کتاب الحرث والمزارعۃ
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : کھیت بونے اور درخت لگانے کی فضیلت جس سے لوگ کھائیں
وقوله تعالى {أفرأيتم ما تحرثون * أأنتم تزرعونه أم نحن الزارعون * لو نشاء لجعلناه حطاما}.
اور ( سورۃ واقعہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ
” یہ تو بتاؤ جو تم بوتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو، یا اس کے اگانے والے ہم ہیں، اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا بنا دیں۔ “
تشریح : مزارعہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے جس کا ماخذ زرع ہے، امام المجتہدین و سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں بھی فضائل زراعت کے سلسلہ میں پہلے قرآن پاک کی آیت نقل فرمائی۔ جس میں ارشاد باری ہے
افریتم ما تحرثون ءانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون ( الواقعہ63,66 ) یعنی
اے کاشتکارو ! تم جو کھیتی کرتے ہو، کیا تم کھیتی کرتے ہو یا درحقیقت کھیتی کرنے والے ہم ہیں۔ ہم چاہیں تو تیار کھیتی کو برباد کرکے رکھ دیں پھر تم ہکا بکا ہو کر رہ جاؤ۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
لا شک ان الایۃ تدل علی اباحۃ الزرع من جہۃ الامتنان بہ والحدیث یدل علی فضلہ بالقید الذی ذکرہ المصنف و قال ابن المنیر اشار البخاری الی اباحۃ الزرع و ان من نہی عنہ کما ورد عن عمر فمحلہ ما اذا شغل الحرث عن الحرب و نحوہ من الامور المطلوبۃ و علی ذلک یحمل حدیث ابی امامۃ المذکور فی الباب الذی بعدہ یعنی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آیت قرآنی کھیتی کے مباح ہونے پر دلالت کر رہی ہے اس طور پر بھی کہ یہ خدا کا بڑا بھاری کرم ہے اور حدیث بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔ اس قید کے ساتھ جسے مصنف نے ذکر کیا ہے۔ ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کھیتی کے مباح ہونے پر اشارہ کیا ہے اور اس سے جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس کا محل جب ہے کہ کھیتی مسلمان کو جہاد اور امور شرع سے غافل کردے۔ ابوامامہ کی حدیث جو بعد میں کھیتی کی مذمت میں آرہی ہے وہ بھی اس پر محمول ہے۔ مولانا وحید الز ماں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت افراءیتم ما تحرثون سے یہ ثابت کیا کہ کھیتی کرنا مباح ہے۔ اورجس حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی میں ایسا مشغول ہونا منع ہے کہ آدمی جہاد سے باز رہے یا دین کے دوسرے کاموں سے۔ ( وحیدی )
حدیث نمبر : 2320
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا أبو عوانة، ح وحدثني عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "ما من مسلم يغرس غرسا، أو يزرع زرعا، فيأكل منه طير أو إنسان أو بهيمة، إلا كان له به صدقة". وقال لنا مسلم: حدثنا أبان: حدثنا قتادة: حدثنا أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور مجھ سے عبدالرحمن بن مبارک نے بیان کیا ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔
تشریح : اس حدیث کا شان ورود امام مسلم نے یوں بیان کیا کہ
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای نخلا لام مبشر امراۃ من الانصار فقال من غرس ہذا النخل ا مسلم ام کافر فقالوا مسلم فقال لا یغرس مسلم غرسا فیاکل منہ انسان او طیر او دابۃ الا کان لہ صدقۃ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت ام مبشر نامی کا لگایا ہوا کھجور کا درخت دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کوئی درخت لگائے پھر اس سے آدمی یا پرندے یا جانور کھائیں تو یہ سب کچھ اس کی طرف سے صدقہ میں لکھا جاتا ہے۔
حدیث انس روایت کردہ امام بخاری میں مزید وسعت کے ساتھ لفظ او یزرع زرعا بھی موجود ہے یعنی باغ لگائے یا کھیتی کرے۔ تو اس سے جو بھی آدمی، جانور، فائدہ اٹھائیں اس کے مالک کے ثواب میں بطور صدقہ لکھا جاتا ہے۔ حافظ فرماتے ہیں
و فی الحدیث فضل الغرس و الزرع و الحض علی عمارۃ الارض یعنی اس حدیث میں باغبانی اور زراعت اور زمین کو آباد کرنے کی فضیلت مذکور ہے۔
فی الواقع کھیتی کی بڑی اہمیت ہے کہ انسان کی شکم پری کا بڑا ذریعہ کھیتی ہی ہے۔ اگرکھیتی نہ کی جائے تو غلہ کی پیداوار نہ ہو سکے اسی لیے قرآن و حدیث میں اس فن کا ذکر بھی آیا ہے۔ مگر جو کاروبار یاد خدا اور فرائض اسلام کی ادائیگی میں حارج ہو، وہ الٹا وبال بھی بن جاتا ہے۔ کھیتی کا بھی یہی حال ہے کہ بیشتر کھیتی باڑی کرنے والے یاد الٰہی سے غافل اور فرائض اسلام میں سست ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں کھیتی اور اس کے آلات کی مذمت بھی وارد ہے۔ بہرحال مسلمان کو دنیاوی کاروبارکے ساتھ ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا اور فرائض اسلام کو ادا کرنا ضروری ہے۔ واللہ ہو الموفق
الحمد للہ حدیث بالا کے پیش نظر میں نے بھی اپنے کھیتوں واقع موضع رہپوہ میں کئی درخت لگوائے ہیں جو جلد ہی سایہ دینے کے قابل ہونے والے ہیں۔ امسال عزیز نذیر احمد رازی نے ایک بڑکا پودا نصب کیا ہے جسے وہ دہلی سے لے گئے تھے۔ اللہ کرے کہ وہ پروان چڑھ کر صدہا سالوں کے لیے ذخیرہ حسنات بن جائے اور عزیزان خلیل احمد و نذیر احمد کو توفیق دے کہ وہ کھیتی کا کام ان ہی احادیث کی روشنی میں کریں جس سے ان کو برکات دارین حاصل ہوں گی۔
آج یوم عاشورہ محرم 1390ھ کو کعبہ شریف میں یہ درخواست رب کعبہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ آمین یارب العالمین