• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں ، با دلائل

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
میں کچھ روایات پیش کرتا ہوں،،،انکی بھی وضاحت کردیں،،،،اور انکی سند کے متعلق بھی لکھیں،،،،جن کا ضیعف احادیث کا سہارا لیکر قبوری لوگوں کو گمراہ کرتے ہیںِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے حجرہ اقدس میں داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ مدفون اور آرام فرما تھے تو میں کچھ پردہ کا اہتمام کرتی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ یہ تو میرے خاوند ہین اور دوسرے میرے باپ ہیں (یعنی مکمل پردے کی ضرورت نہیں ہے) پھر جب اس حجرے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدفون ہوئے تو میں بغیر اچھی طرح پردہ کیے ہرگز داخل نہ ہوتی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کرتے ہو ۓ۔ (مشکوٰۃ المسابیح:باب زیارۃ القبور، الفصل الثالث)
یہ روایت تو بخاری و مسلم کی شرط پر بالکل صحیح ہے اور اسے امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
البتہ اس میں قبر پرستوں کے لئے کوئی حجت نہیں کیونکہ یہ عمل ازواج مطہرات کے لئے خاص تھا کیونکہ آپ پر شرم وحیاء کی انتہاء تھی کہ وہ کسی مردہ نا محرم کو بھی دیکھنا اپنے اوپر گوارا نہ سمجھتے تھیں۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جب انسان کا انتقال ہوتا تو اس کی بصارت کا بھی انتقال ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)۔
اور ائمہ اہل سنت نے بھی اس حدیث کو احترام و شرم پر محمول کیا ہے۔
امام ابو داؤد اس عمل کے متعلق فرماتے ہیں:
"هَذَا لأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم خَاصَّةً"
کہ یہ نبی کی ازواج کے لئے خاص تھا۔ (سنن ابو داؤد)۔

مشکاۃ کے مؤلف جن کا حوالہ دیا گیا ہے وہ خود فرماتے ہیں:
"فِيهِ أَنَّ احْتِرَامَ الْمَيِّتِ كَاحْتِرَامِهِ حَيًّا"
"اس حدیث سے میت کا زندہ لوگوں کی طرح احترام کرنا ثابت ہوتا ہے" یعنی یہ عمل محض احتراما تھا۔
اس قول کو نقل کرنے کے بعد عینی حنفی نے بھی اس پر سکوت کیا ہے۔

اور مجمع الزوائد میں حافظ ہیثمی نے اس حدیث کو کتاب الادب میں ذکر کر کے یہ باب باندھا ہے:
"باب ما جاء في الحياء والنهي عن الملاحاة"
"یعنی حیاء اور ملاحت کی ممانعت پر وارد ہونے والی احادیث کا باب"

