محترم،
وہ عبارت غور سے پڑھ لیں میں وہ اپنے تمام فعل پر نادم تھیں جس کا اظہار انہوں نے کیا ہے اور البانی صاحب کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے باقی اپ وہاں پڑھ سکتے ہیں دوسری بات اماں عائشہ رضی اللہ عنھا نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیوں نہ کہا اس کا جواب اپ کو ایک روایت پیش کرکے دیتا ہوں۔
سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِي(سنن نسائی رقم3006 کتاب الحج باب التَّلْبِيَةُ بِعَرَفَة)
ترجمہ: سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ عرفات میں تھا انہوں نے پوچھا کیا بات ہے میں لوگوں کی تلبیہ کی آواز نہیں سن رہا میں نے کہا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خوف سے نہیں کہہ رہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ سے نکلے اور لبیک اللھم لبیک کہا اور کہا کہ انہوں نے بغض علی رضی اللہ عنہ میں سنت کو چھوڑدیا۔
اس روایت کو غور سے پڑھیں حج میں جمع غفیر ہوتا ہے مگر پھر بھی لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خوف سے نہیں بول رہے جب اتنے لوگ خاموش تھے تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے کچھ نہ فرمایا تو کوئی تعجب نہیں ہے
دوسری بات اپ نے جس حدیث "دو گروہ میں صلح کروائے گا" سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر قیاس کر رہے ہیں اس سے آئمہ نے ان کی ملوکیت پر استدلال کیا ہے
امام ابن تیمیہ رحم اللہ فرماتے ہیں
َوَفَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ إحْدَى عَشْرَةَ مِنْ هِجْرَتِهِ وَإِلَى عَامِ ثَلَاثِينَ سَنَةَ كَانَ إصْلَاحُ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السَّيِّدِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ بِنُزُولِهِ عَنْ الْأَمْرِ عَامَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ فِي شَهْرِ جُمَادَى الْأُولَى وَسُمِّيَ " عَامَ الْجَمَاعَةِ " لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى " مُعَاوِيَةَ " وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ.
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول کی 11 ہجری کو ہوئی اور اس کے تیس سال بعد حسن رضی اللہ عنہ کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان 41 ہجری جمادالاولی میں صلح ہوئی جس کو عام الجماعہ کا سال کہا جاتا ہے اور سب معاویہ رضی اللہ عنہ پر جمع ہوئے اور وہ اول ملوک ہیں
اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ غیبی خبر بھی پوری ہوتی ہے کہ
خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْك(سنن ابو داود رقم 4646)
ترجمہ: خلافت تیس سال ہے پھر اللہ جس کو چاہے گا بادشاہت دے گا۔
تو اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں بلکہ بادشاہ ملوک تھےاس پر ایک آدھا حوالہ پیش کر دیتا ہوں
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .(البدایہ والنھایہ ترجمہ معاویہ رضی اللہ عنہ
ترجمہ: میں(ابن کثیر) کہتا ہوں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملوک کہا جائے اور خلیفہ نہ کہا جائے یہی سنت ہے کیونکہ حدیث سفینہ رضی اللہ عنہ ہے کہ میرے بعد 30سال خلافت ہے پھر ظالم بادشاہت ہے۔
تو جس حدیث سے اپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرنا چاہ رہے تھے اس سے ان کی بادشاہت ثابت ہوتی ہے
اور رہی بات علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تو وہ اظہر من الشمس ہے مہاجرین و انصار نے ان کی بیعت کی تھی جس کو شرح العقیدہ طحاویہ میں یوں بیان کیا ہے
اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ جنگ صفین میں معاویہ رضی اللہ عنہ باغی گروہ تھا اور علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اس بارے میں میں ایک پوسٹ پر کام کر رہا ہوں" حدیث ویح عمار" کے حوالے سے جو 1
۔
فَالْخِلَافَةُ ثَبَتَتْ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بِمُبَايَعَةِ الصَّحَابَةِ، سِوَى مُعَاوِيَةَ مَعَ أَهْلِ الشَّامِ.
وَالْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه(شرح العقیدہ الطحاویہ جلد ا ص 493)
ترجمہ: پس عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد امیر المومنیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت ہے تمام صحابہ نے ان سے بیعت کی سوائے معاویہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کے اورحق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔
اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ جنگ صفین میں معاویہ رضی اللہ عنہ باغی گروہ تھا اور علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اس بارے میں میں ایک پوسٹ پر کام کر رہا ہوں" حدیث ویح عمار" کے حوالے سے جو 1 یا 2 دن میں ا جاوی گی