• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اصولا علم الحدیث کا کا مکمل درس لیا جانا چاہیئے تاکہ ایسی باریکیوں کو سمجها جاسکے ، پرکها بهی جا سکے ۔ ماهر اساتذہ کا اشراف بهی رہے تو بهٹک جانے کا اندیشہ نہیں رهتا ۔ پهر سیر حاصل علمی بحوث میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہیئے ۔ کوئی بهی مختصر انداز میں ہی فورم پر اپنی بات سمجهانے کی کوشش کرتا هے ، کوئی اپنا فیصلہ زبردستی منوانا هر گز نہیں چاہتا ۔ کئی کئی ضخیم کتابوں کے مطالعہ کی اور اساتذہ کی نگرانی کی ضرورت هے ۔ یہ اتنا آسان تو نہیں ۔ علم هونا ضروری هے اور پهر جو مناسب لگے اس پر عمل کریں ، وما توفیقی الا باللہ ۔ کافی تهریڈ مومجود ہیں ، کئی کئی کتابیں موجود ہیں ، صرف مطالعہ کرنا هے ، سمجهنا هے ۔ جید علماء کے مابین علمی اختلافات رهے ہیں اور یہ عام مشاہدہ میں ہیں ۔
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
اصولا علم الحدیث کا کا مکمل درس لیا جانا چاہیئے تاکہ ایسی باریکیوں کو سمجها جاسکے ، پرکها بهی جا سکے ۔ ماهر اساتذہ کا اشراف بهی رہے تو بهٹک جانے کا اندیشہ نہیں رهتا ۔ پهر سیر حاصل علمی بحوث میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہیئے ۔ کوئی بهی مختصر انداز میں ہی فورم پر اپنی بات سمجهانے کی کوشش کرتا هے ، کوئی اپنا فیصلہ زبردستی منوانا هر گز نہیں چاہتا ۔ کئی کئی ضخیم کتابوں کے مطالعہ کی اور اساتذہ کی نگرانی کی ضرورت هے ۔ یہ اتنا آسان تو نہیں ۔ علم هونا ضروری هے اور پهر جو مناسب لگے اس پر عمل کریں ، وما توفیقی الا باللہ ۔ کافی تهریڈ مومجود ہیں ، کئی کئی کتابیں موجود ہیں ، صرف مطالعہ کرنا هے ، سمجهنا هے ۔ جید علماء کے مابین علمی اختلافات رهے ہیں اور یہ عام مشاہدہ میں ہیں ۔
قبلہ طارق بھائی اوپر عدیل صاحب کی مفسر جرح کا رد انہی کے گھر سے کیا۔
منکر الحدیث کوئی جرح نہیں یہ تو اس راوی کو بھی منکر الحدیث کہا جاتا جو بہت کم روایت بیان کریں ایسے راوی کو منکر الحدیث کہا جاتا۔۔ اس کے مقابلے میں اما ابن خبان کی تعدیل مفسر ہے۔۔
جزاک الله عدیل سلفی صاحب کے جواب کا انتظار ہے۔۔


Sent from my iPhone using Tapatalk
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
عدیل سلفی صاحب حدیث کے متن پر آئیں گے ان شاءالله۔۔
پہلے سند تو کلئر کیجئے کہ سند پر آپ کی تسلی ہوئی یا نہی۔۔۔؟
متن پے تو آئیں گے اور جناب کے سب اعتراضات کے جوابات دیئے جائیں گے۔۔
آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔
برائیں مہربانی فرما کا کمنٹس لائیک کرنا چھوڑئیے جواب دیجئے آپ نے خود آ کر ہی مالک النکری پر تیر چلائے۔۔ جو کو بے سود نکلے اب یا تو کہہ دیجئے میری کاپی پیسٹ ختم ہو گئی ہے یا پھر کوئی جواب دیجئے۔۔۔


Sent from my iPhone using Tapatalk
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
عدیل سلفی صاحب آپ کا جواب نہ دینا اور محترم طارق صاحب کا کمنٹس لائیک کرنا اس بات کی دلیل بنتی ہے کہ آپ کو بھی پتہ ہے کہ منکر الحدیث کوئی جرح نہیں ہے۔۔۔


جواب تو نہیں تھا دینا چا رہا کیونکہ عدیل صاحب آپ کی طرف سے جواب نہیں آ رہا جو پوچھا لیکن اپ نے جو دوسری جرح پیش کی اس کا رد بھی لیجئے مزید کوئی اعتراض ہوا تو یہاں بیان کیجئے گا آپ کی تسلی کروا دیں گے۔۔۔


ابن حجر نے عمروبن مالک الراسبی کے ترجمہ میں النکری والی بات لکھ کر ابن عدی کی غلطی ثابت کی۔
۔

