• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
گنبد خضری کی تاریخ اور اس کی شرعی حیثیت
تقریباً سات سو سال تک قبر نبوی (ص) پر کوئی عمارت نہیں تھی ، پھر ٦٧٨ ہجری میں منصور بن قلاوون صالحی (بادشاہ مصر) نے کمال احمد بن برہان عبد القوی کے مشورے سے لکڑی کا ایک جنگلہ بنوایا اور اسے حجرے کی چھت پر لگا دیا- اور اس کا نام "قبہ رزاق" پڑ گیا- اس وقت کے علماء ہر چند کہ اس صاحب اقتدار کو نہ روک سکے ، مگر انہوں نے اس کام کو بہت برا سمجھا ، اور جب یہ مشورہ دینے والا کمال احمد معزول کیا گیا تو لوگوں نے اس کی معزولی کو الله کی طرف سے اس کے اس فعل کی پاداش شمار کیا - پھر الملک الناصر حسن بن محمد قلاوون نے اور اس کے بعد ٧٦٥ ہجری میں الملک الاشرف شعبان بن حسین بن محمد نے اس میں تعمیری اضافے کئے ، یہاں تک کہ موجودہ تعمیر وجود میں آئی –

(وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی 1/ 157،158)
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا»
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو دھوپ ان کے حجرہ ہی میں تھی۔ سایہ وہاں نہیں پھیلا تھا۔
وجہ استدلال : حجرے کے اندر دھوپ کا آنا ، اس کے اوپر سےکھلے ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
بہت خوب
کیا دروازے میں سے دھوپ اندر نہیں جا سکتی۔۔۔؟
کیسی کیسی تاویلیں نکالتے آپ اپنے ہی منطق سے۔۔


Sent from my iPhone using Tapatalk
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر موجود گنبد خضراء ( خضری ) کے اوپر ایک کھڑکی ہے ، اور یہ کھڑکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر صحابہ کرام نے اس وقت کھولی تھی ، جب ایک دفعہ مدینہ میں قحط ہوگیا تھا ، اس طرح قحط ختم ہوگیا تھا ۔ اہل بدعت یہ روایت بیان کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قبر نبوی کے توسل سے بارش وغیرہ طلب کرنا صحابہ کا طریقہ ہے ۔
اس سلسلے میں پیش کی جانے والی روایت ملاحظہ فرمائیں:
قال الإمام الدارمي رحمه الله :
حدثنا أبو النعمان ، ثنا سعيد بن زيد ، ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : ( قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً ، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ . قَالَ : فَفَعَلُوا ، فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ ، حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ ، فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ ) .
سنن الدارمي (1/56) رقم (92) .

