• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : وقف کے مال میں وکالت اور وکیل کاخرچہ اور وکیل کا اپنے دوست کو کھلانا اور خود بھی دستور کے موافق کھانا

حدیث نمبر : 2313
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو، قال في صدقة عمر ـ رضى الله عنه ـ ليس على الولي جناح أن يأكل ويؤكل صديقا ‏{‏له‏}‏ غير متأثل مالا، فكان ابن عمر هو يلي صدقة عمر يهدي للناس من أهل مكة، كان ينزل عليهم‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صدقہ کے باب میں جو کتاب لکھوائی تھی اس میں یوں ہے کہ صدقے کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن روپیہ نہ جمع کرے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صدقے کے متولی تھے۔ وہ مکہ والوں کو اس میں سے تحفہ بھیجتے تھے جہاں آپ قیام فرمایا کرتے تھے۔

یہاں وکیل سے ناظر، متولی مراد ہے۔ اگر واقف کی اجازت ہے تو وہ اس میں سے اپنے دوستوں کو بوقت ضرورت کھلا بھی سکتا ہے اور خو دبھی کھا سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : حد لگانے کے لیے کسی کو وکیل کرنا

حدیث نمبر : 2314-2315
حدثنا أبو الوليد، أخبرنا الليث، عن ابن شهاب، عن عبيد الله، عن زيد بن خالد، وأبي، هريرة رضى الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏واغد يا أنيس إلى امرأة هذا، فإن اعترفت فارجمها‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبید اللہ نے، انہیں زید بن خالد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ضحاک اسلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اے انیس ! اس خاتون کے یہاں جا۔ اگر وہ زنا کا اقرار کرلے تو اسے سنگسار کردے۔

ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو حد لگانے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔ اس سے قانونی پہلو یہ بھی نکلا کہ مجرم خود اگر جرم کا اقرار کر لے تو اس پر قانون لاگو ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں گواہوں کی ضرور ت نہیں ہے۔ اور زنا پر حد شرعی سنگساری بھی ثابت ہے۔

حدیث نمبر : 2316
حدثنا ابن سلام، أخبرنا عبد الوهاب الثقفي، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، عن عقبة بن الحارث، قال جيء بالنعيمان أو ابن النعيمان شاربا، فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان في البيت أن يضربوا قال فكنت أنا فيمن ضربه، فضربناه بالنعال والجريد‏.‏
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں ابن ابی ملکیہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نعیمان یا ابن نعیمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرکیا گیا۔ انہوں نے شراب پی لی تھی۔ جولوگ اس وقت گھر میں موجود تھے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو انہیں مارنے کے لیے حکم دیا۔ انہوں نے بیان کیا میں بھی مارنے والوں سے تھا۔ ہم نے جوتوں اور چھڑیوں سے انہیں مارا تھا۔

تشریح : نعیمان یا ابن نعیمان کے بارے میں راوی کو شک ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں نعمان یا نعیمان مذکور ہے۔ حافظ نے کہا اس کا نام نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری تھا۔ بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑا خوش مزاج تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو مارنے کا حکم فرمایا۔ اس سے ترجمہ باب نکلتاہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے موجود لوگوں کو مارنے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔ اسی سے حدود میں وکالت ثابت ہوئی اور یہی ترجمۃ الباب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : قربانی کے اونٹوں میں وکالت اور ان کا نگرانی کرنے میں

وکالت تو اس سے ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ و ہ قربانیاں روانہ کردیں، اور نگرانی اس سے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ان کے گلوں میں ہار ڈالے۔

حدیث نمبر : 2317
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن عبد الله بن أبي بكر بن حزم، عن عمرة بنت عبد الرحمن، أنها أخبرته قالت، عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنا فتلت، قلائد هدى رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدى، ثم قلدها رسول الله صلى الله عليه وسلم بيديه، ثم بعث بها مع أبي، فلم يحرم على رسول الله صلى الله عليه وسلم شىء أحله الله له حتى نحر الهدى‏.‏
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، میں نے اپنے ہاتھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے بٹے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کو یہ قلادے اپنے ہاتھ سے پہنائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جانور میرے والد کے ساتھ ( مکہ میں قربانی کے لیے ) بھیجے۔ ان کی قربانی کی گئی۔ لیکن ( اس بھیجنے کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسی چیز حرام نہیں ہوئی جسے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کیا تھا۔

تشریح : حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قلادہ بٹنے میں آپ کی وکالت فرمائی۔

حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ام رومان بنت عامر بن عویمر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شادی 10نبوی میں مکہ شریف میں ہوئی۔ 2ھ میں ہجرت سے18ماہ بعد رخصتی عمل میں آئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ9سال رہی ہیں کیوں کہ وصال نبوی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بہت بڑی فصیحہ فقیہ عالمہ، فاضلہ تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث آپ نے نقل کی ہیں۔ وقائع عرب و محاورات و اشعار کی زبردست واقف کار تھیں۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ایک بڑے طبقہ نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ مدینہ طیبہ میں 57ھ یا 58ھ میں شب سہ شنبہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق شب میں بقیع غرقد میں آپ کو دفن کیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جو ان دنوں معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مدینہ میں مروان کے ماتحت تھے۔
بقیع غرقد مدینہ کا پرانا قبرستان ہے، جو مسجد نبوی سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے۔ آج کل اس کی جانب مسجد نبوی سے ایک وسیع سڑک نکال دی گئی ہے۔ قبرستان کو چاروں طرف ایک اونچی فصیل سے گھیر دیا گیا ہے۔ اندر پرانی قبریں بیشتر نابود ہو چکی ہیں، اہل بدعت نے پہلے دور میں یہاں بعض صحابہ و دیگر بزرگان دین کے ناموں پر بڑے بڑے قبے بنا رکھے تھے۔ اور ان پر غلاف، پھول ڈالے جاتے۔ اور وہاں نذر نیازیں چڑھائی جاتی تھیں۔ سعودی حکومت نے حدیث نبوی کی روشنی میں ان سب کو مسمار کردیا ہے۔ پختہ قبریں بنانا شریعت اسلامیہ میں قطعاً منع ہے اور ان پر چادر پھول محدثات و بدعات ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو ایسی بدعات سے بچائے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : اگر کسی نے اپنے وکیل سے کہا کہ جہاں مناسب جانو اسے خرچ کرو، اور وکیل نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا

یعنی وکیل نے اپنی رائے سے اس مال کو کسی کام میں خرچ کیا تو یہ جائز ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوطلحہ نے وکیل کیا کہ بئر حاءکو آپ جس کار خیر میں چاہیں صرف کریں۔ آپ نے ان کو یہ رائے دی کہ اپنے ہی ناتہ داروں کو بانٹ دیں۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2318
حدثني يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن إسحاق بن عبد الله، أنه سمع أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالا، وكان أحب أمواله إليه بير حاء وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب فلما نزلت ‏{‏لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، إن الله تعالى يقول في كتابه ‏{‏لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ وإن أحب أموالي إلى بير حاء، وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله فضعها يا رسول الله حيث شئت، فقال ‏"‏بخ، ذلك مال رائح، ذلك مال رائح‏.‏ قد سمعت ما قلت فيها، وأرى أن تجعلها في الأقربين‏"‏‏. ‏ قال أفعل يا رسول الله‏.‏ فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه‏.‏ تابعه إسماعيل عن مالك‏.‏ وقال روح عن مالك رابح‏.‏
مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے قرات کی بواسطہ اسحاق بن عبداللہ کے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ بیر حاء ( ایک باغ ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے۔ پھر جب قرآن کی آیت ﴾لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون﴿ اتری ( تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو ) تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ﴾لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون﴿ اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیر حاءہے۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فرما دیں۔ آپ نے فرمایا، واہ واہ ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے۔ بہت ہی مفید ہے۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے پنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل نے مالک سے کی ہے۔ اور روح نے مالک سے ( لفظ رائح کے بجائے ) رابح نقل کیا ہے۔

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیر حاءکے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وکیل ٹھہرایا اور آپ نے اسے انہی کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دینے کا حکم فرمایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی صاحب میراث بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کو ترجیح دی۔ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی بڑی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ یہ کنواں مدینہ شریف میں حرم نبوی کے قریب اب بھی موجود ہے اور میں نے بھی وہاں حاضری کا شرف حاصل کیا ہے۔ و الحمد للہ علی ذلک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوکالۃ
باب : خزانچی کا خزانہ میں وکیل ہونا

حدیث نمبر : 2319
حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏الخازن الأمين الذي ينفق ـ وربما قال الذي يعطي ـ ما أمر به كاملا موفرا، طيب نفسه، إلى الذي أمر به، أحد المتصدقين‏"‏‏.
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے برید بن عبداللہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو خرچ کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ فرمایا کہ جو دیتا ہے حکم کے مطابق کامل اور پوری طرح جس چیز ( کے دینے ) کا اسے حکم ہو اور اسے دیتے وقت اس کا دل بھی خوش ہو، تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔

یعنی اس کو مالک کے برابر ثواب ملے گا کہ اس نے بخوشی مالک کا حکم بجایا اور صدقہ کردیا۔ اور مالک کی طرف سے مالک کے حکم کے مطابق وہ مال خرچ کرنے میں وکیل ہوا۔ یہی منشائے باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الحرث والمزارعۃ


صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : کھیت بونے اور درخت لگانے کی فضیلت جس سے لوگ کھائیں

وقوله تعالى ‏{‏أفرأيتم ما تحرثون * أأنتم تزرعونه أم نحن الزارعون * لو نشاء لجعلناه حطاما‏}‏‏.‏
اور ( سورۃ واقعہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” یہ تو بتاؤ جو تم بوتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو، یا اس کے اگانے والے ہم ہیں، اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا بنا دیں۔ “

