میں سمجھتا ہوں دیوبند بلکہ تمام اہل سنت و الجماعت اور غیر مقلدین کا اختلاف فروعی نہیں بلکہ اصولی ہے۔ اہل سنت والجماعت دیوبند کے ہاں انتقال دین کا اصلاور یقینی ذریعہ تواتر ہے قرآن اور سنت ہمیں تواتر سے ملا ہے(١) جبکہ غیر مقلدین تواتر کے منکر ہیں(٢) انکا دین ظنی ذریعے خبر واحد سے منتقل ہوا ہے۔(٣) قرآن کو تو بظاہر یہ مانتے ہیں لیکن سنت کا یہ کھل کر انکار کرتے ہیں۔ (٤)اور اسکی جگہ صرف چند لوگوں سے ہوتی ہوئی خبر جب صدیوں بعد کتب میں رقم ہوئی تو یہ خبر انکے ہاں سنت مان لی گئ ۔(٥) یہ بنیادی فرق ہے اہل سنت والجماعت دیوبند اور غیر مقلدین کا۔ اب تواتر سے ملنے والی سنت کو جو لوگ حبر واحدسے ملنی والی حبر سے بدلنا چاہتے ہیں انکو کیا کہا جائے۔(٦) آئیے حدیث کی روشنی (٧) میں اسے دیکھتے ہیں
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ»
[صحيح مسلم 1/ 12 رقم 7]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آخر زمانہ میں جھوٹے دجال لوگ ہوں گے تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جن کو نہ تم نے نہ تمہارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا تم ایسے لوگوں سے بچے رہنا مبادا وہ تمہیں گمراہ اور فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں ۔
ابن جوزی صاحب کی باتوں کا کسی بھی طرف سے جواب نہ آنا ان کابے تکا اور علم سے بالکل خالی ہونا تھا۔ لیکن ان کو شاید کچھ اور زعم ہو رہا ہے اس لیے مناسب ہے کہ کچھ گزارشات رکھ دی جائیں تاکہ سادہ لوح عوام کہیں کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہوں ۔
(١) جب آپ کا سارے کا سارا دین متواتر ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہےکہ آپ خبر واحد کا انکار کرتے ہیں ؟ کیونکہ بقول آپ کے قرآن کے ساتھ ساتھ سنت بھی متواتر ہے ۔ اس کا بالکل واضح مفہوم ہےجو خبر واحد ہے وہ دین نہیں کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں ؟
(٢) یہ کس نے کہا کہ اہل حدیث تواتر کے منکر ہیں ؟ کوئی حوالہ دیں یا پھر اپنی بات سے رجوع کریں ۔
(٣) اس بہتان کا بھی حوالہ دیں ۔ ہمارے نزدیک دین خبر واحد اورمتواتر دونوں طریقوں سے پہنچا ہے ۔ نہ تو تواتر میں محصور ہےاور نہ ہی آحاد کے ساتھ مقید ہے ۔
(٤) یہ فریہ عظیمہ بھی دلیل محتاج ہے ۔
(٥) اس سے مراد بھی یقینا آپ خبر واحد ہی لے رہے ہوں گے ۔ جسکو الحمد للہ ہم مانتےہیں البتہ یاد رہے کہ صحت و ضعف کے قواعد کے مطابق اس کے بغیر نہیں ۔ آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے ؟ احادیث کی دیگر کتب سے قطع نظر صرف صحیحین بخاری و مسلم میں بیسیوں احادیث خبر واحد ہیں جن میں سے بخاری شریف کی پہلی حدیث إنما الأعمال بالنیات اور آخری حدیث کلمتان خفیفتان علی اللسان ۔۔۔ بھی ہے ۔ اور یہ بات اہل علم تو جانتے ہی ہیں کہ صححین کی صحت مسلمہ ہے لیکن آپ کے لیے شاہ ولی اللہ کا قول نقل کر رہا ہوں :