ترجمہ : اوس بن عبد اللہ فرماتے ہیں ، اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ حالت بیان کی ، انہوں نے فرمایا : جاؤ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کی طرف سے تھوڑا سا کھول دو ، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ ہو ، کہتے ہیں : لوگوں نے ایسا ہی کیا ، تو اللہ تعالی نے اتنی بارش نازل فرمائی کہ ہر طرف ہریالی پھیل گئی ، اونٹ اس قدر سیر ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضاء الگ الگ نظر آنے لگے ، اس مناسبت سے اس سال کو ’ عام الفتق ‘ کا نام دیا گیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت درجِ ذیل وجوہات کی بنا پر قابل حجت نہیں:
اول : مذکورہ روایت کی سند کے بارے محدثين اور فن رجال کے علما کی رائے یہ ہے کہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں موجود ایک راوی سعید بن زید کے بارے میں علما کی آراء یوں ہیں:
1- حافظ ابن حجر: زبان کا سچا تھا لیکن وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔
2- امام ذہبی نے ''میزان الاعتدال'' میں اس کے بارے میں یحیی بن سعید کا قول نقل کیا ہے کہ: یہ ضعیف ہے۔
3- علامہ سعدی: یہ بندہ قابل حجت نہیں علما اس کی حدیثوں کو ضعیف گردانتے ہیں۔
4- امام نسائی کا کہنا ہے کہ یہ قوی نہیں۔
اسی لئے علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
دوم : ایک دوسرے راوی ابو نعمان جس کا نام محمد بن الفضل ہے، اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو مکس کر کے بیان کیا کرتا تھا، علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے قبل کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں جو اختلاط کے بعد ہوں وہ ناقابل قبول جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ اختلاط سے قبل کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی، اور مذکورہ روایت بھی انہی میں سے ہے اس کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔
سوم : تاریخی حوالے سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی زندگی میں حجرۂ عائشہ، جس میں نبیﷺ کی قبر تھی اپنی اسی حالت میں برقرار تھا جس صورت میں نبیﷺ کے زمانے میں تھا یعنی کچھ حصے پر چھت لگی ہوئی اور کچھ حصہ بغیر چھت کے کھلا، مطلب قبر نبیﷺ ایسی نہیں تھی کہ مکمل ڈھکی ہوئی ہو، جیسے کہ صحیحین میں عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ جب عصر کی نماز پڑھتے اس وقت حجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی تھی۔
اور یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ کے بعد عائشہؓ کی زندگی میں حجرے میں کوئی ایسی تبدیلی کی گئی ہو جس کی وجہ سے قبر مبارک ڈھک گئی ہو لہذا اس میں سوراخ بنانے کا سوال ہی بے معنی ہے، حجرۂ عائشہ کو ولید بن عبدالملک نے اپنے عہد میں مسجد میں شامل کیا جب انہوں نے مسجد نبوی کی توسیع کی، پھر ولید ہی نے حجرۂ عائشہ یا بالفاظ دیگر قبر نبی کے گرد اونچی دیوار کھڑی کر کے ڈھک دی اور مذکورہ سوراخ رکھا تاکہ صفائی وغیرہ کے لئے اندر اترا جا سکے۔
چہارم : رہی توسل کی بات وہ اس لئے بھی درست نہیں کہ اصحاب کرام ؓ آپ ﷺ کے بعد مختلف مصائب کا شکار ہوتے رہے، قحط سالیاں بھی آئیں مگر ان حالات میں کسی نے بھی آپﷺ کی قبر سے اس انداز میں وسیلہ نہیں لیا بلکہ جو صحیح ثابت ہے وہ یوں ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خشک سالی آئی تو آپؓ قبر مبارک کے توسط سے مانگنے یا سوراخ وغیرہ بنانے کے بجائے حضرت عباس ؓ کو لے کر استسقاء کے لئے گئے۔
اس ثابت حدیث سے معنوی مخالفت کی وجہ سے بھی سوراخ والی حدیث قابل اعتبار نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب​
نوٹ : اس روایت پر کیا گیا کلام یہاں سے ماخوذ ہے ، جس کی اردو ترجمانی ہمارے ایک ادیب دوست محترم زاہد سعید صاحب نے کی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت پر فورم پر کئی سال پہلے یہاں بھی گفتگو ہو چکی ہے ۔ انتظامیہ
نبی پاکؐ کے روضے مبارک سے صحابہ کا توسل با حکم حضرت عائشہؓ ، اور اس روایت کی تحقیق

(تحقیق : رانا اسد فرحان الطحاوی)

امام دارمی ، ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ
حدثنا أبو النعمان ثنا سعید بن زید ثنا عمرو بن مالک النکری حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد اللہ قال : قحط أہل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا إلی عائشۃ فقالت انظروا قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فاجعلوا منہ کووا إلی السماء حتی لا یکون بینہ وبین السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتی نبت العشب وسمنت الإبل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق

(محقق الکتاب )قال حسین سلیم أسد : رجالہ ثقات وہو موقوف علی عائشہ

مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلاء ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ سے شکایت کی آپ نے فرمایا کہ حضور کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوجاو اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طر ح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ گیا اور اتنے موٹے ہوگئے کہ ایسا لگتا تھا کہ چربی سے پھٹ پڑیں گے ۔لہذا اس سال کا نام عام الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال) رکھ دیا گیا

