• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
عدیل بھائی نے تو بڑے مہذب الفاظ استعمال کئے ہیں اصل عبارت جو ہائی لائٹ کی ہے وہ ” توڑ موڑ ديتا تھا “ هے ۔ دوسرے الفاظ ميں ” الٹ پلٹ كرديتا تھا “ صحيح هے ۔
بھائي جان يهاں علماء نهيں تو ادنيٰ طالبعلم هي آپ كو جواب دے رهے هيں ۔
اصل میں مجھے یہ فرق محسوس ہؤا ہے کہ ’’الٹ پلٹ کر دیتا تھا‘‘ اور ’’الٹ پلٹ ہو جاتے تھے‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہ رہاتھا کہ ترجمہ سے راوی کے متعلق غلط تأثر ملتا ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ابن ترکمانی حنفی نے جو التمھید سے نقل کی ہے وہ روایت لگادیں

حدثنا وکيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم قال يضع يمينه علی شماله في الصلاة تحت السرة (ابن ابی شیبہ)
یعنی ''وہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے تھے۔''

درج بالا عمل محترم ابراہیم نخعی کا ہے، ان کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے، نیز یہ ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے تھے۔ ان سے اس سلسلہ میں دو مزید روایات بھی ہیں :

حدثنا أبوبکر قال حدثناهثيم عن يونس عن الحسن ومغيرة عن إبراهيم أنهما کانا يرسلان أيديهما في الصلاة

یعنی ''وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے۔'' (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱؍ ص۴۲۸)

حدثنا جدير عن مغيرةعن أبي معشر عن إبراهيم قال لا بأس بأن يضع اليمنی علی اليسریٰ في الصلاة (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱ ص۴۲۷)
یعنی ''وہ نماز میں ہاتھ باندھنے میں کوئی قباحت نہ سمجھتے تھے۔''

ابراہیمؒ نخعی سے مروی ان تینوں آثار پر اگر نظر انصاف سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بیشتر نمازیں ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے تھے اور نماز میں ہاتھ باندھ لینے کو بھی مباح سمجھتے تھے۔ ان تینوں آثار کی موجودگی میں ابراہیم نخعی ؒکے فقط ایک عمل کو بطورِ حجت پیش کرنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے

حدثنا وکيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم قال يضع يمينه علی شماله في الصلاة تحت السرة

یہ ابراہیم نخعی سے ثابت نہیں ہے اس کی سند میں ربیع بن صبیح ہے

انکے حافظہ پر کلام ہے

عفان بن مسلم الصفار : أحاديثه كلها مقلوبة
أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف
زكريا بن يحيى الساجي : ضعيف الحديث أحسبه كان يهم وكان عبدا صالحا
أبو حاتم بن حبان البستي :

الحديث لم يكن من صناعته فكان يهم فيما يروي كثيرا
يعقوب بن شيبة السدوسي : رجل صالح صدوق ثقة أي في دينه وسلوكه وأخلاقه، ضعيف جدا أي في الحديث
إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني :ضعفه

دکتور بشار عواد لکھتےہیں:

فخلاصة القول فيه أنه كان رجلا صالحا غزاء دينا ثقة في دينه وجهاده، ولكنه كان ضعيفا في الحديث كما قال يعقوب بن شَيْبَة، وابن حبان وغيرهما.
اس کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نیک مجاہد اور دین دار آدمی تھا اپنے دین اور جہاد میں تو یہ ثقہ تھے لیکن حدیث میں ضعیف تھے جیسا کہ یعقوب بن شیبہ اور ابن حبان وغیرہ ہما نے کہا ہے
حاشية تهذيب الكمال في أسماء الرجال (٩٤/٩)


 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
ابن ترکمانی حنفی نے جو التمھید سے نقل کی ہے وہ روایت لگادیں

حدثنا وکيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم قال يضع يمينه علی شماله في الصلاة تحت السرة (ابن ابی شیبہ)
یعنی ''وہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے تھے۔''

درج بالا عمل محترم ابراہیم نخعی کا ہے، ان کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے، نیز یہ ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے تھے۔ ان سے اس سلسلہ میں دو مزید روایات بھی ہیں :

حدثنا أبوبکر قال حدثناهثيم عن يونس عن الحسن ومغيرة عن إبراهيم أنهما کانا يرسلان أيديهما في الصلاة

یعنی ''وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے۔'' (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱؍ ص۴۲۸)

حدثنا جدير عن مغيرةعن أبي معشر عن إبراهيم قال لا بأس بأن يضع اليمنی علی اليسریٰ في الصلاة (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱ ص۴۲۷)
یعنی ''وہ نماز میں ہاتھ باندھنے میں کوئی قباحت نہ سمجھتے تھے۔''

