• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : کنویں کے بارے میں جھگڑنا اور اس کا فیصلہ

حدیث نمبر : 2356-2357
حدثنا عبدان، عن أبي حمزة، عن الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من حلف على يمين يقتطع بها مال امرئ، هو عليها فاجر، لقي الله وهو عليه غضبان‏"‏فأنزل الله تعالى ‏{‏إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏}‏ الآية‏. فجاء الأشعث فقال: ما حدثكم أبو عبد الرحمن؟ في أنزلت هذه الآية، كانت لي بئر في أرض ابن عم لي، فقال لي: (شهودك). قلت: ما لي شهود، قال: (فيمينه). قلت: يا رسول الله، إذا يحلف، فذكر النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث، فأنزل الله ذلك تصديقا له.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے شفیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کوئی ایسی جھوٹی قسم کھائے جس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کے مال پر ناحق قبضہ کرلے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر بہت زیادہ غضب ناک ہوگا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے ( سورہ آل عمران کی یہ ) آیت نازل فرمائی کہ ” جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی دولت خریدتے ہیں “ آخر آیت تک۔ پھر اشعث رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمن ( عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) نے تم سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ یہ آیت تو میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرا ایک کنواں میرے چچا زاد بھای کی زمین میں تھا۔ ( پھر جھگڑا ہوا تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تو اپنے گواہ لا۔ میں نے عرض کیا کہ گواہ تو میرے پاس نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر فریق مخالف سے قسم لے لے۔ اس پر میں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ تو قسم کھا بیٹھے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس بارے میں یہ آیت نازل فرما کر اس کی تصدیق کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : اس شخص کا گناہ جس نے کسی مسافر کو پانی سے روک دیا

یعنی جو پانی اس کی ضرورت سے زیادہ ہو جیسے حدیث میں اس کی تصریح ہے اور ضرورت کے موافق جو پانی ہو اس کا مالک زیادہ حق دار ہے بہ نسبت مسافر کے۔

حدیث نمبر : 2358
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد بن زياد، عن الأعمش، قال سمعت أبا صالح، يقول سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ثلاثة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولهم عذاب أليم رجل كان له فضل ماء بالطريق، فمنعه من ابن السبيل، ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا، فإن أعطاه منها رضي، وإن لم يعطه منها سخط، ورجل أقام سلعته بعد العصر، فقال والله الذي لا إله غيره لقد أعطيت بها كذا وكذا، فصدقه رجل‏"‏ثم قرأ هذه الآية ‏{‏إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏}‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا۔ دوسرا وہ شخص جو کسی حاکم سے بیعت صرف دنیا کے لیے کرے کہ اگر وہ حاکم اسے کچھ دے تو وہ راضی رہے ورنہ خفا ہو جائے۔ تیسرے وہ شخص جو اپنا ( بیچنے کا ) سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، مجھے اس سامان کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی، اس پر ایک شخص نے اسے سچ سمجھا ( اور اس کی بتائی ہوئی قیمت پر اس سامان کو خرید لیا ) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ” جو لوگ اللہ کو درمیان میں دے کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر دنیا کا تھوڑا سا مال مول لیتے ہیں “ آخر تک۔

تشریح : حدیث میں جن تین ملعون آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اول فالتو پانے سے روکنے والا، خاص طور پر پیاسے مسافر کو محروم رکھنے والا۔ وہ انسانیت کا مجرم ہے، اخلاق کا باغی ہے، ہمدردی کا دشمن ہے، اس کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے۔ ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہئے۔ اس کی جان خطرے میں ہے۔ اس کی بقا کے لیے اسے پانی پلانی چاہئے نہ کہ اسے پیاسا لوٹا دیا جائے۔ دوسرا وہ انسان جو اسلامی تنظیم میں محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے گھس بیٹھا ہے اور وہ خلاف مفاد ذار سی بات بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ بدترین انسان ہے جو ملی اتحاد کا دشمن قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے غدار کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس زمانہ میں اسلامی مدارس و دیگر تنظیموں میں بکثرت ایسے ہی لوگ برسراقتدار ہیں۔ جو محض ذاتی مفاد کے لیے ان سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اگر کسی وقت ان کے وقار پر ذرا بھی چوٹ پڑی تو وہ اسی مدرسہ کے، اسی تنظیم کے انتہائی دشمن بن کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ حدیث میں حاکم اسلام سے بیعت کرنے کا ذکر ہے مگر ہر اسلامی تنظیم کو اسی پر سمجھا جاسکتا ہے۔ تاریخ اسلام میں کتنے ہی ایسے غدار ملتے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی نقصان کا خیال کرکے اسلامی حکومت کو سازشوں کی آماجگاہ بنا کر آخر میں اس کی تہہ و بالا کر ا دیا۔ تیسرا وہ تاجر ہے جو مال نکالنے کے لیے جھوٹ فریب کا ہر ہتھیار استعمال کرتا ہے، اور جھوٹ بول بول کر خوب بڑھا چڑھا کر اپنا مال نکالتا ہے۔

الغرض بغور یکھا جاے تو یہ تینوں مجرم اتنہائی مذمت کے قابل ہیں اور حدیث ہذا میں جو کچھ ان کے متعلق بتلایا گیا ہے وہ اپنی جگہ پر بالکل صدق اور صواب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : نہر کا پانی روکنا

