عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
پہیلیاں بجھا کر کیا فائدہ؟؟آپ ہی وضاحت کر دیںسوچئے نہ.کیوں آگئے؟ ؟
Sent from my LG-D855 using Tapatalk
پہیلیاں بجھا کر کیا فائدہ؟؟آپ ہی وضاحت کر دیںسوچئے نہ.کیوں آگئے؟ ؟
Sent from my LG-D855 using Tapatalk
محترم،جو کہنا تها مجهے وہ کہا میں نے ، اس سے زیادہ کہنا میں غیر ضروری محسوس کرتا هوں ۔ ہماری باتوں میں تضاد نہیں هے کیونکہ ہم نے نا دعوی کیا نا چیلنج کیا ۔ عجب تماشہ هیکہ یا تو اکسایا جائے یا طعن هو یا علم کی تمام منازلیں سر کرلی جائیں اور پهر معصوم بن جایا جائے ، عجز و انکساری بتائی (جتائی) جائے اور خود کو کم علم کہا جائے ۔
میرے خیال سے تو کافی سے زیادہ هو گیا ۔ اگر انکے مراسلات میں کوئی ایسی بات هوتی جسکا جواب دیا جانا ضروری هوتا تو فورم پر موجود اہل علم نے ضرور جواب دیا هوتا ۔ یہ اشارہ ہی کافی سے زیادہ هے ۔ ورنہ صاحب مضمون (جن کے مضمون پر ردود پیش کئئے جارہے ہیں) نے ضرور بہ ضرور جواب دیا هوتا ۔
واللہ اعلم
محترم،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ : " اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ ... رقم الحديث: 3806]
ترجمہ: حضرت عبد الرحمٰن بن ابی عميرة المزني سے روایت ہے، اور وہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک انہوں نے (دعا) فرمائی حضرت معاویہؓ کے لئے: اے الله ! اس کو ہادی بنا اور مہدی (ہدایت-یافتہ) بنا اور اس سے (دوسروں کو) ہدایت دے-
حكم المحدثین: صحيح
ملا علی قاری رح فرماتے ہیں:
ولا ارتياب أن دعاء النبي - صلى الله عليه وسلم - مستجاب ، فمن كان هذا حاله كيف يرتاب في حقه
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب المناقب والفضائل » باب جامع المناقب ... 6244 (11/438)]
ترجمہ : اس میں کچھ شک نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی دعا یقیناً مستجاب ہوتی ہے تو جس شخص کے حق میں یہ دعائیں ہوتی ہیں اس کے حق میں قبولیت میں کس طرح شبہ کیا جاسکتا ہے؟
البتہ بعض دعائیں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی بارگاہ الہی میں جو قبول نہیں ہوئیں ان کے بارے میں خود نبی کریم نے اپنی احادیث میں بتا دیا کہ میری فلاں دعا کو شرف قبولیت حاصل نہیں ہوئی- ورنہ تو اہل بیعت اور علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی نبی کریم کی دعائیں منقول ہیں- کیا اس اصول کے تحت ان کی قبولیت میں بھی شبہ کیا جا سکتا ہے ؟؟
محترم،زیادہ سے زیادہ موطا امام مالک یا مسند علی بن حسین کتب کی مثال ملتی ہے جن میں روایات کو جمع کیا گیا وغیرہ- اس لئے یہ کہنا کہ یزید کے فضائل میں روایات بنو امیہ دور میں گھڑی گئیں ایک لغو اور غلط نظریہ ہے-
