• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب :۔۔۔

اس باب میں کوئی ترجمہ مذکور نہیں ہے۔ گویا پہلے باب ہی کی ایک فصل ہے اور مناسبت باب کی حدیث سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کی زمین میں یہ حکم نہیں دیا کہ جو کوئی اس کو آباد کرے تو وہ اس کی ملک ہے۔ کیوں کہ ذو الحلیفہ لوگوں کے اترنے کی جگہ ہے۔ ثابت ہوا کہ غیر آباد زمین اگر پڑاؤ وغیرہ کے کام آتی ہو تو وہ کسی کی ملک نہیں، وہاں ہر شخص اتر سکتا ہے، وادی عقیق کے لیے بھی یہی حکم لگایا گیا۔ حدیث ذیل کے یہاں وارد کرنے کا یہی مقصد ہے۔

حدیث نمبر : 2336
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أري وهو في معرسه من ذي الحليفة في بطن الوادي، فقيل له إنك ببطحاء مباركة‏.‏ فقال موسى وقد أناخ بنا سالم بالمناخ الذي كان عبد الله ينيخ به، يتحرى معرس رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أسفل من المسجد الذي ببطن الوادي، بينه وبين الطريق وسط من ذلك‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے ان کے باپ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مکہ کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے ) جب ذو الحلیفہ میں نالہ کے نشیب میں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا تو آپ سے خواب میں کہا گیا کہ آپ اس وقت ایک مبارک وادی میں ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ ( راوی حدیث ) نے بیان کیا کہ سالم ( بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) نے بھی ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا۔ جہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بٹھایا کرتے تھے، تاکہ اس جگہ قیام کر سکیں، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ یہ جگہ وادی عقیق کی مسجد سے نالہ کے نشیب میں ہے۔ وادی عقیق اور راستے کے درمیا ن میں۔

حدیث نمبر : 2337
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا شعيب بن إسحاق، عن الأوزاعي، قال حدثني يحيى، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن عمر ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏الليلة أتاني آت من ربي وهو بالعقيق أن صل في هذا الوادي المبارك وقل عمرة في حجة‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا فرشتہ آیا۔ آپ اس وقت وادی عقیق میں قیام کئے ہوئے تھے۔ ( اور اس نے یہ پیغام پہنچایا کہ ) اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور کہا کہ کہہ دیجئے ! عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔

تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کو مزید واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بنجر اور غیر آباد زمین پر جو کسی کی بھی ملکیت نہ ہو، ہل چلانے والا اس کا مالک بن جاتا ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی عقیق میں قیام فرمایا جو کسی کی ملکیت نہ تھی۔ اس لیے یہ وادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کرنے کی جگہ بن گئی، بالکل اسی طرح غیر آباد اور ناملکیت زمین کا آباد کرنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ آج کل چونکہ زمین کا چپہ چپہ ہر ملک کی حکومت کی ملکیت مانا گیا ہے اس لیے ایسی زمینات کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : اگر زمین کا مالک کاشتکار سے یوں کہے میں تجھ کو اس وقت تک رکھوں گا جب تک اللہ تجھ کو رکھے اور کوئی مدت مقرر نہ کرے تو معاملہ ان کی خوشی پر رہے گا ( جب چاہیں فسخ کردیں )

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ ثابت فرمایا کہ فتح خیبر کے بعد خیبر کی زمین اسلامی ملکیت میں آگئی تھی۔ آپ نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر فریقین رضا مند ہوں تو بٹائی کا معاملہ تعیین مدت کے بغیر بھی جائز ہے۔ مگر یہ فریقین کی رضا مندی پر موقوف ہے۔ خیبر کی زمین کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ اس کا بیشتر حصہ تو جنگ کے بعد فتح ہو گیا تھا۔ جو حسب قاعدہ شرع اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ملکیت میں آگیا تھا۔ کچھ حصہ صلح کے بعد فتح ہوا۔ پھر وہ بھی حسب قاعدہ جنگ مسلمانوں کی ملک قرار دیا گیا۔ تیماء اور اریحاء دو مقاموں کے نام ہیں جو سمندر کے کنارے بنی طے کے ملک پر واقع ہیں۔ ملک شام کی راہ یہیں سے شروع ہوتی ہے۔

