• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ [٥٣:١٧]
ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی
لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ [٦:١٠٣]
(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے
 

محمد اسلم

مبتدی
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
دیدارِ الٰہی:۔
کیا معراج میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداوند تعالیٰ کو دیکھا؟ اس مسئلہ میں
سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بعض صحابہ نے فرمایا کہ معراج میں آپ نے اﷲ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور ان حضرات نے مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی oکی تفسیر میں یہ فرمایا کہ آپ نے خدا کو نہیں دیکھا بلکہ معراج میں حضرت جبریل علیہ السلام کو انکی اصلی شکل و صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے اور بعض سلف مثلاً حضرت سعید بن جبیر تابعی نے اس مسئلہ میں کہ دیکھایا نہ دیکھا کچھ بھی کہنے سے توقف فرمایا مگر صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک بہت بڑی جماعت نے یہ فرمایا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔(شفاء جلد۱ ص ۱۲۰ تا ۱۲۱)
چنانچہ عبداﷲ بن الحارث نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک مجلس میں جمع ہوئے تو حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے لیکن ہم بنی ہاشم کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یقیناً اپنے رب کو معراج میں دو مرتبہ دیکھا۔ یہ سن کر حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس زور کے ساتھ نعرہ مارا کہ پہاڑیاں گونج اٹھیں اور فرمایا کہ بے شک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے کلام کیا اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا۔
اسی طرح حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی کی تفسیر میں فرمایا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہرَأيْتُ ربِّيْیعنی میں نے اپنے رب کو دیکھا۔
محدث عبدالرزاق ناقل ہیں کہ حضرت امام حسن بصری اس بات پر حلف اٹھاتے تھے کہ یقینا حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور بعض متکلمین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب تھا اور ابن اسحق ناقل ہیں کہ حاکم مدینہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ کیا حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ “جی ہاں”
اسی طرح نقاش نے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مذہب کا قائل ہوں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا، دیکھا ،دیکھا، اتنی دیر تک وہ دیکھا کہتے رہے کہ ان کی سانس ٹوٹ گئی۔(شفاء جلد۱ ص ۱۱۹ تا ص ۱۲۰)
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شریک بن عبداﷲ نے جو معراج کی روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے کہ
حَتّٰي جَآءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهيٰ وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلّٰي حَتّٰي کَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنيٰ۔ (بخاری جلد ۲ ص ۱۱۲۰ با ب قول اﷲ: وکلم اﷲ ۔ الخ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لائے اور عزت والا جبار (اﷲ تعالیٰ) یہاں تک قریب ہوا اور نزدیک آیا کہ دو کمانوں یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔
بہرحال علماء اہل سنت کا یہی مسلک ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کا دیدار کیا۔
اس معاملہ میں رویت کے علاوہ ایک روایت بھی خاص طور پر قابل تو جہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے محبوب کو اﷲ تعالیٰ نے انتہائی شوکت و شان اور آن بان کے ساتھ اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر بلایا اور خلوت گاہ راز میں ۔۔۔۔۔ کے نازو نیاز کے کلاموں سے سرفراز بھی فرمایا ۔ مگر ان بے پناہ عنایتوں کے باوجود اپنے حبیب کو اپنا دیدار نہیں دکھایا اور حجاب فرمایا یہ ایک ایسی بات ہے جو مزاج عشق و محبت کے نزدیک مشکل ہی سے قابل قبول ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی شاندار میزبان اپنے شاندار مہمان کو اپنی ملاقات سے محروم رکھے اور اس کو اپنا دیدار نہ دکھائے یہ عشق و محبت کا ذوق رکھنے والوں کے نزدیک بہت ہی ناقابل فہم بات ہے۔ لہٰذا ہم عشق بازوں کا گروہ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح اپنی آخری سانس تک یہی کہتا رہے گا کہ
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا​
 
Last edited by a moderator:

محمد اسلم

مبتدی
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالی کا دیدار کیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدارِ الٰہی کرنے کا ثبوت

قرآن کریم کی جس آیت سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا جاتا ہے وہ بعض لوگوں کی زبردستی ہے۔ یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت کا ہے۔ دونوں پر مختصر غور کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت سے جو چیز ثابت ہے، وہ ہے دیدار خداوندی اور نفی میں پیش کی جانے والی آیت میں ہے۔ ’’آنکھوں کے ادراک کی نفی‘‘ حالانکہ دیکھنے اور ادراک میں فرق ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُo
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے‘‘۔
الانعام، 6: 103
امام رازی رحمہ اﷲ تعالٰی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
معناه أنه لا تدرکه جميع الأبصار فوجب أن يفيد أنه تدرکه بعض الابصار.
’’آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔‘‘
فخر الدين رازی ، التفسير الکبير، 13: 103 ، دار الکتب العلمية بيروت
المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اﷲ تعالی نفی الرؤية عن اﷲ تعالی.
’’دیکھے جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا۔ اس دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا، ایک جنس، جس کے نیچے دو انواع ہیں، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے صرف احاطے والے دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ پس اﷲ کے ادراک کی نفی سے اﷲ کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔‘‘
رازی، التفسير الکبير، 13: 104
امام قرطبی فرماتے ہیں:
الادراک بمعنی الاحاطة والتحديد کما تدرک سائر المخلوقات والرؤية ثابتة.
’’ادراک کا مطلب ہے گھیر لینا اور حد کھینچنا جیسے مخلوق دیکھی جاسکتی ہے۔ اﷲ کا دیکھنا ثابت ہے‘‘۔
قرطبی، الجامع لأحکام القران، 7: 54 ، دار الشعيب القاهره
خلاصہ یہ کہ قرآن کی آیت سے اور اسے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے قول سے، دیدار الٰہی کی نفی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتی۔ آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں یا یہ کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور ظاہر ہے کہ دیکھنا اور ہے، احاطہ کرنا اور ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دنیا میں بھی اﷲ کو دیکھ سکتی ہیں اور یقینا وہ بعض آنکھیں محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہیں۔
علامہ قرطبی مزید لکھتے ہیں:

عبد اﷲ بن الحارث اجتمع ابن عباس و أبی ابن کعب فقال ابن عباس أما نحن بنو هاشم فنقول اِن محمدا رأی ربه مرتين ثم قال ابن عباس أتعجبون أن الخُلّة تکون لابراهيم والکلام لموسی والرؤية لمحمد صلی الله عليه وآله وسلم وعليهم أجمعين قال فکبر کعب حتی جاوبته الجبال.
’’عبد اﷲ بن حارث کی حضرت ابن عباس اور ابن کعب سے ملاقات ہوئی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم بنی ہاشم تو کہتے ہیں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ہے، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ دوستی (خلت) ابراہیم علیہ السلام کے لئے کلام موسیٰ علیہ السلام کے لئے اور دیدارِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ثابت ہے۔ اس پر حضرت کعب نے اﷲ اکبر کہا یہاں تک کہ پہاڑ گونج اٹھے‘‘۔
قرطبی ، الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56
امام عبدالرزاق نے بیان کیا:
أن الحسن کان يحلف باﷲ لقد رأی محمد ربه.
’’حسن بصری اﷲ کی قسم اٹھا کر کہتے بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘۔
مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

هل رأی محمد ربه؟ فقال نعم.
’’کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا ہاں‘‘۔
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

بعينه رآه رآه حتی انقطع نفسه.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھوں سے اﷲ کو دیکھا۔ دیکھا، یہاں تک کہ ان کا سانس بند ہو گیا۔‘‘
یہی امام ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا مسلک ہے۔ یہی حضرت انس رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، عکرمہ، ربیع اور حسن کا مذہب ہے۔

قرطبی ، الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56
نیز ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج، ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس لئے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر ہم نے باحوالہ بیان کر دی۔
قرآن نے اﷲ کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود، اس کی نظر محدود، اﷲ غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں۔
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
صحیح بخاری کی حدیث کا کیا کریں؟
وہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی اس کا کیا کریں؟
نہیں دیکھا؟
 

محمد اسلم

مبتدی
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
صحیح بخاری کی حدیث کا کیا کریں؟
وہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی اس کا کیا کریں؟
نہیں دیکھا؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج، ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس لئے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر ہم نے باحوالہ بیان کر دی۔
قرآن نے اﷲ کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود، اس کی نظر محدود، اﷲ غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں۔
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج، ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس لئے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر ہم نے باحوالہ بیان کر دی۔
قرآن نے اﷲ کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود، اس کی نظر محدود، اﷲ غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں۔
نبی ﷺ سے جب یہ بات دریافت کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
(رَأَیْتَ نُوْراً) میں نے ایک نور دیکھ تھا۔ ‘‘
ان روایات کا کیا کریں؟
دوسری روایت میں ہے: نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ ’’ وہ نور ہے‘ میں اسے دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ یہ دونوں حدیثیں امام مسلم رحمتہ الله علیہ نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں روایت کی ہیں اور رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:
(وَاعْلَمُوا أَنَّہُ لَنْ یَرَی مِنْکُمْ أَحَدٌ رَبَّہُ حَتَّی یَمُوتُ)
’’جان لو! تم میں سے کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو ہر گز نہیں دیکھا گا۔ ‘‘
یہ حدیث بھی امام مسلم نے روایت کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج، ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس لئے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر ہم نے باحوالہ بیان کر دی۔
قرآن نے اﷲ کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود، اس کی نظر محدود، اﷲ غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں۔
بھائی آپ نے یہ جواب خود لکھا ہے یا کہیں سے پیسٹ کر دیا؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
۔۔۔۔۔ کے نازو نیاز کے کلاموں سے سرفراز بھی فرمایا ۔ مگر ان بے پناہ عنایتوں کے باوجود اپنے حبیب کو اپنا دیدار نہیں دکھایا اور حجاب فرمایا یہ ایک ایسی بات ہے جو مزاج عشق و محبت کے نزدیک مشکل ہی سے قابل قبول ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی شاندار میزبان اپنے شاندار مہمان کو اپنی ملاقات سے محروم رکھے اور اس کو اپنا دیدار نہ دکھائے یہ عشق و محبت کا ذوق رکھنے والوں کے نزدیک بہت ہی ناقابل فہم بات ہے۔ لہٰذا ہم عشق بازوں کا گروہ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح اپنی آخری سانس تک یہی کہتا رہے گا کہ
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا​
(1) دیدار نہیں دکھایا ؟؟
(2) عشق بازوں کا گروہ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح ؟؟
ان دونوں جملوں کا مطلب ومراد واضح کریں ،لیکن پاکستانی اردو میں؛
اور اگر کوئی غیب ان سے نہاں نہ تھا تو اس آیت کا کیا معنی ؟
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
نبی ﷺ سے جب یہ بات دریافت کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
(رَأَیْتَ نُوْراً) میں نے ایک نور دیکھ تھا۔ ‘‘
ان روایات کا کیا کریں؟
دوسری روایت میں ہے: نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ ’’ وہ نور ہے‘ میں اسے دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ یہ دونوں حدیثیں امام مسلم رحمتہ الله علیہ نے اپنی
اَنّٰی اَرَاہُ ،،کا ترجمہ عجیب لکھ مارا ہے ،یہ کس لغت کے امام نے بتایا ؟
 
Top