کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر موجود گنبد خضراء ( خضری ) کے اوپر ایک کھڑکی ہے ، اور یہ کھڑکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر صحابہ کرام نے اس وقت کھولی تھی ، جب ایک دفعہ مدینہ میں قحط ہوگیا تھا ، اس طرح قحط ختم ہوگیا تھا ۔ اہل بدعت یہ روایت بیان کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قبر نبوی کے توسل سے بارش وغیرہ طلب کرنا صحابہ کا طریقہ ہے ۔
اس سلسلے میں پیش کی جانے والی روایت ملاحظہ فرمائیں:
قال الإمام الدارمي رحمه الله :
حدثنا أبو النعمان ، ثنا سعيد بن زيد ، ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : ( قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً ، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ . قَالَ : فَفَعَلُوا ، فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ ، حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ ، فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ ) .
سنن الدارمي (1/56) رقم (92) .
ترجمہ : اوس بن عبد اللہ فرماتے ہیں ، اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ حالت بیان کی ، انہوں نے فرمایا : جاؤ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کی طرف سے تھوڑا سا کھول دو ، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ ہو ، کہتے ہیں : لوگوں نے ایسا ہی کیا ، تو اللہ تعالی نے اتنی بارش نازل فرمائی کہ ہر طرف ہریالی پھیل گئی ، اونٹ اس قدر سیر ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضاء الگ الگ نظر آنے لگے ، اس مناسبت سے اس سال کو ’ عام الفتق ‘ کا نام دیا گیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت درجِ ذیل وجوہات کی بنا پر قابل حجت نہیں:
اول : مذکورہ روایت کی سند کے بارے محدثين اور فن رجال کے علما کی رائے یہ ہے کہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں موجود ایک راوی سعید بن زید کے بارے میں علما کی آراء یوں ہیں:
1- حافظ ابن حجر: زبان کا سچا تھا لیکن وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔
2- امام ذہبی نے ''میزان الاعتدال'' میں اس کے بارے میں یحیی بن سعید کا قول نقل کیا ہے کہ: یہ ضعیف ہے۔
3- علامہ سعدی: یہ بندہ قابل حجت نہیں علما اس کی حدیثوں کو ضعیف گردانتے ہیں۔
4- امام نسائی کا کہنا ہے کہ یہ قوی نہیں۔
اسی لئے علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
دوم : ایک دوسرے راوی ابو نعمان جس کا نام محمد بن الفضل ہے، اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو مکس کر کے بیان کیا کرتا تھا، علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے قبل کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں جو اختلاط کے بعد ہوں وہ ناقابل قبول جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ اختلاط سے قبل کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی، اور مذکورہ روایت بھی انہی میں سے ہے اس کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔
سوم : تاریخی حوالے سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی زندگی میں حجرۂ عائشہ، جس میں نبیﷺ کی قبر تھی اپنی اسی حالت میں برقرار تھا جس صورت میں نبیﷺ کے زمانے میں تھا یعنی کچھ حصے پر چھت لگی ہوئی اور کچھ حصہ بغیر چھت کے کھلا، مطلب قبر نبیﷺ ایسی نہیں تھی کہ مکمل ڈھکی ہوئی ہو، جیسے کہ صحیحین میں عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ جب عصر کی نماز پڑھتے اس وقت حجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی تھی۔
