• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
اپنے گھر کے محدث کو بھی دیکھ لیں ۔ آپکے اثری صاحب نے بھی ابو الجوزاء کی حضرت عائشہؓ سے روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔ یاد رہے سند کو حسن قرار دیا ہے نہ کہ حدیث کو ۔۔۔
محترم، آپ کو بیک وقت دو غلط فہمیاں ہو گئی ہیں کہ ایک تو کہ البانی صاحب نے یہ کہا ہے کہ ابن حجر نے ابن عبدالبر کا رد کیا ہےچنانچہ البانی صاحب نے کہا ہے کہ

اس میں انہوں نے "ھذا الزعم" بھی کہا ہے یہ تو آپ حذف کر گئے اس کے معنی بیان کرنا پسند کریں گے اس یہاں البانی صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ایک گمان یا مغالطہ ہے کہ ابن حجر نے ابن عبدالبر کا رد کیا ہے چنانچہ سلسلہ احادیث ضعیفہ میں لکھتے ہیں۔
قلت : وهذا إسناد جيد ؛ إن سلم من العلة الآتية .
الثالثة : الانقطاع بين أبي الجوزاء وعائشة ؛ فإنه لم يسمع منها ؛ كما قال ابن عبد البر و ابن حجر وغيرهما
رقم"۵۶۲۳"

اس میں واضح موجود ہے کہ البانی صاحب ابو الجوزاء کا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے انقطاع مان رہے ہیں اور دلیل میں حافظ ابن حجر اور ابن عبدالبر کا حوالہ دے رہے ہیں کہ انہوں نے ان کے درمیان انقطاع مانا ہے

دوسرا آں جناب شاید اصول حدیث سے واقف ہیں
محدثین کا کسی کتاب میں روایت کو نقل کر کے اس پر نقد نہ کرنا یہ اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے آپ نے جو ابن حبان، ابن خزیمہ وغیرہ کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اس روایت کا درج ہونا اور ان کا اس پر نقد نہ کرنا اس کی دلیل ہے کہ اس روایت کے انقطاع کو وہ نہیں مانتے ہیں ۔جبکہ اصول میں یہ واضح ہے کہ محدثین کا صرف سند کو بیان کردینا ہی کافی ہوتا تھا اور وہ یہ مانتے تھے کہ سند بیان کر دینے سے ہم اب بری الذمہ ہو گئے چنانچہ ابن حجر لسان المیزان میں امام الطبرانی کے ترجمہ میں نقل کرتے ہیں

وقال أبو بكر بن أبي علي كان الطبراني واسع العلم كثير التصانيف وقيل ذهبت عيناه في آخر عمره رحمه الله تعالى وقد عاب عليه إسماعيل بن محمد بنا الفضل التيمى جمعه الأحاديث بالافرد مع ما فيها من النكارة الشديدة والموضوعات وفي بعضها القدح في كثير من القدماء من الصحابة وغيرهم وهذا أمر لا يختص به الطبراني فلا معنى لافراده اليوم بل أكثر المحدثين في الإعصار الماضية من سنة مائتين وهلم جرا إذا ساقوا الحديث بإسناده اعتقدوا انهم برؤا من عهدته والله اعلم
لسان المیزا جلد ۳ ترجمہ ۲۷۵
ابو بکر بن علی فرماتے ہیں امام الطبرانی بہت علمی شخصیت اور صاحب تصایف تھے مگر آخری عمر میں ان کی آنکھیں چلی گئی تھی اور اسماعیل بن محمد بن الفضل التمیمی نے وہ احادیث جمع کی جو شدید نکارت اور من گھڑت تھی اور کثیر پر نقد کی گئی تھی چنانچہ یہ بات خاص طور سے امام الطبرانی کے ساتھ نہیں تھی بلکہ دوسری صدی سے لے کر بعد کےزمانوں کے اکثر محدثین نے حدیث کو اس کی سند سے بیان کرتے تو وہ خود کو بری الذمہ قرار دیتے تھے۔
چنانچہ ابن حجر کے اس بیان سے واضح ہوتا ہےکہ احادیث کو صرف کتب احادیث میں بیان کردینا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے اور جب محدثین حدیث بمع سند بیان کردیں تو وہ بری الذمہ ہیں اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی سند دیکھ کر اس کی چھان پھٹک کر کے اس پر صحیح و ضعیف کا فیصلہ کریں

اس ضمن میں ایک ابن حجر نے النکت ابن صلاح میں یہ بھی نقل کیا ہے۔
قلت : والاكتفاء بالحوالة على النظر في الإسناد طريقة معروفة لكثير من المحدثين وعليها يحمل ما
صدر من كثير منهم من إيراد الأحاديث الساقطة معرضين عن بيانها صريحاً وقد هذا لجماعة من كبار
الأئمة ، وكان ذكر الإسناد عندهم من جملة البيان والله أعلم .

