Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : میوہ دار درخت اور کھجور کے درخت کاٹنا
وقال أنس أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالنخل فقطع.
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے۔
یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو باب المساجد میں اوپر موصولاً گزر چکی ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے یا دشمن کا نقصان کرنے کے لیے جب اس کی حاجت ہو تو میوہ دار درخت کاٹنا یا کھیتی یا باغ جلا دینا درست ہے۔
حدیث نمبر : 2326
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه حرق نخل بني النضير وقطع، وهى البويرة، ولها يقول حسان وهان على سراة بني لؤى حريق بالبويرة مستطير.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اورحسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی ( قریش ) کے سرداروں پر ( غلبہ کو ) بویرہ کی آگ نے آسان بنا دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جارہی تھی۔
تشریح : بنی لوی قریش کو کہتے ہیں۔ اور سراۃ کا ترجمہ عمائد اور معززین۔ بویرہ ایک مقام کا نام ہے جہاں بنی نضیر یہودیوں کے باغات تھے۔ ہوا یہ تھا کہ قریش ہی کے لوگ اس تباہی کے باعث ہوئے۔ کیوں کہ انہوں نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کو بھڑکا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد شکنی کرائی۔ بعض نے کہا آپ نے یہ درخت اس لیے جلوائے کہ جنگ کے لیے صاف میدان کی ضرورت تھی تاکہ دشمنوں کو چھپ کر رہنے کا اور کمین گاہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ بحالت جنگ بہت سے امور سامنے آتے ہیں۔ جن میں قیادت کرنے والوں کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ کھیتوں اور درختوں کا کاٹنا اگرچہ خود انسانی اقتصادی نقصان ہے مگر بعض شدید ضرورتوں کے تحت یہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کے نام نہاد مہذب لوگوں کو دیکھو گے کہ جنگ کے دنوں میں وہ کیا کیا حرکات کرجاتے ہیں۔ بھارت کے غدر 1857ءمیں انگریزوں نے جو مظالم یہاں ڈھائے وہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ جنگ عظیم میں یورپی اقوام نے کیا کیا حرکتیں کیں۔ جن کے تصور سے جسم پر رلرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آج بھی دنیا میں اکثریت اپنی اقلتیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے وہ دنیا پر روشن ہے۔ بہرحال حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
باب : میوہ دار درخت اور کھجور کے درخت کاٹنا
وقال أنس أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالنخل فقطع.
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے۔
یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو باب المساجد میں اوپر موصولاً گزر چکی ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے یا دشمن کا نقصان کرنے کے لیے جب اس کی حاجت ہو تو میوہ دار درخت کاٹنا یا کھیتی یا باغ جلا دینا درست ہے۔
حدیث نمبر : 2326
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه حرق نخل بني النضير وقطع، وهى البويرة، ولها يقول حسان وهان على سراة بني لؤى حريق بالبويرة مستطير.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اورحسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی ( قریش ) کے سرداروں پر ( غلبہ کو ) بویرہ کی آگ نے آسان بنا دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جارہی تھی۔
تشریح : بنی لوی قریش کو کہتے ہیں۔ اور سراۃ کا ترجمہ عمائد اور معززین۔ بویرہ ایک مقام کا نام ہے جہاں بنی نضیر یہودیوں کے باغات تھے۔ ہوا یہ تھا کہ قریش ہی کے لوگ اس تباہی کے باعث ہوئے۔ کیوں کہ انہوں نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کو بھڑکا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد شکنی کرائی۔ بعض نے کہا آپ نے یہ درخت اس لیے جلوائے کہ جنگ کے لیے صاف میدان کی ضرورت تھی تاکہ دشمنوں کو چھپ کر رہنے کا اور کمین گاہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ بحالت جنگ بہت سے امور سامنے آتے ہیں۔ جن میں قیادت کرنے والوں کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ کھیتوں اور درختوں کا کاٹنا اگرچہ خود انسانی اقتصادی نقصان ہے مگر بعض شدید ضرورتوں کے تحت یہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کے نام نہاد مہذب لوگوں کو دیکھو گے کہ جنگ کے دنوں میں وہ کیا کیا حرکات کرجاتے ہیں۔ بھارت کے غدر 1857ءمیں انگریزوں نے جو مظالم یہاں ڈھائے وہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ جنگ عظیم میں یورپی اقوام نے کیا کیا حرکتیں کیں۔ جن کے تصور سے جسم پر رلرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آج بھی دنیا میں اکثریت اپنی اقلتیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے وہ دنیا پر روشن ہے۔ بہرحال حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