اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت سے ایسے موقع پر دستبرداری اور مصالحت کا اعلان کیوں کیا جس وقت اُن کے پاس جان نثار بھی موجود تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ جاری رکھنا بھی ممکن تھا اس کے برخلاف آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یرید کے خلاف اپنے چند اقارب کے ساتھ جنگ کو ترجیح دی جبکہ باعتبار وقت، آپ رضی اللہ عنہ کے لئے نرمی اور مصلحت اندیشی کا پہلو اختیار کرنا زیادہ مناست تھا۔۔۔
مذکور صورت حال اس نتیجے سے خالی نہیں کے دونوں سرداران جنت میں سے ایک حق پر تھے اور دوسرے غلطی پر، یعنی اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا لڑنے کی صلاحیت کے باوجود اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرنا برحق ہے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مصالحت کا امکان ہوتے ہوئے اور طاقت وقوت کے تہی دامن ہونے کی وجہ سے خروج کرنا باطل ہوگا۔۔۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کمزوری اور ناتوانی کے باوجود خروج کرنا برحق تھا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا قوت کے باوجود مصالحت اختیار کرنا اور اپنے حق خلافت سے دستبردار ہونا باطل ہوگا۔۔۔
اس سوال کا شیعہ رافضی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ یہ کہیں کے حضرات حسنین رضی اللہ عنہ دونوں ہی حق پر تھے تو انہوں نے اجتماع ضدین کا ارتکاب کیا۔۔۔
اور اگر وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تو ان کے قول سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی امامت کا بطلان لازم آتا ہے اور ان کی امامت کے باطل ہونے سے ان کے والد علی رضی اللہ کی امامت اور عصمت خودبخود باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں وصیت کی تھی اور شیعہ کے مطابق امام معصوم اپنے جیسے معصوم شخص کے لئے ہی وصیت کرسکتا ہے۔۔۔
اور اگر وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تب بھی ان کے لئے مفر نہیں ہے کیونکہ ان کے اس قول سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی امامت وعصمت پرزد پڑتی ہے اور ان کی امامت اور عصمت کے باطل قرار پانے سے ان کے تمام بیٹوں اور ساری اولاد کی امامت اور عصمت باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دم سے ہی ان کی ذریت کی امامت وعصمت قائم ہے جب اصل کا بطلان ہوگیا تو فروع خودبخود باطل ہوگئی۔۔۔