- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
کونسی بخاری کی حدیث؟؟بھائ صاحب آپ ہر بار اتنی بڑی تحریر میرے سامنے لے کر آجاتے ہیں . جبکہ میں پہلے بھی اس حدیث بخاری کی تفسیر بتا چکا ہوں.
میرے بھائی! آیات کریمہ ﴿ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ٥ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ٦ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ٧ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم میں جبریل کی بات ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ کی بات نہیں ہو رہی، اور یہ آیات واقعہ معراج سے متعلق نہیں ہیں۔ اس آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے جبریل کو پہلی دفعہ اپنی اصل شکل میں دیکھا، تو اس وقت نبی کریمﷺ زمین پر تھے اور سیدنا جبریل آسمان پر تھے، پھر سیدنا جبریل نبی کریمﷺ کے قریب (یعنی زمین پر) آگئے۔ یہی ان آیات کریمہ کی تفسیر ہے۔ آپ نے تفسیر ابن کثیر کا حوالہ دیا، اسی تفسیر میں آپ ان آیات کی تفسیر پڑھ لیں، انہوں نے یہی لکھا ہے۔دیدار الٰہی کی بات سدرہ لمنتہیٰ سے اوپر کی ہے اور آپکو بات سمجھ آہی نہیں رہی .....جبرائیل اس مقام سے اوپر گیا ہی نہیں.
تفصیل کیلئے دیکھیں:
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=49&surano=53&ayano=18
البتہ آیات کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم واقعۂ معراج سے متعلق ہیں، اور ان آیات کی تشریح، میں آپ کو نبی کریمﷺ کی زبانی (صحیح مسلم) بتا چکا ہوں کہ نبی کریمﷺ نے وہاں بھی جبریل کو دیکھا تھا اپنی اصل صورت میں۔
یہ بہتان ہے امام ابن کثیر پر! امام ابن کثیر تو اسی بات کے قائل ہیں کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل کو دیکھا تھا۔ابن کثیر نے ٣٤ صحابہ کرام سے اقوال اکھٹے کیے ہیں کہ معجزہ معراج جسمانی تھا اور آپ نے اپنے رب کو اس کی اصلی صورت میں دیکھا
امام ابن کثیر آیاتِ کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ١٣ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ١٤ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ١٥ ﴾ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: هذه هي المرة الثانية التي رأى رسول الله ﷺ فيها جبريل علىٰ صورته التي خلقها الله عليها، وكانت ليلة الإسراء ۔۔۔ تفسير ابن كثير
کہ یہ دوسری مرتبہ تھا جب نبی کریمﷺ نے سیدنا جبریل کو ان کی اس صورت پر دیکھا جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تھا (یعنی اصل صورت)، اور یہ واقعہ اسراء ومعراج کی رات ہوا تھا۔
یہ تو ہمارے صدر اور وزیر اعظم والی بات ہوگئی، جو منہ سے تو بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرتے۔ لیکن!!!! سب کو پتہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟!!مجھے حضرت عائشہ والی حدیث پتا ہے............میں اس کو نہیں جٹھلاتا، ، ، ، نہ میری اوقات ہے کسی حدیث کو جٹھلانے کی. . .. . . .مگر آپ کو بات سمجھ نہیں آتی.......وہی ایک رٹ بار بار لے کر آجاتے ہیں.........میں اس کے ہر بار نئے دلائل لے کر آتا ہوں اور پھر یہی لے کر آجاتے ہیں......عجیب انساں ہیں ......
یہی مکروہ کام یہاں عاصم صاحب احادیث مبارکہ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ منہ سے کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث نہیں جھٹلاتا۔
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے آيت کریمہ ﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘
اگر عاصم صاحب اس حدیث مبارکہ کو مانتے ہیں تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟؟؟
درج بالا صحیح مسلم کی حدیث سے نبی کریمﷺ کی زبانی ثابت ہے کہ آپﷺ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل کو دیکھا تھا۔
اگر عاصم صاحب سمجھتے ہیں کہ واقعۂ معراج کے علاوہ نبی کریمﷺ نے کسی اور موقع پر اللہ کو دیکھا تھا تو اس کی دلیل پیش کر دیں!