• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بھائ صاحب آپ ہر بار اتنی بڑی تحریر میرے سامنے لے کر آجاتے ہیں . جبکہ میں پہلے بھی اس حدیث بخاری کی تفسیر بتا چکا ہوں.
کونسی بخاری کی حدیث؟؟

دیدار الٰہی کی بات سدرہ لمنتہیٰ سے اوپر کی ہے اور آپکو بات سمجھ آہی نہیں رہی .....جبرائیل اس مقام سے اوپر گیا ہی نہیں.
میرے بھائی! آیات کریمہ ﴿ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ٥ ذُو مِرَّ‌ةٍ فَاسْتَوَىٰ ٦ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ٧ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم میں جبریل﷤ کی بات ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ کی بات نہیں ہو رہی، اور یہ آیات واقعہ معراج سے متعلق نہیں ہیں۔ اس آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے جبریل﷤ کو پہلی دفعہ اپنی اصل شکل میں دیکھا، تو اس وقت نبی کریمﷺ زمین پر تھے اور سیدنا جبریل﷤ آسمان پر تھے، پھر سیدنا جبریل﷤ نبی کریمﷺ کے قریب (یعنی زمین پر) آگئے۔ یہی ان آیات کریمہ کی تفسیر ہے۔ آپ نے تفسیر ابن کثیر کا حوالہ دیا، اسی تفسیر میں آپ ان آیات کی تفسیر پڑھ لیں، انہوں نے یہی لکھا ہے۔
تفصیل کیلئے دیکھیں:
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=49&surano=53&ayano=18

البتہ آیات کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم واقعۂ معراج سے متعلق ہیں، اور ان آیات کی تشریح، میں آپ کو نبی کریمﷺ کی زبانی (صحیح مسلم) بتا چکا ہوں کہ نبی کریمﷺ نے وہاں بھی جبریل﷤ کو دیکھا تھا اپنی اصل صورت میں۔

ابن کثیر نے ٣٤ صحابہ کرام سے اقوال اکھٹے کیے ہیں کہ معجزہ معراج جسمانی تھا اور آپ نے اپنے رب کو اس کی اصلی صورت میں دیکھا
یہ بہتان ہے امام ابن کثیر﷫ پر! امام ابن کثیر﷫ تو اسی بات کے قائل ہیں کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔
امام ابن کثیر﷫ آیاتِ کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: هذه هي المرة الثانية التي رأى رسول الله ﷺ فيها جبريل علىٰ صورته التي خلقها الله عليها، وكانت ليلة الإسراء ۔۔۔ تفسير ابن كثير
کہ یہ دوسری مرتبہ تھا جب نبی کریمﷺ نے سیدنا جبریل﷤ کو ان کی اس صورت پر دیکھا جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تھا (یعنی اصل صورت)، اور یہ واقعہ اسراء ومعراج کی رات ہوا تھا۔

مجھے حضرت عائشہ والی حدیث پتا ہے............میں اس کو نہیں جٹھلاتا، ، ، ، نہ میری اوقات ہے کسی حدیث کو جٹھلانے کی. . .. . . .مگر آپ کو بات سمجھ نہیں آتی.......وہی ایک رٹ بار بار لے کر آجاتے ہیں.........میں اس کے ہر بار نئے دلائل لے کر آتا ہوں اور پھر یہی لے کر آجاتے ہیں......عجیب انساں ہیں ......
یہ تو ہمارے صدر اور وزیر اعظم والی بات ہوگئی، جو منہ سے تو بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرتے۔ لیکن!!!! سب کو پتہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟!!

یہی مکروہ کام یہاں عاصم صاحب احادیث مبارکہ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ منہ سے کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث نہیں جھٹلاتا۔

سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے آيت کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘

اگر عاصم صاحب اس حدیث مبارکہ کو مانتے ہیں تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟؟؟

درج بالا صحیح مسلم کی حدیث سے نبی کریمﷺ کی زبانی ثابت ہے کہ آپﷺ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔

اگر عاصم صاحب سمجھتے ہیں کہ واقعۂ معراج کے علاوہ نبی کریمﷺ نے کسی اور موقع پر اللہ کو دیکھا تھا تو اس کی دلیل پیش کر دیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اور میں نے سورۃ "ص" کی تفسیر دی تھی......معراج جسمانی ہوا تھا......
میں پوسٹ نمبر 56 میں بدلائل ثابت کر چکا ہوں کہ یہ حدیث مبارکہ واقعہ معراج کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اس روایت میں تو کسی خواب کا تذکرہ ہوا ہے۔ اور خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا بالکل ممکن ہے۔

اور نجم پر اب میں آپکو بخاری کی حدیث بھی دے دوں. . . .. .

اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں اور اس سے بھی کم کا فاصلہ ہر گیا. . .. .
بخاری ...جلد 2.....ص ١١2٠......کتاب التوحید....رقم٧٠٧٩
میں پہلے ہی صحیح مسلم کی سیدہ عائشہ کی حدیث سے ثابت کر چکا ہوں (جسے بقول عاصم صاحب وہ بھی مانتے ہیں) کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل امین﷤ کو دیکھا تھا۔

جہاں تک عاصم صاحب کی بیان کردہ صحیح بخاری کی اس حدیث کا تعلق ہے تو عاصم صاحب سے گزارش ہے (اور پہلے بھی بار بار گزارش کی ہے) کہ جو حدیث بھی پیش کریں، اس کا عربی متن شروع سے آخر تک ضرور پیش کریں تاکہ سب لوگوں کے سامنے ان کی گڑبڑ ضرور واضح ہوجائے۔

میرا دعویٰ ہے کہ درج بالا بخاری کی حدیث بھی معروف واقعۂ معراج کے متعلق نہیں، جو نبی کریمﷺ کو حالتِ بیداری میں روح وجسم سمیت پیش آیا تھا بلکہ یہ حدیث بھی خواب سے متعلق ہے، اور خواب میں اللہ کا دیدار ہو سکتا ہے۔
جب عاصم صاحب اس حدیث کا متن پیش کریں گے تو میں وہ شروع اور آخر کے وہ مقامات ہائی لائٹ کردوں گا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث خواب سے متعلق ہے۔

عاصم صاحب کو امام ابن کثیر﷫ پر بڑا اعتماد ہے، یہی امام ابن کثیر﷫ سیدنا انس﷜ کی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں: وجاء في حديث شريك بن أبي نمر، عن أنس في حديث الإسراء: "ثم دنا الجبار رب العزة فتدلى" ولهٰذا تكلم كثير من الناس في متن هٰذه الرواية، وذكروا أشياء فيها من الغرابة، فإن صح فهو محمول على وقت آخر وقصة أخرى، لا أنها تفسير لهٰذا الآية ؛ فإن هٰذه كانت ورسول الله ﷺ في الأرض لا ليلة الإسراء ؛ ولهٰذا قال بعده : ﴿ ولقد رآه نزلة أخرى عند سدرة المنتهى ﴾، فهٰذه هي ليلة الإسراء والأولىٰ كانت في الأرض ۔۔۔ تفسير ابن كثير
اور جو شریک بن ابی نمر کی سیدنا انس بن مالک﷜ سے مروی (صحیح بخاری والی) روایت میں آیا ہے کہ پھر جبار (اللہ) رب العزت قریب آئے۔ اسی لئے بہت سے علماء نے اس روایت کے متن میں کلام کیا ہے، اور بہت سی عجیب وغریب چیزیں بیان کی ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس سے یہ واقعہ مراد نہیں (نہ ہی واقعہ معراج مراد ہے) بلکہ اس سے کوئی اور قصّہ مراد ہے۔ یہ حدیث (انس﷜ والی) آیت کریمہ ﴿ ثم دنا فتدلى ﴾ کی تفسیر ہرگز نہیں بن سکتی، کیونکہ یہ آیت کریمہ تو زمین کے متعلق ہے، لیلۃ الاسراء سے متعلق ہے ہی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے بعد فرمایا: ﴿ ولقد رآه نزلة أخرى عند سدرة المنتهى ﴾ یہ آیت کریمہ اسراء کے متعلق ہے، جبکہ پہلی (یعنی آیت کریمہ ثم دنا فتدلى) زمین سے متعلق ہے۔

