• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت نماز فجر، احناف اور رمضان

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
احناف اور اہلحدیث کے مابین نماز سے متعلق متعدد اختلافی مسائل میں اوقات نماز بھی ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے۔ خصوصیت سے نماز فجر اور نماز عصر کے اوقات میں تو سنگین اختلاف ہے۔ یہ دونوں نمازیں اہلحدیث کے ہاں بہت پہلے اول وقت میں ادا کی جاتی ہیں ، جبکہ احناف انہیں تاخیر سے ادا کرتے ہیں۔ نماز کے موضوع پر کوئی سی کتاب اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس اختلاف کا تذکرہ مل جائے گا۔

فی الحال، مجھے نماز فجر کے تعلق سے کچھ گفتگو کرنی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں اول وقت میں نماز پڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ ہر نماز کو اول وقت میں ہی پڑھنا بہتر ہے، الا یہ کہ کسی نماز کا استثناء ثابت ہو جائے، جیسے کہ نماز عشاء۔ اسی طرح بطور خاص نماز فجر کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے:

"کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی۔۔۔۔۔۔والصبح بغلس" [صحیح بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر 560 و عام کتب حدیث]
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف نمازوں کو فلاں فلاں وقت میں پڑھا کرتے تھے اور فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔

جبکہ احناف کا موقف مفتی جمیل احمد نذیری صاحب کی زبانی یہ ہے:
"اب ان اوقات کو بیان کیا جا رہا ہے جن میں نماز پنجگانہ کو ادا کرنا مستحب اور افضل ہے۔ نماز فجر کا مستحب وقت یہ ہے کہ اسفار کر کے نماز پڑھی جائے یعنی ایسے وقت میں شروع ہو کہ روشنی خوب پھیل جائے لیکن اتنا وقت ضرور رہے کہ اگر خدانخواستہ نماز کو دہرانا پڑے تو طلوع آفتاب سے پہلے اسے مستحب طریقہ پر دہرایا جا سکے۔ رافع بن خدیج سے یہ حدیث نبوی مروی ہے کہ فجر میں خوب اجالا کرو اس لئے کہ وہ اجر کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے۔ [رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز صفحہ 58]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کو غلس میں پڑھنے کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کا یہی معمول رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ شریعت کی نظر میں اول وقت میں نماز فجر پڑھنی افضل ہے اور اسفار کی فضیلت والی جن روایات کا ذکر مفتی جمیل احمد نذیری صاحب نے کیا ہے ان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ صبح صادق باقاعدہ واضح و ظاہر ہو جانے پر ہی نماز فجر پڑھو، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خوب تاخیر کر کے نماز فجر پڑھو۔

یہاں تک تو یہ بات دلائل کی ہے۔ اور نماز کے دیگر مسائل کی طرح دلائل کے میدان میں احناف کا عمومی وطیرہ یہ ہے کہ یا تو افضل و غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے، یا پھر وہ بھی ٹھیک اور یہ بھی درست کا آزمودہ فلسفہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں اس مسئلے پر اپنے کچھ ذاتی مشاہدات کی روشنی میں ایک اور جہت سے گفتگو کرنی ہے۔

میرے ایک بچپن کے دوست ہیں۔ جن سے پہلے کافی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ اب بیوی بچوں کی مصروفیات میں اور خصوصاً جاب کی ٹائمنگ مختلف ہونے کی وجہ سے پورا سال ملاقات ہی نہیں ہو پاتی، سوائے رمضان کے۔ رمضان میں اکثر ہم ایک دوسرے کو فجر میں اور بعض اوقات مغرب کی نمازوں کو جاتے ہوئے راستہ میں قطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اور اکثر راہ میں دعا سلام ہو جاتی ہے۔ وہ عام سے دیوبندی ہیں (اور میری رائے میں دیوبندی علماء اور اہل علم دیوبندی عوام کی نسبت عام جاہل دیوبندی، عقائد کے معاملے میں بہت سی گمراہیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم) اب کل سے عید کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور غالباً اگلے سال ماہ رمضان تک ، اگر زندگی رہی اور مشیت ایزدی شامل رہی، تو ہی ملاقات ہوگی۔ اس واقعہ کی روشنی میں تھوڑی جستجو کی تو درج ذیل معلومات حاصل ہوئیں:

20 جولائی، 2012۔ (ماہ رمضان شروع ہونے سے ایک روز قبل ) : کراچی میں حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت تھا: 05:20 منٹ۔ اس وقت میں کراچی کے طول و عرض کی بنیاد پر پانچ منٹ کی کمی بیشی ممکن ہے۔ یہ اوقات ہمارے محلے کے دارالعلوم جامعہ عثمانیہ کے ہیں۔ گویا اسفار کی حدیث کی روشنی میں نماز فجر خوب اجالا کر کے مستحب اور افضل وقت میں ادا کی جا رہی تھی۔

21 جولائی، 2012۔ (پہلا روزہ): اور حنفی مساجد میں نمازفجر کا وقت اچانک ہی 04:50 منٹ کر دیا گیا۔ یعنی "اجر کے اعتبار سے بڑھے ہوئے اوقات" کو بھلا دیا گیا۔ بالکل یہی وقت اہلحدیث کی مساجد میں رمضان شروع ہونے سے قبل چل رہا تھا اور رمضان شروع ہوتے ہی، سارے اختلافات الحمدللہ ختم ہو گئے اور امت کے دو گروہوں میں ایک اہم مسئلہ پر اتفاق ہو گیا۔

19 اگست، 2012: (تیسواں روزہ): حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت: 05:05 منٹ۔ اور بالکل یہی وقت اہلحدیث مساجد میں بھی تھا۔

20 اگست، 2012: (عید الفطر): حنفی مساجد میں نماز کا وقت: 05:30 منٹ۔ اہلحدیث مساجد: 05:05 منٹ۔ اور اب میں اپنے دوست سے ملاقات کے لئے اگلے سال ماہ رمضان میں فجر کے اوقات میں ملاقات کا منتظر ہوں۔۔۔!

اب اس سارے سلسلے کو دیکھتے ہوئے چند سوالات ہیں جو مجھ جیسے ایکس دیوبندی، عامی کے ذہن میں آتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی ان کے جوابات ڈھونڈ دیں، تو ایک ذہنی خلش دور ہو جائے گی۔

1۔ اگر فجر کی نماز کو خوب اجالے میں پڑھنا ہی مستحب اور افضل ہے تو رمضان میں، غیر افضل اوقات میں نماز فجر کیوں ادا کی جاتی ہے؟
2۔ کیا رمضان و غیر رمضان میں اوقات فجر کی تبدیلی، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے ثابت ہے؟
3۔ مناظرانہ طرز پر، یا احادیث سے حنفی نماز کو مستند ثابت کرنے کے لئے لکھی جانے والی کتب میں غلس میں نماز فجر پڑھنے والوں کی تردید میں جو صفحات کے صفحات کالے کئے جاتے ہیں، خود اسی پر رمضان کے مبارک اوقات میں عمل کرنا، کیا خودبخود یہ ثابت نہیں کرتا، کہ حنفی مسلک کا دفاع ہی اصل ترجیح ہے نا کہ افضل وقت کی تحقیق۔
4۔ تقلید شخصی کی تائید میں ایک عجیب بودی سی دلیل یہ بھی کئی کتب میں مطالعہ کرنے کو ملی کہ اگر تقلید کو غیر معین رہنے دیا جائے، تو ہر شخص اپنی مرضی کے فتاویٰ پر عمل کرتا رہے گا، جہاں سہولت ملی اسی کا مسلک اختیار کر لیا۔ اور اہلحدیث کو بھی اسی خود ساختہ الزام کے تحت مطعون کیا جاتا ہے کہ سہل مسائل کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر یہی اعتراض کریں کہ سارا سال چونکہ نماز فجر کے لئے جلدی اٹھنا مشکل ہے، اسی لئے اسے حتی الامکان آخر وقت پر ادا کیا جاتا ہے اور چونکہ رمضان میں سحری کے بعد زیادہ دیر تک جاگتے رہنا مشکل ہے، اسی لئے اسے اول وقت میں ادا کر کے فراغت حاصل کی جاتی ہے، تو معلوم نہیں اس کا کیا جواب ہوگا؟

اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ ہمیں بلاتعصب حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ اور کتاب و سنت کو اپنے تابع بنانے کے لئے باطل تاویلات کے بجائے، ماانزل اللہ کی وسعت قلب کے ساتھ اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
 
