- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
احناف اور اہلحدیث کے مابین نماز سے متعلق متعدد اختلافی مسائل میں اوقات نماز بھی ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے۔ خصوصیت سے نماز فجر اور نماز عصر کے اوقات میں تو سنگین اختلاف ہے۔ یہ دونوں نمازیں اہلحدیث کے ہاں بہت پہلے اول وقت میں ادا کی جاتی ہیں ، جبکہ احناف انہیں تاخیر سے ادا کرتے ہیں۔ نماز کے موضوع پر کوئی سی کتاب اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس اختلاف کا تذکرہ مل جائے گا۔
فی الحال، مجھے نماز فجر کے تعلق سے کچھ گفتگو کرنی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں اول وقت میں نماز پڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ ہر نماز کو اول وقت میں ہی پڑھنا بہتر ہے، الا یہ کہ کسی نماز کا استثناء ثابت ہو جائے، جیسے کہ نماز عشاء۔ اسی طرح بطور خاص نماز فجر کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے:
"کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی۔۔۔۔۔۔والصبح بغلس" [صحیح بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر 560 و عام کتب حدیث]
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف نمازوں کو فلاں فلاں وقت میں پڑھا کرتے تھے اور فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔
جبکہ احناف کا موقف مفتی جمیل احمد نذیری صاحب کی زبانی یہ ہے:
یہاں تک تو یہ بات دلائل کی ہے۔ اور نماز کے دیگر مسائل کی طرح دلائل کے میدان میں احناف کا عمومی وطیرہ یہ ہے کہ یا تو افضل و غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے، یا پھر وہ بھی ٹھیک اور یہ بھی درست کا آزمودہ فلسفہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں اس مسئلے پر اپنے کچھ ذاتی مشاہدات کی روشنی میں ایک اور جہت سے گفتگو کرنی ہے۔
میرے ایک بچپن کے دوست ہیں۔ جن سے پہلے کافی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ اب بیوی بچوں کی مصروفیات میں اور خصوصاً جاب کی ٹائمنگ مختلف ہونے کی وجہ سے پورا سال ملاقات ہی نہیں ہو پاتی، سوائے رمضان کے۔ رمضان میں اکثر ہم ایک دوسرے کو فجر میں اور بعض اوقات مغرب کی نمازوں کو جاتے ہوئے راستہ میں قطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اور اکثر راہ میں دعا سلام ہو جاتی ہے۔ وہ عام سے دیوبندی ہیں (اور میری رائے میں دیوبندی علماء اور اہل علم دیوبندی عوام کی نسبت عام جاہل دیوبندی، عقائد کے معاملے میں بہت سی گمراہیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم) اب کل سے عید کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور غالباً اگلے سال ماہ رمضان تک ، اگر زندگی رہی اور مشیت ایزدی شامل رہی، تو ہی ملاقات ہوگی۔ اس واقعہ کی روشنی میں تھوڑی جستجو کی تو درج ذیل معلومات حاصل ہوئیں:
20 جولائی، 2012۔ (ماہ رمضان شروع ہونے سے ایک روز قبل ) : کراچی میں حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت تھا: 05:20 منٹ۔ اس وقت میں کراچی کے طول و عرض کی بنیاد پر پانچ منٹ کی کمی بیشی ممکن ہے۔ یہ اوقات ہمارے محلے کے دارالعلوم جامعہ عثمانیہ کے ہیں۔ گویا اسفار کی حدیث کی روشنی میں نماز فجر خوب اجالا کر کے مستحب اور افضل وقت میں ادا کی جا رہی تھی۔
21 جولائی، 2012۔ (پہلا روزہ): اور حنفی مساجد میں نمازفجر کا وقت اچانک ہی 04:50 منٹ کر دیا گیا۔ یعنی "اجر کے اعتبار سے بڑھے ہوئے اوقات" کو بھلا دیا گیا۔ بالکل یہی وقت اہلحدیث کی مساجد میں رمضان شروع ہونے سے قبل چل رہا تھا اور رمضان شروع ہوتے ہی، سارے اختلافات الحمدللہ ختم ہو گئے اور امت کے دو گروہوں میں ایک اہم مسئلہ پر اتفاق ہو گیا۔
19 اگست، 2012: (تیسواں روزہ): حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت: 05:05 منٹ۔ اور بالکل یہی وقت اہلحدیث مساجد میں بھی تھا۔
20 اگست، 2012: (عید الفطر): حنفی مساجد میں نماز کا وقت: 05:30 منٹ۔ اہلحدیث مساجد: 05:05 منٹ۔ اور اب میں اپنے دوست سے ملاقات کے لئے اگلے سال ماہ رمضان میں فجر کے اوقات میں ملاقات کا منتظر ہوں۔۔۔!
