difa-e- hadis
رکن
- شمولیت
- جنوری 20، 2017
- پیغامات
- 294
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 71
اپنے گھر کے محدث کو بھی دیکھ لیں ۔ آپکے اثری صاحب نے بھی ابو الجوزاء کی حضرت عائشہؓ سے روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔ یاد رہے سند کو حسن قرار دیا ہے نہ کہ حدیث کو ۔۔۔
محترم، آپ کو بیک وقت دو غلط فہمیاں ہو گئی ہیں کہ ایک تو کہ البانی صاحب نے یہ کہا ہے کہ ابن حجر نے ابن عبدالبر کا رد کیا ہےچنانچہ البانی صاحب نے کہا ہے کہ
اس میں انہوں نے "ھذا الزعم" بھی کہا ہے یہ تو آپ حذف کر گئے اس کے معنی بیان کرنا پسند کریں گے اس یہاں البانی صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ایک گمان یا مغالطہ ہے کہ ابن حجر نے ابن عبدالبر کا رد کیا ہے چنانچہ سلسلہ احادیث ضعیفہ میں لکھتے ہیں۔
قلت : وهذا إسناد جيد ؛ إن سلم من العلة الآتية .
الثالثة : الانقطاع بين أبي الجوزاء وعائشة ؛ فإنه لم يسمع منها ؛ كما قال ابن عبد البر و ابن حجر وغيرهما
رقم"۵۶۲۳"
اس میں واضح موجود ہے کہ البانی صاحب ابو الجوزاء کا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے انقطاع مان رہے ہیں اور دلیل میں حافظ ابن حجر اور ابن عبدالبر کا حوالہ دے رہے ہیں کہ انہوں نے ان کے درمیان انقطاع مانا ہے
دوسرا آں جناب شاید اصول حدیث سے واقف ہیں
محدثین کا کسی کتاب میں روایت کو نقل کر کے اس پر نقد نہ کرنا یہ اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے آپ نے جو ابن حبان، ابن خزیمہ وغیرہ کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اس روایت کا درج ہونا اور ان کا اس پر نقد نہ کرنا اس کی دلیل ہے کہ اس روایت کے انقطاع کو وہ نہیں مانتے ہیں ۔جبکہ اصول میں یہ واضح ہے کہ محدثین کا صرف سند کو بیان کردینا ہی کافی ہوتا تھا اور وہ یہ مانتے تھے کہ سند بیان کر دینے سے ہم اب بری الذمہ ہو گئے چنانچہ ابن حجر لسان المیزان میں امام الطبرانی کے ترجمہ میں نقل کرتے ہیں
وقال أبو بكر بن أبي علي كان الطبراني واسع العلم كثير التصانيف وقيل ذهبت عيناه في آخر عمره رحمه الله تعالى وقد عاب عليه إسماعيل بن محمد بنا الفضل التيمى جمعه الأحاديث بالافرد مع ما فيها من النكارة الشديدة والموضوعات وفي بعضها القدح في كثير من القدماء من الصحابة وغيرهم وهذا أمر لا يختص به الطبراني فلا معنى لافراده اليوم بل أكثر المحدثين في الإعصار الماضية من سنة مائتين وهلم جرا إذا ساقوا الحديث بإسناده اعتقدوا انهم برؤا من عهدته والله اعلم
لسان المیزا جلد ۳ ترجمہ ۲۷۵
ابو بکر بن علی فرماتے ہیں امام الطبرانی بہت علمی شخصیت اور صاحب تصایف تھے مگر آخری عمر میں ان کی آنکھیں چلی گئی تھی اور اسماعیل بن محمد بن الفضل التمیمی نے وہ احادیث جمع کی جو شدید نکارت اور من گھڑت تھی اور کثیر پر نقد کی گئی تھی چنانچہ یہ بات خاص طور سے امام الطبرانی کے ساتھ نہیں تھی بلکہ دوسری صدی سے لے کر بعد کےزمانوں کے اکثر محدثین نے حدیث کو اس کی سند سے بیان کرتے تو وہ خود کو بری الذمہ قرار دیتے تھے۔
چنانچہ ابن حجر کے اس بیان سے واضح ہوتا ہےکہ احادیث کو صرف کتب احادیث میں بیان کردینا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے اور جب محدثین حدیث بمع سند بیان کردیں تو وہ بری الذمہ ہیں اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی سند دیکھ کر اس کی چھان پھٹک کر کے اس پر صحیح و ضعیف کا فیصلہ کریں
اس ضمن میں ایک ابن حجر نے النکت ابن صلاح میں یہ بھی نقل کیا ہے۔
قلت : والاكتفاء بالحوالة على النظر في الإسناد طريقة معروفة لكثير من المحدثين وعليها يحمل ما
صدر من كثير منهم من إيراد الأحاديث الساقطة معرضين عن بيانها صريحاً وقد هذا لجماعة من كبار
الأئمة ، وكان ذكر الإسناد عندهم من جملة البيان والله أعلم .