شمولیت
اگست 20، 2012
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
84
پوائنٹ
38
جزاک اللہ خیرا۔
بالکل درست۔ ہماری طرف کی احناف کی مساجد میں بھی رمضان و غیر رمضان میں نماز فجر مختلف اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ سوال تو بہت اچھا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
رمضان کی دوبارہ آمد کے ساتھ ہی یہ دھاگا پھر سے یاد آیا۔ ابھی تک جواب طلب ہے۔ جمشید اور تلمیذ برادران سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں اپنے مطالعہ کی روشنی میں کچھ بتائیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
1۔ اگر فجر کی نماز کو خوب اجالے میں پڑھنا ہی مستحب اور افضل ہے تو رمضان میں، غیر افضل اوقات میں نماز فجر کیوں ادا کی جاتی ہے؟
2۔ کیا رمضان و غیر رمضان میں اوقات فجر کی تبدیلی، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے ثابت ہے؟
3۔ مناظرانہ طرز پر، یا احادیث سے حنفی نماز کو مستند ثابت کرنے کے لئے لکھی جانے والی کتب میں غلس میں نماز فجر پڑھنے والوں کی تردید میں جو صفحات کے صفحات کالے کئے جاتے ہیں، خود اسی پر رمضان کے مبارک اوقات میں عمل کرنا، کیا خودبخود یہ ثابت نہیں کرتا، کہ حنفی مسلک کا دفاع ہی اصل ترجیح ہے نا کہ افضل وقت کی تحقیق۔
4۔ تقلید شخصی کی تائید میں ایک عجیب بودی سی دلیل یہ بھی کئی کتب میں مطالعہ کرنے کو ملی کہ اگر تقلید کو غیر معین رہنے دیا جائے، تو ہر شخص اپنی مرضی کے فتاویٰ پر عمل کرتا رہے گا، جہاں سہولت ملی اسی کا مسلک اختیار کر لیا۔ اور اہلحدیث کو بھی اسی خود ساختہ الزام کے تحت مطعون کیا جاتا ہے کہ سہل مسائل کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر یہی اعتراض کریں کہ سارا سال چونکہ نماز فجر کے لئے جلدی اٹھنا مشکل ہے، اسی لئے اسے حتی الامکان آخر وقت پر ادا کیا جاتا ہے اور چونکہ رمضان میں سحری کے بعد زیادہ دیر تک جاگتے رہنا مشکل ہے، اسی لئے اسے اول وقت میں ادا کر کے فراغت حاصل کی جاتی ہے، تو معلوم نہیں اس کا کیا جواب ہوگا؟

اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ ہمیں بلاتعصب حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ اور کتاب و سنت کو اپنے تابع بنانے کے لئے باطل تاویلات کے بجائے، ماانزل اللہ کی وسعت قلب کے ساتھ اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
غیر رمضان میں احناف جو فجر تاخیر سے پڑھتے ہیں وہ یہاں موضوع نہیں، یہاں موضوع ہے کہ احناف رمضان میں فجر اول وقت کیوں پڑھتے ہیں
مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمائيں
حدثنا مسلم بن إبراهيم ،‏‏‏‏ حدثنا هشام ،‏‏‏‏ حدثنا قتادة ،‏‏‏‏ عن أنس ،‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال تسحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلاة‏.‏ قلت كم كان بين الأذان والسحور قال قدر خمسين آية‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں ( پڑھنے ) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا
‏حدثنا ‏ ‏عمرو بن عاصم ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس بن مالك ‏ ‏أن ‏ ‏زيد بن ثابت ‏ ‏حدثه ‏‏أنهم تسحروا مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ثم قاموا إلى الصلاة قلت كم بينهما قال قدر خمسين أو ستين ‏ ‏يعني آية ‏

البخاري
‏أخبرنا ‏ ‏إسحق بن إبراهيم ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏وكيع ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏هشام ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن ثابت ‏ ‏قال ‏‏تسحرنا مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ثم قمنا إلى الصلاة قلت كم كان بينهما قال قدر ما يقرأ الرجل خمسين آية
‏ موطا مالک
‏أخبرنا ‏ ‏إسمعيل بن مسعود ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏هشام ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن ثابت ‏ ‏قال ‏‏تسحرنا مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ثم قمنا إلى الصلاة ‏ ‏قلت زعم أن ‏ ‏أنسا ‏ ‏القائل ما كان بين ذلك ‏ ‏قال قدر ما يقرأ الرجل خمسين آية ‏
موطا مالک
حدثنا ‏ ‏عبد الوهاب ‏ ‏حدثنا ‏ ‏سعيد ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس بن مالك ‏
‏أن نبي الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وزيد بن ثابت ‏ ‏تسحرا فلما فرغا من سحورهما قام رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إلى الصلاة فقلنا ‏ ‏لأنس ‏ ‏كم كان بين فراغهما من سحورهما ودخولهما في الصلاة قال قدر ما يقرأ ‏ ‏الرجل خمسين آية

مسند احمد
صرف پہلی حدیث کا ترجمہ کیا ہے باقی احادیث میں وہی مضمون منقول ہے
ان احادیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں سحری کا وقت ختم ہونے پر کتنی دیر میں فجر کی نماز ادا کی جاتی تھی اور یہی احناف کا موقف ہے ۔ باقی غیر رمضان میں فجر کے ٹائم کا مسئلہ ہمارا موضوع نہیں ۔ ویسے بھی غیر رمضان میں فجر کے ٹائم کے حوالہ سے احناف کی کتب دلائل سے بھری پڑی ہیں اور صاحب مضمون نے اس کا اقرار بھی کیا ہے
طوالت کے خوف سے مذید احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے آثار ذکر نہیں کر رہا ۔ جو حق کا متلاشی اس کے لئیے یہ احادیث بھی بہت ہیں اور جو بحث برائے بحث کرنا چاھتا ہے اس کو صرف سلام کہا جاسکتا ہے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
غیر رمضان میں احناف جو فجر تاخیر سے پڑھتے ہیں وہ یہاں موضوع نہیں، یہاں موضوع ہے کہ احناف رمضان میں فجر اول وقت کیوں پڑھتے ہیں
مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمائيں
حدثنا مسلم بن إبراهيم ،‏‏‏‏ حدثنا هشام ،‏‏‏‏ حدثنا قتادة ،‏‏‏‏ عن أنس ،‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال تسحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلاة‏.‏ قلت كم كان بين الأذان والسحور قال قدر خمسين آية‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں ( پڑھنے ) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا
‏حدثنا ‏ ‏عمرو بن عاصم ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس بن مالك ‏ ‏أن ‏ ‏زيد بن ثابت ‏ ‏حدثه ‏‏أنهم تسحروا مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ثم قاموا إلى الصلاة قلت كم بينهما قال قدر خمسين أو ستين ‏ ‏يعني آية ‏

البخاري
‏أخبرنا ‏ ‏إسحق بن إبراهيم ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏وكيع ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏هشام ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن ثابت ‏ ‏قال ‏‏تسحرنا مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ثم قمنا إلى الصلاة قلت كم كان بينهما قال قدر ما يقرأ الرجل خمسين آية
‏ موطا مالک
‏أخبرنا ‏ ‏إسمعيل بن مسعود ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏هشام ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن ثابت ‏ ‏قال ‏‏تسحرنا مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ثم قمنا إلى الصلاة ‏ ‏قلت زعم أن ‏ ‏أنسا ‏ ‏القائل ما كان بين ذلك ‏ ‏قال قدر ما يقرأ الرجل خمسين آية ‏
موطا مالک
حدثنا ‏ ‏عبد الوهاب ‏ ‏حدثنا ‏ ‏سعيد ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس بن مالك ‏
‏أن نبي الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وزيد بن ثابت ‏ ‏تسحرا فلما فرغا من سحورهما قام رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إلى الصلاة فقلنا ‏ ‏لأنس ‏ ‏كم كان بين فراغهما من سحورهما ودخولهما في الصلاة قال قدر ما يقرأ ‏ ‏الرجل خمسين آية

