• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ثم دنا کو کسی نے جبرائیل کی طرف نہہیں لو ٹایا۔۔۔۔۔۔۔امام حسن بصری نے قسم کھائی ہے۔ امام احمد بن حنبل بھی قائل ننہیں۔۔۔۔۔۔۔دلیل لاؤ تم دلیل کو مانتے ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی ہی کہی جاتے ہیں اور دوسروں کی سنتے ہی نہیں۔

1۔ میں نے کتنی مرتبہ کہا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے متعلّق اپنا موقف واضح کریں لیکن مجال ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ دیں، کیونکہ آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ بھائی!! اگر جواب نہیں ہے تو پھر تسلیم کر کے اپنی عاقبت سنوار لو کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔

2۔ اپنی پچھلی پوسٹ میں آپ نے کہا کہ ابن کثیر﷫ کے سوا تمام مفسرین﷭ نے ثم دنا فتدلىٰ سے مراد اللہ تعالیٰ لیے ہیں۔ میں نے آپ کا جھوٹ واضح کرتے ہوئے لنک دیا، جس میں بہت ساری تفسیروں کا حوالہ تھا، جس میں انہوں نے پہلے جمہور کا قول بیان کیا کہ اس آیت کریمہ سے مراد جبریل﷤ ہیں۔
لیکن
آپ نے اپنی عادت کی طرح میرے دئیے گئے لنک کو دیکھے بغیر پھر جھوٹا دعویٰ کیا کہ کسی مفسر نے ثم دنا فتدلى كو جبریل کی طرف نہیں لوٹایا۔

تو لیجئے میں ان مفسرین کی عبارتیں نقل کر دیتا ہوں، کیا اب آپ اسے بھی جھٹلائیں گے؟
  • يقول - تعالى ذكره - : ثم دنا جبريل من محمد - صلى الله عليه وسلم - فتدلى إليه ، وهذا من المؤخر الذي معناه التقديم ۔۔۔ تفسير طبري


  • فمعنى الآية : ثم دنا جبريل بعد استوائه بالأفق الأعلى من الأرض " فتدلى " فنزل إلى محمد - صلى الله عليه وسلم - ، فكان منه " قاب قوسين أو أدنى " ، بل أدنى ، وبه قال ابن عباس والحسن وقتادة ، قيل : في الكلام تقديم وتأخير تقديره : ثم تدلى فدنا؛ لأن التدلي سبب الدنو . ۔۔۔ تفسير البغوي


  • قوله تعالى : ثم دنا فتدلى أي دنا جبريل بعد استوائه بالأفق الأعلى من الأرض فتدلى فنزل على النبي صلى الله عليه وسلم بالوحي . المعنى أنه لما رأى النبي صلى الله عليه وسلم من عظمته ما رأى ، وهاله ذلك رده الله إلى صورة آدمي حين قرب من النبي صلى الله عليه وسلم بالوحي ۔۔۔ تفسير القرطبي


امام ابو حیان اندلسی﷫ نے یہاں امام ابن عطیہ جو تفسیر المحرر الوجیز کے مؤلف ہیں سے جمہور کا قول یہ نقل کیا ہے کہ ثم دنا فتدلىٰ سے مراد جبریل﷤ ہیں۔


