• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا تصوّرِ بدعت: اَز روئے تحسین و تقبیح تقسیم بدعت کاجائزہ

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ہر جگہ وہی رونا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر آپ کو کئی جگہ جوابات پیش کر دئے گئے ہیں، لیکن آپ ہیں کہ انجان بن کر ایک جیسی باتیں کچھ دن بعد پھر سے دہرانا شروع کر دیتے ہیں۔۔!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آپ کی نفرت اور بغض و حسد، آپ کا سرمایہ زندگی ہے، اور اسی بغض میں ایک دن مر کر اللہ کے سامنے پہنچ جائیں گے۔ اس سے قبل ہی توبہ کر لیتے تو اچھا تھا۔

خیر، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس فعل کو بدعت کہا، وہ بدعت کی شرعی تعریف کی مد میں آتا ہی نہیں۔ لہٰذا ہم اسے لغوی معنوں میں بدعت گردانتے ہیں۔
ہاں، اگر یہ فعل شرعی تعریف کے لحاظ سے بھی بدعت ہوتا تو آپ کی بات کسی حد تک جائز بھی تھی۔

جیسے ، آپ پچھلی پوسٹ میں انٹرنیٹ پر دین کی تبلیغ کو بھی بدعت قرار دے رہے ہیں۔ تو یہ لغوی معنوں میں ضرور بدعت ہے۔
لیکن شرعی معنوں میں بدعت ہو ہی نہیں سکتی۔
اگر شرعی بدعت ہوتی تو آپ سب سے پہلے ہمیں اس سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے پاتے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا " کل بدعة ضلالة ہر بدعت ضلالت ہے

جب ہر بدعت کو ضلالۃ مانتے ہیں اور بدعت کی تقسیم حسنہ اور سئیہ کے قائل نہیں تو پھر کس بنیاد پر بدعت کو لغوی اور شرعی تقسیم فرماتے ہیں آسان الفاظ میں بتادیں قرآن حدیث کی دلیل کے ساتھ اس لئے ہر جگہ یہ رونا رویا جاتا ہے
جہاں تک حضرت عمر کے قول کی بات ہے تو ان کا قول یہی ہے کہ یہ بدعت حسنہ اور آپ بدعت کی یہ تقسیم مانتے نہیں یعنی اس کا مطلب یہ کہ آپ حضرت عمر کی بات کو نہیں مان رہے
یاد رہے حضرت عمر نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ" یہ بدعت حسنہ ہے "
یہ نہیں فرمایا کہ " یہ لغوی بدعت ہے "
اور آپ زبردستی حضرت عمر کی اس بدعت حسنہ کو لغوی بدعت منوانا چاہتے ہیں
آخر کچھ تو جس کی پردہ داری ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
رسول اللہﷺ نے فرمایا " کل بدعة ضلالة ہر بدعت ضلالت ہے

جب ہر بدعت کو ضلالۃ مانتے ہیں اور بدعت کی تقسیم حسنہ اور سئیہ کے قائل نہیں تو پھر کس بنیاد پر بدعت کو لغوی اور شرعی تقسیم فرماتے ہیں آسان الفاظ میں بتادیں قرآن حدیث کی دلیل کے ساتھ اس لئے ہر جگہ یہ رونا رویا جاتا ہے
جہاں تک حضرت عمر کے قول کی بات ہے تو ان کا قول یہی ہے کہ یہ بدعت حسنہ اور آپ بدعت کی یہ تقسیم مانتے نہیں یعنی اس کا مطلب یہ کہ آپ حضرت عمر کی بات کو نہیں مان رہے
یاد رہے حضرت عمر نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ" یہ بدعت حسنہ ہے "
یہ نہیں فرمایا کہ " یہ لغوی بدعت ہے "
اور آپ زبردستی حضرت عمر کی اس بدعت حسنہ کو لغوی بدعت منوانا چاہتے ہیں
آخر کچھ تو جس کی پردہ داری ہے
دوسروں کے منہ میں اپنے نظریات ٹھونس کر ان کی تردید کرنا بزدلوں کا شیوہ ہے۔ جس چیز کے ہم قائل ہیں، اس پر تردید کی کیوں ہمت نہیں کرتے؟
ہم نے تو وضاحت کر دی کہ کسی بدعت کو گمراہی تو تب ہی کہہ سکتے ہیں جب کہ وہ بدعت کی شرعی تعریف پر پورا اترے۔ اگر اس تعریف پر پورا ہی نہ اترے تو لغوی طور پر بدعت کے نام سے موسوم کر دینا، اسے شرعی بدعت تو نہیں بنا سکتا۔
بالکل ایسے ہی جیسے ضعیف یا موضوع حدیث کو بھی "حدیث" کہہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی نسبت ہی جب ثابت نہیں تو موضوع کے ساتھ "حدیث" کہنا چہ معنی دارد؟ آپ کی طرح کا کوئی جاہل وہاں بھی یہی شور مچائے گا کہ دیکھو لفظ حدیث موجود ہے اور حدیث کہتے ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ہیں، لہٰذا یہ حدیث ثابت ہے۔
تو وہی الٹی کھوپڑی اور اوپر سے بغض بھری سمجھ، آپ کو یہاں وہ دکھا رہی ہے، جو موجود ہی نہیں۔ لہٰذا موتو بغیظکم

اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں ایک لفظ کو لے کر شور مچانے والوں کو جب ان کی اپنی کتب سے تحریف قرآن کی، ائمہ معصومین سے مروی، صحیح و مستند بلکہ متواتر روایات دکھائی جاتی ہیں تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ایک سے ایک دور دراز ناممکن توجیہات و تاویلات تلاش لاتے ہیں۔ اور ہم اگر جائز تاویل اور درست توجیہہ بھی پیش کر دیں تو آپ کو قبول نہیں۔ سبحان اللہ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
رمضان المبارك ميں باجماعت نماز تراويح سنت ہے بدعت نہيں


كيا باجماعت نماز تراويح بدعت شمار ہو گى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہ تھا، بلكہ سب سے پہلے اسے شروع كرنے والے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ ہيں ؟

الحمد للہ :

يہ كہنا كہ نماز تراويح بدعت ہے، سراسر غلط اور ناانصافى ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ:

كيا يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہيں تھا، بلكہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ہوا ہے، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت ہے ؟!

لہذا بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"

يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....

ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:






لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).



امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنى امت پر مكمل شفقت و مہربانى كا بيان پايا جاتا ہے. اھـ

لہذا يہ كہنا كہ نماز تروايح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت نہيں بلا وجہ اورغلط ہے، بلكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر اسے ترك كيا تھا كہ كہيں يہ امت پر فرض نہ ہو جائے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ خدشہ جاتا رہا.

اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ مرتدين كے ساتھ لڑائى اور جنگ ميں مشغول رہے، اور پھر ان كى خلافت كا عرصہ بھى بہت ہى قليل ( دو برس ) ہے، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا دور آيا اور مسلمانوں كے معاملات درست ہو گئے تو لوگ رمضان المبارك ميں اسى طرح نماز تراويح كے ليے جمع ہو گئے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جمع ہوئے تھے.

لہذا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو كچھ كيا ہے وہ زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انہوں اس سنت كا احياء كيا اور اسے كى طرف واپس گئے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
پھر وہی اپنے مولوی کا لکھا ہوا کاپی پیسٹ بھائی آپ کبھی اصل احادیث کی طرف بھی رجوع کرلیا کیجئے لیجئے میں ہی پیش کئے دیتا ہوں نماز تراویح کے حوالے سے صحیح بخاری کی حدیث اس میں رسول اللہﷺکی نماز تراویح کی پوری کفیت بیان کی گئی ہے اور آخر میں فائنلی رسول اللہﷺ کا ارشاد بھی موجود ہے کہ اس نماز تراویح کو کس طرح ادا کرنا ہے
حدثنا إسحاق،‏‏‏‏ أخبرنا عفان،‏‏‏‏ حدثنا وهيب،‏‏‏‏ حدثنا موسى بن عقبة،‏‏‏‏ سمعت أبا النضر،‏‏‏‏ يحدث عن بسر بن سعيد،‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير،‏‏‏‏ فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي،‏‏‏‏ حتى اجتمع إليه ناس،‏‏‏‏ ثم فقدوا صوته ليلة فظنوا أنه قد نام،‏‏‏‏ فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم فقال ‏"‏ ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم،‏‏‏‏ حتى خشيت أن يكتب عليكم،‏‏‏‏ ولو كتب عليكم ما قمتم به فصلوا أيها الناس في بيوتكم،‏‏‏‏ فإن أفضل صلاة المرء في بيته،‏‏‏‏ إلا الصلاة المكتوبة ‏"‏‏.
ترجمہ داؤد راز
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ' انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی ' انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ' کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا ' کہا میں نے ابو النضر سے سنا ' انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا ' ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ' پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ' یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔

رسول اللہﷺ کی نماز تراویح کی کیفیت
رسول اللہﷺ نے ایک رمضان میں مسجد نبوی میں ایک حجرہ بنالیا اس حجرے کی دیواریں چھوٹی تھیں اس لئے جب آپ اپنے اس حجرے میں اکیلے نماز تراویح ادا کررہے ہوتے تو آپﷺ حالت قیام میں لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے نظر آتے(یہاں ایک بات یاد رہے کہ یہ حجرہ جو آپﷺ نے مسجد نبوی میں بنایا اس کی وہی کفیت تھی جو فی زمانہ اعتکاف میں بیٹھنے والے مسجد میں بنا لیتے ہیں ) جب اپنے حجرے میں آپﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے لوگوں نے دیکھا تو وہ آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے جبکہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کا حکم نہیں دیا تھا ( یہاں یہ بات یاد رہے کہ آپﷺ نے نماز تراویح اپنے حجرے میں ادا کی نہ کہ فی زمانہ رائج نماز تراویح کی طرح فرض نماز کے مصلے پر ) اس حدیث کے مطابق یہ کیفیت پورے رمضان نماز پڑھنے کی نہیں رہی بلکہ دو یا تین دن اس کے بعد رسول اللہﷺ جان بوجھ کر اس طرح اپنےاس حجرے میں نہیں پڑھی اس ڈر سے کہ کہیں لوگوں پر نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو لوگ ایسے قائم نہیں رہ سکیں گے پھر اس کے بعد جو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا وہ کوئی مولوی بیان نہیں کرتا رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو


ایسی ارشاد کی بنیاد پر جب پہلے پہل حضرت عمر نے نماز تراویح پورے رمضان فرض نماز کے مصلے پر رائج کی تو ایسے دیکھ کر فرمایا کہ"یہ بدعت حسنہ ہے " کیونکہ رسول اللہﷺ کا واضح ارشاد پاک ہے کہ نماز تراویح گھر میں پڑھی جائے
والسلام
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
پ اس حدیث کے مطابق یہ کیفیت پورے رمضان نماز پڑھنے کی نہیں رہی بلکہ دو یا تین دن اس کے بعد رسول اللہﷺ جان بوجھ کر اس طرح اپنےاس حجرے میں نہیں پڑھی اس ڈر سے کہ کہیں لوگوں پر نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو لوگ ایسے قائم نہیں رہ سکیں گے پھر اس کے بعد جو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا وہ کوئی مولوی بیان نہیں کرتا رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو


ایسی ارشاد کی بنیاد پر جب پہلے پہل حضرت عمر نے نماز تراویح پورے رمضان فرض نماز کے مصلے پر رائج کی تو ایسے دیکھ کر فرمایا کہ"یہ بدعت حسنہ ہے " کیونکہ رسول اللہﷺ کا واضح ارشاد پاک ہے کہ نماز تراویح گھر میں پڑھی جائے
والسلام
وہی الٹی سمجھ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن مسجد نبوی میں نماز پڑھائی نا؟ تو یہ سنت ہوئی کہ نہیں!!!؟
اس کے بعد مسجد میں نماز نہ پڑھنے پڑھانے کی وجہ بھی اسی حدیث میں موجود ہے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہو جائے۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ یہ نماز اپنے اپنے گھروں میں ادا کرو۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ مانع تو تھا نہیں کہ اب یہ نماز فرض کر دی جائے گی۔ لہٰذا انہوں نے متفرق ائمہ کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو ایک امام کے پیچھے یکجا کر دیا، بالکل ویسے ہی جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن نماز پڑھائی تھی، ویسے ہی نماز کی ادائیگی ہونے لگ گئی۔

لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر تہمتیں لگانے والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور فقط ایک امام کے پیچھے لوگوں کو یکجا کرنے کے فعل کی مذمت کرتے وقت اپنی کتب اور اپنے ائمہ کی ان عبارتوں، متواتر حدیثوں کو بھی ضرور یاد رکھیں جو انہوں نے قرآن کی آیات گھڑنے ، قرآن کو محرف ثابت کرنے، آیات کی کمی بیشی، آیات کی تقدیم و تاخیر کے ضمن میں بیان کر کے ہمیشہ کے لئے روافض کے منہ پر کالک مل رکھی ہے۔ دوسروں کی آنکھ میں خوردبین لگا کر تنکا ڈھونڈنے والے اپنے تار تار دامن کی عریانی پر بھی نظر رکھیں تو اپنے جرم کی غلاظت اور اس کی سڑاند سے انہیں خود ہی گھن آنے لگے گی۔ ہاں غیرت کی تھوڑی سی مقدار کا ہونا شرط ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
وہی الٹی سمجھ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن مسجد نبوی میں نماز پڑھائی نا؟ تو یہ سنت ہوئی کہ نہیں!!!؟
مسجد میں فرض نماز کے مصلے پر نہیں پڑھائی بلکہ اپنے حجرے میں آپﷺ نماز اکیلے ادا فرمارہے تھے تو لوگ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے لگے پھر جب یہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو آپ نے اپنے حجرے میں بھی نماز تراویح پڑھنا ترک کردیا اور آخر میں یہی ارشاد فرمایا کہ
پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو

لیجئے ایک اور دلیل حاضر ہے
حدثنا عبد الأعلى بن حماد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا وهيب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا موسى بن عقبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سالم أبي النضر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن بسر بن سعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة ـ قال حسبت أنه قال ـ من حصير في رمضان فصلى فيها ليالي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى بصلاته ناس من أصحابه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما علم بهم جعل يقعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فخرج إليهم فقال ‏"‏ قد عرفت الذي رأيت من صنيعكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلوا أيها الناس في بيوتكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أفضل الصلاة صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة ‏"‏‏.‏ قال عفان حدثنا وهيب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت أبا النضر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن بسر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن زيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 731

ترجمہ داؤد راز
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، ابوالنضر سالم سے ، انہوں نے بسر بن سعید سے ، انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ (پردہ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بورئیے کا تھا۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتداء کی۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا (نماز موقوف رکھی) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیونکہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز (مسجد میں پڑھنی ضروری ہے) اور عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوالنضر ابن ابی امیہ سے سنا، وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے تھے، وہ زید بن ثابت سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
دوسروں کے منہ میں اپنے نظریات ٹھونس کر ان کی تردید کرنا بزدلوں کا شیوہ ہے۔ جس چیز کے ہم قائل ہیں، اس پر تردید کی کیوں ہمت نہیں کرتے؟
ہم نے تو وضاحت کر دی کہ کسی بدعت کو گمراہی تو تب ہی کہہ سکتے ہیں جب کہ وہ بدعت کی شرعی تعریف پر پورا اترے۔ اگر اس تعریف پر پورا ہی نہ اترے تو لغوی طور پر بدعت کے نام سے موسوم کر دینا، اسے شرعی بدعت تو نہیں بنا سکتا۔
بالکل ایسے ہی جیسے ضعیف یا موضوع حدیث کو بھی "حدیث" کہہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی نسبت ہی جب ثابت نہیں تو موضوع کے ساتھ "حدیث" کہنا چہ معنی دارد؟ آپ کی طرح کا کوئی جاہل وہاں بھی یہی شور مچائے گا کہ دیکھو لفظ حدیث موجود ہے اور حدیث کہتے ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ہیں، لہٰذا یہ حدیث ثابت ہے۔
تو وہی الٹی کھوپڑی اور اوپر سے بغض بھری سمجھ، آپ کو یہاں وہ دکھا رہی ہے، جو موجود ہی نہیں۔ لہٰذا موتو بغیظکم

اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں ایک لفظ کو لے کر شور مچانے والوں کو جب ان کی اپنی کتب سے تحریف قرآن کی، ائمہ معصومین سے مروی، صحیح و مستند بلکہ متواتر روایات دکھائی جاتی ہیں تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ایک سے ایک دور دراز ناممکن توجیہات و تاویلات تلاش لاتے ہیں۔ اور ہم اگر جائز تاویل اور درست توجیہہ بھی پیش کر دیں تو آپ کو قبول نہیں۔ سبحان اللہ۔
بھائی اس رافضی کا بغض وقت کے ساتھ واضح ہو گیا ہے اور اس کے سوال بھی برائے تنقید و تنقیص ہوتے ہیں میرے خیال میں اس سے اپنے سوالوں کے جواب مانگے جائیں جو وہ اب تک نہیں دے سکا اور اگر پھر بھی وہ روائیتی دھوکے بازی اور تقیہ سے کام لے تو فورم میں اس کو بین کر دینا چاہیے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بھائی اس رافضی کا بغض وقت کے ساتھ واضح ہو گیا ہے اور اس کے سوال بھی برائے تنقید و تنقیص ہوتے ہیں میرے خیال میں اس سے اپنے سوالوں کے جواب مانگے جائیں جو وہ اب تک نہیں دے سکا اور اگر پھر بھی وہ روائیتی دھوکے بازی اور تقیہ سے کام لے تو فورم میں اس کو بین کر دینا چاہیے -
نہ ہی بھائی فورم میں ان کا اکاونٹ بین نہیں کرنا چاھیے ہمارا کام حق لوگوں تک پہچانا ہے ھدایت اللہ سبحان و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ ھدایت اس ہی کو دیتا ہے جس کو طلب ہوتی ہے-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
مسجد میں فرض نماز کے مصلے پر نہیں پڑھائی بلکہ اپنے حجرے میں آپﷺ نماز اکیلے ادا فرمارہے تھے تو لوگ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے لگے پھر جب یہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو آپ نے اپنے حجرے میں بھی نماز تراویح پڑھنا ترک کردیا اور آخر میں یہی ارشاد فرمایا کہ
پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو
الحدیث یفسر بعضہ بعضا۔ پہلی حدیث جو آپ ہی نے پیش کی۔ اس کے یہ الفاظ بھی آپ ہی نے ہائی لائٹ کئے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے
لہٰذا۔ ہمارا مؤقف اور آپ کا بغض دونوں ثابت۔ باقی نفرت تو انسان کو اندھا کر ہی دیتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جمع کردہ قرآن کو جب آپ کے اکابرین نے محفوظ نہ مانا اور بغض صحابہ میں قرآن تک کی تحریف پر متفق ہو گئے، تو ایک نفل نماز کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
پھر وہی اپنے مولوی کا لکھا ہوا کاپی پیسٹ بھائی آپ کبھی اصل احادیث کی طرف بھی رجوع کرلیا کیجئے لیجئے میں ہی پیش کئے دیتا ہوں نماز تراویح کے حوالے سے صحیح بخاری کی حدیث اس میں رسول اللہﷺکی نماز تراویح کی پوری کفیت بیان کی گئی ہے اور آخر میں فائنلی رسول اللہﷺ کا ارشاد بھی موجود ہے کہ اس نماز تراویح کو کس طرح ادا کرنا ہے

ترجمہ داؤد راز
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ' انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی ' انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ' کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا ' کہا میں نے ابو النضر سے سنا ' انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا ' ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ' پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ' یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔

رسول اللہﷺ کی نماز تراویح کی کیفیت
رسول اللہﷺ نے ایک رمضان میں مسجد نبوی میں ایک حجرہ بنالیا اس حجرے کی دیواریں چھوٹی تھیں اس لئے جب آپ اپنے اس حجرے میں اکیلے نماز تراویح ادا کررہے ہوتے تو آپﷺ حالت قیام میں لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے نظر آتے(یہاں ایک بات یاد رہے کہ یہ حجرہ جو آپﷺ نے مسجد نبوی میں بنایا اس کی وہی کفیت تھی جو فی زمانہ اعتکاف میں بیٹھنے والے مسجد میں بنا لیتے ہیں ) جب اپنے حجرے میں آپﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے لوگوں نے دیکھا تو وہ آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے جبکہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کا حکم نہیں دیا تھا ( یہاں یہ بات یاد رہے کہ آپﷺ نے نماز تراویح اپنے حجرے میں ادا کی نہ کہ فی زمانہ رائج نماز تراویح کی طرح فرض نماز کے مصلے پر ) اس حدیث کے مطابق یہ کیفیت پورے رمضان نماز پڑھنے کی نہیں رہی بلکہ دو یا تین دن اس کے بعد رسول اللہﷺ جان بوجھ کر اس طرح اپنےاس حجرے میں نہیں پڑھی اس ڈر سے کہ کہیں لوگوں پر نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو لوگ ایسے قائم نہیں رہ سکیں گے پھر اس کے بعد جو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا وہ کوئی مولوی بیان نہیں کرتا رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو


ایسی ارشاد کی بنیاد پر جب پہلے پہل حضرت عمر نے نماز تراویح پورے رمضان فرض نماز کے مصلے پر رائج کی تو ایسے دیکھ کر فرمایا کہ"یہ بدعت حسنہ ہے " کیونکہ رسول اللہﷺ کا واضح ارشاد پاک ہے کہ نماز تراویح گھر میں پڑھی جائے
والسلام
حضرت عمر رضی عنہ نے " باجماعت تراویح کو بدعت حسنہ " اس لئے قرار دیا کہ کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا- لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔ جیسے میلاد ، تیجہ ، چالیسواں وغیرہ -یعنی وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ''نعمت البدعۃ ہذہ''- اور اس بات کی تصدیق نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے فرمان سے ہوتی ہے -جس میں آپ نے ،فرمایا کہ میری امّت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی -تمام جہنّم میں ہونگے صرف ایک فرقہ جنّت میں جائے گا - صحابہ کرام نے پوچھا کہ وہ کون سا خوش نصیب فرقہ ہوگا- نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا کہ جو میرے اور میرے صحابہ کی سنّت پر عمل پیرا ہو گا" - مطلب یہ کہ صحابہ کرام کا اجتہاد بھی تمام امّت کے لئے اسی طرح حجت ہے جیسا کہ نبی کریم نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی سنّت مبارکہ تمام امّت کے لئے حجت رکھتی ہے- اگر صحابہ کا عمل حجت نہ ہوتا تو آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم صرف یہ کہتے کہ جو صرف میری سنّت پر عمل پیرا ہوگا وہی جنّتی ہو گا - صحابہ کرام رضوان اللہ اجمین چوں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے براہ راست تعلیم یافتہ تھے - اس لئے آپ نے خوصوصی طور پراپنے صحابہ کرام کے اعمال وافکار کوبھی امّت مسلمہ کے لئے خیر و برکت کا موجب قرار دیا -

نبی کریم نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے پس تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان] - مطلب یہ کہ خلفائے راشدین رضوان الله اجمین سے بدعت کا ظہور ممکن نہیں - ورنہ حدیث میں خلفائے راشدین کا خوصوصی ذکر اور پھر ان کی سنّت پر عمل کے حکم نبوی کی کیا حثیت رہ جاتی ہے -

والسلام -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حضرت عمر رضی عنہ نے " باجماعت تراویح کو بدعت حسنہ " اس لئے قرار دیا کہ کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا- لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔ جیسے میلاد ، تیجہ ، چالیسواں وغیرہ
والسلام -
حضرت عمر نے تراویح کی نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کے دیکھ کر یہ نہیں فرمایا کہ یہ بدعت لغوی ہے بلکہ فرمایا یہ بدعت حسنہ ہے جب کہ آپ کے نزدیک بدعت حسنہ ہوتی ہی نہیں اور جو بات حضرت عمر نے نہیں کہی ایسے آپ حضرات زبردستی حضرت عمر کی طرف نسبت دے رہیں

اور جو آپ کے نزدیک بدعت ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا کہ میلاد ، تیجہ ، چالیسواں ان میں کیا ہوتا ہے سوائے اس کے کہ لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا جو رسول اللہﷺ کے ارشاد کے مطابق " کھانا کھلانا اسلام ہے "
یہ تو الٹی گنگا ہی بہا دی کہ نماز تراویح رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق گھر پر ادا کرنی چاہئے اس فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے مسجد میں با جماعت پڑھنا آپ کے نزدیک بدعت لغوی اور جس کام یعنی کھانا کھلانا کو رسول اللہﷺ اسلام اور ایمان کہیں وہ عمل بدعت شرعی غور فرمائیں
 
Top