• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاک و ہند کے دو معمر شیوخ کی وفات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
آہ ! قلم میں جنبش بھی رک جاتی ہے جب دل کو گہری ٹھیس پہنچے ۔ شیخ الحدیث مفسر قرآن حضرت مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالی کی وفات کی خبر پڑھ کر سکتہ سا طاری ہوگیا یقین نہیں آیا کہ عظیم ہستی جن کا پر نور چہرہ جب علم حدیث کے موتی بکھیرتا تو ایک راحت اور اطمینان اور سکون روح میں اتر جاتا ۔ آج وہ ہم میں نہیں رہے ۔ دل غمزدہ ہے آنکھیں پر نم ہیں لیکن ہم وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "
انا لله وانا اليه راجعون "
آج اس امت میں علماء کرام کے والد کی حثیت رکھنے والی شخصیت اپنے رب کی مہمان بن گئی ۔
علم کا نور انکے چہرہ انور سے ظاہر ہوتا اور زھد و تقوی میں اسلاف کی نشانی تھے ۔ نصف صدی صحیح بخاری کا درس دینے والے اور اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تفسیر میں مگن یہ بزرگ اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے ہم سے جدا ہوگئے ہیں ۔
میرے سامنے انکا چہرہ ایسے ہے جیسا میں انہیں دیکھ رہا ہوں مجھ میں اب سکت نہیں رہی کہ اس غم میں کچھ مزید لکھ سکوں ۔
اللہ سے انکے لئے مسلسل دعا کر رہا ہوں جیسے بے ساختہ دعائے مغفرت زبان پر جاری کر دی گئی ہو۔
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيّراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار .
اللهم نور له قبره ووسع مدخله وآنس وحشته - اللهم ارحم غربته وارحم شيبته - اللهم اجعل قبره روضة من رياض الجنة
.اللهم اطعمه من الجنة واسقه من الجنة واره مكانه من الجنة وقل له أدخل من أي باب تشاء ۔
ابوالحسن عبدالحفیظ روپڑی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠ترجمة موجزة ...
لفضيلة شيخنا المُحَدث المعَمَّر ظهيرالدين المباركفوري رحمه الله تعالى وأسكنه الفردوس الأعلى من الجنة ...
اسمه :
ظهيرالدين حسين آبادي الأثري الرحماني المباركفوري .
والده: عبدالسبحان حسين آبادي ...
والد شيخنا ظهيرالدين اسمه رسميا: محمد بهادُر ولكنه مشهوربـ (عبدالسُّبحان) فاسم شيخنا الكامل كما يكتبه: حسين أبادي ظهيرالدين عبدالسُّبحان وفي الدوائرالحكوميَّة: حسين أبادي ظهيرالدين محمد بهادُر لقب أسرتهم نسبة لقريتهم (حسين آباد) وعادتهم يقدمون اللقب على الاسم.
كنيته: أبو ذي القرنين سراج الدين.
مولده :
أفاد بعض الإخوة أن تاريخ ولادة شيخنا في الأوراق الرسمية: 1/ 7/ 1923م الموافق لـ 18 ذو القعدة 1341هـ ولكنه يقول: إن والده يؤكد له أنه ولد سنة 1920م وهو موافق لـ 1338- 1339 هـ ...
زوجاته وأولاده :تزوج الشيخ مرتين: - زوجته الأولى (مباركفورية) توفيت قديمًا،وله منها ابنتان:مسعودة ومحمودة ...
زوجته الأخرى (تزوجها بعد وفاة الأولى): اسمها بِلقيس الرائدرجية (من مدينة رائدرج) وقد توفيت أيضًا رحمها الله عام 2003 م . وله منها 8 أولاد أربعة أبناء وأربع بنات: ذوالقرنين سراج الدين ، وذو الكِفلين نظام الدين ، وذو النورين صلاح الدين ، وفايز الدين (توفي وعمره 3 أشهر)وحميدة ، وسعيدة (توفيت) ،ووحيدةوفريدة.
