• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی تھے

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
حمیر یوسف صاحب!
میری بات سادہ الفاظ میں ہےکہ آپ لوگ ہمارے معمولات پر دلیل خاص مانگتےہیں کہ ایسی حدیث دکھائیں جس میں یہ لکھا ہوکہ جلوس نکالو، روشنی کرو وغیرہ ، تو جناب ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ بھی حدیث لکھتے تھے ، کیا کسی نے ایسے عمل کیا ؟جو عمل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر کیا ، اس کی کوئی دلیل حدیث یا صحابہ کرام کے عمل سے پیش کریں ۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
حمیر یوسف صاحب!
میری بات سادہ الفاظ میں ہےکہ آپ لوگ ہمارے معمولات پر دلیل خاص مانگتےہیں کہ ایسی حدیث دکھائیں جس میں یہ لکھا ہوکہ جلوس نکالو، روشنی کرو وغیرہ ،
جی بالکل اسی وجہ سے آپ لوگوں سے وہ "دلیل خاص" مانگتے ہیں کہ آپ کے یہ معمولات کب اور کسطرح عبادات میں تبدیل ہوجاتے ہیں، اسکے لئے آپ لوگ ایسی کیا "دلیل خاص" شرعی ماخذ سے پکڑتے ہیں؟؟؟


تو جناب ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ بھی حدیث لکھتے تھے ، کیا کسی نے ایسے عمل کیا ؟جو عمل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر کیا
میرے خیال سے میں نے اپنی پوسٹ نمبر 20 میں اس بات کا ایک بہت اچھا جواب دیا تھا، جو جناب عالیٰ نے لگتا ہے پڑھنے کی بھی یا دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بھائی جان آپ کے لئے دوبارہ پوسٹ نمبر 20 کا ریفرنس دیتا ہوں، دوبارہ، سہ بارہ بلکہ جتنی مرتبہ چاہے اسکو پڑھیے، اسی میں آپ کے مطلوبہ سوال کا جواب موجود ہے۔


اب کچھ سوالات میں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہو، اور امید طلب کرتا ہوں کہ اسکا مجھے آپ کچھ تسلی بخش اور شافی جواب دیں گے۔ سوال کچھ اسطرح کے ہیں کہ
  • کیا یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنے مرتے وقت تک کا معمول تھا کہ جب بھی وہ اپنی کتاب میں حدیث نقل کرتے، ہمیشہ غسل کرکے دو رکعت نماز استخارہ کرکے وہ حدیث نقل کرتے؟
  • یہ انکا معمول آخری وقت تک تھا کیا؟ کیا وہ حدیث درج کرتے وقت کسی خاص مہینے کا انتظار کرتے، یا پھر سال کے بارہ مہینے کسی بھی دن، کسی بھی ساعت کے بغیر یہ کام کیا کرتے تھے؟
  • امام بخاری کی صحیح میں تقریبا ساڑھے چار ہزار احادیث موجود ہیں، تو انہوں نے کیا ساری کی ساری احادیث، اسی معمول کے تحت درج کیں یا کبھی کبھی اس معمول سے ہٹ کر بھی انکا اندراج کیا؟
  • کیا صرف انہوں نے ان احادیث کو اس معمول کے تحت اپنی صحیح میں درج کیا جنکے بارے میں اپنی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود، صرف اسی خدشے کے سبب کہ آنحضرت ﷺ سے منسوب کوئی جھوٹ انکی کتاب میں درج نہ ہوجائے، یا ہر حدیث کے لئے یہ انکا روٹین کا معمول تھا، جسکو انہوں نے سالانہ بغیر کسی ناغہ کے دوہرایا؟
  • کیا مرنے کے بعد انہوں نے کسی دوسرے محدث کو بھی اس بات کا پابند بنایا کہ وہ بھی سالانہ، ماہانہ یا روزآنہ اپنی کتاب میں جب بھی کوئی حدیث درج کرے، ایسا ہی معمول کرے جیسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کر کے دکھایا؟
  • امام بخاری رحمہ اللہ کے ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں شاگرد گزرے ہیں۔ آپ سو پچاس نہیں، صرف ایک یا دو ہی انکے اس شاگرد کا نام بتادیں، جس نے سال کے سال، پابندی سے، کسی مخصوص مہینے میں اپنی حدیث کی کتاب میں کوئی بھی حدیث درج کرتے وقت، دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر، حدیث درج کی ہو؟ صرف ایک یا دو نام ہی کافی ہونگے۔