حدیث نمبر : 2338
حدثنا أحمد بن المقدام، حدثنا فضيل بن سليمان، حدثنا موسى، أخبرنا نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال عبد الرزاق أخبرنا ابن جريج قال حدثني موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر أن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنهما ـ أجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما ظهر على خيبر أراد إخراج اليهود منها، وكانت الأرض حين ظهر عليها لله ولرسوله صلى الله عليه وسلم وللمسلمين، وأراد إخراج اليهود، منها فسألت اليهود رسول الله صلى الله عليه وسلم ليقرهم بها أن يكفوا عملها ولهم نصف الثمر، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏نقركم بها على ذلك ما شئنا‏"‏‏. ‏ فقروا بها حتى أجلاهم عمر إلى تيماء وأريحاء‏.
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ انہیں نافع نے خبر دی، اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جب خیبر پر ) فتح حاصل کی تھی ( دوسری سند ) اور عبدالرزاق نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو سرزمین حجاز سے نکال دیا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر فتح پائی تو آپ نے بھی یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا تھا۔ جب آپ کو وہاں فتح حاصل ہوئی تو اس کی زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ہو گئی تھی۔ آپ کا ارادہ یہودیوں کو وہاں سے باہر کرنے کا تھا، لیکن یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہمیں یہیں رہنے دیں۔ ہم ( خیبر کی اراضی کا ) سارا کام خود کریں گے اور اس کی پیداوار کا نصف حصہ لے لیں گے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب تک ہم چاہیں تمہیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چنانچہ وہ لوگ وہیں رہے اور پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تیماء اور اریحاءکی طرف جلاوطن کر دیا۔

کیوں کہ وہ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشیں کیا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے

کھیتی کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں باہمی اشتراک و امداد کی بے حد ضرورت ہے۔ اس بارے میں انصار و مہاجرین کا باہمی اشتراک بہت ہی قابل تحسین ہے۔ انصار نے اپنے کھیت اور باغ مہاجرین کے حوالے کر دیئے۔ اور مہاجرین نے اپنی محنت سے ان کو گل گلزار بنا دیا۔ رضی اللہ عنہم و رضواعنہ )

حدیث نمبر : 2339
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا الأوزاعي، عن أبي النجاشي، مولى رافع بن خديج سمعت رافع بن خديج بن رافع، عن عمه، ظهير بن رافع قال ظهير لقد نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أمر كان بنا رافقا‏.‏ قلت ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فهو حق‏.‏ قال دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ما تصنعون بمحاقلكم‏"‏‏. ‏ قلت نؤاجرها على الربع وعلى الأوسق من التمر والشعير‏.‏ قال ‏"‏لا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها أو أمسكوها‏"‏‏. ‏ قال رافع قلت سمعا وطاعة‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہیں امام اوزاعی نے خبر دی، انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے غلام ابونجاشی نے، انہوں نے رافع بن خدیج بن رافع رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انہوں نے اپنے چچا ظہیر بن رافع رضی اللہ عنہ سے، ظہیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع کیا تھا جس میں ہمارا ( بظاہر ذاتی ) فائدہ تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی فرمایا وہ حق ہے۔ ظہیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ اپنے کھیتوں کا معاملہ کس طرح کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہم اپنے کھیتوں کو ( بونے کے لیے ) نہر کے قریب کی زمین کی شرط پر دے دیتے ہیں۔ اسی طرح کھجور اور جو کے چند وسق پر۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ یا خود اس میں کھیتی کیا کرو یا دوسروں سے کراؤ۔ ورنہ اسے یوں خالی ہی چھوڑ دو۔ رافع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا ( آپ کا یہ فرمان ) میں نے سنا اور مان لیا۔