نشأته ودراسته :
قرأ شيخنا ظهيرالدين القرآن الكريم صغيرا على أمه خديجة وكانت امرأة صالحة فاضلة.
درس شيخنا المرحلة الابتدائية في مدرسة صغيرة (دارالتعليم) بقريته حسين آباد
- ودرس المرحلة المتوسطة في (فيضعام) وهي مدرسة كبيرة بمدينة مَئوناتهبهجن في ولاية يوبي
- وأتم دراسته في المدرسة الرحمانية بمدينة دِهلي (أودِلهي).
الشيخ رفيق بطلبته وحليم ورضي الخلق ومهما كان تعبا في المجالس تجده يهش ويبش لكل من يسلم عليه ، يذكر شيخنا ظهير الدين أن الأساتذة في الهند من عادتهم حمل عصا لضرب الطلاب المسيئين والمقصرين، لكنه درَّس مدة 60 سنة ولم يستعمل العصا البتة، ولم يضرب طالبًا .
وذكر الشيخ أنه بعد غضب الشيخ أحمد الله وتركه للرحمانية إلى الزبيدية ذهب إليه وطلب أن يكمل عليه القسم الثاني من مسلم فرفض وبقي يلح عليه أياما حتى وافق وقرأ عليه .
و شيخنا ظهير الدين تفنن ومهر في 17 علما وفناً منها علوم الحديث وأصول التفسير والتاريخ الإسلامي والمنطق...وله اختصاص وخبرة عظيمة بتدريس سنن أبي داود ومقدمة ابن خلدون درسهما أكثر من 40 سنة .
مروياته :
فضيلة شيخنا المعَمَّرالمحدث الشيخ ظهيرالدين المباركفوري، من أعلى الأسانيد اليوم فهو مجاز من:
1– الشيخ محمد عبدالرحمن المباركفوري صاحب" تحفة الأحوذي" أجازه إجازة خاصة بشرحه وعامة وأدركه وعمر شيخنا ظهيرالدين 8 سنوات.
2 - الشيخ العلامة أحمد الله بن أميرالله القُرَشِيّ الدِهْلَوِيّ- قرأ عليه صحيح مسلم كاملاً وسمع نصف البخاري عليه أيضا وسمع بعض الأشياء وأجازه إجازة خاصة وعامة.
3 - الشيخ أحمد حسام الدين المئوي سمع عليه بعض الكتب منها "منتقى الاخبار" وغيرها .
والثلاثة (احمد الله والمباركفوري والمئوي) عن الإمَام الهُمَام شيخ الكل نَذِير حُسَين بن جَوَاد عَلِيٍّ الدِهْلَوِيّ وهوعن إسحاق الدهلوي عن عبدالعزيز عن ولي لله بن عبدالرحيم الدهلوي .
4 - الشيخ عبيدالله الرحماني المباركفوري صاحب كتاب (مرعاة المفاتيح) قرأ شيخنا عليه البخاري والموطأ كاملين والسنن الأربع والشمائل وهوعن شيخه محمد عبدالرحمن المباركفوري صاحب (تحفةالأحوذي).
فرحم الله شيخنا ظهير الدين المباركفوري وأسكنه الفردوس الأعلى من الجنة ... اللهم آمين ..

