• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نایاب اور پرانی کتب حاصل کریں

شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
نام کے ساتھ علمی نگران لکھ لیا لیکن بات علمی نہیں کی ،
میں نے قراآن کی آیت پیش کی ۔
قرآن میں اللہ صاف فرماتا ہے ۔
اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے
سورة الأعراف آیت 35
اور آپ نے کہ دیا کہ :
اس سے مراد یہ کہاں سے نکلتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آئیں گے ؟ آیت کے اندر جو کچھ بیان ہے وہ درست ہے کہ آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بےشمار انبیاء تشریف لائے ۔
بھائی صاحب قرآن میں جہاں بھی یا بنی آدم کہہ کر پکارا جاتا ہے تو اس میں تمام انسان شامل ہوتے ہیں ، امت بنی آدم میں داخل ہے کس طرح نکال دو گے ؟ کم از کم امام سیوطی کی اتقان ہی کھول کر دیکھ لو ان کو بھی اقرار ہے کہ قرآن میں جہاں یا بنی آدم کا خطاب وہاں اس زمانہ اور بعد کے ہر زمانہ کے انسان شامل ہیں ،
دوبارہ غور فرمائیں اور پھر دیکھیں :
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ {35}

آپ زمانہ کی قید لگا کر یا اپنی قیاس آرائیاں لگا کر بنی آدم سے امت کو نہیں نکال سکتے ، اور آپ نے جو فرمایا کہ
آیت کے اندر جو کچھ بیان ہے وہ درست ہے کہ آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بےشمار انبیاء تشریف لائے ،
آپ کی سادگی کہوں یا بھولا پن ؟ آیت میں اس بات کا ذکر تک نہیں کہ بہت آئے یا نہیں آئے ، حیرت کی بات ہے آیت میں صاف لکھا ہے کہ اے بنی آدم اگر آئیں رسول تم میں سے ، اس میں آپ کی بات کہاں ہے ؟

اور آپ نے لکھا میری اس بات کے جواب میں : اللہ کے رسول نے نبی کے آنے کی خبر بھی دی تھی ۔ : کہاں ؟
اور خودی لکھا ہے کہ : حضرت عیسی علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز ہوچکے ہیں یا بعد میں ہوں گے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارت نبوت میں حضرت عیسی اپنی جگہ لے چکے ہیں ۔ انہوں نے دوبارہ آنا ہے تو اس کے لیے عمارت نبوت میں کوئی کمی بیشی کی ضرورت نہیں ۔

یہ جس حدیث سے آپ ان کا نزول کہہ رہے وہی میری مراد تھی ، اور نبوت سو سرفراز وہ بنی اسرائیل کے لیے ہوئے ، نہ وہ قرآن پڑھے اور نہ ان کی نبوت تمام انسانوں کے لیے ، قرآن میں کسی جگہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کر طرف رسول ہو کر آئے ؟ نہیں بلکہ صرف ان کی قوم بنی اسرائیل کے حوالہ سے ان کا ذکر ہے ،

اور آپ نے لکھا کہ : جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے سلسلہ کی مثال ایک عمارت کی ہے ، ساری مکمل ہوچکی تھی ، صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی ، حضور اس عمارت کی آخری اینٹ تھے ، جس کے بعد اس عمارت نبوت میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔

فتح الباری اور عمدۃ القاری اٹھا کر دیکھو حدیث میں عمارت اور اینٹ سے مراد شریعت والی نبوت ہے ، اور میں تو خود متفق ہوں کہ شریعت محمدی کے بعد کوئی نئی شریعت آنا ممکن نہیں ، بات تو محض ایسی نبوت کی کر رہا جو امتی ہو کر خادم ہو اسی شریعت کی ،۔

اور آپ نے فرمایا : ہمارے پاس معاذ اللہ نبوت کا کارخانہ نہیں ہے کہ ہم نبوت تقسیم کرتے پھریں کہ کسی کو آدھی دے دیں کسی کو پوری ۔ موت کے لحاظ سے آخری نبی پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی ، یہ محض آپ کی فن کاری ہے ، مسلمانوں کا ایسا کوئی عقیدہ نہیں ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی ہیں ، جو عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت منسوخ نہیں ہوجائے گی ، آپ کی نبوت باقی رہے گی ، عیسی علیہ السلام اسی کے پیروکار ہوں گے ۔