تہذیب التہذیب جلد آٹھ صفحہ ۹۰ پر پڑھئے۔۔۔۔

یہ ترجمہ رہا۔۔

ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے اور کہا: وہ خطا کرتے ہیں۔ ۲۴۰ ھ کے بعد انکی موت ہوئی میں نے کہا : ابن عدی نے کہا: وہ ثقات سے منکر حدیث بیان کرتے تھے، (حدیث چراتے تھے) ابو یعلی سے سنا تھا وہ فرماتے تھے کہ وہ ضعیف ہے، پھر انکی دو حدیثیں بیان کرکے فرمایا ان کے علاوہ بھی انکی اور منکر روایتیں ہیں اس کے ترجمے کے شروع میں انہوں نے عمرو بن مالک النکری کہا تھا یہ ان سے غلطی (وہم) ہوا تھا۔ کیونکہ عمرو بن مالک النکری اس پر مقدم ہے۔
بس یہی وجہ تھی کہ ابو یعلی نے اسکو منکر الحدیث کہا اور ابن عدی نے اسکو منکر الحدیث کہا۔ اور اسی جرح کو ابن حبان نے اس غلطی کی وجہ سے لکھی۔ حقیقت واضع ہو گئی کہ یہ عمرو بن مالک الراسبی تھا تاکہ النکری۔

پھر امام ذھبی نے بھی عمروبن مالک الراسبی کے ترجمے میں تصریح کی ہے کہ یہ الراسبی ہے نہ کہ النکری۔ وہ شیخ ہیں۔
اور الراسبی کو ابو یعلی نے ضعیف کہا اور ابن عدی نے یسرق الحدیث کہا ہے۔
معلوم ہوا یہ جرح عمرو بن مالک الراسبی پر ہے نہ کہ النکری پر۔۔
دیکھئے میزان العتدال فی نقد الرجال۔ الجلد الثاث صفحہ ۲۸۷۔۔


Sent from my iPhone using Tapatalk
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
عدیل سلفی صاحب آپ کا جواب نہ دینا اور محترم طارق صاحب کا کمنٹس لائیک کرنا اس بات کی دلیل بنتی ہے کہ آپ کو بھی پتہ ہے کہ منکر الحدیث کوئی جرح نہیں ہے۔۔۔


جواب تو نہیں تھا دینا چا رہا کیونکہ عدیل صاحب آپ کی طرف سے جواب نہیں آ رہا جو پوچھا لیکن اپ نے جو دوسری جرح پیش کی اس کا رد بھی لیجئے مزید کوئی اعتراض ہوا تو یہاں بیان کیجئے گا آپ کی تسلی کروا دیں گے۔۔۔


ابن حجر نے عمروبن مالک الراسبی کے ترجمہ میں النکری والی بات لکھ کر ابن عدی کی غلطی ثابت کی۔
۔

تہذیب التہذیب جلد آٹھ صفحہ ۹۰ پر پڑھئے۔۔۔۔

یہ ترجمہ رہا۔۔

ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے اور کہا: وہ خطا کرتے ہیں۔ ۲۴۰ ھ کے بعد انکی موت ہوئی میں نے کہا : ابن عدی نے کہا: وہ ثقات سے منکر حدیث بیان کرتے تھے، (حدیث چراتے تھے) ابو یعلی سے سنا تھا وہ فرماتے تھے کہ وہ ضعیف ہے، پھر انکی دو حدیثیں بیان کرکے فرمایا ان کے علاوہ بھی انکی اور منکر روایتیں ہیں اس کے ترجمے کے شروع میں انہوں نے عمرو بن مالک النکری کہا تھا یہ ان سے غلطی (وہم) ہوا تھا۔ کیونکہ عمرو بن مالک النکری اس پر مقدم ہے۔
بس یہی وجہ تھی کہ ابو یعلی نے اسکو منکر الحدیث کہا اور ابن عدی نے اسکو منکر الحدیث کہا۔ اور اسی جرح کو ابن حبان نے اس غلطی کی وجہ سے لکھی۔ حقیقت واضع ہو گئی کہ یہ عمرو بن مالک الراسبی تھا تاکہ النکری۔

پھر امام ذھبی نے بھی عمروبن مالک الراسبی کے ترجمے میں تصریح کی ہے کہ یہ الراسبی ہے نہ کہ النکری۔ وہ شیخ ہیں۔
اور الراسبی کو ابو یعلی نے ضعیف کہا اور ابن عدی نے یسرق الحدیث کہا ہے۔
معلوم ہوا یہ جرح عمرو بن مالک الراسبی پر ہے نہ کہ النکری پر۔۔
دیکھئے میزان العتدال فی نقد الرجال۔ الجلد الثاث صفحہ ۲۸۷۔۔


Sent from my iPhone using Tapatalk

کوئی فیصلہ لینے میں اتنی جلدی نا کریں ۔ بہتر ہوگا آپکے دلائل پر اہل علم حضرات کی رائے بهی میرے اور آپکے علاوہ دیگر قارئین کے علم میں آجائے ۔ علمی بحوث میں صبر و تحمل اچهی بات هے ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عدیل سلفی صاحب حدیث کے متن پر آئیں گے ان شاءالله۔۔
پہلے سند تو کلئر کیجئے کہ سند پر آپ کی تسلی ہوئی یا نہی۔۔۔؟
متن پے تو آئیں گے اور جناب کے سب اعتراضات کے جوابات دیئے جائیں گے۔۔
آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔
عدیل سلفی صاحب آپ کا جواب نہ دینا اور محترم طارق صاحب کا کمنٹس لائیک کرنا اس بات کی دلیل بنتی ہے کہ آپ کو بھی پتہ ہے کہ منکر الحدیث کوئی جرح نہیں ہے۔۔۔