  • ثم دنا فتدلى أي دنا جبريل بعد استوائه بالأفق الأعلى : أي قرب من الأرض ، فتدلى فنزل على النبي صلى الله عليه وسلم بالوحي ، وقيل في الكلام تقديم وتأخير ، والتقدير : ثم تدلى فدنى ۔۔۔ تفسير فتح القدير للشوكاني
امام رازی لکھتے ہیں کہ" اگر یہ اعتراض کیا جاۓ کہ تم نے ان آیات کی تفسیر میں جو ضمیریں اللہ ک طرف لو ٹائی ہیں اور یہ معنی کیا ہے کہ اللہ رسول اللہ کے قریب ہوا ہے اور آپ نے اللہ کو دیکھا ،یہ احادیث کے خلاف ہےکیونکہ حدیث میں ہے جبرائیل نے آپکو اپنی ذات دکھائی اور مشرق بھر لیا، اس کا جواب یہ ہے کہ (امام رازی فرماتے ہیں)ہم نے یہ نہیں کہا کہ ایسا نہیں ہوا لیکن آیت میں یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اس آیت سے اس واقعہ کی حکایت کا رادہ کیا۔حتیٰ کہ اس حدیث کی مخالفت لازم آۓ۔ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ جبرائیل نے آقا کو اپنی ذات دو مرتبہ دکھائی۔اپنے پر پھیلاۓ۔ اور مشرق کو بھر لیا۔لیکن سورۃ نجم اس واقعہ کی حکایت کے لیے نہیں۔۔۔۔۔(امام رازی؛ تفسیر کبیر؛ ج7؛ ص 703)
آپ نے اپنی عادت کی طرح پھر مغالطہ دینے کی کوشش کی۔
امام رازی﷫ کے نزدیک بھی یہاں ثم دنا فتدلى سے مراد جبریل﷤ ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ! بلکہ جن لوگوں نے یہاں مراد اللہ تعالیٰ لیے ہیں، امام رازی﷫ نے ان کے قول کو ضعیف سخیف قرار دیا ہے۔ امام رازی﷫ فرماتے ہیں:
{ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ } وفيه وجوه مشهورة
أحدها: أن جبريل دنا من النبي صلى الله عليه وسلم أي بعد ما مد جناحه وهو بالأفق عاد إلى الصورة التي كان يعتاد النزول عليها وقرب من النبي صلى الله عليه وسلم وعلى هذا ففي { تدلى } ثلاثة وجوه أحدها: فيه تقديم وتأخير تقديره ثم تدلى من الأفق الأعلى فدنا من النبي صلى الله عليه وسلم الثاني: الدنو والتدلي بمعنى واحد كأنه قال دنا فقرب الثالث: دنا أي قصد القرب من محمد صلى الله عليه وسلم وتحرك عن المكان الذي كان فيه فتدلى فنزل إلى النبي صلى الله عليه وسلم
الثاني:
على ما ذكرنا من الوجه الأخير في قوله { وَهُوَ بِٱلأفُقِ ٱلأَعْلَىٰ } [النجم: 7] أن محمداً صلى الله عليه وسلم دنا من الخلق والأمة ولان لهم وصار كواحد منهم { فتدل } أي فتدلى إليهم بالقول اللين والدعاء الرفيق فقال: { إِنَّمَا أَنَاْ بَشَرٌ مّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَىَّ } [فصلت: 6] وعلى هذا ففي الكلام كما لان كأنه تعالى قال إلا وحي يوحي جبريل على محمد، فاستوى محمد وكمل فدنا من الخلق بعد علوه وتدلى إليهم وبلغ الرسالة
الثالث:
وهو ضعيف سخيف، وهو أن المراد منه هو ربه تعالىٰ ۔۔۔ تفسیر مفاتیح الغیب
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
عاصم صاحب، قرآنی آیت کی وضاحت میں دنیا بھر کی تفاسیر اور ہر قسم کی عقلی موشگافیاں آپ کو قبول ہیں اور خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت جو صحیح مسلم کی حدیث کی صورت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، وہ کیوں قبول نہیں؟
کسی بھی آیت کی تفہیم کے لئے خود صاحب قرآن سے بڑھ کر کس کی شرح قابل اعتماد ہو سکتی ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
امام مسلم روایت کرتے ہیں" عبد اللہ بن شفیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو زر رضی اللہ سے کہا اگر میں رسول اللہ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ، انہوں نے کہا تم کس چیز کے متعلق سوال کرتے ہو ؟ کہا میں یہ سوال کرتا ہوں کیا آقا نے اللہ کو دیکھا۔؟ ابوزر نے کہا میں نے بھی آپ سے اسی متعلق سوال کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے دیکھا وہ نور ہی نور تھا۔(صحیح مسلم، ج2، ص:99)

