رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
یہ روایت تو بخاری و مسلم کی شرط پر بالکل صحیح ہے اور اسے امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔میں کچھ روایات پیش کرتا ہوں،،،انکی بھی وضاحت کردیں،،،،اور انکی سند کے متعلق بھی لکھیں،،،،جن کا ضیعف احادیث کا سہارا لیکر قبوری لوگوں کو گمراہ کرتے ہیںِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے حجرہ اقدس میں داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ مدفون اور آرام فرما تھے تو میں کچھ پردہ کا اہتمام کرتی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ یہ تو میرے خاوند ہین اور دوسرے میرے باپ ہیں (یعنی مکمل پردے کی ضرورت نہیں ہے) پھر جب اس حجرے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدفون ہوئے تو میں بغیر اچھی طرح پردہ کیے ہرگز داخل نہ ہوتی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کرتے ہو ۓ۔ (مشکوٰۃ المسابیح:باب زیارۃ القبور، الفصل الثالث)
البتہ اس میں قبر پرستوں کے لئے کوئی حجت نہیں کیونکہ یہ عمل ازواج مطہرات کے لئے خاص تھا کیونکہ آپ پر شرم وحیاء کی انتہاء تھی کہ وہ کسی مردہ نا محرم کو بھی دیکھنا اپنے اوپر گوارا نہ سمجھتے تھیں۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جب انسان کا انتقال ہوتا تو اس کی بصارت کا بھی انتقال ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)۔
اور ائمہ اہل سنت نے بھی اس حدیث کو احترام و شرم پر محمول کیا ہے۔
امام ابو داؤد اس عمل کے متعلق فرماتے ہیں:
"هَذَا لأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم خَاصَّةً"
کہ یہ نبی کی ازواج کے لئے خاص تھا۔ (سنن ابو داؤد)۔
مشکاۃ کے مؤلف جن کا حوالہ دیا گیا ہے وہ خود فرماتے ہیں:
"فِيهِ أَنَّ احْتِرَامَ الْمَيِّتِ كَاحْتِرَامِهِ حَيًّا"
"اس حدیث سے میت کا زندہ لوگوں کی طرح احترام کرنا ثابت ہوتا ہے" یعنی یہ عمل محض احتراما تھا۔
اس قول کو نقل کرنے کے بعد عینی حنفی نے بھی اس پر سکوت کیا ہے۔
اور مجمع الزوائد میں حافظ ہیثمی نے اس حدیث کو کتاب الادب میں ذکر کر کے یہ باب باندھا ہے:
"باب ما جاء في الحياء والنهي عن الملاحاة"
"یعنی حیاء اور ملاحت کی ممانعت پر وارد ہونے والی احادیث کا باب"
لہٰذا ام المؤمنین کی حیاء کو ان بیوقوفوں نے لفظی معنوں میں لے لیا جیسا کہ ان کی عادت ہے۔ جب کہ اماں عائشہ تو مردہ کی حرمت و احترام میں ایسا کرتی تھیں کیونکہ اسلام میں مردہ کی حرمت و احترام زندہ جیسی ہی کی جاتی ہے۔