- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
ٹوپی کی کئی قسمیں ہیں مثلا بنگالی ٹوپی، ترکی ٹوپی، افریقی ٹوپی، سندھی ٹوپی، جالی دار ٹوپی، جناح کیپ وغیرہ۔ شاید ٹوپی کی جتنی قسمیں ہیں، اتنی ہی باتیں اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے بھی کی جا سکتی ہیں۔
شروع میں، میں ٹوپی پہنتا تھا لیکن میری اہلیہ کو پسند نہ تھا اوروہ میری ٹوپی غائب کر دیتی تھیں۔ اس عمل سے کافی چڑ ہوتی تھی کیونکہ مجھے مدرسہ اور تنظیم کے حلقے میں درس وتدریس اور دینی اسباق پڑھانا ہوتے تھے اور مدرسہ وتحریک کے ماحول میں استاذ ومصلح کے سر پر ٹوپی نہ ہونا باعث عار سمجھا جاتا ہے۔ میں نے اس مسئلے میں اہلیہ سے الجھنا مناسب نہ سمجھا، وہ ٹوپیاں غائب کرتی گئیں اور میں خریدتا گیا۔ اس طرح ٹوپی پہننے کے عمل کو مجاہدہ سمجھ کر ایک مہینے میں تین تین ٹوپیاں بھی خریدتا رہا۔
ایک وقت آیا کہ میں نے سوچا کہ میں ٹوپی کیوں پہنتا ہوں تو یہ جواب ملا کہ میرا اٹھنا بیٹھنا دیندار حلقوں میں ہوتا ہے جہاں سب یا اکثر نے ٹوپی پہنی ہوتی ہے یعنی وہاں کا دینی عرف ٹوپی پہننے کا متقاضی ہوتا ہے اور میرا ٹوپی نہ پہننا اس ماحول میں مجھے اجنبی بنا دیتا ہے۔ اور یہ اجنبیت ایسی تھی جسے لوگ ناپسند کرتے تھے اور بعض تو اس کا اظہار بھی کر دیتے کہ حافظ صاحب آپ ٹوپی کیوں نہیں پہنتے یا کوئی صاحب اگر عمر میں بڑے ہوتے تو ٹوپی پہننے کو سنت قرار دیتے ہوئے اس کی تلقین بھی فرما دیتے۔ بہرحال اب کافی سوچ وبچار کے بعد مجھے ٹوپی پہننے یا نہ پہننے میں کوئی حساسیت نہیں ہے۔ پہننا اس لیے درست سمجھتا ہوں کہ دین دار لوگوں کا عرف ہے اور نہ پہننا اس لیے مفید کہ اصلاح نفس میں اس کا بڑا کردار ہے۔
آج مجھے اس پہلو کو اجاگر کرنا ہے کہ میرے ٹوپی نہ پہننے نے میری اصلاح میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ مجھے اللہ نے زبان وبیان کی کچھ صلاحیت دی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جہاں کہیں درس کا حلقہ یا خطبہ جمعہ یا مدرسے کی کلاس لینا شروع کروں تو کچھ عرصہ بعد سامعین یا طلباء کا ایک حلقہ میرے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ متاثرین تعداد میں تو چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن کسی واعظ یا استاذ کو بگاڑنے کے لیے ایک بھی کافی ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنا شروع کر دیتا ہے، کوئی آپ کے وعظ وتدریس کی تعریف وتوصیف میں مبالغہ آمیز باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے، کوئی آپ کو آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتا ہے، اور کوئی آپ کی فکر کا جیالا بننے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔
ایسے میں مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب میں اپنی چرب زبانی سے کوئی علیحدہ مخلوق لگنا شروع ہو گیا ہوں یا لوگوں کی نظر میں شیخ بن گیا ہوں۔ پس میں اپنا حلیہ دینداروں کی بجائے عام گناہ گاروں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں تا کہ لوگ مجھے وہی سمجھیں جو میں حقیقت میں ہوں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں ان کے جیسا انہی میں سے ایک ہو۔ میں نے یہ عجیب محسوس کیا ہے کہ اس قسم کے متاثرین کے حلقے میں ٹوپی اتار دینا ایسے ہی ہے جیسے آپ نے اپنے تقدس کی چادر اتار دی ہے اور اگر آپ شلوار قمیص کی بجائے سوٹ پہن لیں تو پھر تو لوگ شاید آپ کے نیک ہونے میں بھی شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پوسٹ کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بعض اوقات ایک چھوٹی چیز ہماری اصلاح میں کس قدر بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔
شروع میں، میں ٹوپی پہنتا تھا لیکن میری اہلیہ کو پسند نہ تھا اوروہ میری ٹوپی غائب کر دیتی تھیں۔ اس عمل سے کافی چڑ ہوتی تھی کیونکہ مجھے مدرسہ اور تنظیم کے حلقے میں درس وتدریس اور دینی اسباق پڑھانا ہوتے تھے اور مدرسہ وتحریک کے ماحول میں استاذ ومصلح کے سر پر ٹوپی نہ ہونا باعث عار سمجھا جاتا ہے۔ میں نے اس مسئلے میں اہلیہ سے الجھنا مناسب نہ سمجھا، وہ ٹوپیاں غائب کرتی گئیں اور میں خریدتا گیا۔ اس طرح ٹوپی پہننے کے عمل کو مجاہدہ سمجھ کر ایک مہینے میں تین تین ٹوپیاں بھی خریدتا رہا۔
ایک وقت آیا کہ میں نے سوچا کہ میں ٹوپی کیوں پہنتا ہوں تو یہ جواب ملا کہ میرا اٹھنا بیٹھنا دیندار حلقوں میں ہوتا ہے جہاں سب یا اکثر نے ٹوپی پہنی ہوتی ہے یعنی وہاں کا دینی عرف ٹوپی پہننے کا متقاضی ہوتا ہے اور میرا ٹوپی نہ پہننا اس ماحول میں مجھے اجنبی بنا دیتا ہے۔ اور یہ اجنبیت ایسی تھی جسے لوگ ناپسند کرتے تھے اور بعض تو اس کا اظہار بھی کر دیتے کہ حافظ صاحب آپ ٹوپی کیوں نہیں پہنتے یا کوئی صاحب اگر عمر میں بڑے ہوتے تو ٹوپی پہننے کو سنت قرار دیتے ہوئے اس کی تلقین بھی فرما دیتے۔ بہرحال اب کافی سوچ وبچار کے بعد مجھے ٹوپی پہننے یا نہ پہننے میں کوئی حساسیت نہیں ہے۔ پہننا اس لیے درست سمجھتا ہوں کہ دین دار لوگوں کا عرف ہے اور نہ پہننا اس لیے مفید کہ اصلاح نفس میں اس کا بڑا کردار ہے۔
آج مجھے اس پہلو کو اجاگر کرنا ہے کہ میرے ٹوپی نہ پہننے نے میری اصلاح میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ مجھے اللہ نے زبان وبیان کی کچھ صلاحیت دی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جہاں کہیں درس کا حلقہ یا خطبہ جمعہ یا مدرسے کی کلاس لینا شروع کروں تو کچھ عرصہ بعد سامعین یا طلباء کا ایک حلقہ میرے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ متاثرین تعداد میں تو چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن کسی واعظ یا استاذ کو بگاڑنے کے لیے ایک بھی کافی ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنا شروع کر دیتا ہے، کوئی آپ کے وعظ وتدریس کی تعریف وتوصیف میں مبالغہ آمیز باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے، کوئی آپ کو آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتا ہے، اور کوئی آپ کی فکر کا جیالا بننے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔
ایسے میں مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب میں اپنی چرب زبانی سے کوئی علیحدہ مخلوق لگنا شروع ہو گیا ہوں یا لوگوں کی نظر میں شیخ بن گیا ہوں۔ پس میں اپنا حلیہ دینداروں کی بجائے عام گناہ گاروں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں تا کہ لوگ مجھے وہی سمجھیں جو میں حقیقت میں ہوں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں ان کے جیسا انہی میں سے ایک ہو۔ میں نے یہ عجیب محسوس کیا ہے کہ اس قسم کے متاثرین کے حلقے میں ٹوپی اتار دینا ایسے ہی ہے جیسے آپ نے اپنے تقدس کی چادر اتار دی ہے اور اگر آپ شلوار قمیص کی بجائے سوٹ پہن لیں تو پھر تو لوگ شاید آپ کے نیک ہونے میں بھی شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پوسٹ کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بعض اوقات ایک چھوٹی چیز ہماری اصلاح میں کس قدر بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