تشریح : بعض روایتوں میں لفظ ”علی الربع“ کی جگہ علی الربیع آیا ہے۔ اربعاء اسی کی جمع ہے۔ ربیع نالی کو کہتے ہیں اور بعض روایتوں میں علی الربع ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔ یعنی چوتھائی پیداوار پر، لیکن حافظ نے کہا صحیح ”علی الربیع“ ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ زمین کا کرایہ یہ ٹھہراتے کہ نالیوں پر جو پیداوار ہو وہ تو زمین والا لے گا اور باقی پیداوار محنت کرنے والے کی ہوگی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ یا تو خود کھیتی کرو، یا کراؤ یا اسے خالی پڑا رہنے دو۔ یا کاشت کے لیے اپنے کسی مسلمان بھائی کو بخش دو۔ زمین کا کوئی خاص قطعہ کھیت والا اپنے لیے مخصوص کر لے ایسا کرنے سے منع فرمایا کیوں کہ اس میں کاشتکار کے لیے نقصان کا احتمال ہے۔ بلکہ ایک طرح سے کھیت والے کے لیے بھی، کیوں کہ ممکن ہے اس خاص ٹکڑے سے دوسرے ٹکڑوں میں پیداوار بہتر ہو۔ پس نصف یا تہائی چوتھائی بٹائی پر اجازت دی گئی اور یہی طریقہ آج تک ہر جگہ مروج ہے۔ بصورت نقد روپیہ وغیرہ محصول لے کر زمین کاشتکار کو دے دینا، یہ طریقہ بھی اسلام نے جائز رکھا۔ آگے آنے والی احادیث میں یہ جملہ تفصیلات مذکور ہو رہی ہیں۔

حدیث نمبر : 2340
حدثنا عبيد الله بن موسى، أخبرنا الأوزاعي، عن عطاء، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال كانوا يزرعونها بالثلث والربع والنصف فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من كانت له أرض فليزرعها أو ليمنحها، فإن لم يفعل فليمسك أرضه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صحابہ تہائی، چوتھائی یا نصف پر بٹائی کا معاملہ کیا کرتے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود بوئے ورنہ دوسروں کو بخش دے۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اسے یوں ہی خالی چھوڑ دے۔

حدیث نمبر : 2341
وقال الربيع بن نافع أبو توبة حدثنا معاوية، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من كانت له أرض فليزرعها أو ليمنحها أخاه، فإن أبى فليمسك أرضه‏"‏‏. ‏
اور ربیع بن نافع ابوتوبہ نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کے پاس زمین ہو تو وہ خود بوئے ورنہ اپنے کسی ( مسلمان ) بھائی کو بخش دے، اور اگر یہ نہیں کرسکتا تو اسے یوں ہی خالی چھوڑ دے۔

حدیث نمبر : 2342
حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن عمرو، قال ذكرته لطاوس فقال يزرع، قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ إن النبي صلى الله عليه وسلم لم ينه عنه ولكن قال ‏"‏أن يمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ شيئا معلوما‏"‏‏. ‏
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے اس کا ( یعنی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کا ) ذکر طاؤس سے کیا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا تھا۔ البتہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ اپنے کسی بھائی کو زمین بخشش کے طور پر دے دینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر کوئی محصول لے۔ ( یہ اس صورت میں کہ زمیندار کے پاس فالتو زمین بیکار پڑی ہو )

حدیث نمبر : 2343
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن أيوب، عن نافع، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كان يكري مزارعه على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان وصدرا من إمارة معاوية‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے کھیتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد میں اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی عہد خلافت میں کرایہ پر دیتے تھے۔

حدیث نمبر : 2344
ثم حدث عن رافع بن خديج، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن كراء المزارع، فذهب ابن عمر إلى رافع فذهبت معه، فسأله فقال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن كراء المزارع‏.‏ فقال ابن عمر قد علمت أنا كنا نكري مزارعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم بما على الأربعاء وبشىء من التبن‏.‏
پھر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ ( یہ سن کر ) ابن عمر رضی اللہ عنہما رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم اپنے کھیتوں کو اس پیداوار کے بدل جو نالیوں پر ہو اور تھوڑی گھاس کے بدل دیا کرتے تھے۔

قانون الگ ہے اور ایثار الگ۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے قانون نہیں بلکہ احسان اور ایثار کے طریقہ کو بتلایا ہے اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جواز اور عدم جواز کی صورت بیان فرما رہے ہیں۔ جس کا مقصد یہ کہ مدینہ میں جو یہ طریقہ رائج تھا کہ نہر کے قریب کی پیداوار زمین کا مالک لے لیتا اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا مطلق بٹائی سے منع نہیں فرمایا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے اس طرز عمل کی بڑے شاندار لفظوں میں رغبت دلائی ہے۔

حدیث نمبر : 2345
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، أخبرني سالم، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كنت أعلم في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الأرض تكرى‏.‏ ثم خشي عبد الله أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم قد أحدث في ذلك شيئا لم يكن يعلمه، فترك كراء الأرض‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مجھے معلوم تھا کہ زمین کو بٹائی پر دیا جاتا تھا۔ پھر انہیں ڈر ہوا کہ ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کوئی نئی ہدایت فرمائی ہو جس کا علم انہیں نہ ہوا ہو۔ چنانچہ انہوں نے ( احتیاطاً ) زمین کو بٹائی پر دینا چھوڑ دیا۔

