• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : میوہ دار درخت اور کھجور کے درخت کاٹنا

وقال أنس أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالنخل فقطع‏.‏
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے۔

یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو باب المساجد میں اوپر موصولاً گزر چکی ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے یا دشمن کا نقصان کرنے کے لیے جب اس کی حاجت ہو تو میوہ دار درخت کاٹنا یا کھیتی یا باغ جلا دینا درست ہے۔

حدیث نمبر : 2326
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه حرق نخل بني النضير وقطع، وهى البويرة، ولها يقول حسان وهان على سراة بني لؤى حريق بالبويرة مستطير‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اورحسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی ( قریش ) کے سرداروں پر ( غلبہ کو ) بویرہ کی آگ نے آسان بنا دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جارہی تھی۔

تشریح : بنی لوی قریش کو کہتے ہیں۔ اور سراۃ کا ترجمہ عمائد اور معززین۔ بویرہ ایک مقام کا نام ہے جہاں بنی نضیر یہودیوں کے باغات تھے۔ ہوا یہ تھا کہ قریش ہی کے لوگ اس تباہی کے باعث ہوئے۔ کیوں کہ انہوں نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کو بھڑکا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد شکنی کرائی۔ بعض نے کہا آپ نے یہ درخت اس لیے جلوائے کہ جنگ کے لیے صاف میدان کی ضرورت تھی تاکہ دشمنوں کو چھپ کر رہنے کا اور کمین گاہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ بحالت جنگ بہت سے امور سامنے آتے ہیں۔ جن میں قیادت کرنے والوں کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ کھیتوں اور درختوں کا کاٹنا اگرچہ خود انسانی اقتصادی نقصان ہے مگر بعض شدید ضرورتوں کے تحت یہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کے نام نہاد مہذب لوگوں کو دیکھو گے کہ جنگ کے دنوں میں وہ کیا کیا حرکات کرجاتے ہیں۔ بھارت کے غدر 1857ءمیں انگریزوں نے جو مظالم یہاں ڈھائے وہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ جنگ عظیم میں یورپی اقوام نے کیا کیا حرکتیں کیں۔ جن کے تصور سے جسم پر رلرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آج بھی دنیا میں اکثریت اپنی اقلتیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے وہ دنیا پر روشن ہے۔ بہرحال حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : ...

اس میں کوئی ترجمہ مذکور نہیں ہے گویا یہ باب کی ایک فصل ہے اور مناسبت یہ ہے کہ جب بٹائی ایک میعاد کے لیے جائز ہوئی تو مدت گزرنے کے بعد زمین کا مالک یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنا درخت یا کھیتی اکھاڑ لے جاؤ۔ پس درخت کاٹنا ثابت ہوا۔ اگلے باب کا یہی مطلب تھا۔

حدیث نمبر : 2327
حدثنا محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يحيى بن سعيد، عن حنظلة بن قيس الأنصاري، سمع رافع بن خديج، قال كنا أكثر أهل المدينة مزدرعا، كنا نكري الأرض بالناحية منها مسمى لسيد الأرض، قال فمما يصاب ذلك وتسلم الأرض، ومما يصاب الأرض ويسلم ذلك، فنهينا، وأما الذهب والورق فلم يكن يومئذ‏.‏
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں حنظلہ بن قیس انصاری نے، انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مدینہ میں ہمارے پاس کھیت اوروں سے زیادہ تھے۔ ہم کھیتوں کو اس شرط کے ساتھ دوسروں کو جوتنے اور بونے کے لیے دیا کرتے تھے کہ کھیت کے ایک مقررہ حصے ( کی پیداوار ) مالک زمین لے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ خاص اسی حصے کی پیداوار ماری جاتی اور سارا کھیت سلامت رہتا۔ اور بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا۔

نقدی کرایہ کا معاملہ اس وقت نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس صورت مذکورہ میں مالک اور کاشتکار ہر دو کے لیے نفع کے ساتھ نقصان کا بھی ہر وقت احتمال تھا۔ اس لیے اس صورت سے اس معاملہ کو منع کر دیا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : آدھی یا کم و زیادہ پیداوار پر بٹائی کرنا

وقال قيس بن مسلم عن أبي جعفر قال ما بالمدينة أهل بيت هجرة إلا يزرعون على الثلث والربع‏.‏ وزارع علي وسعد بن مالك وعبد الله بن مسعود وعمر بن عبد العزيز والقاسم وعروة وآل أبي بكر وآل عمر وآل علي وابن سيرين‏.‏ وقال عبد الرحمن بن الأسود كنت أشارك عبد الرحمن بن يزيد في الزرع‏.‏ وعامل عمر الناس على إن جاء عمر بالبذر من عنده فله الشطر، وإن جاءوا بالبذر فلهم كذا‏.‏ وقال الحسن لا بأس أن تكون الأرض لأحدهما فينفقان جميعا فما خرج فهو بينهما، ورأى ذلك الزهري‏.‏ وقال الحسن لا بأس أن يجتنى القطن على النصف‏.‏ وقال إبراهيم وابن سيرين وعطاء والحكم والزهري وقتادة لا بأس أن يعطي الثوب بالثلث أو الربع ونحوه‏.‏ وقال معمر لا بأس أن تكون الماشية على الثلث والربع إلى أجل مسمى‏.‏