اسی طرح کے ہزاروں سوالات بن سکتے ہیں، پہلے انکے شافی جوابات تحریر کریں، پھر بات آگے چلے گی آپ سے
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
ایک حدیث بتانے کی بجائے آپ کی جان پر بنی ہوئی ہے، شرمائیں نہیں ،ایک حدیث اس عمل پر لکھ دیں۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
خلیل صاحب آپکے اس اقتباس میں ہی جواب موجود ہے، آپ لکھنے سے پہلے کچھ اپنے لکھے ہوئے پر ہی غور کرلیتے تو شائد اسطرح کی ہلکی بات نہیں کرتے۔ صحابہ کرام جو حدیث لکھتے، انکو اس بات کا کامل یقین ہوتا کہ جو وہ لکھ رہے ہیں، وہ یقینا آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، کیونکہ انکا زمانہ بالکل حضور اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک سے متصل تھا۔ لہذہ انکو یہ یقین کرلینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ یہ حدیث، حضور اکرم ﷺ کی حدیث ہے بھی یا نہیں، بہت ہوا تو وہ آپس میں ہی تصدیق کرکے احادیث کو درج کرلیا کرتے تھے۔ دوسری طرف امام بخاری علیہ الرحمہ کو دیکھتے ہیں۔ انکا زمانہ، آنحضرت ﷺ کے وصال سے تقریبا 250 ، 300 سال بعد کا ہے، جب انہوں نے اپنی کتاب مرتب کرنا شروع کی، تو تمام کے تمام صحابہ کرام وفات پاچکے تھے، تو وہ اپنی قلبی تصدیق کسطرح کرتے؟ اور آپکو یہ بھی پتہ ہے کہ انکے سامنے بھی جھوٹی حدیثوں کے انبار موجود موجود تھے، جن میں سے انکو اپنے معیار سے صحیح احادیث منتخب کرنا تھیں۔ اسی لئے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی سعی کی، اور دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر، جو وہ اپنی دانست میں آنحضرت ﷺ سے منسوب صحیح بات ہے، صرف اسی کو درج کرنے کا التزام کیا۔
اب آپ بھی اپنی ضد چھوڑوں اور میری ان باتوں کو زرا ٹھنڈے دل سے سوچوں، ہر معاملے میں ضد اچھی نہیں ہوتی۔
جزاک اللہ ، میرے دل کی بات اپ نے لکھ دی،،،:)
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ایک حدیث بتانے کی بجائے آپ کی جان پر بنی ہوئی ہے، شرمائیں نہیں ،ایک حدیث اس عمل پر لکھ دیں۔
واہ جی واہ، تین ضدیں مشہور ہیں .عورت کی ضد, بادشاہ کی ضد اور بچوں کی ضد یعنی تریا ہٹ, راج ہٹ, بالک ہٹ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ آپ کی یہ ضد کونسی ہے؟ اور یہ بھی مشہور ہے کہ "ضد کا کوئی علاج نہیں"، اسی لیے آپ سے بحث کرنا اب فضول ہے۔ چلیں فرض کرلیتے ہیں کہ ہمیں یہاں پر وہ "حدیث" نہیں پتہ جسکا تقاضہ آپ بار بار کررہے ہیں، تو ذرا آپ ہی ہماری رہنمائی ادھر کرسکتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے آخر کس حدیث کی رو سے اپنا یہ عمل یہاں کیا؟