حوالہ جات
الشفاء۔الخصائص الکبری۔مناہل الصفطفی فی تخریج احادیث الشفاء میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ ابن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں بکر بن عبد اللہ مزنی اور بزار نے اپنی مسند میں عبد اللہ بن مسعود سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اور اس بات کی تائید علامہ خفاجی اور ملا علی قاری نے الشفاء کی شرح میں کی ہے

سند کا پہلا راوی : ابو نعمان عارم اسکا مکمل نام محمد بن الفضل سدوسی ہے
امام ذھبی میزان الاعتدال برقم 8057 پر لکھتے ہیں
8057 - محمد بن الفضل [ع] السدوسي، أبو النعمان عارم، شيخ البخاري.
حافظ، صدوق، مكثر.
قال ابن وارة: حدثنا عارم الصدوق الامين.
وقال الدارقطني: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر.
وهو ثقة.
محمد بن فضل بخاری کا شیخ حافظ ، صدوق ہے ۔
ابن وارہ نے کہا مجھے بیان کیا عارم صدوق امین نے
دارقطنی نے کہا کہ اسکی عمر کے آخری وقت میں تغیر آگیا تھا ۔ لیکن اس کے اختلاط کے بعد اس سے کوئی منکر روایت ظاہر نہیں ہوئی۔ اور وہ ثقہ ہیں

دوسرے راوی ہیں سعید بن ابوالحسن بصری

امام بخاری تاریخ الکبیر میں انکے مطلق لکھتے ہیں :
1576 - سَعِيد بْن زيد أخو حماد بْن زيد مولى الأزد لآل جرير بْن حازم، الْبَصْرِيّ سَمِعَ علي بْن الحكم، قَالَ ابْن محبوب: مات سنة سبع وستين ومائة قبل حماد بْن سلمة، وقال مسلم: حدثنا سعيد ابن زيد أَبُو الْحَسَن صدوق حافظ

مسلم نے کہا مجھے بیان کیا سعید بن زید ابو الحن نے صدوق حافظ۔
امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں فرماتے ہیں : سعيد ابن زيد ابن درهم الأزدي الجهضمي أبو الحسن البصري أخو حماد صدوق له أوهام من السابعة مات سنة سبع وستين خت م د ت ق
سعید بن زید صدوق ہیں اور وھم بھی کر جاتے تھے۔

تیسرے راوی ہیں : عمرو بن مالک النکری
امام ذھبیؒ انکے مطلق لکھتے ہیں تاریخ الاسلام ج ۸ ص ۱۹۴
: عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ [1] ، أَبُو يَحْيَى وَقِيلَ أَبُو مَالِكٍ. بَصْرِيٌّ صَدُوقٌ.
رَوَى عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ الرَّبَعِيِّ.
عمرو بن مالک النکری صدوق ہیں

چوتھے راوی ہیں ابو الجوزاء
امام ذھبی ؒ انکے مطلق تاریخ الاسلام برقم 178 پر لکھتےہیں :
178- (أبو الجوزاء) - ع- أوس بن عبد الله الرّبعيّ البصريّ.
رَوَى عَنْ: عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
رَوَى عنه: أبو الأشهب العطاردي، وعمرو بن مالك النكري ، وبديل بن ميسرة وجماعة.
يقال: قتل في وقعة الجماجم . وكان قويا.
ابو الجوزاء کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ ، ابن عباسؓ اور عبداللہ بن عمر ؓسے روایت کیا ہے ۔
وہ قوی تھے۔

ان پر یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ انکی ملاقات حضرت عائشہؓ سے ثابت نہیں جبکہ یہ صحیح نہیں اسکا رد امام ابن حجر عسقلانی نے بھی کیا ہے اور خود امام مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح مسلم میں ان سے روایت لی ہے حضرت عائشہ ؓ کے واسطے سے لی ہے ۔ برقم
240 - (498) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي الْأَحْمَرَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ - وَاللَّفْظُ لَهُ - قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بلخ۔۔۔ (صحیح مسلم)