اور یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ کے بعد عائشہؓ کی زندگی میں حجرے میں کوئی ایسی تبدیلی کی گئی ہو جس کی وجہ سے قبر مبارک ڈھک گئی ہو لہذا اس میں سوراخ بنانے کا سوال ہی بے معنی ہے، حجرۂ عائشہ کو ولید بن عبدالملک نے اپنے عہد میں مسجد میں شامل کیا جب انہوں نے مسجد نبوی کی توسیع کی، پھر ولید ہی نے حجرۂ عائشہ یا بالفاظ دیگر قبر نبی کے گرد اونچی دیوار کھڑی کر کے ڈھک دی اور مذکورہ سوراخ رکھا تاکہ صفائی وغیرہ کے لئے اندر اترا جا سکے۔
چہارم : رہی توسل کی بات وہ اس لئے بھی درست نہیں کہ اصحاب کرام ؓ آپ ﷺ کے بعد مختلف مصائب کا شکار ہوتے رہے، قحط سالیاں بھی آئیں مگر ان حالات میں کسی نے بھی آپﷺ کی قبر سے اس انداز میں وسیلہ نہیں لیا بلکہ جو صحیح ثابت ہے وہ یوں ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خشک سالی آئی تو آپؓ قبر مبارک کے توسط سے مانگنے یا سوراخ وغیرہ بنانے کے بجائے حضرت عباس ؓ کو لے کر استسقاء کے لئے گئے۔
اس ثابت حدیث سے معنوی مخالفت کی وجہ سے بھی سوراخ والی حدیث قابل اعتبار نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
نوٹ : اس روایت پر کیا گیا کلام یہاں سے ماخوذ ہے ، جس کی اردو ترجمانی ہمارے ایک ادیب دوست محترم زاہد سعید صاحب نے کی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت پر فورم پر کئی سال پہلے یہاں بھی گفتگو ہو چکی ہے ۔ انتظامیہ
نبی پاکؐ کے روضے مبارک سے صحابہ کا توسل با حکم حضرت عائشہؓ ، اور اس روایت کی تحقیق
(تحقیق : رانا اسد فرحان الطحاوی)
امام دارمی ، ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ
حدثنا أبو النعمان ثنا سعید بن زید ثنا عمرو بن مالک النکری حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد اللہ قال : قحط أہل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا إلی عائشۃ فقالت انظروا قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فاجعلوا منہ کووا إلی السماء حتی لا یکون بینہ وبین السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتی نبت العشب وسمنت الإبل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق
(محقق الکتاب )قال حسین سلیم أسد : رجالہ ثقات وہو موقوف علی عائشہ
مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلاء ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ سے شکایت کی آپ نے فرمایا کہ حضور کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوجاو اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طر ح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ گیا اور اتنے موٹے ہوگئے کہ ایسا لگتا تھا کہ چربی سے پھٹ پڑیں گے ۔لہذا اس سال کا نام عام الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال) رکھ دیا گیا
حوالہ جات
الشفاء۔الخصائص الکبری۔مناہل الصفطفی فی تخریج احادیث الشفاء میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ ابن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں بکر بن عبد اللہ مزنی اور بزار نے اپنی مسند میں عبد اللہ بن مسعود سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اور اس بات کی تائید علامہ خفاجی اور ملا علی قاری نے الشفاء کی شرح میں کی ہے
سند کا پہلا راوی : ابو نعمان عارم اسکا مکمل نام محمد بن الفضل سدوسی ہے
امام ذھبی میزان الاعتدال برقم 8057 پر لکھتے ہیں
8057 - محمد بن الفضل [ع] السدوسي، أبو النعمان عارم، شيخ البخاري.
حافظ، صدوق، مكثر.
قال ابن وارة: حدثنا عارم الصدوق الامين.
وقال الدارقطني: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر.
وهو ثقة.