اور یاد رہے، آپ کے اوپر ابھی ان سوالات کا قرض چڑھا ہوا ہے، جو میں نے اپنی اس سے اوپر والی پوسٹ، پوسٹ نمبر 22 میں پوچھے تھے۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
جناب یوسف صاحب !
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ ہیں :
’’میں نے اپنی کتاب جامع الصحیح میں کوئی حدیث درج نہیں کی مگر پہلے میں نے غسل کیا اور دو رکعت نفل پڑھے‘‘۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان کے بعد آپ کے سوال فضول ہیں، آپ کے پاس امام بخاری علیہ الرحمہ کے اس عمل پرکوئی حدیث ہے تو یہاں اس کا حوالہ دیں۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
جناب یوسف صاحب !
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان کے بعد آپ کے سوال فضول ہیں، آپ کے پاس امام بخاری علیہ الرحمہ کے اس عمل پرکوئی حدیث ہے تو یہاں اس کا حوالہ دیں۔
میں تو کہتا ہوں کہ ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کے عمل کو سہارا دے۔ اب آپ لگاؤ امام بخاری رحمہ اللہ پر مبتدی یعنی بدعت کا فتویٰ، جو کہ آپ کی پوسٹ کا عنوان بھی ہے۔ اور کھلے عام یہ اعلان کریں آپ کہ امام بخاری رحمہ علیہ بھی بدعت شرعی میں مبتلا تھے۔ (انا للہ وانا علیہ راجعون)

جب کہ میرا اس سلسلے میں جو موقف ہے وہ پوسٹ نمبر 10 اور 20 سے ظاہر ہے۔
خلیل رانا بھائی، میرے خیال سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ عمل انکا آنحضرت ﷺ سے منسوب کوئی غلط بات کا منسلک نہ کرنے کے لئے تھا، اور ساتھ ہی اپنے دلی اطیمنان و تسلی کے لئے بھی تھا کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کررہے۔ نیز جب انکو اس عمل سے اس بات کا قلبی یقین ہوجاتا کہ وہ جس حدیث کو آنحضرت ﷺ سے منسوب کررہے ہیں، تبھی وہ اس حدیث مبارکہ کو اپنی کتاب میں درج کرتے۔ میرے حساب سے اسکی یہ توجیح بنتی ہے، اسمیں کوئی عمل بدعت نہیں کہلائے گا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ایک حدیث بتانے کی بجائے آپ کی جان پر بنی ہوئی ہے، شرمائیں نہیں ،ایک حدیث اس عمل پر لکھ دیں۔
السلام علیکم !

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔

اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔

تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :

علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونو‎ں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جناب یوسف صاحب !
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ ہیں :
’’میں نے اپنی کتاب جامع الصحیح میں کوئی حدیث درج نہیں کی مگر پہلے میں نے غسل کیا اور دو رکعت نفل پڑھے‘‘۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان کے بعد آپ کے سوال فضول ہیں، آپ کے پاس امام بخاری علیہ الرحمہ کے اس عمل پرکوئی حدیث ہے تو یہاں اس کا حوالہ دیں۔
السلام علیکم !

کسی بھی کام سے پہلے دو رکعت استیخارہ کا حکم اللہ نے دیا ہے اور آپ سے بدعت کہہ رہے ہیں کچھ تو اللہ کا خوف کرے -

میرے بھائی تقلید کا پٹا گلے سے اتار کر آپ اس کو پورا پڑھے اس میں آپ کے سوال کا جواب ہیں - اور پھر بھی آپ امام بخاری رحمہ اللہ کو بدعتی کہنے پر بضد ہے تو اپنے علماء سے امام بخاری کا مقام معلوم کر لے -


امام بخاری رحمہ اللہ علم کا وہ پودا بویا ہے جس کا ثواب ان کو قیامت تک ملتا رہے گا -

