• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹوپی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

فلک شیر بھائی صاحب پروفائل میں انسانی تصویر لگانا منع ھے اگر مناسب سمجھیں تو اسے ہٹا دیں امید ھے آپ ممبران کے ساتھ تعاون کریں گے۔ جزاک اللہ!

والسلام
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
حیدر آبادی بھائی الجرح و التعدیل میں ایسے الفاظ ملتے ہیں کوینکہ متھم میں ایسے اوصاف بھی پائے جاتے ہیں اور امت کو ایسوں کے شر سے بچانے کیلئے ان کے لائق اوصاف بیان کر دینا شرعا جائز ہے جیسے کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی آیا اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکریم کی بعد میں کہا بئس اخو العشیرہ
لہذا ائمہ محدثین کا یہ عمل بالکل درست تھا آپ ایک دفعہ ذرا مذکورہ کتاب کو دیکھ لیجیئے
فلک شیر بھائی شاھد بھائی نے ٹوپی نہیں اس کے پیچھے سوچ پر یہ جملہ کہا ہے
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
السلام علیکم

فلک شیر بھائی صاحب پروفائل میں انسانی تصویر لگانا منع ھے اگر مناسب سمجھیں تو اسے ہٹا دیں امید ھے آپ ممبران کے ساتھ تعاون کریں گے۔ جزاک اللہ!

والسلام
وعلیکم السلام
کنعان! مجھے علمی بنیادوں پہ اس پہ اعتراض ہے۔
مجھے نعم البدل بتادیا جائے ۔
کیا فورم کی رکنیت سے دستبرداری؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

وعلیکم السلام
کنعان! مجھے علمی بنیادوں پہ اس پہ اعتراض ہے۔
مجھے نعم البدل بتادیا جائے ۔
کیا فورم کی رکنیت سے دستبرداری؟
اتنا تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ ہر ادارہ کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جن کو عمل میں لانا کسٹمرز و ممبران کا کام ھے،

تصویر پر قواعد و ضوابط کی شق

نمبر8
فورم میں واضح اور مکمل تصویر کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔​

الف سے یے تک تمام ممبران کی پروفائل میں دیکھ سکتے ہیں انسانی تصویر کسی ممبران کی پروفائل میں لگی ہوئی نہیں ملے گی، اس کا نعم البدل آپ چاہیں تو کوئی اور تصویر استعمال میں لا سکتے ہیں۔

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
وعلیکم السلام
کنعان! مجھے علمی بنیادوں پہ اس پہ اعتراض ہے۔
مجھے نعم البدل بتادیا جائے ۔
کیا فورم کی رکنیت سے دستبرداری؟
مجھے بھی اس پہ علمی بنیادوں پر ہی اعتراض تھا بلکہ اب بھی ہے۔ لیکن جب مجھے بتلایا گیا کہ اس فورم میں انسانی تصویروں پر پابندی ”شرعی بنیادوں“ پر نہیں بلکہ ”فورم کے اپنے قوائد و ضوابط“ کی بنیاد پر ہے۔ تو پھر مجھے اس قانون کی پابندی کرنی ہی پڑی۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ٹوپی کو مستحب قرار دینے کے لیے دلیل چاہیے؟ اپنے ایک مضمون میں، راقم نے اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے کہ ٹوپی پہننے کو مستحب قرار دینا محل نظر ہے البتہ یہ علماء اور دیندار طبقے کا عرف ہے۔ اسلیے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بحث اس صفحہ پر موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹوپی پہننا ایک مباح امر ہے جس کے پہننے پر نہ ثواب ہے اور نہ اتارنے پر گناہ ہے۔
عرف عام میں سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ مبارک کو کہا جاتا ہے اور سر کو ڈھک کر رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی طریقہ مبارک تھا۔ یعنی ٹوپی، رومال یا عمامہ سے سر کو ڈھکنا سنت ہے۔

تنبیہ: جو چیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھتی ہو وہ دین یا سنت بن جاتی ہے چاہے وہ کوئی رنگ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے یا سفید رنگ کا عمامہ باندھا تو اسی رنگ کا عمامہ پہننا اب سنت ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح والے دن مکہ میں داخل ہوئے اور آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا۔(صحیح مسلم)
اس حدیث کی شرح میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: کالا عمامہ یعنی کالی پگڑی سنت ہے۔(شمائل ترمذی، ص151)

اسکے برعکس ہرے رنگ کا عمامہ باندھنا سنت نہیں کیونکہ یہ رنگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ کے لئے کبھی استعمال نہیں فرمایا۔ لیکن ہرے رنگ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر میں استعمال کیا تو اسی رنگ کی چادر پہننا امت کے لئے سنت بن گیا۔

ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جبکہ آپ نے وہ سبز چادریں اوڑھ رکھی تھیں۔(سنن ترمذی،نسائی،ابوداود)
اس حدیث کی شرح و فوائد میں محدث عصر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: سبز چادر اوڑھنا سنت اور جائز ہے، لیکن سبز عمامے یا سبز ٹوپی کا کوئی صحیح ثبوت میرے علم میں نہیں ہے۔(شمائل ترمذی، ص110)