تشریح : مزارعہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے جس کا ماخذ زرع ہے، امام المجتہدین و سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں بھی فضائل زراعت کے سلسلہ میں پہلے قرآن پاک کی آیت نقل فرمائی۔ جس میں ارشاد باری ہے افریتم ما تحرثون ءانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون ( الواقعہ63,66 ) یعنی اے کاشتکارو ! تم جو کھیتی کرتے ہو، کیا تم کھیتی کرتے ہو یا درحقیقت کھیتی کرنے والے ہم ہیں۔ ہم چاہیں تو تیار کھیتی کو برباد کرکے رکھ دیں پھر تم ہکا بکا ہو کر رہ جاؤ۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
لا شک ان الایۃ تدل علی اباحۃ الزرع من جہۃ الامتنان بہ والحدیث یدل علی فضلہ بالقید الذی ذکرہ المصنف و قال ابن المنیر اشار البخاری الی اباحۃ الزرع و ان من نہی عنہ کما ورد عن عمر فمحلہ ما اذا شغل الحرث عن الحرب و نحوہ من الامور المطلوبۃ و علی ذلک یحمل حدیث ابی امامۃ المذکور فی الباب الذی بعدہ یعنی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آیت قرآنی کھیتی کے مباح ہونے پر دلالت کر رہی ہے اس طور پر بھی کہ یہ خدا کا بڑا بھاری کرم ہے اور حدیث بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔ اس قید کے ساتھ جسے مصنف نے ذکر کیا ہے۔ ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کھیتی کے مباح ہونے پر اشارہ کیا ہے اور اس سے جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس کا محل جب ہے کہ کھیتی مسلمان کو جہاد اور امور شرع سے غافل کردے۔ ابوامامہ کی حدیث جو بعد میں کھیتی کی مذمت میں آرہی ہے وہ بھی اس پر محمول ہے۔ مولانا وحید الز ماں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت افراءیتم ما تحرثون سے یہ ثابت کیا کہ کھیتی کرنا مباح ہے۔ اورجس حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی میں ایسا مشغول ہونا منع ہے کہ آدمی جہاد سے باز رہے یا دین کے دوسرے کاموں سے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2320
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا أبو عوانة، ح وحدثني عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ما من مسلم يغرس غرسا، أو يزرع زرعا، فيأكل منه طير أو إنسان أو بهيمة، إلا كان له به صدقة‏"‏‏. وقال لنا مسلم: حدثنا أبان: حدثنا قتادة: حدثنا أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور مجھ سے عبدالرحمن بن مبارک نے بیان کیا ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔

تشریح : اس حدیث کا شان ورود امام مسلم نے یوں بیان کیا کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای نخلا لام مبشر امراۃ من الانصار فقال من غرس ہذا النخل ا مسلم ام کافر فقالوا مسلم فقال لا یغرس مسلم غرسا فیاکل منہ انسان او طیر او دابۃ الا کان لہ صدقۃ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت ام مبشر نامی کا لگایا ہوا کھجور کا درخت دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کوئی درخت لگائے پھر اس سے آدمی یا پرندے یا جانور کھائیں تو یہ سب کچھ اس کی طرف سے صدقہ میں لکھا جاتا ہے۔

حدیث انس روایت کردہ امام بخاری میں مزید وسعت کے ساتھ لفظ او یزرع زرعا بھی موجود ہے یعنی باغ لگائے یا کھیتی کرے۔ تو اس سے جو بھی آدمی، جانور، فائدہ اٹھائیں اس کے مالک کے ثواب میں بطور صدقہ لکھا جاتا ہے۔ حافظ فرماتے ہیں و فی الحدیث فضل الغرس و الزرع و الحض علی عمارۃ الارض یعنی اس حدیث میں باغبانی اور زراعت اور زمین کو آباد کرنے کی فضیلت مذکور ہے۔

فی الواقع کھیتی کی بڑی اہمیت ہے کہ انسان کی شکم پری کا بڑا ذریعہ کھیتی ہی ہے۔ اگرکھیتی نہ کی جائے تو غلہ کی پیداوار نہ ہو سکے اسی لیے قرآن و حدیث میں اس فن کا ذکر بھی آیا ہے۔ مگر جو کاروبار یاد خدا اور فرائض اسلام کی ادائیگی میں حارج ہو، وہ الٹا وبال بھی بن جاتا ہے۔ کھیتی کا بھی یہی حال ہے کہ بیشتر کھیتی باڑی کرنے والے یاد الٰہی سے غافل اور فرائض اسلام میں سست ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں کھیتی اور اس کے آلات کی مذمت بھی وارد ہے۔ بہرحال مسلمان کو دنیاوی کاروبارکے ساتھ ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا اور فرائض اسلام کو ادا کرنا ضروری ہے۔ واللہ ہو الموفق

