khalil rana
رکن
- شمولیت
- دسمبر 05، 2015
- پیغامات
- 218
- ری ایکشن اسکور
- 33
- پوائنٹ
- 52
15478 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 15479 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 15480 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں[/E]
پتا نہیں آپکو کیسی دلیل کفایت کرے گی اگر ھم گڑے مردے اکھاڑنا شروع کر دیں تو آپکے پاس راہ فرار اختیار کرنے کے علاوہ کوئ چارہ نہ ھوگا.
قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے، تاکہ پیشہ ور تعویذ دینے والوں سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے، اس کے علاوہ عورتوں کو تعویذ نہیں دیا جاتا۔مجلس تعویذات سے شعبہ تعویذات مراد ہے، کبھی کچھ جاننے کی کوشش کی ہو تو پتا ہو۔
میں نے یہ کہا ہے کہ
میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔
قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے، تاکہ پیشہ ور تعویذ دینے والوں سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے، اس کے علاوہ عورتوں کو تعویذ نہیں دیا جاتا۔مجلس تعویذات سے شعبہ تعویذات مراد ہے، کبھی کچھ جاننے کی کوشش کی ہو تو پتا ہو۔
میں نے یہ کہا ہے کہ
میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔
ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(( أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْضِ أَسْفَارِہٖ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ حَسِبْتُ أَنَّہٗ قَالَ وَالنَّاسُ فِیْ مَبِیْتِہِمْ فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُوْلاً لاَ تَبْقَیَنَّ فِیْ رَقَبَۃِ بَعِیْرٍ قِلاَدَۃٌ مِنْ وَتَرٍ اَوْ قَلاَدَۃٌ إِلاَّ قُطِعَتْ )) [بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی الجرس ... الخ (۳۰۰۵)، صحیح مسلم (۲۱۱۵)]
''وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ عبداللہ (بن ابو بکر بن حزم راوی حدیث) نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو بشیر نے کہا لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیجا کہ اگر کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا پٹا (گنڈا) ہو، یا یوں فرمایا کہ جو گنڈا (ہار، پٹا) ہو، اسے کاٹ دیاجائے۔''
امام ابن الجوزی نے بخاری کی شرح ''کشف المشکل (۴/۱۴۳)'' میں، علامہ طیبی نے ''الکاشف عن حقائق السنن (۸/۲۶۷۹)'' شرح مشکوٰۃ میں، ملا علی قاری نے ''مرقاۃ المفاتیح (۷/۴۴۷)'' میں شرح السنۃ کے حوالے سے، ابن الاثیر نے ''اسد الغابۃ'' میں، ابودائود نے ''السنن (۲۵۵۲)'' میں، امام مسلم نے صحیح مسلم (۲۱۱۵) میں اور ''الغریبین فی القرآن والحدیث (۶/۱۹۶۹)'' میں ابوعبیدہ الھروی نے امام مالک کا مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے۔ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :'' أَرَی ذٰلِکَ مِنَ الْعَیْنِ '' میں سمجھتا ہوں کہ لوگ نظر بد سے بچنے کے لیے جانوروں کے گلے میں تانت کا قلادہ لٹکاتے تھے۔ [الموطأ (ص ۷۱۳)]
لہٰذا نظر بد سے بچائو کے لیے جو دھاگے، گھونگے، تانت اور تعویذ وغیرہ لٹکائے جاتے ہیں انھیں کاٹ دینا چاہیے، کیونکہ اللہ کی تقدیر اور حکم سے کسی بھی چیز کو لٹانے اور رد کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔ تمیمہ وہی ہوتا ہے جو بلاء و مصیبت کے نزول سے پہلے لٹکایا جائے، تاکہ یہ تمیمے اور گھونگے ان کو ٹال سکیں اور بلاء و مصیبت کے بعد لٹکائے جانے والے تمیمہ شمار نہیں ہوتے۔'' تَأَوَّلَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ اَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ الْقَلاَئِدِ عَلٰی أَنَّہٗ مِنْ اَجْلِ الْعَیْنِ وَ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَشُدُّوْنَ بِتِلْکَ الْأَوْتَارِ وَ الْقَلاَئِدِ وَ التَّمَائِمِ وَ یُعَلِّقُوْنَ عَلَیْہَا الْعَوْذَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہَا تَعْصِیْمٌ مِنَ الْآفَاتِ فَنَہَاہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَعْلَمَہُمْ أَنَّہَا لاَ تَرُدُّ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ شَیْئًا '' [شرح السنۃ (۱۱/۲۷)]