اسکے علاوہ مندرجہ زیل محققین و محدثین نے اس روایت کو صحیح و حسن قرار دیا ہے

1- حسين سليم أسد الداراني : رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة
2- ابن حجر العسقلاني : تخريج مشكاة المصابيح (ج5 / ص362): [حسن كما قال في المقدمة]
3- محمود سعيد ممدوح : رفع المنارة ص203: قلت : هذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى
4- تقي الدين علي السبكي : شفاء السقام ص128: استدل بالحديث
5- حسن بن علي السقاف: الإغاثة ص25: وهذا صريح أيضاً بإسناد صحيح
6- ذكر العلامة السمهودي في خلاصة الوفا : إن من الأدلة على صحة التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته ما رواه الدارمي في صحيحه عن أبي الجوزاء ثم ذكر الحديث ...

صحح السند (وليس المتن) المذكور كل من - والسند هو: أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ:
7- المحقق شعيب الأرنؤوط : مسند احمد (ج6 / ص72) ح24478: مرفوعه صحيح لغيره وهذا إسناد حسن
8- الحافظ الهيثمي : مجمع الزوائد (ج7 / ص392) ح13035: رواه أحمد والطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح، غير عمرو بن مالك البكري وهو ثقة.
9- المحقق حمزة الزين : مسند احمد (ج17 / ص330): اسناده صحيح،،،





Sent from my iPhone using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
تبصرہ: اس روایت کی سند ضعیف ہے ، اور اس کے راوی (عمرو بن بن مالک نکری) کی حدیث (ابوالجوزاء) سے غیر محفوظ ہوتی ہے، یہ روایت بھی ایسی ہی ہے، حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں : وقال ابن عدي: "حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة امام ابن عدیؒ نے فرمایا ہے کہ ابن الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریبا دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔
[تهذيب التهذيب ۱۔۳۸۴]


یہ جرح مفسر ہے، یہ اثر بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے، لہذا غیر محفوظ ہے۔

اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت إسناده و إنما نقل ذلك من هو معروف بالكذب و مما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة بل كان بعضه باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بعضه مسقوف وبعضه مكشوف وكانت الشمس تنزل فيه كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها لم يظهر الفيء بعد ولم تزل الحجرة كذلك حتى زاد الوليد بن عبد الملك في المسجد في إمارته لما زاد الحجر في مسجد الرسول صلى الله عليه و سلم وكان نائبه على المدينة ابن عمه عمر بن عبد العزيز وكانت حجر أزواج النبي صلى الله عليه و سلم شرقي المسجد و قبليه فأمره أن يشتريها من ملاكها ورثة أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فاشتراها وأدخلها في المسجد فزاد في قبلي المسجد و شرقيه ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد و إلا فهي قبل ذلك كانت خارجة عن المسجد في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد موته ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين

سیدہ عائشہؓ سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے۔ وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی کرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو بھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہوگیا۔ پھر حجرہ عائشہؓ جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جاسکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔

اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ، نبی اکرمﷺ کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہی فرماتے ہیں:

ولو صح ذلك لكان حجة و دليلا على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت ولا يسألون الله به وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه فأين هذا من هذا

اگر یہ روایت صحیح ہو تو بھی اس اس بات کی پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرامؓ نہ تو اللہ تعالی کی مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالی سے اس کے وسیلے سے مانگے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی انہوں نے۔ اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟
[الرد على البكري 1/ 164]


(۱) اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عائشہؓ کے مشورہ کے مطابق چھت بھی ہٹا دی گئی اور قبر سے آسمان ایک ایک جھروکہ نکال دیا گیا تو کیا جسم مبارک کو ظاہر کرنے کے لیے قبر کھول دی گئی؟ اور اس حدیث کے الفاظ بتارہے ہیں کہ ایسا کیا گیا تو بتایا جائے کہ ایسا کب کیا گیا؟ اور کس طرح کیا گیا؟ اور اتنی اہم خبر تاریخ کے صفحات سے اب تک کیسے غائب اور مخفی رہ گئی؟