الحمد للہ حدیث بالا کے پیش نظر میں نے بھی اپنے کھیتوں واقع موضع رہپوہ میں کئی درخت لگوائے ہیں جو جلد ہی سایہ دینے کے قابل ہونے والے ہیں۔ امسال عزیز نذیر احمد رازی نے ایک بڑکا پودا نصب کیا ہے جسے وہ دہلی سے لے گئے تھے۔ اللہ کرے کہ وہ پروان چڑھ کر صدہا سالوں کے لیے ذخیرہ حسنات بن جائے اور عزیزان خلیل احمد و نذیر احمد کو توفیق دے کہ وہ کھیتی کا کام ان ہی احادیث کی روشنی میں کریں جس سے ان کو برکات دارین حاصل ہوں گی۔
آج یوم عاشورہ محرم 1390ھ کو کعبہ شریف میں یہ درخواست رب کعبہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ آمین یارب العالمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : کھیتی کے سامان میں بہت زیادہ مصروف رہنا یا حد سے زیادہ اس میں لگ جانا، اس کا انجام برا ہے

حدیث نمبر : 2321
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا عبد الله بن سالم الحمصي، حدثنا محمد بن زياد الألهاني، عن أبي أمامة الباهلي،، قال ـ ورأى سكة وشيئا من آلة الحرث، فقال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏لا يدخل هذا بيت قوم إلا أدخله الذل‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سالم حمصی نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد الہانی نے بیان کیا، ان سے ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا آپ کی نظر پھالی اور کھیتی کے بعض دوسرے آلات پر پڑی۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس قوم کے گھر میں یہ چیز داخل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ذلت بھی لاتی ہے۔

تشریح : حضرت امام بخاری نے منعقدہ باب میں احادیث آمدہ در مدح زراعت و در ذم زراعت میں تطبیق پیش فرمائی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ کہ کھیتی باڑی اگر حد اعتدال میں کی جائے کہ اس کی وجہ سے فرائض اسلام کی ادائیگی میں کوئی تساہل نہ ہو تو وہ کھیتی قابل تعریف ہے۔ جس کی فضیلت حدیث واردہ میں نقل ہوئی ہے۔ اور اگر کھیتی باڑی میں اس قدر مشغولیت ہو جائے کہ ایک مسلمان اپنے دینی فرائض سے بھی غافل ہو جائے تو پھر وہ کھیتی قابل تعریف نہیں رہتی۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر جو تبصرہ فرمایا ہے وہ یہ ہے :
ہدا من اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمغیبات لان المشاہد الان ان اکثر الظلم انما ہو علی اہل الحرث و قد اشار البخاری بالترجمۃ الی الجمع بین حدیث ابی امامۃ و الحدیث الماضی فی فضل الزرع و الغرس و ذلک باحد الامرین اما ان یحمل ما ورد من الذم علی عاقبۃ ذلک و محلہ اذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما امر بحفظہ و اما ان یحمل علی ما اذا لم یضع الا انہ جاوز الحد فیہ و الذی یظہر ان کلام ابی امامۃ محمول علی من یتعاطی ذلک بنفسہ اما من لہ عمال یعملون لہ و ادخل دارہ الالۃ المذکورۃ لتحفظ لہم فلیس مراد لو یمکن الحمل علی عمومہ فان الذل شامل لکل من ادخل نفسہ ما یستلزم مطالبۃ اخر لہ و لا سیما اذا کان المطالب من الولاۃ و عن الداودی ہذا لمن یقرب من العدو فانہ اذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ فیتاسد علیہ العدو فحقہم ان یشتغلوا بالفروسیۃ و علی غیرہم امدادہم بما یحتاجون الیہ ( فتح الباری )

