- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
طاقت سے بڑھ کر مشقت کی ممانعت:
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایک ماہ میں ایک بار قرآن پاک ختم کر لیا کرو، انہوں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ تلاوت کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
"تو بیس دن میں ختم کر لیا کرو"۔ انہوں نے کہا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو دس دن میں ختم کر لیا کرو‘‘۔ انہوں نے کہا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سات دن میں ختم کر لیا کرو۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ کیونکہ تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔ تمہارے ملاقاتیوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارے بدن کا تم پر حق ہے۔ اور شاید تمہاری عمر زیادہ ہو (اور تم یہ کام بڑھاپے میں نہ کر سکو)"
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہوئے تو آرزو کرتے تھے کہ
"کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔"
(بخاری: فضائل قرآن، باب في کم یقرا القرآن ۴۵۰۵. مسلم، الصیام، باب النھی عن صوم الدھر۔۔۔ ۹۵۱۱)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پاک تین دن میں ختم کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:
’’قرآن پاک سے اس شخص کو کچھ سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی جو تین دن سے کم مدت میں قرآن پاک ختم کرتا ہے۔‘‘
(ترمذی، القراء ات، ۹۴۹۲، وسنن ابی داود، شہر رمضان، باب: فی کم یقرا القرآن؟ ۰۹۳۱۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی رسی دیکھی تو پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے وہ (رات کو نفل) نماز پڑھتی رہتی ہیں پھر جب سست ہو جاتی ہیں یا تھک جاتی ہیں تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس کو کھول ڈالو ہر شخص اپنی خوشی کے موافق نماز پڑھے پھر جب سست ہو جائے یا تھک جائے تو آرام کرے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب امر من نفس في صلاتہ: ۴۸۷)
اس سے معلوم ہوا کہ جائز لذتوں سے کنارہ کشی اور جسمانی تکالیف پر مشتمل صوفیانہ ریاضتوں اور مجاہدات کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، (ع،ر)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رات کے نوافل میں دو سو آیات تلاوت کرتا ہے وہ اطاعت گزار مخلص لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ :۳۴۱۱، اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعائیں:
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ فرماتے ہیں کہ آپ تمام رات بیدار رہے اور نوافل ادا کرتے رہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی۔ جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آج رات جس طرح آپ نے نوافل پڑھے اس سے پہلے میں نے کبھی آپ کو اس طرح نماز ادا کرتے نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ’’تم نے درست کہا۔ نماز ایسی عبادت ہے جس میں اللہ کے ساتھ اشتیاق بڑھایا جاتا ہے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگی جاتی ہے، چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین سوال کئے جن میں سے دو قبول ہوئے۔ ایک سوال یہ کہ اللہ میری امت کو سابقہ امتوں کی طرح برباد نہ کرے اس کو اللہ نے قبول فرمایا۔ دوسرا سوال یہ کہ میری (ساری) امت پر (بیک وقت) دشمنوں کو غلبہ حاصل نہ ہو، یہ بھی قبول کر لیا گیا۔ پھر میں نے سوال کیا کہ امت محمدیہ میں اختلاف رونما نہ ہو، لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا۔‘‘
(ترمذی، الفتن، باب ما جاء فی سوال النبی ثلاثا فی أمتہ ۵۷۱۲، ابن حبان امام ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا۔)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایک ماہ میں ایک بار قرآن پاک ختم کر لیا کرو، انہوں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ تلاوت کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
"تو بیس دن میں ختم کر لیا کرو"۔ انہوں نے کہا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو دس دن میں ختم کر لیا کرو‘‘۔ انہوں نے کہا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سات دن میں ختم کر لیا کرو۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ کیونکہ تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔ تمہارے ملاقاتیوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارے بدن کا تم پر حق ہے۔ اور شاید تمہاری عمر زیادہ ہو (اور تم یہ کام بڑھاپے میں نہ کر سکو)"
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہوئے تو آرزو کرتے تھے کہ
"کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔"
(بخاری: فضائل قرآن، باب في کم یقرا القرآن ۴۵۰۵. مسلم، الصیام، باب النھی عن صوم الدھر۔۔۔ ۹۵۱۱)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پاک تین دن میں ختم کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:
’’قرآن پاک سے اس شخص کو کچھ سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی جو تین دن سے کم مدت میں قرآن پاک ختم کرتا ہے۔‘‘
(ترمذی، القراء ات، ۹۴۹۲، وسنن ابی داود، شہر رمضان، باب: فی کم یقرا القرآن؟ ۰۹۳۱۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی رسی دیکھی تو پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے وہ (رات کو نفل) نماز پڑھتی رہتی ہیں پھر جب سست ہو جاتی ہیں یا تھک جاتی ہیں تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس کو کھول ڈالو ہر شخص اپنی خوشی کے موافق نماز پڑھے پھر جب سست ہو جائے یا تھک جائے تو آرام کرے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب امر من نفس في صلاتہ: ۴۸۷)
اس سے معلوم ہوا کہ جائز لذتوں سے کنارہ کشی اور جسمانی تکالیف پر مشتمل صوفیانہ ریاضتوں اور مجاہدات کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، (ع،ر)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رات کے نوافل میں دو سو آیات تلاوت کرتا ہے وہ اطاعت گزار مخلص لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ :۳۴۱۱، اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعائیں:
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ فرماتے ہیں کہ آپ تمام رات بیدار رہے اور نوافل ادا کرتے رہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی۔ جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آج رات جس طرح آپ نے نوافل پڑھے اس سے پہلے میں نے کبھی آپ کو اس طرح نماز ادا کرتے نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ’’تم نے درست کہا۔ نماز ایسی عبادت ہے جس میں اللہ کے ساتھ اشتیاق بڑھایا جاتا ہے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگی جاتی ہے، چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین سوال کئے جن میں سے دو قبول ہوئے۔ ایک سوال یہ کہ اللہ میری امت کو سابقہ امتوں کی طرح برباد نہ کرے اس کو اللہ نے قبول فرمایا۔ دوسرا سوال یہ کہ میری (ساری) امت پر (بیک وقت) دشمنوں کو غلبہ حاصل نہ ہو، یہ بھی قبول کر لیا گیا۔ پھر میں نے سوال کیا کہ امت محمدیہ میں اختلاف رونما نہ ہو، لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا۔‘‘
(ترمذی، الفتن، باب ما جاء فی سوال النبی ثلاثا فی أمتہ ۵۷۱۲، ابن حبان امام ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا۔)