( یہ بلا تردد جائز ہے ) اور قیس بن مسلم نے بیان کیا اور ان سے ابوجعفر نے بیان کیا کہ مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پر کاشتکاری نہ کرتا ہو۔ حضرت علی اور سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود، اور عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ اور حضرت ابوبکر کی اولاد اور حضرت عمر کی اولاد اور حضرت علی کی اولاد اور ابن سیرین رضی اللہ عنہ سب بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔ اور عبدالرحمن بن اسود نے کہا کہ میں عبدالرحمن بن یزید کے ساتھ کھیتی میں ساجھی رہا کرتا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کاشت کا معاملہ اس شرط پر طے کیا تھا کہ اگر بیج وہ خود ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) مہیا کریں تو پیداوار کا آدھا حصہ لیں اور اگرتخم ان لوگوں کا ہو جو کام کریں گے تو پیداوار کے اتنے حصے کے وہ مالک ہوں۔ حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ زمین کسی ایک شخص کی ہو اور اس پر خرچ دونوں ( مالک اور کاشتکار ) مل کر کریں۔ پھر جو پیداوار ہواسے دونوں بانٹ لیں۔ زہری رحمہ اللہ علیہ نے بھی یہی فتوی دیا تھا۔ اور حسن نے کہا کہ کپاس اگر آدھی ( لینے کی شرط ) پر چنی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابراہیم، ابن سیرین، عطاء، حکم، زہری اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ ( کپڑا بننے والوں کو ) دھاگا اگر تہائی، چوتھائی یا اسی طرح کی شرکت پر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ معمر نے کہا کہ اگر جانور ایک معین مدت کے لیے اس کی تہائی یا چوتھائی کمائی پر دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

تشریح : باب کے ذیل میں کئی ایک اثر مذکور ہوئے ہیں۔ جن کی تفصیل یہ کہ ابوجعفر مذکور امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ہے جو امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے والد ہیں۔ حضرت علی اور سعد اور ابن مسعود اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم کے اثروں کو ابن ابی شیبہ نے اور قاسم کے اثر کو عبدالرزاق نے اور عروہ کے اثر کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے۔ اور ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے امام محمد باقر سے نکالا۔ اس میں یہ ہے ان سے بٹائی کو پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے ابوبکر اور عمر اور علی سب کے خاندان والوں کو یہ کرتے دیکھا ہے اور ابن سیرین کے اثر کو سعد بن منصور نے وصل کیا اور عبدالرحمن بن اسود کے اثر کو ابن ابی شیبہ اور نسائی نے وصل کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن ابی شیبہ اور بیہقی اور طحاوی نے وصل کیا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب اس اثر کے لانے سے یہ ہے کہ مزارعت اور مخابرہ دوونوں ایک ہیں۔ بعض نے کہا جب تخم زمین کا مالک دے تو وہ مزارعت ہے اور جب کام کرنے والا تخم اپنے پاس سے ڈالے تو وہ مخابرہ ہے۔ بہرحال مزارعت اور مخابرہ امام احمد اور خزیمہ اور ابن منذر اور خطابی کے نزدیک درست ہے اور باقی علماءنے اس کو ناجائز کہا ہے۔ لیکن صحیح مذہب امام احمد کا ہے کہ یہ جائز ہے۔ حسن بصری کے اثر کو سعید بن منصور نے وصل کیا ہے اور زہری کے اثر کو ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے وصل کیا اور ابراہیم کے قول کو ابوبکر اثرم نے اور ابن سیرین کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور عطا اور قتادہ اور حکم اور زہری کے بھی اقوال کو انہوں نے وصل کیا۔ ( خلاصہ از وحیدی )
مطلب یہ ہے کہ مزارعت کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً فی بیگھہ لگان بصورت روپیہ مقرر کر لیا جائے۔ یہ صورت بہرحال جائز ہے۔ ایک صورت یہ کہ مالک زمین کا کوئی قطعہ اپنے لیے خاص کر لے کہ اس کی پیداوار خاص میری ہوگی یا مالک غلہ طے کر لے کہ پیداوار کچھ بھی ہو میں اتنا غلہ لوں گا۔ یہ صورتیں اس لیے ناجائز ہیں کہ معاملہ کرتے وقت دونوں فریق ناواقف ہیں۔ مستقبل میں ہر دو کے لیے نفع و نقصان کا احتمال ہے۔ اس لیے شریعت نے ایسے دھوکے کے معاملہ سے روک دیا۔ ایک صورت یہ ہے کہ تہائی یا چوتھائی پر معاملہ کیا جائے یہ صورت بہرحال جائز ہے اور یہاں اسی کا بیان مقصود ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں : والحق ان البخاری انما اراد بسیاق ہذہ الآثارالاشارۃ الی ان الصحابۃ لم ینقل عنہم خلاف فی الجواز خصوصاً اہل المدینۃ فیلزم من یقدم عملہم علی الاخبار المرفوعۃ ان یقولوا بالجواز علی قاعدتہم ( فتح الباری ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان آثار کے یہاں ذکر کرنے سے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ صحابہ کرام سے جواز کے خلاف کچھ منقول نہیں ہے خاص طور پر مدینہ والوں سے۔