لہٰذا ام المؤمنین کی حیاء کو ان بیوقوفوں نے لفظی معنوں میں لے لیا جیسا کہ ان کی عادت ہے۔ جب کہ اماں عائشہ تو مردہ کی حرمت و احترام میں ایسا کرتی تھیں کیونکہ اسلام میں مردہ کی حرمت و احترام زندہ جیسی ہی کی جاتی ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
’’حضرت سعید بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ (جن دنوں یزید نے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا تھا) کا واقعہ پیش آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں تین دن تک اذان اور اقامت نہیں کہی گئی اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ (جو کہ جلیل القدر تابعی ہیں انہوں نے مسجد نبوی میں پناہ لی ہوئی تھی اور) انہوں نے (تین دن تک) مسجد نہیں چھوڑی تھی اور وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے سنتے تھے۔‘‘ : أخرجه الدارمي في السنن، باب : (15)، ما أکرم اﷲ تعالي نبيه صلي الله عليه وآله وسلم بَعْدَ مَوْتِهِ، 1 / 56، الرقم : 93، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم : 5951، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجه، 1 / 291، الرقم :
اس کا جواب شیخ کفایت اللہ نے پہلے ہی دے رکھا ہے:
http://forum.mohaddis.com/threads/قبرنبوی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-سے-اذان-کی-آواز-سننے-والی-روایت.2477/#post-14224
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
آج ایک اور روایت بھی قبر پرستوں سے موصول ہو ئی ہے،
عَنْ مَالِکِ الدَّارِ رضي الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِيْ زَمَنِ عُمَرَ رضي الله عنه، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَي قَبْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَي الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُّوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکِيْسُ! عَلَيْکَ الْکِيْسُ! فَأَتَي عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَکَي عُمَرُ ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ. الحديث رقم 61 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والهندي في کنزل العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية : في اقتضاء الصراط المستقيم، 1 / 373، وً ابنُ کَثِيْرٌ في البداية والنهاية، 5 / 167، وَ قَال : إسْنَادُهُ صَحيحَ، والعَسْقلانِيُّ في الإصابة، 3 / 484 وقَال : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شيبة بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ. ’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔
اس روایت کے ضعف کے لئے دیکھیں:
http://forum.mohaddis.com/threads/غلط-وسیلے-کے-بارے-میں-ایک-اور-حدیث-کی-صحت؟.297/
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : قَحَطَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلَي عَاءِشَةَ رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ : انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ کُوًي إِلَي السَّمَاءِ حَتَّي لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّي نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ حَتَّي تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ. الحديث رقم 60 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : (15) : ما أکرم اﷲ تعالي نبيّه صلي الله عليه وآله وسلم بعد موته، 1 / 56، الرقم : 92، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 4 / 400، الرقم : 5950، وابن الجوزي في الوفاء بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 801، وتقي الدين السبکي في شفاء السقام، 1 / 128، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4 / 276، وفي شرحه الزرقاني، 11 / 150. ’’حضرت ابو جوزاء اوس بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہٰذا اس سال کا نام ہی’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔‘‘
اس روایت کے متعلق میں سکوت کرنا پسند کروں گا۔ اور بفرض ثبوت شیخ ابو الحسن علوی نے اس کا جواب فورم ہی میں دیا ہے۔ سرچ کر لیں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
ایک اور بھی
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَابْنُ عَدِيٍّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ : وَأَرْجُوْ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ. والعسقلاني في الفتح وقال : قد جمع البيهقي کتابًا لطيفًا في حياة الأنبياء في قبورهم أورد فيه حديث أنس رضي الله عنه : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلّون. أخرجه من طريق يحيي بن أبي کثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثّقه أحمد وابن حبّان عن الحجاج الأسود وهو ابن أبي زياد البصري وقد وثّقه أحمد وابن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضاً أبو يعلي في مسنده من هذا الوجه وأخرجه البزار وصحّحه البيهقي. الحديث رقم 8 : أخرجه أبو يعلي في المسند، 6 / 147، الرقم : 3425، وابن عدي في الکامل، 2 / 327، الرقم : 460، وقال : هذا أحاديث غرائب حسان وأرجو أنه لا بأس به، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 119، الرقم : 403، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 487، وفي لسان الميزان، 2 / 175، 246، الرقم : 787، 1033، وقال : رواه البيهقي، وقال : ابن عدي : أرجو أنه لا بأس به، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2 / 200، 270، وقال : رواه البيهقي، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 211، وقال : رواه أبو يعلي والبزار، ورجال أبي يعلي ثقات، والسيوطي في شرحه علي سنن النسائي، 4 / 110، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6 / 19، وقال : وألفت عن ذلک تأليفا سميته : انتباه الأذکياء بحياة الأنبياء، والمناوي في فيض القدير، 3 / 184، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 / 178، وقال : فقد صححه البيهقي وألف في ذلک جزءا، والزرقاني في شرحه علي موطأ الإمام مالک، 4 / 357، وقال : وجمع البيهقي کتابا لطيفا في حياة الأنبياء وروي فيه بإسناد صحيح عن أنس رضي الله عنه مرفوعا. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور اس حدیث کو امام ابن عدی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن عدی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔ امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبروں میںزندہ ہونے کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب لکھی ہے جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی وارد کی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں اور صلاۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ حدیث انہوں نے یحی بن ابی کثیر کے طریق سے روایت کی ہے اور وہ صحیح حدیث کے رواۃ میں سے ہیں انہوں نے مستلم بن سعید سے روایت کی اور امام احمد بن حنبل نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حبان نے یہ حدیث حجاج اسود سے روایت کی ہے اور وہ ابن ابی زیاد البصری ہیں اور انہیں بھی امام احمد نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اور ابن معین نے حضرت ثابت سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اور امام ابو یعلی نے بھی اپنی مسند میں اسی طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے اور امام بزار نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے ضعف کے لئے درج ذیل لنک میں پہلی اور دوسری پوسٹ دیکھیں
http://forum.mohaddis.com/threads/انبیاء-اپنی-قبروں-میں-زندہ-ہیں-اور-نماز-پڑھتے-ہیں-روایت-کی-تحقیق.21872/
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
انبیائے کرام کی حیات برزخی
-------------------------------


"إنَّ اللهَ حرَّم على الأرضِ أن تأكلَ أجسادَ الأنبياءِ" (الحدیث)

ترجمہ : بے شک اللہ تعالی نے مٹی پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔

(علامہ البانی نے اسے صحیح الجامع، صحیح الترغیب،سلسلہ صحیحہ اورصحیح نسائی میں ذکر کیا ہے) ۔

سعودی دائمی کمیٹی کا فتویٰ
-----------------------------------

اوس بن ابو اوس سے ایک حدیث ذکرکی ہے ، جس کے آخر میں فرمایا کہ : یقیناً اللہ تعالی نے زمین کے لئے یہ حرام کر رکھا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو کھائے اور امام ابو داود اور ابن ماجہ نے اپنی اپنی سنن میں اسی جیسی ایک حدیث صحیح سند کے ساتھـ روایت کیا ہے