حدیث نمبر : 2359-2360
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال حدثني ابن شهاب، عن عروة، عن عبد الله بن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ أنه حدثه أن رجلا من الأنصار خاصم الزبير عند النبي صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة التي يسقون بها النخل فقال الأنصاري سرح الماء يمر فأبى عليه، فاختصما عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير ‏"‏اسق يا زبير، ثم أرسل الماء إلى جارك‏"‏‏. ‏ فغضب الأنصاري، فقال أن كان ابن عمتك‏.‏ فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏اسق يا زبير، ثم احبس الماء، حتى يرجع إلى الجدر‏"‏‏. ‏ فقال الزبير والله إني لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك ‏{‏فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏}‏‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک انصاری مرد نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کے نالے میں جس کا پانی مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں کو دیا کرتے تھے، اپنے جھگڑے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ انصاری زبیر سے کہنے لگا پانی کو آگے جانے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ اور یہی جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ( پہلے اپنا باغ ) سینچ لے پھر اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جلدی جانے دے۔ اس پر انصاری کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا، ہاں زبیر آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں نا۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا اے زبیر ! تم سیراب کر لو، پھر پانی کو اتنی دیر تک روکے رکھو کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم ! میرا تو خیال ہے کہ یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی ہے ” ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے جھگڑوں میںتجھ کو حاکم نہ تسلیم کرلیں۔ “ آخر تک۔

تشریح : یہ حدیث اور آیت کریمہ اطاعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرضیت پر ایک زبردست دلیل ہے اور اس امر پر بھی کہ جو لوگ صاف صریح واضح ارشاد نبوی سن کر اس کی تسلیم میں پس و پیش کریں وہ ایمان سے محروم ہیں۔ قرآن مجید کی اور بھی بہت سے آیات میں اس اصول کو بیان کیا گیا ہے۔

ایک جگہ ارشاد ہے ما کان لمومن و لا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلالا مبینا ( الاحزاب36 ) کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سن لے تو پھر اس کے لیے اس بارے میں کچھ اور اختیار باقی رہے جائے۔ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔

اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے جو آیات قرانی و احادیث نبوی کے خلاف اپنی رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے ہیں یا وہ اپنے اماموں، پیروں، مرشدوں کے فتاووں کو مقدم رکھتے ہیں۔ اور احادیث صحیحہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال دیتے ہیں۔ ان کو خود سوچنا چاہئے کہ ایک انصاری مسلمان صحابی نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قطعی فیصلہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے کس غضبناک لہجہ میں اسے ڈانٹا اور اطاعت نبو ی کے لیے حکم فرمایا۔ جب ایک صحابی انصاری کے لیے یہ قانون ہے، تو اور کسی مسلمان کی کیا وقعت ہے کہ وہ کھلے لفظوں میں قرآن و حدیث کی مخالفت کرے اور پھر بھی ایمان کا ٹھیکدار بنا رہے۔ اس آیت شریفہ میں منکرین حدیث کو بھی ڈانٹا گیا ہے اور ان کو بتلایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی امور دینی میں ارشاد فرمائیں آپ کا وہ ارشاد بھی وحی الٰہی میں داخل ہے جس کا تسلیم کرنا اسی طرح واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید کا تسلیم کرنا واجب ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی کا انکار کرتے ہیں وہ قرآن مجید کے بھی منکر ہیں، قرآن و حدیث میں باہمی طور پر جسم اور روح کا تعلق ہے۔ اس حقیقت کا انکاری اپنی عقل و فہم سے دشمنی کا اظہار کرنے والا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : جس کا کھیت بلندی پر ہو پہلے وہ اپنے کھیتوں کو پانی پلائے

جو نہر یا نالہ کسی کی ملک نہ ہو اس سے پانی لینے میں پہلے بلند کھیت والے کا حق ہے وہ اتنا پانی اپنے کھیت میں دے سکتا ہے کہ اب زمین پانی نہ پئے۔ اور کھیت کی منڈیروں تک پانی چڑھ آئے، پھر نشیبی کھیت والے کی طرف پانی کو چھوڑدے۔

حدیث نمبر : 2361
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، قال خاصم الزبير رجل من الأنصار، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يا زبير اسق ثم أرسل‏"‏‏. ‏ فقال الأنصاري إنه ابن عمتك‏.‏ فقال عليه السلام ‏"‏اسق يا زبير، ثم يبلغ الماء الجدر، ثم أمسك‏"‏‏. ‏ فقال الزبير فأحسب هذه الآية نزلت في ذلك ‏{‏لا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏}‏‏.‏‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، کہ زبیر رضی اللہ عنہ سے ایک انصاری رضی اللہ عنہ کا جھگڑا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر ! پہلے تم ( اپنا باغ ) سیراب کر لو، پھر پانی آگے کے لیے چھوڑ دینا، اس پر انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں ! یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زبیر ! اپنا باغ اتنا سیراب کرلو کہ پانی اس کی منڈیروں تک پہنچ جائے اتنے روک رکھو، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا گمان ہے کہ یہ آیت ” ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے جب تک آپ کو اپنے تمام اختلافات میں حکم نہ تسلیم کرلیں۔ “ اسی باب میں نازل ہوئی۔