شاہ صاحب حجۃ اللہ البالغۃ میں فرماتے ہیں :
أما الصحيحان فقد اتفق المسلمون على أن كل ما فيهمامن المتصل المرفوع صحيح بالقطع وأنهما متواتران إلى مصنفيهما وأنه كل من يهون أمرهما فهو مبتدع متبع غير سبيل المؤمنين -
(٦) اس بدلنےسے اگر آپ کی مراد یہی ہے کہ ہم خبر واحد کو قبول کرتے اور متواتر کو رد کرتےہیں تو یہ کذب بیانی ہے ۔ بلکہ الحمد للہ ہم قرآن اور حدیث صحیح متواتر ہویا غیر متواتر سب کو حجت مانتے ہیں ۔ اس طرح کے ادل بدل کرنے کی عادت آپ کی ہے ۔ جیساکہ تقلید کو اتباع قرآن و سنت کا نعم البدل سمجھے بیٹھے ہیں جیساکہ امام صنعانی نے اس کی خوب وضاحت کی ہے ۔ ارشاد النقاد اور سبل السلام ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔
(٧) حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ی من مانا مفہوم اس بات کی دلالت ہے کہ یہ آپ کی جہالت کا اندہیرا ہے نہ کہ حدیث کی روشنی ۔
اس حدیث سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ خبر واحد حجت نہیں ؟ جب حدیث کی حجیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر راویوں کےایک سلسلہ سند کی شرط ہے لیکن اس کے باوجود یہ حدیث منطبق کرنا کہ یأتونکم من الأحادیث بما لم تسمعوا أنتم و لا آباؤکم ۔۔۔۔۔ اصول حدیث کی مباحث سے جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہاں آباؤ اجداد کے الفاظ دیکھ کر آپ اپنے سلسلہ نسب میں الجھ گئے ہوں ۔
دوسری بات اسی حدیث کے حوالے سے جس سے آپ نے دلیل پکڑنے کی سعی لا حاصل کی ہے کہ اس کےبارے میں آپ جانتے ہیں کہ یہ متواتر ہے یا خبر واحد ؟
اور شاید آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس حدیث کے راوی حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو ہمارےنزدیک تو الحمد للہ فقیہ و محدث صحابی ہیں لیکن آپ کے آباؤ و اجداد نے ان کے بارے میں بھی باتیں بنانے کی کوشش کی ہے ۔
=ابن جوزی;60618]
غیر مقلد عوام اور خواص نے محمد ارسلان صاحب کے سوال پر ہمارے مندرجہ بالا جواب پر کچھ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ ایک ضمنی بات کے حوالے سے فواد بھتوی صاحب نے گذارشات سامنے رکھی ہیں ان سب باتوں سے یہ احذ کرنا غالبآ غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے ہمارے مندرجہ بالا جواب سے اتفاق فرمالیا ہے
یقینا آپ کا یہ زعم باطل اب دور ہو گیا ہو گا ۔
=ابن جوزی;60618]
فواد صاحب کی بات کا آسان مطلب یہ ہے کہ کوئی حدیث اس وقت تک حدیث نہہیں مانی جا سکتی جب تک کہ وہ انکے فرض کئے ہوئے کتب حدیث میں سے نہ ہو۔(٨) اس پر سر دست ہمارا ان سے مطالبہ ہے کہ اپنے مفروضہ نرالے اصول کی تائید میں سلف و خلف کے اقوال نقل کریں۔ یا آئمہ حدیث کے ایسے اقوال نقل کریں جو کتب احادیث کی تحدید کریں جس کی بنا پر غنیۃ الطالبین میں رقم احادیث کے حدیث نہ ہونے کا فیصلہ کیا جا سکے۔(٩) کمال تو دیکھئے اعتراض نمبر٣ میں اس کے حدیث ہونے کو تسلیم بھی فرما رہے ہیں۔(١٠)
