• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30






اسی لولے لنگڑے جواب کی ہی امید تھی تبھی لکھا تھا اوپر!




رہی بات سند کی تو شاید اردو میں لکھی ہوئی عبارت سمجھنے سے بھی قاصر ہو، شکر ہے (سینے پر ہاتھ باندھنے) کے دلائل اور قوی ہوگئے اور احناف اس شعر کا مصداق قرار پائے (گھر کو آگ لگ گئی اس گھر کے چراغ سے)۔ اب دوبارہ اپنے جزباتی کلمات کو نوٹ کرو اور اپنی عقل شریف پر ماتم کرو۔

اور اوپر لکھا تھا یہ شاید اردو میں :)



السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :)

جناب سند پر کلام پیش کیجئے۔
جواب دیجئے لولا لنگرا کہنے سے جواب نہیں ہو جات۔۔
ہمت کیجئے سند کو ضعیف ثابت کیجئے۔۔۔

سند تو ضعیف کرنے سے رہے اور اب سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایتوں کے دلائل مضبوط کرنے لگ گئے۔۔۔

جواب مکمل کر لو۔۔۔
پھر کرتے ہیں آپ کا بڑا آپریشن۔۔۔۔




Sent from my iPhone using Tapatalk
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30






اسی لولے لنگڑے جواب کی ہی امید تھی تبھی لکھا تھا اوپر!




رہی بات سند کی تو شاید اردو میں لکھی ہوئی عبارت سمجھنے سے بھی قاصر ہو، شکر ہے (سینے پر ہاتھ باندھنے) کے دلائل اور قوی ہوگئے اور احناف اس شعر کا مصداق قرار پائے (گھر کو آگ لگ گئی اس گھر کے چراغ سے)۔ اب دوبارہ اپنے جزباتی کلمات کو نوٹ کرو اور اپنی عقل شریف پر ماتم کرو۔

اور اوپر لکھا تھا یہ شاید اردو میں [emoji4]



السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :)

یہ اپ کے سب اعتراضات کا رد ہو گیا عدیل سلفی صاحب۔
مزید کوئی اعتراض ہوا تو بتانا۔۔۔

