• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی تھے

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
رانا صاحب۔

آپنے بتایا نھیں کہ آپ

لباس کونسا زیب تن کرتے ہیں۔؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے، تاکہ پیشہ ور تعویذ دینے والوں سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے، اس کے علاوہ عورتوں کو تعویذ نہیں دیا جاتا۔مجلس تعویذات سے شعبہ تعویذات مراد ہے، کبھی کچھ جاننے کی کوشش کی ہو تو پتا ہو۔
میں نے یہ کہا ہے کہ
میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔

تعویذ لٹکانے والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعاء :



شیخ توصیف الرحمن راشدی حفظہ اللہ



لنک


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے، تاکہ پیشہ ور تعویذ دینے والوں سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے، اس کے علاوہ عورتوں کو تعویذ نہیں دیا جاتا۔مجلس تعویذات سے شعبہ تعویذات مراد ہے، کبھی کچھ جاننے کی کوشش کی ہو تو پتا ہو۔
میں نے یہ کہا ہے کہ
میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔

تعویذ یا دم کیا ہوا دھاگا باندھنا جائز ہے؟

سوال :

کیا کسی حدیث یا اثر میں یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے تعویذ یا دم کیا ہوا دھاگا پہنا تھا اور ان کے شوہر نے اس دھاگے یا تعویذ کو شرک قرار دے کر کاٹ دیا ہو نیز کیاایسا کرنا جائز ہے؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔ (ع ۔ ظ حافظ آباد )

جواب

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !

زمانۂ جاہلیت میں یہ رسم بد جار ی تھی کہ لوگ جانوروں کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے گلے میں پرانی تانت ڈال دیتے تھے۔ آفات وبلیات سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے مختلف اقسام کے ہار، رسیاں اور تانتیں استعمال کرتے اور خود بھی آفات و مصائب سے بچائو کی خاطر دھاگے اور گھونگے وغیرہ لٹکاتے تھے۔

ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
(( أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْضِ أَسْفَارِہٖ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ حَسِبْتُ أَنَّہٗ قَالَ وَالنَّاسُ فِیْ مَبِیْتِہِمْ فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُوْلاً لاَ تَبْقَیَنَّ فِیْ رَقَبَۃِ بَعِیْرٍ قِلاَدَۃٌ مِنْ وَتَرٍ اَوْ قَلاَدَۃٌ إِلاَّ قُطِعَتْ )) [بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی الجرس ... الخ (۳۰۰۵)، صحیح مسلم (۲۱۱۵)]

''وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ عبداللہ (بن ابو بکر بن حزم راوی حدیث) نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو بشیر نے کہا لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیجا کہ اگر کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا پٹا (گنڈا) ہو، یا یوں فرمایا کہ جو گنڈا (ہار، پٹا) ہو، اسے کاٹ دیاجائے۔''
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' أَرَی ذٰلِکَ مِنَ الْعَیْنِ '' میں سمجھتا ہوں کہ لوگ نظر بد سے بچنے کے لیے جانوروں کے گلے میں تانت کا قلادہ لٹکاتے تھے۔ [الموطأ (ص ۷۱۳)]
امام ابن الجوزی نے بخاری کی شرح ''کشف المشکل (۴/۱۴۳)'' میں، علامہ طیبی نے ''الکاشف عن حقائق السنن (۸/۲۶۷۹)'' شرح مشکوٰۃ میں، ملا علی قاری نے ''مرقاۃ المفاتیح (۷/۴۴۷)'' میں شرح السنۃ کے حوالے سے، ابن الاثیر نے ''اسد الغابۃ'' میں، ابودائود نے ''السنن (۲۵۵۲)'' میں، امام مسلم نے صحیح مسلم (۲۱۱۵) میں اور ''الغریبین فی القرآن والحدیث (۶/۱۹۶۹)'' میں ابوعبیدہ الھروی نے امام مالک کا مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے۔ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

'' تَأَوَّلَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ اَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ الْقَلاَئِدِ عَلٰی أَنَّہٗ مِنْ اَجْلِ الْعَیْنِ وَ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَشُدُّوْنَ بِتِلْکَ الْأَوْتَارِ وَ الْقَلاَئِدِ وَ التَّمَائِمِ وَ یُعَلِّقُوْنَ عَلَیْہَا الْعَوْذَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہَا تَعْصِیْمٌ مِنَ الْآفَاتِ فَنَہَاہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَعْلَمَہُمْ أَنَّہَا لاَ تَرُدُّ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ شَیْئًا '' [شرح السنۃ (۱۱/۲۷)]

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قلادے کاٹنے کا حکم دیا امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے اس کا مفہوم نظر بد سے بچائو کے لیے لٹکانا لیا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگ یہ تانتیں، قلادے اور تمیمے باندھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ یہ آفات و مصائب سے بچائو کے لیے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان سے منع کر دیا اور انھیں بتایا کہ یہ اللہ کے کسی بھی حکم کو ٹال نہیں سکتے۔''
لہٰذا نظر بد سے بچائو کے لیے جو دھاگے، گھونگے، تانت اور تعویذ وغیرہ لٹکائے جاتے ہیں انھیں کاٹ دینا چاہیے، کیونکہ اللہ کی تقدیر اور حکم سے کسی بھی چیز کو لٹانے اور رد کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔ تمیمہ وہی ہوتا ہے جو بلاء و مصیبت کے نزول سے پہلے لٹکایا جائے، تاکہ یہ تمیمے اور گھونگے ان کو ٹال سکیں اور بلاء و مصیبت کے بعد لٹکائے جانے والے تمیمہ شمار نہیں ہوتے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

(( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ قَبْلَ الْبَلاَئِ )) [المستدرک للحاکم (۴/۲۱۷) و صححہ علی شرط الشیخین ]

''تمیمہ وہ نہیں جو بلاء کے بعد لٹکایا جائے، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے۔''
رہا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کی بیوی کا قصہ، اسے قیس بن المسکن الاسدی یوں بیان کرتے ہیں:

(( دَخَلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی امْرَأَۃٍ فَرَاٰی عَلَیْہَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَۃِ فَقَطَعَہٗ قَطْعًا عَنِیْفًا ثُمَّ قَالَ إِنَّ آلَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ الشِّرْکِ اَغْنِیَائُ وَ قَالَ کَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرُّقٰی وَ التَّمَائِمَ وَالتَّوْلِیَۃَ مِنَ الشِّرْکِ ))
[المستدرک علی الصحیحین (۴/۲۱۷،ح : ۷۵۸۰) اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح کہا ہے، علامہ البانی نے دونوں کی موافقت کی ہے۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۱/۶۴۹) القسم الثانی]


''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس پر خسرہ سے بچائو کا تعویذ دیکھا تو اسے سختی سے کاٹ دیا، پھر فرمایا:

''یقینا عبداللہ کا خاندان شرک سے مستغنی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو باتیں ہم نے یاد کی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ بے شک شرکیہ دم، گھونگے اور منکے وغیرہ اور محبت کے تعویذ شرک ہیں۔''

اس حدیث میں ''الرقی'' سے مراد شرکیہ دم یا ہروہ چیز ہے جس میں جنات سے پناہ مانگی جائے، یا ان الفاظ کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے، یا غیر عربی زبان میں لکھے ہوئے تعویذ، جیسے ''یاکبیکج'' وغیرہ ہیں۔ [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۴۹، ۶۵۰)]
امام بغوی فرماتے ہیں:

'' وَالْمَنْہِیُ مِنَ الرُّقٰی مَا کَانَ فِیْہِ الشِّرْکُ اَوْ کَانَ یُذْکَرُ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْنَ اَوْ مَا کَانَ مِنْہَا بِغَیْرِ لِسَانِ الْعَرَبِ وَلاَ یَدْرِیْ مَا ہُوَ وَ لَعَلَّہٗ یَدْخُلُہٗ سِحْرٌ اَوْ کُفْرٌ '' [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۹)]

''ممنوع دم وہ ہے جس میں شرک ہو، یا جس میں سرکش جنات کا ذکر کیا گیا ہو، یا وہ عربی زبان کے علاوہ ہو اور اس کا مفہوم معلوم نہ ہو۔ شاید کہ اس میں جادو یا کفر داخل کیا گیا ہو "
تمائم سے مراد وہ گھونگے اور موتی ہیں جنھیں عرب بچے کے سر پر نظر بد سے بچنے کے لیے لٹکاتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔


امام بغوی فرماتے ہیں :

'' اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ '' [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]

''تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔''
علامہ البانی فرماتے ہیں :

''اور اسی قسم سے بعض لوگوں کا گھر کے دروازے پر جوتا لٹکانا، یا مکان کے اگلے حصے پر، یا بعض ڈرائیوروں کا گاڑی کے آگے، یا پیچھے جوتے لٹکانا، یا گاڑی کے اگلے شیشے پر ڈرائیور کے سامنے نیلے رنگ کے منکے لٹکانا بھی ہے، یہ سب ان کے زعم باطل کے مطابق نظر بد سے بچائو کی وجہ سے ہے۔'' [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۵۰)]

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور کو شرک قرار دیا ہے، اس لیے کہ ان کا مشرکانہ عقیدہ تھا کہ یہ اللہ کی تقدیر کے خلاف مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض لوگ تعویذ لٹکانے کے جواز پر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سمجھدار لڑکوں کو دعا
(( اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَۃِ مِنْ غَضَبِہٖ وَ شَرِّ عِبَادِہٖ وَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنَ وَ أَنْ یَحْضُرُوْنَ ))
سکھاتے تھے اور جو سمجھ نہیں رکھتے تھے ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔


[أبوداوٗد، کتاب الطب، باب کیف الرقی (۳۸۹۳)، ترمذی(۳۵۲۸)، ابن أبی شیبۃ (۸/۳۹، ۶۳۔۱۰/۳۶۴)، خلق أفعال العباد (۳۴۷)، الرد علی الجھمیۃ لعثمان بن سعید الدارمی (۳۱۴، ۳۱۵)، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (۷۶۵)، الأسماء والصفات للبیھقی (ص ۱۸۵، ۱۸۶)، الدعاء للطبرانی (۱۰۸۶)، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (۷۵۳)، الآداب للبیھقی (۸۹۳،ص۲۷۰)، المسند الجامع (۱۱/۲۲۸) المستدرک للحاکم (۱/۵۴۸،ح : ۲۰۱۰)، العیال لابن أبی الدنیا (۲/۸۶۱، رقم ۶۵۶)، الدعوات الکبیر للبیھقی (۲/۳۱۶، رقم ۵۳۰)، معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الأصبہانی (۴/۳۶۸) (۶۵۴۹) الغیلانیات (۶۰۱) (۲/۱۶۶)]
اس روایت کو امام ترمذی نے اپنی جامع میں اور ابن حجر نے ''نتائج الأفکار فی تخریج أحادیث الأذکار (۳/۱۱۸)'' میں حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس کی سند میں موجود محمد بن اسحاق گو ثقہ و صدوق ہے لیکن مدلس ہے اور روایت معنعن ہے اور مدلس کا عنعنہ مردود ہے، جب تک تصریح بالسماع یا کوئی صحیح و حسن متابعت نہ ملے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


'' لٰکِنِ ابْنُ اِسْحَاقَ مُدَلِّسٌ، وَ قَدْ عَنْعَنَہ فِیْ جَمِیْعِ الطُّرُقِ عَنْہُ، وَ ہٰذِہِ الزِّیَادَۃُ مُنْکَرَۃٌ عِنْدِیْ، لِتَفَرُّدِہٖ بِہَا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ '' [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۵۲۹)]

''لیکن ابن اسحاق مدلس ہے اور اس کے تمام طرق میں اس کا عنعنہ ہے اور میرے نزدیک یہ زیادت منکر ہے، اس لیے کہ ابن اسحاق اس کے بیان کرنے میں متفرد ہے۔''

یہ روایت اصل میں ابن عمرو کی موقوف کے علاوہ حسن ہے یعنی دعائیہ جملہ مرفوعہ حسن درجے تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں۔ علامہ البانی ایک اور مقام پر اس روایت کی سند کو ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے غیر صحیح قرار دے کرلکھتے ہیں:

