- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
بعض مساجد میں نمازوں کا ثواب :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین مساجد مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ کے لیے سفر اختیار نہ کرو۔‘‘
(بخاری: باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ: ۹۸۱۱، مسلم: ۷۹۳۱.)
خانہ کعبہ (مسجد الحرام) میں ایک نماز دوسری مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی فضل الصلاۃ فی المسجد الحرام: ۶۰۴۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مسجد نبوی میں ایک نماز دوسری مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے، سوائے خانہ کعبہ کے۔"
(بخاری:۰۹۱۱ ومسلم، الحج، باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکۃ والمدینۃ ۴۹۳۱.)
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے گھر میں وضو کیا پھر مسجد قبا گیا اور وہاں نماز پڑھی اس کو عمرہ کے برابر اجر ملے گا۔‘‘
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قباء: ۲۱۴۱.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن کو مسجد قبا میں پیدل یا سوار ہو کر جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے۔
(بخاری: ۴۹۱۱، مسلم: ۰۲۵۔(۹۹۳۱).)
فضیلۃالشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب حرم نمازیوں سے بھر جائے اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں اور جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ بازار میں نماز ادا کریں تو ان بازار میں نماز ادا کرنے والوں کے لیے بھی امید ہے کہ انہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا حرم کے اندر نماز ادا کر نے والوں کو، کیونکہ انہوں نے حسب استطاعت عمل کیا ہے اور اس عبادت کے ادا کر نے میں اہل مسجد کے ساتھ شریک ہوئے ہیں ۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، ص۰۴.)
خانہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز ادا کرنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا اسامہ بن زید، سیدنا بلال اور سیّدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جب انہوں نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں داخل ہوا سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے میں نے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی تو انہوں نے جواب دیا ہاں ان دو یمانی ستونوں کے درمیان۔
(ابو داود، الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل المشی الی الصلاۃ، ۸۵۵۔ اس کی سند حسن ہے۔)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین مساجد مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ کے لیے سفر اختیار نہ کرو۔‘‘
(بخاری: باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ: ۹۸۱۱، مسلم: ۷۹۳۱.)
خانہ کعبہ (مسجد الحرام) میں ایک نماز دوسری مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی فضل الصلاۃ فی المسجد الحرام: ۶۰۴۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مسجد نبوی میں ایک نماز دوسری مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے، سوائے خانہ کعبہ کے۔"
(بخاری:۰۹۱۱ ومسلم، الحج، باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکۃ والمدینۃ ۴۹۳۱.)
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے گھر میں وضو کیا پھر مسجد قبا گیا اور وہاں نماز پڑھی اس کو عمرہ کے برابر اجر ملے گا۔‘‘
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قباء: ۲۱۴۱.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن کو مسجد قبا میں پیدل یا سوار ہو کر جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے۔
(بخاری: ۴۹۱۱، مسلم: ۰۲۵۔(۹۹۳۱).)
فضیلۃالشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب حرم نمازیوں سے بھر جائے اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں اور جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ بازار میں نماز ادا کریں تو ان بازار میں نماز ادا کرنے والوں کے لیے بھی امید ہے کہ انہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا حرم کے اندر نماز ادا کر نے والوں کو، کیونکہ انہوں نے حسب استطاعت عمل کیا ہے اور اس عبادت کے ادا کر نے میں اہل مسجد کے ساتھ شریک ہوئے ہیں ۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، ص۰۴.)
خانہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز ادا کرنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا اسامہ بن زید، سیدنا بلال اور سیّدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جب انہوں نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں داخل ہوا سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے میں نے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی تو انہوں نے جواب دیا ہاں ان دو یمانی ستونوں کے درمیان۔
(ابو داود، الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل المشی الی الصلاۃ، ۸۵۵۔ اس کی سند حسن ہے۔)