سند کے حوالے سے آپ کو شاید معلوم نہیں کس راوی کو لے کر آپ نے اپنے گھر کے ستون ہی ہلا دئیے ؟
اس سے پتہ چلتا ہے نیم حکیم خطرہ جان اور نیم فقیہ خطرہ ایمان
ملاحظہ ہو: اس راوی پر کلام
اس روای پر کلام احناف کے موصوف
(حضرت مولانا ابو حفص اعجاز احمد اشرفی) صاحب نے نقل کیا تھا اپنی کتاب
(نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ میں) اس پر ہیڈنگ لکھی گئی
(غیر مقلدین کی طرف سے پیش کردہ دیگر دلائل کا تحقیقی جائزہ)۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کے مسنون طریقہ صفحہ ۱۸۴۔۱۸۵
20708 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
20709 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
یہاں اس راوی کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے موصوف نے جو حوالہ دیا وہ لگایا جاچکا تھا جس پر موصوف آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے! جس کا جواب احناف نے (الحمدللہ) شیخ کفایت اللہ کے حوالے سے دیا اور تحقیق میں (راجع) موقف واضح کردیا کہ کس کا ہے!
اب تسلی احناف خود کو دیتے رہیں سند پر تو یہ ان کی سوچ پر منحصر ہے۔
رہی بات متن کی تو اس پر نقد و تبصرہ موجود ہے۔
اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت إسناده و إنما نقل ذلك من هو معروف بالكذب و مما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة بل كان بعضه باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بعضه مسقوف وبعضه مكشوف وكانت الشمس تنزل فيه كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها لم يظهر الفيء بعد ولم تزل الحجرة كذلك حتى زاد الوليد بن عبد الملك في المسجد في إمارته لما زاد الحجر في مسجد الرسول صلى الله عليه و سلم وكان نائبه على المدينة ابن عمه عمر بن عبد العزيز وكانت حجر أزواج النبي صلى الله عليه و سلم شرقي المسجد و قبليه فأمره أن يشتريها من ملاكها ورثة أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فاشتراها وأدخلها في المسجد فزاد في قبلي المسجد و شرقيه ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد و إلا فهي قبل ذلك كانت خارجة عن المسجد في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد موته ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين
سیدہ عائشہؓ سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے۔ وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی کرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو بھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہوگیا۔ پھر حجرہ عائشہؓ جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جاسکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔
اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ، نبی اکرمﷺ کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہی فرماتے ہیں:
ولو صح ذلك لكان حجة و دليلا على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت ولا يسألون الله به وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه فأين هذا من هذا
اگر یہ روایت صحیح ہو تو بھی اس اس بات کی پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرامؓ نہ تو اللہ تعالی کی مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالی سے اس کے وسیلے سے مانگے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی انہوں نے۔ اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟
[الرد على البكري 1/ 164]
(۱) اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عائشہؓ کے مشورہ کے مطابق چھت بھی ہٹا دی گئی اور قبر سے آسمان ایک ایک جھروکہ نکال دیا گیا تو کیا جسم مبارک کو ظاہر کرنے کے لیے قبر کھول دی گئی؟ اور اس حدیث کے الفاظ بتارہے ہیں کہ ایسا کیا گیا تو بتایا جائے کہ ایسا کب کیا گیا؟ اور کس طرح کیا گیا؟ اور اتنی اہم خبر تاریخ کے صفحات سے اب تک کیسے غائب اور مخفی رہ گئی؟
(۲) اگر جسم اطہر کو کھولتے ہی آسمان سے بارش شروع ہوجایا کرتی تھی تو رسولﷺ کے عہد مبارک میں قحط پڑا تھا اور لوگوں کے مال و اسباب تباہ ہورہے تھے۔ اس وقت بھی رسولﷺ کا جسم اطہر آسمان کے سامنے کھلی فضا میں موجود تھا، لیکن اس کے سبب بارش نہیں ہوئی۔ بلکہ رسولﷺ کو شہر سے نکل کر میدان میں جانا پڑا اور استسقاء کیلے نماز پڑھانی پڑی اور تضرع و عاجزی کے ساتھ دعا مانگنی پڑی پھر کہیں آپ کی نماز و دعا کی برکت سے بارش ہوئی۔
(۳) حضرت عائشہؓ کو جب بارش کا یہ نسخہ معلوم تھا تو قحط پڑنے پر فورا ہی کیوں نہ حضرت عمرؓ سے کہلوادیا اور حضرت عمرؓ نے بھی قحط کی اس سختی و شدت میں عوام کو خوامخواہ مبتلا رکھا؟ قحط پڑتے ہی کیوں نہ قبر سے جسم اطہر کو جھروکے کے ذریعہ کھلی فضا کے سامنے کردیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اس نسخہ کو استعمال نہیں کیا اور رسولﷺ کی طرح خود بھی لوگوں کو لے کر میدان میں پہنچے اور حضرت عباسؓ سے دعا کرائی، تب جا کر بارش ہوئی۔