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قلادے کاٹنے کا حکم دیا امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے اس کا مفہوم نظر بد سے بچائو کے لیے لٹکانا لیا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگ یہ تانتیں، قلادے اور تمیمے باندھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ یہ آفات و مصائب سے بچائو کے لیے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان سے منع کر دیا اور انھیں بتایا کہ یہ اللہ کے کسی بھی حکم کو ٹال نہیں سکتے۔''
رہا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کی بیوی کا قصہ، اسے قیس بن المسکن الاسدی یوں بیان کرتے ہیں:(( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ قَبْلَ الْبَلاَئِ )) [المستدرک للحاکم (۴/۲۱۷) و صححہ علی شرط الشیخین ]
''تمیمہ وہ نہیں جو بلاء کے بعد لٹکایا جائے، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے۔''
امام بغوی فرماتے ہیں:(( دَخَلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی امْرَأَۃٍ فَرَاٰی عَلَیْہَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَۃِ فَقَطَعَہٗ قَطْعًا عَنِیْفًا ثُمَّ قَالَ إِنَّ آلَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ الشِّرْکِ اَغْنِیَائُ وَ قَالَ کَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرُّقٰی وَ التَّمَائِمَ وَالتَّوْلِیَۃَ مِنَ الشِّرْکِ ))
[المستدرک علی الصحیحین (۴/۲۱۷،ح : ۷۵۸۰) اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح کہا ہے، علامہ البانی نے دونوں کی موافقت کی ہے۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۱/۶۴۹) القسم الثانی]
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس پر خسرہ سے بچائو کا تعویذ دیکھا تو اسے سختی سے کاٹ دیا، پھر فرمایا:
''یقینا عبداللہ کا خاندان شرک سے مستغنی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو باتیں ہم نے یاد کی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ بے شک شرکیہ دم، گھونگے اور منکے وغیرہ اور محبت کے تعویذ شرک ہیں۔''
اس حدیث میں ''الرقی'' سے مراد شرکیہ دم یا ہروہ چیز ہے جس میں جنات سے پناہ مانگی جائے، یا ان الفاظ کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے، یا غیر عربی زبان میں لکھے ہوئے تعویذ، جیسے ''یاکبیکج'' وغیرہ ہیں۔ [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۴۹، ۶۵۰)]
علامہ البانی فرماتے ہیں :'' اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ '' [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]
''تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔''
''اس سے قرآنی تعویذات لٹکانے کے جواز پر حجت پکڑنا جائز نہیں، اس لیے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہ بات ثابت نہیں، خصوصاً جب یہ ان پر موقوف ہے، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں ہے۔''(( اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَۃِ مِنْ غَضَبِہٖ وَ شَرِّ عِبَادِہٖ وَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنَ وَ أَنْ یَحْضُرُوْنَ ))
سکھاتے تھے اور جو سمجھ نہیں رکھتے تھے ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔
[أبوداوٗد، کتاب الطب، باب کیف الرقی (۳۸۹۳)، ترمذی(۳۵۲۸)، ابن أبی شیبۃ (۸/۳۹، ۶۳۔۱۰/۳۶۴)، خلق أفعال العباد (۳۴۷)، الرد علی الجھمیۃ لعثمان بن سعید الدارمی (۳۱۴، ۳۱۵)، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (۷۶۵)، الأسماء والصفات للبیھقی (ص ۱۸۵، ۱۸۶)، الدعاء للطبرانی (۱۰۸۶)، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (۷۵۳)، الآداب للبیھقی (۸۹۳،ص۲۷۰)، المسند الجامع (۱۱/۲۲۸) المستدرک للحاکم (۱/۵۴۸،ح : ۲۰۱۰)، العیال لابن أبی الدنیا (۲/۸۶۱، رقم ۶۵۶)، الدعوات الکبیر للبیھقی (۲/۳۱۶، رقم ۵۳۰)، معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الأصبہانی (۴/۳۶۸) (۶۵۴۹) الغیلانیات (۶۰۱) (۲/۱۶۶)]
اس روایت کو امام ترمذی نے اپنی جامع میں اور ابن حجر نے ''نتائج الأفکار فی تخریج أحادیث الأذکار (۳/۱۱۸)'' میں حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس کی سند میں موجود محمد بن اسحاق گو ثقہ و صدوق ہے لیکن مدلس ہے اور روایت معنعن ہے اور مدلس کا عنعنہ مردود ہے، جب تک تصریح بالسماع یا کوئی صحیح و حسن متابعت نہ ملے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' لٰکِنِ ابْنُ اِسْحَاقَ مُدَلِّسٌ، وَ قَدْ عَنْعَنَہ فِیْ جَمِیْعِ الطُّرُقِ عَنْہُ، وَ ہٰذِہِ الزِّیَادَۃُ مُنْکَرَۃٌ عِنْدِیْ، لِتَفَرُّدِہٖ بِہَا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ '' [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۵۲۹)]
''لیکن ابن اسحاق مدلس ہے اور اس کے تمام طرق میں اس کا عنعنہ ہے اور میرے نزدیک یہ زیادت منکر ہے، اس لیے کہ ابن اسحاق اس کے بیان کرنے میں متفرد ہے۔''
یہ روایت اصل میں ابن عمرو کی موقوف کے علاوہ حسن ہے یعنی دعائیہ جملہ مرفوعہ حسن درجے تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں۔ علامہ البانی ایک اور مقام پر اس روایت کی سند کو ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے غیر صحیح قرار دے کرلکھتے ہیں:
'' فَلاَ یَجُوْزُ الْاِحْتِجَاجُ بِہٖ عَلٰی جَوَازِ تَعْلِیْقِ التَّمَائِمِ مِنَ الْقُرْآنِ لِعَدْمِ ثُبُوْتِ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَمْرٍو لاَسِیَمَا وَہُوَ مَوْقُوْفٌ عَلَیْہِ فَلاَ حُجَّۃَ فِیْہِ '' [تعلیق علی کلم الطیب (ص ۴۵، رقم ۳۴)]
حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے :'' کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ التَّمَائِمَ کُلَّہَا مِنَ الْقُرْآنِ وَ غَیْرِہِ قَالَ وَ سَأَلْتُ اِبْرَاہِیْمَ فَقُلْتُ أُعَلِّقُ فِیْ عَضُدِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃَ : {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} [الأنبیاء : 69] مِنْ حُمّٰی کَانَتْ بِیْ فَکَرِہَ ذٰلِکَ ''
[ فضائل القرآن لأبی عبید القاسم بن سلام الھروی (ص ۳۸۲)، ابن أبی شیبۃ (۵/۳۶) ط دارالتاج، بیروت ]
''صحابہ کرام تمام قرآنی و غیر قرآنی تعویذوں کو مکروہ سمجھتے تھے۔ مغیرہ بن مقسم الضبی کہتے ہیں میں نے ابراہیم نخعی سے سوال کیا کہ میں اپنے بازو میں بخار کی وجہ سے {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} آیت کا تعویذ باندھتا ہوں تو انھوں نے اسے ناپسند کیا۔''
'' أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یُغْسَلَ الْقُرْآنُ وَ یُسْقَاہُ الْمَرِیْضَ اَوْ یُتَعَلَّقَ الْقُرْآنُ '' [فضائل القرآن للھروی (ص ۳۸۲)]
''وہ قرآن کو دھونا اور اسے مریض کو پلانا یالٹکانا مکروہ سمجھتے تھے۔''
قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے، تاکہ پیشہ ور تعویذ دینے والوں سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے، اس کے علاوہ عورتوں کو تعویذ نہیں دیا جاتا۔مجلس تعویذات سے شعبہ تعویذات مراد ہے، کبھی کچھ جاننے کی کوشش کی ہو تو پتا ہو۔
میں نے یہ کہا ہے کہ
میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔
جناب استخارہ دوسروں سے کروانے کی کوئی خاص دلیل؟قوم الوھابیہ لا یعقلون
طالب علم صاحب !