تو یہ آپ نے ختم نبوت میں تاویل اور تخصیص کر دی ، یہ تو میں متفق ہوں کہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت قیامس تک کے لیے قائم ہے اور جوآنا تھا اسی شریعت کا خادم ہو کر نبی آنا تھا ، اور عیسی علیہ السلام کا آپ اقرار کرتے کہ نبوت باقی رہے گی ان کی ذاتی نبوت ؟ بنی اسرائیل والی نبوت یا امت محمدی والی ؟ دونوں صورتوں میں آپ کا اپنا قول جھوٹ ثابت ہو جائے گا اسی لیے بات کا جواب نہیں دے پائے اور غصہ دکھایا بلاوجہ کا آپ نے ۔

اور آپ نے یہ رونا رویا کہ : سبحان اللہ ! کیا دلیل ہے ، کل کو کوئی قادیانی اٹھ کر کہہ دے گا کہ تم نے قادیانی امت کو اس قدر نالائق سمجھا ہے کہ اس میں ان کے بعد کوئی اور نبوت والا کاروبار نہیں چلا سکتا ۔
خیر آپ کی منطق کے مطابق قادیانی سے پہلے ہزار سالوں پر محیط امت مسلمہ سب نکمی اور نالائق تھی ، اس نکمی اور نالائق امت کی کوکھ سے ایک لائق ’’ کام ‘‘( پتہ نہیں کس کے کام کا تھا ؟! ) کا بندہ نکلا ۔

جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے ہی خبر ایک کی دی تو ہم کیا کریں تو یہ آپ خود جواب تلاش کرو کہ خلفائے اربعہ کو کیوں نہ نبوت ملی ؟ پھر حضرت عیسی علیہ السلام بقول آپ کے واپس آئیں اگر تو تب یہ سوال آپ کا ان پر نہیں آنا کہ امت کیا نکمی تھی 1400 سال سے کہ حضرت عیسی کو بلانا پڑا ؟ اب جواب دینے کے چکر میں خودی پھنس گئے اتنا برا کہ اب شائد کبھی نہ نکل سکو گے۔
اور آپ کا فرمان کہ :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک زمین پر مدینہ منورہ میں ہے ، اور اس جگہ پر ہے جہاں اللہ تعالی نے آپ کے لیے فیصلہ فرمایا کہ نبی وہیں دفن ہوتے ہیں جہاں وہ موت کی آغوش میں جائیں ۔
حضرت عیسی کو نہ موت آئی ، نہ وہ اس دنیا میں موجود ہیں بل رفعہ اللہ الیہ ( اللہ انہیں اپنا پاس لے گئے ہیں ) اگر ان کو موت آتی تو اس دنیا میں اپنی جائے وفات پر دفن ہوتے جیساکہ انبیاء کے بارے میں اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ۔