حدیث نمبر : 2328
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أنس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم عامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع، فكان يعطي أزواجه مائة وسق ثمانون وسق تمر وعشرون وسق شعير، فقسم عمر خيبر، فخير أزواج النبي صلى الله عليه وسلم أن يقطع لهن من الماء والأرض، أو يمضي لهن، فمنهن من اختار الأرض ومنهن من اختار الوسق، وكانت عائشة اختارت الأرض‏.‏
ہم سے ا براہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( خیبر کے یہودیوں سے ) وہاں ( کی زمین میں ) پھل کھیتی اور جوبھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے عہد خلافت میں ) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواج مطہرات کو آپ نے اس کا اختیار دیا کہ ( اگر وہ چاہیں تو ) انہیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے۔ یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چنانچہ بعض نے زمین لینا پسند کیا۔ اور بعض نے ( پیداوار سے ) وسق لینا پسند کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے زمین ہی لینا پسند کیا تھا۔

تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں سے نصف پیداوار پر معاملہ کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے لیے فی نفر سو وسق غلہ مقرر فرمایا تھا۔ یہی طریقہ عہد صدیقی میں رہا۔ مگر عہد فاروقی میں یہودیوں سے معاملہ ختم کر دیا گیا۔ اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ازواج مطہرات کو غلہ یا زمین ہر دو کا اختیار دے دیا تھا۔ ایک وسق چار من اور بارہ سیر وزن کے برابر ہوتا ہے۔

بذیل حدیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عامل خیبر بشطر ما یخرج منہا حافظ صاحب فرماتے ہیں :
ہذا الحدیث ہو عمدۃ من اجاز المزارعۃ و المخابرۃ لتقریر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کذلک و استمرارہ علی عہد ابی بکر الی ان اجلاہم عمر کما سیاتی بعد ابواب استدل بہ علی جواز المساقات فی النخل و الکرم و جمیع الشجر الذی من شانہ ان یثمر بجزءمعلوم یجعل للعامل من الثمرۃ و بہ قال الجمہور ( فتح الباری ) یعنی یہ حدیث عمدہ دلیل ہے اس کی جو مزارعت اور مخابرۃ کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طریق کار کو قائم رکھا اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی دستور رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا۔ آپ نے بعد میں ان یہود کو خیبر سے جلا وطن کر دیا تھا۔ کھیتی کے علاوہ جملہ پھل دار درختوں میں بھی یہ معاملہ جائز قرار دیا گیا کہ کارکنان کے لیے مالک پھلوں کا کچھ حصہ مقرر کردیں۔ جمہور کا یہی فتوی ہے۔

اس میں کھیت اور باغ کے مالک کا بھی فائدہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے پیداوار کا ایک حصہ حاصل کرلیتا ہے اور محنت کرنے والے کے لیے بھی سہولت ہے کہ وہ زمینات سے اپنی محنت کے نتیجہ میں پیداوار لے لیتا ہے۔ محنت کش طبقہ کے لیے یہ وہ اعتدال کا راستہ ہے جو اسلام نے پیش کرکے ایسے مسائل کو حل کر دیا ہے، توڑ پھوڑ، فتنہ فساد، تخریب کاری کا وہ راستہ جو آج کل بعض جماعتوں کی طرف سے محنت کش لوگوں کو ابھارنے کے لیے دنیا میں جاری ہے، یہ راستہ شرعاً بالکل غلط اور قطعاً ناجائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ

باب : اگر بٹائی میں سالوں کے تعداد مقرر نہ کرے؟

تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ صراحت نہیں کی کہ وہ جائز ہے یا ناجائز کیوں کہ اس میں اختلاف ہے کہ مزارعت میں جب میعاد نہ ہو تو وہ جائز ہے یا نہیں؟ ابن بطال نے کہا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوثور رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو مکروہ کہا ہے، لیکن صحیح مذہب اہل حدیث کا ہے کہ یہ جائز ہے اور دلیل ان کی یہی حدیث ہے ایسی صورت میں زمین کے مالک کو اختیار ہوگا کہ جب چاہے کاشتکار کو نکال دے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2329
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال عامل النبي صلى الله عليه وسلم خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے پھل اور اناج کی آدھی پیداوار پروہاں کے رہنے والوں سے معاملہ کیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : ...