(۲) اگر جسم اطہر کو کھولتے ہی آسمان سے بارش شروع ہوجایا کرتی تھی تو رسولﷺ کے عہد مبارک میں قحط پڑا تھا اور لوگوں کے مال و اسباب تباہ ہورہے تھے۔ اس وقت بھی رسولﷺ کا جسم اطہر آسمان کے سامنے کھلی فضا میں موجود تھا، لیکن اس کے سبب بارش نہیں ہوئی۔ بلکہ رسولﷺ کو شہر سے نکل کر میدان میں جانا پڑا اور استسقاء کیلے نماز پڑھانی پڑی اور تضرع و عاجزی کے ساتھ دعا مانگنی پڑی پھر کہیں آپ کی نماز و دعا کی برکت سے بارش ہوئی۔

(۳) حضرت عائشہؓ کو جب بارش کا یہ نسخہ معلوم تھا تو قحط پڑنے پر فورا ہی کیوں نہ حضرت عمرؓ سے کہلوادیا اور حضرت عمرؓ نے بھی قحط کی اس سختی و شدت میں عوام کو خوامخواہ مبتلا رکھا؟ قحط پڑتے ہی کیوں نہ قبر سے جسم اطہر کو جھروکے کے ذریعہ کھلی فضا کے سامنے کردیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اس نسخہ کو استعمال نہیں کیا اور رسولﷺ کی طرح خود بھی لوگوں کو لے کر میدان میں پہنچے اور حضرت عباسؓ سے دعا کرائی، تب جا کر بارش ہوئی۔

(۴) صحیح روایات کے مطابق جب دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور رسولﷺ منبر پر کھڑے جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور دیہاتی نے شدید قحط سالی اور اس کے سبب مال و اسباب کی بربادی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو ہفتہ بھر جاری رہی یہاں تک کے دوسرے جمعہ کو پھر وہی دیہاتی ٹھیک اسی وقت جب کہ آپﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مسجد میں آیا اور بارش کا کثرت کا رونا رو کر فریاد کی کہ سیلاب سے راستے بند ہوگئے ہیں، آپﷺ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائیں، آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بارش تھم گئی اور سورج چمکنے لگا۔

یہ سب کچھ اس حالت میں ہوا جب آپﷺ کا جسم اطہر مسجد کی چھت کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے محض آپﷺ کی دعا کی برکت سے بارش نازل بھی فرمائی اور روک بھی دی۔ اگر جسم اطہر کے فضا میں کھلتے ہی بارش ہونے لگتی تو آپﷺ منبر پر کھڑے ہوکر یہ دعا نہ فرماتے بلکہ صحن مسجد میں آکر کھڑے ہوجاتے اور بارش ہوگئی ہوتی۔ لیکن آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔

(۵) پھر جب ایسا ہی تھا تو قبر شریف کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تھا۔ اس گنبد خضراء سے ڈھانکنے اور چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ تاکہ جب کبھی ضرورت پڑتی خود بخود بارش ہوجاتی، اور حجاز کیلئے تو اور بھی اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے موسم خشکی غالب ہے اور وہ علاقہ دوسروں کی بہ نسبت پانی کا زیادہ محتاج ہے۔



ایک الزامی جواب!

اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے۔ کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب، ‏‏‏‏‏‏وهو يقول:‏‏‏‏ لا يعلم الغيب إلا الله جو کوئی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے تو غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري ٧٣٨٠]

سیدہ عائشہؓ کی کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے سخت خلاف تھی، اس لیے اس کے جواب میں (بعض الناس) نے لکھا ہے:
(آپ کا یہ قول اپنے رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتی، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں)
[جاء الحق ۱۔۳۳۴]


ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں تو ان کا نبی کریمﷺ کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے؟ جب کہ وہ اس پر بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ پھر اس پر سہاگہ کہ یہ قول بھی ثابت نہیں ہے۔


عمرو بن مالک النکری کے حالات!
 