معلوم ہوا کہ فیصلہ نبوی کے سامنے بلاچوں و چرا سر تسلیم خم کر دینا ہی ایمان کی دلیل ہے اگر اس بارے میں ذرہ برابر بھی دل میں تنگی محسوس کی تو پھر ایمان کا خدا ہی حافظ ہے۔ ان مقلدین جامدین کو سوچنا چاہئے جو صحیح حدیث کے مقابلہ پر محض اپنے مسلکی تعصب کی بنا پر خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور فیصلہ نبوی کو رد کردیتے ہیں، حوض کوثر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ لوگ کیا منہ لے کر جائیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : بلند کھیت والا ٹخنوں تک پانی بھر لے

حدیث نمبر : 2362
حدثنا محمد، أخبرنا مخلد، قال أخبرني ابن جريج، قال حدثني ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، أنه حدثه أن رجلا من الأنصار خاصم الزبير في شراج من الحرة يسقي بها النخل‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏اسق يا زبير ـ فأمره بالمعروف ـ ثم أرسل إلى جارك‏"‏‏. ‏ فقال الأنصاري أن كان ابن عمتك‏.‏ فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏اسق ثم احبس حتى يرجع الماء إلى الجدر‏"‏‏. ‏ واستوعى له حقه‏.‏ فقال الزبير والله إن هذه الآية أنزلت في ذلك ‏{‏لا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏}‏‏.‏ قال لي ابن شهاب فقدرت الأنصار والناس قول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏اسق ثم احبس حتى يرجع إلى الجدر‏"‏‏. ‏ وكان ذلك إلى الكعبين‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو مخلد نے خبر دی کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک انصاری مرد نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کے ندی کے بارے میں جس سے کھجوروں کے باغ سیراب ہوا کرتے تھے، جھگڑا کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زبیر ! تم سیراب کر لو۔ پھر اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جلد پانی چھوڑ دینا۔ اس پر انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا۔ جی ہاں ! آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں نا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا، اے زبیر ! تم سیراب کرو، یہاں تک کہ پانی کھیت کی مینڈوں تک پہنچ جائے۔ اس طرح آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوا دیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ قسم اللہ کی یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی تھی ” ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! اس وقت تک یہ ایمان والے نہیں ہوں گے جب تک اپنے جملہ اختلافات میں آپ کو حکم نہ تسلیم کرلیں۔ “ ابن شہاب نے کہا کہ انصار اور تمام لوگوں نے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی بنا پر کہ ” سیراب کرو اور پھر اس وقت تک رک جاؤ، جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے۔ “ ایک اندازہ لگا لیا، یعنی پانی ٹخنوں تک بھر جائے۔

گویا قانونی طور پر یہ اصول قرار پایا کہ کھیت میں ٹخنوں تک پانی کا بھر جانا اس کا سیراب ہونا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : پانی پلانے کے ثواب کا بیان

حدیث نمبر : 2363
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن سمى، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏بينا رجل يمشي فاشتد عليه العطش، فنزل بئرا فشرب منها، ثم خرج فإذا هو بكلب يلهث، يأكل الثرى من العطش، فقال لقد بلغ هذا مثل الذي بلغ بي فملأ خفه ثم أمسكه بفيه، ثم رقي، فسقى الكلب فشكر الله له، فغفر له‏"‏‏. ‏ قالوا يا رسول الله، وإن لنا في البهائم أجرا قال ‏"‏في كل كبد رطبة أجر‏"‏‏. ‏ تابعه حماد بن سلمة والربيع بن مسلم عن محمد بن زياد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک شخص جارہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا۔ پھر باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے ( اپنے دل میں ) کہا، یہ بھی اس وقت ایسی ہی پیاس میں مبتلا ہے جیسے ابھی مجھے لگی ہوئی تھی۔ ( چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور ) اپنے چمڑے کے موزے کو ( پانی سے ) بھر کر اسے اپنے منہ سے پکڑے ہوئے اوپر آیا، اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام کو قبول کیا اور اس کی مغفرت فرمائی۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہمیں چوپاؤں پر بھی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا، ہر جاندار میں ثواب ہے۔ اس روایت کی متابعت حماد بن سلمہ اور ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد سے کی ہے۔

ثابت ہوا کہ کسی بھی جاندار کو پانی پلا کر اس کی پیاس رفع کردینا ایسا عمل ہے کہ جو مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ اس شخص نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا اور اسی عمل کی وجہ سے بخشا گیا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ یہ تو بظاہر عام ہے، ہر جانور کو شامل ہے بعض نے کہا مراد اس سے حلال چوپائے جانو رہیں۔ اور کتے اور سور وغیرہ میں ثواب نہیں کیوں کہ ان کے مار ڈالنے کا حکم ہے میں ( مولانا وحید الزماں ) کہتا ہوں حدیث کو مطلق رکھنا بہتر ہے۔ کتے اور سور کو بھی یہ کیا ضروری ہے کہ پیاسا رکھ کر مارا جائے۔ پہلے اس کو پانی پلا دیں اور پھر مار ڈالیں۔ ابوعبدالملک نے کہا یہ حدیث بنی اسرائیل کے لوگوں سے متعلق ہے۔ ان کو کتوں کے مارنے کا حکم نہ تھا۔ ( وحیدی ) حدیث میں لفظ فی کل کبد رطبۃ عام ہے جس میں ہر جاندار داخل ہے اس لحاظ سے مولانا وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح خوب ہے۔