وكتبه
تلميذه والمجاز منه
الشيخ حسام الدين سليم الكيلاني الحسني الحمصي
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جب کسی عالم کی موت کی خبر ملتی ھے تو سکتہ کی کیفیت ھوجاتی ھے
اور یوں محسوس ھوتا ھے جیسے ھم آج یتیم ھوگئے
آسمان کا سایہ چھن گیا ھے
زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ھے
اور سوچتے ھیں کہ اب ھم ان کے بغیر روح کو کیسے زندہ رکھیں گے دل ھے کہ غم سے سکڑ جاتا ھے
آنکھیں خشک ھو جاتی ھیں
یوں سمجھیں کہ دنیا ویران نظر آتی ھے
مگر
جب اس عالم کی وفات پہ بڑے بڑے محدثین کے خوبصورت الفاظ اور دعائیں سنتے اور دیکھتے ھیں تو بےساختہ جملہ زبان سے ادا ھوتا ھے کہ
حلاوت کی زندگی تو انہی کی تھی
اور سعادت کی موت تو انہی کی ھے کہ جو مرتے مرتے بھی رب کا قرآن سنا گئے
نبی کا فرمان سنا گئے
اور آخرت میں بھی کامیابی انہی کا مقدر بن گئی
ان شاء اللہ
حافظ ارشد محمود ، مدیر مجموعہ علماء اہل حدیث​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عظیم اھل علم کی عظیم نسبتیں

استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث ، والتفسير ، حضرۃ العلام حضرت مولانا حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ تعالٰی
کا پاکستان کے چند جیّد کبار علماء میں شمار ھوتا ھے ، جن کے ھزاروں شاگرد ملک و بیرون ممالک میں دہن حنیف کی اشاعت و تبلیغ میں مصروف عمل ہیں
ان کے خصائص میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اللہ تعالٰی نے ان کو پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا ، اور انھوں نے اپنی بیٹیوں کے رشتے کیلئے جو کا انتخاب کیا تھا وہ ایک مثالی عمل تھا ، پانچوں داماد ان کے شاگرد اور جید عالم تھے ، اس انتخاب کیلئے انھوں نے صرف علم ، زھد و تقوی کو معیار بنایا،
1 مولانا سید عبدالشکور شاہ رحمہ اللہ سانگلہ ھل والے
2 مولانا محمد عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالٰی
3 مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ اوکاڑہ
4 والد گرامی مولانا قاری محمد یوسف لکھوی رحمہ اللہ
5 مولانا حافظ محمد امین حفظہ اللہ شیخ الحدیث تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ
آج شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی 78 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد اللہ تعالٰی کو پیارے ھوگئے ھیں ماشاءاللہ دوران علالت بھی تعلیم وتعلم اور تبلیغ کے عمل سے وابستہ رھے ، بڑی نصابی کتب کے علاوہ تقریباً 30 سال صحیح بخاری کی تعلیم دی ، احادیث سے فقہی مسائل کے استنباط اور اور استدلال میں منفرد ذوق رکھتے تھے ، طلباء کو مناظرانہ انداز میں پڑھانا اور اس کے اصولوں سے آگاہ کرنا بھی ان کا خاص وصف تھا ،
مرکز ستیانہ میں حضرت حافظ عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ رحلت کے بعد غالبا 30 سال سال انھوں نے دورہ تفسیر القرآن بھی کروایا ،
علاوہ ازیں انھوں نے بعض دینی اور سیاسی تحاریک میں بھر پور شرکت کی اور عوام کی خوبصورت راہنمائی فرمائی تحریک ختم نبوت ، تحریک نفاذ نظام مصطفی ، وغیرہ میں ان کی خدمات نمایاں ھیں جس میں وہ پابند سلاسل بھی رھے
اللہ رب العزت ان کی دینی ، ملی خدمات قبول فرمائے اور ان کیلئے صدقہ جاریہ بنائے آمین یارب
قاري نويد الحسن لكهوي​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠اک شاہ بلوط تھا کہ ٹوٹ گرا !