مولانااسماعیل سلفی کا موقف
----------------------------------

مولانا اسماعیل سلفی لکھتے ہیں میں نے اپنی گزارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاءعلیہم السلام پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے تاہم ان کا مفاد یہ ہےکہ انبیا علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی۔ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء
(مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص52)

جہاں تک ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ٹکڑے کا تعلق ہے وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں۔(حاشیہ مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص37)

شیخ زبیر علی زئی کا موقف
-------------------------------

شیخ زبیر علی زئی کتاب فضائل درود و سلام میں تعلیق میں ص ٦٥ اور ٦٦ پر لکھتے ہیں: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ انبیائے کرام کے اجسام مبارکہ کو ان کی وفات کے بعد زمین کی مٹی نہیں کھاتی۔

سیدناعمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: والارض لاتاکل الانبیاء ۔ اور زمین نبیوں (کے جسموں کو) نہیں کھاتی ۔ الخ (مصنف ابن ابی شیبہ 13/27،28ح 33808 وسندہ صحیح )

حافظ ابن حجر نے کہا:

بے شک آپ ﷺ اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ۔ واللہ اعلم

شیخ البانی کا موقف
-----------------------


علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ حدیث((الانبیا ءأحیا ء في قبورھم یُصلون ))کی تشریح میں فرماتے ہیں :

''اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے لیے جو زندگی ثابت کی گئی ہے وہ برزخی زندگی ہے ۔اس لیے اس پر دنیاوی زندگی سے تشبیہ و تمثیل دیے بغیر ایمان لانا چاہیے ۔اپنے قیاس اور رائے سے اہل بدعت کی طرح کسی بات کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے جن کا حال یہاں تک جا پہنچا ہے کہ وہ آپ کی قبر میں زندگی حقیقی قرارد یتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ اپنی قبر میں کھاتے ،پیتے بلکہ اپنی بیویوں سے جماع تک کرتے ہیں (نعوذ باللہ ) ۔ ''

(السلسلۃ الصحیحۃ 120/2)
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے حجرہ اقدس میں داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ مدفون اور آرام فرما تھے تو میں کچھ پردہ کا اہتمام کرتی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ یہ تو میرے خاوند ہین اور دوسرے میرے باپ ہیں (یعنی مکمل پردے کی ضرورت نہیں ہے) پھر جب اس حجرے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدفون ہوئے تو میں بغیر اچھی طرح پردہ کیے ہرگز داخل نہ ہوتی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کرتے ہو ۓ۔ (مشکوٰۃ المسابیح:باب زیارۃ القبور، الفصل الثالث)
مندرجہ بالا روایت میں اگرحضرت عمر ؓ اپنی قبر کی گہرائی سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو دیکھ سکتے تھے تو بھلا حضرت عائشہ صدیقہؓکا مکمل پردہ کرناکیونکر حضرت عمر ؓ کےلیے رکاوٹ بن سکتا تھا ؟
 
شمولیت
اپریل 10، 2015
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
17
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ، (النساء :64)
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد مادفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول ،وحثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک ووعیت عن اللہ فوعیناعنک وکان فیہا انزل اللہ علیک وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ وقد ظلمت نفسی وجئتک تستغفرلی، فنودی من القبر انہ قد غفر لک (الجامع الاحکام القرآن ج5ص255)
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے کے 3دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ"نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ روضہ منورہ سے آنے والی آواز وہاں پر موجود سب لوگوں نے سنی۔ حضرت علی کی یہ روایت علامہ ابو حسان اندلسی، البحرالمحیط جلد 1ص283 ، علامہ سمہودی نے وفا الوفا میں خلاصتہ الوفا ص51، او علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر جلد1ص265، میں نقل فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفسیر معارف القرآن، تفسیر ابن کثیر جلد3ص142، تفسیر مدارک جلد1ص265، میں بھی درج ہے۔ حضرت قاسم نانوتوی نے اس آیت شریفا کی تفسیر میں جاوک (یعنی اگر گناہگار آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوں) کو عام رکھا ہے۔فرماتے ہیں ولو انہم اذ ظلمو انفسہم جاوک ........ الخکیونکہ اس میں کسی کی تخصیص ہو تو کیونکر ہو۔ آپ ﷺ کا وجود باجود ترتیب تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہے۔ کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ آپﷺ قبر میں زندہ ہوں۔ (آب حیات ص40)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی ،اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے…… اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔ (معارف القرآن ج2ص459،460)
اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا توخواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔ (تفسیر ابن کثیر ج2ص315)
اسکا کوئى جواب دیں
 
Top