یعنی یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خبروں میں سے ہے جن کو مشاہدہ نے بالکل صحیح ثابت کر دیا۔ کیوں کہ اکثر مظالم کا شکار کاشتکار ہی ہوتے چلے آرہے ہیں اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب سے حدیث ابی امامہ اور حدیث سابقہ بابت فضیلت زراعت و باغبانی میں تطبیق پر اشارہ فرمایا ہے اور یہ دو امور میں سے ایک ہے۔ اول تو یہ کہ جو مذمت وارد ہے اسے اس کے انجام پر محمول کیا جائے، اگر انجام میں اس میں اس قدر مشغولیت ہو گئی کہ اسلامی فرائض سے بھی غافل ہونے لگا۔ دوسرے یہ بھی کہ فرائض کو تو ضائع نہیں کیا مگر حد اعتدال سے آگے تجاوز کرکے اس میں مشغول ہو گیا تو یہ پیشہ اچھا نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ابوامامہ والی حدیث ایسے ہی شخص پر وارد ہوگی جو خود اپنے طور پر اس میں مشغول ہو اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز کرجائے۔ اور جس کے نوکر چاکر کام انجام دیتے ہوں اور حفاظت کے لیے آلات زراعت اس کے گھر میں رکھے جائیں تو ذم سے وہ شخص مراد نہ ہوگا۔ حدیث ذم عموم پر بھی محمول کی جاسکتی ہے کہ کاشتکاروں کو بسااوقات ادائے مالیہ کے لیے حکام کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور دواؤد نے کہا کہ یہ ذم اس کے لیے ہے جو دشمن سے قریب ہو کہ وہ کھیتی باڑی میں مشغول رہ کر دشمن سے بے خوف ہو جائے گا اور ایک دشمن ان کے اوپر چڑھ بیٹھے گا۔ پس ان کے لیے ضروری ہے کہ سپاہ گری میں مشغول رہیں اور حاجت کی اشیاءسے دوسرے لوگ ان کی مدد کریں۔
زراعت باغبانی ایک بہترین فن ہے۔ بہت سے انبیاء، اولیاء، علماءزراعت پیشہ رہے ہیں۔ زمین میں قدرت نے اجناس اور پھلوں سے جو نعمتیں پوشیدہ رکھی ہیں ان کا نکالنا یہ زراعت پیشہ اور باغبان حضرات ہی کا کام ہے۔ اور جاندار مخلوق کے لیے جو اجناس اور چارے کی ضرورت ہے اس کا مہیا کرنے والا بعونہ تعالیٰ ایک زراعت پیشہ کاشتکار ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف پہلوؤں سے ان فنون کا ذکر آیا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں ہل جوتنے والے بیل کا ذکر ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس فن کی شرافت میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ زراعت پیشہ قومیں زیادہ تر مسکینی اور غربت اور ذلت کا شکار رہتی ہیں۔ پھر ان کے سروں پر مالیانے کا پہاڑ ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ بسااوقات ان کو ذلیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ احادیث متعلقہ مذمت میں یہی پہلو ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ فن بہت قابل تعریف اور باعث رفع درجات دارین ہے۔ آج کے دور میں اس فن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ جب کہ آج غذائی مسئلہ بنی نوع انسان کے لیے ایک اہم ترین اقتصادی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر حکومت زیادہ سے زیادہ اس فن پر توجہ دے رہی ہے۔
ذلت سے مراد یہ ہے کہ حکام ان سے پیسہ سے وصول کرنے میں ان پر طرح طرح کے ظلم توڑیں گے۔ حافظ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ اکثر ظلم کا شکار کاشتکار لوگ ہی بنتے ہیں۔ بعض نے کہا ذلت سے یہ مراد ہے کہ جب رات دن کھیتی باڑی میں لگ جائیں گے تو سپاہ گری اور فنون جنگ بھول جائیں گے اور دشمن ان پر غالب ہوجائے گا۔
علامہ نووی احادیث زراعت کے ذیل فرماتے ہیں : فی ہذہ الاحادیث فضیلۃ الغرس وفضیلۃ الزرع و ان اجر فاعلی ذلک مستمر مادام الغراس و الزرع وما تولد منہ الی یوم القیامۃ و قد اختلف العلماءفی اطیب المکاسب و افضلہا فقیل التجارۃ و قیل الصنعۃ بالید و قیل الزراعۃ و ہو الصحیح و قد بسطت ایضاحہ فی اخر باب الاطعمۃ من شرح المہذب و فی ہذہ الاحادیث ایضا ان الثواب و الاجر فی الاخرۃ مختص بالمسلمین و ان الانسان یثاب علی ما سرق من مالہ او اتلفتہ دابۃ او طائر و نحوہما ( نووی )

یعنی ان احادیث میں درخت لگانے اور کھیتی کرنے کی فضیلت وارد ہے اور یہ کہ کاشتکار اور باغبان کا ثواب ہمیشہ جاری رہتا ہے جب تک بھی اس کی وہ کھیتی یا درخت رہتے ہیں۔ ثواب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہ سکتا ہے۔ علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ بہترین کسب کون سا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تجارت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستکاری بہترین کسب ہے اور کہا گیا ہے کہ بہترین کسب کھیتی باڑی ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور میں نے باب الاطعمہ شرح مہذب میں اس کو تفصیل سے لکھا ہے اور ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ آخرت کا اجر و ثواب مسلمانوں ہی کے لیے خاص ہے اور یہ بھی ہے کہ کاشتکار کی کھیتی میں سے کچھ چوری ہو جائے یا جانور پرندے کچھ اس میں نقصان کر دیں تو ان سب کے بدلے کاشتکار کو ثواب ملتا ہے۔
یا اللہ ! مجھ کو اور میرے بچوں کو ان احادیث کا مصداق بنائیو۔ جب کہ اپنا آبائی پیشہ کاشتکاری ہی ہے۔ اور یا اللہ ! اپنی برکتوں سے ہمیشہ نوازیو اور ہر قسم کی ذلت، مصیبت، پریشانی، تنگ حالی سے بچائیو، آمین ثم آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : کھیتی کے لیے کتا پالنا

اس باب سے امام بخاری نے کھیتی کی اباحت ثابت کی کیوں کہ جب کھیت کے لیے کتا رکھنا جائز ہوا تو کھیتی کرنا بھی درست ہوگا۔ حدیث باب سے کھیت یا شکار کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کا جواز نکلا۔ حافظ نے کہا اسی قیاس پر اور کسی ضرورت سے بھی کتے کا رکھنا جائز ہوگا۔ لیکن بلاضرورت جائز نہیں۔