پیچھے تفصیل گزر چکا ہے کہ بیشتر مہاجرین انصار کی زمینوں پر بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔ پس بٹائی پر دینا بلاشبہ جائز ہے یوں احتیاط کا معاملہ الگ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : نقدی لگان پر سونا چاندی کے بدل زمین دینا

وقال ابن عباس إن أمثل ما أنتم صانعون أن تستأجروا الأرض البيضاء من السنة إلى السنة‏
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ بہتر کام جو تم کرنا چاہو یہ ہے کہ اپنی خالی زمین کو ایک سال سے دوسرے سال تک کرایہ پر دو۔

حدیث نمبر : 2346-2347
حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا الليث، عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن حنظلة بن قيس، عن رافع بن خديج، قال حدثني عماى، أنهم كانوا يكرون الأرض على عهد النبي صلى الله عليه وسلم بما ينبت على الأربعاء أو شىء يستثنيه صاحب الأرض فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك فقلت لرافع فكيف هي بالدينار والدرهم فقال رافع ليس بها بأس بالدينار والدرهم‏.‏ وقال الليث وكان الذي نهي عن ذلك ما لو نظر فيه ذوو الفهم بالحلال والحرام لم يجيزوه، لما فيه من المخاطرة‏.‏
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن قیس نے بیان کیا، ان سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے چچا ( ظہیر اور مہیر رضی اللہ عنہما ) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر ( کے قریب کی پیداوار ) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین ( اپنے لیے ) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا، اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور لیث نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کی بٹائی سے منع فرمایا تھا، وہ ایسی صورت ہے کہ حلال و حرام کی تمیز رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے جائز نہیں قرار ددے سکتا۔ کیوں کہ اس میں کھلا دھوکہ ہے۔

اس سے جمہور کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ جس مزارعت میں دھوکہ نہ ہو مثلاً روپیہ وغیرہ کے بدل ہو یا پیداوار کے نصف یا ربع پر ہو تو وہ جائز ہے۔ منع وہی مزارعت ہے جس میں دھوکہ ہو مثلاً کسی خاص مقام کی پیداوار پر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 2348
حدثنا محمد بن سنان، حدثنا فليح، حدثنا هلال، وحدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا أبو عامر، حدثنا فليح، عن هلال بن علي، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يوما يحدث وعنده رجل من أهل البادية ‏"‏أن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه في الزرع فقال له ألست فيما شئت قال بلى ولكني أحب أن أزرع‏.‏ قال فبذر فبادر الطرف نباته واستواؤه واستحصاده، فكان أمثال الجبال فيقول الله دونك يا ابن آدم، فإنه لا يشبعك شىء‏"‏‏. ‏ فقال الأعرابي والله لا تجده إلا قرشيا أو أنصاريا، فإنهم أصحاب زرع، وأما نحن فلسنا بأصحاب زرع‏.‏ فضحك النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عطاءبن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیان فرما رہے تھے.... ایک دیہاتی بھی مجلس میں حاضر تھا .... کہ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا اپنی موجودہ حالت پر تو راضی نہیں ہے؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس نے بیج ڈالا۔ پلک جھپکنے میں وہ اگ بھی آیا۔ پک بھی گیا اور کاٹ بھی لیا گیا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوئے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم ! اسے رکھ لے، تجھے کوئی چیز آسودہ نہ نہیں کرسکتی۔ یہ سن کر دیہاتی نے کہا کہ قسم خدا کی وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہوگا۔ کیوں کہ یہی لوگ کھیتی کرنے والے ہیں۔ ہم تو کھیتی ہی نہیں کرتے۔ اس با ت پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آگئی۔

حقیقت میں آدمی ایسا ہی حریص ہے۔ کتنی بھی دولت اور راحت ہو، وہ اس پر قناعت نہیں کرتا۔ زیادہ طلبی اس کے خمیر میں ہے۔ اسی طرح تلون مزاجی، حالانکہ جنت میں سب کچھ موجود ہوگا۔ پھر بھی کچھ لوگ کھیتی کی خواہش کریں گے، اللہ پاک اپنے فضل سے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دے گا۔ جیسا کہ راویت مذکور میں ہے۔ جو اپنے معانی اور مطالب کے لحاظ سے حقائق پر مبنی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحرث والمزارعۃ
باب : درخت بونے کا بیان