جواب جناب اس کا تب دیتا جب یہ ثابت بات ہوتی کیوں کہ آپ کا قول :حضرت عیسی کو نہ موت آئی: یہ قرآن میں نہیں ہے کسی جگہ ، اور آپ کا کہنا کہ : نبی وہیں دفن ہوتے ہیں جہاں وہ موت کی آغوش میں جائیں : یہ روایت کے راوی کس درجے کے ہیں اور روایت صحیح ثابت نہیں یہ کہ دلیل بن سکے ، اور پھر اس میں تاویل بھی آپ کے علماء کرتے ہیں کہیں گے تو دکھا دیا جائے گا ۔ اور آپ کا رفع سے رفع جسمانی لینا محض جہالت ہے جو لغت سے اور قرآن سے بھی ثابت نہیں ہے اور قرآن نے رفع کا استعمال قرآن میں دوسرے مقامات میں دیگر انسانوں کے لیے بھی کیا ہے اس لیے یہ رفع روحانی اور درجات کا ہوتا ہے ، حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے الگ قانون اور لغت خود سے بنانے کی ضرورت نہیں ۔
اور ابن ماجہ میں اور المستدرک میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جو دو سجدوں کے درمیان دعا پڑھا کرتے تھے وہ جو درج ہے دعا اس میں وارفعنی بھی آتا ہے جس کا مطلب کہ مجھے بلندی عطا فرما اور یہ ابن ماجہ میں آپ کے عطاءاللہ ساجد صاحب کا کیا ہوا ترجمہ بتا رہا ہوں روایت نمبر 898 ہے ،۔
میں جواب دلائل سے دے چکا ہوں ، اللہ کے فضل سے آپ کے علماء کی کتب پڑھی بھی ہیں اور جواب بھی دینا جانتا ہوں اور خاموش کرا دینا بھی ۔
والسلام
احسان احمد
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جناب احسان صاحب لمبی چوڑی بحث نہیں ذارا ہمارے علم میں بھی اضافہ کریں۔آپ جو کہتے ہیں کہ حضور کے بعد نبی آ سکتے ہیں تو یہ بتاو مرزا سے پہلے کون نبی آیا اور مرزا کے بعد کون نبی آیا ؟؟بدبختوں تم مرزا کو نبی نہیں آخر نبی مانتے ہو۔اس نے یہ کہا کہ جی ہم نے مودودی صاحب کے رسالے جواب دیا ۔جوابا عرض ہے کہ اگر دنیا میں کسی خیانت میں ایوارڈ سے نوازاجاءے گا تو اس میں قادیانی سہر فہرست ہوں گئے۔اس میں جو خیانتیں تم لوگوں نے کیں ہیں اس کا جواب مختلف کتب میں علمائے اسلام نے دیا ہے
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
قاری رانا صاحب میرے سوالوں کے جواب لے آئیں جو دلیل میں دی ہے قرآن سے ، اس آیت پر جواب دیں۔
اور آپ کا کہنا کہ ''آپ جو کہتے ہیں کہ حضور کے بعد نبی آ سکتے ہیں'' یہ تو آپ خود بھی مانتے ہو نبی کا آنا ، فرق اتنا ہے آپ پرانے نبی کا آنا مانتے ہو بغیر دلیل کے وہ بھی ، نبی کی ضرورت تو مانتے ہو ورنہ نیا یا پرانا ہو نبی کا آنا جب مان لیا پھر صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ بغیر ضرورت کے تو نہیں نبی کا آنا بتا گئے تھے اور آپ کا یہ رونا کہ '' تو یہ بتاو مرزا سے پہلے کون نبی آیا اور مرزا کے بعد کون نبی آیا ؟؟بدبختوں تم مرزا کو نبی نہیں آخر نبی مانتے ہو۔'' یہ سوال واپس آپ پر پڑتا ہے کہ کیوں صرف ایک نبی کا آنا مانتے ہو کیوں نہیں 5 یا 6 نبی کا آنا مانتے ، اب کہو گے کہ حدیث میں ایک ہی کے آنے کی بشارت ہے اور وہی میرا جواب ہے ، اور مودودی کو ایک طرف رکھو جس کے خلاف خود آپ کے اپنے علماء لکھتے آئے ہیں کہ مودودی نے یہ کیا وہ کیا مودودی نے صحابہ کو یہ کہا وہ کہا اس کا مذہب الگ وغیرہ ، یا تو کوئی یہاں خود کو مودودی کا مرید ہونا ظاہر کرے پھر اس کو مودودی کی قلابازیاں دکھا دوں گا ، پرانی بات مکمل کر لیں جو شروع کی تھی پھر دوسری باتیں تو جزوی ہیں وہ تو ساتھ چلتی ہی رہتی ہیں ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اعتراض سورت اعراف آیت 35
الجواب۔
جناب پہلی بات اگر یابنی آدم اما یاتینکم رسل سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو اما یاتینکم منی ھدی میں وہی یا تینکم ہے ۔اس سے ثابت ہوا کہ نئی شریعت آ سکتی ہے جو خود جناب کے عقیدہ کے خلاف ہے جیسا کہ اقرار کیا
اور میں تو خود متفق ہوں کہ شریعت محمدی کے بعد کوئی نئی شریعت آنا ممکن نہیں ، بات تو محض ایسی نبوت کی کر رہا جو امتی ہو کر خادم ہو اسی شریعت کی ،۔
احسان احمد
پھر اگلی بات اما حرف شرط ہے۔جس کا تحقق ضروری نہیں، یاتینکم مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں،جیسا کہ فرمایا فاما ترین من البشر احدا(مریم 26)کیاحضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟مضارع اگرچہ استمرار کے لئے بھی آتا ہے۔مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں،جو فعل دوچار پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے ۔
اسی ظرح مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
1۔مائدہ 33
2۔انعام 19
پھر جناب قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کی امت اجابت کو یا ایھا لذین امنو سے مخاطب کیا جاتا ہے اور امت دعوت کو یا ایھاالناس سے خطاب ہو تا ہے۔قرآن میں کہیں بھی آپ کی امت کو یابنی آدم سے خطاب نہیں کیا گیا ۔جو اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے حال ماضیہ کی۔
اگلی بات کبھی آپ نے یہ سوچنے کی زحمت کی بنی آدم میں تو سکھ ہندو عیسائی سب شامل ہیں کیا ان میں بھی نبی پیدا ہوسکتا ہے؟
باقی اگر بحث کا زیادہ شوق ہے تو الگ سے تھریڈ بناو پتہ چل جائے گا تمہیں کہ نبی اکرم کی امت کیا ہے اور لیٹرین میں مرنے والے کو ماننے والے کی حقیقت کیا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں جواب دلائل سے دے چکا ہوں ، اللہ کے فضل سے آپ کے علماء کی کتب پڑھی بھی ہیں اور جواب بھی دینا جانتا ہوں اور خاموش کرا دینا بھی ۔
لو جی ہم خاموش ہوگئے ، آپ واقعتا خاموش کروانا جانتے ہیں ۔ جہاں کہیں آپ خاموش کروانے میں کامیاب نہ ہوئے تو ہم کچھ عرض کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان شاءاللہ ۔
آپ کے پاس کتابوں کا کافی ذخیرہ محسوس ہوتا ہے ، اگر آپ مرزا صاحب کی سیرت پر لکھی ہوئی کچھ کتابوں کی قراءت فرمادیں تو ۔ اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی وغیرہ مسالک کی کتابوں کا آپ کے پاس ڈھیر ہوگا ذرا مرزا صاحب کی سیرت عطرہ پر بھی ان مسالک کی کتابیں قارئین کو مہیا کریں ۔
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
محترم -