'' فَلاَ یَجُوْزُ الْاِحْتِجَاجُ بِہٖ عَلٰی جَوَازِ تَعْلِیْقِ التَّمَائِمِ مِنَ الْقُرْآنِ لِعَدْمِ ثُبُوْتِ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَمْرٍو لاَسِیَمَا وَہُوَ مَوْقُوْفٌ عَلَیْہِ فَلاَ حُجَّۃَ فِیْہِ '' [تعلیق علی کلم الطیب (ص ۴۵، رقم ۳۴)]
''اس سے قرآنی تعویذات لٹکانے کے جواز پر حجت پکڑنا جائز نہیں، اس لیے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہ بات ثابت نہیں، خصوصاً جب یہ ان پر موقوف ہے، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں ہے۔''

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ التَّمَائِمَ کُلَّہَا مِنَ الْقُرْآنِ وَ غَیْرِہِ قَالَ وَ سَأَلْتُ اِبْرَاہِیْمَ فَقُلْتُ أُعَلِّقُ فِیْ عَضُدِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃَ : {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} [الأنبیاء : 69] مِنْ حُمّٰی کَانَتْ بِیْ فَکَرِہَ ذٰلِکَ ''
[ فضائل القرآن لأبی عبید القاسم بن سلام الھروی (ص ۳۸۲)، ابن أبی شیبۃ (۵/۳۶) ط دارالتاج، بیروت ]


''صحابہ کرام تمام قرآنی و غیر قرآنی تعویذوں کو مکروہ سمجھتے تھے۔ مغیرہ بن مقسم الضبی کہتے ہیں میں نے ابراہیم نخعی سے سوال کیا کہ میں اپنے بازو میں بخار کی وجہ سے {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} آیت کا تعویذ باندھتا ہوں تو انھوں نے اسے ناپسند کیا۔''
حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے :
'' أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یُغْسَلَ الْقُرْآنُ وَ یُسْقَاہُ الْمَرِیْضَ اَوْ یُتَعَلَّقَ الْقُرْآنُ '' [فضائل القرآن للھروی (ص ۳۸۲)]

''وہ قرآن کو دھونا اور اسے مریض کو پلانا یالٹکانا مکروہ سمجھتے تھے۔''

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن پاک کا تعویذ لٹکانا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور دیگر شرکیہ تعویذات پہننا، دھاگے، گھونگے، منکے، سیپ وغیرہ لٹکانا شرک ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح انھیں اتار پھینکنا چاہیے اور اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کو ان کاموں سے بچانا چاہیے، جو لوگ تعویذوں کے اتوار بازار لگاتے اور انھیں کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں انھیں اس پر تدبر و تفکر کرنا چاہیے اور صرف دم اور اذکار پر اکتفا کرنا چاہیے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے، تاکہ پیشہ ور تعویذ دینے والوں سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے، اس کے علاوہ عورتوں کو تعویذ نہیں دیا جاتا۔مجلس تعویذات سے شعبہ تعویذات مراد ہے، کبھی کچھ جاننے کی کوشش کی ہو تو پتا ہو۔
میں نے یہ کہا ہے کہ
میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔



عطاری استخارہ :

مسلکی تعصب کو چھوڑ کر صرف مجھے اس سوال کا جواب دیں :

کیا استخارہ اسطرح کروایا جاتا ہے ؟
مدنی ٹی وی پر تو لائیو ایک شخص تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر استخارہ کرتا ہے۔ کال کرنے والا ماں کا نام بڑی بے شرمی کے ساتھ بتاتا ہے اور پھر ایک بدعتی استخارہ کرکے فورا کشف کے ذریعے بتابھی دیتا ہے کہ کیا مسئلہ ہے ؟
یہ غیب کا علم اس کو کیسے ہوگیا کہ اس کے ساتھ فلاں مسئلہ ہے ؟
کیا یہی وہ تعلیمات ہیں جو ہمیں دین اسلام نے بتائی ؟
ستم ظریفی تو اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ اہلسنت ، دعوت اسلامی اور مدنی ٹی وی کے نام پر کیا جارہا ہے۔
ان کی سائٹ سے لیے گئے سکرین شاٹس دیکھیں کہ کسطرح لوگوں کو استخارہ کے نام پر گمراہ کررہے ہیں اور ماں کا نام بھی پوچھ رہے ہیں ؟
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے،
جناب استخارہ دوسروں سے کروانے کی کوئی خاص دلیل؟
اچھا خاص چھوڑیں کوئی عام دلیل کوئی قرآن کی آیت ، کوئی حدیث؟؟؟؟؟
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
قوم الوھابیہ لا یعقلون

میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔
کیا جناب کے علم میں وہ حدیث ہے جسکے تحت امام بخاری رحمہ اللہ ، ہر حدیث لکھنے سے پہلے دو رکعت نماز استخارہ پڑھو پھر حدیث کا کتاب میں درج کرو ،کے عمل سے اپنی کتاب میں احادیث درج کیا کرتے تھے۔ اگر ہے تو ذرا پیش کرسکتے ہیں آپ؟ اور اگر نہیں تو بالکل جسطرح ہم لوگ آپ لوگوں کو صاف صاف بدعتی کہتے ہیں، تم بھی امام بخاری رحمہ اللہ کو بدعتی کہو؟ اتنی جرات، بہادری اور عقل اور شرافت ہے؟؟؟؟؟؟؟

اب دیکھتے ہیں کہ جناب کون سی راہ فرار اختیار کرتے ہیں؟ میری بات کا دو ٹوک جواب چاہیے یہاں
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
حمیر یوسف صاحب ! آپ نے لکھا
کیا جناب کے علم میں وہ حدیث ہے جسکے تحت امام بخاری رحمہ اللہ ، ہر حدیث لکھنے سے پہلے دو رکعت نماز استخارہ پڑھو پھر حدیث کا کتاب میں درج کرو ،کے عمل سے اپنی کتاب میں احادیث درج کیا کرتے تھے۔ اگر ہے تو ذرا پیش کرسکتے ہیں آپ؟ اور اگر نہیں تو بالکل جسطرح ہم لوگ آپ لوگوں کو صاف صاف بدعتی کہتے ہیں، تم بھی امام بخاری رحمہ اللہ کو بدعتی کہو؟ اتنی جرات، بہادری اور عقل اور شرافت ہے؟؟؟؟؟؟؟

اب دیکھتے ہیں کہ جناب کون سی راہ فرار اختیار کرتے ہیں؟ میری بات کا دو ٹوک جواب چاہیے یہاں
جناب ہم تو کہتے ہیں کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہ عمل ادب اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر کیا،لہذا ہم تو بدعتی نہیں کہتے۔

آپ لوگ کہتے ہو کہ جس کام کے لئے حدیث نہ ہو وہ بدعت ہے، آپ کوئی حدیث ایسی دکھائیں جس میں ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرنااور دو رکعت نماز استخارہ پڑھنا لکھا ہو؟
لہذا ہمارے نزدیک امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی نہیں ، بلکہ آپ کے نزدیک معاذ اللہ بدعتی قرار پائے، اَب دیکھتے ہیں کہ راہ فرار کون اختیار کرتا ہے ؟
محمد عامر یونس صاحب ، مولوی معین الدین لکھوی کی تعویذوں کی کمائی کے متعلق تو جواب نہ دے سکے، اُلٹا دعوت اسلامی پر جھوٹا الزام لگادیا کہ مال بٹورنے کی غرض سے تم لوگوں نے کاروبار کھولا ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ دعوت اسلامی نے آج تک کسی سے استخارہ اور تعویذ کا ایک پیسہ تک نہیں لیا۔وھابیہ کا کاروبار ہی جھوٹ پر چلتا ہے۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
جناب ہم تو کہتے ہیں کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہ عمل ادب اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر کیا،لہذا ہم تو بدعتی نہیں کہتے۔
اچھا جی اسکے لئے میری پوسٹ نمبر 34 دیکھو، وہاں آپکے اس رپلائی کا جواب دیا جاچکا ہے۔
پوسٹ نمبر 34

