بھائی! آپ سے افہام وتفہیم بہت مشکل ہے۔ آپ کو ایک دو مرتبہ کہنے سے بات سمجھ ہی نہیں آتی۔
میں نے عرض کیا تھا کہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم آپ بیان کر دیں، آپ نے پھر غیر متعلّقہ باتیں شروع کر دیں!
صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ یہ ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا:
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا:
« إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’
وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘ ۔۔۔
صحیح مسلم
اس روایت کا مفہوم آپ بیان کر دیں!
مجھے لگتا ہے کہ آپ پھر ادھر ادھر کی باتیں کریں گے، لہٰذا میں اس حدیث کا مفہوم بیان کر دیتا ہوں اگر آپ کو اتفاق ہو، تو میرے ساتھ تائید کر دیں یا پھر جہاں آپ کو اختلاف ہے وہ واضح کر دیں!
اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سورۃ التکویر کی آیات کریمہ
﴿ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ١٩ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ ٢٠ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ٢١ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ٢٢ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣﴾ اور سورۃ النجم کی آیات کریمہ
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ١٦ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ١٧ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ١٨ ﴾ میں نبی کریمﷺ کے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ سیدنا جبریل کو دیکھنے کا ذکر ہے۔
کیا آپ کو اس سے اتفاق ہے؟؟؟