یہ بھی صحیح مسلم کی روایت ہے........اس پر آپ کیا کہتے ہیں......
علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
امام جعفر صادق بیان کرتے ہیں جب محبوب اپنے رب سے انتہائی قریب ہوۓ تو آپ پر ہیبت طاری ہو گئی تب اللہ آپ کے ساتھ نہایت لطف سے پیش آیا پھر اللہ نے اپنے حبیب سے وہی کہا جو حبیب حبیب سے کہتا ہےاور ان کے مابین وہی راز و نیاز ہوۓجو حبیب اور حبیب کے مابین ہوتے ہیں۔
صافیا کرام کہتے ہیں اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے قریب ہوۓ جیسے ان کی شان کے لائق ہے اور ما زاغ البصر کی تفسیر میں یہ کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اللہ کے جلوے سے نہیں ہٹی۔آپ جنت اور اس کی زینت کی طرف ملتفت ہوۓ نہ کہ جہنم اور اس کے شعلوں کی طرف۔بلکہ زات باری تعالیٰ کو محویت سے دیکھتے رہے۔ما طغیٰ کی تفسیر میں کہا آپ صراط مستقیم سے نہیں ہٹے۔ ابو حفض سہروردی نے کہا آپکی بصیرت میں کمی نہیں ہوئی۔اور بصر نے بصیرت سے تجاوز نہیں کیا۔ اور سہل بن عبد اللہ تعتری نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی زات کو دیکھا نہ کسی اور شے کو وہ صرف زات جمال کو ہی دیکھتے رہے۔اور صفات الٰہی کو مطالعہ کرتے رہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ نبی علیہ سلام نے اللہ کو دیکھا اور ایسے قریب ہوۓ جیسے ان کی شان کے لائق ہے۔(علامہ سید محمود الوسی۔ روح المعانی۔ ج:27، ص 54)
ثم دنا فتدلی۔۔۔۔۔۔۔میں جرائیل کا ذکر ہی نہیں ہے۔ہم مانتے ہیں کہ جرائیل کو دیکھا انہاں نے اپنے پروں سے مشرق کو ھر لیا مگر وہ سدرۃ المنتی سے اوپر ہی نہیں گئے۔۔۔۔۔سورۃ نجم اس کے لیئے نہیں کہ اس میں ان کا ذکر ہے۔۔۔۔

علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
حضرت حسن بصری نے "ثم دنا فتدلیٰ" کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹائی ہیں۔اسی طرح "ولقد راہ نزلۃ اخریٰ" میں ضمیریں اللہ کی طرف لو ٹائی ہیں۔
اور امام حسن بصری نے قسم کھا کر فرمایا کہ آقا علیہ سلام نے اللہ کو دیکھا۔اور ثم دنا کا معنی فرماتے ہیں کہ آقا علیہ سلام اللہ کے قریب ہوۓ اور آپکا مرتبہ بلند ہو گیا۔اور فتدلیٰ کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے آپکوبالکیہ جانب قدس کی طرف کھینچ کیا۔اسی مقام کو فنا فی اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔(سید محمود الوسی ؛ روح المعانی؛ جلد 27 ص 45)
حدیث پاک میں مذکورہے :

حتی جاء سدرة المنتهی دنی الجبار ربّ العزة فتدلی حتی کان منه قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی

(صحيح البخاری، 2 : 1120)

اس میں سددرۃ المتہی کا زکر آگیا۔۔۔۔۔
محترم عاصم صاحب! آپ سے کئی مرتبہ عرض کیا جا چکا ہے کہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ پر اپنا دو ٹوک موقف ظاہر کریں!

عاصم صاحب! صحیح مسلم کی روایت کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمائیے!
ازراہِ کرم! یہ نہ کہیے گا کہ میں اس کا ردّ کیسے کر سکتا ہوں؟؟؟
بقول آپ کے: آپ اس روایت کو مانتے تو ہیں ہی ۔۔۔
آپ یہ بتائیے کہ اس روایت سے آپ کے ہاں کیا ثابت ہوتا ہے؟؟
پہلے صحیح مسلم کی روایت کے متعلّق اپنا دوٹوک موقف واضح کریں! پھر صحابہ کرام﷢ سے متعلّق بھی بات کر لیں گے کہ کون صحابی رؤیتِ الٰہی کے قائل ہیں؟ صحیح مسلم کی روایت میں کسی صحابی کی رائے نہیں، بلکہ اس میں نبی کریمﷺ کی مرفوع حدیث (یعنی نبی کریمﷺ کا اپنا فرمان) موجود ہے کہ میں نے جبریل﷤ کو دیکھا۔ اب اس کے مقابل کس کا قول پیش کیا جا سکتا ہے؟؟؟! نبی کریمﷺ کی بات کے بالمقابل تو سیدنا ابو بکر وعمر﷢ کا ذاتی قول بھی نہیں پیش کیا جا سکتا!!!