اگر جبرائیل کو ہی دکھانے کی لیئے اتنے اوپر لے گے تو وہ تو روز آپ کے پاس آتا تھا........
سیدنا جبریل﷤ آپ کے پاس اپنی اصل (فرشتوں والی) شکل میں نہیں آتے تھے، اسی لئے نبی کریمﷺ نے انہیں کبھی اپنی اصل صورت میں نہیں دیکھا سوائے ان دو موقعوں کے، (جیسے اوپر کوٹ کی گئی صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ میں گزرا) ایک واقعہ شروع وحی کے وقت پیش آیا، اور دوسرا واقعہ معراج کے موقع پر پیش آیا۔
معراج کا واقعہ صرف جبریل﷤ کی اصل شکل میں رؤیت کیلئے نہیں تھا، بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تحفۂ نماز اور جنت وجہنم ودیگر بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ مَا زَاغَ الْبَصَرُ‌ وَمَا طَغَىٰ ١٧ لَقَدْ رَ‌أَىٰ مِنْ آيَاتِ رَ‌بِّهِ الْكُبْرَ‌ىٰ ١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم
نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17) یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
قرآن کے سب سے بڑے مفسر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سب سے اختلاف کیا جو انکاری تھا رویت باری تعالی کا......
اور حضرت عائشہ فرمانتے ہیں کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا جس نے کہا کہ آقا نے اللہ کو دیکھا تو .....ابن عباس کو کیا کہیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

امام طبرانی حدیث لائے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ سلام نے اللہ کو دو بار دیکھا ایک بار دل کی آنکھ سے اور ایک بار سر کی کی آنکھ سے...

المعجم الکبیر ١2: ٧١: رقم ١2٥٦٤

2- المعجم اوسط ٦: ٣٥٦: رقم ٥٧٥٧

٣- المواھب الدنیہ 2: ٣٧
پہلے صحیح مسلم کی روایت کے متعلق اپنا موقف واضح کریں!

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ کو دیکھا یا نہیں؟ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق نہیں دیکھا۔

