• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
آپ شری آدمی ہو ، شر پھیلا رہے ہو اس لئے اب مزید شر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
دلائل سے بات کر رہا ہوں
؟؟؟؟؟؟؟؟
کہاں ہیں دلائل ۔۔۔
کہا تھا کہ " میں ضد نہیں کروں گا"
10 صفحات ہوگئے ہیں ، ابھی تک ایک ہی ضعیف حدیث پر تکرار ہے کہ متن صحیح ہے ۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
دلیل
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر۔
بدائع الفوائد 3/91:
قال ابن القيم: واختلف في موضع الوضع فعنه (أي: عن الإمام أحمد) : فوق السرة، وعنه تحتها، وعنه أبو طالب: سألت أحمد بن حنبل: أين يضع يده إذا كان يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل، كل ذلك واسع عنده إن وضع فوق السرة أو عليها أو تحتها.
ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں کو گٹ کے پاس سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھیں۔
اسی طریقہ کو فقہاء نے بیان کیا ہے۔ احمد بن حنبل سے تو ثابت کیا جا چکا اب آیئے امام شافعی رحمۃ اللہ کیا فرماتے ہین۔
شرح السنة للبغوي (3 / 32):
وَالْعَمَلُ الْيَوْمَ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الصَّحَابَةِ، فَمَنْ بَعْدَهُمْ، لَا يَرَوْنَ إِرْسَالَ الْيَدَيْنِ، ثُمَّ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: يَأْخُذُ كُوعَهُ الأَيْسَرَ بِكَفِّهِ الأَيْمَنِ، وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ.
وَرَأَى بَعْضُهُمْ وَضْعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ.
وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِ الرَّأْيِ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں کو گٹ کے پاس سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھیں۔
اسی طریقہ کو فقہاء نے بیان کیا ہے۔ احمد بن حنبل سے تو ثابت کیا جا چکا اب آیئے امام شافعی رحمۃ اللہ کیا فرماتے ہین۔
شرح السنة للبغوي (3 / 32):
وَالْعَمَلُ الْيَوْمَ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الصَّحَابَةِ، فَمَنْ بَعْدَهُمْ، لَا يَرَوْنَ إِرْسَالَ الْيَدَيْنِ، ثُمَّ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: يَأْخُذُ كُوعَهُ الأَيْسَرَ بِكَفِّهِ الأَيْمَنِ، وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ.
وَرَأَى بَعْضُهُمْ وَضْعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ.
وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِ الرَّأْيِ
اوپر اسی لئے دو حدیثیں پیش کی گئی تھیں تاکہ آپ پر اتمام حجت ہو جاۓ.
آپ کے رد عمل سے جو ظاہر ہے وہ یہ کہ آپ کے نزدیک صحیح حدیث حجت نہیں ہے. ہاں آپ کے نفس کے مطابق جو چیز ہو گی اسے آپ قبول ضرور کریں گے گرچہ اسکو صحیح بنانے کے لئے فقہ حنفی سے بھی دو قدم آگے جانا پڑے.
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی جتنی بھی احادیث پیش کی جاتی ہیں ان کا جواب علامہ نووی رحمۃ اللہ نے اس طرح دے دیا؛
صحيح مسلم (1 / 301):
بَابُ وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ، وَوَضْعِهِمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات نہ کسی محدث نے کی اور نہ ہی کسی فقیہ نے۔
مسنون طریقہ پر ہاتھ باندھنے سے نماز سے متعلق تمام مسائل پر عمل با آسانی ہو جاتا ہے۔
بعض علماء نے تصریح کی ہے کہ جن احادیث میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات ہے اس سے مراد ہاتھ چھوڑنے کا رد ہے یعنی سسمنے کی طرف ہاتھ باندھنا۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
محدث ترمذی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں؛
سنن الترمذي ت شاكر (2 / 33):
سنن الترمذي ت بشار (1 / 336):
يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ماشاء اللہ جی لگائیں اور جتنے بھی دلائل ہیں
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
ماشاء اللہ جی لگائیں اور جتنے بھی دلائل ہیں
اور آپ نے آخر میں سر ہلا دینا ہے
میں نہ مانوں
ابتسامہ
قارئین میں نے ’’بھینس’’ کا نام نہیں لیا آپ لوگ خواہ مخواہ میں کسی پر شک نہ کیجئے گا۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ان تمام حوالوں سے جو مترشح ہوتا ہے وہ یہ کہ اس راوی کا حافظہ کمزور ہے۔
کسی راوی کے حافظہ کی کمزوری کا باعث متن میں الفاظ کو کم کرنا یا زیادہ کر دینا وغیرہ کا باعث ہوسکتا ہے (لازم نہیں)۔
کوئی بتلائے یا ہم بتلائیں :)

