• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ کہنا درست ہے کہ "میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر قسم اٹھاتا ہوں" ؟

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم ابن بشیر الحسینوی صاحب !
آپ نے اب تک جو بھی پیش کیا ہے وہ " قیل وقال " ہے
اگر آپکے پاس اس بات پر کوئی " دلیل" ہے تو اسے پیش کریں کہ معیت ایک مستقل وصف نہیں ہے ۔
ہم کتاب وسنت کی نصوص صریحہ پیش کر چکے ہیں کہ اللہ لفظ معیت اور لفظ نصرت وعلم علیحدہ علیحدہ الفاظ بولے ہیں ۔
لہذا آپ کتاب وسنت سے دلیل مہیا کریں کہ معیت کوئی مستقل وصف نہیں ہے ۔
آپ کے مقالہ کا ہمیں شدت سے انتظار رہے گا کہ شاید آپ کوئی " دلیل " پیش فرماسکیں
فلاں کا قول فلاں کا کہنا فلاں کا موقف دین میں حجت و دلیل نہیں ہے
اللہ نے صرف اور صرف وحی الہی کی اتباع کا حکم دے کر ہمہ قسم قیل وقال کے اتباع سے منع فرما دیا ہے ( الأعراف : ۳)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔علماء اور اہل علم رہنما ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن وہ منزل نہیں ہیں اور منزل کتاب وسنت ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک مقام پر علماء اور کتاب وسنت کے تعلق کی یہی مثال بیان کی ہے۔یعنی علماء رستہ کی رہنمائی فرماتے ہیں اور مقصود و منزل کتاب وسنت ہے۔ پس دونوں کی اہمیت اپنے اپنے مقام پر مسلم ہے۔
2۔ پس جن اہل علم کے حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں، انہی اہل علم نے ہمیں یہ رستہ دکھایا ہے اور اصول سکھایا ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں ہم نے تاویل نہیں کرنی ہے اور کتاب وسنت کے دلائل کی رہنمائی میں یہی بات درست ہے۔ پس ہم صفت معیت میں تاویل نہ کر کے انہی اہل علم کے بتلائے ہوئے اصول کی اتباع کرتے ہیں جن کے حوالہ جات محترم ابن بشیر الحسینوی صاحب نے پیش فرمائے ہیں۔
3۔ میرے خیال میں’معیت‘ کا معنی ’علم‘ لینے والے ہمارے محترم اصحاب علم وفضل کی طرف سے یہ ضرور واضح کیا جائے کہ صفت معیت کو ’معیت‘کے معنی میں لینے سے کیا اشکال یا خرابی یا بگاڑ یا انحراف لازم آتا ہے جس کی وجہ سے اس کی علم کے ساتھ تاویل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔اگر تو صفت معیت کو ’معیت“کے معنی پر باقی رکھنے میں کوئی نقلی وعقلی بگاڑ یا انحراف پیدا نہیں ہوتا ہے تو پھر علم کے ساتھ اس صفت کی تاویل کرنے کاکیا سبب ہے؟یعنی جب حقیقی معنی مراد لینے میں کوئی مانع نہیں ہے تو مجازی معنی یعنی علم پر اصرار کیوں ہے؟اگر کوئی مانع ہے تو وہ بیان کیا جائے ۔اس پر غور کر لیا جائے۔
4۔ جن سلف صالحین کے حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں، انہی سلف صالحین نے ہمیں یہ اصول سکھلایا ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں حقیقت مراد ہو گی اور مجاز لینا درست نہیں ہے۔پس ہم ان کے اس اصول کی اتباع میں صفت ’معیت‘ سے مراد حقیقت لے رہے ہیں۔
5۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ ’ھو معھم بعلمہ‘ میں بھی شیخ الاسلام نے معیت کا اثبات کیا ہے اور علم کو علیحدہ بیان کیاہے تاکہ یہ بات عوام الناس کو سمجھائی جاسکے :
وأيضا فلفظ " المعية "ليست في لغة العرب ولا شيء من القرآن يراد بها اختلاط إحدى الذاتين بالأخرى ; كما في قوله : { محمد رسول الله والذين معه } وقوله : { فأولئك مع المؤمنين } وقوله : { اتقوا الله وكونوا مع الصادقين } وقوله : { وجاهدوا معكم } . ومثل هذا كثير ; فامتنع أن يكون قوله : { وهو معكم } يدل على أن ذاته مختلطة بذوات الخلق .(شرح حدیث النزول)
یعنی معیت کا ایک معنی مخلوق کے ساتھ اختلاط کا بھی ہے جو عوام میں معروف ہے ۔ اس اختلاط کے معنی کی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نفی چاہتے ہیں۔ اور اس اختلاط والی معیت کی نفی انہوں نے عقیدہ واسطیہ میں بھی کی ہے اور شرح حدیث النزول میں بھی ہے۔
باقی رہا معیت کا وہ معنی جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عقیدہ واسطیہ میں بیان کیا ہے یعنی فوقیت کے ساتھ معیت بغیر کسی اختلاط کے ، تو اس کی نفی شرح حدیث النزول میں نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جب اختلاط والی معیت کے غلط معنی کی نفی کرتے ہیں تو اس میں بطور دلیل سلف صالحین کے ان اقوال کو نقل کرتے ہیں جو معیت سے مراد ’علم‘ لیتے ہیں۔
6۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ جب سلف صالحین کی ایک جماعت ’معیت‘ سے مراد ’علم‘ لیتی ہے تو ہمارے نزدیک وہ اختلاط والی معیت سے مراد علم لیتے ہیں تا کہ اللہ کے زمین میں ہمارے ساتھ ہونے کے عقیدہ کا ابطال ہو۔ باقی ر ہا اللہ تعالٰی کی آسمانوں میں یا عرش پر ہوتے ہوئے اہل زمین کے ساتھ معیت ، تو اس کا انکار سلف صالحین نہیں کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اختلاط والی معیت کے معنی کی نفی کرنے کے لیے سلف صالحین کی ایک جماعت نے معیت کی تاویل علم سے کی ہے۔ یعنی اس دنیا میں ہمارے ساتھ دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے اللہ کے علم یا قدرت یا نصرت کی معیت ہے جبکہ آسمانوں میں اور عرش پر سے صفت فوقیت کے ساتھ اللہ کی معیت ہمارے ساتھ حقیقی ہے۔ اس معیت حقیقی کی سلف صالحین نے تاویل نہیں کی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
معیت ِ الٰہی کا صحیح معنیٰ و مفہوم

اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور بندوں کے ساتھ اس کی معیت سے مراد علم ، نصرت اور مدد ہے۔
اس سلسلے میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ(٦٦١۔٧٢٨ھ) بادلیل گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وأمّا القسم الرابع فہم سلف الأمّۃ وأئمّتہا أئمّۃ العلم والدین من شیوخ العلم والعبادۃ ، فإنّہم أثبتوا وآمنوا بجمیع ما جاء بہ الکتاب والسنّۃ کلّہ من غیر تحریف للکلم ، أثبتوا أنّ اللّٰہ تعالی فوق سمواتہ وأنّہ علی عرشہ بائن من خلقہ وہم منہ بائنون ، وہو أیضا مع العباد عموما بعلمہ ، ومع أنبیائہ وأولیائہ بالنصر والتأیید والکفایۃ ، وہو أیضا قریب مجیب ، ففی آیۃ النجوی دلالۃ علی أنّہ عالم بہم ، وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: اللّٰہم أنت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الأہل ، فہو سبحانہ مع المسافر فی سفرہ ومع أہلہ فی وطنہ ، ولا یلزم من ہذا أن تکون ذاتہ مختلطۃ بذواتہم ، کما قال : ( مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ، ۔۔۔۔۔۔) ، أی معہ علی الإیمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''(ذات ِ باری تعالیٰ کے بارے میں )چوتھی قسم کے لوگ امت ِ مسلمہ کے اسلاف اور ائمہ دین وعلم ہیں ۔ وہ کتاب وسنت میں جو کچھ بھی آیا ہے ، اس پر بغیر کسی تحریف کے ایمان لائے ہیں اور اس کا اثبات کیا ہے ۔ انہوں نے اس بات کا اثبات کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے اور وہ اپنے عرش پر مستوی ، اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے(لیکن ذات کے اعتبار سے نہیں بلکہ)عام لوگوں کے ساتھ اپنے علم کے اعتبار سے اور اپنے انبیاء واولیاء کے ساتھ مدد ، نصرت اور کفایت کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ وہ قریب اور مجیب بھی ہے ۔ سورہئ مجادلہ کی آیت نمبر 7 میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا پورا پورا علم رکھتا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا پڑھا کرتے تھے :
( اَللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِیْ السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِیْ الْأَہْلِ )
(اے اللہ ! تو سفر میں ساتھی اور گھر میں نائب ہے)(صحیح مسلم : ١٣٤٢)۔

اللہ تعالیٰ سفر میں مسافر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور اس کے وطن میں اس کے گھروالوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی ذاتوں کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ اس کی دلیل یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
( مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ، ۔۔۔۔۔۔) (الفتح : ٢٩)
(محمد رسول اللہ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔۔)

یہاں مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایمان کے اعتبار سے آپ کے ساتھ ہیں ۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ صحابہ کرام کی ذاتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ ملی ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/٢٣١)
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
کتنی واضح اور مدلل بات ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ! یعنی معیت ِ الٰہی سے مراد علم و نصرت ہی ہے اور معیت کے اس معنیٰ کی کتاب و سنت سے تائید ہوتی ہے۔
اس بارے میں مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں : ماہنامہ السنۃ جہلم اور ماہنامہ ضرب ِ حق سرگودھا میں فضیلۃ الشیخ علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری کے مضامین بنام اللہ تعالیٰ عرش پر ہے !