جواب تو نہیں تھا دینا چا رہا کیونکہ عدیل صاحب آپ کی طرف سے جواب نہیں آ رہا جو پوچھا لیکن اپ نے جو دوسری جرح پیش کی اس کا رد بھی لیجئے مزید کوئی اعتراض ہوا تو یہاں بیان کیجئے گا آپ کی تسلی کروا دیں گے۔۔۔

سند کے حوالے سے آپ کو شاید معلوم نہیں کس راوی کو لے کر آپ نے اپنے گھر کے ستون ہی ہلا دئیے ؟
اس سے پتہ چلتا ہے نیم حکیم خطرہ جان اور نیم فقیہ خطرہ ایمان

ملاحظہ ہو: اس راوی پر کلام

اگر اس راوی (عمرو بن بن مالک نکری) پر تیرا گھر میرا گھر کرنا ہے۔ تو ملاحظہ ہو آپ کا اپنے گھر کا حوالہ:

تیسرا راوی عمر بن مالک النکریؒ ہے۔ علامہ ماردینیؒ جوہر النقی جلد ۲ صفحہ ۳۰ پر اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

وقال ابن عدى عمرو النكرى منكر الحديث عن الثقات

امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں یہ ثقات راویوں سے منکر حدیثیں بیان کرتا تھا، حدیث کو چوری کرتا ہے، امام ابو یعلی موصلیؒ نے اس کی تضعیف کی ہے۔

باقی روایت کے متن پر تبصرہ موجود ہے!
اس روای پر کلام احناف کے موصوف (حضرت مولانا ابو حفص اعجاز احمد اشرفی) صاحب نے نقل کیا تھا اپنی کتاب (نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ میں) اس پر ہیڈنگ لکھی گئی (غیر مقلدین کی طرف سے پیش کردہ دیگر دلائل کا تحقیقی جائزہ)۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کے مسنون طریقہ صفحہ ۱۸۴۔۱۸۵

۱.jpg


۲.jpg


یہاں اس راوی کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے موصوف نے جو حوالہ دیا وہ لگایا جاچکا تھا جس پر موصوف آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے! جس کا جواب احناف نے (الحمدللہ) شیخ کفایت اللہ کے حوالے سے دیا اور تحقیق میں (راجع) موقف واضح کردیا کہ کس کا ہے!

اب تسلی احناف خود کو دیتے رہیں سند پر تو یہ ان کی سوچ پر منحصر ہے۔

رہی بات متن کی تو اس پر نقد و تبصرہ موجود ہے۔​

اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت إسناده و إنما نقل ذلك من هو معروف بالكذب و مما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة بل كان بعضه باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بعضه مسقوف وبعضه مكشوف وكانت الشمس تنزل فيه كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها لم يظهر الفيء بعد ولم تزل الحجرة كذلك حتى زاد الوليد بن عبد الملك في المسجد في إمارته لما زاد الحجر في مسجد الرسول صلى الله عليه و سلم وكان نائبه على المدينة ابن عمه عمر بن عبد العزيز وكانت حجر أزواج النبي صلى الله عليه و سلم شرقي المسجد و قبليه فأمره أن يشتريها من ملاكها ورثة أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فاشتراها وأدخلها في المسجد فزاد في قبلي المسجد و شرقيه ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد و إلا فهي قبل ذلك كانت خارجة عن المسجد في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد موته ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين

سیدہ عائشہؓ سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے۔ وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی کرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو بھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہوگیا۔ پھر حجرہ عائشہؓ جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جاسکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔

اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ، نبی اکرمﷺ کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہی فرماتے ہیں:

ولو صح ذلك لكان حجة و دليلا على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت ولا يسألون الله به وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه فأين هذا من هذا


اگر یہ روایت صحیح ہو تو بھی اس اس بات کی پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرامؓ نہ تو اللہ تعالی کی مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالی سے اس کے وسیلے سے مانگے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی انہوں نے۔ اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟
[الرد على البكري 1/ 164]


(۱) اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عائشہؓ کے مشورہ کے مطابق چھت بھی ہٹا دی گئی اور قبر سے آسمان ایک ایک جھروکہ نکال دیا گیا تو کیا جسم مبارک کو ظاہر کرنے کے لیے قبر کھول دی گئی؟ اور اس حدیث کے الفاظ بتارہے ہیں کہ ایسا کیا گیا تو بتایا جائے کہ ایسا کب کیا گیا؟ اور کس طرح کیا گیا؟ اور اتنی اہم خبر تاریخ کے صفحات سے اب تک کیسے غائب اور مخفی رہ گئی؟