حدیث نمبر : 2322
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من أمسك كلبا فإنه ينقص كل يوم من عمله قيراط، إلا كلب حرث أو ماشية‏"‏‏. ‏ قال ابن سيرين وأبو صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إلا كلب غنم أو حرث أو صيد‏"‏‏. ‏ وقال أبو حازم عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏كلب صيد أو ماشية‏"‏‏. ‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے کوئی کتا رکھا، اس نے روزانہ اپنے عمل سے ایک قیراط کی کمی کرلی۔ البتہ کھیتی یا مویشی ( کی حفاظت کے لیے ) کتے اس سے الگ ہیں۔ ابن سیرین اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ بکری کے ریوڑ، کھیتی اور شکار کے کتے الگ ہیں۔ ابوحازم نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ شکاری اور مویشی کے کتے ( الگ ہیں )۔

تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھیتی کی حفاظت کے لیے بھی کتا پالا جاسکتا ہے جس طرح سے شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے۔ محض شوقیہ کتا پالنا منع ہے۔ اس لیے کہ اس سے بہت سے خطرات ہوتے ہیں۔ بڑا خطرہ یہ کہ ایسے کتے موقع پاتے ہی برتنوں میں منہ ڈال کر ان کو گندا کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ آنے جانے والوں کو ستاتے بھی ہیں۔ ان کے کاٹنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں یہ موذی جانور رکھا گیا ہو۔ ایسے مسلمان کی نیکیوں میں سے ایک قیراط نیکیاں کم ہوتی رہتی ہیں جو بے منفعت کتے کو پالتا ہو۔

حافظ صاحب فرماتے ہیں : قیل سبب النقصان امتناع الملئکۃ من دخول بیتہ او ما یلحق المارین من الاذی او لان بعضہا شیاطین او عقوبۃ لمخالفۃ النہی او لو لو عنہا فی الاوانی عند غفلۃ صاحبہا فربما یتنجس الطاہر منہا فاذا استعمل فی العبادۃ لم یقع موقع الطاہر الخ۔

و فی الحدیث الحث علی تکثیر الاعمال الصالحۃ و التحذیر من العمل بما ینقصہا و التنبیہ علی اسباب الزیادۃ فیہا و النقص منہا لتجنتب او ترتکب و بیان لطف اللہ تعالیٰ بخلقہ فی اباحۃ مالہم بہ نفع و تبلیغ نبیہم صلی اللہ علیہ وسلم امور معاشہم و معادہم و فیہ ترجیح المصلحۃ الراجحۃ علی المفسدۃ لوقوع استثناءما ینتفع بہ مما حرم اتخاذہ
( فتح الباری )
یعنی نیکیوں میں سے ایک قیراط کم ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، یا یہ کہ اس کتے کی وجہ سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یا اس لیے کہ بھی کہ بعض کتے شیطان ہوتے ہیں یا اس لیے کہ باوجود نہی کے کتا رکھا گیا، اس سے نیکی کم ہوتی ہے یا اس لیے کہ وہ برتنوں میں منہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جہاں گھر والے سے ذار غفلت ہوئی اور کتے نے فوراً پاک پانی کو ناپاک کر ڈالا۔ اب اگر عبادت کے لیے وہ استعمال کیا گیا تو اس سے پاکی حاصل نہ ہوگی۔ الغرض یہ جملہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے محض شوقیہ کتا پالنے والوں کی نیکیاں روزانہ ایک ایک قیراط کم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر تہذیب مغرب کا برا ہو آج کل نئی تہذب میں کتا پالنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ امیر گھرانوں میں محض شوقیہ پلنے والے کتوں کی اس قدر خدمت کی جاتی ہے کہ ان کے نہلانے دھلانے کے لیے خاص ملازم ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ استغفر اللہ ! مسلمانوں کو ایسے فضول بے ہودہ فضول خرچی کے کاموں سے بہرحال پرہیز لازم ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جن میں سے اعمال صالحہ کی کثرت پر رغبت دلانا بھی ہے اور ایسے اعمال بد سے ڈرانا بھی جن سے نیکی برباد ہو اورگناہ لازم آئے۔ حدیث ہذا میں ہر دو امور کے لیے تنبیہ ہے کہ نیکیاں بکثرت کی جائیں اور برائیوں سے بکثرت پرہیز کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کی اپنی مخلوق پر مہربانی ہے کہ جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہے وہ مباح قرار دی ہے اور اس حدیث میں تبلیغ نبوی بابت امور معاش و معاد بھی مذکو رہے۔ اوراس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض چیزیں حرام ہوتی ہیں جیسا کہ کتا پالنا، مگر ان کے نفع بخش ہونے کی صورت میں ان کو مصلحت کی بنا پر مستثنیٰ بھی کر دیا جاتا ہے۔

حدیث نمبر : 2323
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن يزيد بن خصيفة، أن السائب بن يزيد، حدثه أنه، سمع سفيان بن أبي زهير ـ رجلا من أزد شنوءة ـ وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏من اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا، نقص كل يوم من عمله قيراط‏"‏‏. ‏ قلت أنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إي ورب هذا المسجد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جس نے کتاپالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں ! اس مسجد کے رب کی قسم ! ( میں نے ضرور آپ سے یہ سنا ہے )

قیراط یہاں عنداللہ ایک مقدار معلوم ہے۔ مراد یہ کہ بے حد نیکیاں کم ہوجاتی ہیں جس کی وجوہ بہت ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، دوسرے یہ کہ ایسا کتا گزرنے والوں اور آنے جانے والے مہمان پر حملہ کے لیے دوڑتا ہے جس کا گناہ کتا پالنے والے پر ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ گھر کے برتنوں کو منہ ڈال ڈال کر ناپاک کرتا رہتا ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ نجاستیں کھا کھا کر گھر پر آتا ہے اور بدبو اور دیگر امراض اپنے ساتھ لاتا ہے اور بھی بہت سے وجوہ ہیں۔ اس لیے شریعت اسلامی نے گھر میں بے کار کتا رکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے۔ شکاری کتے اور تربیت دیئے ہوئے دیگر محافظ کتے اس سے الگ ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : کھیتی کے لیے بیل سے کام لینا

حدیث نمبر : 2324
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، سمعت أبا سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏بينما رجل راكب على بقرة التفتت إليه‏.‏ فقالت لم أخلق لهذا، خلقت للحراثة، قال آمنت به أنا وأبو بكر وعمر، وأخذ الذئب شاة فتبعها الراعي، فقال الذئب من لها يوم السبع، يوم لا راعي لها غيري‏.‏ قال آمنت به أنا وأبو بكر وعمر‏"‏‏. ‏ قال أبو سلمة ما هما يومئذ في القوم‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بنی اسرائیل میں سے ) ایک شخص بیل پر سوار ہو کر جارہا تھا کہ اس بیل نے اس کی طرف دیکھا اور اس سوار سے کہا کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا ہوا ہوں۔ میری پیدائش تو کھیت جوتنے کے لیے ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی ایمان لائے۔ اور ایک دفعہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پکڑ لی تھی تو گڈریے نے اس کا پیچھا کیا۔ بھیڑیا بولا ! آج تو تو اسے بچاتا ہے۔ جس دن ( مدینہ اجاڑ ہوگا ) درندے ہی درندے رہ جائیں گے۔ اس دن میرے سوا کون بکریوں کا چرانے والا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی۔ ابوسلمہ نے کہا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کے تحت اس حدیث کو درج فرمایا۔ جس میں ایک اسرائیلی مرد کا اور ایک بیل کا مکالمہ مذکور ہوا ہے۔ وہ اسرائیلی بیل کو سواری کے کام میں استعمال کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیل کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت دی اور وہ کہنے لگا کہ میں کھیتی کے لیے پیدا ہوا ہوں، سواری کے لیے نہیں ہوا۔ چونکہ یہ بولنے کا واقعہ خرق عادت سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ پاک اس پر قادر ہے کہ وہ بیل جیسے جانور کو انسانی زبان میں گفتگو کی طاقت بخش دے۔ اس لیے اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہار ایمان فرمایا۔ بلکہ ساتھ ہی حضرات شیخین کو بھی شامل فرما لیا کہ آپ کو ان پر اعتماد کامل تھا حالانکہ وہ ہر دو وہاں اس وقت موجود بھی نہ تھے۔ و انما قال ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثقۃ بہما لعلمہ بصدق ایمانہما و قوۃ یقینہما و کمال معرفتہما بقدرۃ اللہ تعالیٰ ( عینی ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہر دوپر اعتماد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایمان اور یقین کی صداقت اور قوت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کو بھی قدرت الٰہی کی معرفت بدرجہ کمال حاصل ہے اس لیے آپ نے اس ایمان میں ان کو بھی شریک فرما لیا۔ رضی اللہ عنہما وراضاہما۔

حدیث کا دوسرا حصہ بھیڑیے سے متعلق ہے جو ایک بکری کو پکڑ کر لے جارہا تھا کہ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اللہ نے بھیڑیے کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت عطا فرمائی اور اس نے چرواہے سے کہا کہ آج تو تم نے اس بکری کو مجھ سے چھڑا لیا۔ مگر اس دن ان بکریوں کو ہم سے کون چھڑائے گا جس دن مدینہ اجاڑ ہو جائے گا۔ اور بکریوں کا چرواہا ہمارے سوا کوئی نہ ہوگا۔ قال القرطبی کانہ یشیر الی حدیث ابی ہریرۃ المرفوع یترکون المدینۃ علی خبر ما کان لا یغشاہا الا العوافی یرید السباع و الطیر قرطبی نے کہا کہ اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مرفوعاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگ مدینہ کو خیریت کے ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ واپسی پر دیکھیں گے کہ وہ سارا شہر درندوں، چرندوں اور پرندوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ اس بھیڑیے کی آواز پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہا رایمان فرماتے ہوئے حضرات صاحبین کو بھی شریک فرمایا۔