ابراہیمؒ نخعی سے مروی ان تینوں آثار پر اگر نظر انصاف سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بیشتر نمازیں ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے تھے اور نماز میں ہاتھ باندھ لینے کو بھی مباح سمجھتے تھے۔ ان تینوں آثار کی موجودگی میں ابراہیم نخعی ؒکے فقط ایک عمل کو بطورِ حجت پیش کرنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے

حدثنا وکيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم قال يضع يمينه علی شماله في الصلاة تحت السرة

یہ ابراہیم نخعی سے ثابت نہیں ہے اس کی سند میں ربیع بن صبیح ہے

انکے حافظہ پر کلام ہے

عفان بن مسلم الصفار : أحاديثه كلها مقلوبة
أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف
زكريا بن يحيى الساجي : ضعيف الحديث أحسبه كان يهم وكان عبدا صالحا
أبو حاتم بن حبان البستي :

الحديث لم يكن من صناعته فكان يهم فيما يروي كثيرا
يعقوب بن شيبة السدوسي : رجل صالح صدوق ثقة أي في دينه وسلوكه وأخلاقه، ضعيف جدا أي في الحديث
إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني :ضعفه

دکتور بشار عواد لکھتےہیں:

فخلاصة القول فيه أنه كان رجلا صالحا غزاء دينا ثقة في دينه وجهاده، ولكنه كان ضعيفا في الحديث كما قال يعقوب بن شَيْبَة، وابن حبان وغيرهما.
اس کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نیک مجاہد اور دین دار آدمی تھا اپنے دین اور جہاد میں تو یہ ثقہ تھے لیکن حدیث میں ضعیف تھے جیسا کہ یعقوب بن شیبہ اور ابن حبان وغیرہ ہما نے کہا ہے
حاشية تهذيب الكمال في أسماء الرجال (٩٤/٩)

بھائی صاحب جس پوائنٹ پر بات چل رہی ہے اس کو چھوڑ کر ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں کیوں مارنا شروع ہو جاتے ہو؟
بات ہو رہی ہے روات کے ضعف کی۔ کسی راوی پر جرح مفصل ہونی چاہیئے مبہم نہیں۔ دوسرے یہ کہ راوی پر مفصل جرح ہو تو بھی وہ راوی ہر روایت میں متہم نہیں ہوگا۔
دوسرے یہ کہ جارح سے بھی بےجا جرح منقول ہوسکتی ہے۔ جارح بھی تو انسان ہی ہے۔ ایک ہی شخص کے بارے بعض اوقات مختلف رائے رکھنے والے ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں جارحین کا کسی راوی کو ضعیف کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس کے بیان کردہ متن سے استدلال نہیں کی جاسکتا۔ بلکہ اس کی نشاندہی کا مقصد یہ ہے کہ جس روایت میں یہ آجائے اس کی چھان پھٹک کر لی جائے۔
اگر یہاں تک آپ مجھ سے متفق ہیں تو بات آگے بڑھاتے ہیں۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اس مذکورہ حوالہ کی آپ نے ادھوری بات لکھی۔ قارئینِ کرام ان کا محولہ صفحات یہ ہیں؛
میرے پیارے پیارے بھائی!
میرا جرم صرف یہ ہے کہ میں نے آپ کے محولہ صفحات لگائے ہیں اور اہم عبارات کے نیچے لائنین لگا دی ہیں۔
ترجمہ آپ ہی کر دیں کیونکہ میں عالم نہیں آپ تو عالم ہیں۔

بھائی صاحب جس پوائنٹ پر بات چل رہی ہے اس کو چھوڑ کر ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں کیوں مارنا شروع ہو جاتے ہو؟
بات ہو رہی ہے روات کے ضعف کی۔ کسی راوی پر جرح مفصل ہونی چاہیئے مبہم نہیں۔ دوسرے یہ کہ راوی پر مفصل جرح ہو تو بھی وہ راوی ہر روایت میں متہم نہیں ہوگا۔
دوسرے یہ کہ جارح سے بھی بےجا جرح منقول ہوسکتی ہے۔ جارح بھی تو انسان ہی ہے۔ ایک ہی شخص کے بارے بعض اوقات مختلف رائے رکھنے والے ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں جارحین کا کسی راوی کو ضعیف کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس کے بیان کردہ متن سے استدلال نہیں کی جاسکتا۔ بلکہ اس کی نشاندہی کا مقصد یہ ہے کہ جس روایت میں یہ آجائے اس کی چھان پھٹک کر لی جائے۔
اگر یہاں تک آپ مجھ سے متفق ہیں تو بات آگے بڑھاتے ہیں۔
آپ کی دی ہوئی اہم عبارتیں ہیں جو آپ نے انڈر لائن کری تھی :) ابھی پہلے صفحہ کا جواب دیا ہے باقی دوسرے صفحہ کا بھی آپریشن ہوجائیگا انتظار فرمائے