کوئی بھی انسان اپنے ذاتی دعوے کی بنیاد پر نبی نہیں کہلاتا یا نبی نہیں بنتا- بلکہ الله کی طرف سے اس پر بھیجی ہوئی وحی کا ثبوت اس کو نبی بناتا ہے- یہ وحی خدائی احکامات اور شریعت پر مبنی ہوتی ہے - جس میں زرہ بھر تبدیلی کا اختیار اس نبی کو بھی حاصل نہیں ہوتا- وہ صرف اور صرف ان شرعی احکامات کو من و عن اپنی امّت کو پہنچانے اورامّت کو ان پر عمل کی ترغیب دینے کا مکلف ہوتا ہے- اور اس نبی کے اس دنیا سے جانے کے بعد اس کے حواری اور امتی اس شریعت کی حفاظت اور ترویج و ترغیب کے ذمہ دار ہوتے ہیں- ہر نبی کی شریعت ایک خاص مقررہ وقت تک قابل عمل ہوتی ہے- معاشرتی اور تہذیب و تمدن میں تبدیلی کے پیش نظر الله رب العزت اپنی مشیت کے تحت اپنے نازل کردہ احکامات میں رد و بدل کرتا ہے-نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور آپ سے پہلے تمام انبیاء اسی اصول کے تحت الله کے نبی قرار پاے- فرق صرف اتنا ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی بعثت کے بعد اب الله رب العزت کے نزدیک خدائی احکامات میں مزید تبدیلی کی گنجائش نہیں رہی- اور الله رب العزت کے فرمان الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی وفات کے ساتھ ہی یہ دین (اسلام) اپنی تکمیل کو پہنچ چکا-ا سی لئے آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی وفات کے بعد کسی نئے نبی کی ضررت امّت کو نہیں ہے اور آپ صل الله علیہ و آ له وسلم ہی الله کے آخری نبی ہیں- البتہ اس دین کی اشاعت، ترویج اور حفاظت کا ذمہ ہنوز امّت کے ذمہ ہے- کہ وہ اس دین پر عمل کے ساتھ ساتھ اس کو لوگوں تک پہنچائیں اور تاکہ یہ دین تمام ادیان پر غالب رہے- چوںکہ امّت محمّدی اس وقت زوال کا شکار ہے- اس لئے اسی ذمہ داری کے اہم حصّہ کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے الله رب العزت حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو امّت محمّدیہ میں معبوث فرمائیں گے- تا کہ وہ امت کے اس کار خیر میں امّت محمّدی ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنا حصّہ ڈالیں- نہ توحضرت عیسیٰ علیہ سلام پر کوئی الله کی طرف سے وحی نازل ہوگی اور نہ ہی وہ کوئی نئی خدائی شریعت کا اعادہ کریں گے-