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمامہ پہننا یا سر کو ڈھکنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس پر عمل کار ثواب ہے۔ اور یہی عمامہ یا ٹوپی پہننے کے عمل کے مستحب ہونے کی بھی دلیل ہے۔

چونکہ محمد زبیر صاحب سر کے ڈھکنے کو ایسی سنت نہیں سمجھتے جسے مستحب کہا جاسکے بلکہ سر کے ڈھکنے کو ایک ایسا فعل سمجھتے ہیں جس کے اختیار پر نہ ثواب ہے اور نہ ترک پر عذاب۔ اس طرح یقیناً محمد زبیر صاحب کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک (شمائل) میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کے اختیار کرنے پر امت کو ثواب ملے۔ جیسے محمد زبیر صاحب کے نزدیک نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کندھوں اور کانوں تک بال رکھنے میں امت کے لئے کوئی ثواب ہے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بالوں کی بیچ کی مانگ نکالنا مستحب عمل ہے۔ اسی طرح نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آنکھوں میں سرمہ لگانے، بالوں میں تیل لگانے، چاندی کی انگوٹھی پہننے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ چیزوں جیسے کدو کھانے، میٹھی چیزیں کھانے، شہد پینے، کندھے کا گوشت کھانے اور کجھور کھانے اور دودھ پینے میں امت کے لئے کسی طرح کا ثواب ہے۔

محمد زبیر صاحب کا یہ نظریہ بذات خود محل نظر ہے جبکہ اہل حدیث علماء کی اکثریت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل پر عمل کو کارثواب اور مستحب ہی سمجھتی ہے الا یہ کہ کسی فعل کی تخصیص ثابت ہو۔

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد پسند کرتے تھے۔(بخاری،مسلم)
اس حدیث کی شرح میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: کھانے کے دوران یا بعد میں میٹھی چیز کھانا مستحب ہے۔(شمائل ترمذی، ص192)

ایک مقام پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ہر حدیث پر عمل کرنے میں ثواب ہی ثواب ہے، الا یہ کہ تخصیص کی کوئی صریح دلیل ہو۔(شمائل ترمذی،ص297)

اس سے معلوم ہوا کہ کسی فعل کے مستحب اور باعث ثواب ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔والحمدللہ


اس سلسلے میں ایک اہم ترین بات نیت کی ہے جیسے کدو کھانے پر نہ کوئی ثواب ہے اور نہ کھانے پر نہ کوئی گناہ ہے لیکن اگر ایک شخص اس نیت سے کدو کھاتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سبزی پسند تھی تو پھر نہ صرف کدو کھانا مستحب ہوجاتا ہے بلکہ اسے کدو کھانے پر ثواب بھی ملتا ہے۔ یعنی جب نیت بدلتی ہے تو حکم بھی بدل جاتا ہے اور یہی حال ٹوپی کا بھی ہے کہ ٹوپی پہننے پر نہ کوئی ثواب ہے اور نہ ترک کرنے پر کوئی گناہ لیکن اگر نیت اتباع سنت کی ہو تو ٹوپی پہننا مستحب اور کار ثواب ہے۔ اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ ہر مسلمان کی نیت سر کو ڈھکتے وقت اتباع سنت ہی کی ہوتی ہے۔ نیت کی تبدیلی سے حکم کی تبدیلی کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ اگر کسی کو کدو ناپسند ہے تو حرج والی کوئی بات نہیں لیکن یہ علم ہوجانے کے بعد کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو پسند تھا اگر کوئی شخص کدو کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔ ملاعلی قاری حنفی نے لکھا ہے: اور ابویوسف سے ثابت ہے کہ انھوں نے اس شخص کو کافر قرار دیا، جس نے یہ معلوم ہونے کے بعد کہ ’’نبیوں کے سردار اسے پسند کرتے تھے‘‘ یہ کہا، میں کدو کو پسند نہیں کرتا۔(الردعلی القائلین بوحدۃ الوجود،ص155)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا نظریہ بھی محمد زبیر صاحب کے نظریہ کے خلاف تھا۔ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے سے چھوٹے فعل پر عمل کو بھی سعادت سمجھتے تھے جس پر ثواب کی امید بھی رکھتے تھے۔ کئی صحابہ سے ثابت ہے کہ وہ سفر کے دوران سواری روک کر بغیر کسی حاجت کے ایک مخصوص جگہ بیٹھ جاتے تھے اور پھر اٹھ جاتے تھے، پوچھنے پر بتاتے تھے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ رفع حاجت کے لئے بیٹھے تھے اسی لئے انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ایسا ہی کیا۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ثواب ہے اور یقیناً ہے تو صحابہ کو بھی اس فعل پر اجر ملے گا اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے اگر کوئی سر کو ٹوپی، عمامہ یا رومال سے اس لئے ڈھکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول سر کو ڈھکنے کا تھا تو اسے کیوں ثواب نہیں ملے گا؟؟؟؟ اور ٹوپی یا عمامہ سے سر کو ڈھکنے کا عمل مستحب کیوں نہ ہوگا؟؟؟