حدیث نمبر : 2330
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو قلت لطاوس لو تركت المخابرة فإنهم يزعمون أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عنه‏.‏ قال أى عمرو، إني أعطيهم وأغنيهم، وإن أعلمهم أخبرني ـ يعني ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم لم ينه عنه، ولكن قال ‏"‏أن يمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليه خرجا معلوما‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہ عمرو بن دینار نے کہا کہ میں نے طاؤس سے عرض کیا، کاش ! آپ بٹائی کا معاملہ چھوڑ دیتے، کیوں کہ ان لوگوں ( رافع بن خدیج اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ) کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس پرطاؤس نے کہا کہ میں تو لوگوں کو زمین دیتا ہوں اور ان کا فائدہ کرتا ہوں۔ اور صحابہ میں جو بڑے عالم تھے انہوں نے مجھے خبر دی ہے۔ آپ کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہیں روکا۔ بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو ( اپنی زمین ) مفت دے دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا محصول لے۔

تشریح : امام طحاوی نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نکالا۔ انہوں ے کہا، اللہ رافع بن خدیج کو بخشے، میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں۔ ہوا یہ تھا کہ دو انصاری آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لڑتے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہارا یہ حال ہے تو کھیتوں کو کرایہ پر مت دیا کرو۔ رافع نے یہ لفظ سن لیا کہ کھیتوں کو کرایہ پر مت دیا کرو۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کرایہ پر دینے کو منع نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ نے یہ برا سمجھا کہ اس کے سبب سے لوگوں میں فساد اور جھگڑا پیدا ہو۔ وہاں یہ مفہوم بھی درست ہے کہ اگر کسی کے پاس فالتو زمین بے کار پڑی ہوئی ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی کو بطور بخشش دے دے کہ وہ اس زمین سے فائدہ حاصل کرسکے۔ ایسے قانونی حیثیت میں تو بہرحال وہ اس کا مالک ہے۔ اور بٹائی یا کرایہ پر بھی دے سکتا ہے۔

لفظ مخابرہ بٹائی پر کسی کے کھیت کو جوتنے اور بونے کو کہتے ہیں۔ جب کہ بیج بھی کام کرنے والے ہی کا ہو۔ عام اصطلاح میں اسے بٹائی کہا جاتا ہے۔ خبرہ حصہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی سے مخابرہ نکلا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ لفظ خیبر سے ماخود ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں سے یہی معاملہ کیا تھا کہ آدھی پیداوار وہ لے لیں آدھی آپ کو دیں۔ بعض نے کہا کہ یہ لفظ خبار سے نکلا ہے جس کے معنی نرم زمین کے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ فدفعنا فی خبار من الارض یعنی ہم نرم زمین میں پھینک دیئے گئے۔ نووی نے کہا کہ مخابرہ اور مزارعہ میں یہ فرق ہے کہ مخابرہ میں تخم عامل کا ہوتا ہے نہ کہ مالک زمین کا۔ اور مزارعہ میں تخم مالک زمین کا ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : یہود کے ساتھ بٹائی کا معاملہ کرنا

اس باب کو لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ مزارعت جیسی مسلمانوں میں آپس میں درست ہے ویسی ہی مسلمان اور کافر میں بھی درست ہے۔ اور چونکہ حدیث میں صرف یہود کا ذکرتھا۔ لہٰذا ترجمہ باب میں ان ہی کو بیان کیا۔ اور جب یہود کے ساتھ مزارعت کرنا جائز ہوا تو ہر ایک غیر مسلم کے ساتھ جائز ہوگا۔ اس قسم کے دنیاوی، تمدنی، معاشرتی، اقتصادی معاملات میں اسلام نے مذہبی تنگ نظری سے کام نہیں لیا ہے بلکہ ایسے جملہ امور میں صرف مفاد انسانی کو سامنے رکھ کر مسلم اور غیر مسلم ہر دو کا باہمی معاملہ جائز رکھا ہے۔ ہاں عدل ہر جگہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے اعدلوا ہو اقرب للتقوی ( المائدہ : 8 ) کا یہی مفہوم ہے کہ عدل کرو یہی تقوی سے زیادہ قریب ہے۔ عدل کا مطالبہ مسلم اور غیر مسلم سب سے یکساں ہے۔ آج کے زمانہ میں اہل اسلام زمین کے ہر حصے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اوربسااوقات غیر مسلم لوگوں سے ان کے دنیاوی معاملات لین دین وغیرہ کا تعلق رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آج سے چودہ سو سال قبل ایسے حالات کا اندازہ تھا اس لیے دنیاوی امور میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیا گیا۔

حدیث نمبر : 2331
حدثنا ابن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى خيبر اليهود على أن يعملوها ويزرعوها، ولهم شطر ما خرج منها‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عبید اللہ نے خبردی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر سونپی تھی کہ اس میں محنت کریں اورجوتیں بوئیں اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ لیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : بٹائی میں کون سی شرطیں لگانا مکروہ ہے