لہذا آپ کا یہ کہنا کہ "اب تو محض عیسائیت کے ہاتھ میں اپنا دین تھمانے کی ناکام کوشش کرنے لگے ہوئے ہیں ایسے عجیب عقائد کو گلے کا ہار بنا کر" - صرف ایک فریب ہے اور کچھ نہیں-
جناب آپ کی پہلی بات آدھی صحیح اور آدھی غلط ہے اتنی حد تک ٹھیک فرمایا کہ: بلکہ الله کی طرف سے اس پر بھیجی ہوئی وحی کا ثبوت اس کو نبی بناتا ہے: لیکن آپ کی یہ بات محض غلط ہے کہ یہ وحی خدائی احکامات اور شریعت پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ ہر نبی کو شریعت لانا لازم نہیں ہے ، بنی اسرائیل میں کتنے ہی نبی ہوئے ہیں جو حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت پر چلتے آئے ہیں قرآن میں جتنے انبیاء کا نام آئے ہیں ان کی کون کون سی الگ شریعت کے نام آئے ہیں ،
اور آپ کی یہ بات محض غلط ہے کہ : ا سی لئے آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی وفات کے بعد کسی نئے نبی کی ضررت امّت کو نہیں ہے : ضرورت نہیں تو یہ آپ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر بہتان باندھا ہے کہ بغیر ضرورت ایک نبی کے آنے کی خبر دی ہے ؟ ضرورت کا ہونا یا نہیں ہونا آپ کے فیصلہ کا محتاج نہیں ،
اور یہ بات بھی غلط ہے کہ : تا کہ وہ امت کے اس کار خیر میں امّت محمّدی ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنا حصّہ ڈالیں : کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا کہ محض ایک لیڈر کے طور پر امت میں کسی مسیح نے آنا ہے اور نبی نہیں ہوگا ،
اور یہ بات آپ کی صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے کہ : نہ توحضرت عیسیٰ علیہ سلام پر کوئی الله کی طرف سے وحی نازل ہوگی : صحیح مسلم کی حدیث میں واضح موجود ہے کہ ان پر وحی نازل ہوگی ۔

SahihMuslimvol3TarjumahByShaykhMuhammadAbdullah_0003.jpg

SahihMuslimvol3TarjumahByShaykhMuhammadAbdullah_0940.jpg
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
اعتراض سورت اعراف آیت 35
الجواب۔
جناب پہلی بات اگر یابنی آدم اما یاتینکم رسل سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو اما یاتینکم منی ھدی میں وہی یا تینکم ہے ۔اس سے ثابت ہوا کہ نئی شریعت آ سکتی ہے جو خود جناب کے عقیدہ کے خلاف ہے جیسا کہ اقرار کیا