اللہ تعالیٰ حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے !
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کو جاننا اور اپنے پیاروں کی مدد وتائید کرنا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زبانی دلائل ملاحظہ فرمائیں :
''اس بارے میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ کتاب وسنت سے مکمل ہدایت اور کامل نور اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو قرآن وسنت پر تدبر کرتا ہے ، حق کے اتباع کا ارادہ رکھتا ہے ، کلمات میں تحریف اور اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں الحاد سے اعراض کرتا ہے ۔ کوئی یہ گمان نہ کر بیٹھے کہ اس میں سے کوئی بات ایک دوسرے سے متناقض ہے ۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا بیان اس فرمانِ الٰہی کے خلاف ہے کہ : ( وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَمَا کُنْتُمْ ) (اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں تم ہوتے ہو)۔ نیز اس فرمانِ نبوی کے بھی خلاف ہے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے ۔ یہ (تعارض والی)بات غلط ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بھی حقیقی طور پر ہے اور عرش پر بھی حقیقی طور پر ہے ۔ ان دونوں چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے یوں جمع کیا ہے : ( ھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْھَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْھَا وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ ) (وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھر عرش پر مستوی ہوا ۔ وہ زمین میں داخل ہونے والی اور اس سے نکلنے والی چیزوں ، آسمان سے اُترنے والی اور اس میں چڑھنے والی چیزوں کو جانتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں بھی تم ہوتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے )اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ عرش پر ہر چیز کو جانتا ہے اور ہم جہاں بھی ہوتے ہیں ، وہ ہمیں ساتھ ہوتا ہے۔جیسا کہ حدیث ِ اوعال میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی لغت میں مع کا کلمہ جب مطلق استعمال کیا جائے تو اس سے مراد بغیر کسی سمت یا ملاپ کے مطلق مقارنہ ہوتا ہے ۔ جب اسے کسی معنیٰ کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے تو اسی معنیٰ پر دلالت کرتا ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ہم چلتے ہیں تو ہمیشہ چاند اور ستارے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سامان میرے ساتھ ہے ۔ آپ یہ بات اس وقت بھی کہہ دیتے ہیں جب سامان آپ کے سر پر ہو ، اس لیے کہ وہ آپ کے ساتھ ملی ہوتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر حقیقی طور پر ہے اور اپنی مخلوق کے ساتھ بھی حقیقی طورپر ہے۔ پھر اس معیت (ساتھ) کے احکام مختلف جگہوں کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ زمین میں داخل ہونے والی اورنکلنے والی سب چیزوں کو جانتا ہے اور پھر فرمایا کہ جہاں بھی تم ہوتے ہو ، وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تو اس معیت سے مراد یہ ہے کہ وہ تم پر مطلع رہتا ہے ، تم پرگواہ ہے ، تم پر نگہبان ہے اور تمہارے بارے میں خوب جاننے والا ہے ۔ سلف صالحین کی اس بات کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ کا ظاہری اور حقیقی معنیٰ یہی ہے ۔ ''(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/١٠٢)
یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اپنی باتیں نہیں بلکہ انہوں نے دلائل سے سب کچھ ثابت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے !
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
ان سب دلائل کو مدنظر رکھ کر یہی بات سامنے آتی ہے کہ معیت کوئی الگ صفت نہیں بلکہ معیت سے مراد علم اور نصرت و تائید ہی ہے۔ سلف صالحین نے اس سے یہی سمجھا ہے۔ ہمارے خیال میں اسلاف میں سے کسی نے صفات ِ باری تعالیٰ میں علم اور نصرت و تائید کے ساتھ معیت کا علیحدہ اضافہ نہیں فرمایا۔ کیا سب اسلاف اس صفت ِ باری تعالیٰ کے سلسلے میں گمراہ ہو گئے تھے؟ کسی کا منفرد قول اگرچہ ہمارے لیے حجت و دلیل نہیں لیکن امت مسلمہ کا اتفاقی و اجماعی فہم تو حجت ہے نا؟
اگر نہیں تو پھر ہر شخص قرآن و سنت کی من مانی تفسیر کرتا پھرے گا اور منکرین حدیث کی طرح قرآنِ کریم کے خود ساختہ معانی کو لغوی اور اصلی و حقیقی قرار دے کر لوگوں کو گمراہ کرتا رہے گا۔ہم جو کہتے ہیں کہ ہم سلفی ہیں یا ہمارا عقیدہ اہل سنت والجماعت والا ہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ ان کا اتفاقی و اجماعی عقیدہ ہمارے لیے حجت ہے اور وہ قرآن و سنت سے ہی ماخوذ ہے۔
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں کہ وہ معیت سے مراد علم نہیں لیتے تھے اور معیت کو ایک الگ صفت ِ باری تعالیٰ خیال کرتے تھے۔ ان کی مندرجہ بالا عبارات سے روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ معیت ِ باری تعالیٰ سے مراد علم اور نصرت و تائید ہے۔یہ تاویل نہیں بلکہ معیت کا حقیقی معنیٰ ہے جیسا کہ شیخ الاسلام نے صراحت فرما دی ہے۔ اگر کسی بھائی کے پاس اسلاف کا اتفاقی یا انفرادی حوالہ موجود ہو کہ وہ معیت سے مراد علم یا نصرت و تائیدکرنے کو گمراہی یا صفت ِ معیت کا انکار سمجھتے تھے تو پیش کر کے ہماری رہنمائی کر دے۔ حق جہاں سے بھی ملے ہمیں قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتباعِ حق کی توفیق عطا فرمائے !