حدیث نمبر : 2332
حدثنا صدقة بن الفضل، أخبرنا ابن عيينة، عن يحيى، سمع حنظلة الزرقي، عن رافع ـ رضى الله عنه ـ قال كنا أكثر أهل المدينة حقلا، وكان أحدنا يكري أرضه، فيقول هذه القطعة لي وهذه لك، فربما أخرجت ذه ولم تخرج ذه، فنهاهم النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہوں نے حنظلہ زرقی سے سنا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے پاس مدینہ کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زمین زیادہ تھی۔ ہمارے یہاں طریقہ یہ تھا کہ جب زمین بصورت جنس کرایہ پر دیتے تو یہ شرط لگا دیتے کہ اس حصہ کی پیداوار تو میری رہے گی اور اس حصہ کی تمہاری رہے گی۔ پھر کبھی ایسا ہوتا کہ ایک حصہ کی پیداوار خوب ہوتی اور دوسرے کی نہ ہوتی۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس طرح معاملہ کرنے سے منع فرما دیا۔

یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ یہ ایک فاسد شرط ہے کہ یہاں کے پیداوار میں لوں گا وہاں کا تو لے، یہ سراسر نزاع کی صورت ہے۔ اسی لیے ایسی شرطیں لگانا مکروہ قرار دیا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : جب کسی کے مال سے ان کی اجازت بغیر ہی کاشت کی اوراس میں ان کا ہی فائدہ رہا ہو

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں وہی تین آدمیوں کی حدیث بیان کی جو اوپر ذکر ہو چکی ہے اور ترجمہ باب تیسرے شخص کے بیان سے نکالا کہ اس نے مزدور کی بے اجازت اس کے مال کو کام میں لگایا اور اس کے لیے فائدہ کمایا، اور اگر ایسا کرنا گناہ ہوتا تو یہ شخص کام کو دفع بلا کا وسیلہ کیوں بناتا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2333
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏بينما ثلاثة نفر يمشون أخذهم المطر، فأووا إلى غار في جبل، فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فانطبقت عليهم، فقال بعضهم لبعض انظروا أعمالا عملتموها صالحة لله فادعوا الله بها لعله يفرجها عنكم‏.‏ قال أحدهم اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران، ولي صبية صغار كنت أرعى عليهم، فإذا رحت عليهم حلبت، فبدأت بوالدى أسقيهما قبل بني، وإني استأخرت ذات يوم فلم آت حتى أمسيت، فوجدتهما ناما، فحلبت كما كنت أحلب، فقمت عند رءوسهما، أكره أن أوقظهما، وأكره أن أسقي الصبية، والصبية يتضاغون عند قدمى، حتى طلع الفجر، فإن كنت تعلم أني فعلته ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرى منها السماء‏.‏ ففرج الله فرأوا السماء‏.‏ وقال الآخر اللهم إنها كانت لي بنت عم أحببتها كأشد ما يحب الرجال النساء، فطلبت منها فأبت حتى أتيتها بمائة دينار، فبغيت حتى جمعتها، فلما وقعت بين رجليها قالت يا عبد الله اتق الله، ولا تفتح الخاتم إلا بحقه، فقمت، فإن كنت تعلم أني فعلته ابتغاء وجهك فافرج عنا فرجة‏.‏ ففرج‏.‏ وقال الثالث اللهم إني استأجرت أجيرا بفرق أرز، فلما قضى عمله قال أعطني حقي‏.‏ فعرضت عليه، فرغب عنه، فلم أزل أزرعه حتى جمعت منه بقرا وراعيها فجاءني فقال اتق الله‏.‏ فقلت اذهب إلى ذلك البقر ورعاتها فخذ‏.‏ فقال اتق الله ولا تستهزئ بي‏.‏ فقلت إني لا أستهزئ بك فخذ‏.‏ فأخذه، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي، ففرج الله‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله وقال ابن عقبة عن نافع فسعيت‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، ان سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین آدمی کہیں چلے جارہے تھے کہ بارش نے ان کو آلیا۔ تینوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی، اچانک اوپر سے ایک چٹان غار کے سامنے آگری، اور انہیں ( غار کے اندر ) بالکل بند کر دیا۔ اب ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ تم لوگ اب اپنے ایسے کاموں کو یاد کرو۔ جنہیں تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اسی کام کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ممکن ہے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو ٹال دے، چنانچہ ایک شخص نے دعا شروع کی۔ اے اللہ ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے ( جانور ) چرایا کرتا تھا۔ پھر جب واپس ہوتا تو دودھ دوہتا۔ سب سے پہلے، اپنی اولاد سے بھی پہلے، میں والدین ہی کو دودھ پلاتا تھا۔ ایک دن دیر ہو گئی اور رات گئے تک گھر واپس آیا، اس وقت میرے ماں باپ سو چکے تھے۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور ( اس کا پیالہ لے کر ) میں ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں۔ لیکن اپنے بچوں کو بھی ( والدین سے پہلے ) پلانا مجھے پسند نہیں تھا۔ بچے صبح تک میرے قدموں پر پڑے تڑپتے رہے۔ پس اگر تیرے نزدیک بھی میرا یہ عمل صرف تیری رضا کے لیے تھا تو ( غار سے اس چٹان کو ہٹا کر ) ہمارے لیے اتنا راستہ بنا دے کہ آسمان نظر آسکے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راستہ بنا دیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے نے کہا اے اللہ ! میری ایک چچازاد بہن تھی۔ مرد عورتوں سے جس طرح کی انتہائی محبت کرسکتے ہیں، مجھے اس سے اتنی ہی محبت تھی۔ میں نے اسے اپنے پاس بلانا چاہا لیکن وہ سو دینار دینے کی صورت راضی ہوئی۔ میں نے کوشش کی اور وہ رقم جمع کی۔ پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ گیا، تو اس نے مجھ سے کہا، اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور اس کی مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی دور ہو گیا، اگر میرا یہ عمل تیرے علم میں بھی تیری رضا ہی کے لیے تھا تو ( اس غار سے ) پتھر کو ہٹا دے۔ پس غار کا منہ کچھ اور کھلا۔ اب تیسرا بولا کہ اے اللہ ! میں نے ایک مزدور تین فرق چاول کی مزدوری پر مقرر کیا تھا جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو مجھ سے کہا کہ اب میری مزدوری مجھے دے دے۔ میں نے پیش کر دی لیکن اس وقت وہ انکار کر بیٹھا۔ پھر میں برابر اس کی اجرت سے کاشت کرتا رہا اور اس کے نتیجہ میں بڑھنے سے بیل اور چرواہے میرے پاس جمع ہو گئے۔ اب وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر ! میں نے کہا کہ بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جا اور اسے لے لے۔ اس نے کہا اللہ سے ڈر ! اور مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا کہ مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ ( یہ سب تیرا ہی ہے ) اب اسے لے جاؤ۔ پس اس نے ان سب پر قبضہ کر لیا۔ الٰہی ! اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری خوشنودی ہی کے لی کیا تھا تو تو اس غار کو کھول دے۔ اب وہ غار پورا کھل چکا تھا۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ ابن عقبہ نے نافع سے ( اپنی روایت میں فبغیت کے بجائے ) فسعیت نقل کیا ہے۔

دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ یعنی میں نے محنت کرکے سوا اشرفیاں جمع کیں۔ ابن عقبہ کی روایت کو خود امام بخاری نے کتاب الادب میں وصل کیا ہے۔
تشریح : اس حدیث طویل کے ذیل میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں : اورد فیہ حدیث الثلاثۃ الذین انطبق علیہم الغار و سیاتی القول فی شرحہ فی احادیث الانبیاءو المقصود ہنا قول احد الثلاثۃ فعرضت علیہ ای علی الاجیر حقہ فرغب عنہ فلم ازل ازرعہ حتی جمعت منہا بقرا ورعاتہا فان الظاہر انہ عین لہ اجرتہ فلما ترکہا بعد ان تعینت لہ ثم تصرف فیہا السمتاجر بعینہا صارت من ضمانہ قال بن المنیر مطابقۃ الترجمۃ انہ قد عین لہ حقہ و مکنہ منہ فبرئت ذمتہ بذلک فلما ترکہ وضع المستاجر یدہ علیہ وضعا مستانفا ثم تصرف فیہ بطریق الاصلاح لا بطریق التضییع فاغتفر ذلک و لم یعد تعد یا و لذلک توسل بہ الی اللہ عزوجل و جعلہ من افضل اعمالہ و اقر علی ذلک ووقعت لہ الاجابۃ الخ ( فتح الباری )

