جواب۔وسیلہ افضل سے بھی جائز ہے اور مفضول سے بھی۔۔
محترم،
میں جائز ناجائز کا فتوی نہیں پوچھ رہا میں یہ عرض کر رہا ہوں ایسا کیوں کیا گیا کہ بڑے وسیلہ کو چھوڑ کر چھوٹے کی جانب کیوں گئے اس کی وجہ کیا تھی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانےکے بعد ایسی وجہ کیوں پیش آئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہے تو وہاں کیوں نہ گئے؟
دوسری بات اپ نے اویس قرنی والی جو روایت نقل کر کے اس کو اپنی دلیل بنایا ہے یہ اپ کی نہیں میرے اعتراض کو مضبوط کرتی ہے کیونکہ اگر یہ روایت پوری دیکھیں تو اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد ایک غیبی خبر دے رہے ہیں کہ ایک شخص یمن سے آئے گا اس سے اپنے لیے مغفرت کی دعا کروانا تو پھ وہی بات کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک موجود ہے تو کسی چھوٹے دعا کی وجہ؟
20714 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس میں کونسا وسیلہ ہے آپ بتائیں گے اس میں فقط دعا کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ اپ جس ابو الجوزاء کی روایت کو صحیح کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں اس میں وسیلہ بعد از وصال ہے جبکہ اپ اپنی دلیل کے لیےسامنے موجود شخص سے دعا کروانے والی روایت پیش کر رہے ہیں۔
تو پہلے یہ طے کر لیں کہ ہم بات کس پر کر رہے ہیں کسی سے دعا کروانا جائز ہے یا اس روایت میں موجود وسیلہ بعد از وصال پر اگر اپ سامنے موجود سے دعا کروانے کو وسیلہ کہہ رہے ہیں تو اپ کا میرا اختلاف باقی نہ رہے گا مگر اگر اپ ابو الجوزاء کی اس روایت سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ بعد از وصال وسیلہ جائز ہے تو پھر تو اپ کا استدلال قطعی غلط ہے کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے اس کی دلیل میں دے چکا ہوں اور برائے کرم اب آپ بھی سامنے موجود سے دعا کروانے والی قسم کی روایات سے دلیل نہ دیں کیونکہ میں اس کا قائل ہوں اپ فقط اس قسم کی روایات پیش کریں جن میں بعد از وصال وسیلہ مانگا گیا ہو جیسے یہ ابو الجوزاء والی روایت ہے۔
آخر میں آپ نے کہا کہ ابن ابی العز حنفی اپ کے لئے حجت نہیں ہے مگر امام ابو حنیفہ تو اپ کے لئے حجت ہیں اور ان کا قول بھی اس میں موجود ہے کہ" قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم : يكره أن يقول الداعي : أسألك بحق فلان ، أو بحق أنبيائك ورسلك ، وبحق البيت الحرام ، والمشعر الحرام ، ونحو ذلك حتى كره أبو حنيفة و محمد رضي الله عنهما أن يقول الرجل : اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك "
امام ابو حنیفہ کسی کے بھی انبیاء اور کسی کے بھی وسیلہ سے مانگنے کو مکروہ قرار دے رہے ہیں تو کیا اپ اپنے امام کی بھی نہیں مانیں گے۔
ماشاءالله۔۔
چلیں آپ یہ تو مان گئے کہ حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم غیب جانتے تھے۔ اور غیبی خبر دی تھی۔۔۔
جناب پھر آپ کیا فتوی دیں گے حضرت عمر رضی الله عنہما پر کیونکہ حضرت عمر رضی الله عنما خلیفہ سوئم اور خلیفہ چہارم کو چھوڑ کر جو کے حضرت عباس رضی الله عنہما سے افضل ہیں ان کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی الله عنہام سے دعا کروانے گئے۔۔۔
پھر ان پر فتوی دیجئے۔۔۔
مزید آپ نے یہ رٹ لگائی ہوئی کہ حدیث ضعیف ہے جناب حدیث ضعیف سند سے ہے یا متن سے۔۔۔؟
میرے سوال کا جناب نے جواب نہیں دیا۔۔۔ کہ آپ کو سند پر کوئی اختلاف ہے یا صرف متن پر۔۔۔؟
پھر آپ کو قرآن و حدیث سے جواب دیتے ہیں۔۔۔
آپ نے خود ہی کہا کہ آپ کہتے انبیا اور غیر انبیاء دونوں کا وسیلہ جائز ہے تو یہ انبیاء کی گستاخی نہیں۔۔
جناب اب یا تو فتوی پیش کریں حضرت عمر رضی الله عنہما پر کے یہ گستاخی انہوں نے کیوں کی جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہوا۔
اس کا جواب بھی آپ نے نہیں دیا کہ اگر انبیاء کا وسیلہ جائز ہے تو یہ الله کی گستاخی نہیں۔۔
جناب ایسے نہیںچلے گا۔۔
نام حدیث کا دفاع تو رکھ لیا مگر جواب اپ سے بن نہیں پا رہا۔۔
اب برائے مہربانی فرما کر مجھے اس کا جواب دیں کہ سند سے حدیث حعیف پے یا متن سے۔۔۔؟
حضرت اویس قرنی رضی الله عنہما والی حدیث کو اس لئے پیش کیا کیونکہ جناب کا کہنا تھا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں تھا لیکن حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا کہ اس سے دعا کروانا۔۔۔ تو جناب اب بتائیں حضور صلی الله عکیہ والہ وسلم نے خود اپنی گستاخی کرنے کی تعلیم دی تھی۔۔۔
واہ جناب واہ بہت منطق چلائے آپ نے لیکن یہ سب بے سود ہیں۔۔۔۔
مزید ایک اور بات بھی کلئر کر دیجئے کہ جناب آپ یہ مانتے ہیں کہ کوئی شخص جو سامنے ہو وہ انبیاء کا وسیلہ پیش کر کے دعا کریں۔۔ کیا آپ اسے جائز سمجھتے یا نا جائز۔۔۔؟
اور جناب اب جواب دے دیجئے گا کہ سند سے حدیث ضعیف ہے یا متن سے۔۔۔۔
مزید یہ کہ مجھے آپ کی باتوں سے یہی لگ رہا کہ حدیث ضعیف متن سے ہے سند پر اپ کو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔
Sent from my iPhone using Tapatalk