اور راوی کا ضعف بیان کردیا ہے جرح مفسر پیش کردی ہے اس راوی کے توثیق کے اقوال ثابت کریں اگر اس روای کا دفاع کرنا ہے

اور متن سے استدلال تو آپ کے قوائد کے خلاف ہے شاید آپ نے قواعد نہیں پڑھے اپنی پچھلی پوسٹس کو غور سے پڑھئے
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
ابھی پہلے صفحہ کا جواب دیا ہے باقی دوسرے صفحہ کا بھی آپریشن ہوجائیگا انتظار فرمائے
یعنی کہ آپ کے غلط ہونے کا امکان ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راوی کا ضعف بیان کردیا ہے جرح مفسر پیش کردی ہے اس راوی کے توثیق کے اقوال ثابت کریں اگر اس روای کا دفاع کرنا ہے
خلاصۃ بتادیں کہ اس کے ضعف کا سبب کیا ہے؟

متن سے استدلال تو آپ کے قوائد کے خلاف ہے شاید آپ نے قواعد نہیں پڑھے اپنی پچھلی پوسٹس کو غور سے پڑھئے
ذرا وضاحت فرمادیں۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
خلاصۃ بتادیں کہ اس کے ضعف کا سبب کیا ہے؟
ابن حبان نے کہا: کان ممن یقلب الاخبار والاسانید وینفرد بالمناکیر عن المشاھیر ، لا یحل الاحتجاج بخیرہ (کتاب المجروحین ۵۴/۲)
عبد الرحمن بن اسحاق الکوفی سے متعلق ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
إنما يضعف من قبل حفظه
ضعف حفظ کی بنا پر تضعیف کی گئی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 جلد 02 إعلاء السنن - ظفر أحمد العثماني التهانوي - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

عبدالرحمن اسحاق الکوفی کے بارے میں مولانا ظفر عثمانی کہتے ہیں:
ابن ابی لیلہ اور ابن لھیہ جیسا اس راوی کا حال ہے
ان دونوں کو تو سئی الحفظ کے ساتھ صدوق بھی کہا گیا ہے اور عبدالرحمن الکوفی کو کسی نے صدوق نہیں کہا

امام بزار رحمتہ اللہ نے کہا:
وليس حديثه حديث حافظ وقد احتمل حديثه
اس کی حدیث حافظ کی حدیث جیسی نہیں ہے اور اس کی حدیث برداشت کی گئی ہے
مسند البزار (٣١١/٦)
اس میں بھی سوء حفظ کا اشارہ ہے توثیق نہیں اور یہی مفہوم امام عجلی رحمتہ اللہ کی عبارت کا ہے
امام عجلی رحمتہ اللہ نے کہا:
ضعيف جائز الحديث يكتب حديثه
یہ تو گویا ایسا جائز الحدیث ہے کہ ضعیف یے اور اس کی حدیث لکھنے کے قابل ہے
(معرفة الثقات رقم ١٠١٨)

امام عجلی رحمتہ اللہ کے مقابلہ میں امام احمد رحمتہ اللہ اور امام ابن معین رحمتہ اللہ کی جرح کا تو یہ تقاضا ہے کہ اس کی حدیث لکھنے کے بھی قابل نہیں

ذرا وضاحت فرمادیں
آپ کے مولانا ظفر احمد عثمانی نے تدریب الراوی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے
واذا قلت ه‍و ضعيف فليس بثقة لا يكتب حديثه
جب میں کہوں کے وہ ضعیف ہے تو وہ ثقہ نہیں اس کی حدیث نہ لکھی جائے
قواعد في علوم الحديث

عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی علمائے اسماء الرجال کی نظر میں

الفاظ جرح میں لیس بشیء چوتھے درجہ کی جرح ہے جس کے بارے میں آپ کے مولانا عثمانی نے ہی فرمایا ہے:
قواعد في علوم الحديث
ومن قيل فيه ذلك أي لفظ من الرابعة أو الخامسة فهو ساقط لا يكتب حديثه ولا يُعتبرُ به ولا يُستشهد