حدیث نمبر : 2364
حدثنا ابن أبي مريم، حدثنا نافع بن عمر، عن ابن أبي مليكة، عن أسماء بنت أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الكسوف، فقال ‏"‏دنت مني النار حتى قلت أى رب، وأنا معهم فإذا امرأة ـ حسبت أنه قال ـ تخدشها هرة قال ما شأن هذه قالوا حبستها حتى ماتت جوعا‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملکیہ نے اور ان سے اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ سورج گرہن کی نماز پڑھی پھر فرمایا ( ابھی ابھی ) دوزخ مجھ سے قریب آگئی تھی کہ میں نے چونک کر کہا۔ اے رب ! کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں۔ اتنے میں دوزح میں میری نظر ایک عورت پڑی۔ ( اسماءرضی اللہ عنہا نے بیان کیا ) مجھے یاد ہے کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ) اس عورت کو ایک بلی نوچ رہی تھی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ اس پر اس عذاب کی کیا وجہ ہے؟ آپ کے ساتھ والے فرشتوں نے کہا کہ اس عورت نے اس بلی کو اتنی دیر تک باندھے رکھا کہ وہ بھوک کے مارے مر گئی۔

اس حدیث کو یہاں لانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی بھی جاندار کو باوجود قدرت اور آسانی کے اگر کوئی شخص کھانا پانی نہ دے اور وہ جاندار بھوک پیاس کی وجہ سے مر جائے تو اس شخص کے لیے یہ جرم دوزح میں جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ان ہذہ المراۃ لما حبست ہذہ الہرۃ الی ان ماتت بالجوع و العطش فاستحقت ہذہ العذاب فلو کانت سقیتہا لم تغذب و من ہہنا یعلم فضل سقی الماءو ہو مطابق للترجمۃ ( عینی )

حدیث نمبر : 2365
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏عذبت امرأة في هرة حبستها، حتى ماتت جوعا، فدخلت فيها النار ـ قال فقال والله أعلم ـ لا أنت أطعمتها ولا سقيتها حين حبستيها، ولا أنت أرسلتيها فأكلت من خشاش الأرض‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک عورت کو عذاب، ایک بلی کی وجہ سے ہوا جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی۔ اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تھا .... اور اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والا ہے.... کہ جب تو نے اس بلی کو باندھے رکھا اس وقت تک نہ تو نے اسے کھلایا نہ پلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔

اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ بلی کو پانی نہ پلانے سے عذاب ہوا تو معلوم ہوا کہ پانی پلانا ثواب ہے۔ ابن منیر نے کہا اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ بلی کا قتل کرنا درست نہیں۔
لطیفہ : تفہیم البخاری میں خشاش الارض کا ترجمہ گھانس پھونس کرتے ہوئے بلی کے لیے لکھا ہے کہ نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین سے گھانس پھونس ہی کھا سکے۔ عام طور پر بلی گوشت خور جانور ہے نہ چرندہ کہ وہ گھانس پھونس کھاتی ہو۔ شاید فاضل مترجم کی نظر میں گھانس پھونس کھانے والی بلیاں موجود ہوں ورنہ عموماً بلیاں گوشت خور ہوتی ہیں۔ اسی لیے دوسرے مترجمین بخاری خشاش الارض کا ترجمہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کرتے ہیں۔ خشاش بفتح الخاءاشہر الثلاثۃ و ہی ہوام و قیل ضعاف الطیر ( مجمع البحار لغات الحدیث لفظ ( خ ) ص 48
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : جن کے نزدیک حوض والا اور مشک کا مالک ہی اپنے پانی کا زیادہ حق دار ہے

حدیث نمبر : 2366
حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بقدح فشرب وعن يمينه غلام، هو أحدث القوم، والأشياخ عن يساره قال ‏"‏يا غلام أتأذن لي أن أعطي الأشياخ‏"‏‏. ‏ فقال ما كنت لأوثر بنصيبي منك أحدا يا رسول الله‏.‏ فأعطاه إياه‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا جو حاضرین میں سب سے کم عمر تھا۔ بڑی عمر والے صحابہ آپ کی بائیں طرف تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے لڑکے ! کیا تمہاری اجازت ہے کہ میں اس پیالے کا بچا ہوا پانی بوڑھوں کو دوں؟ اس نے جواب دیا، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کا جھوٹا اپنے حصہ کا کسی کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔


ترجمہ باب سے مطلب اس طرح ہے کہ حوض اور مشک کو پیالے پر قیاس کیا۔ ابن منیر نے کہا وجہ مناسبت یہ ہے کہ جب داہنی طرف بیٹھنے والا پیالہ کا زیادہ حق دار ہوا صرف داہنی طرف بیٹھنے کی وجہ سے تو جس نے حوض بنایا، مشک تیار کیا، وہ بطریق اولیٰ پہلے اس کے پانی کا حق دار ہوگا۔