سندوں کو پیش کرکے ان پر اکتفاء کرنا کثیر محدثین کا مذہب رہا ہے اور علت کی تصریح کیے بغیر کثیر محدثین کا ساقط احادیث کو بیان کرنا اس کے تحت سمجھا جائے گا جیسا کہ کبائر آئمہ کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے اور اسناد کا ذکر کرنا ہی"ان کے نذدیک" جملہ بیان سمجھا جائے گا

امید ہے اس حوالے سے تشفی ہو گئی ہو گی
اپ نے حافظ عراقی کے حوالے سے لکھاہے کہ انہوں نے اس روایت میں کوئی انقطاع نہیں مانا ہے آپ کی اسکین لگا رہا ہوں خط کشید کو غور سے دیکھیں اس میں حافظ عراقی نے رجال ثقات کہا ہے یہی اس کے رجال ثقہ ہیں چنانچہ محدثین یہ اصطلاح جب استعمال کرتے ہیں جب وہ اس روایت کی کسی علت قادحہ سے واقف نہیں ہو پاتے ہیں جیسے میں نے اسکین لگائی تھی کہ اسناد صحیح کہنے میں اور حدیث صحیح کہنے میں کیا فرق ہے۔
چنانچہ حافظ عراقی بھی اس کی علت قادحہ یعنی اس کے انقطاع پر واقف نہیں ہو سکے تھے اس لئے انہوں نے صرف رجال ثقات نقل کیا ہے۔
اور باقی شارح جیسے امام نووی اور دیگر کے اپ نے حوالے دئیے ہیں وہ بھی اس ضمن میں ہی آتے ہیں کیونکہ کسی کا علت کو نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اس پر واقف بھی ہو اگر امام نووی اور دوسرے اس کا رد کرتے اور لکھتے کہ ابن عبدالبر اور امام بخاری کا قول غلط ہے اور ابو الجوزاء اور اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا سماع ثابت ہے تو یہ تمام اپ کے مدلل بن سکتے تھے وگرنہ انہیں عدم واقفیت پر ہی محمول کیا جائے گا
اور اخر میں اس روایت پر جرح کرنے والے محدثین کے نام
امام بخاری
امام ابن عبدالبر
امام ابن عدی
حافظ ابن حجر
امام مغلطائ
ابن الملقن
امام شوکانی
امام مقبل بن ھادی الوادعی
امام البانی
اور یہ بھی عرض کر دوں کے اصول حدیث میں یہ معروف ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی​
چنانچہ اتنے محدثین نے اس پر جرح مفسر بیان کی ہے کہ ابو الجوزاء کا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے سماع ثابت نہیں ہے تو یہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے اور رہی گی اور عدیل سلفی بھائی نے بھی جو احناف کی جرح اس کے ایک راوی پر نقل کی ہے وہ بھی اپ کے لئے انتہائی مفید ہے
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
میں نے یہ اسکین لگایا تھا عبارت کے ساتھ پوری میں نے کہاں کوئی بات چھپائی ہے ۔۔۔ دوسری بات البانی نے رد کے الفاظ لکھے ہیں آپ بتائیں انہوں نے کس کے الفاظ نقل کیے؟ اور عبارت وقد رد الحافظ في "التهذيب " هذا االزعم، وفي "صحيح مسلم " رواية أبي الجوزاء عنها رضي الله عنها. صاف لکھا ہے کہ انکا رد حافظ نے تقریب میں کیا ہے یہ دعویٰ ہے ۔ ابو الجوزاء کی روایت صحیح مسلم میں (عائشہؓ) سے ہے ۔۔۔ تو اس میں البانی میاں نے رد کے الفاظ کسکے لکھے ہیں اگر یہ انکا خیال نہیں ؟؟؟؟ اور میں تو البانی کو سماع کا منکر کہا ہے تو آپ البانی سے جرح پیش کرنے کا تکلف کر رہے ہیں

upload_2018-10-2_12-55-10.png
 

اٹیچمنٹس

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
دوسرا مجھے بڑا افسوس ہوا آپنے بغیر تحقیق کیے یہ بات لکھ دی کہ ابن حبان اور ابن خزیمہ کا اپنی صحیح میں بغیر جرح لکھنا روایت کو انکے نزدیک صحیح ماننا یہ میری غلطی قرار دے دیا ۔۔ شاید میاں آپ ابن حبان اور ابن خزیمہ کی کتاب اور انکے منھج کو نہیں پڑھا شاید ۔ یہ زرہ امام ابن حجر عسقلانی سے ثبوت دے رہا ہوں کہ امام ابن حبان اپنی صحیح میں اس روایت کا التزام کیا ہے جو انکی نظر میں صحیح حدیث ہو ۔ امام ابن حجر عسقلانی کی عبارت دیکھیں
وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة

upload_2018-10-2_13-15-3.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
اور مستخرج ابو عوانہ کا حوالہ میں نے کیوں دیا تھا ؟؟؟ اسکی دلیل بھی آُپکے گھر سے دیتا ہوں آپ ہی کے البانی سے ۔۔۔۔ کیونکہ شاید آپکو ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کہ مستخرد ابو عوانہ ، صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں مصنفین نے اپنے نزدیک صحیح روایت لکھی ہیں ۔
upload_2018-10-2_13-30-6.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
اور امام ابن خزیمہ نے اپنی کتاب کا نام صحیح کیوں لکھا تھا جناب جب آپکو یہ ہی نہین معلوم ۔۔۔۔ بعض کتب ایسی ہیں جن کو مصنفین نے خود نام دیا ہے صحیح کا ۔ جیسا کہ بخاری ، مسلم ، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان ، مستخرج ابو عوانہ وہ بھی صرف ثقات سے اور صحیح الاسناد روایت نقل کرتے اپنی کتب میں ۔۔۔
upload_2018-10-2_13-46-4.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
اور امام ابن حجر سے میں انکا رجوع اور تصیح صریح طور پر پیش کر چکا ہوں ۔۔۔۔ اسکا جواب بھی نہیں دیا آُپ نے ۔۔
upload_2018-10-2_13-57-55.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
میں نے ان کتب سے حوالاجات دیے جن کتب میں مصنفین نے صحیح احادیث کا التزام کیا ہے ۔ تو ابو الجوزاء کا سماع حضرت عائشہ سے ماننے والے امام یہ ہیں
امام ابن حجر عسقلانی
امام ذھبی
امام حاکم
امام ابو عوانہ
امام ابن حبان
امام ابن خزیمہ
امام النووی
امام طحاوی
امام ابن اثیر
امام بدر الدین عینی
امام المحدث زیلعی
اامام ملا علی قاری ان اماموں نے تصریح کی ہے سماع کی اور امام مسلم کی تائید کی ہے
اور دوسری طرف محققین میں سے
علامہ شعیب الارنووط
احمد شاکر بھی ہیں
آپکے عبید اللہ مبارکپوری (سماع کی تائید کی ہیے )
ارشاد الحق الثری
وغیرہ
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
میں نے یہ اسکین لگایا تھا عبارت کے ساتھ پوری میں نے کہاں کوئی بات چھپائی ہے ۔۔۔ دوسری بات البانی نے رد کے الفاظ لکھے ہیں آپ بتائیں انہوں نے کس کے الفاظ نقل کیے؟ اور عبارت وقد رد الحافظ في "التهذيب " هذا االزعم، وفي "صحيح مسلم " رواية أبي الجوزاء عنها رضي الله عنها. صاف لکھا ہے کہ انکا رد حافظ نے تقریب میں کیا ہے یہ دعویٰ ہے ۔ ابو الجوزاء کی روایت صحیح مسلم میں (عائشہؓ) سے ہے ۔۔۔ تو اس میں البانی میاں نے رد کے الفاظ کسکے لکھے ہیں اگر یہ انکا خیال نہیں ؟؟؟؟ اور میں تو البانی کو سماع کا منکر کہا ہے تو آپ البانی سے جرح پیش کرنے کا تکلف کر رہے ہیں
محترم،
میری کمپوٹر کی خرابی کی وجہ سے آپ کی اور میری گفتگو تعطل کا شکار ہوگئی تھی آپ کے اس جواب کو ترتیب سے لے کر چلتا ہوں سب سے پہلے آپ نے البانی صاحب کا حوالہ دیا کہ انہوں نے رد کے الفاظ لکھے ہیں میں نے آپ سے کہا کہ رد کے الفاظ کے بعد"ھذا الزعم" کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں جس کے معنی یہ ہے کہ گمان کیا جاتا ہے یعنی حافظ ابن حجر نےجو مسلم میں لکھا ہے اس کو رد سمجھا جاتا ہےبہرحال اگر اپ کی عقل میں یہ بات نہیں آتی ہے تو شیخ البانی نے سلسلہ احادیث ضعیفہ میں اس کو صراحت سے ضعیف کہا ہے پڑھ لیں
الانقطاع بين أبي الجوزاء وعائشة؛ فإنه لم يسمع منها؛ كما قال ابن عبد البر وابن حجر وغيرهما، وتفصيل ذلك في المصدر السابق، وفي شرحي"سلسلہ احادیث الضعیفہ تحت رقم 5623
اس میں انہوں نے اپ کی بھی بات کا رد کیا ہے کہ ابن حجر نے امام مسلم کے موقف کی اپنایا ہے ابن حجر کے حوالے سے البانی صاحب نے صاف لکھا ہے "كما قال ابن عبد البر وابن حجر وغيرهما" ابن عبدالبر اور ابن حجر نے اس میں انقطاع کہا ہے۔
تو اپ کا مطالبہ پورا ہوا کہ البانی نے اس میں انقطاع کہاں کہا ہے یہ میں نے اپ کو پیش کر دیا۔
 
Top