مسند احمد
صرف پہلی حدیث کا ترجمہ کیا ہے باقی احادیث میں وہی مضمون منقول ہے
ان احادیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں سحری کا وقت ختم ہونے پر کتنی دیر میں فجر کی نماز ادا کی جاتی تھی اور یہی احناف کا موقف ہے ۔ باقی غیر رمضان میں فجر کے ٹائم کا مسئلہ ہمارا موضوع نہیں ۔ ویسے بھی غیر رمضان میں فجر کے ٹائم کے حوالہ سے احناف کی کتب دلائل سے بھری پڑی ہیں اور صاحب مضمون نے اس کا اقرار بھی کیا ہے
طوالت کے خوف سے مذید احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے آثار ذکر نہیں کر رہا ۔ جو حق کا متلاشی اس کے لئیے یہ احادیث بھی بہت ہیں اور جو بحث برائے بحث کرنا چاھتا ہے اس کو صرف سلام کہا جاسکتا ہے ۔
ايك دو باتیں واضح کردیں!
1. پچاس آیتوں کیلئے آج کے دور کے مطابق تقریباً کتنے منٹس درکار ہوں گے؟؟؟
2. گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علمائے احناف کے ہاں رمضان اور غیر رمضان کے نمازِ فجر کے اوقات میں فرق ہے؟ اور أسفروا بالصبح والی احادیث ماہِ رمضان کیلئے نہیں ہیں؟؟؟
کیا یہ آپ کی ذاتی بات ہے یا آپ اسے امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، امام محمد یا دیگر علمائے احناف سے ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟
کیونکہ آپ سے ہمیں اکثر یہ اختلاف ہوتا ہے کہ آپ کسی مسئلے کی علمائے احناف کو چھوڑ کر ذاتی توجیہ کر دیتے ہیں (جیسے تقلید شخصی والے دھاگے میں آپ نے کیا۔)

3. کیا نبی کریمﷺ سحری صرف رمضان میں فرمایا کرتے تھے؟ غیر رمضان میں آپ بغیر سحری کے روزہ رکھ لیا کرتے تھے؟؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ايك دو باتیں واضح کردیں!
1. پچاس آیتوں کیلئے آج کے دور کے مطابق تقریباً کتنے منٹس درکار ہوں گے؟؟؟
یہ اب اجتھادی مسئلہ ہے ۔ ہماری مسجد میں تقریبا 15 منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے اور بعض حنفی مساجد میں 20 – 25 منٹ تک بھی وقفہ ہوتا ہے ۔ ان 50 آیات کے قرآت کو منٹوں میں تبدیل کرنا ایک اجتھادی مسئلہ جس میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ رمضان میں فجر اسفار کرکے نہیں پڑھی جاتی
2. گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علمائے احناف کے ہاں رمضان اور غیر رمضان کے نمازِ فجر کے اوقات میں فرق ہے؟ اور أسفروا بالصبح والی احادیث ماہِ رمضان کیلئے نہیں ہیں؟؟؟
کیا یہ آپ کی ذاتی بات ہے یا آپ اسے امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، امام محمد یا دیگر علمائے احناف سے ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟
کیونکہ آپ سے ہمیں اکثر یہ اختلاف ہوتا ہے کہ آپ کسی مسئلے کی علمائے احناف کو چھوڑ کر ذاتی توجیہ کر دیتے ہیں (جیسے تقلید شخصی والے دھاگے میں آپ نے کیا۔)
تقلید شخصی والی تھریڈ میں نہیں معلوم آپ کا اشارہ کس طرف ہے ، اس کے متعلق تو بات اسی تھریڈ میں مناسب رہے گي ، رمضان میں فجر کی نماز کے وقت کے سلسلے میں شرح معانی الآثار کا مطالعہ کرلیں خصوصا جہاں فجر کی نماز کے وقت متعلق بحث ہے ، آپ کو یہ بحث مل جائے گي

3. کیا نبی کریمﷺ سحری صرف رمضان میں فرمایا کرتے تھے؟ غیر رمضان میں آپ بغیر سحری کے روزہ رکھ لیا کرتے تھے؟؟
جو احادیث میں نے پیش کی ہیں ان میں میں اجتماعی سحری کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ سحری کھائي اور مل کر سحری رمضان میں ہی ہوتی ہے ۔ اگر آپ کےپاس اس سحری کی غیر رمضان میں ہونے کی دلیل ہے تو پیش کریں
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
3. کیا نبی کریمﷺ سحری صرف رمضان میں فرمایا کرتے تھے؟ غیر رمضان میں آپ بغیر سحری کے روزہ رکھ لیا کرتے تھے؟؟
جو احادیث میں نے پیش کی ہیں ان میں میں اجتماعی سحری کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ سحری کھائي اور مل کر سحری رمضان میں ہی ہوتی ہے ۔ اگر آپ کےپاس اس سحری کی غیر رمضان میں ہونے کی دلیل ہے تو پیش کریں
ابتسامہ
 
Top