پاکستان میں تحریک عمل بالحدیث کے چند نمایاں مشایخ میں استاذ العلما شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد صاحب چھتوی بھی تھے جنھوں نے گذشتہ شب داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اپنے پروردگار کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہو گئے ؛ انا للہ و انا الیہ راجعون - وہ بلا شبہہ یاد گارِ سلف تھے اور قحطِ علم کے اس زمانے میں علم و عمل کی ایک روشن مثال تھے - انھیں برصغیر کے معروف محدث علامہ حافظ عبداللہ صاحب بڈھیمالویؒ سے شرفِ تلمذ حاصل تھا - حضرت شیخ الحدیث چھتویؒ کی تمام عمر حدیث و سنت کی ترویج و اشاعت میں بسر ہوئی ؛ انھوں نے نصف صدی تک مسندِ تدریس کو رونق بخشی اور کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری شریف کا درس دیا - حدیث رسول اللہ ﷺ سے ان کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ جس دن ان کی جواں سال صاحب زادی نے وفات پائی ، اس دن بھی درس کا ناغہ نہیں کیا اور جنازے سے بھی پہلے اپنی مسند پر فروکش ہو گئے ؛ سبق تمام ہوا تو مسجد سے اعلان وفات نشر ہوا اور طلبہ کو معلوم ہوا کہ استاد پر کیا سانحہ بیت چکا ہے – استفسار پر فرمایا : نبی کریم ﷺ کے ارشادات و فرامین کے درس و مطالعہ سے میرے دل کو تسکین ہوتی ہے ، اس لیے اسے چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور اب غم و اضطراب کے بادل چھٹ گئے ہیں - اپنے دینی مشن سے ان کی وابستگی قابل رشک تھی ؛ اس ضمن میں وہ کسی بھی مشکل اور تنگی کو خاطر میں نہ لاتے تھے ؛ چناں چہ 2004ء میں مادر علمی جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مدارس کے سینئر طلبہ کے لیے ایک تربیتی ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان بھر سے کبار علما و مشایخ مدعو تھے – حضرت شیخ چھتوی رحمہ اللہ سے بھی وقت لیا گیا ؛ انھوں نے آنے کا وعدہ کر لیا اور مقررہ وقت پر تشریف بھی لے آئے ؛ اپنی گفت گو کے آغاز میں انھوں نے بتلایا کہ آج ان کی طبیعت شدید ناساز تھی ، تیز بخار میں مبتلا تھے اور راستے میں قے بھی آئی لیکن انھوں نے پروگرام چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور اپنے طے شدہ موضوع پر ڈیڑھ گھنٹا کا مفصل علمی خطاب فرمایا – حضرت شیخ الحدیث کی طبیعت سادگی ، متانت اور جلال آمیز وقار کا حسین مرقع تھی - مرحوم کا طریق درس بڑا دل نشیں اور عام فہم ہوتا تھا ؛ مشکل نکات کو اس خوب صورتی سے سمجھاتے کہ دل پر نقش ہو جاتے تھے - مجھے ان کے درس بخاری میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے – انھوں نے ملک کی ممتاز درس گاہوں میں تدریسی خدمات سر انجام دیں جن میں جامعہ محمدیہ ، اوکاڑا بھی شامل ہے ؛ گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ مرکز الدعوۃ السفلیۃ ، ستیانہ بنگلا ، فیصل آباد میں طلبہ علوم نبوتؐ کو فیض یاب فرما رہے تھے – ان کا سانحۂ ارتحال بلا شبہہ اہل اسلام کے لیے عموماً اور اصحاب الحدیث کے لیے خصوصاً عظیم اور بہ ظاہر ناقابل تلافی نقصان ہے – رب کریم مرحوم کی بخشش فرمائے ، اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور لواحقین و پس ماندگان سمیت تمام متوسلین و تلامذہ کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین
(مولوی حافظ طاہر اسلام ، فاضل جامعہ رحمانیہ ، لاہور)​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠بقضاء الله وقدره توفي البارحة أحد كبار المحدثين بباكستان، شيخ الحديث بمركز الدعوة السلفية بمدينة ستيانه بنغله - فيصل آباد - أستاذ العلماء، حامل لواء علمي التفسير والحديث:
فضيلة الشيخ محمد عبد الله أمجد - رحمه الله-
ولد الشيخ عام 1935 میلادي، ونشأ في بيت علم وفضل، وبعد عمر طويل قضاه في العلم أصبح يعد من كبار علماء باكستان، وقد أفنى عمره في تعليم علوم الكتاب والسنة، درّس أكثر من نصف قرن في مختلف المعاهد الشرعية، وكان متقنا لكثير من العلوم والفنون، وقد درّس صحيح الإمام البخاري أكثر من أربعين مرة، وكانت له يد طولى في تفسير القرآن الكريم، وله أسلوب متميز في التفسير، حيث يرد على أهل البدع وشبهاتهم -بمختلف أصنافهم- بكتاب الله تبارك وتعالى، ومن الكتب التي كان يدرسها: ألفية ابن مالك في النحو، ومقدمة ابن الصلاح في علوم الحديث، ومختصر المعاني للتفتازانى، والهداية في الفقه الحنفي للمرغينانى.