پھر اگر دیگر دلائل سے رؤیت باری تعالیٰ ثابت کرنی ہو، تو حدیث کو عربی متن کے ساتھ لکھیں، تاکہ آپ کی گڑبڑ واضح ہو سکے۔
پھر اس کا ترجمہ کریں!
پھر اس کی صحت ثابت کریں!
اور پھر اس سے وجۂ استشہاد واضح کریں!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
وعن ابن عباس : ( ما كذب الفؤاد ما رأى . . . . ولقد رآه نزلة أخرى ) قال : رآه بفؤاده مرتين . رواه مسلم وفي رواية للترمذي قال : رأى محمد ربه . قال عكرمة قلت : أليس الله يقول : ( لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار ) ؟ قال : ويحك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره وقد رأى ربه مرتين حدیث
٦ ''اور حضرت ابن عباس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ما کذب الفؤاد ما راٰی ولقد راہ نزلۃ اخری(ترجمہ:اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے غلط نہیں کہا اس چیز کی بابت جو انہوں نے آنکھوں سے دیکھی یعنی ذات اقدس تعالیٰ کو اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پروردگار کو ایک مرتبہ اور دیکھا کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پروردگار کو دل کی آنکھوں سے ہرمرتبہ دیکھا۔(مسلم)اورترمذیکی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس نے (مذکورہ آیت کی تفسیر میں )کہا :محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ۔''حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ (میں نے یہ سن کراپنا اشکال ظاہر کیا اور)حضرت ابن عباس سے کہا کہ (قرآن کریم میں اپنی ذات کے بارے میں)اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار(پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟)حضرت ابن عباسنے حضرت عکرمہ کے اس اشکال کے جواب میں )کہاکہ تم پر افسوس ہے (کہ تم بات نہیں سمجھ سکے ،حقیقت یہ کہ ) یہ (مفہوم جو تم نے اس آیت کے ذریعہ پیش کیا ہے)اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے اور اپنے اس نور کے ساتھ ظاہر ہو جو اس کی ذات خاص کا نور ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا۔'' تشریح:اس روایت میں حضرت ابن عباس سے جن آیتوں کی تفسیر ووضاحت منقول ہے ہ سورہ نجم کی ابتدائی آیتوں میں سے ہیں اور مفسریں کے ہاں ان آیتوں کے بارے میں خاص اختلاف ہے کہ ان کا مدلول ومحمول کیا ہے ۔صحابہ وتابعین اورآئمہ مفسرین میں سے ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سورہ نجم کی ان آیتوں میں در حقیقت اس بات کا ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے ایک مرتبہ تو نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ میں اور دوسری شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس ۔اس کے برخلاف صحابہ وتابعین اورآئمہ مفسرین کی دوسری جماعت کا، جن میں حضرت ابن عباس کانام نامی سرفہرست ہے ،یہ کہنا ہم کہ ان آیات میں واقعہ معراج کا بیان اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پروردگار کو دل سے دو مرتبہ دیکھا ۔''یعنی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں میں بینائی کی بھی وہ طاقت ودیعت فرمائی جو آنکھ میں ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ادراک کی بھی وہ طاقت عطا فرمائی جو قلب میں ہوتی ہے، پس یہ کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کوبچشم قلب دیکھایا یہ کہ بچشم سردیکھا ،دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یہ مطلب اس لئے اختیار کیا گیا ،تاکہ جو حضرات جیسے حضرت ابن عباس وغیرہ )یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں پروردگار کو بچشم سردیکھا ہے ، اور حضرات یہ کہتے ہیں کہ بچشم قلب دیکھا ہے ،ان دونوں کے اقوال کی رعایت ہوجائے جیسا کہ اوپر اجمالا ذکرکیا گیا پہلے اختلاف تو یہی ہے کہ سورہ نجم کی ابتدائی آیتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کس کو دیکھنے کا ذکر ہے حق تعالیٰ کو یا حضرت جبرئیل علیہ السلام کو؟حضرت ابن عباس حق تعالیٰ کو دیکھنا مراد لیتے ہیں جمہور صحابہ ان کی تائید میں ہیں اورسلف میں جمہور مفسرین بھی اسی طرف گئے ہیں ان کے نزدیک دنی فتدلی قاب قوسین اوادنی کے الفاظ ( جوان آیات میں آئے ہیں )معراج کے موقعہ پربارگاہ ربوبیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب اور پروردگار کے مشاہدہ وزیارت کا بیان ہیں ۔پھر اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دیکھا ہے یا بچشم قلب؟ بعضوں نے تویہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرہی کی آنکھوں سے اپنے پروردگار کو دیکھا،امام نوویکی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کے نزدیک ترجیحی قول یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ۔جو حضرات آیات مذکورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جبرئیل کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا مراد لیتے ہیں ان میں حضرت عائشہ اورحضرت ابن مسعود بھی شامل ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ان آیات میں حضرت جبرئیل کے اس قرب ومشاہدہ کا بیان وذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرئیل امین کی اصل صورت کے ساتھ شب معراج میں اور اس سے پہلے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں حاصل ہوا تھا ۔ یہ اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے الخ''کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی مشیت وقدرت پر منحصر ہے اگر ا س کی ذات خاص کی تجلی ظاہر ہو تو اس میں شبہ نہیں کہ کسی کی بھی نگاہ وبصر کی توانائی برداشت کرسکتی ہو تو یقینا نگا ہ اس کی طرف اٹھ سکتی ہے اور آنکھیں دیدار اور زیارت کی تاب لاسکتی ہیں رہی اس آیت کی بات جس کا حوالہ حضرت عکرمہ نے دیا تو اس کے متعلق علماء لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ''ادراک ''کا ذکر ہے جس کے لغوی معنی کسی شے کا اس کے تمام اطراف وجوانب اور تمام سرحدوں کے ساتھ احاطہ کرنا ہیں اورظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے لئے نہ کوئی حد ونہایت ہے اور نہ اس کے اطراف وجانب ہیں ،اس کی ذات ان چیزوں سے ماوراء اور لامحدود ہے ،اس معنی میں کوئی بھی نگاہ وبصر اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔لہٰذا اس آیت میں ''احاطہ ''کی نفی مراد ہے مطلق دیدار کی نفی مراد نہیں ہے جس سے یہ اشکال واقع ہوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی بات اس آیت کے خلاف پڑتی ہے ۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت نے اپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا ۔''میں دو مرتبہ ''کی وضاحت بعض محدثین نے یہ کی ہے کہ ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے قریب اورایک مرتبہ عرش پر اور ملا علی قارینے اس جملہ کے تحت یہ لکھا ہے کہ ''دومرتبہ دیکھا''سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں مرتبہ دل کی آنکھوں سے دیکھا اور ایک مرتبہ سرکی آنکھوں سے
محترم Asim Mehmood صاحب
آپ کو پہلے بھی آگاہ اور متنبہ کیا گیا تھا کہ
1۔جاری بات پر ہی بحث کیا کریں
2۔کاپی پیسٹ سے بالکل گریز کریں
لیکن آپ نے اس پر عمل نہیں کیا اور جس سائٹ سے کاپی پیسٹ کیا وہاں سے بھی آپ نے مطلب پر مبنی پورا آرٹیکل کاپی کرلیا لیکن آخیر کے ان جملوں نے کیا گناہ کیا تھا جو کہ کاپی نہیں کیے گئے ’’یہ اختلاف مطالب اس لئے ہے کہ کسی بھی روایت میں وضاحت کے ساتھ منقول نہیں ہے جیسا کہ اس روایت میں بھی نہیں ،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دوبار دیکھا۔‘‘
گزراش ہے کہ آپ کی پوسٹ کا اقتباس لے کر پوسٹ کو موڈریٹ کردیا گیا ہے۔اور ہاں اقتباس کی صورت میں پوسٹ کو اس لیے باقی رکھا جارہا ہے تاکہ آپ کا یہ عمل سامنے رہے۔
گزارش ہے کہ اگر مزید اس پر دلائل پیش کرسکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اس طرح کی حرکتوں سے پرہیز کریں۔شکریہ
نوٹ:
آپ نے جہاں سے پورا آرٹیکل کاپی کیا وہ یہ سائٹ ہے۔saha-e-sittah.com
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
عاصم صاحب! صحیح مسلم کی روایت کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمائیے!