حدیث نمبر : 2349
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ أنه قال إنا كنا نفرح بيوم الجمعة، كانت لنا عجوز تأخذ من أصول سلق لنا كنا نغرسه في أربعائنا فتجعله في قدر لها فتجعل فيه حبات من شعير لا أعلم إلا أنه قال ليس فيه شحم ولا ودك، فإذا صلينا الجمعة زرناها فقربته، إلينا فكنا نفرح بيوم الجمعة من أجل ذلك وما كنا نتغدى ولا نقيل إلا بعد الجمعة‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ جمعہ کے دن ہمیں بہت خوشی ( اس بات کی ) ہوتی تھی کہ ہماری ایک بوڑھی عورت تھیں جو اس چقندر کو اکھاڑ لاتیں جسے ہم اپنے باغ کی مینڈوں پر بو دیا کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی ہانڈی میں پکاتیں اوراس میں تھوڑے سے جو بھی ڈال دیتیں۔ ابوحازم نے کہا میں نہیں جانتا کہ سہل نے یوں کہا نہ اس میں چربی ہوتی نہ چکنائی۔ پھر جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ وہ اپنا پکوان ہمارے سامنے کر دیتیں۔ اس لیے ہمیں جمعہ کے دن کی خوشی ہوتی تھی۔ اور ہم دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔

صحابہ کرام کا اپنے باغوں کی مینڈوں پر چقندر لگانا مذکور ہے۔ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا نیز اس بوڑھی اماں کا جذبہ خدمت قابل رشک ثابت ہوا۔ جو اصحاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کے لیے اتنا اہتمام کرتی اور ہر جمعہ کو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں مدعو فرماتی تھی۔ چقندر اورجو، ہر دو کا مخلوط دلیہ جو تیار ہوتا اس کی لذت اور لطافت کا کیا کہنا۔ بہرحال حدیث سے بہت سے مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ جمعہ کے دن مسنون ہے کہ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کی نماز کے بعد کیا جائے۔ خواتین کا بوقت ضرورت اپنے کھیتوں پر جانا بھی ثابت ہوا۔ مگر پردہ شرعی ضروری ہے۔

حدیث نمبر : 2350
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال يقولون إن أبا هريرة يكثر الحديث‏.‏ والله الموعد، ويقولون ما للمهاجرين والأنصار لا يحدثون مثل أحاديثه وإن إخوتي من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق، وإن إخوتي من الأنصار كان يشغلهم عمل أموالهم، وكنت امرأ مسكينا ألزم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني، فأحضر حين يغيبون وأعي حين ينسون، وقال النبي صلى الله عليه وسلم يوما ‏"‏لن يبسط أحد منكم ثوبه حتى أقضي مقالتي هذه، ثم يجمعه إلى صدره، فينسى من مقالتي شيئا أبدا‏"‏‏. ‏ فبسطت نمرة ليس على ثوب غيرها، حتى قضى النبي صلى الله عليه وسلم مقالته، ثم جمعتها إلى صدري، فوالذي بعثه بالحق ما نسيت من مقالته تلك إلى يومي هذا، والله لولا آيتان في كتاب الله ما حدثتكم شيئا أبدا ‏{‏إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات‏}‏ إلى قوله ‏{‏الرحيم‏}‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، آپ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں ابوہریرہ بہت حدیث بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے بھی اللہ سے ملنا ہے ( میں غلط بیانی کیسے کرسکتا ہوں ) یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار آخر اس کی طرح کیوں احادیث بیان نہیں کرتے؟ بات یہ ہے کہ میرے بھائی مہاجرین بازاروں میں خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے اور میرے بھائی انصار کو ان کی جائیداد ( کھیت اور باغات وغیرہ ) مشغول رکھا کرتی تھی۔ صرف میں ایک مسکین آدمی تھا۔ پیٹ بھر لینے کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ہی میں برابر حاضر رہا کرتا۔ جب یہ سب حضرات غیر حاضر رہتے تو میں حاضر ہوتا۔ اس لیے جن احادیث کو یہ یاد نہیں کرسکتے تھے، میں انہیں یاد رکھتا تھا، اور ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو شخص بھی اپنے کپڑے کو میری اس تقریر کے ختم ہونے تک پھیلائے رکھے پھر ( تقریر ختم ہونے پر ) اسے اپنے سینے سے لگا لے تو وہ میری احادیث کو کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنی کملی کو پھیلا دیا۔ جس کے سوا میرا بدن پر اور کوئی کپڑا نہیں تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تقریر ختم فرمائی تو میں نے وہ چادر اپنے سینے سے لگالی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا، پھر آج تک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ارشاد کی وجہ سے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث نہیں بھولا ) اللہ گواہ ہے کہ اگر قرآن کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں تم سے کوئی حدیث کبھی بیان نہ کرتا آیت ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد الرحیم تک۔ ( جس میں اس دین کے چھپانے والے پر، جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں بھیجا ہے، سخت لعنت کی گئی ہے۔