سندوں کو پیش کرکے ان پر اکتفاء کرنا کثیر محدثین کا مذہب رہا ہے اور علت کی تصریح کیے بغیر کثیر محدثین کا ساقط احادیث کو بیان کرنا اس کے تحت سمجھا جائے گا جیسا کہ کبائر آئمہ کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے اور اسناد کا ذکر کرنا ہی"ان کے نذدیک" جملہ بیان سمجھا جائے گا
امید ہے اس حوالے سے تشفی ہو گئی ہو گی
اپ نے حافظ عراقی کے حوالے سے لکھاہے کہ انہوں نے اس روایت میں کوئی انقطاع نہیں مانا ہے آپ کی اسکین لگا رہا ہوں خط کشید کو غور سے دیکھیں اس میں حافظ عراقی نے رجال ثقات کہا ہے یہی اس کے رجال ثقہ ہیں چنانچہ محدثین یہ اصطلاح جب استعمال کرتے ہیں جب وہ اس روایت کی کسی علت قادحہ سے واقف نہیں ہو پاتے ہیں جیسے میں نے اسکین لگائی تھی کہ اسناد صحیح کہنے میں اور حدیث صحیح کہنے میں کیا فرق ہے۔
چنانچہ حافظ عراقی بھی اس کی علت قادحہ یعنی اس کے انقطاع پر واقف نہیں ہو سکے تھے اس لئے انہوں نے صرف رجال ثقات نقل کیا ہے۔
اور باقی شارح جیسے امام نووی اور دیگر کے اپ نے حوالے دئیے ہیں وہ بھی اس ضمن میں ہی آتے ہیں کیونکہ کسی کا علت کو نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اس پر واقف بھی ہو اگر امام نووی اور دوسرے اس کا رد کرتے اور لکھتے کہ ابن عبدالبر اور امام بخاری کا قول غلط ہے اور ابو الجوزاء اور اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا سماع ثابت ہے تو یہ تمام اپ کے مدلل بن سکتے تھے وگرنہ انہیں عدم واقفیت پر ہی محمول کیا جائے گا
اور اخر میں اس روایت پر جرح کرنے والے محدثین کے ناماس میں انہوں نے "ھذا الزعم" بھی کہا ہے یہ تو آپ حذف کر گئے اس کے معنی بیان کرنا پسند کریں گے اس یہاں البانی صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ایک گمان یا مغالطہ ہے کہ ابن حجر نے ابن عبدالبر کا رد کیا ہے چنانچہ سلسلہ احادیث ضعیفہ میں لکھتے ہیں۔
قلت : وهذا إسناد جيد ؛ إن سلم من العلة الآتية .
الثالثة : الانقطاع بين أبي الجوزاء وعائشة ؛ فإنه لم يسمع منها ؛ كما قال ابن عبد البر و ابن حجر وغيرهما
رقم"۵۶۲۳"
اس میں واضح موجود ہے کہ البانی صاحب ابو الجوزاء کا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے انقطاع مان رہے ہیں اور دلیل میں حافظ ابن حجر اور ابن عبدالبر کا حوالہ دے رہے ہیں کہ انہوں نے ان کے درمیان انقطاع مانا ہے
دوسرا آں جناب شاید اصول حدیث سے واقف ہیں
محدثین کا کسی کتاب میں روایت کو نقل کر کے اس پر نقد نہ کرنا یہ اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے آپ نے جو ابن حبان، ابن خزیمہ وغیرہ کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اس روایت کا درج ہونا اور ان کا اس پر نقد نہ کرنا اس کی دلیل ہے کہ اس روایت کے انقطاع کو وہ نہیں مانتے ہیں ۔جبکہ اصول میں یہ واضح ہے کہ محدثین کا صرف سند کو بیان کردینا ہی کافی ہوتا تھا اور وہ یہ مانتے تھے کہ سند بیان کر دینے سے ہم اب بری الذمہ ہو گئے چنانچہ ابن حجر لسان المیزان میں امام الطبرانی کے ترجمہ میں نقل کرتے ہیں
وقال أبو بكر بن أبي علي كان الطبراني واسع العلم كثير التصانيف وقيل ذهبت عيناه في آخر عمره رحمه الله تعالى وقد عاب عليه إسماعيل بن محمد بنا الفضل التيمى جمعه الأحاديث بالافرد مع ما فيها من النكارة الشديدة والموضوعات وفي بعضها القدح في كثير من القدماء من الصحابة وغيرهم وهذا أمر لا يختص به الطبراني فلا معنى لافراده اليوم بل أكثر المحدثين في الإعصار الماضية من سنة مائتين وهلم جرا إذا ساقوا الحديث بإسناده اعتقدوا انهم برؤا من عهدته والله اعلم
لسان المیزا جلد ۳ ترجمہ ۲۷۵