(۲) اگر جسم اطہر کو کھولتے ہی آسمان سے بارش شروع ہوجایا کرتی تھی تو رسولﷺ کے عہد مبارک میں قحط پڑا تھا اور لوگوں کے مال و اسباب تباہ ہورہے تھے۔ اس وقت بھی رسولﷺ کا جسم اطہر آسمان کے سامنے کھلی فضا میں موجود تھا، لیکن اس کے سبب بارش نہیں ہوئی۔ بلکہ رسولﷺ کو شہر سے نکل کر میدان میں جانا پڑا اور استسقاء کیلے نماز پڑھانی پڑی اور تضرع و عاجزی کے ساتھ دعا مانگنی پڑی پھر کہیں آپ کی نماز و دعا کی برکت سے بارش ہوئی۔

(۳) حضرت عائشہؓ کو جب بارش کا یہ نسخہ معلوم تھا تو قحط پڑنے پر فورا ہی کیوں نہ حضرت عمرؓ سے کہلوادیا اور حضرت عمرؓ نے بھی قحط کی اس سختی و شدت میں عوام کو خوامخواہ مبتلا رکھا؟ قحط پڑتے ہی کیوں نہ قبر سے جسم اطہر کو جھروکے کے ذریعہ کھلی فضا کے سامنے کردیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اس نسخہ کو استعمال نہیں کیا اور رسولﷺ کی طرح خود بھی لوگوں کو لے کر میدان میں پہنچے اور حضرت عباسؓ سے دعا کرائی، تب جا کر بارش ہوئی۔

(۴) صحیح روایات کے مطابق جب دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور رسولﷺ منبر پر کھڑے جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور دیہاتی نے شدید قحط سالی اور اس کے سبب مال و اسباب کی بربادی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو ہفتہ بھر جاری رہی یہاں تک کے دوسرے جمعہ کو پھر وہی دیہاتی ٹھیک اسی وقت جب کہ آپﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مسجد میں آیا اور بارش کا کثرت کا رونا رو کر فریاد کی کہ سیلاب سے راستے بند ہوگئے ہیں، آپﷺ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائیں، آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بارش تھم گئی اور سورج چمکنے لگا۔

یہ سب کچھ اس حالت میں ہوا جب آپﷺ کا جسم اطہر مسجد کی چھت کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے محض آپﷺ کی دعا کی برکت سے بارش نازل بھی فرمائی اور روک بھی دی۔ اگر جسم اطہر کے فضا میں کھلتے ہی بارش ہونے لگتی تو آپﷺ منبر پر کھڑے ہوکر یہ دعا نہ فرماتے بلکہ صحن مسجد میں آکر کھڑے ہوجاتے اور بارش ہوگئی ہوتی۔ لیکن آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔

(۵) پھر جب ایسا ہی تھا تو قبر شریف کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تھا۔ اس گنبد خضراء سے ڈھانکنے اور چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ تاکہ جب کبھی ضرورت پڑتی خود بخود بارش ہوجاتی، اور حجاز کیلئے تو اور بھی اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے موسم خشکی غالب ہے اور وہ علاقہ دوسروں کی بہ نسبت پانی کا زیادہ محتاج ہے۔

(۶) حضرت عائشہؓ کی طرف یہ منسوب کرنا کہ انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ رسولﷺ کی قبر کے اوپر مکان کی چھت کھول دی جائے تاکہ آسمان و قبر کے درمیان چھت کا پردہ حائل نہ ہو، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ رسولﷺ کی جب وفات ہوئی تو آپﷺ حضرت عائشہؓ کے گھر میں دفن کئے گئے تھے اور حضرت عائشہؓ بھی بدستور اسی کمرے میں رہتی ہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ اپنے ہی گھر کو منہدم کردینے کا حکم دیں گی اور گھر میں بلا چھت کے سکونت پزیر رہیں گی؟

(۷) اس حدیث سے واضح ہورہا ہےکہ بارش کی کثرت سے خوب سبزہ اگا اور اونٹ چر کر اتنے فربہ ہوگئے کہ ان کی چربی بہہ پڑی، اور اسی سال کو عال الفتق کا نام دیا گیا۔

لیکن سوچئے کہ اس وقت لوگوں کے پاس صرف اونٹ ہی تو نہیں ہونگے بلکہ اونٹ کے علاوہ بکریاں، گائے اور گھوڑےوغیرہ بھی رہے ہوں گے، لیکن یہاں ذکر صرف اونٹوں ہی کا ہے۔ ممکن ہے اختصار کے خیال سے صرف اونٹ کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہو اور مراد سب ہی جانور ہوں کہ (جز) کہہ کر (کل) بھی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اگر مراد سب ہی جانور ہوں تو ا س کامطلب یہ ہوا کہ وہ سال مکمل بربادی اور تباہی کا تھا اور اس بارش نے تمام جانوروں کو خراب اور ناکارہ بنا ڈالا اور بجائے رحمت کے یہ عذاب ہی کا باعث بنی۔​


(۸) مذکورہ روایت میں حجرہ عائشہ جس میں‌ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودفن کیا گیا تھا اس میں روشندان کھولنے کی ضروت محسوس کی گئی ہے حالانکہ آپ کا یہ گھرتو پہلے ہی سے کھلا ہواتھا جیساکہ بخاری ومسلم کی درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے

عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا»[صحيح البخاري 1/ 114]۔

عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ»[صحيح مسلم 1/ 426]۔

ایک الزامی جواب!

اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے۔ کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب، ‏‏‏‏‏‏وهو يقول:‏‏‏‏ لا يعلم الغيب إلا اللهجو کوئی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے تو غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري ٧٣٨٠]

سیدہ عائشہؓ کی کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے سخت خلاف تھی، اس لیے اس کے جواب میں (بعض الناس) نے لکھا ہے:
(آپ کا یہ قول اپنے رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتی، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں)
[جاء الحق ۱۔۳۳۴]

ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں تو ان کا نبی کریمﷺ کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے؟ جب کہ وہ اس پر بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ پھر اس پر سہاگہ کہ یہ قول بھی ثابت نہیں ہے۔
برائیں مہربانی فرما کا کمنٹس لائیک کرنا چھوڑئیے جواب دیجئے آپ نے خود آ کر ہی مالک النکری پر تیر چلائے۔۔ جو کو بے سود نکلے اب یا تو کہہ دیجئے میری کاپی پیسٹ ختم ہو گئی ہے یا پھر کوئی جواب دیجئے۔۔۔

جب جواب مکمل ہو تو پھر پوسٹ کرنا یہ ٹکڑوں ،حصوں میں پوسٹنگ اور بچکانہ کمنٹ کہ لائک چھوڑو اور جواب دو وغیر وغیرہ یہ فیس بک پر ہی رہنے دیا جائے زیادہ بہترہے۔

 
Last edited:

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30





سند کے حوالے سے آپ کو شاید معلوم نہیں کس راوی کو لے کر آپ نے اپنے گھر کے ستون ہی ہلا دئیے ؟
اس سے پتہ چلتا ہے نیم حکیم خطرہ جان اور نیم فقیہ خطرہ ایمان

ملاحظہ ہو: اس راوی پر کلام



اس روای پر کلام احناف کے موصوف (حضرت مولانا ابو حفص اعجاز احمد اشرفی) صاحب نے نقل کیا تھا اپنی کتاب (نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ میں) اس پر ہیڈنگ لکھی گئی (غیر مقلدین کی طرف سے پیش کردہ دیگر دلائل کا تحقیقی جائزہ)۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کے مسنون طریقہ صفحہ ۱۸۴۔۱۸۵

20708 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

20709 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

یہاں اس راوی کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے موصوف نے جو حوالہ دیا وہ لگایا جاچکا تھا جس پر موصوف آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے! جس کا جواب احناف نے (الحمدللہ) شیخ کفایت اللہ کے حوالے سے دیا اور تحقیق میں (راجع) موقف واضح کردیا کہ کس کا ہے!

اب تسلی احناف خود کو دیتے رہیں سند پر تو یہ ان کی سوچ پر منحصر ہے۔

رہی بات متن کی تو اس پر نقد و تبصرہ موجود ہے۔​

اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت إسناده و إنما نقل ذلك من هو معروف بالكذب و مما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة بل كان بعضه باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بعضه مسقوف وبعضه مكشوف وكانت الشمس تنزل فيه كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها لم يظهر الفيء بعد ولم تزل الحجرة كذلك حتى زاد الوليد بن عبد الملك في المسجد في إمارته لما زاد الحجر في مسجد الرسول صلى الله عليه و سلم وكان نائبه على المدينة ابن عمه عمر بن عبد العزيز وكانت حجر أزواج النبي صلى الله عليه و سلم شرقي المسجد و قبليه فأمره أن يشتريها من ملاكها ورثة أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فاشتراها وأدخلها في المسجد فزاد في قبلي المسجد و شرقيه ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد و إلا فهي قبل ذلك كانت خارجة عن المسجد في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد موته ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين

سیدہ عائشہؓ سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے۔ وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی کرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو بھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہوگیا۔ پھر حجرہ عائشہؓ جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جاسکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔

اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ، نبی اکرمﷺ کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہی فرماتے ہیں:

ولو صح ذلك لكان حجة و دليلا على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت ولا يسألون الله به وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه فأين هذا من هذا


اگر یہ روایت صحیح ہو تو بھی اس اس بات کی پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرامؓ نہ تو اللہ تعالی کی مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالی سے اس کے وسیلے سے مانگے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی انہوں نے۔ اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟
[الرد على البكري 1/ 164]


