چلیں اس کو آپ ہی طریقے سے ایک اور انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
آپ کا یہ کہنا کہ نماز تراویح مسجد میں ادا کی رسول اللہﷺ نے اس بات کا انکار نہیں مگر اس بات کو بھی تو آپ مان لیں کہ مسجد میں ایک حجرہ بنا کر آپ ﷺ نماز ادا فرمایا کرتے تھے نہ کہ فرض نماز کے مصلے پر چلیں ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے کہ آپ ﷺ نے نماز تراویح کا مسجد میں پڑھنے کا حکم بھی دیا لیکن بعد میں اس حکم کو منسوخ بھی آپﷺ نے فرمادیا یہ ارشاد فرماکر کہ
فصلوا أيها الناس في بيوتكم
لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو
اس لئے آپ کے اپنے قاعدوں کے مطابق نماز تراویح مسجد میں پڑھنے کا حکم منسوخ ہوچکا ہے درج بالا فرمان مصطفیٰ ﷺ سے اب اس پر زور دینا اور نماز تراویح کو بدعت لغوی کہنا آپ کے قاعدوں کے خلاف ہے ایسی لئے جب اس بدعت کو پہل پہل جاری کیا گیا تو ایسے بدعت حسنہ کہا گیا کیوں کہ جو حکم منسوخ ہو چکا تھا اس پر دوبارہ عمل کیا گیا
یہ آپ نے ہمارے کہنے پر نہیں مانا ہے۔ آئینے میں دیکھ کر ارشاد فرما رہے ہیں۔
جب صریح حدیث مسجد میں نماز تراویح پڑھنے کی موجود ہے تو ہمارا مدعا ثابت ۔
رہی یہ بات کہ یہ منسوخ ہو گیا۔ جناب، منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ انہی احادیث میں یہ مذکور ہے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، اس ڈر سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ یہ نماز پڑھائی ہی نہیں۔ گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم دینے کی علت ہی یہ تھی کہ مسجد میں سب مل کر نماز پڑھیں گے تو نماز کہیں فرض نہ ہو جائے۔ یہ مانع تھا ہی فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ اب یہ مانع تو رہا نہیں، انہوں نے متفرق طور پر علیحدہ نماز پڑھنے والوں کو ایک امام کے پیچھے یکجا کر دیا۔
اور رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسے بدعت حسنہ کہنا تو ان کے دور تک بدعات کی یہ تقسیم بدعت حسنہ اور بدعت سیہ ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو بعد کے لوگوں کی ایجاد ہیں۔ اس کا اطلاق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر کرنا ہی تو اصل زیادتی ہے۔ آپ الفاظ پر زیادہ زور دیتے ہیں لیکن نہ سیاق و سباق دیکھتے ہیں اور نہ جس فعل پر اس کا اطلاق کیا گیا، اسے ہی شرعی بدعت ثابت کر پائے ہیں۔ لہٰذا الفاظ اگر آپ اہل سنت کی کتب سے لیتے ہیں تو مفہوم بھی ہماری کتب سے لیجئے نا کہ خود سے گھڑ کر ہم پر تھونپنا شروع کر دیں۔
اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم، آپ پر تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنے کا الزام لگاتے ہیں تو خود سے مفاہیم نہیں گھڑتے، بلکہ آپ کے علماء کی شروحات پیش کرتے ہیں، مثلاً یہ ملاحظہ کیجئے کہ آپ کے کوئی حکیم مقبول احمد صاحب دہلوی ترجمہ قرآن میں آپ کے عقیدہ تحریف قرآن پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
"معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن میں ظاہر اعراب لگائے گئے ہیں تو شراب خور خلفاء کی خاطر یعصرو کا یعصرون سے بدل کر معنی کو زیر و زبر کیا گیا ہے یا مجہول کو معروف سے بدل کر لوگوں کے لئے ان کے کرتوت کی معرفت آسان کر دی گئی ہے۔ ہم اپنے امام کے حکم سے مجبور ہیں کہ جو تغیر یہ لوگ کریں تم اس کو اسی کے حال پر رہنے دو اور تغیر کرنے والے کا عذاب کم نہ کرو۔ ہاں جہاں تک ممکن ہو لوگوں کو اصل حال سے مطلع کر دو۔ قرآن مجید کو اس کی اصلی حالت پر لانا جناب صاحب العصر علیہ السلام کا حق ہے ۔ اور انہی کے وقت میں وہ حسب تنزیل خدا تعالیٰ پڑھا جائے گا۔"
اسکین یہاں ملاحظہ کیجئے
مندرجہ بالا مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے ہم آپ پر تحریف قرآن کے عقیدہ کا الزام لگاتے ہیں تو ثبوت میں فقط احادیث کے ایسے الفاظ پیش کر کے مطمئن نہیں ہو جاتے کہ جس سے ایک سے زائد مفاہیم لئے جا سکتے ہوں یا جو آپ کا عقیدہ ہی نہ ہو اور ہم بزور اسے آپ سے منوائیں۔ بلکہ آپ ہی کے علماء سے اسے ثابت بھی کیا جاتا ہے۔ آپ اہل سنت،( اہلحدیث یا سلفی ) کسی مستند عالم سے یہ دکھا دیجئے کہ تراویح کی نماز بدعت ہے، اور پھر بات آگے بڑھائیں۔