دعوت اسلامی نے استخارہ آن لائن اور تعویذات کی کوئی اُجرت نہیں رکھی، کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ، یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے فری ہے،
کیا جناب کے علم میں وہ حدیث ہے جسکے تحت امام بخاری رحمہ اللہ ، ہر حدیث لکھنے سے پہلے دو رکعت نماز استخارہ پڑھو پھر حدیث کا کتاب میں درج کرو ،کے عمل سے اپنی کتاب میں احادیث درج کیا کرتے تھے۔ اگر ہے تو ذرا پیش کرسکتے ہیں آپ؟ اور اگر نہیں تو بالکل جسطرح ہم لوگ آپ لوگوں کو صاف صاف بدعتی کہتے ہیں، تم بھی امام بخاری رحمہ اللہ کو بدعتی کہو؟ اتنی جرات، بہادری اور عقل اور شرافت ہے؟؟؟؟؟؟؟قوم الوھابیہ لا یعقلون
میں اُن کے عمل پر صریح حدیث مانگ رہا ہوں، اگر کسی حدیث میں یہ ہے کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز استخارہ پڑھو ، تو وہ حدیث یہاں درج کردیں۔
آپ لوگ جواب دینے کی بجائے دوسری طرف بھاگ پڑتے ہیں ، یہی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔
اچھا جی اسکے لئے میری پوسٹ نمبر 34 دیکھو، وہاں آپکے اس رپلائی کا جواب دیا جاچکا ہے۔جناب ہم تو کہتے ہیں کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہ عمل ادب اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر کیا،لہذا ہم تو بدعتی نہیں کہتے۔
حیرت ہے اتنی دفعہ ثبوت دئیے گئے، صحیح احادیث کی روشنی سے، پھر بھی ان حضرت نے میں نہ مانوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ اب میں ان تمام پوسٹوں کا حوالہ دیتا ہوں، جن میں ان احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے کہ حدیث لکھنے سے پہلے غسل اور دو رکعت نماز استخارہ پڑھا کروآپ لوگ کہتے ہو کہ جس کام کے لئے حدیث نہ ہو وہ بدعت ہے، آپ کوئی حدیث ایسی دکھائیں جس میں ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرنااور دو رکعت نماز استخارہ پڑھنا لکھا ہو؟
دروغ گورا حافظہ نباشدلہذا ہمارے نزدیک امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی نہیں ، بلکہ آپ کے نزدیک معاذ اللہ بدعتی قرار پائے، اَب دیکھتے ہیں کہ راہ فرار کون اختیار کرتا ہے ؟
اب کچھ سوالات میں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہو، اور امید طلب کرتا ہوں کہ اسکا مجھے آپ کچھ تسلی بخش اور شافی جواب دیں گے۔ سوال کچھ اسطرح کے ہیں کہ
- کیا یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنے مرتے وقت تک کا معمول تھا کہ جب بھی وہ اپنی کتاب میں حدیث نقل کرتے، ہمیشہ غسل کرکے دو رکعت نماز استخارہ کرکے وہ حدیث نقل کرتے؟
- یہ انکا معمول آخری وقت تک تھا کیا؟ کیا وہ حدیث درج کرتے وقت کسی خاص مہینے کا انتظار کرتے، یا پھر سال کے بارہ مہینے کسی بھی دن، کسی بھی ساعت کے بغیر یہ کام کیا کرتے تھے؟
- امام بخاری کی صحیح میں تقریبا ساڑھے چار ہزار احادیث موجود ہیں، تو انہوں نے کیا ساری کی ساری احادیث، اسی معمول کے تحت درج کیں یا کبھی کبھی اس معمول سے ہٹ کر بھی انکا اندراج کیا؟
- کیا صرف انہوں نے ان احادیث کو اس معمول کے تحت اپنی صحیح میں درج کیا جنکے بارے میں اپنی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود، صرف اسی خدشے کے سبب کہ آنحضرت ﷺ سے منسوب کوئی جھوٹ انکی کتاب میں درج نہ ہوجائے، یا ہر حدیث کے لئے یہ انکا روٹین کا معمول تھا، جسکو انہوں نے سالانہ بغیر کسی ناغہ کے دوہرایا؟
- کیا مرنے کے بعد انہوں نے کسی دوسرے محدث کو بھی اس بات کا پابند بنایا کہ وہ بھی سالانہ، ماہانہ یا روزآنہ اپنی کتاب میں جب بھی کوئی حدیث درج کرے، ایسا ہی معمول کرے جیسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کر کے دکھایا؟
- امام بخاری رحمہ اللہ کے ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں شاگرد گزرے ہیں۔ آپ سو پچاس نہیں، صرف ایک یا دو ہی انکے اس شاگرد کا نام بتادیں، جس نے سال کے سال، پابندی سے، کسی مخصوص مہینے میں اپنی حدیث کی کتاب میں کوئی بھی حدیث درج کرتے وقت، دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر، حدیث درج کی ہو؟ صرف ایک یا دو نام ہی کافی ہونگے۔