حدیث نمبر : 2367
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏والذي نفسي بيده لأذودن رجالا عن حوضي كما تذاد الغريبة من الإبل عن الحوض‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں ( قیامت کے دن ) اپنے حوض سے کچھ لوگوں کو اس طرح ہانک دوں گا جیسے اجنبی اونٹ حوض سے ہانک دیئے جاتے ہیں۔

یہیں سے باب کا مطابقت نکلتا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوض والے پر انکار نہیں کیا، اس امر پر کہ وہ جانوروں کو اپنے حوض سے ہانک دیتا ہے۔

حدیث نمبر : 2368
حدثنا عبد الله بن محمد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن أيوب، وكثير بن كثير ـ يزيد أحدهما على الآخر ـ عن سعيد بن جبير، قال قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يرحم الله أم إسماعيل، لو تركت زمزم ـ أو قال لو لم تغرف من الماء ـ لكانت عينا معينا، وأقبل جرهم فقالوا أتأذنين أن ننزل عندك قالت نعم ولا حق لكم في الماء‏.‏ قالوا نعم‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ایوب اور کثیر بن کثیر نے، دونوں کی روایتوں میں ایک دوسرے کی بہ نسبت کمی اور زیادتی ہے، اور ان سے سعید بن جبیر نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ( حضرت ہاجرہ علیہا السلام ) پر اللہ رحم فرمائے کہ اگر انہوں نے زمزم کو چھوڑ دیا ہوتا، یا یوں فرمایا کہ اگر وہ زم زم سے چلو بھر بھرکر نہ لیتیں تو وہ ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ پھر جب قبیلہ جرہم کے لو گ آئے اور ( حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے ) کہا کہ آپ ہمیں اپنے پڑوس میں قیام کی اجازت دیں تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اس شرط پر کہ پانی پر ان کا کوئی حق نہ ہوگا۔ قبیلہ والوں نے یہ شرط مان لی تھی۔

تشریح : حدیث ہذا میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جب کہ وہ ابتدائی دور میں مکہ شریف میں سکونت پذیر ہوئی تھیں۔ جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو حوالہ بخدا کرکے واپس ہو چکے تھے اور وہ پانی کی تلاش میں کوہ صفا اور مروہ کا چکر کاٹ رہی تھیں۔ کہ اچانک ان کو زمزم کا چشمہ نظر آیا۔ اور وہ دوڑ کر اس کے پاس آئیں اور اس کے پانی کے ارد گرد منڈیر لگانا شروع کر دیا۔ اسی کیفیت کا یہاں بیان کیا جارہا ہے۔

مجتہد مطلق اس حدیث کو یہاں یہ مسئلہ بیان فرمانے کے لیے لائے ہیں کہ کنویں یا تالاب کا اصل مالک اگر موجود ہے تو بہرحال اس کی ملکیت کا حق اس کے لیے ثابت ہے۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے اس قول پر کہ پانی پر تمہارا ( قبیلہ بنوجرہم کا ) کوئی حق نہ ہوگا، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں فرمایا۔ خطابی نے کہا اس سے یہ نکلا کہ جنگل میں جو کوئی پانی نکالے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ اور دوسرا کوئی اس میں اس کی رضا مندی کے بغیر شریک نہیں ہوسکتا۔
ہاجرہ علیہا السلام ایک فرعون مصر کی بیٹی تھی۔ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت سارہ علیہا السلام کی کرامات دیکھ کر اس نے اس مبارک خاندان میں شرکت کا فخر حاصل کرنے کی غرض سے ان کے حوالہ کر دیا تھا۔ اس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔

حدیث نمبر : 2369
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن أبي صالح السمان، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم رجل حلف على سلعة لقد أعطى بها أكثر مما أعطى وهو كاذب، ورجل حلف على يمين كاذبة بعد العصر ليقتطع بها مال رجل مسلم، ورجل منع فضل ماء، فيقول الله اليوم أمنعك فضلي، كما منعت فضل ما لم تعمل يداك‏"‏‏. ‏ قال علي حدثنا سفيان غير مرة عن عمرو سمع أبا صالح يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابوصالح سمان نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے آدمی ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات بھی نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھے گا۔ وہ شخص جو کسی سامان کے متعلق قسم کھائے کہ اسے اس کی قیمت اس سے زیادہ دی جارہی تھی جتنی اب دی جارہی ہے حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ شخص جس نے جھوٹی قسم عصر کے بعد اس لیے کھائی کہ اس کے ذریعہ ایک مسلمان کے مال کو ہضم کرجائے۔ وہ شخص جو اپنی ضرورت سے بچے پانی سے کسی کو روکے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج میں اپنا فضل اسی طرح تمہیں نہیں دوں گا جس طرح تم نے ایک ایسی چیز کے فالتو حصے کو نہیں دیا تھا جسے خود تمہارے ہاتھوں نے بنایا بھی نہ تھا۔ علی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے عمرو سے کئی مرتبہ بیان کیا کہ انہوں نے ابوصالح سے سنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس حدیث کی سند پہنچاتے تھے۔