آپ سے گذارش ہے احادیث اور جرح و تعدیل کے اصول پڑھیں جرح کے مراتب سمجھیں اور حفظ و ضبط کی کیا اہمیت ہے اس فن میں یہ بھی سمجھیں

دلیل
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر۔
بدائع الفوائد 3/91:
قال ابن القيم: واختلف في موضع الوضع فعنه (أي: عن الإمام أحمد) : فوق السرة، وعنه تحتها، وعنه أبو طالب: سألت أحمد بن حنبل: أين يضع يده إذا كان يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل، كل ذلك واسع عنده إن وضع فوق السرة أو عليها أو تحتها.
امام ابن قيم اپنی دوسری کتاب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بتاتے ہوئے کہا ہے:
ثم كان يمسك شماله بيمينه فيضعه‍ما عليه‍ا فوق المفصل ثم يضعه‍ما على صدره
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے اور انھیں جوڑ کے اوپر رکھتے پھر انہیں اپنے سینے پر رکھتے
الصلاة و حكم تاركه‍ا (ص:١٦٠)

امام احمد رحمتہ اللہ کا اپنا عمل ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا تھا
رأيت أبي إذا صلى وضع يديه إحداه‍ما على الأخرى فوق السرة
میں نے اپنے والد کو دیکھا جب وہ نماز پڑھتے تھے تو اپنے ہاتھوں میں سے ایک دوسرے پر رکھ کر ناف کے اوپر رکھتے تھے
مسائل أحمد رواية عبدالله ت زه‍ير (ص:٧٦)

امام احمد رحمتہ اللہ نے اپنی مسند میں ہلب الطائی رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی درج کری ہے جس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی جتنی بھی احادیث پیش کی جاتی ہیں ان کا جواب علامہ نووی رحمۃ اللہ نے اس طرح دے دیا؛
صحيح مسلم (1 / 301):
بَابُ وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ، وَوَضْعِهِمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات نہ کسی محدث نے کی اور نہ ہی کسی فقیہ نے۔
مسنون طریقہ پر ہاتھ باندھنے سے نماز سے متعلق تمام مسائل پر عمل با آسانی ہو جاتا ہے۔
بعض علماء نے تصریح کی ہے کہ جن احادیث میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات ہے اس سے مراد ہاتھ چھوڑنے کا رد ہے یعنی سسمنے کی طرف ہاتھ باندھنا۔ واللہ اعلم
امام النووی نے یہ کہاں کہا ہے؟

ہم اسی باب سے امام النووی کا صحیح ابن خزیمہ کی حدیث کو دلیل بنانا پیش کر دیتے ہیں:

وفي المسألة أحاديث كثيرة ودليل وضعهما فوق السرة حديث وائل بن حجر قال : صليت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره . رواهابن خزيمة في صحيحه

. وأما حديث علي - رضي الله عنه - أنه قال : من السنة في الصلاة وضع الأكف على الأكف تحت السرة ضعيف متفق على تضعيفه . رواه الدارقطني والبيهقيمن رواية أبي شيبة عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي . وهو ضعيف بالاتفاق

شرح صحيح مسلم للنووي» كتاب الصلاة» باب وضع اليمنى على اليسرى بعد تكبيرة الإحرام تحت الصدر وفي السجود على الأرض حذو منكبيه

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 350 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - بيت الأفكار الدولية

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152 جلد 04 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - مؤسسة قرطبة
 
Top