محترم ،
لگتا ہے اپ نے اس روایت کی غور سے نہیں پڑھا ہے اس میں صاف موجود کہ خوف کوئی طبعی نہیں تھا بلکہ معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سا لوگ سنت پر عمل نہیں کر رہے تھے تو یہ کہنا کہ یہ کوئی حکم نہیں تھا انتہائی نہ علمی کی بات ہے جب ابن عباس رضی اللہ عنہما خود فرما رہے ہے کہ سنت ترک کردی وہ بھی معاویہ رضی الله عنہ کے خوف سے تو اس پر کوئی اور کیا بات کہی جائے۔
وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں. (سورة الانعام # 116)
آپ ماشاء اللہ سمجھدار انسان لگتے ہیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ باتیں جو اب تک آپ کے قلم سے ادا ہوئی ہیں وہ ساری کی ساری ناسمجھی کہ دائرے میں گھوم رہی ہیں اگر خوف طبعی تھا تو پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہ کہنے پر تکبیر بلاخوف وجھجک کیونکر ذکر کرنا شروع کردی؟ دوسری بات خوف سے اگر لوگ تکبیر نہیں پڑھ رہے تھے تو وہ حج پر کیسے پہنچ گئے؟ کیونکہ حج بھی سنت ہے؟ یعنی ایک سنت میں طبعی خوف اور دوسرا ببانگ دہل انجام دینا کوئی منطق بنتی ہے؟ لہٰذا آپ اپنے مقصد کو یا یوں سمجھ لیں کہ رافضیت کہ موقف کو درست ثابت کرنے پر بضد کیوں ہیں؟ اگر اس کا کوئی نفسیاتی پہلو ہے تو اُس کو سامنے رکھیں، لیکن جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، احناف (اہل الرائے) میں سے آل دیوبند اور بریلی سے بریلوی حضرات نے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کہ تعلق سے اہل روافض کے مواد کو من وعن اپنی کتب میں مقام افضلیت بخشا، اب کمبختی یہ آگئی کہ جیسے جیسے حقائق اور روایت کہ تخریج اور اسماء الرجال کی کسوٹی پر پرکھنے کہ بعد راویوں کہ ثقاہت جیسے معاملات سامنے آئے تو (اہل الرائے ) نظریات اور مسلکی عقائد کہ محلات کی دیواریں ہلنے لگی ہیں کیونکہ ایک عام قاری یا یوں کیں کہ لوگوں کی درسترس تک علم پہنچتا شروع ہو گیا ہے تو اہل روافض دور بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ اب یہ خود اپنے مسلک کو بچانے کہ لئے یزید رحمہ اللہ علیہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ خلاف اہل روافض کہ موقف کی تائید کریں گے۔ اسی لئے تقلید کو تنقید کہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔
دوسری بات! آپ کسی بھی فیس بک پر ایسے گروپ میں چلے جائیں جس میں انتظامی امور اہل روافض کہ ہاتھ میں ہیں تو وہ ہمیں اُن ہی کتب کہ صفحات اسکین کر، کر کے وہی واقعات دکھاتے ہیں جو رافضیوں کہ ذاکر ممبر پر بیٹھ کر سناتے ہیں آل دیوبند اور آل بریلی نے تقلید کی روش پر چلتے ہوئے من وعن بلاتحقیق اپنی مستند کتب میں جن واقعات کو جگہ دی آج وہی اُن کہ حلق کی ہڈی بن گئے ہیں۔ تو میرے دوست یہ کہلاتی ہے سازش سارے واقعات یا "روایات" ایک طرف دھکیل دیجیئے، کیونکہ اب بات ہورہی ہے حدیث کی اور امام بخاری رحمۃ اللہ کی بیان کردہ حدیثِ قسطنطنیہ تمام روایات جو راویوں کی قصہ گوئیوں پر مبنی ہیں پر بازی مار گئی اس لئے سُوظن رکھنے کی بجائے اپنے مسلمان اور کاملِ ایمان ہونے کا ثبوت اس حدیث کہ روشنی میں تمام روایات کو باطل سمجھ کر رد کرتے ہوئے کیجئے۔۔۔۔
کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
فتدبر!!!
واللہ اعلم،،،