یہ حدیث کئی جگہ نقل ہوئی ہے، اور مجتہد مطلق حضرات امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے، یہاں اس حدیث کے لانے کا مقصد یہ دکھلانا ہے کہ انصار مدینہ عام طور پر کھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کھیتوں اور باغوں کو ذریعہ معاش بنانا کوئی امر معیوب نہیں ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے کہ جتنی مخلوق ان سے فائدہ اٹھائے گی اس کے لیے اجر و ثواب میں زیادتی کا موجب ہوگا۔ والحمد للہ علی ذلک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب المساقاۃ


صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
(کتاب مساقات کے بیان میں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مساقات درحقیقت مزارعت کی ایک قسم ہے۔ فرق یہ ہے کہ مزارعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات درختوں میں، یعنی ایک شخص کے درخت ہوں وہ دوسرے سے یوں کہے، تم ان کو پانی دیا کرو، ان کی خدمت کرتے رہو، پیداوار ہم تم بانٹ لیں گے۔ اسی بارے کے مسائل بیان ہوں گے۔ مساقات سقی سے مشتق ہے جس کے معنی سیراب کرنا ہے۔ اصطلاح میں یہی کہ باغ یا کھیت کا مالک اپنا باغ یا کھیت اس شرط پر کسی کو دے دے کہ اس کی آبپاشی اور محنت اس کے ذمہ ہوگی اور پیداوار میں دونوں شریک ہوں گے۔

باب : کھیتوں اور باغوں کے لیے پانی میں سے اپنا حصہ لینا

وقول الله تعالى ‏{‏وجعلنا من الماء كل شىء حى أفلا يؤمنون‏}‏
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا ” اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا۔ اب بھی تم ایمان نہیں لاتے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ” دیکھا تم نے اس پانی کو جس کو تم پیتے ہو، کیا تم نے بادلوں سے اسے اتارا ہے، یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں۔ ہم اگر چاہتے تو اس کو کھاری بنا دیتے۔ پھر بھی تم شکر ادا نہیں کرتے۔ “ اجاج ( قرآن مجید کی آیت میں ) کھاری پانی کے معنی میں ہے اور مزن بادل کو کہتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : پانی کی تقسیم

ومن رأى صدقة الماء وهبته ووصيته جائزة، مقسوما كان أو غير مقسوم. وقال عثمان: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (من يشتري بئر رومة فيكون دلوه فيها كدلاء المسلمين). فاشتراها عثمان رضي الله عنه.‏
اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے وہ پانی بٹا ہوا ہو یا بن بٹا ہوا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی ہے جو بیئر رومہ ( مدینہ میں ایک مشہور کنواں ) کو خرید لے اور اپنا ڈول اس میں اسی طرح ڈالے جس طرح اور مسلمان ڈالیں۔ ( یعنی اسے واقف کردے ) آخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے خریدا۔

تشریح : بیئر رومہ مدینہ کا مشہور کنواں ایک یہودی کی ملکیت میں تھا۔ مسلمان اس سے خرید کر پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خریدنے اور عام مسلمانوں کے لیے وقف کردینے کی ترغیب دلائی جس پر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اسے خرید کر مسلمانوں کو وقف کر دیا، کنواں، نہر، تالاب وغیرہ پانی کے ذخائر کسی بھی فرد کی ملکیت میں آسکتے ہیں۔ اس لیے اسلام میں ان سب کی خرید و فروخت و ہبہ اور وصیت وغیرہ جائز رکھی گئی ہے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یہ کنواں بحمد اللہ آج بھی موجود ہے۔ حکومت سعودیہ نے اس پر ایک بہترین فارم قائم کیا ہوا ہے اور مشینوں سے یہاں آب پاشی کی جاتی ہے۔ الحمد للہ کہ 89ھ کے حج و زیارت کے موقع پر یہاں بھی جانے کا موقع ملا۔ جو جامعہ اسلامیہ کی طرف ہے اور حرم مدینہ سے ہر وقت موٹریں ادھر آتی جاتی رہتی ہیں۔ یہاں کا ماحول بے حد خوشگوار ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو یہ ماحول دیکھنا نصیب کرے۔ آمین۔