وذكر تلامذته أنه كان من دأبه تجهيز دروسه العلمية بعناية فائقة، لا سيما درسه للجامع الصحيح، فكان ينظر في شروح صحيح البخاري إلى منتصف الليل فى ليالي الشتاء، ولم يكن يترك درسه في أحلك الظروف، حيث ذكروا أنه ماتت ابنته أم محمد في الليل، فأتى الشيخ إلى درسه في شرح صحيح البخاري، وأتم درسه، ثم أخبر المشايخ والطلاب بما حصل، وقال: إن هذا الدرس قد خفف علي مصابي.
وتخرج على يديه آلاف من الطلبة والمشايخ بباكستان، فكانوا يقدمون عليه في شهر رمضان للاستفادة من دروسه في التفسير من جميع مناطق باكستان.
رحمه الله رحمة واسعة، وغفر له وجزاه عن المسلمين خيرا.
(هذا جهد المقل،،،، لمن يريد إرسال ترجمة الشيخ المختصرة للمجموعات العربية !)
شیخ فراز الحق ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠بس یادیں ہی رہ جاتی ہیں!!

آج 15 اگست 2017 کی صبح دل کو دکھی کر دینے والی بہت ہی افسوس ناک خبر ملی کہ استاد محترم جناب عبداللہ امجد چھتوی وفات پا گئے ہیں -اللہ تعالی انہیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کا ساتھ نصیب فرمائے- پتا نہیں کیوں ایک بار پھر والد صاحب کی وفات جیسا صدمہ لگا حالانکہ والد گرامی رحمہ اللہ گزشتہ سال اسی ماہ یعنی 3 اگست کو طویل علالت کے بعد وفات پا گئے تھے، اللہ تعالی میرے تمام محسنوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
استاد محترم رحمہ اللہ کی وفات کی خبر سن کر وہ تمام یادیں تازہ ہو گئیں جو استاد محترم کے پاس بیٹھ کر زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے گزریں تھیں، میں نے استاد محترم سے مرکز الدعوہ السلفیہ میں زیر تعلیم رہتے ہوئے ہدایہ، تفسیر بیضاوی اور صحیح بخاری پڑھنے کے ساتھ ساتھ دورہ تفسیر بھی کیا، دوران تدریس ہر طالب علم ایسا محسوس کرتا تھا کہ استاد محترم کی توجہ اسی پر ہے، میں اپنی کلاس میں کم عمر ہونے کے باوجود استاد محترم کی مکمل توجہ پاتا تھا ، آپ اسباق کی پابندی بہت سختی سے کرتے تھے اور اس کا اتنا مثبت اثر تھا کہ طلبا بھی اپنے مشفق استاد سے متاثر ہو کر خود بھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار استاد محترم کو سخت بخار ہوا تو اسی بخار کی حالت میں اسباق پڑھانے کیلیے تشریف لے آئے اور ناغہ نہیں کیا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے مربی و مشفق حقیقت میں مجھ پر خصوصی شفقت کرتے تھے، ایک بار ہدایہ پڑھاتے ہوئے کسی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کی تو چونکہ میں کلاس میں آپ کے بالکل قریب ہی بیٹھتا تھا تو انہوں نے مجھے سخت ہاتھ سے تھپکی دی اور کہا کہ رات کو مطالعہ میں عبارت حل کر کے آیا کرو، اس پر میں نے عرض کیا کہ رات کو بھی مجھ سے حل نہیں ہوئی تھی اور میں نے اسے نشان زدہ بھی کیا ہوا ہے، تو پھر انہوں نے مجھے اچھی طرح سمجھایا، پھر اگلے دن (شاید سخت تھپکی کے ازالے کیلیے) سب کے سامنے فرمانے لگے کہ: شفقت کی ایک بات اچھی ہے کہ جب تک سمجھ نہ آئے آگے نہیں چلنے دیتا۔