تشریح : حدیث میں بیان کردہ مضمون نمبر3سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ ضرورت سے زیادہ پانی روکنے پر یہ سزا ملی تو معلوم ہوا کہ بقدر ضرورت اس کو روکنا جائز تھا۔ اور وہ اس کا حق رکھتا تھا۔ بعض نے کہا یہ جو فرمایا جو تیرا بنایا ہوا نہ تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ پانی اس نے اپنی محنت سے نکالا ہوتا، جیسے کنواں کھودا ہوتا یا مشک میں بھر کر لایا ہوتا تو وہ اس کا حق دا رہوتا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی اور چراگاہ محفوظ نہیں کرسکتا

حدیث نمبر : 2370
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن الصعب بن جثامة، قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا حمى إلا لله ولرسوله‏"‏‏. ‏ وقال بلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم حمى النقيع، وأن عمر حمى السرف والربذة‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبید اللہ بن عتبہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چراگاہ اللہ اور اس کا رسول ہی محفوظ کرسکتا ہے۔ ( ابن شہاب نے ) بیان کیا کہ ہم تک یہ بھی پہنچا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع میں چراگاہ بنوائی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سرف اور ربذہ کو چراگاہ بنایا۔

مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جنگل میں چراگاہ روکنا، گھاس اور شکار بند کرنا یہ کسی کو نہیں پہنچتا، سوائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ امام اور خلیفہ بھی رسول کا قائم مقام ہے۔ اس کے سوا اور لوگوں کو چراگاہ روکنا اور محفوظ کرنا درست نہیں۔ شافعیہ اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ نقیع ایک مقام ہے مدینہ سے بیس میل پر، اور سرف اور ربذہ بھی مقاموں کے نام ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : نہروں میں سے آدمی اور جانور سب پانی پی سکتے ہیں

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ جو نہریں راستے پر واقع ہوں۔ ان میں آدمی اور جانور سب پانی پی سکتے ہیں۔ وہ کسی کے لیے خاص نہیں ہوسکتیں۔

حدیث نمبر : 2371
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك بن أنس، عن زيد بن أسلم، عن أبي صالح السمان، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏الخيل لرجل أجر، ولرجل ستر، وعلى رجل وزر، فأما الذي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله، فأطال بها في مرج أو روضة، فما أصابت في طيلها ذلك من المرج أو الروضة كانت له حسنات، ولو أنه انقطع طيلها فاستنت شرفا أو شرفين كانت آثارها وأرواثها حسنات له، ولو أنها مرت بنهر فشربت منه ولم يرد أن يسقي كان ذلك حسنات له، فهي لذلك أجر، ورجل ربطها تغنيا وتعففا ثم لم ينس حق الله في رقابها ولا ظهورها، فهي لذلك ستر، ورجل ربطها فخرا ورياء ونواء لأهل الإسلام، فهي على ذلك وزر‏"‏‏. ‏ وسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحمر فقال ‏"‏ما أنزل على فيها شىء إلا هذه الآية الجامعة الفاذة ‏{‏من يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره ‏}‏‏"‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں ابوصالح سمان نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گھوڑا ایک شخص کے لیے باعث ثواب ہے، دوسرے کے لیے بچاؤ ہے اور تیسرے کے لیے وبال ہے۔ جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب ہے، وہ وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ کے لیے اس کو پالے، وہ اسے کسی ہریالے میدان میں باندھے ( راوی نے کہا ) یا کسی باغ میں۔ تو جس قدر بھی وہ اس ہریالے میدان میں یا باغ میں چرے گا۔ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ اگر اتفاق سے اس کی رسی ٹوٹ گئی اور گھوڑا ایک یا دو مرتبہ آگے کے پاوں اٹھا کر کودا تو اس کے آثار قدم اور لید بھی مالک کی نیکیوں میں لکھے جائیں گے اور اگر وہ گھوڑا کسی ندی سے گزرے اوراس کا پانی پئے خواہ مالک نے اسے پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ تو اس نیت سے پالا جانے ولا گھوڑا انہیں وجوہ سے باعث ثواب ہے دوسرا شخص وہ ہے جو لوگوں سے بے نیاز رہنے اور ان کے سامنے دست سوال بڑھانے سے بچنے کے لیے گھوڑا پالے، پھر اس کی گردن اور اس کی پیٹھ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا پنے مالک کے لیے پردہ ہے۔ تیسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر، دکھاوے اور مسلمانوں کی دشمنی میں پالے۔ تو یہ گھوڑا اس کے لیے وبال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے متعلق کوئی حکم وحی سے معلوم نہیں ہوا۔ سوا اس جامع آیت کے ” جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔ “

باب کا مضمون حدیث کے جملہ و لو انہا مرت بنہر الخ سے نکلتا ہے کیوں کہ اگر جانوروں کو نہر سے پانی پی لینا جائز نہ ہوتا تو اس پر ثواب کیوں ملتا۔ اور جب غیر پلانے کے قصد کے ان کے خود بخود پانی پی لینے سے ثواب ملا، تو قصداً پلانا بطریق اولیٰ جائز ہے بلکہ موجب ثواب ہوگا۔