آمین ثم آمین !
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376

2۔ پس جن اہل علم کے حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں، انہی اہل علم نے ہمیں یہ رستہ دکھایا ہے اور اصول سکھایا ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں ہم نے تاویل نہیں کرنی ہے اور کتاب وسنت کے دلائل کی رہنمائی میں یہی بات درست ہے۔ پس ہم صفت معیت میں تاویل نہ کر کے انہی اہل علم کے بتلائے ہوئے اصول کی اتباع کرتے ہیں جن کے حوالہ جات محترم ابن بشیر الحسینوی صاحب نے پیش فرمائے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم سلف صالحین خود اصول بنا کر خود ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں !!
صحابۃ کرام نے بھی معیت سے مراد علم لیا ہے ۔
سلف اپنے اصول کے ہم سے زیادہ پابند تھے
یہ بات انتہائی عجیب و غریب ہے کہ اصول خود بنا کر خود ہی اس کی مخالفت شروع کردیں ۔ہم یہ کہنے کی جرات نہیں کرتے ز
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم تلاش حق صاحب اور محترم ابراہیم بن بشیر الحسینوی صاحب میرا سوال تا حال قائم ہے کہ
وصفت معیت سے علم یا نصرت مراد لینے کی کیا دلیل ہے ؟؟؟
یعنی آپ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایک ایسی دلیل دیں جسکا معنى ہو کہ معیت سے مراد معیت حقیقی نہیں ہے یا معیت سے مراد علم ، قدرت یا نصرت وغیرہ ہے ۔
رہا محترم امن پوری صاحب کا مضمون تو وہ میں نے ابھی چار پانچ دن قبل ہی پڑھا ہے اس میں بھی " دلیل " نام کی کوئی شے نہیں ہے ۔
بہر حال
تا حال میرا یہ سوال باقی ہے کہ
کتاب وسنت میں معیت سے کچھ اور مراد لینے کی کیا دلیل ہے ؟؟؟
یاد رہے کہ ہم معیت سے اختلاط ذات باری یعنی حلول وغیرہ مراد نہیں لیتے ہیں !!!
اور یہی بات آیت " محمد رسول اللہ والذین معہ " سے واضح ہے کہ معیت حلول کو ثابت نہیں کرتی بلکہ اسکا رد کرتی ہے
میرے اس سوال کے بعد جناب محترم ابو الحسن حافظ محمد زبیر علوی حفظہ اللہ نے بھی ایک سوال کیا ہے کہ
اگر معیت کو حقیقت پر محمول کیا جائے تو کیا قباحت لازم آتی ہے ؟
یہ سوال بھی تاحال منتظر جواب ہے ۔
از راہ کرم !
قیل وقال پر مبنی طویل عبارات نقل کرنے کے بجائے
دلیل دیں خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہو ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم سلف صالحین خود اصول بنا کر خود ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں !!
صحابۃ کرام نے بھی معیت سے مراد علم لیا ہے ۔
سلف اپنے اصول کے ہم سے زیادہ پابند تھے
یہ بات انتہائی عجیب و غریب ہے کہ اصول خود بنا کر خود ہی اس کی مخالفت شروع کردیں ۔ہم یہ کہنے کی جرات نہیں کرتے ز
محترم !
میں اگر چند مثالیں آپ کے سامنے رکھوں تو آپ ہر مثال میں یہ جرأت کریں گے اور بڑی دیدہ دلیری سے کریں گے اور اس جرأت پر فخر بھی کریں گے
لیکن بہر حال یہ موضوع بحث نہیں ہے !
یہاں آپ سے صرف " دلیل " مانگی ہے یہ کہہ کر کہ اللہ رب العالمین ہاں " وحی الہی " کے سوال اور کچھ بھی دلیل نہیں ہے ۔!!
 
Top