مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
آپ شری آدمی ہو ، شر پھیلا رہے ہو اس لئے اب مزید شر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
؟؟؟؟؟؟؟؟دلائل سے بات کر رہا ہوں
ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں کو گٹ کے پاس سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھیں۔دلیل
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر۔
بدائع الفوائد 3/91:قال ابن القيم: واختلف في موضع الوضع فعنه (أي: عن الإمام أحمد) : فوق السرة، وعنه تحتها، وعنه أبو طالب: سألت أحمد بن حنبل: أين يضع يده إذا كان يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل، كل ذلك واسع عنده إن وضع فوق السرة أو عليها أو تحتها.
اوپر اسی لئے دو حدیثیں پیش کی گئی تھیں تاکہ آپ پر اتمام حجت ہو جاۓ.ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں کو گٹ کے پاس سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھیں۔
اسی طریقہ کو فقہاء نے بیان کیا ہے۔ احمد بن حنبل سے تو ثابت کیا جا چکا اب آیئے امام شافعی رحمۃ اللہ کیا فرماتے ہین۔
شرح السنة للبغوي (3 / 32):وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِ الرَّأْيِ
وَالْعَمَلُ الْيَوْمَ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الصَّحَابَةِ، فَمَنْ بَعْدَهُمْ، لَا يَرَوْنَ إِرْسَالَ الْيَدَيْنِ، ثُمَّ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: يَأْخُذُ كُوعَهُ الأَيْسَرَ بِكَفِّهِ الأَيْمَنِ، وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ.
وَرَأَى بَعْضُهُمْ وَضْعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ.
اور آپ نے آخر میں سر ہلا دینا ہےماشاء اللہ جی لگائیں اور جتنے بھی دلائل ہیں
کوئی بتلائے یا ہم بتلائیں :)ان تمام حوالوں سے جو مترشح ہوتا ہے وہ یہ کہ اس راوی کا حافظہ کمزور ہے۔
کسی راوی کے حافظہ کی کمزوری کا باعث متن میں الفاظ کو کم کرنا یا زیادہ کر دینا وغیرہ کا باعث ہوسکتا ہے (لازم نہیں)۔
امام ابن قيم اپنی دوسری کتاب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بتاتے ہوئے کہا ہے:دلیل
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر۔
بدائع الفوائد 3/91:قال ابن القيم: واختلف في موضع الوضع فعنه (أي: عن الإمام أحمد) : فوق السرة، وعنه تحتها، وعنه أبو طالب: سألت أحمد بن حنبل: أين يضع يده إذا كان يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل، كل ذلك واسع عنده إن وضع فوق السرة أو عليها أو تحتها.
امام النووی نے یہ کہاں کہا ہے؟سینہ پر ہاتھ باندھنے کی جتنی بھی احادیث پیش کی جاتی ہیں ان کا جواب علامہ نووی رحمۃ اللہ نے اس طرح دے دیا؛
صحيح مسلم (1 / 301):بَابُ وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ، وَوَضْعِهِمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات نہ کسی محدث نے کی اور نہ ہی کسی فقیہ نے۔
مسنون طریقہ پر ہاتھ باندھنے سے نماز سے متعلق تمام مسائل پر عمل با آسانی ہو جاتا ہے۔
بعض علماء نے تصریح کی ہے کہ جن احادیث میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات ہے اس سے مراد ہاتھ چھوڑنے کا رد ہے یعنی سسمنے کی طرف ہاتھ باندھنا۔ واللہ اعلم