اب اس سارے سلسلے کو دیکھتے ہوئے چند سوالات ہیں جو مجھ جیسے ایکس دیوبندی، عامی کے ذہن میں آتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی ان کے جوابات ڈھونڈ دیں، تو ایک ذہنی خلش دور ہو جائے گی۔
1۔ اگر فجر کی نماز کو خوب اجالے میں پڑھنا ہی مستحب اور افضل ہے تو رمضان میں، غیر افضل اوقات میں نماز فجر کیوں ادا کی جاتی ہے؟
2۔ کیا رمضان و غیر رمضان میں اوقات فجر کی تبدیلی، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے ثابت ہے؟
3۔ مناظرانہ طرز پر، یا احادیث سے حنفی نماز کو مستند ثابت کرنے کے لئے لکھی جانے والی کتب میں غلس میں نماز فجر پڑھنے والوں کی تردید میں جو صفحات کے صفحات کالے کئے جاتے ہیں، خود اسی پر رمضان کے مبارک اوقات میں عمل کرنا، کیا خودبخود یہ ثابت نہیں کرتا، کہ حنفی مسلک کا دفاع ہی اصل ترجیح ہے نا کہ افضل وقت کی تحقیق۔
4۔ تقلید شخصی کی تائید میں ایک عجیب بودی سی دلیل یہ بھی کئی کتب میں مطالعہ کرنے کو ملی کہ اگر تقلید کو غیر معین رہنے دیا جائے، تو ہر شخص اپنی مرضی کے فتاویٰ پر عمل کرتا رہے گا، جہاں سہولت ملی اسی کا مسلک اختیار کر لیا۔ اور اہلحدیث کو بھی اسی خود ساختہ الزام کے تحت مطعون کیا جاتا ہے کہ سہل مسائل کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر یہی اعتراض کریں کہ سارا سال چونکہ نماز فجر کے لئے جلدی اٹھنا مشکل ہے، اسی لئے اسے حتی الامکان آخر وقت پر ادا کیا جاتا ہے اور چونکہ رمضان میں سحری کے بعد زیادہ دیر تک جاگتے رہنا مشکل ہے، اسی لئے اسے اول وقت میں ادا کر کے فراغت حاصل کی جاتی ہے، تو معلوم نہیں اس کا کیا جواب ہوگا؟
اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ ہمیں بلاتعصب حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ اور کتاب و سنت کو اپنے تابع بنانے کے لئے باطل تاویلات کے بجائے، ماانزل اللہ کی وسعت قلب کے ساتھ اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
احناف اور اہلحدیث کے مابین نماز سے متعلق متعدد اختلافی مسائل میں اوقات نماز بھی ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے۔ خصوصیت سے نماز فجر اور نماز عصر کے اوقات میں تو سنگین اختلاف ہے۔ یہ دونوں نمازیں اہلحدیث کے ہاں بہت پہلے اول وقت میں ادا کی جاتی ہیں ، جبکہ احناف انہیں تاخیر سے ادا کرتے ہیں۔ نماز کے موضوع پر کوئی سی کتاب اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس اختلاف کا تذکرہ مل جائے گا۔
فی الحال، مجھے نماز فجر کے تعلق سے کچھ گفتگو کرنی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں اول وقت میں نماز پڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ ہر نماز کو اول وقت میں ہی پڑھنا بہتر ہے، الا یہ کہ کسی نماز کا استثناء ثابت ہو جائے، جیسے کہ نماز عشاء۔ اسی طرح بطور خاص نماز فجر کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے:
"کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی۔۔۔۔۔۔والصبح بغلس" [صحیح بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر 560 و عام کتب حدیث]