یہ اعتراض بھی بالکل جہالت اور اصحاب کے عمل کے خلاف بیان کیا گیا ہے ۔ جبکہ صحابہ کو جب بھی قحط کا سامنہ کرنا پڑتا وہ بالکل نماز استسقاء ادا کرتے ۔ لیکن اللہ کی شان ہے بعض اوقات و ہ دعا بھی قبول نہیں کرتا بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اگر نماز استسقاء جسکا حکم نبی پاک سے دیا تھا انکی سنت بھی تھی اور اصحاب بھی اس پر عمل کرتے تھے ۔ لیکن صرف نماز استسقاء سے بارش کا آنا یقینی ہو جاتا تو صحابہ کرام بشمول حضرت عمرؓ حضرت ابن عباس کا توسل کیوں اختیار کرتے ؟ اور حضرت عمر یہ کیوں کہتے پہلے ہم تیرے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اب تیرے نبیؐ کے چچا کا وسیلہ دیتے ہیں ۔ یہاں بھی حضرت عمر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کا وسیلہ فقط نہیں لیا بلکہ نبی کا توسل بھی ساتھ لیا ۔ کیونکہ انہوں نے صاف الفاظ ادا فرمائے کہ تیرے نبی کے چچا یعنی ابن عباس ؓ کو بھی نبی پاک کے چچا ہونے کی وجہ سے انکا توسل اختیار کیا گیا تو اس میں نبی پاک کے توسل کی نفی کرنا جہالت ہے ۔ بلکہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا اختیار کیا جا سکتا ہے ۔
‎اور اسی طرح اصحاب رسول جب بیمار ہوتے یا انکو نظر لگ جاتی تو نبی پاک کے بال مبارک یا انکے چولے کو دھو کر انکا پانی شفاء کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ تو کیا اب وہابی اس روایت کو بھی اس لیے رد کرینگے کہ کیونکہ نبی پاک نے نظر بد کے لیے دم کا طریقہ بتا گئے تھے تو یہ روایت بھی معنوی لحاظ سے ان روایت کے خلاف ہے ۔۔۔ لیکن کیونکہ یہ روایت مسلم شریف کی ہے تو وہابی اس روایت پر کچھ نہیں بو ل سکتے۔ اور اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے بھی فتح الباری میں قحط میں ایک صحابی رسول کا روضہ مصطفیٰ پر آکر انکا توسل اختیار کیا جسکی اسناد کو ابن حجر عسقلانی و ابن کثیر نے بالکل صحیح قرار دیا ہے ۔ لیکن وہابیہ یہاں بھی امام ابن حجر عسقلانی جیسے محدث سے محمود بن اسحاق کی توثیق ثابت کرنے کے لیے صرف امام ابن حجر عسقلانی کا روایت کو حسن کہنے کا سہارہ لیتے ہیں وہی اس روایت کو بالکل صحیح کا حکم لگانے والے امام ابن حجر عسقلانی کے حکم کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔
‎مختصر یہ کے اس روایت کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں ان میں کوئی بھی راوی ضعیف نہیں ۔ کیونکہ غیر مقلدین اسنادی لحاظ سے اسکا رد نہیں کر سکتے تو اپنی عوام کو جہالت بھرے اعتراض بتا کر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ کوئی اعتراضات ہیں ہی نہیں ۔ انکو اور بھی کئی مثالیں دیکر رد کیا جا سکتا تھا لیکن مضمون کو مختصر رکھنے کے لیے مختصر جواب دیا گیا۔ "] ‎یہ اعتراض بھی بالکل جہالت اور اصحاب کے عمل کے خلاف بیان کیا گیا ہے ۔ جبکہ صحابہ کو جب بھی قحط کا سامنہ کرنا پڑتا وہ بالکل نماز استسقاء ادا کرتے ۔ لیکن اللہ کی شان ہے بعض اوقات و ہ دعا بھی قبول نہیں کرتا بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اگر نماز استسقاء جسکا حکم نبی پاک سے دیا تھا انکی سنت بھی تھی اور اصحاب بھی اس پر عمل کرتے تھے ۔ لیکن صرف نماز استسقاء سے بارش کا آنا یقینی ہو جاتا تو صحابہ کرام بشمول حضرت عمرؓ حضرت ابن عباس کا توسل کیوں اختیار کرتے ؟ اور حضرت عمر یہ کیوں کہتے پہلے ہم تیرے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اب تیرے نبیؐ کے چچا کا وسیلہ دیتے ہیں ۔ یہاں بھی حضرت عمر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کا وسیلہ فقط نہیں لیا بلکہ نبی کا توسل بھی ساتھ لیا ۔ کیونکہ انہوں نے صاف الفاظ ادا فرمائے کہ تیرے نبی کے چچا یعنی ابن عباس ؓ کو بھی نبی پاک کے چچا ہونے کی وجہ سے انکا توسل اختیار کیا گیا تو اس میں نبی پاک کے توسل کی نفی کرنا جہالت ہے ۔ بلکہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا اختیار کیا جا سکتا ہے ۔
‎اور اسی طرح اصحاب رسول جب بیمار ہوتے یا انکو نظر لگ جاتی تو نبی پاک کے بال مبارک یا انکے چولے کو دھو کر انکا پانی شفاء کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ تو کیا اب وہابی اس روایت کو بھی اس لیے رد کرینگے کہ کیونکہ نبی پاک نے نظر بد کے لیے دم کا طریقہ بتا گئے تھے تو یہ روایت بھی معنوی لحاظ سے ان روایت کے خلاف ہے ۔۔۔ لیکن کیونکہ یہ روایت مسلم شریف کی ہے تو وہابی اس روایت پر کچھ نہیں بو ل سکتے۔ اور اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے بھی فتح الباری میں قحط میں ایک صحابی رسول کا روضہ مصطفیٰ پر آکر انکا توسل اختیار کیا جسکی اسناد کو ابن حجر عسقلانی و ابن کثیر نے بالکل صحیح قرار دیا ہے ۔ لیکن وہابیہ یہاں بھی امام ابن حجر عسقلانی جیسے محدث سے محمود بن اسحاق کی توثیق ثابت کرنے کے لیے صرف امام ابن حجر عسقلانی کا روایت کو حسن کہنے کا سہارہ لیتے ہیں وہی اس روایت کو بالکل صحیح کا حکم لگانے والے امام ابن حجر عسقلانی کے حکم کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔
‎مختصر یہ کے اس روایت کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں ان میں کوئی بھی راوی ضعیف نہیں ۔ کیونکہ غیر مقلدین اسنادی لحاظ سے اسکا رد نہیں کر سکتے تو اپنی عوام کو جہالت بھرے اعتراض بتا کر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ کوئی اعتراضات ہیں ہی نہیں ۔ انکو اور بھی کئی مثالیں دیکر رد کیا جا سکتا تھا لیکن مضمون کو مختصر رکھنے کے لیے مختصر جواب دیا گیا۔[H1/]
 
Last edited:

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
یہ اپ کے سب اعتراضات کا رد ہو گیا عدیل سلفی صاحب۔
مزید کوئی اعتراض ہوا تو بتانا۔۔۔