جس کے بارے میں چوتھے اور پانچویں درجہ کے الفاظ جرح ہوں وہ ساقط ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی نہ ہی اعتباراً و استشہاداً لی جائے گی

ظفر احمد عثمانی رقم طراز ہیں:
والحديث مذكور في مسند احمد وقال سيوطي في خطبة كنز العمال وكل ما كان في مسند أحمد فه‍و مقبول فان الضعيف الذى فيه يقرب من الحسن
حدیث مذکور مسند احمد میں بھی ہے اور سیوطی نے کنزالعمال کے خطبہ میں کہا ہے کہ مسند احمد میں جو احادیث ہیں وہ مقبول ہیں بلکہ اس میں ضعیف حسن کے قریب ہیں

آپ کے مولانا بھی اپنی اس عبارت پر قائم نہ رہ سکے کہ مسند کی سب روایت مقبول ہیں جبکہ امام احمد رحمتہ اللہ نے تو کتنی احادیث کو ضعیف کہا ہے

آپ سے سوال ہے کہ کیا کنزالعمال امام سیوطی رحمتہ اللہ کی کتاب ہے؟؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
ابن حبان نے کہا: کان ممن یقلب الاخبار والاسانید وینفرد بالمناکیر عن المشاھیر ، لا یحل الاحتجاج بخیرہ (کتاب المجروحین ۵۴/۲)
عبد الرحمن بن اسحاق الکوفی سے متعلق ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
إنما يضعف من قبل حفظه
ضعف حفظ کی بنا پر تضعیف کی گئی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 جلد 02 إعلاء السنن - ظفر أحمد العثماني التهانوي - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

عبدالرحمن اسحاق الکوفی کے بارے میں مولانا ظفر عثمانی کہتے ہیں:
ابن ابی لیلہ اور ابن لھیہ جیسا اس راوی کا حال ہے
ان دونوں کو تو سئی الحفظ کے ساتھ صدوق بھی کہا گیا ہے اور عبدالرحمن الکوفی کو کسی نے صدوق نہیں کہا

امام بزار رحمتہ اللہ نے کہا:
وليس حديثه حديث حافظ وقد احتمل حديثه
اس کی حدیث حافظ کی حدیث جیسی نہیں ہے اور اس کی حدیث برداشت کی گئی ہے
مسند البزار (٣١١/٦)
اس میں بھی سوء حفظ کا اشارہ ہے توثیق نہیں اور یہی مفہوم امام عجلی رحمتہ اللہ کی عبارت کا ہے
امام عجلی رحمتہ اللہ نے کہا:
ضعيف جائز الحديث يكتب حديثه
یہ تو گویا ایسا جائز الحدیث ہے کہ ضعیف یے اور اس کی حدیث لکھنے کے قابل ہے
(معرفة الثقات رقم ١٠١٨)

امام عجلی رحمتہ اللہ کے مقابلہ میں امام احمد رحمتہ اللہ اور امام ابن معین رحمتہ اللہ کی جرح کا تو یہ تقاضا ہے کہ اس کی حدیث لکھنے کے بھی قابل نہیں


آپ کے مولانا ظفر احمد عثمانی نے تدریب الراوی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے
واذا قلت ه‍و ضعيف فليس بثقة لا يكتب حديثه
جب میں کہوں کے وہ ضعیف ہے تو وہ ثقہ نہیں اس کی حدیث نہ لکھی جائے
قواعد في علوم الحديث

عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی علمائے اسماء الرجال کی نظر میں

الفاظ جرح میں لیس بشیء چوتھے درجہ کی جرح ہے جس کے بارے میں آپ کے مولانا عثمانی نے ہی فرمایا ہے:
قواعد في علوم الحديث
ومن قيل فيه ذلك أي لفظ من الرابعة أو الخامسة فهو ساقط لا يكتب حديثه ولا يُعتبرُ به ولا يُستشهد

جس کے بارے میں چوتھے اور پانچویں درجہ کے الفاظ جرح ہوں وہ ساقط ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی نہ ہی اعتباراً و استشہاداً لی جائے گی

ظفر احمد عثمانی رقم طراز ہیں:
والحديث مذكور في مسند احمد وقال سيوطي في خطبة كنز العمال وكل ما كان في مسند أحمد فه‍و مقبول فان الضعيف الذى فيه يقرب من الحسن
حدیث مذکور مسند احمد میں بھی ہے اور سیوطی نے کنزالعمال کے خطبہ میں کہا ہے کہ مسند احمد میں جو احادیث ہیں وہ مقبول ہیں بلکہ اس میں ضعیف حسن کے قریب ہیں