خلاصہ یہ کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو باب منعقد فرمایا تھا وہ حدیث بیل کے مکالمہ والے حصہ سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان جب سے عالم شعور میں آکر زراعت کی طرف متوجہ ہوا تو زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے اس نے زیادہ تر بیل ہی کا استعمال کیا ہے۔ اگرچہ گدھے، گھوڑے، اونٹ، بھینسے بھی بعض بعض ملکوں میں ہلوں میں جوتے جاتے ہیں۔ مگر عموم کے لحاظ سے بیل ہی کو قدرت نے اس خدمت جلیلہ کا اہل بنایا ہے۔ آج اس مشینی دور میں بھی بیل کے بغیر چارہ نہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : باغ والا کسی سے کہے کہ تو سب درختوں وغیرہ کی دیکھ بھال کر، تو اور میں پھل میں شریک رہیں گے

تشریح : چوں کہ مسائل زراعت کا ذکر ہو رہا ہے اس لیے ایک صورت کاشتکاری کی یہ بھی ہے جو باب میں بتلائی گئی کہ کھیت یا باغ والا کسی کو شریک کرے اس شرط پر کہ اس کے کھیت یا باغ میں کل محنت وہ صرف کرے گا اور پیداوار نصفا نصف تقسیم ہو جائے گی۔ یہ صورت شرعاً جائز ہے جیسا کہ حدیث باب میں مذکور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو انصار نے از راہ ہمدردی و اخوت اپنی زمینوں، باغوں کو مہاجرین میں تقسیم کرنا چاہا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت کو پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ شرکت کار کی تجویز پر اتفاق ہو گیا کہ مہاجرین ہمارے کھیتوں یا کھجور کے باغوں میں کام کریں اور پیداوار تقسیم ہو جایا کرے۔ اس پر سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار کیا۔ اور سمعنا واطعنا سے اظہار رضامندی فرمایا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ابتدائے اسلام ہی سے عام طور پر مسلمانوں کا یہ رجحان طبع رہا ہے کہ وہ خود اپنے بل بوتے پر زندگی گزاریں اور اللہ کے سوا اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں۔ اور رزق حلال کی تلاش کے لیے ان کو جو بھی دشوار سے دشوار راستہ اختیار کرنا پڑے، وہ اسی کو اختیار کرلیں۔ مسلمانوں کا یہی جذبہ تھا جو بعد کے زمانوں میں بشکل تجارت اشاعت اسلام کے لیے ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوا۔ اور اہل اسلام نے تجارت کے لیے دنیا کے کونے کونے کو چھان مارا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جہاں گئے اسلام کی زندہ جیتی جاگتی تصویر بن کرگئے۔ اور دنیا کے لیے پیغام رحمت ثابت ہوئے۔ صد افسوس کہ آج یہ باتیں خواب و خیال بن کر رہ گئی ہیں۔ الا ما شاءاللہ، رحم اللہ علینا۔ آمین

ان حقائق پر ان مغرب زدہ نوجوانوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو اسلام کو محض ایک خانگی معاملہ کہہ کر سیاست معیشت سے الگ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جو بالکل غلط ہے۔ اسلام نے نوع انسانی کی ہر ہر شعبہ میں زندگی میں پوری پوری رہنمائی کی ہے۔ اسلام فطری قوانین کا ایک بہترین مجموعہ ہے۔

حدیث نمبر : 2325
حدثنا الحكم بن نافع، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قالت الأنصار للنبي صلى الله عليه وسلم اقسم بيننا وبين إخواننا النخيل‏.‏ قال ‏"‏لا‏"‏‏. ‏ فقالوا تكفونا المئونة ونشرككم في الثمرة‏.‏ قالوا سمعنا وأطعنا‏.‏
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے باغات آپ ہم میں اور ہمارے ( مہاجر ) بھائیوں میں تقسیم فرما دیں۔ آپ نے انکار کیا تو انصار نے ( مہاجرین سے ) کہا کہ آپ لوگ درختوں میں محنت کرو۔ ہم تم میوے میں شریک رہیں گے۔ انہوں نے کہا اچھا ہم نے سنا اور قبول کیا۔

تشریح : معلوم ہوا کہ یہ صورت جائز ہے کہ باغ یا زمین ایک شخص کی ہو اور کام اور محنت دوسرا شخص کرے، دونوں پیداوار میں شریک ہوں، اس کو مساقات کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انصار کو زمین تقسیم کردینے سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ مسلمانوں کی ترقی بہت ہوگی۔ بہت سی زمینیں ملیں گی تو انصار کی زمین انہی کے پاس رہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا۔
 
Top