یعنی اس جگہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان تین اشخاص والی حدیث کو نقل فرمایا جن کو غار نے چھپا لیا تھا، اس کی پوری شرح کتاب احادیث الانبیاءمیں آئے گی۔ یہاں مقصود ان تینوں میں سے اس ایک شخص کا قول ہے جس نے کہا تھا کہ میں نے اپنے مزدور کو اس کا پورا حق دینا چاہا۔ لیکن اس نے انکار کر دیا۔ پس اس نے اس کی کاشت شروع کر دی، یاں تک کہ اس نے اس کی آمد سے بیل اوراس کی لیے ہالی خرید لئے۔ پس ظاہر ہے کہ اس نے اس مزدور کی اجرت مقرر کر رکھی تھی مگر اس نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر اس مالک نے اپنی ذمہ داری پر اسے کاروبار میں لگایا۔ ابن منیر نے کہا کہ مطابقت یوں ہے کہ اس باغ والے نے اس کی اجرت مقرر کر دی اور اس کو دی۔ مگر اس مزدور نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر اس شخص نے اصلاح اور ترقی کی نیت سے اسے بڑھانا شروع کر دیا۔ اسی نیت خیر کی وجہ سے اس نے اسے اپنا افضل عمل سمجھا اور بطور وسیلہ دربار الٰہی میں پیش کی اور اللہ اس نے اس عمل خیر کو قبول فرمایا اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
اس سے اعمال کو بطور وسیلہ بوقت دعاءدربار الٰہی میں پیش کرنا بھی ثابت ہوا۔ یہی وہ وسیلہ ہے جس کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے یا یہا الذین امنوا اتقوا اللہ و ابتغوا الیہ الوسلیۃ و جاہدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون ( المائدہ : 35 ) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور ( اعمال خیر سے ) اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو، اور اللہ کے دین کی اشاعت کے لیے جد و جہد محنت کوشش بصورت جہاد وغیرہ جاری رکھو تاکہ تم کو کامیابی حاصل ہو۔ جو لوگ اعمال خیر کو چھوڑ کر بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں اور اسی خیال باطل کے تحت ان کو اٹھتے بیٹھتے پکارتے ہیں وہ لوگ شرک کا ارتکاب کرکے عنداللہ زمرہ مشرکین میں لکھے جاتے ہیں۔ ابلیس علیہ اللعنۃ کا یہ وہ فریب ہے جس میں نام نہاد اہل اسلام کی کثیر تعداد گرفتار ہے۔ اسی خیال باطل کے تحت بزرگان دین کی تاریخ ولادت و تاریخ وفات پر تقریبات کی جاتی ہیں۔ قربانیاں دی جاتی ہیں۔ عرس کئے جاتے ہیں۔ ان کے ناموں پر نذریں نیازیں ہوتی ہیں۔ یہ جملہ امور مشرکین قوموں سے سیکھے گئے ہیں اور جو مسلمان ان میں گرفتار ہیں ان کو اپنے دین و ایمان کی خیر منانی چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : صحابہ کرام کے اوقاف اور خراجی زمین اور اس کی بٹائی کا بیان

وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعمر ‏"‏تصدق بأصله لا يباع، ولكن ينفق ثمره فتصدق به‏"‏‏. ‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ( جب وہ اپنا ایک کھجور کا باغ للہ وقف کر رہے تھے ) اصل زمین کو وقف کردے، اس کو کوئی بیچ نہ سکے، البتہ اس کا پھل خرچ کیا جاتا رہے چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔

ابن بطال نے کہا اس باب کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقاف میں اسی طرح مزارعت کرتے رہے جیسے خیبر کے یہودی کیا کرتے تھے۔
تشریح : یہ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الوصایا میں نکالا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک باغ جس کو ثمغ کہتے تھے، صدقہ کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، میں نے کچھ مال کمایا ہے، میں چاہتا ہوںکہ اس کو صدقہ کر وں۔ وہ مال بہت عمدہ ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی اصل صدقہ کر دے نہ وہ بیع ہو سکے نہ ہبہ، نہ اس میں ترکہ ہو بلکہ اس کا میوہ خیرات ہوا کرے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اسی طرح اللہ کی راہ میں یعنی مجاہدین اور مساکین اور غلاموں کے آزاد کرانے اور مہمانوں اور مسافروں اور ناطے والوں کے لیے صدقہ کر دیا۔ اور یہ اجازت دی کہ جو اس کا متولی ہو وہ اس میں سے دستور کے موافق کھائے۔ اپنے دوستوں کو کھلائے، لیکن اس میں سے دولت جمع نہ کرے۔ باب میں اور حدیث باب میں بنجر زمین کی آباد کاری کا ذکر ہے۔ طحاوی نے کہا بنجر وہ زمین ہے جو کسی کی ملک نہ ہو، نہ شہر اور نہ بستی کے متعلق ہو۔ آج کے حالات کے تحت اس تعریف سے کوئی زمین ایسی بنجر نہیں رہتی جو اس باب یا حدیث کے ذیل آسکے۔ اس لیے کہ آج زمین کا ایک ایک چپہ خواہ وہ بنجر در بنجر ہی کیوں نہ ہو وہ حکومت کی ملکیت میں داخل ہے۔ یا کسی گاؤں بستی سے متعلق ہے تو اس کی ملکیت میں شامل ہے۔

بہر صورت مفہوم حدیث اور باب اپنی جگہ بالکل آج بھی جاری ہے کہ بنجر زمینوں کے آباد کرنے والوں کا حق ہے۔ اور موجودہ حکومت یا اہل قریہ کا فرض ہے کہ وہ زمین اسی آباد کرنے والے کے نام منتقل کردیں۔ اس سے زمین کی آباد کاری کے لیے ہمت افزائی مقصود ہے۔ اور یہ ہر زمانہ میں انسانیت کا ایک اہم وسیلہ رہا ہے۔ جس قدر زمین زیادہ آباد ہوگی بنی نوع انسان کو اس سے زیادہ نفع پہنچے گا۔ لفظ ”ارضا مواتا“ اس بنجر زمین پر بولا جاتا ہے ہے جس میں کھیتی نہ ہوتی ہو۔ اس کے آباد کرنے کا مطلب یہ کہ اس میں پانی لایا جائے۔ پھر اس میں باغ لگائے جائیں یا کھیتی کی جائے تو اس کا حق ملکیت اس کے آباد کرنے والے کے لیے ثابت ہوجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت یا اہل بستی اگر ایسی زمین کو اس سے چھین کر کسی اور کو دیں گے تو وہ عنداللہ ظالم ٹھہریں گے۔