(۴) صحیح روایات کے مطابق جب دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور رسولﷺ منبر پر کھڑے جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور دیہاتی نے شدید قحط سالی اور اس کے سبب مال و اسباب کی بربادی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو ہفتہ بھر جاری رہی یہاں تک کے دوسرے جمعہ کو پھر وہی دیہاتی ٹھیک اسی وقت جب کہ آپﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مسجد میں آیا اور بارش کا کثرت کا رونا رو کر فریاد کی کہ سیلاب سے راستے بند ہوگئے ہیں، آپﷺ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائیں، آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بارش تھم گئی اور سورج چمکنے لگا۔
یہ سب کچھ اس حالت میں ہوا جب آپﷺ کا جسم اطہر مسجد کی چھت کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے محض آپﷺ کی دعا کی برکت سے بارش نازل بھی فرمائی اور روک بھی دی۔ اگر جسم اطہر کے فضا میں کھلتے ہی بارش ہونے لگتی تو آپﷺ منبر پر کھڑے ہوکر یہ دعا نہ فرماتے بلکہ صحن مسجد میں آکر کھڑے ہوجاتے اور بارش ہوگئی ہوتی۔ لیکن آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔
(۵) پھر جب ایسا ہی تھا تو قبر شریف کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تھا۔ اس گنبد خضراء سے ڈھانکنے اور چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ تاکہ جب کبھی ضرورت پڑتی خود بخود بارش ہوجاتی، اور حجاز کیلئے تو اور بھی اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے موسم خشکی غالب ہے اور وہ علاقہ دوسروں کی بہ نسبت پانی کا زیادہ محتاج ہے۔
(۶) حضرت عائشہؓ کی طرف یہ منسوب کرنا کہ انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ رسولﷺ کی قبر کے اوپر مکان کی چھت کھول دی جائے تاکہ آسمان و قبر کے درمیان چھت کا پردہ حائل نہ ہو، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ رسولﷺ کی جب وفات ہوئی تو آپﷺ حضرت عائشہؓ کے گھر میں دفن کئے گئے تھے اور حضرت عائشہؓ بھی بدستور اسی کمرے میں رہتی ہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ اپنے ہی گھر کو منہدم کردینے کا حکم دیں گی اور گھر میں بلا چھت کے سکونت پزیر رہیں گی؟
(۷) اس حدیث سے واضح ہورہا ہےکہ بارش کی کثرت سے خوب سبزہ اگا اور اونٹ چر کر اتنے فربہ ہوگئے کہ ان کی چربی بہہ پڑی، اور اسی سال کو عال الفتق کا نام دیا گیا۔
لیکن سوچئے کہ اس وقت لوگوں کے پاس صرف اونٹ ہی تو نہیں ہونگے بلکہ اونٹ کے علاوہ بکریاں، گائے اور گھوڑےوغیرہ بھی رہے ہوں گے، لیکن یہاں ذکر صرف اونٹوں ہی کا ہے۔ ممکن ہے اختصار کے خیال سے صرف اونٹ کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہو اور مراد سب ہی جانور ہوں کہ (جز) کہہ کر (کل) بھی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اگر مراد سب ہی جانور ہوں تو ا س کامطلب یہ ہوا کہ وہ سال مکمل بربادی اور تباہی کا تھا اور اس بارش نے تمام جانوروں کو خراب اور ناکارہ بنا ڈالا اور بجائے رحمت کے یہ عذاب ہی کا باعث بنی۔
(۸) مذکورہ روایت میں حجرہ عائشہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودفن کیا گیا تھا اس میں روشندان کھولنے کی ضروت محسوس کی گئی ہے حالانکہ آپ کا یہ گھرتو پہلے ہی سے کھلا ہواتھا جیساکہ بخاری ومسلم کی درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے
عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا»[صحيح البخاري 1/ 114]۔
عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ»[صحيح مسلم 1/ 426]۔
ایک الزامی جواب!
اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے۔ کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب، وهو يقول: لا يعلم الغيب إلا اللهجو کوئی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے تو غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري ٧٣٨٠]
سیدہ عائشہؓ کی کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے سخت خلاف تھی، اس لیے اس کے جواب میں (بعض الناس) نے لکھا ہے:
(آپ کا یہ قول اپنے رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتی، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں)
[جاء الحق ۱۔۳۳۴]
ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں تو ان کا نبی کریمﷺ کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے؟ جب کہ وہ اس پر بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ پھر اس پر سہاگہ کہ یہ قول بھی ثابت نہیں ہے۔
جب جواب مکمل ہو تو پھر پوسٹ کرنا یہ ٹکڑوں ،حصوں میں پوسٹنگ اور بچکانہ کمنٹ کہ لائک چھوڑو اور جواب دو وغیر وغیرہ یہ فیس بک پر ہی رہنے دیا جائے زیادہ بہترہے۔