ازراہِ کرم! یہ نہ کہیے گا کہ میں اس کا ردّ کیسے کر سکتا ہوں؟؟؟

بقول آپ کے: آپ اس روایت کو مانتے تو ہیں ہی ۔۔۔

آپ یہ بتائیے کہ اس روایت سے آپ کے ہاں کیا ثابت ہوتا ہے؟؟
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
ایک طرف حضرت عائشہ ہے اور دوسری طرف ٣٠ صحابہ کے اقوال ہیں جو خود انہوں نے آقا علیہ سلام سے سنے........اب ٣٠ میں سارے وہ صحابہ ہیں جو فقیہ بھی تھے.......

میں اس بخاری کی روایت کو جھٹلا تا نہیں مگر میں اس روایت کے خلاف نہیں مگر میں ان کے اس اجتہاد کا فیصلہ نہیں مانتا کیونکہ ایک طرف ٣٠ صحابہ ہیں اور ایک طرف عائشہ رضی اللہ ہیں....میں اس پر بھی ان کی اس روایت پر دلائل لا رہا ہوں جو میں نے اکھٹھے کر لیے ہیں اور آپ کو ان پر بھی بحث دوں گا.........اور صحابہ نے دیکھنے کی روایت بھی خود آقا سے لی ہے.......سامنے بیٹھ کر .......تو کیا ہی اللہ پر جھوٹ باند تے ہیں.......

دیدار الٰہی سدرۃ المیتیٰ سے اوپر ہوا تھا........نیچے نہیں ......اور جبرا ئیل اس مقام سے اوپر گیا ہی نہیں....تو پھر کیسے جبرا ئیل کو دیکھا......
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
اور معراج کا واقعہ جسمانی تھا .....خواب کا نہیں تھا........خواب والا تو قریش مکہ بھی مانتے تھے کہ خواب میں بہت کچھ ہو سکتا ہے.........وہ اگر اعتراض کر رہے تھے تو ان کا مقصِدِ نفی جسمانی کا تھا..........انہوں نے خواب کا تو کیا ہی نہیں اور اگر پھر بھی آپ نفی کریں تو اللہ نے خود فرما دیا
" پاک ہے وہ ذات جو لے گئ اپنے بندے کو"

