- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اہل الحدیث کا مؤقف کیا خاک سمجھ آئے!
ایسے لوگوں کے لیے ہی یہ صادق آتی ہے کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے!
مقلدین حنفیہ کو مبارک ہو! ان کے ہاں مجتہد مطلق پیدا ہو گیا ہے!میں نے دینی علم براہِ راست نصوص سے سیکھا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ پھر تو انہوں نے ایک نئی ''فرقی'' بنا لی ہے، کہ جس کے بانی بھی خود ہی ہیں اور تنہا ہی پیروکار!مجھ پر کسی دینی مدرسہ کی چھاپ نہیں۔
جو جس دینی مدرسہ سے پڑھتا ہے وہ اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے الا ماشاء اللہ۔
ایک طرف اپنا شمار مقلدین میں کرواتے ہیں، اور پھر تقلید کے برعکس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ!میں نے غیر مقلدوں کی دعوت کہ، جس امام کی بات صحیح ہو اس کی پیروی کرو، پر عمل پیرا ہوں
آنکھوں میں جہالت کا موتیا آیا ہوا ہو تو نظر کیا آئے!(یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ اب تک نماز کے مسائل میں مجھے حنفی مسلک حق پر ملا اور میں نے زیادہ تر اسی کے مسائل کی چھان پھٹک کی اور یہ چیز آپ کو میری تحریروں سے محسوس ہوگی کہ میری اکثر ابحاث نماز سے متعلق ہیں)۔
اس کا انکار تو حافظ زبیر علی زئی نے بھی نہیں کیا! لیکن جب انہیں حنفی ہوتے ہوئے فقہ حنفیہ کی خبر بھی نہیں ہوتی!نماز میں ہاتھ باندھنے کا ست طریقہ جو تمام صحیح احادیث سے ملتا ہے وہ یہی ہے کہ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو کلائی کے پاس سے پکڑیں گے۔ اتنی بات پر میراخیال ہے کہ کسی کو اختلاف نہیں سوائے زبیر علی زئی کے مقلدین غیر مقلدین کے (ابتسامہ)۔
اہل الحدیث کا مؤقف کیا خاک سمجھ آئے!
اور مقلدین حنفیہ سب سے اختلاف کرتے ہوئے ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں ، وہ بھی مردوں کے لئے! اور عورتوں کو سینہ پر ہاتھ باندھنے کا حکم دیتے ہیں!مقلدین اور غیر مقلدین کا اصل اختلاف سینہ پر اور سینہ سے نیچے کا ہے ناف سے اوپر نیچے کا نہیں۔
یہ خود کشید و خود فریب بات ہے!امت مسلمہ کا متواتر عمل (جیسا کہ محدثین اور فقہا کے بیانات سے عیاں ہے) سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے۔
علم الحدیث میں یتیم احادیث کی اسنادی حیثیت بتلائیں گے!اور متن کی کی نکارت کی بات کریں گے!سینہ پر ہاتھ بناندھنے کی جتنی احادیث پیش کی جاتی ہیں ان میں بھی یا تو روات کا ضعف ہے یا متن میں اضطراب۔
ایسے لوگوں کے لیے ہی یہ صادق آتی ہے کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے!
یہ تو ابو حنیفہ دوراں نے انکار حدیث کے لئے نئی اٹکل پچّو ماری ہے!میں نے جہاں تک غورو فکر کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’صدرہ‘‘ چونکہ سمت کے لئے (ظہرہ کا متضاد)بھی آتا ہے لہٰذا ان احادیث کو اس پر حمل کیا جائے کہ اس سے مراد سامنے کی طرف ہاتھ باندھنا ہے نہ کہ پیچھے کی طرف۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عام زندگی میں لوگ چلتے پھرتے ہوئے پیچھے ہاتھ باندھ لیتے ہیں خصوصاً سردی کے موسم میں۔
انہوں نے اپنے ہی بیان کردہ عمل متواتر کے دعوی کی خود نفی کردی، اور رہی بات امام شافعی کے اس مسئلہ میں رجوع کی، تو یہ دعوی بھی مردود ہے!خیر القرون کے کسی محدث یا فقیہ سے سینہ پر ہاتھ باندھنی کی روایت نہیں سوائے امام شافعی سے جس سے کہ انہوں نے خود ہی رجوع فرما لیا تھا۔