Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب :۔۔۔
اس باب میں کوئی ترجمہ مذکور نہیں ہے۔ گویا پہلے باب ہی کی ایک فصل ہے اور مناسبت باب کی حدیث سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کی زمین میں یہ حکم نہیں دیا کہ جو کوئی اس کو آباد کرے تو وہ اس کی ملک ہے۔ کیوں کہ ذو الحلیفہ لوگوں کے اترنے کی جگہ ہے۔ ثابت ہوا کہ غیر آباد زمین اگر پڑاؤ وغیرہ کے کام آتی ہو تو وہ کسی کی ملک نہیں، وہاں ہر شخص اتر سکتا ہے، وادی عقیق کے لیے بھی یہی حکم لگایا گیا۔ حدیث ذیل کے یہاں وارد کرنے کا یہی مقصد ہے۔
حدیث نمبر : 2336
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أري وهو في معرسه من ذي الحليفة في بطن الوادي، فقيل له إنك ببطحاء مباركة. فقال موسى وقد أناخ بنا سالم بالمناخ الذي كان عبد الله ينيخ به، يتحرى معرس رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أسفل من المسجد الذي ببطن الوادي، بينه وبين الطريق وسط من ذلك.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے ان کے باپ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مکہ کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے ) جب ذو الحلیفہ میں نالہ کے نشیب میں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا تو آپ سے خواب میں کہا گیا کہ آپ اس وقت ایک مبارک وادی میں ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ ( راوی حدیث ) نے بیان کیا کہ سالم ( بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) نے بھی ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا۔ جہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بٹھایا کرتے تھے، تاکہ اس جگہ قیام کر سکیں، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ یہ جگہ وادی عقیق کی مسجد سے نالہ کے نشیب میں ہے۔ وادی عقیق اور راستے کے درمیا ن میں۔
حدیث نمبر : 2337
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا شعيب بن إسحاق، عن الأوزاعي، قال حدثني يحيى، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن عمر ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "الليلة أتاني آت من ربي وهو بالعقيق أن صل في هذا الوادي المبارك وقل عمرة في حجة".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا فرشتہ آیا۔ آپ اس وقت وادی عقیق میں قیام کئے ہوئے تھے۔ ( اور اس نے یہ پیغام پہنچایا کہ ) اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور کہا کہ کہہ دیجئے ! عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔
تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کو مزید واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بنجر اور غیر آباد زمین پر جو کسی کی بھی ملکیت نہ ہو، ہل چلانے والا اس کا مالک بن جاتا ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی عقیق میں قیام فرمایا جو کسی کی ملکیت نہ تھی۔ اس لیے یہ وادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کرنے کی جگہ بن گئی، بالکل اسی طرح غیر آباد اور ناملکیت زمین کا آباد کرنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ آج کل چونکہ زمین کا چپہ چپہ ہر ملک کی حکومت کی ملکیت مانا گیا ہے اس لیے ایسی زمینات کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہے۔
باب :۔۔۔
اس باب میں کوئی ترجمہ مذکور نہیں ہے۔ گویا پہلے باب ہی کی ایک فصل ہے اور مناسبت باب کی حدیث سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کی زمین میں یہ حکم نہیں دیا کہ جو کوئی اس کو آباد کرے تو وہ اس کی ملک ہے۔ کیوں کہ ذو الحلیفہ لوگوں کے اترنے کی جگہ ہے۔ ثابت ہوا کہ غیر آباد زمین اگر پڑاؤ وغیرہ کے کام آتی ہو تو وہ کسی کی ملک نہیں، وہاں ہر شخص اتر سکتا ہے، وادی عقیق کے لیے بھی یہی حکم لگایا گیا۔ حدیث ذیل کے یہاں وارد کرنے کا یہی مقصد ہے۔
حدیث نمبر : 2336
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أري وهو في معرسه من ذي الحليفة في بطن الوادي، فقيل له إنك ببطحاء مباركة. فقال موسى وقد أناخ بنا سالم بالمناخ الذي كان عبد الله ينيخ به، يتحرى معرس رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أسفل من المسجد الذي ببطن الوادي، بينه وبين الطريق وسط من ذلك.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے ان کے باپ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مکہ کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے ) جب ذو الحلیفہ میں نالہ کے نشیب میں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا تو آپ سے خواب میں کہا گیا کہ آپ اس وقت ایک مبارک وادی میں ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ ( راوی حدیث ) نے بیان کیا کہ سالم ( بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) نے بھی ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا۔ جہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بٹھایا کرتے تھے، تاکہ اس جگہ قیام کر سکیں، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ یہ جگہ وادی عقیق کی مسجد سے نالہ کے نشیب میں ہے۔ وادی عقیق اور راستے کے درمیا ن میں۔
حدیث نمبر : 2337
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا شعيب بن إسحاق، عن الأوزاعي، قال حدثني يحيى، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن عمر ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "الليلة أتاني آت من ربي وهو بالعقيق أن صل في هذا الوادي المبارك وقل عمرة في حجة".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا فرشتہ آیا۔ آپ اس وقت وادی عقیق میں قیام کئے ہوئے تھے۔ ( اور اس نے یہ پیغام پہنچایا کہ ) اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور کہا کہ کہہ دیجئے ! عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔
تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کو مزید واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بنجر اور غیر آباد زمین پر جو کسی کی بھی ملکیت نہ ہو، ہل چلانے والا اس کا مالک بن جاتا ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی عقیق میں قیام فرمایا جو کسی کی ملکیت نہ تھی۔ اس لیے یہ وادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کرنے کی جگہ بن گئی، بالکل اسی طرح غیر آباد اور ناملکیت زمین کا آباد کرنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ آج کل چونکہ زمین کا چپہ چپہ ہر ملک کی حکومت کی ملکیت مانا گیا ہے اس لیے ایسی زمینات کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہے۔