آخری بات یہ قول میرا نہیں ہے اپ کے ہی ہمنوا کا ہے میں نے صرف طنزیہ استعمال کیا تھا کہ وہ حدیث حوب ماننے کو تیار نہیں ہیں جبکہ محدثین اس کو صحیح مانتے ہیںجہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ "خاندان بنو امیہ ٩٠ سال حکومت پر قابض رہی تو یزید کے فضائل میں جو روایات اور تاریخ میں جو کچھ ہے محدثین نے وہ متاثر ہو کر لکھا ہے توان سے بھی محدثین کا متاثر ہونا فطری بات ہے"-
تو محترم یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ بنو امیہ کا دور حکومت لگ بھگ ٤١ ہجری سے لیکر ١٣٠ ہجری تک رہا- اسی دوران عہد صحابہ کے مابین جنگیں اور کربلا جیسے واقعات وقوع پذیر ہوئے تھے۔ جو لوگ ان واقعات کے عینی شاہد تھے، ان میں سے بعض نے انہیں اگلی نسل کے سامنے بیان کیا، اس اگلی نسل نے اپنے سے اگلی نسل کے سامنے یہ واقعات بیان کیے۔ ایسا کم ہی ہوا کہ کسی بیان کرنے والے نے پورے واقعے کو مکمل تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہو بلکہ کسی نے مختصراً بات بیان کی اور کسی نے کچھ تفصیل سے۔ اس طرح سے یہ واقعات بیان کرنے والوں کے "بیانات" کی صورت میں مرتب ہوئے۔ اور یہ بیانات یا روایات بھی صحیفوں کی شکل میں آئمہ و محدثین کے پاس محفوظ تھے- بہت کم ایسا ہوا کہ کسی نے ان کو کتابی شکل دی- اس دور میں احادیث نبوی بھی کتابی شکل میں مرتب نہیں تھیں - زیادہ سے زیادہ موطا امام مالک یا مسند علی بن حسین کتب کی مثال ملتی ہے جن میں روایات کو جمع کیا گیا وغیرہ- اس لئے یہ کہنا کہ یزید کے فضائل میں روایات بنو امیہ دور میں گھڑی گئیں ایک لغو اور غلط نظریہ ہے- روایات کی ترتیب و تدوین اور ان پر جرح و نقد دوسری و تیسری صدی ہجری میں منظم طور پر شروع کی گئی -یہ عباسیوں کا دور تھا اور اسی دور میں مورخین و آئمہ نے روایت پر تحقیق شروع کیں - اور عباسی دور میں ان روایت پر تنقید تادیب کے سلسلے نے زور پکڑا -یہ بات ہم جانتے ہیں کہ کوئی مصنف جب کتاب لکھتا ہے تو وہ اپنے زمانے کے لوگوں کی علمی اور ذہنی سطح ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ اور اس دور کے نشیب و فراز سے متاثر ہوے بغیر نہیں رہ پاتا- عجمیوں میں ویسے بھی اہل فارس کا خون دوڑ رہا تھا اس لئے وہ مورثیت کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکے - اس بنیاد پر انہوں نے عبد الله بن سبا کے مذموم افکار کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی اور فضائل اہل بیعت میں طرح طرح کی ان گنت روایات گھڑیں کہ آئمہ و محدثین کے لئے باوار کرنا مشکل ہو گیا کہ کون سی روایت صحیح ہے اور کون سی غلط -لیکن اس معاملے میں ہم آئمہ و محدثین کو قصور وار بھی نہیں ٹہرا سکتے کیوں کہ انہوں نے اپنی پورری کوشش ضرور کی لیکن زمانے کا اثر اپنی جگہ باقی رہا- (واللہ اعلم)
محترم ،استغفر اللہ!