محمد زبیر صاحب کے تحقیقی مضمون کے رد کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر مسلمان جب ٹوپی لگاتا ہے تو اس لئے نہیں کہ یہ کوئی خاندانی رسم ہے یا معاشرہ کا رواج ہے یا کوئی ضرورت ہے بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک ہے۔ پس اس نیت اور سوچ پر ایک مسلمان کا ٹوپی لگانے کا فعل مستحب قرار پاتا ہے اور وہ اتباع سنت کے جذبہ کی وجہ سے اس کا یہ عمل ثواب سے ہرگز خالی نہیں۔

راقم نے اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے کہ ٹوپی پہننے کو مستحب قرار دینا محل نظر ہے،جس کے پہننے پر نہ ثواب ہے اور نہ اتارنے پر گناہ ہے۔
لغو ایسی باتوں اور ایسے افعال کو کہا جاتا ہے جن کے کرنے پر نہ ثواب ہو اور نہ انہیں چھوڑنے پر کوئی عذاب یعنی بے فائدہ اور فضول کام۔
بے فائدہ اور فضول کام کو شریعت ناپسند کرتی ہے اور ایسے افعال کرنے سےمسلمان کو روکتی ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’انسان کے اسلام کی خوبی اس کا لایعنی (لغو) باتوں سے بچنا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)

محمد زبیر صاحب کی ٹوپی کے بارے میں جو رائے ہے یعنی اس کے پہننے میں کوئی ثواب نہیں اور اتارنے میں کوئی عذاب نہیں۔ اسکے مطابق تو ٹوپی پہننے کا عمل لغو قرار پاتا ہے جس کو شریعت چھوڑ دینے کا حکم دیتی ہے۔ محمد زبیر صاحب کو چاہیے کہ نہ صرف خود ٹوپی پہننے کے اس فضول عمل کو ترک کریں جو شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے بلکہ دوسروں کو بھی ٹوپی پہننے سے باز رہنے کی تلقین کریں آخر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی تو علماء ہی نے انجام دینا ہے۔

ٹوپی پہننے کو ثواب نہ سمجھنے کا نظریہ باطل ہے کیونکہ اس سے ٹوپی پہننا لغو، فضول اور لایعنی فعل قرار پاتا ہے اور یہ عمل نبی کا بھی ہے اور نبی کا کوئی عمل کبھی لغو، فضول اور لایعنی نہیں ہوتا۔
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
مجھے بھی اس پہ علمی بنیادوں پر ہی اعتراض تھا بلکہ اب بھی ہے۔ لیکن جب مجھے بتلایا گیا کہ اس فورم میں انسانی تصویروں پر پابندی ”شرعی بنیادوں“ پر نہیں بلکہ ”فورم کے اپنے قوائد و ضوابط“ کی بنیاد پر ہے۔ تو پھر مجھے اس قانون کی پابندی کرنی ہی پڑی۔
یوسف بھائی! اگر یہ پابندی شرع شریف کی جانب سے نہیں ہے، تو کتاب و سنت کی ترویج کے داعی اس فورم کے اپنے قواعد و ضوابط کہاں سے ماخوذ ہیں پھر۔۔۔یہ ایک سوال ہے۔
مجھے لگتا ہے، یہ ایک علمی مغالطہ ہے، جس پہ اربابِ اختیار قائم رہنا ہی پسند فرمائیں گے۔
بہرحال فورم اُن کا، فہم اُن کی اور قواعد و ضوابط بھی انہی کے۔
برسبیل تذکرہ۔۔یونیورسٹی میں ہمارے شعبہ کے ڈین بخاری صاحب فرمایا کرتے تھے :
I make the rules..................I break the rules
:)
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
لوگ سوالیہ پوسٹ پہ بھی عدم اتفاق ریٹ کرتے ہیں ۔ :)
یعنی۔۔۔۔۔۔۔
"سوال کرتے ہو ، ہم سے سوال کرتے ہو؟
ہمارے آگے بولتے ہو، تمہاری یہ جراءت"
خیر ۔۔خوش رہیے صاحب ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اللہ اللہ ۔
محترم! کیا اسلام کی روح ٹوپی میں پائی گئی ہے؟
آپکے سوال پر غیرمتفق اس لئے ریٹ کیا تھا کہ آپ نےمیری پوسٹ پڑھے اور سمجھے بغیر غلط سوال کیا تھا۔ ویسے تو آپ کے سوال کا صحیح جواب محترم قاہرالارجاء والخوارج بھائی نے دے دیا ہے لیکن آپ کی تسلی کے لئے عرض ہے کہ مجھے ٹوپی پہننے یا نہ پہننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ اصل اعتراض اس صوفیانہ فکر اور سوچ پر ہے جسے ابولحسن علوی صاحب نے اپنی تحریر میں پیش کیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ میری متعلقہ پوسٹ دوبارہ پڑھ لیں۔

ٹوپی کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ ننگے سر رہنا جائز ہے لیکن سر کو ٹوپی یا عمامے سے ڈھکنا افضل ، بہتر اور کارثواب ہے۔
 
Top