شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,013
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں۔
اس عنوان کو پڑھ کر ہر حنفی اس کا انکار کرتے ہوئے بڑے یقین سے کہے گا کہ یہ بات بالکل غلط اور خلاف واقع ہے کیونکہ ہم ہرگز ہرگز اپنے امام ابوحنیفہ کی عبادت نہیں کرتے بالکل ایسے ہی جیسے عیسائی مذہب کو چھوڑ کر دین اسلام قبول کرنے والے صحابی عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے قرآ ن کی آیت اتّخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ (سورہ توبہ: ۳۱) سن کر کہا تھا کہ ہم نے توکبھی اپنے علماء کی عبادت نہیں کی(سنن ترمذی)
جس طرح عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ عیسائی ہوتے ہوئے اپنے علماء کی عبادت کر رہے تھے اور اس حقیقت سے لاعلم اور بے خبر تھے اسی طرح حنفی حضرات بھی حقیقت سے بے خبر دن رات ابوحنیفہ کی عبادت میں مصروف عمل ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے تو یہ کہہ کر عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی دور فرما دی کہ عیسائیوں کا اپنے علماء اور درویشوں کی حلال او ر حرام کردہ چیزوں کو تسلیم کر لینا ہی اصل میں ان کا اپنے علماء کو رب بنانا اور ان کی عبادت کرنا ہے۔ اس فعل میں عیسائی واقعتا ملوث تھے جس کا اعتراف عدی بن حاتم ؓ نے فرمایا۔اب ہم حنفیوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے ان کے علماء کی وہ تحریرات پیش کرتے ہیں جس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ عیسائیوں کی طرح حنفی بھی اللہ کی وحی کے مقابلے میں اپنے علماء اور اماموں کو واجب الاطاعت قرار دے کر ان کی عبادت میں مصروف ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح عدی بن حاتم ؓ نے حقیقت کا اعتراف فرمالیا تھا اس طرح حنفی حضرات بھی اعتراف حقیقت کرتے ہیں یا اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں۔
۱۔ غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کے تحت عدی بن حاتم ؓ کی حدیث بحوالہ جامع ترمذی درج کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
(تبیان القرآن: ۵/۱۲۲)قرآن مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیاکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لینا ہے۔
۲۔ مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
بریلویوں اور دیوبندیوں کے مستند علماء کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنت کے مقابلے میں کسی عالم یا امام کے قول کو ترجیح دینا ہی اصل میں اس عالم یا امام کی عبادت کرنا اور اسے رب بناناہے۔
حنفیوں نے کس طرح قرآن و سنت کے مقابلے میں اپنے امام کے قول کو مقدم رکھکر اپنے امام کورب بنایا ہے اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ قرآن کے بارے میں حنفیوں کا یہ اصول دیکھیں:
(اصول کرخی، صفحہ 12 )ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
اصول کرخی میں ایسا ہی ایک اصول حدیث کے بارے میں بھی بنایا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حنفی فقہاء کے اقوال کو قرآن و حدیث کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن حنفیوں نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے اس کے برعکس کیا۔ حنفیوں کا یہ اصول اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ ان کے ہاں امام کی تقلید ہر حال میں واجب ہے اگر چہ وہ قرآن کے خلاف ہو یا حدیث کے۔ امام کے قول کے آگے آنی والی ہر دیوار چاہے وہ قرآن ہو یا حدیث اسے گرانا ضروری ہے مذکورہ بالا اصول اسی ضرورت کے تحت وضع کیا گیا ہے۔ اپنے اماموں کو رب بنانے اور ان کی عبادت کرنے کی یہ بدترین مثال ہے۔
۲۔ شیخ احمد سرہندی تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
(مکتوبات، جلد 1، صفحہ 718، مکتوب : 312)جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ و عقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کرکے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔
لعنت ہے ایسی تقلید پر جو انسان کو قرآن وحدیث پر عمل کرنے سے روک دے۔
۳۔ محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
یہی نص پر قول کو ترجیح دینا ہے جو کہ بقول اشرف علی تھانوی علماء کی عبادت ہے۔
۴۔ مفتی تقی عثمانی دیوبندی رقم طراز ہیں:
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
انا اللہ وانا علیہ راجعون! تقی عثمانی صاحب کی اس تحریر سے یہ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک امام کی مخالفت میں قرآن اور حدیث پرعمل کرنا گمراہی ہے جبکہ اس کے برعکس قرآن اور حدیث کی مخالفت میں امام کے قول پر عمل کرنا عین حق اور صراط مستقیم ہے۔استغفراللہ۔ یہ لوگ شاید اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہوگئے ہیں جو مسلمانوں پر حدیث کو چھوڑنااور امام کے قول کو لازم پکڑنا فرض قرار دے رہے ہیں۔ثابت ہوگیا کہ حنفی قرآن اور حدیث کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بلکہ چھوڑ چکے ہیں لیکن اپنے امام کے قول کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔
اس کے بعد بھی کیا یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ واقعی یہ لوگ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں؟! ایسے ماننے کا کوئی فائدہ نہیں کہ صرف زبانی کلامی رب اللہ کو مانا جائے اور عبادت اپنے امام کی کی جائے۔ یہ عبارات چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہیں کہ حنفی عملی طور پر اپنے امام کو اپنا رب بناتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں۔
۵۔ مفتی احمد یار نعیمی بریلوی حنفیوں کے نزدیک قرآن اور حدیث کی حیثیت یوں واضح کرتے ہیں:
(جاء الحق، حصہ دوم، صفحہ 484)کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔
(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 22)ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کا قول و فعل اپنے لئے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے۔
معلوم ہوا کہ حنفیوں کے نزدیک قول امام کے سامنے قرآن اور حدیث کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قرآن اور حدیث پر عمل کرنے والاحنفیوں کے نزدیک گمراہ اور گمراہ کرنے والاہے لیکن امام کے ہر صحیح اور غلط اقوال کو تھام لینے والاہی صراط مستقیم پر ہے۔احمد یار نعیمی بریلوی تفسیر صادی سے بطور رضامندی نقل کرتے ہیں:
(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 33)یعنی چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیوں کہ حدیث و قرآن کے محض ظاہری معنےٰ لینا کفر کی جڑ ہے۔
غلام رسول سعیدی بریلوی کی تصریح کے مطابق حنفیوں کا یہی رویہ دینی پیشوا یا امام کو خدا بنالیناہے کہ یہ لوگ اللہ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے دینی پیشوا یا امام یا عالم کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔
۶۔ احمد رضا بریلوی نے پوری ایک کتاب بنام اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام صرف اس مسئلہ پر لکھی ہے کہ فتویٰ ہمیشہ قول امام پر ہوتا ہے۔اس بات سے انہیں کوئی غرض نہیں کہ امام کا فتویٰ قرآن کے مخالف ہے یا حدیث کے۔ بلکہ امام کے قول کے مقابلے میں یہ لوگ صحیح احادیث کی مخالفت کے لئے بھی بخوشی تیار ہو جاتے ہیں چناچہ احمد رضا لکھتے ہیں:
(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام ص۱۲۸)انھیں وجوہ سے صحیح و موکد احادیث کے خلاف کیا جاتا ہے۔
پھر مزید ایک جگہ لکھتے ہیں:
(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام ص۱۶۳)امام کا قول ضروری ایسا امر ہے جس کے ہوتے ہوئے نہ روایت پر نظر ہوگی نہ ترجیح پر۔
بریلویوں کے امام جناب احمد رضا صاحب کس قدر ڈھٹائی سے اقرار کر رہے ہیں کہ امام کے قول کے سامنے نہ روایت( قرآن وحدیث) دیکھی جائے گی نہ ترجیح اور یہ بھی اعتراف فرما رہے ہیں کہ ان کے مذہب میں صحیح احادیث کی مخالفت کی جاتی ہے۔ اب کوئی صاحب انصاف ہمیں بتائیں کہ اس کے علاوہ اور کیا چیز ہے جسے حنفیوں کی طرف سے ان کے امام، ابوحنیفہ کی عبادت سے تعبیر کیا جائے؟!
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ حنفیوں کا اپنے امام ابوحنیفہ کی عبادت سے زبانی کلامی انکار ان کی لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ ہے۔ جبکہ یہ لوگ حقیقتاً اپنے امام کی عبادت کرتے ہیں۔ اور جس طرح عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا اپنے علماء کو رب بنانے اور ان کی عبادت سے انکار خلاف واقع تھااسی طرح حنفیوں کا یہ انکار بھی غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
حنفی حضرات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس معاملے میں ان کی جہالت اور بے خبری یا ہٹ دھرمی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی اور نہ ہی اس سے حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع ہوگی۔ انہیں اللہ سے ڈر جانا چاہیے اور ابوحنیفہ کی عبادت کو چھوڑ کر ایک اللہ واحد لاشریک کی عباد ت کرنی چاہیے تاکہ جنت کا حصول اور جہنم سے دوری ممکن ہوسکے۔