ابھی تک آپ نے اس روایت کے متعلّق اپنا دوٹوک موقف ظاہر نہیں کیا، پہلے اس روایت پر کوئی نتیجہ خیز بات ہوجائے تو پھر دوسری بات ہوگی، ان شاء اللہ!
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
میں ہی کیوں آپ کی ہر بات پر مووقف ظاہر کروں .خود کاپی پیسٹ بھی کر رہے ہیں دوسری سائٹس سے اور آپ کے پاس ایک ہی حدیث ہے میں نے آپ کو کہا کہ حضرت عائشہ کے برعکس ٣٠ رویات ملتی ہیں. کہ آقا نے اللہ کو اپنی سر کی آنکھ سے دیکھا. اس پر جو مووقف میں نے ظاہر کیا وہ تو آپ نے مٹا دیا.پہلے سر اور دل والا معاملہ تو ختم ہو جا؁ئے......ثم دنا کی بھی آپ نے کاپی پیسٹ کر کہ دے دی خیر اس میں تو کوئی بات نہیں ........

آپ کو میں نے کئی رویات دی ہیں جو اس بات پر ہیں کہ میرے آقا نے خود فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے سر کی آنکھ سے.......اثبات کا فیصلہ بغیر آقا سے سنے کوئی نہیں کرتا اور نفی کا فیصلہ حضرت عائشہ نے اپنے اجتہاد سے کیا........ان کے پاس کوئی روایت نہیں ہے....
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
اور آپ مجھے ذرا وہ مسلم کی روایت دے دیں میں بھی اس کو پڑھ لوں ......
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میں ہی کیوں آپ کی ہر بات پر مووقف ظاہر کروں .خود کاپی پیسٹ بھی کر رہے ہیں دوسری سائٹس سے اور آپ کے پاس ایک ہی حدیث ہے
کیا ایک حدیث حجّت نہیں ہوتی؟؟؟ کیا کسی بات کو ثابت کرنے کیلئے لازماً بہت ساری حدیثوں کی ضرورت ہوتی ہے؟؟؟ كیا نبی کریمﷺ کا ایک فرمان آپ کیلئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا؟؟؟!
﴿ فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ٦٥ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء

میں نے آپ کو کہا کہ حضرت عائشہ کے برعکس ٣٠ رویات ملتی ہیں. کہ آقا نے اللہ کو اپنی سر کی آنکھ سے دیکھا. اس پر جو مووقف میں نے ظاہر کیا وہ تو آپ نے مٹا دیا.پہلے سر اور دل والا معاملہ تو ختم ہو جا؁ئے......ثم دنا کی بھی آپ نے کاپی پیسٹ کر کہ دے دی خیر اس میں تو کوئی بات نہیں ........

آپ کو میں نے کئی رویات دی ہیں جو اس بات پر ہیں کہ میرے آقا نے خود فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے سر کی آنکھ سے.......اثبات کا فیصلہ بغیر آقا سے سنے کوئی نہیں کرتا اور نفی کا فیصلہ حضرت عائشہ نے اپنے اجتہاد سے کیا........ان کے پاس کوئی روایت نہیں ہے....
پہلے میرا صرف اندازہ تھا، اب مجھے یقین ہے کہ آپ دوسروں کی پوسٹ کو دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے اور اپنے کہے جاتے ہیں۔
آپ نے پہلے بھی یہی دو اعتراض کیے تھے، میں ان کا تفصیلی جواب لکھا تھا، آپ نے اسے پڑھا ہی نہیں۔ آپ نے شائد پوسٹ نمبر 68 دیکھی نہیں۔ چلیں دوبارہ اسے دیکھ لیں۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/ذات-باری-تعالیٰ-49/کیا-نبی-کریمﷺ-نے-معراج-کے-موقع-پر-اللہ-تعالیٰ-کو-آنکھوں-40/index7.html#post46980