محمد بن فضل بخاری کا شیخ حافظ ، صدوق ہے ۔
ابن وارہ نے کہا مجھے بیان کیا عارم صدوق امین نے
دارقطنی نے کہا کہ اسکی عمر کے آخری وقت میں تغیر آگیا تھا ۔ لیکن اس کے اختلاط کے بعد اس سے کوئی منکر روایت ظاہر نہیں ہوئی۔ اور وہ ثقہ ہیں
دوسرے راوی ہیں سعید بن ابوالحسن بصری
امام بخاری تاریخ الکبیر میں انکے مطلق لکھتے ہیں :
1576 - سَعِيد بْن زيد أخو حماد بْن زيد مولى الأزد لآل جرير بْن حازم، الْبَصْرِيّ سَمِعَ علي بْن الحكم، قَالَ ابْن محبوب: مات سنة سبع وستين ومائة قبل حماد بْن سلمة، وقال مسلم: حدثنا سعيد ابن زيد أَبُو الْحَسَن صدوق حافظ
مسلم نے کہا مجھے بیان کیا سعید بن زید ابو الحن نے صدوق حافظ۔
امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں فرماتے ہیں : سعيد ابن زيد ابن درهم الأزدي الجهضمي أبو الحسن البصري أخو حماد صدوق له أوهام من السابعة مات سنة سبع وستين خت م د ت ق
سعید بن زید صدوق ہیں اور وھم بھی کر جاتے تھے۔
تیسرے راوی ہیں : عمرو بن مالک النکری
امام ذھبیؒ انکے مطلق لکھتے ہیں تاریخ الاسلام ج ۸ ص ۱۹۴
: عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ [1] ، أَبُو يَحْيَى وَقِيلَ أَبُو مَالِكٍ. بَصْرِيٌّ صَدُوقٌ.
رَوَى عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ الرَّبَعِيِّ.
عمرو بن مالک النکری صدوق ہیں
چوتھے راوی ہیں ابو الجوزاء
امام ذھبی ؒ انکے مطلق تاریخ الاسلام برقم 178 پر لکھتےہیں :
178- (أبو الجوزاء) - ع- أوس بن عبد الله الرّبعيّ البصريّ.
رَوَى عَنْ: عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
رَوَى عنه: أبو الأشهب العطاردي، وعمرو بن مالك النكري ، وبديل بن ميسرة وجماعة.
يقال: قتل في وقعة الجماجم . وكان قويا.
ابو الجوزاء کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ ، ابن عباسؓ اور عبداللہ بن عمر ؓسے روایت کیا ہے ۔
وہ قوی تھے۔
ان پر یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ انکی ملاقات حضرت عائشہؓ سے ثابت نہیں جبکہ یہ صحیح نہیں اسکا رد امام ابن حجر عسقلانی نے بھی کیا ہے اور خود امام مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح مسلم میں ان سے روایت لی ہے حضرت عائشہ ؓ کے واسطے سے لی ہے ۔ برقم
240 - (498) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي الْأَحْمَرَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ - وَاللَّفْظُ لَهُ - قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بلخ۔۔۔ (صحیح مسلم)
اسکے علاوہ مندرجہ زیل محققین و محدثین نے اس روایت کو صحیح و حسن قرار دیا ہے
1- حسين سليم أسد الداراني : رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة
2- ابن حجر العسقلاني : تخريج مشكاة المصابيح (ج5 / ص362): [حسن كما قال في المقدمة]
3- محمود سعيد ممدوح : رفع المنارة ص203: قلت : هذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى
4- تقي الدين علي السبكي : شفاء السقام ص128: استدل بالحديث
5- حسن بن علي السقاف: الإغاثة ص25: وهذا صريح أيضاً بإسناد صحيح
6- ذكر العلامة السمهودي في خلاصة الوفا : إن من الأدلة على صحة التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته ما رواه الدارمي في صحيحه عن أبي الجوزاء ثم ذكر الحديث ...
صحح السند (وليس المتن) المذكور كل من - والسند هو: أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ:
7- المحقق شعيب الأرنؤوط : مسند احمد (ج6 / ص72) ح24478: مرفوعه صحيح لغيره وهذا إسناد حسن
8- الحافظ الهيثمي : مجمع الزوائد (ج7 / ص392) ح13035: رواه أحمد والطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح، غير عمرو بن مالك البكري وهو ثقة.
9- المحقق حمزة الزين : مسند احمد (ج17 / ص330): اسناده صحيح،،،
Sent from my iPhone using Tapatalk