اس فتویٰ کو ایک بار ضرور پورا پڑھے


اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو صراط مستقیم کا راستہ دکھا دے - آمین یا رب العالمین

نماز استخارہ :

سوال :

ميں نماز استخارہ كے متعلق مزيد معلومات حاصل كرنا چاہتا ہوں، مثلا اس ميں تلاوت كيا كروں، اور كونسى دعاء كروں، ركعات كى تعداد كتنى ہے اور اس كا اجروثواب كيا ہے؟

اور كيا حنبلى، اور شافعى اور حنفى مسلك ميں نماز كا يہى طريقہ ہے ؟


الحمد للہ :

اگر كوئى شخص كوئى كام كرنا چاہے اور وہ اس ميں متردد ہو تو اس كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز استخارہ مشروع كى ہے اور يہ سنت ہے، نماز استخارہ كے متعلق ان سطور ميں درج ذيل آٹھ نقاط ميں بحث كى جائے گى:

1 - نماز استخارہ كى تعريف.

2 - نماز استخارہ كا حكم

3 - اس كى مشروعيت كى حكمت كيا ہے.

4 - نماز استخارہ كا سبب كيا ہے.

5 - استخارہ كب كيا جائے گا.

6 - استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا.

7 - نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا.

8 - استخارہ كى دعاء كب كى جائے گى.


نماز استخارہ كى تعريف:

استخارہ كى لغوى تعريف: كسى چيز ميں سے بہتر كو طلب كرنا، كہا جاتا ہے: استخر اللہ يخر لك، اللہ تعالى سے استخارہ كرو وہ تمہارے ليے بہتر اختيار كر دے گا.

استخارہ كى اصطلاحى تعريف:

اختيار طلب كرنا. يعنى نماز يا نماز استخارہ ميں وارد شدہ دعاء كے ساتھ اللہ تعالى كے ہاں جو بہتر اور اولى و افضل ہے اس كى طرف پھرنے اور وہ كام كرنا طلب كرنا.

نماز استخارہ كا حكم:

نماز استخارہ كے سنت ہونے ميں علماء كرام كا اجماع ہے، اور اس كى مشروعيت كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ہميں سارے معاملات ميں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے جس طرح ہميں قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے:

" جب تم ميں سے كوئى ايك شخص كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كر كے يہ دعاء پڑھے:


" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "

اے اللہ ميں ميں تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں ( كسى چيز پر ) قادر نہيں، تو جانتا ہے، اور ميں نہيں جانتا، اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے، الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.

اور وہ اپنى ضرورت اور حاجت يعنى كام كا نام لے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1166 ) يہ حديث كئى ايك جگہ ميں امام بخارى رحمہ اللہ نے ذكر كي ہے.

نماز استخارہ كى مشروعيت كى حكمت:

استخارہ كى مشروعيت ميں حكمت يہ ہے كہ اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، اور طاقت و قدرت سے نكل كر اللہ تعالى كى طرف التجاء كى جائے، تا كہ وہ دنيا و آخرت كى خير و بھلائى جمع كر دے، اور اس كے ليے اس مالك الملك سبحانہ وتعالى كا دروازہ كھٹكھٹانے كى ضرورت ہے، اور اس كے ليے نماز اور دعاء سے بڑھ كر كوئى چيز بہتر اور كامياب نہيں كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كى تعظيم اور اس كى ثناء اور اس كى طرف قولى اور حالى طور پر محتاجگى ہے، اور پھر استخارہ كرنے كے بعد اس كے ذہن ميں جو آئے وہ اس كام كو سرانجام دے.

استخارہ كا سبب:

( جن ميں استخارہ كيا جاتا ہے ) اس كا سبب يہ ہے كہ: مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ استخارہ ان امور ميں ہوگا جن ميں بندے كو درست چيز كا علم نہ ہو، ليكن جو چيزيں خير اور شر ميں معروف ہيں اور ان كے اچھے اور برے ہونے كا علم ہے مثلا عبادات، اور نيكى كے كام اور برائى اور منكرات والے كام تو ان كاموں كے ليے استخارہ كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.