اور آپ مجھے ذرا وہ مسلم کی روایت دے دیں میں بھی اس کو پڑھ لوں ......
اس سے بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ اپنی ہی کہی جاتے ہیں، فریق مخالف چاہے قرآن کی آیت پیش کرے، یا حدیث مبارکہ! آپ کو اس سے غرض ہی نہیں۔ کیونکہ آپ نے کونسا قرآن وحدیث پر عمل کرنا ہے۔ آپ نے تو جو کچھ اپنے پیروں فقیروں اور بزرگوں سے سنا، وہی آپ کیلئے حجّت ہے، وہی آپ کا عقیدہ ہے، خواہ وہ قرآن وحدیث کے صریح مخالف ہو۔ عشق نبی کا آپ لوگوں کا دعویٰ پھر بھی قائم ودائم ہے۔ باقی سب گستاخ!

اب دیکھ لیجئے کہ میں نے آپ کو کتنی مرتبہ صحیح مسلم کی روایت کا حوالہ دیا، آج آپ ایک مہینے کے بعد نہایت معصومیت سے فرما رہے ہیں:
اور آپ مجھے ذرا وہ مسلم کی روایت دے دیں میں بھی اس کو پڑھ لوں ......
یعنی افسوس اس بات پر کہ آج تک آپ نے صحیح مسلم کی روایت دیکھی ہی نہیں، تو پھر بحث بلاوجہ کیوں کیے جا رہے ہیں؟؟؟!
حالانکہ میں نے سب سے پہلے یہ روایت یکم جون 2012ء کو پیش کی تھی، اس کے بعد میں
صحیح مسلم کی اس روایت کو مکمل تفصیل اور حوالے کے ساتھ پوسٹس نمبر: 26، 37، 46، 47، 55، 61 اور 70 پر
جبکہ اجمالی طور پر اسے پوسٹس نمبر: 30، 31، 50، 62، 63، 65، 68، 69، 78، 79، 81، 82 اور 83 پیش کر چکا ہوں۔
یعنی اسی ایک تھریڈ پر بیس پوسٹس میں صحیح مسلم کی روایت کا تفصیلی یا اجمالی تذکرہ کیا گیا اور آج آپ کہہ رہے ہیں:
اور آپ مجھے ذرا وہ مسلم کی روایت دے دیں میں بھی اس کو پڑھ لوں ......
فصبر جميل والله المستعان علىٰ ما تصفون
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
جناب یہ میں حدیث کہی بار پڑھ چکا ہوں . اس میں جبرائیل ّ کا زکر ہے کہ میں نے ان کو دیکھا تو میں مانتا ہوں میں نے نفی کی ہے؟......مگر بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کہنا چاہتا ہوں.......

اس حدیث میں جبرائیل کو دیکھنے کا اثبات ہے مگر اس میں اللہ کو دیکھنے کی نفی کس جگہ ہے......میں پہلے بھی امام رازی ککے دلائل سے جواب دے چکا ہوں کہ میں اس حدیث اور اس کی پوری حکایت کو مانتا ہوں مگر اس میں نہ تو اللہ کے دیدار کی نفی ہے اور نہ ہی اس کا مطلب ثم دنا سے جا کر ملتا ہے .....اس آیت کریمہ میں خدا اور اس کے بندے کی ملاقات کا ذکر ہے ...اگر جبرائیل ہوتے ثم دنا میں تو ذکر بندوں کا ہوتو.....

