کچھ لوگوں کا کام ہی فتنہ انگیزی ہوتا ہے لہٰذا ان کو تو دور ہی سے سلام۔ جو حضرات شریفانہ انداز میں بحث میں حصہ لینا چاہتے ہیں انہیں ویلکم۔
یہاں تک کی بحث سے ایک بات واضح ہو چکی کہ جس راوی کی وجہ سے مذکورہ روایات کو ضعیف کہا جا رہا تھا ان کا متن صحیح ہے کیونکہ جو ضعف کا سبب بیان کیا گیا (گو اس پر بھی بحث ہو سکتی ہے) وہ ایسا نہیں کہ اس سے مروی ہر حیث جھٹلا دی جائے۔ بلکہ دیکھا جائے گا کہ کہاں اس سے لغزش ہوئی۔ یہ روایت اس قبیل سے ہے کہ روزانہ کے پانچ وقتہ معمول کا حصہ ہے۔ اس میں بھول چوک یا گڑ بڑ کا امکان ہی نہیں وگرنہ ثقہ روات اس سے یہ بات کیسے روایت کر سکتے ہیں۔ کیا وہ روزانہ پانچ وقتہ نماز میں اپنا اور دوسروں کا معمول نہیں دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اس پر انکار کیون نہیں کیا؟
اصل یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کا یہی طریقہ تمام مسلم میں معمول تھا۔
دلیل
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر۔
بدائع الفوائد 3/91:
قال ابن القيم: واختلف في موضع الوضع فعنه (أي: عن الإمام أحمد) : فوق السرة، وعنه تحتها، وعنه أبو طالب: سألت أحمد بن حنبل: أين يضع يده إذا كان يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل، كل ذلك واسع عنده إن وضع فوق السرة أو عليها أو تحتها.