حدیث نمبر : 2372
حدثنا إسماعيل، حدثنا مالك، عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن يزيد، مولى المنبعث عن زيد بن خالد ـ رضى الله عنه ـ قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله عن اللقطة، فقال ‏"‏اعرف عفاصها ووكاءها، ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها‏"‏‏. ‏ قال فضالة الغنم قال ‏"‏هي لك أو لأخيك أو للذئب‏"‏‏. ‏ قال فضالة الإبل قال ‏"‏مالك ولها معها سقاؤها وحذاؤها، ترد الماء وتأكل الشجر، حتى يلقاها ربها‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے، ان سے منبعت کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور آپ سے لقطہ ( راستے میں کسی کی گم ہو ئی چیز جو پاگئی ہو ) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی تھیلی اور اس کے بندھن کی خوب جانچ کر لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو۔ اس عرصے میں اگر اس کا مالک آجائے ( تو اسے دے دو ) ورنہ پھر وہ چیز تمہاری ہے۔ سائل نے پوچھا، اور گمشدہ بکری؟ آپ نے فرمایا، وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا پھر بھیڑئیے کی ہے۔ سائل نے پوچھا اور گمشدہ اونٹ؟ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ اسے سیراب رکھنے والی چیز ہے اور اس کا گھر ہے، پانی پر بھی وہ جاسکتا ہے اور درخت ( کے پتے ) بھی کھا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : لکڑی اور گھاس بیچنا

اس باب کی مناسبت کتاب الشرب سے یہ ہے کہ لکڑی پانی گھاس وغیرہ یہ سب چیزیں ہیں۔ جن سے ہر ایک آدمی نفع اٹھا سکتا ہے۔ حدیث میں جو لکڑی اور گھاس بیان کی گئی ہے اس سے مراد یہی ہے کہ جو غیر ملکی زمین میں واقع ہو۔

حدیث نمبر : 2373
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا وهيب، عن هشام، عن أبيه، عن الزبير بن العوام ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لأن يأخذ أحدكم أحبلا، فيأخذ حزمة من حطب فيبيع، فيكف الله به وجهه، خير من أن يسأل الناس أعطي أم منع‏"‏‏. ‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ہاشم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے زبیر بن عوام نے رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص رسی لے کر لکڑیوں کا گھٹا لائے، پھر اسے بیچے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی آبرو محفوظ رکھے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور ( بھیک ) اسے دی جائے یا نہ دی جائے۔ اس کی بھی کوئی امید نہ ہو۔

بڑے ہی ایمان افروز انداز میں مسلمانوں کو تجارت کی ترغیب دلائی گئی ہے خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر ہو۔ بہرحال سوال کرنے سے بہتر ہے خواہ ا س کوپہاڑ سے لکڑیاں کاٹ کر اپنے سر پر لاد کر لانی پڑیں۔ اور ان کی فروخت سے وہ گزران کرسکے۔ بیکاری سے یہ بدرجہا بہتر ہے۔ روایت میں صرف لکڑی کا ذکر ہے۔ حضرت امام نے گھاس کو بھی باب میں شامل فرما لیا ہے گھاس جنگل سے کھود کر لانا اور بازار میں فروخت کرنا۔ یہ بھی عنداللہ بہت ہی محبوب ہے کہ بندہ کسی مخلوق کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔ آگے حدیث میں گھاس کا بھی ذکر آرہا ہے۔
حدیث نمبر : 2374
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن أبي عبيد، مولى عبد الرحمن بن عوف أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لأن يحتطب أحدكم حزمة على ظهره خير له من أن يسأل أحدا فيعطيه أو يمنعه‏"‏‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب، ان سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ابوعبید نے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر ( بیچنے کے لیے ) لیے پھرے تو وہ اس سے اچھا ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ پھر خواہ اسے کچھ دے یا نہ دے۔

حدیث نمبر : 2374
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني ابن شهاب، عن علي بن حسين بن علي، عن أبيه، حسين بن علي عن علي بن أبي طالب ـ رضى الله عنهم ـ أنه قال أصبت شارفا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في مغنم يوم بدر قال وأعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم شارفا أخرى، فأنختهما يوما عند باب رجل من الأنصار، وأنا أريد أن أحمل عليهما إذخرا لأبيعه، ومعي صائغ من بني قينقاع فأستعين به على وليمة فاطمة، وحمزة بن عبد المطلب يشرب في ذلك البيت معه قينة، فقالت ألا يا حمز للشرف النواء‏.‏ فثار إليهما حمزة بالسيف، فجب أسنمتهما، وبقر خواصرهما، ثم أخذ من أكبادهما‏.‏ قلت لابن شهاب ومن السنام قال قد جب أسنمتهما فذهب بها‏.‏ قال ابن شهاب قال علي ـ رضى الله عنه ـ فنظرت إلى منظر أفظعني فأتيت نبي الله صلى الله عليه وسلم وعنده زيد بن حارثة فأخبرته الخبر فخرج ومعه زيد، فانطلقت معه، فدخل على حمزة فتغيظ عليه فرفع حمزة بصره وقال هل أنتم إلا عبيد لآبائي فرجع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقهقر حتى خرج عنهم، وذلك قبل تحريم الخمر‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، انہیں زید العابدین علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے، ان سے ان کے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی کے موقع پر مجھے ایک جوان اونٹنی غنیمت میں ملی تھی۔ ایک دن ایک انصاری صحابی کے دروازے پر میں ان دونوں کو اس خیال سے باندھے ہوئے تھا کہ ان کی پیٹھ پر اذخر ( عرب کی ایک خوشبودار گھاس جسے سنار وغیرہ استعمال کرتے تھے ) رکھ کر بیچنے لے جاؤں گا۔ بنی قینقاع کا ایک سنار بھی میرے ساتھ تھا۔ اس طرح ( خیال یہ تھا کہ ) اس کی آمدنی سے فاطمہ رضی اللہ عنہا ( جن سے میں نکاح کرنے والا تھا ان ) کا ولیمہ کروں گا۔ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسی ( انصاری کے ) گھر میں شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرعہ پڑھا : ” ہاں : اے حمزہ ! اٹھو، فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف “ ( بڑھ ) حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیئے۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔ اور ان کی کلیجی نکال لی ( ابن جریج نے بیان کیا کہ ) میں نے ابن شہاب سے پوچھا، کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا تھا۔ تو انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور انہیں لے گئے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ میں نے آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ تشریف لائے۔ زید رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی ظاہر فرمائی تو حضرت حمزہ نے نظر اٹھا کر کہا ” تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو۔ “ حضور صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں لوٹ کر ان کے پاس سے چلے آئے۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا قصہ ہے۔

