- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی ہی کہی جاتے ہیں اور دوسروں کی سنتے ہی نہیں۔ثم دنا کو کسی نے جبرائیل کی طرف نہہیں لو ٹایا۔۔۔۔۔۔۔امام حسن بصری نے قسم کھائی ہے۔ امام احمد بن حنبل بھی قائل ننہیں۔۔۔۔۔۔۔دلیل لاؤ تم دلیل کو مانتے ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ میں نے کتنی مرتبہ کہا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے متعلّق اپنا موقف واضح کریں لیکن مجال ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ دیں، کیونکہ آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ بھائی!! اگر جواب نہیں ہے تو پھر تسلیم کر کے اپنی عاقبت سنوار لو کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر جبریل کو دیکھا تھا۔
2۔ اپنی پچھلی پوسٹ میں آپ نے کہا کہ ابن کثیر کے سوا تمام مفسرین نے ثم دنا فتدلىٰ سے مراد اللہ تعالیٰ لیے ہیں۔ میں نے آپ کا جھوٹ واضح کرتے ہوئے لنک دیا، جس میں بہت ساری تفسیروں کا حوالہ تھا، جس میں انہوں نے پہلے جمہور کا قول بیان کیا کہ اس آیت کریمہ سے مراد جبریل ہیں۔
لیکن
آپ نے اپنی عادت کی طرح میرے دئیے گئے لنک کو دیکھے بغیر پھر جھوٹا دعویٰ کیا کہ کسی مفسر نے ثم دنا فتدلى كو جبریل کی طرف نہیں لوٹایا۔
تو لیجئے میں ان مفسرین کی عبارتیں نقل کر دیتا ہوں، کیا اب آپ اسے بھی جھٹلائیں گے؟
- يقول - تعالى ذكره - : ثم دنا جبريل من محمد - صلى الله عليه وسلم - فتدلى إليه ، وهذا من المؤخر الذي معناه التقديم ۔۔۔ تفسير طبري
- فمعنى الآية : ثم دنا جبريل بعد استوائه بالأفق الأعلى من الأرض " فتدلى " فنزل إلى محمد - صلى الله عليه وسلم - ، فكان منه " قاب قوسين أو أدنى " ، بل أدنى ، وبه قال ابن عباس والحسن وقتادة ، قيل : في الكلام تقديم وتأخير تقديره : ثم تدلى فدنا؛ لأن التدلي سبب الدنو . ۔۔۔ تفسير البغوي
- قوله تعالى : ثم دنا فتدلى أي دنا جبريل بعد استوائه بالأفق الأعلى من الأرض فتدلى فنزل على النبي صلى الله عليه وسلم بالوحي . المعنى أنه لما رأى النبي صلى الله عليه وسلم من عظمته ما رأى ، وهاله ذلك رده الله إلى صورة آدمي حين قرب من النبي صلى الله عليه وسلم بالوحي ۔۔۔ تفسير القرطبي
- وقال ابن عطية : ( ثم دنا ) ، قال الجمهور : أي جبريل إلى محمد ، عليهما الصلاة والسلام ، عند حراء . ۔۔۔ تفسير البحر المحيط
- ثم دنا فتدلى أي دنا جبريل بعد استوائه بالأفق الأعلى : أي قرب من الأرض ، فتدلى فنزل على النبي صلى الله عليه وسلم بالوحي ، وقيل في الكلام تقديم وتأخير ، والتقدير : ثم تدلى فدنى ۔۔۔ تفسير فتح القدير للشوكاني
آپ نے اپنی عادت کی طرح پھر مغالطہ دینے کی کوشش کی۔امام رازی لکھتے ہیں کہ" اگر یہ اعتراض کیا جاۓ کہ تم نے ان آیات کی تفسیر میں جو ضمیریں اللہ ک طرف لو ٹائی ہیں اور یہ معنی کیا ہے کہ اللہ رسول اللہ کے قریب ہوا ہے اور آپ نے اللہ کو دیکھا ،یہ احادیث کے خلاف ہےکیونکہ حدیث میں ہے جبرائیل نے آپکو اپنی ذات دکھائی اور مشرق بھر لیا، اس کا جواب یہ ہے کہ (امام رازی فرماتے ہیں)ہم نے یہ نہیں کہا کہ ایسا نہیں ہوا لیکن آیت میں یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اس آیت سے اس واقعہ کی حکایت کا رادہ کیا۔حتیٰ کہ اس حدیث کی مخالفت لازم آۓ۔ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ جبرائیل نے آقا کو اپنی ذات دو مرتبہ دکھائی۔اپنے پر پھیلاۓ۔ اور مشرق کو بھر لیا۔لیکن سورۃ نجم اس واقعہ کی حکایت کے لیے نہیں۔۔۔۔۔(امام رازی؛ تفسیر کبیر؛ ج7؛ ص 703)
امام رازی کے نزدیک بھی یہاں ثم دنا فتدلى سے مراد جبریل ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ! بلکہ جن لوگوں نے یہاں مراد اللہ تعالیٰ لیے ہیں، امام رازی نے ان کے قول کو ضعیف سخیف قرار دیا ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں:
{ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ } وفيه وجوه مشهورة
أحدها: أن جبريل دنا من النبي صلى الله عليه وسلم أي بعد ما مد جناحه وهو بالأفق عاد إلى الصورة التي كان يعتاد النزول عليها وقرب من النبي صلى الله عليه وسلم وعلى هذا ففي { تدلى } ثلاثة وجوه أحدها: فيه تقديم وتأخير تقديره ثم تدلى من الأفق الأعلى فدنا من النبي صلى الله عليه وسلم الثاني: الدنو والتدلي بمعنى واحد كأنه قال دنا فقرب الثالث: دنا أي قصد القرب من محمد صلى الله عليه وسلم وتحرك عن المكان الذي كان فيه فتدلى فنزل إلى النبي صلى الله عليه وسلم
الثاني: على ما ذكرنا من الوجه الأخير في قوله { وَهُوَ بِٱلأفُقِ ٱلأَعْلَىٰ } [النجم: 7] أن محمداً صلى الله عليه وسلم دنا من الخلق والأمة ولان لهم وصار كواحد منهم { فتدل } أي فتدلى إليهم بالقول اللين والدعاء الرفيق فقال: { إِنَّمَا أَنَاْ بَشَرٌ مّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَىَّ } [فصلت: 6] وعلى هذا ففي الكلام كما لان كأنه تعالى قال إلا وحي يوحي جبريل على محمد، فاستوى محمد وكمل فدنا من الخلق بعد علوه وتدلى إليهم وبلغ الرسالة
الثالث: وهو ضعيف سخيف، وهو أن المراد منه هو ربه تعالىٰ ۔۔۔ تفسیر مفاتیح الغیب