ليكن اگر وہ خصوصا وقت كے متعلق مثلا دشمن يا فتنہ كے احتمال كى صورت ميں اس سال حج پر جائے يا نہ اور حج ميں كس كى رفاقت اختيار كرے تو اس كے ليے استخارہ ہو سكتا ہے.

تو اس بنا پر كسى واجب، يا حرام يا مكروہ كام ميں استخارہ نہيں كيا جائے گا، بلكہ استخارہ تو مندوب اور جائز اور مباح كاموں ميں كيا جائے گا اور پھر مندوب كام كے اصل كے ليے استخارہ نہيں كيونكہ وہ كام تو اصل ميں مندوب ہے بلكہ استخارہ اس وقت ہو گا جب تعارض ہو، يعنى جب اس كے پاس دو كاموں ميں تعارض پيدا ہو جائے كہ وہ كونسے كام سے ابتداء كرے يا دونوں ميں سے پہلے كام كونسا كرے؟ ليكن مباح كام كے اصل ميں بھى استخارہ كيا جاسكتا ہے.

استخارہ كب كيا جائے؟

استخارہ اس وقت كيا جائے جب استخارہ كرنےوالا شخص خالى الذہن ہو اور كسى معين كام كو سرانجام دينے كا عزم نہ ركھے، كيونكہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" جب اسے كوئى كام درپيش ہو " اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ استخارہ اس وقت ہو گا جب ابھى اس كے دل ميں كوئى كام آيا ہو، تو پھر نماز اور دعاء استخارہ كى بركت سے اس كے ليے اس كام كى بہترى ظاہر ہو گى.

بخلاف اس كے كہ جب اس كے نزديك كوئى كام كرنا ممكن ہو اور وہ اسے سرانجام دينے پر پختہ عزم اور ارادہ كر چكا ہو، تو پھر وہ اپنے ميلان اور محبت كى طرف ہى جائے گا، تو اس سے خدشہ ہے كہ اس كے ميلان اور پرعزم كے غلبہ كى بنا پر اس سے بہترى كى راہنمائى مخفى رہے.

اور يہ بھى احتمال ہے كہ حديث ميں ھم يعنى درپيش سے مراد عزم ہو كيونكہ ذہن ثابت اور ايك پر نہيں ٹھرتا، تو وہ ايسا ہى نہيں رہے گا الا يہ كہ جب اسے سرانجام دينے كا عزم ركھنے والا شخص بغير كسى ميلان كے سرانجام دے، وگرنہ اگر وہ ہر حالت اور ذہن ميں استخارہ كرے گا تو پھر وہ ايسے كاموں ميں بھى استخارہ كرتا پھرے گا جس كا كوئى فائدہ نہيں تو اس طرح وہ وقت كے ضياع كا باعث ہو گا.

استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا:

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

استخارہ كرنے سے قبل كسى ناصح اور شقفت اور تجربہ كار اور دينى اور معلوماتى طور پر بااعتماد شخص سے اس كام ميں مشورہ كرنا مستحب ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

﴿اور معاملے ميں ان سے مشورہ كرو﴾.

اور مشورہ كرنے كے بعد جب اسے يہ ظاہر ہو كہ اس كام ميں مصلحت ہے تو پھر وہ اس كام ميں اللہ تعالى سے استخارہ كرے.

ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

حتى كہ تعارض كے وقت بھى ( يعنى پہلے مشورہ كرے ) كيونكہ مشورہ دينے والے كے قول پر اطمنان نفس سے زيادہ قوى ہے، كيونكہ نفس پر نصيب غالب ہوتے اور ذہن بكھرا ہوتا ہے، ليكن اگر اس كا نفس مطمئن اور سچا ارادہ ركھتا ہو اور خالى الذہن ہو تو پھر استخارہ كو مقدم كرے.

نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا:

- نماز استخارہ ميں قرآت كے متعلق تين قسم كى آراء ہيں:

ا ـ احناف، مالكى اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ سورۃ فاتحہ كے بعد پہلى ركعت ميں " قل يا ايہا الكافرون" اور دوسرى ركعت ميں " قل ھو اللہ احد " پڑھى جائے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس پر تعليق ذكر كرتے ہوئے كہا ہے:

ان دونوں سورتوں كو پڑھنا اس ليے مناسب ہے كہ يہ نماز ايسى ہے جس سے رغبت ميں اخلاص اور صدق اور اللہ تعالى كے سپرد اور اپنى عاجزى كا اظہار ہے، اور انہوں اس كى بھى اجازت دى ہے كہ: ان سورتوں كے بعد قرآن مجيد كى وہ آيات بھى پڑھ لى جائيں جن ميں خيرو بھلائى اور بہترى كا ذكر ہے.

ب ـ بعض سلف حضرات نے مستحسن قرار ديتے ہوئے كہا ہے كہ نماز استخارہ كى پہلى ركعت ميں سورۃ الفاتحہ كے بعد مندرجہ ذيل آيات تلاوت كى جائيں:

﴿ وَرَبُّك يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ﴾ .

اور تيرا رب جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے.

﴿ مَا كَانَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ .

ان كے ليے كوئى اختار نہيں اللہ تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس چيز سے جو وہ شرك كرتے ہيں.

﴿وَرَبُّك يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ﴾ .

اور تيرا رب جانتا ہے جسے ان كے سينے چھپاتے ہيں اور جو ظاہر كرتے ہيں.

﴿ وَهُوَ اللَّهُ لا إلَهَ إلا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ "

اور وہ ہى اللہ ہے، اس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، پہلے اور آخر ميں اسى كى تعريفات ہيں، اور اسى كے ليے حكم ہے اور اسى كى طرف لوٹائے جائيں گے.

اور دوسرى ركعت ميں يہ آيات پڑھے:

﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا﴾

جب اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كسى امر ميں فيصلہ كر ديں كو كسى مومن مرد اور مومن عورت كو اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمان كرے گا وہ واضح گمراہى ميں جا پڑا.

ج ـ ليكن حنابلہ اور بعض دوسرے فقھاء نے نماز استخارہ ميں معين قرآت كرنے كا نہيں كہا.

دعاء استخارہ پڑھنے كى جگہ:

احناف، مالكى ، شافعى اور حنابلہ حضرات كا كہنا ہے كہ:

استخارہ كى دعاء دو ركعت كے بعد پڑھى جائيگى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ حديث كى نص كے موافق بھى يہى ہے.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 3 / 241 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ كا كہنا ہے:

دعائے استخارہ كے متعلق مسئلہ:

كيا دعاء نماز ميں مانگى جائيگى يا كہ نماز سے سلام پھيرنے كے بعد؟

جواب:

نماز استخارہ اور دوسرى نماز ميں سلام سے قبل دعاء كرنى جائز ہے، اور سلام كے بعد بھى، اور سلام پھيرنے سے قبل دعاء كرنى افضل ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ كى اكثر دعائيں سلام پھيرنے سے قبل ہوا كرتى تھيں اور سلام سے قبل نمازى نماز سے فارغ نہيں ہوتا تو يہ بہتر ہے.

ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 265 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/11981
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52

امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے’’میں نے اپنی کتاب جامع الصحیح میں کوئی حدیث درج نہیں کی مگر پہلے میں نے غسل کیا اور دو رکعت نفل پڑھے‘‘۔
میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی حدیث ہے کہ جس میں لکھا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دو رکعت نماز پڑھو ، یہ الفاظ حدیث کے کہیں ہیں تو یہاں نقل کردو۔لمبے چوڑے مضامین دینے کی ضرورت ہی نہیں ۔
 
Top