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف نمازوں کو فلاں فلاں وقت میں پڑھا کرتے تھے اور فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔
جبکہ احناف کا موقف مفتی جمیل احمد نذیری صاحب کی زبانی یہ ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کو غلس میں پڑھنے کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کا یہی معمول رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ شریعت کی نظر میں اول وقت میں نماز فجر پڑھنی افضل ہے اور اسفار کی فضیلت والی جن روایات کا ذکر مفتی جمیل احمد نذیری صاحب نے کیا ہے ان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ صبح صادق باقاعدہ واضح و ظاہر ہو جانے پر ہی نماز فجر پڑھو، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خوب تاخیر کر کے نماز فجر پڑھو۔"اب ان اوقات کو بیان کیا جا رہا ہے جن میں نماز پنجگانہ کو ادا کرنا مستحب اور افضل ہے۔ نماز فجر کا مستحب وقت یہ ہے کہ اسفار کر کے نماز پڑھی جائے یعنی ایسے وقت میں شروع ہو کہ روشنی خوب پھیل جائے لیکن اتنا وقت ضرور رہے کہ اگر خدانخواستہ نماز کو دہرانا پڑے تو طلوع آفتاب سے پہلے اسے مستحب طریقہ پر دہرایا جا سکے۔ رافع بن خدیج سے یہ حدیث نبوی مروی ہے کہ فجر میں خوب اجالا کرو اس لئے کہ وہ اجر کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے۔ [رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز صفحہ 58]
یہاں تک تو یہ بات دلائل کی ہے۔ اور نماز کے دیگر مسائل کی طرح دلائل کے میدان میں احناف کا عمومی وطیرہ یہ ہے کہ یا تو افضل و غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے، یا پھر وہ بھی ٹھیک اور یہ بھی درست کا آزمودہ فلسفہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں اس مسئلے پر اپنے کچھ ذاتی مشاہدات کی روشنی میں ایک اور جہت سے گفتگو کرنی ہے۔
میرے ایک بچپن کے دوست ہیں۔ جن سے پہلے کافی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ اب بیوی بچوں کی مصروفیات میں اور خصوصاً جاب کی ٹائمنگ مختلف ہونے کی وجہ سے پورا سال ملاقات ہی نہیں ہو پاتی، سوائے رمضان کے۔ رمضان میں اکثر ہم ایک دوسرے کو فجر میں اور بعض اوقات مغرب کی نمازوں کو جاتے ہوئے راستہ میں قطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اور اکثر راہ میں دعا سلام ہو جاتی ہے۔ وہ عام سے دیوبندی ہیں (اور میری رائے میں دیوبندی علماء اور اہل علم دیوبندی عوام کی نسبت عام جاہل دیوبندی، عقائد کے معاملے میں بہت سی گمراہیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم) اب کل سے عید کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور غالباً اگلے سال ماہ رمضان تک ، اگر زندگی رہی اور مشیت ایزدی شامل رہی، تو ہی ملاقات ہوگی۔ اس واقعہ کی روشنی میں تھوڑی جستجو کی تو درج ذیل معلومات حاصل ہوئیں:
20 جولائی، 2012۔ (ماہ رمضان شروع ہونے سے ایک روز قبل ) : کراچی میں حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت تھا: 05:20 منٹ۔ اس وقت میں کراچی کے طول و عرض کی بنیاد پر پانچ منٹ کی کمی بیشی ممکن ہے۔ یہ اوقات ہمارے محلے کے دارالعلوم جامعہ عثمانیہ کے ہیں۔ گویا اسفار کی حدیث کی روشنی میں نماز فجر خوب اجالا کر کے مستحب اور افضل وقت میں ادا کی جا رہی تھی۔
21 جولائی، 2012۔ (پہلا روزہ): اور حنفی مساجد میں نمازفجر کا وقت اچانک ہی 04:50 منٹ کر دیا گیا۔ یعنی "اجر کے اعتبار سے بڑھے ہوئے اوقات" کو بھلا دیا گیا۔ بالکل یہی وقت اہلحدیث کی مساجد میں رمضان شروع ہونے سے قبل چل رہا تھا اور رمضان شروع ہوتے ہی، سارے اختلافات الحمدللہ ختم ہو گئے اور امت کے دو گروہوں میں ایک اہم مسئلہ پر اتفاق ہو گیا۔
19 اگست، 2012: (تیسواں روزہ): حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت: 05:05 منٹ۔ اور بالکل یہی وقت اہلحدیث مساجد میں بھی تھا۔
20 اگست، 2012: (عید الفطر): حنفی مساجد میں نماز کا وقت: 05:30 منٹ۔ اہلحدیث مساجد: 05:05 منٹ۔ اور اب میں اپنے دوست سے ملاقات کے لئے اگلے سال ماہ رمضان میں فجر کے اوقات میں ملاقات کا منتظر ہوں۔۔۔!
اب اس سارے سلسلے کو دیکھتے ہوئے چند سوالات ہیں جو مجھ جیسے ایکس دیوبندی، عامی کے ذہن میں آتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی ان کے جوابات ڈھونڈ دیں، تو ایک ذہنی خلش دور ہو جائے گی۔
1۔ اگر فجر کی نماز کو خوب اجالے میں پڑھنا ہی مستحب اور افضل ہے تو رمضان میں، غیر افضل اوقات میں نماز فجر کیوں ادا کی جاتی ہے؟
2۔ کیا رمضان و غیر رمضان میں اوقات فجر کی تبدیلی، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے ثابت ہے؟
3۔ مناظرانہ طرز پر، یا احادیث سے حنفی نماز کو مستند ثابت کرنے کے لئے لکھی جانے والی کتب میں غلس میں نماز فجر پڑھنے والوں کی تردید میں جو صفحات کے صفحات کالے کئے جاتے ہیں، خود اسی پر رمضان کے مبارک اوقات میں عمل کرنا، کیا خودبخود یہ ثابت نہیں کرتا، کہ حنفی مسلک کا دفاع ہی اصل ترجیح ہے نا کہ افضل وقت کی تحقیق۔
4۔ تقلید شخصی کی تائید میں ایک عجیب بودی سی دلیل یہ بھی کئی کتب میں مطالعہ کرنے کو ملی کہ اگر تقلید کو غیر معین رہنے دیا جائے، تو ہر شخص اپنی مرضی کے فتاویٰ پر عمل کرتا رہے گا، جہاں سہولت ملی اسی کا مسلک اختیار کر لیا۔ اور اہلحدیث کو بھی اسی خود ساختہ الزام کے تحت مطعون کیا جاتا ہے کہ سہل مسائل کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر یہی اعتراض کریں کہ سارا سال چونکہ نماز فجر کے لئے جلدی اٹھنا مشکل ہے، اسی لئے اسے حتی الامکان آخر وقت پر ادا کیا جاتا ہے اور چونکہ رمضان میں سحری کے بعد زیادہ دیر تک جاگتے رہنا مشکل ہے، اسی لئے اسے اول وقت میں ادا کر کے فراغت حاصل کی جاتی ہے، تو معلوم نہیں اس کا کیا جواب ہوگا؟
اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ ہمیں بلاتعصب حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ اور کتاب و سنت کو اپنے تابع بنانے کے لئے باطل تاویلات کے بجائے، ماانزل اللہ کی وسعت قلب کے ساتھ اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