اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى
اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى
پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)
فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا
أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى
کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا
اردو ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری
ان آیات قرانی کی تلاوت کرنے اور اس کے معانی کو سیاق و سباق کی روشنی میں دیکھنے اور ان آیات قرآنی پر غور کرنے سے مجھ کم علم کے سمجھ میں کچھ نکات آئے ہیں
پہلی آیت میں اللہ کے کلام پر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ جب نبی کریمﷺ شب معراج سب سے اونچے مقام پر تھے اور سب سے اونچا مقام وہی ہے جہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کے ہمراہ نہیں تھے یعنی سدرہ سے بھی آگے اس کے بعد اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى یعنی اللہ اپنے محبوب ﷺ سے قریب ہوا
اور پھر ارشاد فرمایا کہ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى یعنی اپنے عبد خاص کو جو وحی کرنی تھی وہ وحی کی اس فرمان میں اللہ کے ارشاد سے وہ مطلب اور پختہ ہوجاتا ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب شب معراج نبی کریم ﷺ سدرہ سے بھی آگے تھے کیوں کہ اس ارشاد میں جس وحی کا ذکر ہے اس وحی کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی خبر نہیں تھی یعنی جو وحی اللہ تبارک تعالیٰ نے کی ایسے صرف رسول اللہﷺ نے ہی سنا اب سننے کے بعد اللہ تعالیٰ حضورﷺ کے دیکھنے کی بابت ارشاد فرماتا ہے مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى یعنی جو حضور اکرمﷺ کی آنکھوں نے دیکھا آپﷺ کے دل نے بھی اس کی تصدیق کی اورآنکھ کے دیکھے کے خلاف نہیں جانا
اس کے بعد اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم (یعنی ہم سب) رسول اللہ ﷺ دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ کون لوگ ہیں یا تھے جو رسول اللہ سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے تھے؟ اور رسول اللہ ﷺ نےکیا دیکھا تھا جو اس جھگڑے کا سبب بنا ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنے کی بات ہے تو اللہ کی مخلوق میں سب سے اعلیٰ مخلوق رسول اللہ ﷺ ہیں اب اگر نبی کریمﷺ اپنےسے کم درجہ رکھنے والے کسی فرد کو دیکھیں تو اس میں جھگڑے کی کوئی بات نہیں ! اس لئے اب اس کے سواء کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ۔