Last edited:

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
تبصرہ: اس روایت کی سند ضعیف ہے ، اور اس کے راوی (عمرو بن بن مالک نکری) کی حدیث (ابوالجوزاء) سے غیر محفوظ ہوتی ہے، یہ روایت بھی ایسی ہی ہے، حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں : وقال ابن عدي: "حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة امام ابن عدیؒ نے فرمایا ہے کہ ابن الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریبا دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔
[تهذيب التهذيب ۱۔۳۸۴]


یہ جرح مفسر ہے، یہ اثر بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے، لہذا غیر محفوظ ہے۔

اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت إسناده و إنما نقل ذلك من هو معروف بالكذب و مما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة بل كان بعضه باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بعضه مسقوف وبعضه مكشوف وكانت الشمس تنزل فيه كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها لم يظهر الفيء بعد ولم تزل الحجرة كذلك حتى زاد الوليد بن عبد الملك في المسجد في إمارته لما زاد الحجر في مسجد الرسول صلى الله عليه و سلم وكان نائبه على المدينة ابن عمه عمر بن عبد العزيز وكانت حجر أزواج النبي صلى الله عليه و سلم شرقي المسجد و قبليه فأمره أن يشتريها من ملاكها ورثة أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فاشتراها وأدخلها في المسجد فزاد في قبلي المسجد و شرقيه ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد و إلا فهي قبل ذلك كانت خارجة عن المسجد في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد موته ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين

سیدہ عائشہؓ سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے۔ وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی کرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو بھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہوگیا۔ پھر حجرہ عائشہؓ جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جاسکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔

اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ، نبی اکرمﷺ کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہی فرماتے ہیں:

ولو صح ذلك لكان حجة و دليلا على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت ولا يسألون الله به وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه فأين هذا من هذا

اگر یہ روایت صحیح ہو تو بھی اس اس بات کی پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرامؓ نہ تو اللہ تعالی کی مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالی سے اس کے وسیلے سے مانگے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی انہوں نے۔ اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟
[الرد على البكري 1/ 164]


(۱) اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عائشہؓ کے مشورہ کے مطابق چھت بھی ہٹا دی گئی اور قبر سے آسمان ایک ایک جھروکہ نکال دیا گیا تو کیا جسم مبارک کو ظاہر کرنے کے لیے قبر کھول دی گئی؟ اور اس حدیث کے الفاظ بتارہے ہیں کہ ایسا کیا گیا تو بتایا جائے کہ ایسا کب کیا گیا؟ اور کس طرح کیا گیا؟ اور اتنی اہم خبر تاریخ کے صفحات سے اب تک کیسے غائب اور مخفی رہ گئی؟

(۲) اگر جسم اطہر کو کھولتے ہی آسمان سے بارش شروع ہوجایا کرتی تھی تو رسولﷺ کے عہد مبارک میں قحط پڑا تھا اور لوگوں کے مال و اسباب تباہ ہورہے تھے۔ اس وقت بھی رسولﷺ کا جسم اطہر آسمان کے سامنے کھلی فضا میں موجود تھا، لیکن اس کے سبب بارش نہیں ہوئی۔ بلکہ رسولﷺ کو شہر سے نکل کر میدان میں جانا پڑا اور استسقاء کیلے نماز پڑھانی پڑی اور تضرع و عاجزی کے ساتھ دعا مانگنی پڑی پھر کہیں آپ کی نماز و دعا کی برکت سے بارش ہوئی۔

(۳) حضرت عائشہؓ کو جب بارش کا یہ نسخہ معلوم تھا تو قحط پڑنے پر فورا ہی کیوں نہ حضرت عمرؓ سے کہلوادیا اور حضرت عمرؓ نے بھی قحط کی اس سختی و شدت میں عوام کو خوامخواہ مبتلا رکھا؟ قحط پڑتے ہی کیوں نہ قبر سے جسم اطہر کو جھروکے کے ذریعہ کھلی فضا کے سامنے کردیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اس نسخہ کو استعمال نہیں کیا اور رسولﷺ کی طرح خود بھی لوگوں کو لے کر میدان میں پہنچے اور حضرت عباسؓ سے دعا کرائی، تب جا کر بارش ہوئی۔