آپ لوگ کہتے ہو کہ جس کام کے لئے حدیث نہ ہو وہ بدعت ہے، آپ کوئی حدیث ایسی دکھائیں جس میں ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرنااور دو رکعت نماز استخارہ پڑھنا لکھا ہو؟
حیرت ہے اتنی دفعہ ثبوت دئیے گئے، صحیح احادیث کی روشنی سے، پھر بھی ان حضرت نے میں نہ مانوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ اب میں ان تمام پوسٹوں کا حوالہ دیتا ہوں، جن میں ان احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے کہ حدیث لکھنے سے پہلے غسل اور دو رکعت نماز استخارہ پڑھا کرو
پوسٹ نمبر 12
پوسٹ نمبر 18
پوسٹ نمبر 29
پوسٹ نمبر 33
پوسٹ نمبر 35
پوسٹ 44

لہذا ہمارے نزدیک امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی نہیں ، بلکہ آپ کے نزدیک معاذ اللہ بدعتی قرار پائے، اَب دیکھتے ہیں کہ راہ فرار کون اختیار کرتا ہے ؟
دروغ گورا حافظہ نباشد
میاں 12 ہویں اور گیارہویں کے میٹھے میٹھے حلوے کے نشے سے باہر آؤ اور ذرا یہ باتیں لکھنے سے پہلے پچھلی پوسٹیں دیکھ لیا کرو کہ اسمیں ہم نے کیا باتیں اس ذمن میں لکھی تھیں۔ آپکے لئے میں دوبارہ اسکا لنک دیتا ہوں
پوسٹ نمبر 10

اب دیکھتے ہیں کون راہ فرار اختیار کرتا ہے!!!!!!!!

اور میرے یہ سوالات بھی آپ پر قرض ہیں، جو اب تک ادا نہیں ہوئے

اب کچھ سوالات میں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہو، اور امید طلب کرتا ہوں کہ اسکا مجھے آپ کچھ تسلی بخش اور شافی جواب دیں گے۔ سوال کچھ اسطرح کے ہیں کہ
  • کیا یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنے مرتے وقت تک کا معمول تھا کہ جب بھی وہ اپنی کتاب میں حدیث نقل کرتے، ہمیشہ غسل کرکے دو رکعت نماز استخارہ کرکے وہ حدیث نقل کرتے؟
  • یہ انکا معمول آخری وقت تک تھا کیا؟ کیا وہ حدیث درج کرتے وقت کسی خاص مہینے کا انتظار کرتے، یا پھر سال کے بارہ مہینے کسی بھی دن، کسی بھی ساعت کے بغیر یہ کام کیا کرتے تھے؟
  • امام بخاری کی صحیح میں تقریبا ساڑھے چار ہزار احادیث موجود ہیں، تو انہوں نے کیا ساری کی ساری احادیث، اسی معمول کے تحت درج کیں یا کبھی کبھی اس معمول سے ہٹ کر بھی انکا اندراج کیا؟
  • کیا صرف انہوں نے ان احادیث کو اس معمول کے تحت اپنی صحیح میں درج کیا جنکے بارے میں اپنی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود، صرف اسی خدشے کے سبب کہ آنحضرت ﷺ سے منسوب کوئی جھوٹ انکی کتاب میں درج نہ ہوجائے، یا ہر حدیث کے لئے یہ انکا روٹین کا معمول تھا، جسکو انہوں نے سالانہ بغیر کسی ناغہ کے دوہرایا؟
  • کیا مرنے کے بعد انہوں نے کسی دوسرے محدث کو بھی اس بات کا پابند بنایا کہ وہ بھی سالانہ، ماہانہ یا روزآنہ اپنی کتاب میں جب بھی کوئی حدیث درج کرے، ایسا ہی معمول کرے جیسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کر کے دکھایا؟
  • امام بخاری رحمہ اللہ کے ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں شاگرد گزرے ہیں۔ آپ سو پچاس نہیں، صرف ایک یا دو ہی انکے اس شاگرد کا نام بتادیں، جس نے سال کے سال، پابندی سے، کسی مخصوص مہینے میں اپنی حدیث کی کتاب میں کوئی بھی حدیث درج کرتے وقت، دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر، حدیث درج کی ہو؟ صرف ایک یا دو نام ہی کافی ہونگے۔
 
Top