حدیث نمبر : 2351
حدثنا سعيد بن أبي مريم: حدثنا أبو غسان قال: حدثني أبو حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بقدح فشرب منه، وعن يمينه غلام أصغر القوم، والأشياخ عن يساره، فقال: (يا غلام، أتأذن لي أن أعطيه الأشياخ). قال: ما كنت لأوثر بفضلي منك أحدا يا رسول الله، فأعطاه إياه.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا لڑکے ! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔

تشریح : یہ نوعمر لڑکے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تھے اور اتفاق سے یہ اس وقت مجلس میں دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے ۔ دیگر شیوخ اور بزرگ صحابہ بائیں جانب تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب باقی ماندہ مشروب کو تقسیم فرمانا چاہا تویہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونی تھی ۔ اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو پہنچتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب والے بزرگوں کا خیال فرما کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اجازت چاہی لیکن وہ اس لیے تیار نہ ہوئے کہ اس طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بچایا ہوا پانی کہاں اور کب نصیب ہونا تھا ۔ اس لیے انہوں نے اس ایثار سے صاف انکار کر دیا ۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ پانی کی تقسیم ہو سکتی ہے اور اس کے حصے کی ملک جائز ہے ۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑکے سے اجازت کیوں طلب فرماتے ۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ تقسیم میں داہنی طرف والوں کا حصہ ہے ، پھر بائیں طرف والوں کا ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا پانی اس لڑکے پر ہبہ فرما دیا ۔ اس سے پانی کا ہبہ کر دینا بھی ثابت ہوا ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حق اور ناحق کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کا بھی لحاظ نہیں کیا جاسکتا ۔ حق بہرحال حق ہے اگر وہ کسی چھوٹے آدمی کو پہنچتا ہے تو بڑوں کا فرض ہے ۔ کہ بہ رضا رغبت اسے اس کے حق میں منتقل ہونے دیں ۔ اور اپنی بڑائی کا خیال چھوڑدیں ، لیکن آج کے دور میں ایسے ایثار کرنے والے لوگ بہت کم ہیں ، ایثار اور قربانی ایمان کا تقاضا ہے اللہ ہر مسلمان کو یہ توفیق بخشے ۔ آمین ۔

حدیث نمبر : 2352
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أنها حلبت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة داجن وهى في دار أنس بن مالك، وشيب لبنها بماء من البئر التي في دار أنس، فأعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم القدح فشرب منه، حتى إذا نزع القدح من فيه، وعلى يساره أبو بكر وعن يمينه أعرابي فقال عمر وخاف أن يعطيه الأعرابي أعط أبا بكر يا رسول الله عندك‏.‏ فأعطاه الأعرابي الذي على يمينه، ثم قال ‏"‏الأيمن فالأيمن‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھر میں پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا، جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی کے گھر میں پلی تھی۔ پھر اس کے دودھ میں اس کنویں کا پانی ملا کر جو انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے پیا۔ جب اپنے منہ سے پیالہ آپ نے جدا کیا تو بائیں طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں طرف ایک دیہاتی تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ ڈرے کہ آپ یہ پیالہ دیہاتی کو نہ دے دیں۔ اس لیے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کو دے دیجئے۔ آپ نے پیالہ اسی دیہاتی کو دیا جو آپ کی دائیں طرف تھا۔ اور فرمایا کہ دائیں طرف والا زیادہ حق دار ہے۔ پھر وہ جو اس کی داہنی طرف ہو۔