(٨) صرف کتب حدیث کہا گیا تھا اگلی قید آپ کا اپنا اضافہ ہے ۔
(٩) یقینا کوئی صاحب علم ہوتا تو اس طرح کی بے تکی بات نہ کرتا لیکن آپ جیسے متعالم سے اس طرح کی بات سن کر واقعتا کوئی تعجب نہیں کرنا چأہیے ۔
کتب حدیث سے مراد وہ کتب ہیں جن میں مصنفین نے احادیث اپنی اسانید کے ساتھ نقل فرمائی ہیں ۔ اور جن کا اصل مقصد احادیث کو جمع کرنا ہے ۔
ان کتابوں میں احادیث کا حوالہ دینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سند کے ذریعے حدیث کی صحت و ضعف کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ان کتب کو سب اہل علم جانتے ہیں ۔ اور غنیۃ الطالبین ان کتب میں سے نہیں ہے ۔ بہر صورت آپ خفا نہ ہوں آپ اس حدیث کی سند پیش کریں چاہے غنیۃ الطالبین سے یا کسی اور کتاب سے ۔ اور یا یہ کہیں کہ ہمارے نزدیک غنیۃ الطالبین میں حدیث کا ہونا اس کی صحت کی دلیل ہے ۔ باقی باتیں بعد میں ۔
(١٠) یہ بات بھی آپ کے تضلع فی العلم کا ہی شاخسانہ ہے ۔ بہر صورت آپ کے لیے مشورہ ہے کہ آپ موضوعات اور ضعاف پر لکھی گئی کسی بھی ایک کتاب کا مطالعہ کر لیں بلکہ بعض کتابوں کے تو ناموں سےہی آپ کی جہالت کا مداوا ہو جائے گا مثلا ایک کتاب کا نام ہے المصنوع فی الحدیث الموضوع ۔ کتاب ک مؤلف بتانے کی ضرورت نہیں بس اتنی گزارش ہے کہ یہ وہی ہیں جن کی موضوعات پر کتاب ( ہو سکتا ہے یہی ہو ) کے ساتھ ’’ شریف ‘‘ لگا کر خوب فضائل اعمال بیان کیے جاتے ہیں ۔ ( کیا ستم ظریفی ہے کہ جب قبول کرنے پہ آئیں تو موضوع کے ساتھ شریف لگا کر حجت بنا لی جاتی ہے اور جب رد کرنا ہو تو صحیح حدیث کو بھی خبر واحد کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے ۔۔ یہاں خاص طور پر ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو لینے اور دینے کے پیمانوں میں فرق تلاش کرنے میں بڑے ماہر ہیں ۔)
اور تو اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی جس حدیث سے آپ نے استدلال کیا ہے اپنے فہم کے مطابق اس پر ہی غور کر لیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ جناب کس طرح کی تضاد بیانی کاشکار ہوئے ہیں ۔
=ابن جوزی;60618]
میری گذارشات تصویر کو مد نظر رکھ کر غیر مقلدین کی تاریخی اور فطری پس منظر کے حوالے سے تھیں۔ جو ان کا خاصہ ہے ورنہ آمین بالجہر اور رفع الیدین تو شوافع بھائی بھی کرتے ہیں امن و سکون کی فضا بھی قائم و دائم رہتی ہے
جناب ہمیں بھی کچھ بتائیں کے اہل حدیث حضرات آپ کی مساجد میں آ کر آمین بالجہر اور رفع الیدین کے سوا اور کون سا ظلم ڈھاجاتے ہیں جس سے خشوع و خضوع میں خلل آتا ہے ۔ تاکہ اصلاح کی جا سکے ۔
=ابن جوزی;60618]
سلف و خلف پر اللہ تبارک و تعالٰی نے یہ احسان کیا تھا کہ ان کا دور اس فتنے سے پاک تھا۔ اس گمراہی کا ظہور سلف و حلف کے بعد ہندوستان میں تاج برطانیہ کے تسلط کے ساتھ ہوا
