• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس پر انتہائی خوبصورت بحث کتاب التوحید ابن خزیمہ میں بھی موجود ہے جانبین کے دلائل اور اس پر بحث موجود ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى
اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى
پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)

فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا

أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى
کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا

اردو ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری


ان آیات قرانی کی تلاوت کرنے اور اس کے معانی کو سیاق و سباق کی روشنی میں دیکھنے اور ان آیات قرآنی پر غور کرنے سے مجھ کم علم کے سمجھ میں کچھ نکات آئے ہیں
پہلی آیت میں اللہ کے کلام پر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ جب نبی کریمﷺ شب معراج سب سے اونچے مقام پر تھے اور سب سے اونچا مقام وہی ہے جہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کے ہمراہ نہیں تھے یعنی سدرہ سے بھی آگے اس کے بعد اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى یعنی اللہ اپنے محبوب ﷺ سے قریب ہوا
اور پھر ارشاد فرمایا کہ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى یعنی اپنے عبد خاص کو جو وحی کرنی تھی وہ وحی کی اس فرمان میں اللہ کے ارشاد سے وہ مطلب اور پختہ ہوجاتا ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب شب معراج نبی کریم ﷺ سدرہ سے بھی آگے تھے کیوں کہ اس ارشاد میں جس وحی کا ذکر ہے اس وحی کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی خبر نہیں تھی یعنی جو وحی اللہ تبارک تعالیٰ نے کی ایسے صرف رسول اللہﷺ نے ہی سنا اب سننے کے بعد اللہ تعالیٰ حضورﷺ کے دیکھنے کی بابت ارشاد فرماتا ہے مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى یعنی جو حضور اکرمﷺ کی آنکھوں نے دیکھا آپﷺ کے دل نے بھی اس کی تصدیق کی اورآنکھ کے دیکھے کے خلاف نہیں جانا
اس کے بعد اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم (یعنی ہم سب) رسول اللہ ﷺ دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ کون لوگ ہیں یا تھے جو رسول اللہ سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے تھے؟ اور رسول اللہ ﷺ نےکیا دیکھا تھا جو اس جھگڑے کا سبب بنا ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنے کی بات ہے تو اللہ کی مخلوق میں سب سے اعلیٰ مخلوق رسول اللہ ﷺ ہیں اب اگر نبی کریمﷺ اپنےسے کم درجہ رکھنے والے کسی فرد کو دیکھیں تو اس میں جھگڑے کی کوئی بات نہیں ! اس لئے اب اس کے سواء کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھنے کی دلیل عموما اس آیت قرآنی سے لی جاتی ہے
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ ... الأنعام: ١٠٣
کہ ''اسے آنکھیں نہیں پاسکتیں۔''
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مکتوب ہے
''دنیا میں یہ آنکھیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں اگر چہ آخرت میں دیکھیں گی۔''
اگر اس آیت پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنی رویت کی نفی فرمائی ہے لیکن جو لوگ رسول اللہﷺ کے اپنے رب کا دیدار کرنے کے قائل ہیں وہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ اس دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی لیکن کیا اس آیت سے سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے یعنی عرش معلاء پر دیدار الہی کی نفی ہوسکتی ہے جب کہ اللہ فرماتا ہے کہ آخرت میں اللہ کو دیکھا جاسکتا ہے اب مقام آخرت تو اللہ کے عرش سے آگے نہیں پھر کس بناء پر رسول اللہﷺ کے لئے سدرہ سے بھی آگے دیدار الہی کی نفی اس آیت سے لی جاسکتی ہے ؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اگر اس سلسلے میں احادیث پر بھی غور کیا جائے تو اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے دوران ایسا تصور کرنا جائز ہے بلکہ یہ درجہ احسان پر ہے کہ اس طرح اللہ کی عبادت کی جائے گویا عبادت کرنے والا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے
حدیث جبرئیل میں رسول اللہ ﷺ سے جب احسان کے متعلق پوچھا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
الإحسان أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4777
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 50
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 8
صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 4695

ترجمہ داؤد راز
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازما رکھو کہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔

یعنی معنی یہ ہوا کہ جو لوگ درجہ احسان پر فائز ہوتے ہیں وہ اللہ کی عبادت اس طرح سے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں اور جو اس سے کم درجہ پر ہوتے ہیں وہ یہ تصور کرتے ہیں ہم تو اللہ کو نہیں دیکھ رہے لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور دیکھ رہا ہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آیت کریمہ اور اس کا ترجمہ یہ ہے:
﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم
پھر وہ نزدیک ہوا اور اُتر آیا (8) پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9) پس اس نے اس کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10)
اس آیت کریمہ کا مفہوم کیا ہے؟؟؟ کون نزدیک آیا؟ کس کس میں دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی نزدیک کا فاصلہ باقی رہ گیا؟ کس نے کس کے بندے کو وحی پہنچائی؟؟؟
اس سب سوالوں کا جواب نبی کریمﷺ اور ان کے صحابہ کرام﷢ کی زبانی ہی لیجئے:
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ سیدنا مسروق﷫ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیات کریمہ: ﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کا معنیٰ پوچھا تو انہوں نے فرمایا: إنما ذاك جبريل! كان يأتيه في صورة الرجال، وإنه أتاه هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد أفق السماء کہ اس سے مراد جبریل﷤ ہیں، عام طور پر وہ نبی کریمﷺ کے پاس آدمی کی صورت میں آتے تھے، اس مرتبہ وہ نبی کریمﷺ کے پاس اپنی اصل (فرشتوں والی) صورت میں آئے تھے اور انہوں آسمان کا افق گھیر رکھا تھا۔''
صحیح مسلم میں لمبی حدیث ہے کہ
سیدنا مسروق﷫ روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ نے فرمایا: تین باتیں جس نے کہیں اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا۔
میں نے عرض کیا: کونسی تین باتیں؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا:
پہلی بات: جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق﷫ نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ''اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔'' اور ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ''اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔''
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ''وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔''
پھر سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ تم نے فرمانِ باری تعالیٰ نہیں سنا: ﴿ لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ يُدْرِ‌كُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ‌ ١٠٣ ﴾ ۔۔۔ الأنعام کہ '' اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔'' (103) اور کیا اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟: ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْ‌سِلَ رَ‌سُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ٥١ ﴾ ۔۔۔ الشوریٰ کہ ''ناممکن ہے کہ کسی بنده سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وه اللہ کے حکم سے جو وه چاہے وحی کرے، بیشک وه برتر ہے حکمت والا ہے۔'' (51)
دوسری بات: جس نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کی کتاب میں سے کسی شے کو چھپایا (اور امت کو نہیں بتایا) تو اس نے بھی اللہ پر بہت بڑا جھوٹ بولا، حالانکہ فرمانِ باری ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِ‌سَالَتَهُ ۚ ۔۔۔ ٦٧ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة کہ ''اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔''
تیسری بات: اور جس نے کہا کہ نبی کریمﷺ اس بات کی خبر دے سکتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے (یعنی رسول کریمﷺ غیب جانتے ہیں) تو اس نے بھی اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ ٦٥ ﴾ ۔۔۔ النملکہ ''کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔''
اسی روایت میں اضافہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر نبی کریمﷺ نے کوئی آیت کریمہ چھپانی ہوتی تو وہ یہ آیت کریمہ چھپا لیتے: ﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ ٣٧ ﴾ ۔۔۔ الأحزاب کہ ''(یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وه بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیاده حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے۔''
اسی مسلم کی روایت سے اگلی روایت میں ہے کہ سیدنا مسروق﷫ نے سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریمﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ نے فرمایا: سبحان اللہ! تم نے جو کہا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ (یعنی اللہ کے خوف سے!! یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں دیکھ سکے؟)

نبی کریمﷺ نے کسے دیکھا تھا؟ کیا اس بارے میں نبی کریمﷺ کی اپنی بات فیصل نہیں؟؟؟

سیدنا ابن مسعود﷜ سے آیات کریمہ ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کی تفسیر میں مروی ہے: أنه رأى جبريل، له ست مائة جناح ۔۔۔ صحیح البخاری کہ نبی کریمﷺ نے جبریل﷤ کو دیکھا تھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔
سیدنا ابو ہریرہ﷜ سے آیت کریمہ: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم کی تفسیر میں مروی ہے: رأى جبريل ۔۔۔ صحيح مسلمکہ نبی کریمﷺ نے جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
آیا نہیں پھر علی بہرام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
درجہ ذیل سوال کا جواب نہیں آیا ہے مہربانی فرماکر اس پر بھی کچھ ارشاد فرمادیں شکریہ
پھر میں آپ کے اٹھائے گئے نکات پر کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں ان شاء اللہ
أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى
کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا
اردو ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری
اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم (یعنی ہم سب) رسول اللہ ﷺ دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ کون لوگ ہیں یا تھے جو رسول اللہ سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے تھے؟ اور رسول اللہ ﷺ نےکیا دیکھا تھا جو اس جھگڑے کا سبب بنا ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنے کی بات ہے تو اللہ کی مخلوق میں سب سے اعلیٰ مخلوق رسول اللہ ﷺ ہیں اب اگر نبی کریمﷺ اپنےسے کم درجہ رکھنے والے کسی فرد کو دیکھیں تو اس میں جھگڑے کی کوئی بات نہیں ! اس لئے اب اس کے سواء کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ۔
 
Top