اپنے شاگردوں پر استاد محترم گہری نظر رکھتے تھے کہ ایک بار میرے بارے میں فرمانے لگے: "شفقت درس حدیث کیلیے سفید لباس زیب تن کرنے خصوصی اہتمام کرتا ہے"
شیخ محترم اپنے فارغ التحصیل طلبا کے حال احوال بھی دریافت کرتے رہتے تھے، کئی بار ایسا ہوا کہ جب کسی علاقے کے افراد استاد محترم سے ملاقات کیلیے آتے تو ان سے بیسیوں سال پہلے علم حاصل کر کے چلے جانے والے طلبا کی کارکردگی اور علاقے میں ان کی دینی سرگرمیوں کے بارے میں لازمی پوچھتے تھے۔
بلکہ اپنے ہونہار طلبا کا ذکر خود سے بھی کرتے تھے ایک بار ماہنامہ ضیائے حدیث کے ایک شمارے میں آپ کا انٹرویو شائع ہوا تو اس میں آپ نے اپنے قابل ذکر شاگردوں کا بهی ذکر فرمایا.
ایک بار جن سے ملاقات ہو جائے ان کے بارے میں بعد میں بھی حال احوال دریافت کرتے رہتے تھے، جیسے کہ میرے والد گرامی کی استاد محترم سے ایک بار ہی ملاقات ہوئی تھی لیکن فراغت کے بعد سے جب بھی استاد محترم سے ملا تو والد صاحب کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے اور کہتے تھے شفقت تمہارا والد یہ جانتا ہے کہ بچوں کو پڑھانا کیسے ہے!! حالانکہ میرے والد صاحب لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے کیونکہ ان کی پڑھنے کی زندگی پاک و ہند کی تقسیم کے زمانے کی تھی اور اس وقت لوگ کھانے کو ترستے تھے پڑھنے کا تو کسی کو ہوش ہی نہیں تھا، البتہ آخر عمر میں انہوں نے اپنی اولاد پوتے پوتیوں سے قرآن مجید مکمل کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ رحمہما اللہ جمیعا
استاد محترم کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے موقف کے مقابلے میں دلیل پیش کریں تو پھر کھل کر علم کے موتی بکھیرتے ہیں، وگرنہ نہیں ، تو ایک بار قسطوں کی بیع کے متعلق سوال کیا تو مختصر سا جواب دے دیا کہ اگر قسطوں کی ادائیگی میں ناغے پر قیمت میں اضافہ نہ ہو تو جائز ہے، پھر جب ان کے موقف سے ہٹ کر متوقع دلائل دینے کی کوشش کی تو پھر انہوں نے سلف میں سے اہل علم کی لمبی تفصیل ذکر کی جن میں ابن تیمیہ، صاحب عون المعبود شمس الحق ڈیانوی، محدث مبارکپوری اور دیگر اہل علم کے نام شامل تھے اور کہا کہ جاؤ جا کر ان کی تحقیقات کا مطالعہ کرو۔
استاد محترم فقہی ائمہ کرام کا تذکرہ انتہائی ادب سے کرتے اور اکثر فرمایا کرتے تھے "میرے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔"
تعلیمی شعبے سے منسلک ہونے کے باوجود ان کی جسمانی صحت کافی اچھی تھی تو ایک بار ان کی صحت کا راز پوچھا تو فرمانے لگے میں جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں جس وقت تک پڑھتا اور پڑھاتا رہا ہوں روزانہ دو سیب لازمی کھاتا تھا اور عصر سے مغرب تک والی بال کھیلتا تھا۔