(۱) اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عائشہؓ کے مشورہ کے مطابق چھت بھی ہٹا دی گئی اور قبر سے آسمان ایک ایک جھروکہ نکال دیا گیا تو کیا جسم مبارک کو ظاہر کرنے کے لیے قبر کھول دی گئی؟ اور اس حدیث کے الفاظ بتارہے ہیں کہ ایسا کیا گیا تو بتایا جائے کہ ایسا کب کیا گیا؟ اور کس طرح کیا گیا؟ اور اتنی اہم خبر تاریخ کے صفحات سے اب تک کیسے غائب اور مخفی رہ گئی؟

(۲) اگر جسم اطہر کو کھولتے ہی آسمان سے بارش شروع ہوجایا کرتی تھی تو رسولﷺ کے عہد مبارک میں قحط پڑا تھا اور لوگوں کے مال و اسباب تباہ ہورہے تھے۔ اس وقت بھی رسولﷺ کا جسم اطہر آسمان کے سامنے کھلی فضا میں موجود تھا، لیکن اس کے سبب بارش نہیں ہوئی۔ بلکہ رسولﷺ کو شہر سے نکل کر میدان میں جانا پڑا اور استسقاء کیلے نماز پڑھانی پڑی اور تضرع و عاجزی کے ساتھ دعا مانگنی پڑی پھر کہیں آپ کی نماز و دعا کی برکت سے بارش ہوئی۔

(۳) حضرت عائشہؓ کو جب بارش کا یہ نسخہ معلوم تھا تو قحط پڑنے پر فورا ہی کیوں نہ حضرت عمرؓ سے کہلوادیا اور حضرت عمرؓ نے بھی قحط کی اس سختی و شدت میں عوام کو خوامخواہ مبتلا رکھا؟ قحط پڑتے ہی کیوں نہ قبر سے جسم اطہر کو جھروکے کے ذریعہ کھلی فضا کے سامنے کردیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اس نسخہ کو استعمال نہیں کیا اور رسولﷺ کی طرح خود بھی لوگوں کو لے کر میدان میں پہنچے اور حضرت عباسؓ سے دعا کرائی، تب جا کر بارش ہوئی۔

(۴) صحیح روایات کے مطابق جب دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور رسولﷺ منبر پر کھڑے جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور دیہاتی نے شدید قحط سالی اور اس کے سبب مال و اسباب کی بربادی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو ہفتہ بھر جاری رہی یہاں تک کے دوسرے جمعہ کو پھر وہی دیہاتی ٹھیک اسی وقت جب کہ آپﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مسجد میں آیا اور بارش کا کثرت کا رونا رو کر فریاد کی کہ سیلاب سے راستے بند ہوگئے ہیں، آپﷺ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائیں، آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بارش تھم گئی اور سورج چمکنے لگا۔

یہ سب کچھ اس حالت میں ہوا جب آپﷺ کا جسم اطہر مسجد کی چھت کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے محض آپﷺ کی دعا کی برکت سے بارش نازل بھی فرمائی اور روک بھی دی۔ اگر جسم اطہر کے فضا میں کھلتے ہی بارش ہونے لگتی تو آپﷺ منبر پر کھڑے ہوکر یہ دعا نہ فرماتے بلکہ صحن مسجد میں آکر کھڑے ہوجاتے اور بارش ہوگئی ہوتی۔ لیکن آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔

(۵) پھر جب ایسا ہی تھا تو قبر شریف کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تھا۔ اس گنبد خضراء سے ڈھانکنے اور چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ تاکہ جب کبھی ضرورت پڑتی خود بخود بارش ہوجاتی، اور حجاز کیلئے تو اور بھی اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے موسم خشکی غالب ہے اور وہ علاقہ دوسروں کی بہ نسبت پانی کا زیادہ محتاج ہے۔

(۶) حضرت عائشہؓ کی طرف یہ منسوب کرنا کہ انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ رسولﷺ کی قبر کے اوپر مکان کی چھت کھول دی جائے تاکہ آسمان و قبر کے درمیان چھت کا پردہ حائل نہ ہو، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ رسولﷺ کی جب وفات ہوئی تو آپﷺ حضرت عائشہؓ کے گھر میں دفن کئے گئے تھے اور حضرت عائشہؓ بھی بدستور اسی کمرے میں رہتی ہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ اپنے ہی گھر کو منہدم کردینے کا حکم دیں گی اور گھر میں بلا چھت کے سکونت پزیر رہیں گی؟

(۷) اس حدیث سے واضح ہورہا ہےکہ بارش کی کثرت سے خوب سبزہ اگا اور اونٹ چر کر اتنے فربہ ہوگئے کہ ان کی چربی بہہ پڑی، اور اسی سال کو عال الفتق کا نام دیا گیا۔

لیکن سوچئے کہ اس وقت لوگوں کے پاس صرف اونٹ ہی تو نہیں ہونگے بلکہ اونٹ کے علاوہ بکریاں، گائے اور گھوڑےوغیرہ بھی رہے ہوں گے، لیکن یہاں ذکر صرف اونٹوں ہی کا ہے۔ ممکن ہے اختصار کے خیال سے صرف اونٹ کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہو اور مراد سب ہی جانور ہوں کہ (جز) کہہ کر (کل) بھی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اگر مراد سب ہی جانور ہوں تو ا س کامطلب یہ ہوا کہ وہ سال مکمل بربادی اور تباہی کا تھا اور اس بارش نے تمام جانوروں کو خراب اور ناکارہ بنا ڈالا اور بجائے رحمت کے یہ عذاب ہی کا باعث بنی۔​


(۸) مذکورہ روایت میں حجرہ عائشہ جس میں‌ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودفن کیا گیا تھا اس میں روشندان کھولنے کی ضروت محسوس کی گئی ہے حالانکہ آپ کا یہ گھرتو پہلے ہی سے کھلا ہواتھا جیساکہ بخاری ومسلم کی درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے

عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا»[صحيح البخاري 1/ 114]۔

عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ»[صحيح مسلم 1/ 426]۔

ایک الزامی جواب!

اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے۔ کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب، ‏‏‏‏‏‏وهو يقول:‏‏‏‏ لا يعلم الغيب إلا اللهجو کوئی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے تو غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري ٧٣٨٠]

سیدہ عائشہؓ کی کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے سخت خلاف تھی، اس لیے اس کے جواب میں (بعض الناس) نے لکھا ہے:
(آپ کا یہ قول اپنے رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتی، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں)
[جاء الحق ۱۔۳۳۴]

ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں تو ان کا نبی کریمﷺ کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے؟ جب کہ وہ اس پر بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ پھر اس پر سہاگہ کہ یہ قول بھی ثابت نہیں ہے۔


جب جواب مکمل ہو تو پھر پوسٹ کرنا یہ ٹکڑوں ،حصوں میں پوسٹنگ اور بچکانہ کمنٹ کہ لائک چھوڑو اور جواب دو وغیر وغیرہ یہ فیس بک پر ہی رہنے دیا جائے زیادہ بہترہے۔

۔۔

ماشاءالله جناب وہی پرانا اعتراض پھر نکل کرنے کا مقصد۔۔۔؟
چلے آپ تشریف تو لے کر آئے۔۔۔
مزید یہ بھی خوشی کے بات کے اپ مان گئے کہ کفایت الله سنابلی کر حوالے سے جواب دےکر جرحکا رد کردیا ہے۔۔
ویسےیہ آپ کی خوش فہمی ہے ہمارے پاس ان کا سکین بھی ہے ملاخظہ فرمائیں۔۔۔



چلیں سند تو کلئر ہو گئی کہ اسکی سند بلکل صحیح ہے۔۔

اب آتے ہیں متن پے۔۔۔

کیا عدیل سلفی صاحب ابن تیمیہ کی طرح تم بھی یہ سوچ سکتے ہو کہ امی عائشہ رضی الله عنہما کا حجرہ مبارک بغیر چھت کے تھا۔۔؟ جہاں وہ رہتی تھی۔۔۔؟ اور دلیل کیا دی اسکے لیے تاریخ۔۔۔؟ کونسی تاریخ سند کیا ہے۔۔۔؟
اور پھر اس سے بھی بڑی جہالت یہ کہ صحییحین کی روایت سے یہ استدلال کیا کہ جب نبی پاک عصر کی نماز پڑھتے تو اس وقت ھجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی۔کمرے میں دھوپ کھڑکی سے آسکتی ہے دروازے سے آسکتی ہے اس کے لئے کہ کیسے ضروری ہو گیا کہ اماں عائشہ رضی الله عنہما کے بجرے کی چھت ہی نہیں تھی۔۔۔؟ اس اعتراض پر ہنسا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔۔

باقی وہابی دھرم میں اسناد کو پہلے دیکھا جاتا تو جناب اگر سند پر کوئی آپ کو تکلیف نہیں اب تو ایسے پھٹے پُھٹے اعتراض نہ پیش کریں بلکہ سند کو صحیح مان کر اس حدیث کو بھی صحیح مانیئے۔۔۔
باقی امی عائشہ والی دوسری حدیث علم الغیب والی تو اس کا جواب نہیں دیتا کیونکہ ٹاپک چینج ہو جائے گا۔۔



Sent from my iPhone using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ماشاءالله جناب وہی پرانا اعتراض پھر نکل کرنے کا مقصد۔۔۔؟
چلے آپ تشریف تو لے کر آئے۔۔۔
مزید یہ بھی خوشی کے بات کے اپ مان گئے کہ کفایت الله سنابلی کر حوالے سے جواب دےکر جرحکا رد کردیا ہے۔۔
ویسےیہ آپ کی خوش فہمی ہے ہمارے پاس ان کا سکین بھی ہے ملاخظہ فرمائیں۔۔۔
چلیں سند تو کلئر ہو گئی کہ اسکی سند بلکل صحیح ہے۔۔
اب آتے ہیں متن پے۔۔۔

