عنوان کی تفہیم
پوری حدیث بمع روات و متن اور حوالہ؛
صحيح البخاري (1 / 128):
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدِ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا - أَوْ قَدِ اشْتَقْنَا - سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا، فَأَخْبَرْنَاهُ، قَالَ: «ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ، فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ - وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لاَ أَحْفَظُهَا - وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ»
خلاصہ حدیث
کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر دس دن رات ٹھہرے احکام سیکھنے کے لئے۔ جب واپس ہونے لگے توتب انہیں کہا کہ؛
تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو آذان دو اور تم میں سے بڑا امامت کرائے۔
اہم بات
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس جس نے نماز پڑھتے دیکھا اس نے اس کو بیان بھی کیاَ؟
یا
جنہوں نے بیان کیا صرف انہوں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھ اور کسی نے نہیں دیکھا؟
نتیجہ
صرف روات ہی حدیث سے واقف نہیں ہوتے بلکہ دوسرے افراد بھی واقف ہوتے ہیں مگر وہ چونکہ احادیث کی ورس تدریس میں نہیں لگے ہوتے اس لئے ان سے روایت بھی منقول نہیں ہوتی الا ماشاء اللہ۔ راویان حدیث کم و بیش وہی لوگ ہیں جنہوں نے اھادیث کی تعلیم و تعلم کا بیڑا اٹھایا۔
نماز کا پہلا عمل تکبیر تحریمہ۔ اس میں دونوں ہاتھ کانوں کے برابر تک اٹھائے جائیں گے عام حالات میں۔
نماز کا دوسرا عمل ہاتھ باندھے جائیں گے۔
ہاتھ باندھنے کا دیکھا ہؤا مسنون عمل یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھیں۔
تمام محدثین فقہاء کا یہی کہنا ہے کہ ہم نے ایسا ہی دیکھا ہے۔
علیٰ صدر سےسینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات پر کوئی معنوی لحاظ سے صریح حدیث موجود نہیں۔ جتنی بھی احادیث ہیں ان کا مفہوم یہی ہے کہہاتھ سامنے کی طرف باندھے جائیں۔
علیٰ صدرہ سے مراد سینہ نہیں اس کی وضاحت امام نووی رحمۃ اللہ نے صحیح مسلم کے باب میں یوں فرمادی؛
صحيح مسلم (1 / 301):
بَابُ وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ، وَوَضْعِهِمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
یعنی امام نووی رحمۃ اللہ کے فرمان سے پتہ چلتا ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی کسی حدیث سے وہ واقف نہیں۔ یعنی جو احادیث اس ضمنمیں پیش کی جارہی ہیں اس میں یہ مفہوم نہیں جو غیر مقلدین کشید کر رہے ہیں اور امت مسلمہ میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