مدرسے میں تعلیمی سرگرمیوں کی جس طرح سے سرپرستی کرتے تھے غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی خوب سراہتے تھے، بسا اوقات رات گئے تک فن مناظرہ کی تربیتی نشستیں جاری رہتی اور صبح معمول کے مطابق اسباق پڑھنے کیلیے وقت پر تشریف بھی لے آتے۔
عصر کے بعد روزانہ آپ کا معمول تھا کہ ہمارے مادر علمی میں آ جاتے اور طلبا ان سے کھل کر استفادہ کرتے، اس دوران میں طلبا اپنے تعلیمی نصاب سے متعلقہ پیچیدہ سوالات کرتے اور آپ انہیں نہایت آسان پیرائے میں سلجھا دیتے تھے، یہ سلسلہ سورج غروب ہونے تک جاری رہتا تھا، اور آج علم و عرفان کا یہ سورج خود ہی غروب ہو چکا ہے، لیکن اس کے افق کی سرخی رہتی دنیا تو کیا ان کے پھیلائے ہوئے علم کی وجہ سے آخرت میں بھی ان شاء اللہ نظر آئے گی۔
تحریر: شفقت الرحمن مغل
قبلتین - مدینہ منورہ​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠شیخ الحدیث والتفسير حضرت مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالی کی وفات کی خبر سن کر دل غم زدہ ہے، طبیعت بوجھل اور آنکھیں پر نم ہیں لیکن ہم وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "
انا لله وانا اليه راجعون "
آج اس امت میں علماء کرام کے والد کی حثیت رکھنے والی شخصیت اپنے رب کی مہمان بن گئی ۔
علم کا نور انکے چہرہ انور سے ظاہر ہوتا اور زھد و تقوی میں اسلاف کی نشانی تھے ۔ نصف صدی صحیح بخاری کا درس دینے والے اور اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تفسیر میں مگن یہ بزرگ اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے ہم سے جدا ہو گئے
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيّراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار .
اللهم نور له قبره ووسع مدخله وآنس وحشته - اللهم ارحم غربته وارحم شيبته - اللهم اجعل قبره روضة من رياض الجنة
.اللهم اطعمه من الجنة واسقه من الجنة واره مكانه من الجنة وقل له "ياأيتها النفس المطمئنة. إرجعي إلى ربك راضية مرضية. فادخلي في عبادي وادخلي جنتي"
مولانا سعید طیب صاحب​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اللہ شیخ رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے........ ابھی ان کا جنازہ ادا کر کے نکل ہی رہے ہیں جنازے کے جم غفیر اور شیخ عتیق اللہ سلفی اور اہلِ جنازہ کی سسکیاں دیکھ کر یقین ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا ہوگا. ان شاء اللہ۔
عرفان شفیق صاحب ، مجموعہ علماء اہل حدیث​
آفرین ہے اس ہستی پر جس کی موت پر ہزاروں علماء کے دل رو رہے ہیں !!