کیا عدیل سلفی صاحب ابن تیمیہ کی طرح تم بھی یہ سوچ سکتے ہو کہ امی عائشہ رضی الله عنہما کا حجرہ مبارک بغیر چھت کے تھا۔۔؟ جہاں وہ رہتی تھی۔۔۔؟ اور دلیل کیا دی اسکے لیے تاریخ۔۔۔؟ کونسی تاریخ سند کیا ہے۔۔۔؟
اور پھر اس سے بھی بڑی جہالت یہ کہ صحییحین کی روایت سے یہ استدلال کیا کہ جب نبی پاک عصر کی نماز پڑھتے تو اس وقت ھجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی۔کمرے میں دھوپ کھڑکی سے آسکتی ہے دروازے سے آسکتی ہے اس کے لئے کہ کیسے ضروری ہو گیا کہ اماں عائشہ رضی الله عنہما کے بجرے کی چھت ہی نہیں تھی۔۔۔؟ اس اعتراض پر ہنسا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔۔

باقی وہابی دھرم میں اسناد کو پہلے دیکھا جاتا تو جناب اگر سند پر کوئی آپ کو تکلیف نہیں اب تو ایسے پھٹے پُھٹے اعتراض نہ پیش کریں بلکہ سند کو صحیح مان کر اس حدیث کو بھی صحیح مانیئے۔۔۔
باقی امی عائشہ والی دوسری حدیث علم الغیب والی تو اس کا جواب نہیں دیتا کیونکہ ٹاپک چینج ہو جائے گا۔۔

اسی لولے لنگڑے جواب کی ہی امید تھی تبھی لکھا تھا اوپر!


اس سے پتہ چلتا ہے نیم حکیم خطرہ جان اور نیم فقیہ خطرہ ایمان
رہی بات سند کی تو شاید اردو میں لکھی ہوئی عبارت سمجھنے سے بھی قاصر ہو، شکر ہے (سینے پر ہاتھ باندھنے) کے دلائل اور قوی ہوگئے اور احناف اس شعر کا مصداق قرار پائے (گھر کو آگ لگ گئی اس گھر کے چراغ سے)۔ اب دوبارہ اپنے جزباتی کلمات کو نوٹ کرو اور اپنی عقل شریف پر ماتم کرو۔

اور اوپر لکھا تھا یہ شاید اردو میں :)

جب جواب مکمل ہو تو پھر پوسٹ کرنا یہ ٹکڑوں ،حصوں میں پوسٹنگ اور بچکانہ کمنٹ کہ لائک چھوڑو اور جواب دو وغیر وغیرہ یہ فیس بک پر ہی رہنے دیا جائے زیادہ بہترہے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :)
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
۔۔

ماشاءالله جناب وہی پرانا اعتراض پھر نکل کرنے کا مقصد۔۔۔؟
چلے آپ تشریف تو لے کر آئے۔۔۔
مزید یہ بھی خوشی کے بات کے اپ مان گئے کہ کفایت الله سنابلی کر حوالے سے جواب دےکر جرحکا رد کردیا ہے۔۔
ویسےیہ آپ کی خوش فہمی ہے ہمارے پاس ان کا سکین بھی ہے ملاخظہ فرمائیں۔۔۔



چلیں سند تو کلئر ہو گئی کہ اسکی سند بلکل صحیح ہے۔۔

اب آتے ہیں متن پے۔۔۔

کیا عدیل سلفی صاحب ابن تیمیہ کی طرح تم بھی یہ سوچ سکتے ہو کہ امی عائشہ رضی الله عنہما کا حجرہ مبارک بغیر چھت کے تھا۔۔؟ جہاں وہ رہتی تھی۔۔۔؟ اور دلیل کیا دی اسکے لیے تاریخ۔۔۔؟ کونسی تاریخ سند کیا ہے۔۔۔؟
اور پھر اس سے بھی بڑی جہالت یہ کہ صحییحین کی روایت سے یہ استدلال کیا کہ جب نبی پاک عصر کی نماز پڑھتے تو اس وقت ھجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی۔کمرے میں دھوپ کھڑکی سے آسکتی ہے دروازے سے آسکتی ہے اس کے لئے کہ کیسے ضروری ہو گیا کہ اماں عائشہ رضی الله عنہما کے بجرے کی چھت ہی نہیں تھی۔۔۔؟ اس اعتراض پر ہنسا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔۔

باقی وہابی دھرم میں اسناد کو پہلے دیکھا جاتا تو جناب اگر سند پر کوئی آپ کو تکلیف نہیں اب تو ایسے پھٹے پُھٹے اعتراض نہ پیش کریں بلکہ سند کو صحیح مان کر اس حدیث کو بھی صحیح مانیئے۔۔۔
باقی امی عائشہ والی دوسری حدیث علم الغیب والی تو اس کا جواب نہیں دیتا کیونکہ ٹاپک چینج ہو جائے گا۔۔



Sent from my iPhone using Tapatalk

یہ انداز بیان قابل قبول نہیں ۔
 
Top