تو اب رب کہہ رہا ہے کہ میں لے کع گیا ہوں اس نے تو کہا ہی نہیں کہ میں گیا ہوں ....اگر تمہیں اعتراض ہے تو مجھ پر کرو کی میں لے کر جا نہیں سکتا......یہ تو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کو میں لے کر گیا ہوں........آپ کو ذات مصطفیٰ اور اولیا لے علاوہ کو ئ نہیں ملتا ...........کبھی غیب کا جھگڑا کھبی نوا و بشر کا.......ان پر بھی آوں گا انشا اللہ.........مگر پہلے یہ مکمل کر کہ آخری بات کی میں بحث حضرت عائشہ والی احادیث پر کروں گا.......
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ایک طرف حضرت عائشہ ہے اور دوسری طرف ٣٠ صحابہ کے اقوال ہیں جو خود انہوں نے آقا علیہ سلام سے سنے........اب ٣٠ میں سارے وہ صحابہ ہیں جو فقیہ بھی تھے.......
آپ کا دعویٰ ہے کہ 30 صحابہ کرام - جو سارے فقیہ تھے - نبی کریمﷺ کی دنیا میں، جاگتے ہوئے، سر کی آنکھوں سے رؤیت الٰہی کے قائل تھے اور انہوں نے خود نبی کریمﷺ سے سنا کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کو دیکھا تو یہ ہنوز آپ کا مجرد دعویٰ ہی ہے، جس پر آپ نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ جب تک آپ اس دعوے کو صحیح اسناد سے صراحت سے ثابت نہیں کریں گے، تب تک اس خالی خولی دعوے کی کیا حیثیت ہے؟؟!!

میں نے ہماری ماں سیدہ عائشہ، سیدنا ابن مسعود اور سیدنا ابو ہریرہ﷢ کی صریح اور واضح ترین آراء صحیح بخاری ومسلم سے پیش کی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔ کیا یہ صحابہ کرام﷢ فقیہ نہیں؟
یا صرف وہی فقیہ ہوتے ہیں جن کا موقف آپ کے مطابق ہو؟؟

علیٰ کل حال!!! میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا:
عاصم صاحب! صحیح مسلم کی روایت کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمائیے!
ازراہِ کرم! یہ نہ کہیے گا کہ میں اس کا ردّ کیسے کر سکتا ہوں؟؟؟
بقول آپ کے: آپ اس روایت کو مانتے تو ہیں ہی ۔۔۔
آپ یہ بتائیے کہ اس روایت سے آپ کے ہاں کیا ثابت ہوتا ہے؟؟
پہلے صحیح مسلم کی روایت کے متعلّق اپنا دوٹوک موقف واضح کریں! پھر صحابہ کرام﷢ سے متعلّق بھی بات کر لیں گے کہ کون صحابی رؤیتِ الٰہی کے قائل ہیں؟ صحیح مسلم کی روایت میں کسی صحابی کی رائے نہیں، بلکہ اس میں نبی کریمﷺ کی مرفوع حدیث (یعنی نبی کریمﷺ کا اپنا فرمان) موجود ہے کہ میں نے جبریل﷤ کو دیکھا۔ اب اس کے مقابل کس کا قول پیش کیا جا سکتا ہے؟؟؟! نبی کریمﷺ کی بات کے بالمقابل تو سیدنا ابو بکر وعمر﷢ کا ذاتی قول بھی نہیں پیش کیا جا سکتا!!!

ابھی تک آپ نے اس روایت کے متعلّق اپنا دوٹوک موقف ظاہر نہیں کیا، پہلے اس روایت پر کوئی نتیجہ خیز بات ہوجائے تو پھر دوسری بات ہوگی، ان شاء اللہ!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میں اس بخاری کی روایت کو جھٹلا تا نہیں مگر میں اس روایت کے خلاف نہیں مگر میں ان کے اس اجتہاد کا فیصلہ نہیں مانتا کیونکہ ایک طرف ٣٠ صحابہ ہیں اور ایک طرف عائشہ رضی اللہ ہیں....میں اس پر بھی ان کی اس روایت پر دلائل لا رہا ہوں جو میں نے اکٹھے کر لیے ہیں اور آپ کو ان پر بھی بحث دوں گا.........اور صحابہ نے دیکھنے کی روایت بھی خود آقا سے لی ہے.......سامنے بیٹھ کر .......تو کیا ہی اللہ پر جھوٹ باند تے ہیں.......
نہ جانے میری پوسٹس غور سے پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟؟!! معلوم نہیں کہ آپ کس بخاری کی روایت کی بات کر رہے ہیں؟؟ میں نے شروع سے صحیح مسلم کی سیدہ عائشہ والی حدیث کی بات کر رہا ہوں۔

بھائی! میں کتنی مرتبہ یہ واضح کر چکا ہوں کہ صحیح مسلم کی روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذاتی اجتہاد نہیں ہے، بلکہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں نے جبریل﷤ کو دیکھا۔

اب آپ فرمائیں کہ آپ اس بارے میں نبی کریمﷺ کی بات تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟؟

جہاں تک آپ کا دعویٰ ہے کہ 30 صحابہ کرام﷢ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کو دیکھا تو یہ ابھی تک آپ کا فقط دعویٰ ہی ہے، جس کا کوئی ثبوت آپ نے پیش نہیں کیا۔

صحیح مسلم کی روایت میں نبی کریمﷺ کے اپنے فیصلے سے متعلق آپ اپنا موقف واضح کریں، پھر ایک ایک کر کے آپ 30 صحابہ کی مرفوع روایات بیان کرنا۔ جس پر ہم اپنا موقف پیش کریں گے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
دیدار الٰہی سدرۃ المنتہیٰ سے اوپر ہوا تھا........نیچے نہیں ......اور جبرا ئیل اس مقام سے اوپر گیا ہی نہیں....تو پھر کیسے جبرا ئیل کو دیکھا......
صحیح مسلم کی روایت میں نبی کریمﷺ فرما رہے ہیں کہ میں نے جبریل﷤ کو دیکھا، آپ اس سے صرفِ نظر کر کے، اس پر اعتراضات کرکے اپنے اٹکل پچو چلا رہے ہیں۔ کیا آپ کو نبی کریمﷺ کی بات نہیں مانتے؟؟؟

سورۃ النجم کی آیات کریمہ ﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَ‌أَىٰ ١١ أَفَتُمَارُ‌ونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَ‌ىٰ ١٢ تو معراج کے متعلق ہیں ہی نہیں، بلکہ یہ تو شروع وحی سے متعلق ہیں، جیسا کہ میں پیچھے پوسٹ نمبر 62 میں تفسیر ابن کثیر وغیرہ سے ثابت کر چکا ہوں۔

جبکہ سورۃ النجم کی آیات کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ﴾ معراج سے متعلق ہیں، ان آیات کی تشریح میں صحیح مسلم میں نبی کریمﷺ کا اپنا فرمان موجود ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق﷫ (راوی) نے عرض کیا کہ اے امّ المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘ ۔۔۔ صحيح مسلم

تو اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ نے سورۃ النجم کی معراج سے متعلق آیات کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَ‌ةِ الْمُنتَهَىٰ ﴾ کی بذاتِ خود تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد رؤیت باری تعالیٰ نہیں بلکہ رؤیت جبریل﷤ ہے، میں نے جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔

نبی کریمﷺ کی اس صریح وضاحت کے بعد اب آپ نبی کریمﷺ کی بات کو جھٹلاتے ہوئے اور اپنے الٹے سیدھے اندازے لگاتے ہوئے یہ اعتراض کریں کہ
دیدار الٰہی سدرۃ المنتہیٰ سے اوپر ہوا تھا........نیچے نہیں ......اور جبرا ئیل اس مقام سے اوپر گیا ہی نہیں....تو پھر کیسے جبرا ئیل کو دیکھا......
تو اس کی حیثیت ہمارے نزدیک رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں۔

آپ کے یہ سارے اعتراضات نبی کریمﷺ پر ہیں؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی بات صحیح نہیں؟؟

یا آپ صحیح مسلم کی اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟؟؟

ویسے آپ فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو جھٹلاتا نہیں، مانتا ہوں ۔۔۔ یا للعجب؟

اپنا موقف دوٹوک انداز میں واضح کریں!
 
Top