تشریح : حدیث ہذا میں بیان کردہ واقعات اس وقت سے متعلق ہے جب کہ اسلام میں شراب گانا سننا حرام نہ ہوا تھا۔ بدر کے اموال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بطور مال غنیمت ملی تھی۔ اور ایک اونٹنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بطور صلہ رحمی اپنے خاص حصہ میں سے مرحمت فرما دی تھی۔ چنانچہ ان کا ارادہ ہوا کہ کیوں نہ ان اونٹنیوں سے کام لیا جائے۔ اور ان پر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے لاد کر لائی جائے اور اسے بازار میں فروخت کیا جائے۔ تاکہ ضروریات شادی کے لیے جو ہونے ہی والی تھی کچھ سرمایہ جمع ہوجائے۔ اس کاروبار میں ایک دوسرے انصاری بھائی اور ایک بنی قینقاع کے سنا ربھی شریک ہونے والے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان ہی عزائم کے ساتھ اپنی ہر دو سواریوں کو لے کر اس انصاری مسلمان کے گھر پہنچے۔ اوراس کے دروازے پر جا کر ہر دو اونٹنیوں کو باندھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس انصاری کے اسی گھر میں اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شراب نوشی اور گانا سننے میں محو تھے۔ گانے والی نے جب ان اونٹنیوں کو دیکھا اور ان کی فربہی اور جوانی پر نظر ڈالی اور ان کا گوشت بہت ہی لذیذ تصور کیا تو اس نے عالم مستی میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو گاتے گاتے یہ مصرع بھی بنا کر سنا دیا جو روایت میں مذکور ہے۔ ( پوار شعر یوں ہے )
الا یا حمز للشرف النوائ و ہن معقلات بالفنائ

حمزہ ! اٹھو یہ عمر والی موٹی اونٹیاں جو مکان کے صحن میں بندھی ہوئی ہیں، ان کو کاٹو، اور ان کا گوشت بھون کر کھاؤ اور ہم کو کھلاؤ۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر مستی سوارتھی، شعر سنتے ہی فوراً تلوار لے کر کھڑے ہوئے اور عالم بے ہوشی میں ان ہر دو اونٹنیوں پر حملہ کر دیا اور ان کے کلیجے نکال کر، کوہان کاٹ کر گوشت کا بہترین حصہ کباب کے لیے لے آئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جگر خراش منظر دیکھا تو اپنے محترم چچا کا احترام سامنے رکھتے ہوئے وہاں ایک لفظ زبان پر نہ لائے بلکہ سیدھے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ چنانچہ آپ نے سار واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا اور اپنی اس پریشانی کو تفصیل سے بیان کیا۔ جسے سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور آپ کو ہمراہ لے کر فوراً ہی موقع پر معائنہ فرمانے کے لیے چل کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو کہ ابھی تک شراب اور کباب کے نشہ میں چور تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر اظہار خفگی فرمایا مگر حمزہ کے ہوش و حواس شراب و کباب میں گم تھے۔ وہ صحیح غور نہ کرسکے بلکہ الٹا اس پر خود ہی اظہار خفگی فرمایا۔ اور وہ الفاظ کہے جو روایت میں مذکورہیں۔
مولانا فرماتے ہیں حضرت حمزہ اس وقت نشہ میں تھے۔ اس لیے ایسا کہنے سے وہ گنہگار نہیں ہوئے دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابوطالب دونوں ان کے لڑکے تھے اور لڑکا گویا اپنے باپ کا غلام ہی ہوتا ہے۔ یہ حالات دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے واپس لوٹ آئے۔ اس وقت یہی مناسب تھا۔ شاید حمزہ کچھ اور کہہ بیٹھتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان کا نشہ اترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اونٹنیوں کی قیمت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دلوائی۔ باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے کہ ان پر اذخر گھاس لاد کر لاؤں، اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے۔ ( وحیدی )
 
Top