اس پوری سورت میں ذکر معراج کا ہے اور قاب قوسین سے مراد اللہ ہے اور یہ قربت آقا کو سدرۃ المنتہی سے اوپر ملی جس جگہ سے اوپر جبرائیل گیا ہی نہیں......یہی بات امام بصری نے بھی کہی.....مگر آپ نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے.......
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
آپ روایت وہ لائیں جس میں ارشاد ہو میں نے اللہ کو نہیں دیکھا ........نفی کسی حدیث میں نہیں آئی....جس نے بھی رویت کی نفی کی اس نے "لا تدرک البصار " والی آیت سے کی........ان کے پاس آقا کا کوئی فرمان نہیں.......اور جس نے اثبات کیا ہے اس نے خود سنا ہے.......اور ابن عباس قرآن نے سب سے بڑے عالم ہیں صحابہ کرام میں مولا علی رضی اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ سب سے بڑے اور عظیم عالم تھے......انہوں نے خود سنا ہے جبکہ نفی والوں نے اپنا اجتہاد سے فیصلہ کیا ہے.....امام بخاری نے روایت تو لی ہے مگر امام عسقلانی نے اس کی تشریح میں بات واضع کر دی کہ حضرت عائشہ کا اپنا اجتہاد تھا ان سے روایت ہی کوئی نہیں .......
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آپ روایت وہ لائیں جس میں ارشاد ہو میں نے اللہ کو نہیں دیکھا ........نفی کسی حدیث میں نہیں آئی....جس نے بھی رویت کی نفی کی اس نے "لا تدرک البصار " والی آیت سے کی........ان کے پاس آقا کا کوئی فرمان نہیں.......اور جس نے اثبات کیا ہے اس نے خود سنا ہے.......اور ابن عباس قرآن نے سب سے بڑے عالم ہیں صحابہ کرام میں مولا علی رضی اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ سب سے بڑے اور عظیم عالم تھے......انہوں نے خود سنا ہے جبکہ نفی والوں نے اپنا اجتہاد سے فیصلہ کیا ہے.....امام بخاری نے روایت تو لی ہے مگر امام عسقلانی نے اس کی تشریح میں بات واضع کر دی کہ حضرت عائشہ کا اپنا اجتہاد تھا ان سے روایت ہی کوئی نہیں .......
جناب یہ میں حدیث کہی بار پڑھ چکا ہوں . اس میں جبرائیل ّ کا زکر ہے کہ میں نے ان کو دیکھا تو میں مانتا ہوں میں نے نفی کی ہے؟......مگر بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کہنا چاہتا ہوں.......

اس حدیث میں جبرائیل کو دیکھنے کا اثبات ہے مگر اس میں اللہ کو دیکھنے کی نفی کس جگہ ہے......میں پہلے بھی امام رازی ککے دلائل سے جواب دے چکا ہوں کہ میں اس حدیث اور اس کی پوری حکایت کو مانتا ہوں مگر اس میں نہ تو اللہ کے دیدار کی نفی ہے اور نہ ہی اس کا مطلب ثم دنا سے جا کر ملتا ہے .....اس آیت کریمہ میں خدا اور اس کے بندے کی ملاقات کا ذکر ہے ...اگر جبرائیل ہوتے ثم دنا میں تو ذکر بندوں کا ہوتو.....

اس پوری سورت میں ذکر معراج کا ہے اور قاب قوسین سے مراد اللہ ہے اور یہ قربت آقا کو سدرۃ المنتہی سے اوپر ملی جس جگہ سے اوپر جبرائیل گیا ہی نہیں......یہی بات امام بصری نے بھی کہی.....مگر آپ نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے.......
آپ ایک مرتبہ صحیح مسلم کی روایت کا جو مفہوم آپ سمجھے ہیں، وہ بیان کر دیں! تاکہ آئندہ دیگر دلائل پر بات کی جائے۔

میرا موقف صحیح مسلم کی اس حدیث مبارکہ سے یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔
اگر آپ کو میرے اس موقف سے اتفاق ہے تو ٹھیک ہے، آگے بڑھتے ہیں۔ آئندہ آپ یہ نہیں کہیں گے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ کو دیکھا۔

اگر آپ کو میرے اس موقف سے اتفاق نہیں تو پھر صحیح مسلم کی اس روایت کا اصل مفہوم آپ متعین کردیں!

جہاں تک آپ کا کہنا ہے کہ سورۃ النجم پوری معراج سے متعلق ہے تو یہ بات صحیح نہیں۔ سورۃ النجم کا شروع کا حصہ معراج سے متعلق نہیں ہے۔
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
میرا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کو دیکھا وہ بھی سر کی آنکھ سے........
اسی لیئے کہ جس نے اثبات کیا اس نے خود سنا......اور جس نے نفی کی اس نے اپنا اجتہاد لیا.......
 
Top