آپ کے مولانا بھی اپنی اس عبارت پر قائم نہ رہ سکے کہ مسند کی سب روایت مقبول ہیں جبکہ امام احمد رحمتہ اللہ نے تو کتنی احادیث کو ضعیف کہا ہے

آپ سے سوال ہے کہ کیا کنزالعمال امام سیوطی رحمتہ اللہ کی کتاب ہے؟؟
آپ کی اس پوری تحریر کا خلاصہ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ مذورہ راوی کا حافظہ کمزور ہے۔ کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
آپ کی اس پوری تحریر کا خلاصہ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ مذورہ راوی کا حافظہ کمزور ہے۔ کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں؟
واشگاف الفاظ ہیں اوپر پوسٹ میں آپ کے اقتباسات کے ساتھ شاید آپ تکرار کرنے ہی آتے ہیں فورم پر اور اس راوی کے بارے میں کوئی تعدیل کے اقوال ہوں تو لگائیں پھر آگے بات ہوگی
والسلام
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
واشگاف الفاظ ہیں اوپر پوسٹ میں آپ کے اقتباسات کے ساتھ شاید آپ تکرار کرنے ہی آتے ہیں فورم پر اور اس راوی کے بارے میں کوئی تعدیل کے اقوال ہوں تو لگائیں پھر آگے بات ہوگی
والسلام
آپ کے دیئے گئے تمام حوالون میں کسی جارح نے عبد الرحمن بن اسحاق کو ’’جھوٹ‘‘ سے متہم نہیں کیا۔
ان تمام حوالوں سے جو مترشح ہوتا ہے وہ یہ کہ اس راوی کا حافظہ کمزور ہے۔
کسی راوی کے حافظہ کی کمزوری کا باعث متن میں الفاظ کو کم کرنا یا زیادہ کر دینا وغیرہ کا باعث ہوسکتا ہے (لازم نہیں)۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس روایت میں ایسا کچھ ممکن ہے؟
نماز ایک ایسا عمل ہے جسے دن میں پانچ دفعہ کئی رکعات کے ساتھ دہرایا جاتا ہے۔ راوی نے نہ صرف یہ عمل کثرت سے دیکھا بلکہ کثرت سے خود بھی کیا۔ ایسے عمل کا بیان کرنے والے کی بات کو حافظہ کی کمزوری کے سبب سے رد نہیں کیا جاسکتا جب کہ اس کی تائید قوی حافظہ والے محدثین فقہا اور جلیل القدر علماء کر رہے ہوں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
آپ کے دیئے گئے تمام حوالون میں کسی جارح نے عبد الرحمن بن اسحاق کو ’’جھوٹ‘‘ سے متہم نہیں کیا۔
ان تمام حوالوں سے جو مترشح ہوتا ہے وہ یہ کہ اس راوی کا حافظہ کمزور ہے۔
کسی راوی کے حافظہ کی کمزوری کا باعث متن میں الفاظ کو کم کرنا یا زیادہ کر دینا وغیرہ کا باعث ہوسکتا ہے (لازم نہیں)۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس روایت میں ایسا کچھ ممکن ہے؟
نماز ایک ایسا عمل ہے جسے دن میں پانچ دفعہ کئی رکعات کے ساتھ دہرایا جاتا ہے۔ راوی نے نہ صرف یہ عمل کثرت سے دیکھا بلکہ کثرت سے خود بھی کیا۔ ایسے عمل کا بیان کرنے والے کی بات کو حافظہ کی کمزوری کے سبب سے رد نہیں کیا جاسکتا جب کہ اس کی تائید قوی حافظہ والے محدثین فقہا اور جلیل القدر علماء کر رہے ہوں۔
ان دو احادیث کے متعلق کیا فرماتے ہیں آپ؟
عَنْ وَائِلِ بِنْ حُجْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلیٰ یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلیٰ صَدْرِہِ (صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ج۱)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا ۔


عَنْ قَبِیْصَۃَ بِنْ ھُلْبٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ یَنْصَرِفُ عَنْ یَّمِیْنِہ وَ عَنْ یَّسَارِہ وَ رَأیْتُہ یَضَعُ ھَذِہ عَلیٰ صَدْرِہ وَصَفَ یَحْییٰ اَلْیُمْنیٰ عَلیٰ الْیُسْرٰی فَوْقَ الْمَفْصَلِ(مسند الامام احمد بن حنبل ص ۲۲۶ ج ۵)
قبصیہ بن ھلب تابعی نے اپنے والد ھلب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپؐ نماز سے دائیں اور بائیں پھر رہے تھے ۔اور میں نے آپؐ کو دیکھا کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا۔
 
Top