ہر جگہ وہی رونا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر آپ کو کئی جگہ جوابات پیش کر دئے گئے ہیں، لیکن آپ ہیں کہ انجان بن کر ایک جیسی باتیں کچھ دن بعد پھر سے دہرانا شروع کر دیتے ہیں۔۔!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آپ کی نفرت اور بغض و حسد، آپ کا سرمایہ زندگی ہے، اور اسی بغض میں ایک دن مر کر اللہ کے سامنے پہنچ جائیں گے۔ اس سے قبل ہی توبہ کر لیتے تو اچھا تھا۔
خیر، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس فعل کو بدعت کہا، وہ بدعت کی شرعی تعریف کی مد میں آتا ہی نہیں۔ لہٰذا ہم اسے لغوی معنوں میں بدعت گردانتے ہیں۔
ہاں، اگر یہ فعل شرعی تعریف کے لحاظ سے بھی بدعت ہوتا تو آپ کی بات کسی حد تک جائز بھی تھی۔
جیسے ، آپ پچھلی پوسٹ میں انٹرنیٹ پر دین کی تبلیغ کو بھی بدعت قرار دے رہے ہیں۔ تو یہ لغوی معنوں میں ضرور بدعت ہے۔
لیکن شرعی معنوں میں بدعت ہو ہی نہیں سکتی۔
اگر شرعی بدعت ہوتی تو آپ سب سے پہلے ہمیں اس سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے پاتے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا " کل بدعة ضلالة ہر بدعت ضلالت ہے
جب ہر بدعت کو ضلالۃ مانتے ہیں اور بدعت کی تقسیم حسنہ اور سئیہ کے قائل نہیں تو پھر کس بنیاد پر بدعت کو لغوی اور شرعی تقسیم فرماتے ہیں آسان الفاظ میں بتادیں قرآن حدیث کی دلیل کے ساتھ اس لئے ہر جگہ یہ رونا رویا جاتا ہے
جہاں تک حضرت عمر کے قول کی بات ہے تو ان کا قول یہی ہے کہ یہ بدعت حسنہ اور آپ بدعت کی یہ تقسیم مانتے نہیں یعنی اس کا مطلب یہ کہ آپ حضرت عمر کی بات کو نہیں مان رہے
یاد رہے حضرت عمر نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ" یہ بدعت حسنہ ہے "
یہ نہیں فرمایا کہ " یہ لغوی بدعت ہے "
اور آپ زبردستی حضرت عمر کی اس بدعت حسنہ کو لغوی بدعت منوانا چاہتے ہیں
آخر کچھ تو جس کی پردہ داری ہے