہیں ہوجاتے۔ اور بعض دفعہ جھوٹوں کی بھی تصدیق کی جاسکتی ہے اور شیطان کی شان ہی یہ ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے اور یہ کہ جسے کسی چیز کی حفاظت پر مقرر کیا جائے اسے وکیل کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہ جنات انسانی غدائیں کھاتے ہیں۔ اور وہ انسانوں کے سامنے ظاہر بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ جو مذکور ہوئی اور یہ بھی کہ وہ انسانی زبانوں میں کلام بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ چوری بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ دھوکہ بازی بھی کرسکتے ہیں اور اس میں آیت الکرسی اور آخر سورۃ بقرہ کی بھی فضلیت ہے اور یہ بھی کہ شیطان اس غذا کو حاصل کرلیتے ہیں۔ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا۔
آج 20ذی الحجہ1389ھ میں بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس یہ نوٹ لکھا گیا۔ نیز آج 5 صفر1389ھ کو مدینہ طیبہ حرم نبوی میں بوقت فجر اس پر نظر ثانی کی گئی۔ ربنا تقبل منا و اغفرلنا ان نسینا او اخطانا آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : اگر وکیل کوئی ایسی بیع کرے جو فاسد ہو تو وہ بیع واپس کی جائے گی

باب کی حدیث میں اس کی صراحت نہیں کہ وہ واپس ہوگی۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا۔ اس کو امام مسلم نے نکالا۔ جس میں یوں ہے۔ یہ سود ہے اس کو پھیر دے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2312
حدثنا إسحاق، حدثنا يحيى بن صالح، حدثنا معاوية ـ هو ابن سلام ـ عن يحيى، قال سمعت عقبة بن عبد الغافر، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال جاء بلال إلى النبي صلى الله عليه وسلم بتمر برني فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من أين هذا‏"‏‏. ‏ قال بلال كان عندنا تمر ردي، فبعت منه صاعين بصاع، لنطعم النبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك ‏"‏أوه أوه عين الربا عين الربا، لا تفعل، ولكن إذا أردت أن تشتري فبع التمر ببيع آخر ثم اشتره‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہ میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور ( کھجور کی ایک عمدہ قسم ) لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کی دو صاع اس کی ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ ( اچھی کھجور ) خریدنے کا ارادہ ہو تو ( خراب ) کھجور بیچ کر ( اس کی قیمت سے ) عمدہ خریدا کر۔

تشریح : معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ بیع فاسد تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر ا دیا۔

جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
حضرت مولانا وحید الزماں نے مسلم شریف کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ باب الرباءمیں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ ہی کی روایت سے منقول ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں : فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الرباءفردوہ۔ الحدیث یعنی یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو۔ اس پر علامہ نووی لکھتے ہیں : ہذا دلیل علی ان المقبوض ببیع فاسد یجب ردہ علی بائعہ و اذا ردہ استرد الثمن فان قیل فلم یذکر فی الحدیث السابق انہ صلی اللہ علیہ وسلم امر بردہ فالجواب ان الظاہر انہا قضیۃ واحدۃ و امر فیہا بردہ فبعض الرواۃ حفظ ذلک و بعضہم لم یحفظہ فقبلنا زیادہ الثقۃ و لو ثبت انہما قضیتان لحملت الاولی علی انہ ایضا امر بہ و ان لم یبلغنا ذلک و لو ثبت انہ لم یامر بہ مع انہما قضیتان لحملنا ہا علی انہ جہل بائعہ و لا یمکن معرفتہ فصار مالا ضائعا لمن علیہ دین بقیمتہ وہو التمر الذی قبضہ فحصل انہ لا اشکال فی الحدیث و للہ الحمد ( نووی )

یعنی یہ امر اس پر دلیل ہے کہ ایسی قبضہ میں لی ہوئی بیع بھی فاسد ہوگی جس کا بائع پر لوٹا لینا واجب ہے اور جب وہ بیع رد ہو گئی تو اس کی قیمت خود رد ہو گئی۔ اگر کہا جائے کہ حدیث سابق میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رد کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر یہی کہ قضیہ ایک ہی ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا حکم فرمایا۔ بعض راویوں نے اس کو یاد رکھا اور بعض نے یاد نہیں رکھا۔ پس ہم نے ثقہ راویوں کی زیادتی کو قبول کیا۔ اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دو قضیے ہیں تو پہلے کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ نے یہی حکم فرمایا تھا اگرچہ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ اور اگر یہ ثابت ہو کہ آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا باوجودیکہ یہ دو قضیے ہیں۔ تو ہم اس پر محمول کریں گے کہ اس کا بائع مجہول ہوگیا اور وہ بعد میں پہچانا نہ جاسکا۔ تو اس صورت میں وہ مال ضائع ہو گیا اس شخص کے لیے جس نے اس کی قیمت کا بوجھ اپنے سر پر رکھا اور یہ وہی کھجور ہیں جو اس نے قبضہ میں لی ہے۔ پس حاصل ہوا کہ حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
الحمد للہ آج 5 صفر1390ھ کو حرم نبوی مدینہ طیبہ میں بوقت فجر بہ سلسلہ نظر ثانی یہ نوٹ لکھا گیا۔
 
Top