محمد افضل رضوی
رکن
- شمولیت
- جنوری 13، 2017
- پیغامات
- 51
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 63
معذرت جناب اتنا وقت نہیں ہے کہ پہلے آپ کو سمجھاؤں کہ بات کیا چل رہی ‘ آپ کو جواب کیا دینا جبکہ آپ جواب کیا دے رہے ہیں۔یہ امام کے عقائد پر کتاب ہے اور اس میں یہ اس کی وضاحت کے لے پیش کیا اور چونکہ اپ احناف سی تعلق رکھتے ہے اس لئے اپ کو شرح عقیدہ طحاویہ کی عبارت بھی پیش کی تھی دبارہ دیکھ لیں
18745 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
18746 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس میں صاف موجود ہے کہ چاروں ائمہ میں سے کسی کا عقیدہ بجاہ وسیلہ کا نہیں تھا اس سے بھی اوپر قول کی تائید ہوتی ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا دعا سے وسیلہ سے یہی مراد ہے کہ
والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته
بہتر ہوگا کہ آپ پہلے اپنے کسی سنئیر دوست سے ساری اس گفتگو کو سمجھ لیں پھر یہاں بات کریں ورنہ ابن داؤد صاحب کو ہی بات کرنے دیں۔
پوری عبارت پیش کرتا ہوں پڑھ لیں اس میں توسل بذات کا کہیں ذکر نہیں ہیں جو اپ سمجھتے ہیں
الإمام أحمد : المروذي يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه وجزم به في المستوعب وغيره ، وجعله الشيخ تقي الدين كمسألة اليمين به قال : والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته ، ونحوه مما هو من فعله أو أفعال العباد المأمور بها في حقه : مشروع إجماعا ، وهو من الوسيلة المأمور بها في قوله تعالى { اتقوا الله وابتغوا إليه الوسيلة }
يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.
یہاں توسل بذات کا ذکر ہے کہ نہیں۔۔؟؟
جہاں تک اگلی عبارت آپ پیش کررہے تو وہ امام احمد کا نہیں امام تقي الدين کا قول ہے۔
الإمام أحمد : المروذي يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه وجزم به في المستوعب وغيره ، وجعله الشيخ تقي الدين كمسألة اليمين به قال : والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته
آئمہ احناف نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔۔
جسکا جواب اوپرمحدث شاہ عبدالعزیز سے دیا ہے شاید جناب نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔
یہ بات جناب کو پتہ نہیں کہاں سے سمجھ آگئی۔۔محدث شاہ عبدالعزیز تفسیر عزیزی میں
سورة البقرہ میں آیت
وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ
کے تحت لکھتے ہیں۔
فقہاء کرام نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔اس کے بعد شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں۔
کہ معتزلہ کے مذہب میں بندہ کا عمل بندہ کی پیداوار ہے۔الله تعالی نے اس کے عمل کا اجر مقرر کیا ہے۔یہ اجر بندے کا حق ہے،ایسا حق کہ جو حقیقی ہے۔
یہ مذہب معتزلیوں کا ہے لہذا فقہاء کرام نے اس کے استعمال سے منع کیا۔
تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب کا عکس۔۔
18742 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
18743 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
18744 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
"اس میں صاف موجود ہے کہ چاروں ائمہ میں سے کسی کا عقیدہ بجاہ وسیلہ کا نہیں تھا"