وإن العالم ليستغفر له من فى السموات ومن فى الارض والحيتان فى جوف الماء
ضیاء اللہ برنی روپڑی​
جنازہ بہت بڑا تھا۔ تھوڑے وقت میں اتنے لوگوں کا شریک ہونا یقینا قابل رشک تھا
ہشام الہی ظہیر​
جامعہ رحمانیہ لاہور ، جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، بونگہ بلوچاں ، اسی طرح ، لاہور ، گوجرانوالہ ، اسلام آباد ، فیصل آباد وغیرہ کے دیگر تمام معتبر اداروں نے اساتذہ و طلباء سمیت جنازے میں شرکت کی ، جس کی تفصیلات گاہے بہ گاہے مجموعہ علماء اہل حدیث وغیرہ میں آتی رہی ۔ تصویروں سے معلوم ہوتا ہے ، لوگوں کا ایک جم غفیر اور انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ، شیخ کے تلامذہ ، و عقیدتمند جو ملک سے باہر تھے ، جنازہ میں عدم شرکت پر حسرت کناں نظر آئے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠دادا استاد شیخ الحدیث مفسر قرآن مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال
شیخ کے حضور میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی میری خواہش کو وقت نے ادھورا چھوڑا اور یہ خواہش آج دل کی اندھیر وادی میں دفن ہوگئی۔
آج ہمارےاستاذشیخ زیدحفظہ اللہ معمول کے مطابق مسلم شریف کا درس دینے کلاس میں داخل ہوئے استاذ محترم کا چہرہ غمگین ، معمول کی مسکراہٹ اور چہرہ مہرہ کی شگفتی کچھ کچھ غایب محسوس ہورہی تھی کہ جیسے کوئی انہونی بات رونما ہوگئی ہو، جیسے ہی سلسلہ درس شروع ہوا تو استاذ محترم کی آواز نہایت ہی نحیف و کمزوری کا مظہر ثابت ہوئی کہ جیسے کوئی گراں قدر ورثہ گم پا رہے ہوں۔
طبع ظرافت کی نقاہت کے استفسار سے قبل ہی، شیخ چھتوی رحمہ اللہ کے سانحہ ارتحال کا علم تو تھا،استاذ محترم کا دامن صبر ٹوٹتے پایا کہ استاذ جی نے نجانے کس بات سے درس حدیث کا پانسہ دادا استاذ کی طرف پلٹ دیا۔ ،،استاذ جی فرمانے لگے کہ مجھے ان سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ آپ رحمہ اللہ بہت خوش اخلاق ، نیک سیرت ، متقی و پرہیزگار، نہایت نرم خو اور طلباء سے بہت زیادہ محبت کرنے والے تھے۔ پانچ سال میں نے ان علم حاصل کیا سوائےایک طالب علم کے کھبی کسی طالب علم کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ شیخ محترم کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ رات کو سونے سے پہلے ، تہجد کے وقت اور صبح کے درس کے بعد مطالعہ کرتے۔ شرح ابن عقیل زبانی پڑھاتے تھے۔ ایک دن شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن یوسف راجوالوی ہمیں کہنے لگے، استاذ جی زبانی ابن عقیل کا درس دیتے ہیں ہم بطور امتحان شیخ صاحب کی کتاب چھپاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ استاذ جی کسی سے مطالعہ کے لیے کتاب مانگتے ہیں یا نہیں۔ آٹھ دن بغیر کسی سے کتاب طلب کیے حسب سابق ابن عقیل کی عبارت اور یہاں تک کہ محل شاہد کے اشعار بھی زبانی پڑھتے رہے آٹھ دن کے بعد فرمانے لگے۔ اب تو آپ نے میرا امتحان لے لیا ہے لہذا کتاب واپس کر دیں،،۔
آج ان کے جنازے کو دیکھ کر مجھے امام احمد بن حمبل کا وہ قول فاصل یاد آیا۔
،،کون کتنا مکرم ہے یہ فیصلہ جنازے کریں گے،،
یقینا آج ان کا شرف ان کے جنازے نے جس طرح ہر ایک پر واضح کر دیا، کسی کے بس میں نہیں۔ اور شیخ موصوف پر یہ قول صادق آتا ہے۔۔۔
مضت الدھور وما اتین بمثلہ ولقد اتی فعجزن عن نظرائہ
نعامہ سعیدی​
 
Top