(۴) صحیح روایات کے مطابق جب دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور رسولﷺ منبر پر کھڑے جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور دیہاتی نے شدید قحط سالی اور اس کے سبب مال و اسباب کی بربادی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو ہفتہ بھر جاری رہی یہاں تک کے دوسرے جمعہ کو پھر وہی دیہاتی ٹھیک اسی وقت جب کہ آپﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مسجد میں آیا اور بارش کا کثرت کا رونا رو کر فریاد کی کہ سیلاب سے راستے بند ہوگئے ہیں، آپﷺ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائیں، آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بارش تھم گئی اور سورج چمکنے لگا۔

یہ سب کچھ اس حالت میں ہوا جب آپﷺ کا جسم اطہر مسجد کی چھت کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے محض آپﷺ کی دعا کی برکت سے بارش نازل بھی فرمائی اور روک بھی دی۔ اگر جسم اطہر کے فضا میں کھلتے ہی بارش ہونے لگتی تو آپﷺ منبر پر کھڑے ہوکر یہ دعا نہ فرماتے بلکہ صحن مسجد میں آکر کھڑے ہوجاتے اور بارش ہوگئی ہوتی۔ لیکن آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔

(۵) پھر جب ایسا ہی تھا تو قبر شریف کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تھا۔ اس گنبد خضراء سے ڈھانکنے اور چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ تاکہ جب کبھی ضرورت پڑتی خود بخود بارش ہوجاتی، اور حجاز کیلئے تو اور بھی اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے موسم خشکی غالب ہے اور وہ علاقہ دوسروں کی بہ نسبت پانی کا زیادہ محتاج ہے۔



ایک الزامی جواب!

اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے۔ کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب، ‏‏‏‏‏‏وهو يقول:‏‏‏‏ لا يعلم الغيب إلا الله جو کوئی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے تو غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري ٧٣٨٠]

سیدہ عائشہؓ کی کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے سخت خلاف تھی، اس لیے اس کے جواب میں (بعض الناس) نے لکھا ہے:
(آپ کا یہ قول اپنے رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتی، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں)
[جاء الحق ۱۔۳۳۴]


ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں تو ان کا نبی کریمﷺ کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے؟ جب کہ وہ اس پر بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ پھر اس پر سہاگہ کہ یہ قول بھی ثابت نہیں ہے۔


عمرو بن مالک النکری کے حالات!

عدیل سلفی صاحب پہلے ایک ایک حدیث پر ہی کیوں نہ بات ہو جائے کہ یہ ضعیف ہے یا صحیح
کیا کہتے ہیں آپ


Sent from my iPhone using Tapatalk
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
تبصرہ: اس روایت کی سند ضعیف ہے ، اور اس کے راوی (عمرو بن بن مالک نکری) کی حدیث (ابوالجوزاء) سے غیر محفوظ ہوتی ہے، یہ روایت بھی ایسی ہی ہے، حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں : وقال ابن عدي: "حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة امام ابن عدیؒ نے فرمایا ہے کہ ابن الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریبا دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔
[تهذيب التهذيب ۱۔۳۸۴]


یہ جرح مفسر ہے، یہ اثر بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے، لہذا غیر محفوظ ہے۔
عدیل سلفی صاحب آپ کی اس مفسر جرح کا رد پیش خدمت ہے آپ کے ہی گھر کی گواہی سے۔۔۔

*ابن حبان نے تصریح کی ہے کہ انکی روایات (۱۰) میں نکارت انکے بیٹے کی طرف سے ہے لیکن فی نفسی یہ صدووق ہیں* تو یہ مندرجہ روایت ان سے انکا بیٹا بیان نہیں کر رہا ۔۔۔ تو یہ تعدیل مفسر ہے۔۔۔