سبحان اللہ ! حضرت عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ برصغیر پر تسلط برطانیہ کے کتنے سال بعد آکر آپ کو کشف کے ذریعے غنیۃ الطالبین کے نسخے میں یہ حدیث درج کروا گئے تھے ۔ کہ یہ حدیث میں نے اس فتنے کے لیے سنبھال کر رکھی تھی جو ان اہل حدیثوں نے مساجد میں اب برپا کرنا شروع کر دیا ہے ۔
=ابن جوزی;60618]
اہل الحدیث وہ پاک علمی طائفہ گذرا ہے جن کی زندگیوں کا مقصد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت، اسکی تدریس و تدوین تھا۔ اس علمی طائفے میں ہر فکر کے لوگ گذرے ہیں جیسے احناف میں سے سعید ابن القطان،(١١) یحیٰ ابن معین اور امام طحاوی وغیرہم رحمہم اللہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور ان کے مسالک کے محدثین رحمہم اللہ، اما حاکم اہل تشیع میں اور کچھ معتزلی و خارجی اہل الحدیث وغیرہ۔ الغرض اہل الحدیث اس طائفہ علمی کا نام ہے جسے عرف عام میں محدثین کہتے ہیں (١٢) اور جہاں تک آپ نے دریافت فرمایا ہے میرا نیک گمان امام احمد رحمہ اللہ کیساتھ ہے۔ ہاں موجودہ دور میں منکرین فقہ غیر مقلدین فرقہ نے اس نام پر شب خون مارا ہے جو درحقیقت غنیۃ الطالبین میں مذکور شیطان کے تسلط کا نتیجہ ہو سکتا ہے
(١١) اگر کتابت میں سہو نہیں ہوا تو گزارش ہے کہ یہ نیا حنفی آپ کہاں سے نکال لائے ہیں شاید ہو سکتا ہے آپ نے لجنہ حنفیہ کے ان ارکان کے نام تلاش کرنے شروع کردیے ہیں جنہوں نے امام صاحب کی فقہ تو مرتب کی لیکن ان میں سے چند ایک کے سوا کسی کے نام معلوم نہیں ہو سکے ۔
(١٢) الحمد للہ موجودہ دور میں جماعت اہل حدیث بھی انہیں آئمہ عظام کے نقش قدم پر چل کر خدمت حدیث کا جذبہ رکھتی ہے اور عمل بالحدیث کر کے دکھاتی ہے ۔ احادیث صحیحہ پر عدم تواتر ، صحابیوں کے عدم فقاہت وغیرہ کے بہانے بنا کر حملے نہیں کرتی ۔ والحمد للہ علی ذلک ۔
( ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فواد بھٹوی بھائی میرے ہم جماعت ہیں میری گزارش پر ہی وہ فورم پر تشریف لائے تھے ۔ ان کو کمپیوٹر زیادہ استعمال نہیں کرنا آتا ۔ ان کی یہاں تسجیل وغیرہ ان کے کہنے پر میں نے ہی کی ہے ۔ اور ان کی مذکورہ مشارکت بھی میں نے ہی لکھی تھی ۔ لیکن جو انہوں نے لکھوایا تھا وہی بات لکھی تھی ۔ گفتگو کے انداز وغیرہ سے ہٹ کر ان کی مذکورہ مشارکت میں جو کچھ لکھا گیا اس سے ہم دونوں متفق ہیں ۔ چونکہ آج کل مصروفیات کی وجہ سے وہ شاید جلد فورم پر نہیں آ سکیں گے اس لیے ان کی طرف سے بھی میں نے جواب لکھ دیا ہے ۔ یہ وضاحت اس وجہ سے ضروری سمجھتا تھا کہ گفتگو کے انداز وغیرہ سے کوئی بھائی یہ نہ سمجھے کہ یہ دونوں نام ایک ہی بندے کے ہیں ۔ جیساکہ بعض بھائی یہاں کبھی اصل ناموں سے اور کبھی اداروں کی طرف اور کبھی اماموں کی طرف نسبتوں سے آتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو ہی مخاطب کرتے نظر آتے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ ایک ہی صاحب ہیں ۔)