پھر اگلی بات اما حرف شرط ہے۔جس کا تحقق ضروری نہیں، یاتینکم مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں،جیسا کہ فرمایا فاما ترین من البشر احدا(مریم 26)کیاحضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟مضارع اگرچہ استمرار کے لئے بھی آتا ہے۔مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں،جو فعل دوچار پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے ۔
اسی ظرح مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
1۔مائدہ 33
2۔انعام 19
پھر جناب قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کی امت اجابت کو یا ایھا لذین امنو سے مخاطب کیا جاتا ہے اور امت دعوت کو یا ایھاالناس سے خطاب ہو تا ہے۔قرآن میں کہیں بھی آپ کی امت کو یابنی آدم سے خطاب نہیں کیا گیا ۔جو اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے حال ماضیہ کی۔
اگلی بات کبھی آپ نے یہ سوچنے کی زحمت کی بنی آدم میں تو سکھ ہندو عیسائی سب شامل ہیں کیا ان میں بھی نبی پیدا ہوسکتا ہے؟
باقی اگر بحث کا زیادہ شوق ہے تو الگ سے تھریڈ بناو پتہ چل جائے گا تمہیں کہ نبی اکرم کی امت کیا ہے اور لیٹرین میں مرنے والے کو ماننے والے کی حقیقت کیا ہے۔
جناب شریعت کا نہ آنا دین مکمل ہونے والی آیت اور خود اسی آیت سے ثابت ہے اس لیے یہ آپ کا ڈرامہ محض ہے اصل بات سے بھاگنے کے لیے ، آیت مین صاف ہے کہ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي موجود ہے یعنی بیان کریں گے تمہیں میری آیتیں ، اور امام رازی کو اقرار ہے کہ یہ آیت قرآنی مراد ہیں یہاں ۔

اور آپ کی یہ بات کہ : پھر جناب قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کی امت اجابت کو یا ایھا لذین امنو سے مخاطب کیا جاتا ہے اور امت دعوت کو یا ایھاالناس سے خطاب ہو تا ہے۔قرآن میں کہیں بھی آپ کی امت کو یابنی آدم سے خطاب نہیں کیا گیا ۔جو اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے حال ماضیہ کی۔

یہ آپ کو خود بھی نہیں پتہ کہ آپ نے کہا کیا ہے ، آیات کا سیاق و سباق پڑھیں جناب۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ {33}
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ{34}

یہ دونوں اس آیت سے پہلی آیات ہیں ، اور یہاں قل کہہ کر مخاطب آنحضرت ﷺ کو کیا گیا ہے تو آپ کا سے قصہ ماضی قرار دینا جہالت محض ہے ،۔

اور آپ کا قول کہ : پھر اگلی بات اما حرف شرط ہے۔جس کا تحقق ضروری نہیں، یاتینکم مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں،جیسا کہ فرمایا فاما ترین من البشر احدا(مریم 26)کیاحضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟مضارع اگرچہ استمرار کے لئے بھی آتا ہے۔مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں،جو فعل دوچار پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے ۔

جنا ب مجھے پتہ ہے کہ آپ نے یہ کہاں کہاں سے نقل کیا جس کا مطلب آپ کو خود نہیں معلوم ہے ، اور یاتین میں جو نون ثقلیہ ہے یہ مضارع میں مستقبل کے لیے ہی آتا ہے یہ تو آپ کی بنیادی صرف کی کتب میں موجود ہے۔

Kitab-us-Sarf-Jadeed_0000.jpg


Kitab-us-Sarf-Jadeed_0035.jpg
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
لو جی ہم خاموش ہوگئے ، آپ واقعتا خاموش کروانا جانتے ہیں ۔ جہاں کہیں آپ خاموش کروانے میں کامیاب نہ ہوئے تو ہم کچھ عرض کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان شاءاللہ ۔
آپ کے پاس کتابوں کا کافی ذخیرہ محسوس ہوتا ہے ، اگر آپ مرزا صاحب کی سیرت پر لکھی ہوئی کچھ کتابوں کی قراءت فرمادیں تو ۔ اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی وغیرہ مسالک کی کتابوں کا آپ کے پاس ڈھیر ہوگا ذرا مرزا صاحب کی سیرت عطرہ پر بھی ان مسالک کی کتابیں قارئین کو مہیا کریں ۔
جناب کسی کے عقائد اسی کی کتاب سے پڑھتے ہیں ، حضرت ابن تیمہ کے لیے کیا میں ان کے مخالف کی کتب سے پڑھوں گا ؟
 
Top