تشریح : اس حدیث سے بھی پانی کا تقسیم یا ہبہ کرنا ثابت ہوا۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلام میں حق کے مقابلہ پر کسی کے لیے رعایت نہیں ہے۔ کوئی کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو۔ حق اس سے بھی بڑا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بزرگی میں کس کو شک ہو سکتا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ نے آپ کو نظر انداز فرما کر دیہاتی کو وہ پانی دیا اس لیے کہ قانون دیہاتی ہی کے حق میں تھا۔ امام عادل کی یہی شان ہونی چاہئیے۔ اور اعدلوا ہو اقرب للتقوی ( المائدۃ : 8 ) کا بھی یہی مطلب ہے۔ یہاں اس دیہاتی سے اجازت بھی نہیں لی گئی جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے لی گی تھی۔ اس ڈر سے کہ کہیں دیہاتی بد دل نہ ہوجائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : اس کے بارے میں جس نے کہا کہ پانی کا مالک پانی کا زیادہ حق دار ہے

حتى يروى، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: (لا يمنع فضل الماء).‏
یہاں تک وہ ( اپنا کھیت باغات وغیرہ ) سیراب کر لے۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ضرورت سے زیادہ جو پانی ہو اس سے کسی کو نہ روکا جائے۔

حدیث نمبر : 2353
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بچے ہوئے پانی سے کسی کو اس لیے نہ روکا جائے کہ اس طرح جو ضرورت سے زیادہ گھاس ہو وہ بھی رکی رہے۔

تشریح : اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا کنواں ایک مقام پر ہو، اس کے ارد گرد گھاس ہو جس میں عام طور پر سب کو چرانے کا حق ہو۔ مگر کنویں والا کسی کے جانوروں کو پانی نہ پینے دے اس غرض سے کہ جب پانی پینے کو نہ ملے تو لوگ اپنے جانور بھی وہاں چرانے کو نہ لائیں گے اور گھاس محفوظ رہے گی۔ جمہور کے نزدیک یہ حدیث محمول ہے اس کنویں پر جو ملکی زمین میں ہو یا ویران زمین میں بشرطیکہ ملکیت کی نیت سے کھودا گیا ہو اور جو کنواں خلق اللہ کے آرام کے لیے ویران زمین میں کھودا جائے اس کا پانی ملک نہیں ہوتا، لیکن کھودنے والا جب تک وہاں سے کوچ نہ کرے اس پانی کا زیادہ حق دا رہوتا ہے۔ اور ضرورت سے یہ مراد ہے کہ اپنے اور بال بچوں اور زراعت اور مویشی کے لیے جو پانی درکار ہو۔ اس کے بعدجو فاضل ہو اس کا روکنا جائز نہیں۔ خطابی نے کہا کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے مگر اس کی دلیل کیا ہے پس ظاہر یہی ہے کہ نہی تحریمی ہے اور پانی کو نہ روکنا واجب ہے۔ اب اختلاف ہے کہ فاضل پانی کی قیمت لینا اس کو روکنا ہے یا نہیں۔ ترجیح اسی کوحاصل ہے کہ فاضل پانی کی قیمت نہ لی جائے، کیوں کہ یہ بھی ایک طرح اس کا روکنا ہی ہے۔

حدیث نمبر : 2354
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، وأبي، سلمة عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا تمنعوا فضل الماء لتمنعوا به فضل الكلإ‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب اور ابوسلمہ نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فالتو پانی سے کسی کو اس غرض سے نہ روکو کہ جو گھاس ضرورت سے زیادہ ہو اسے بھی روک لو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : جس نے اپنی ملک میں کوئی کنواں کھودا، اس میں کوئی گر کر مر جائے تو اس پر تاوان نہ ہوگا

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے یہ قید لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں اہل کوفہ کے ساتھ متفق ہیں کہ اگر یہ کنواں اپنی ملک میں کھودا ہو تب کنواں والے پر ضمان نہ ہوگا۔ اور جمہور کہتے ہیں کہ کسی حال میں ضمان نہ ہوگا۔ خواہ اپنی ملک میں ہو یا غیر ملک میں۔ مزید تفصیل کتاب الدیات میں آئے گی۔

حدیث نمبر : 2355
حدثنا محمود، أخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن أبي حصين، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏المعدن جبار، والبئر جبار، والعجماء جبار، وفي الركاز الخمس‏"‏‏. ‏
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبید اللہ بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں اسرائیل نے، انہیں ابوحصین نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کان ( میں مرنے والے ) کا تاوان نہیں، کنویں ( میں گر کر مرجانے والے ) کا تاوان نہیں۔ اور کسی کا جانور ( اگر کسی آدمی کو مارے تو اس کا ) تاوان نہیں۔ گڑھے ہوئے مال میں سے پانچواں حصہ دینا ہوگا۔
 
Top