حدیث نمبر : 2334
حدثنا صدقة، أخبرنا عبد الرحمن، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن أبيه، قال قال عمر ـ رضى الله عنه ـ لولا آخر المسلمين ما فتحت قرية إلا قسمتها بين أهلها كما قسم النبي صلى الله عليه وسلم خيبر‏.‏
ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالرحمن بن مہدی نے خبردی، انہیں امام مالک نے، انہیں زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جتنے شہر بھی فتح کرتا، انہیں فتح کرنے والوں میں تقسیم کر تا جاتا، بالکل اسی طرح جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین تقسیم فرما دی تھی۔

تشریح : مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایسے بہت سے مسلمان لوگ پیدا ہوں گے جو محتاج ہوں گے۔ اگر میں تمام مفتوحہ ممالک کو غازیوں میں تقسیم کرتا چلا جاؤں تو آئندہ محتاج مسلمان محروم رہ جائیں گے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت فرمایا جب سواد کا ملک فتح ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : اس شخص کا بیان جس نے بنجر زمین کو آباد کیا

حدیث نمبر : 2349
ورأى ذلك علي في أرض الخراب بالكوفة موات. وقال عمر: من أحيا أرضا ميتة فهي له، ويروى عن عمر وابن عوف عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: (في غير حق مسلم، وليس لعرق ظالم فيه حق). ويروى فيه عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.‏
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ویران علاقوں کو آباد کرنے کے لءے یہی حکم دیا تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو کوءی بجنر زمین کو آباد کرے، وہ اسی کی ہو جاتی ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عوف رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے۔ البتہ ابن عوف رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنی روایت میں) یہ زیادتی کی ہے کہ بشرطیکہ وہ (غیر آباد زمین) کسی مسلمان کی نہ ہو، اور ظالم رگ والے کا زمین میں کوءی حق نہیں ہے۔ اور اس سلسلے میں جابر رضی اللہ عنہ کی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی ہی روایت ہے۔

حدیث نمبر : 2335
حدثنا يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن عبيد الله بن أبي جعفر، عن محمد بن عبد الرحمن، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من أعمر أرضا ليست لأحد فهو أحق). قال عروة: قضى به عمر رضي الله عنه في خلافته.
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن ابی جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عاءشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے کوءی ایسی زمین آباد کی، جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حق دار ہے۔ عروہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یہی فیصلہ کیا تھا۔

تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات سے یہ امر ظاہر ہے کہ ایسی بنجر زمینوں کی آبادکاری ، پھر ان کی ملکیت ، یہ جملہ امور حکومت وقت کی اجازت سے وابستہ ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا تھا آج بھی بیشتر ممالک میں یہی قانون نافذ ہے ۔ جو غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے بے حد ضروری ہے ۔ عروہ کے اثر کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں وصل کیا ۔ اور اس کی دوسری روایت میں مذکور ہے جس کو ابوعبید قاسم بن سلام نے کتاب الاموال میں نکالا کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںزمینوں کو روکنے لگے ، تب آپ نے یہ قانون نافذ کیا کہ جو کوئی ناآباد زمین کو آباد کرے گا وہ اس کی ہو جائے گی ۔ مطلب یہ تھا کہ محض قبضہ کرنے یا روکنے سے ایسی زمین پر حق ملکیت ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس کو آباد نہ کرے ۔ حافظ صاحب نے بحوالہ طحاوی نقل فرمایا ہے کہ خرج رجل من اہل البصرۃ یقال لہ ابوعبداللہ الی عمر فقال ان بارض البصرۃ ارضا لا تضر باحد من المسلمین و لیست بارض خراج فان شئت ان تقطعنیہا اتخذہا قضبا و زیتونا فکتب عمر الی ابی موسیٰ ان کانت کذلک فاقطعہا ایاہ ( فتح ) یعنی بصرہ کا باشندہ ابوعبداللہ نامی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتلایا کہ بصرہ میں ایک ایسی زمین پڑی ہوئی ہے کہ جس سے کسی مسلمان کو کوئی ضرر نہیں ہے ۔ نہ وہ خراجی ہے ۔ اگر آپ اسے مجھے دے دیں تو میں اس میں زیتون وغیرہ کے درخت لگالوں گا ۔ آپ نے عامل بصرہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جاکر اس زمین کو دیکھیں ۔ اگر واقعہ یہی ہے تو اسے اس شخص کو دے دیں ۔ معلوم ہوا کہ فالتو زمین کو آباد کرنے کے لیے حکومت وقت کی اجازت ضروری ہے ۔
 
Top