ابو بکر بن علی فرماتے ہیں امام الطبرانی بہت علمی شخصیت اور صاحب تصایف تھے مگر آخری عمر میں ان کی آنکھیں چلی گئی تھی اور اسماعیل بن محمد بن الفضل التمیمی نے وہ احادیث جمع کی جو شدید نکارت اور من گھڑت تھی اور کثیر پر نقد کی گئی تھی چنانچہ یہ بات خاص طور سے امام الطبرانی کے ساتھ نہیں تھی بلکہ دوسری صدی سے لے کر بعد کےزمانوں کے اکثر محدثین نے حدیث کو اس کی سند سے بیان کرتے تو وہ خود کو بری الذمہ قرار دیتے تھے۔
چنانچہ ابن حجر کے اس بیان سے واضح ہوتا ہےکہ احادیث کو صرف کتب احادیث میں بیان کردینا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے اور جب محدثین حدیث بمع سند بیان کردیں تو وہ بری الذمہ ہیں اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی سند دیکھ کر اس کی چھان پھٹک کر کے اس پر صحیح و ضعیف کا فیصلہ کریں
اس ضمن میں ایک ابن حجر نے النکت ابن صلاح میں یہ بھی نقل کیا ہے۔
قلت : والاكتفاء بالحوالة على النظر في الإسناد طريقة معروفة لكثير من المحدثين وعليها يحمل ما
صدر من كثير منهم من إيراد الأحاديث الساقطة معرضين عن بيانها صريحاً وقد هذا لجماعة من كبار
الأئمة ، وكان ذكر الإسناد عندهم من جملة البيان والله أعلم .
سندوں کو پیش کرکے ان پر اکتفاء کرنا کثیر محدثین کا مذہب رہا ہے اور علت کی تصریح کیے بغیر کثیر محدثین کا ساقط احادیث کو بیان کرنا اس کے تحت سمجھا جائے گا جیسا کہ کبائر آئمہ کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے اور اسناد کا ذکر کرنا ہی"ان کے نذدیک" جملہ بیان سمجھا جائے گا
امید ہے اس حوالے سے تشفی ہو گئی ہو گی
اپ نے حافظ عراقی کے حوالے سے لکھاہے کہ انہوں نے اس روایت میں کوئی انقطاع نہیں مانا ہے آپ کی اسکین لگا رہا ہوں خط کشید کو غور سے دیکھیں اس میں حافظ عراقی نے رجال ثقات کہا ہے یہی اس کے رجال ثقہ ہیں چنانچہ محدثین یہ اصطلاح جب استعمال کرتے ہیں جب وہ اس روایت کی کسی علت قادحہ سے واقف نہیں ہو پاتے ہیں جیسے میں نے اسکین لگائی تھی کہ اسناد صحیح کہنے میں اور حدیث صحیح کہنے میں کیا فرق ہے۔
چنانچہ حافظ عراقی بھی اس کی علت قادحہ یعنی اس کے انقطاع پر واقف نہیں ہو سکے تھے اس لئے انہوں نے صرف رجال ثقات نقل کیا ہے۔
اور باقی شارح جیسے امام نووی اور دیگر کے اپ نے حوالے دئیے ہیں وہ بھی اس ضمن میں ہی آتے ہیں کیونکہ کسی کا علت کو نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اس پر واقف بھی ہو اگر امام نووی اور دوسرے اس کا رد کرتے اور لکھتے کہ ابن عبدالبر اور امام بخاری کا قول غلط ہے اور ابو الجوزاء اور اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا سماع ثابت ہے تو یہ تمام اپ کے مدلل بن سکتے تھے وگرنہ انہیں عدم واقفیت پر ہی محمول کیا جائے گا
امام بخاری
امام ابن عبدالبر
امام ابن عدی
حافظ ابن حجر
امام مغلطائ
ابن الملقن
امام شوکانی
امام مقبل بن ھادی الوادعی
امام البانی
اور یہ بھی عرض کر دوں کے اصول حدیث میں یہ معروف ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی
چنانچہ اتنے محدثین نے اس پر جرح مفسر بیان کی ہے کہ ابو الجوزاء کا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے سماع ثابت نہیں ہے تو یہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے اور رہی گی اور عدیل سلفی بھائی نے بھی جو احناف کی جرح اس کے ایک راوی پر نقل کی ہے وہ بھی اپ کے لئے انتہائی مفید ہےامام ابن عبدالبر
امام ابن عدی
حافظ ابن حجر
امام مغلطائ
ابن الملقن
امام شوکانی
امام مقبل بن ھادی الوادعی
امام البانی
اور یہ بھی عرض کر دوں کے اصول حدیث میں یہ معروف ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی
Last edited by a moderator: