جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ قرآن حدیث کی تشریح وہی قابل قبول ہے جو سلف صالحین سے منقول ہے اپنی طرف سے تشریح کر کے نئے عقیدے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ۔
تبصرہ : - قرآن کی تشریح کہاں سے ملے گی ؟؟؟
آئیے جواب الله کے فرمان سے لیتے ہیں :
الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ
پھر ہمارے ہی ذمے ہے بیان کر دینا اس (کے معانی و مطالب) کو
(ألقيامة – ١٩ )
قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق یہ بہت اہم وضاحت ہے ۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ عملی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن حسب ضرورت خود ہی اپنے احکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ جیسے سورۃ النساء میں دو احکام کے بارے میں آیا ہے- الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
{
یَسْتَفْتُوْنَکَ… (آیت ١٢٧ اور آیت ١٧٦) کہ اے نبی ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ تم سے فلاں مسئلے کی وضاحت چاہتے ہیں....}
اس کے علاوہ ایک اورواضح مثال دیکھیے-
الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ
اے وہ لوگو جوایمان لائے ہو فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے جیسا کہ فرض کیے گئے ان لوگوں پر جوتم سے پہلے (تھے)تاکہ تم بچ جاؤ ( گناہوں سے)۔ (یہ روزے) چند دن ہیں گنتی کے-
(البقرہ -183،184)
دوسری آیت میں الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
رمضان کا مہینہ وہ ہے جو نازل کیا گیا ہے اس میں قرآن(جو) ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور روشن دلائل ہیں ہدایت کے اور (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کے پس جو موجود ہو (گھر میں)تم میں سے کوئی (اس ) مہینے میں تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اس(مہینے)کے اورجوبیمار ہویاسفر پر ہو توگنتی پوری کرے دوسرے دنوں سے چاہتاہے اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا اور وہ نہیں چاہتا تمہارے ساتھ سختی کرنا اورتاکہ تم پوراکرلو گنتی (تعداد) کو اورتاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس (احسان) پرجو اس نے ہدایت دی تم کو اور اس لیے بھی تاکہ تم شکر اداکرو۔
(البقرہ – 185)
مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں الله تعالٰی نے روزوں کے ایام کی وضاحت نہیں فرمائی کہ کتنے ہیں اور کس مہینہ میں ہیں –دوسری آیت میں الله تعالٰی نے اس کی وضاحت فرما دی کہ روزوں کہ ایام ایک مہینہ کے ہیں اور وہ مہینہ رمضان کا ہے –
یہ دونوں آیات اس بات کی واضح مثال ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید میں موجود ہے۔
چنانچہ قرآنی احکام کی تبیین و تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبانِ رسالت سے بھی کرایا ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے
الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ
اور ہم نے نازل کیا آپ کی طرف الذکر تاکہ آپ واضح کردیں لوگوں کے لیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے ان کی جانب اور تاکہ وہ غور و فکر کریں
(النحل – 44 )
منددرجه بالا آیت سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی تشریح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کرتے ہیں لیکن وہ اپنی طرف سے نہیں کرتے بلکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے –
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو تشریح فرمائی وہ احادیث میں محفوظ ہے۔
اس لئے جناب آپ اپنے اعمال کی دلیل صرف قرآن اور احادیث نبوی سے دیں۔آپ ہی کے الفاظ میں کہتے ہیں کہ :
اپنی طرف سے تشریح کر کے نئے عقیدے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ۔