اب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں بخشو گے؟؟؟؟
محترممشہور محدث عمر بن بدر الموصلی لکھتے ہیں :
لم یقف العلماء عند نقد الحدیث من حیث سندہ بل تعدوا الی النظر فی متنہ فقضوا علی کثیر من لاحادیث بالوضع وان کان سندا سالما اذا وجدوا فی متونھا عللا تقضی بعدم قبولھا ۔ (تقی امینی، حدیث کا درایتی معیار ۱۷۹)
علما نے نقد حدیث کے معاملے میں صرف سند پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ بہت سی ایسی حدیثوں کو موضوع قرار دیا گیا جن کی سندیں اگرچہ درست ہیں، لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع ہیں۔‘‘
سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِي(سنن نسائی رقم3006 کتاب الحج باب التَّلْبِيَةُ بِعَرَفَة)
پھر آپ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ معاویہ رضی الله عنہ محدثین کے نزدیک "منافق " تھے - صحابی ہونے کا تو صرف ایک ڈرامہ تھا - (نعوز باللہ)- اور علی رضی الله عنہ نے جو معاویہ رضی الله عنہ کی مناقیبت میں باتیں کہیں وہ بھی جھوٹ تھیں - جب کہ علی رضی الله عنہ کی معاویہ رضی الله عنہ کی تعریف صحیح روایات سے ثابت ہے - اور پھر ان صحابہ کے ایمان کا ہم کیا کریں جنہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کا ہمیشہ ساتھ دیا - اور حضرت حسن رضی الله عنہ نے ایک ظالم و جابر بادشاہ سے مصالحت کی بیعت کر لی جس کی مناقبت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ؟؟ لعنت الله الالکازیبین -محترم،
اپ کی اس کے باطلان کے لئے اپ فتح الباری کتاب مناقب میں ذکر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تحت جو لکھا ہے وہ پڑھ لیں
وَقد صنف بن أَبِي عَاصِمٍ جُزْءًا فِي مَنَاقِبِهِ وَكَذَلِكَ أَبُو عُمَرَ غُلَامُ ثَعْلَبٍ وَأَبُو بَكْرٍ النَّقَّاشُ وَأَوْرَدَ بن الْجَوْزِيِّ فِي الْمَوْضُوعَاتِ بَعْضَ الْأَحَادِيثِ الَّتِي ذَكَرُوهَا ثُمَّ سَاقَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهْوَيْهِ أَنَّهُ قَالَ لَمْ يَصِحَّ فِي فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ شَيْءٌ فَهَذِهِ النُّكْتَةُ فِي عُدُولِ الْبُخَارِيِّ عَنِ التَّصْرِيحِ بِلَفْظِ مَنْقَبَةٍ اعْتِمَادًا عَلَى قَوْلِ شَيْخِهِ لَكِنْ بدقيق نظره استنبط مَا يدْفع بِهِ رُؤُوس الرَّوَافِضِ وَقِصَّةُ النَّسَائِيِّ فِي ذَلِكَ مَشْهُورَةٌ وَكَأَنَّهُ اعْتَمَدَ أَيْضًا عَلَى قَوْلِ شَيْخِهِ إِسْحَاقَ وَكَذَلِكَ فِي قصَّة الْحَاكِم واخرج بن الْجَوْزِيِّ أَيْضًا مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ سَأَلْتُ أَبِي مَا تَقُولُ فِي عَلِيٍّ وَمُعَاوِيَةَ فَأَطْرَقَ ثُمَّ قَالَ اعْلَمْ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ كَثِيرَ الْأَعْدَاءِ فَفَتَّشَ أَعْدَاؤُهُ لَهُ عَيْبًا فَلَمْ يَجِدُوا فَعَمَدُوا إِلَى رَجُلٍ قَدْ حَارَبَهُ فَأَطْرَوْهُ كِيَادًا مِنْهُمْ لِعَلِيٍّ وَقد صنف بن أَبِي عَاصِمٍ جُزْءًا فِي مَنَاقِبِهِ وَكَذَلِكَ أَبُو عُمَرَ غُلَامُ ثَعْلَبٍ وَأَبُو بَكْرٍ النَّقَّاشُ وَأَوْرَدَ بن الْجَوْزِيِّ فِي الْمَوْضُوعَاتِ بَعْضَ الْأَحَادِيثِ الَّتِي ذَكَرُوهَا ثُمَّ سَاقَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهْوَيْهِ أَنَّهُ قَالَ لَمْ يَصِحَّ فِي فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ شَيْءٌ فَهَذِهِ النُّكْتَةُ فِي عُدُولِ الْبُخَارِيِّ عَنِ التَّصْرِيحِ بِلَفْظِ مَنْقَبَةٍ اعْتِمَادًا عَلَى قَوْلِ شَيْخِهِ لَكِنْ بدقيق نظره استنبط مَا يدْفع بِهِ رُؤُوس الرَّوَافِضِ وَقِصَّةُ النَّسَائِيِّ فِي ذَلِكَ مَشْهُورَةٌ وَكَأَنَّهُ اعْتَمَدَ أَيْضًا عَلَى قَوْلِ شَيْخِهِ إِسْحَاقَ وَكَذَلِكَ فِي قصَّة الْحَاكِم واخرج بن الْجَوْزِيِّ أَيْضًا مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ سَأَلْتُ أَبِي مَا تَقُولُ فِي عَلِيٍّ وَمُعَاوِيَةَ فَأَطْرَقَ ثُمَّ قَالَ اعْلَمْ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ كَثِيرَ الْأَعْدَاءِ فَفَتَّشَ أَعْدَاؤُهُ لَهُ عَيْبًا فَلَمْ يَجِدُوا فَعَمَدُوا إِلَى رَجُلٍ قَدْ حَارَبَهُ فَأَطْرَوْهُ كِيَادًا مِنْهُمْ لِعَلِيٍّ فَأَشَارَ بِهَذَا إِلَى مَا اخْتَلَقُوهُ لِمُعَاوِيَةَ مِنَ الْفَضَائِلِ مِمَّا لَا أَصْلَ لَهُ وَقَدْ وَرَدَ فِي فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ لَكِنْ لَيْسَ فِيهَا مَا يَصِحُّ مِنْ طَرِيقِ الْإِسْنَادِ وَبِذَلِكَ جَزَمَ إِسْحَاق بن رَاهَوَيْه وَالنَّسَائِيّ وَغَيرهمَا وَالله اعْلَم وَبِذَلِكَ جَزَمَ إِسْحَاق بن رَاهَوَيْه وَالنَّسَائِيّ وَغَيرهمَا وَالله اعْلَم
عربی پڑھنی آتی ہے وگرنہ ترجمہ کیا جا سکتا ہے
اسمیں واضح ہے کہ
فَأَشَارَ بِهَذَا إِلَى مَا اخْتَلَقُوهُ لِمُعَاوِيَةَ مِنَ الْفَضَائِلِ مِمَّا لَا أَصْلَ لَهُ وَقَدْ وَرَدَ فِي فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ لَكِنْ لَيْسَ فِيهَا مَا يَصِحُّ مِنْ طَرِيقِ الْإِسْنَادِ
معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بے شمار احادیث ہیں مگر الگ الگ ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے ۔
یہ احادیث کس نے گھڑی ہیں درباریوں نےمگر سلام ہے محدثین کی صداقت کے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کے باوجود حق کا دامن نہیں چھوڑا اور لکھ دیا کہ ایک بھی صحیح نہیں ہے۔
آپ کی اس جہالت کو کس کیٹیگری میں رکھوں؟؟؟محترم ،
مجھے نہیں اپنے طارق عبداللہ صاحب سے فرمائیں جو حدیث رسول کو جھٹلا رہے ہیں اور محدثین پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے حدثیں بنو عباس کے زیر اثر ہو کر گھڑی ہیں نعوذباللہ میں نے صرف طنزیہ کہا تھا ورنہ میرا حدیث پر پوراایمان ہےکہ جو صحیح سندسےثابت ہے وہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے مگر اپ یعنی جو اہل حدیث کا منھج ہے اس میں سے ایک" حدیث"کو مشکوک فرمارہے ہیں اور اپ محترم اس پر بھی اپنے ساتھی کو پوسٹ کرکے نعوذ باللہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں بخشو گے فرما دیجیئے گا۔ ورنہ یہ منافقت بند کردیں میرے لیے میعارکچھ اور اپنوں کے لیےکچھ اور
اللہ ہدایت دے