اور یہ لو ان دونوں جرح کا جواب اپنے مشہور ناصبی سلفی کفایت الله سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتا ہے۔

عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اسوجہ سے اس طریق (زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے) کو ضریف کہا جائے،نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی رحمہ الله کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچے روایوں کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا:
عمرو بن مالک النکری،ابو مالک،یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے، انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے کے بیٹےکی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے۔ (مشاہیر علماء الامصار صفحہ ۱۰۰)
ابن حبان کی وضاہے سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس نے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے۔لہذا ہم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکتے۔یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا ہے۔۔۔
کفہت الله سنابلی کی کتاب ( انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر۔۔ صفحہ ۲۱۲)

اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت إسناده و إنما نقل ذلك من هو معروف بالكذب و مما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة بل كان بعضه باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بعضه مسقوف وبعضه مكشوف وكانت الشمس تنزل فيه كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها لم يظهر الفيء بعد ولم تزل الحجرة كذلك حتى زاد الوليد بن عبد الملك في المسجد في إمارته لما زاد الحجر في مسجد الرسول صلى الله عليه و سلم وكان نائبه على المدينة ابن عمه عمر بن عبد العزيز وكانت حجر أزواج النبي صلى الله عليه و سلم شرقي المسجد و قبليه فأمره أن يشتريها من ملاكها ورثة أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فاشتراها وأدخلها في المسجد فزاد في قبلي المسجد و شرقيه ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد و إلا فهي قبل ذلك كانت خارجة عن المسجد في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد موته ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين

سیدہ عائشہؓ سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے۔ وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی کرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو بھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہوگیا۔ پھر حجرہ عائشہؓ جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جاسکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔

باقی ابن تیمیہ کی بات ہمارے لئے حجت نہیں باقی روایت پر اگر کوئی کلام ہے تو پیش کریں بندہ حاضر ہے۔۔



Sent from my iPhone using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اگر اس راوی (عمرو بن بن مالک نکری) پر تیرا گھر میرا گھر کرنا ہے۔ تو ملاحظہ ہو آپ کا اپنے گھر کا حوالہ:

تیسرا راوی عمر بن مالک النکریؒ ہے۔ علامہ ماردینیؒ جوہر النقی جلد ۲ صفحہ ۳۰ پر اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

وقال ابن عدى عمرو النكرى منكر الحديث عن الثقات

امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں یہ ثقات راویوں سے منکر حدیثیں بیان کرتا تھا، حدیث کو چوری کرتا ہے، امام ابو یعلی موصلیؒ نے اس کی تضعیف کی ہے۔

باقی روایت کے متن پر تبصرہ موجود ہے!
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
اگر اس راوی (عمرو بن بن مالک نکری) پر تیرا گھر میرا گھر کرنا ہے۔ تو ملاحظہ ہو آپ کا اپنے گھر کا حوالہ:

تیسرا راوی عمر بن مالک النکریؒ ہے۔ علامہ ماردینیؒ جوہر النقی جلد ۲ صفحہ ۳۰ پر اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

وقال ابن عدى عمرو النكرى منكر الحديث عن الثقات

امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں یہ ثقات راویوں سے منکر حدیثیں بیان کرتا تھا، حدیث کو چوری کرتا ہے، امام ابو یعلی موصلیؒ نے اس کی تضعیف کی ہے۔

باقی روایت کے متن پر تبصرہ موجود ہے!
منکر الحدیث کیا ہوتا۔۔۔؟
نیز یہ بتا دیں دیں مہ منکر الحدیث سے کسے کہا جاتا۔۔
مزید یہ کہ ابن عدی کے علاوہ کسی اور نے ایسا لکھا تو پیش کیجئے ورنہ میں نے النکری کا جواب اوپر دے دیا ہے۔۔


Sent from my iPhone using Tapatalk
 
Top