‎یہ اعتراض بھی بالکل جہالت اور اصحاب کے عمل کے خلاف بیان کیا گیا ہے ۔ جبکہ صحابہ کو جب بھی قحط کا سامنہ کرنا پڑتا وہ بالکل نماز استسقاء ادا کرتے ۔ لیکن اللہ کی شان ہے بعض اوقات و ہ دعا بھی قبول نہیں کرتا بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اگر نماز استسقاء جسکا حکم نبی پاک سے دیا تھا انکی سنت بھی تھی اور اصحاب بھی اس پر عمل کرتے تھے ۔ لیکن صرف نماز استسقاء سے بارش کا آنا یقینی ہو جاتا تو صحابہ کرام بشمول حضرت عمرؓ حضرت ابن عباس کا توسل کیوں اختیار کرتے ؟ اور حضرت عمر یہ کیوں کہتے پہلے ہم تیرے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اب تیرے نبیؐ کے چچا کا وسیلہ دیتے ہیں ۔ یہاں بھی حضرت عمر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کا وسیلہ فقط نہیں لیا بلکہ نبی کا توسل بھی ساتھ لیا ۔ کیونکہ انہوں نے صاف الفاظ ادا فرمائے کہ تیرے نبی کے چچا یعنی ابن عباس ؓ کو بھی نبی پاک کے چچا ہونے کی وجہ سے انکا توسل اختیار کیا گیا تو اس میں نبی پاک کے توسل کی نفی کرنا جہالت ہے ۔ بلکہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا اختیار کیا جا سکتا ہے ۔
‎اور اسی طرح اصحاب رسول جب بیمار ہوتے یا انکو نظر لگ جاتی تو نبی پاک کے بال مبارک یا انکے چولے کو دھو کر انکا پانی شفاء کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ تو کیا اب وہابی اس روایت کو بھی اس لیے رد کرینگے کہ کیونکہ نبی پاک نے نظر بد کے لیے دم کا طریقہ بتا گئے تھے تو یہ روایت بھی معنوی لحاظ سے ان روایت کے خلاف ہے ۔۔۔ لیکن کیونکہ یہ روایت مسلم شریف کی ہے تو وہابی اس روایت پر کچھ نہیں بو ل سکتے۔ اور اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے بھی فتح الباری میں قحط میں ایک صحابی رسول کا روضہ مصطفیٰ پر آکر انکا توسل اختیار کیا جسکی اسناد کو ابن حجر عسقلانی و ابن کثیر نے بالکل صحیح قرار دیا ہے ۔ لیکن وہابیہ یہاں بھی امام ابن حجر عسقلانی جیسے محدث سے محمود بن اسحاق کی توثیق ثابت کرنے کے لیے صرف امام ابن حجر عسقلانی کا روایت کو حسن کہنے کا سہارہ لیتے ہیں وہی اس روایت کو بالکل صحیح کا حکم لگانے والے امام ابن حجر عسقلانی کے حکم کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔
‎مختصر یہ کے اس روایت کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں ان میں کوئی بھی راوی ضعیف نہیں ۔ کیونکہ غیر مقلدین اسنادی لحاظ سے اسکا رد نہیں کر سکتے تو اپنی عوام کو جہالت بھرے اعتراض بتا کر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ کوئی اعتراضات ہیں ہی نہیں ۔ انکو اور بھی کئی مثالیں دیکر رد کیا جا سکتا تھا لیکن مضمون کو مختصر رکھنے کے لیے مختصر جواب دیا گیا۔


Sent from my iPhone using Tapatalk



Sent from my iPhone using Tapatalk
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
حضرت عمر یہ کیوں کہتے پہلے ہم تیرے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اب تیرے نبیؐ کے چچا کا وسیلہ دیتے ہیں ۔ یہاں بھی حضرت عمر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کا وسیلہ فقط نہیں لیا بلکہ نبی کا توسل بھی ساتھ لیا ۔ کیونکہ انہوں نے صاف الفاظ ادا فرمائے کہ تیرے نبی کے چچا یعنی ابن عباس ؓ کو بھی نبی پاک کے چچا ہونے کی وجہ سے انکا توسل اختیار کیا گیا تو اس میں نبی پاک کے توسل کی نفی کرنا جہالت ہے ۔ بلکہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا اختیار کیا جا سکتا ہے ۔
محترم،
میرے اس حوالے سے چند اشکالات ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہونے کے باوجود صحابہ کرامرضی اللہ عنھم نے عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ کیوں لیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں۔
دوئم سب سے بڑا وسیلہ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہونے کے باوجود چھوٹے وسیلہ کی جانب کیوں گئے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہی ایسا کیوں کیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونیاوی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی اور کو وسیلہ بنایا ہو۔
انکے جواب مطلوب ہیں اگر طبعیت پر گراں نہ گزرے

اپ نے یہ کہا کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا جائز ہے تو جب انبیاء کا توسل موجود ہو تو کیا غیر انبیاء کا توسل اننیاء کی شان میں گستاخی نہیں ہوگی؟

اخر میں یہ عبارت لگا رہا ہوں یہ شرح عقیدہ الطحاویہ کی عبارت ہے جس میں امام ابن ابی العز حنفی نے اپ کے پیش کیے ہوئے وسیلہ کا رد کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں توسل سے مراد دعا کا توسل ہے نہ کہ ذات اور مرتبہ کا تو کیا اپ اپنے امام کی بات مانیں گے اگر عربی سمجھ نہ آئے تو میں حاضر ہوں۔


فإن قيل : فأي فرق بين قول الداعي : بحق السائلين عليك وبين قوله : بحق نبيك أو نحو ذلك ؟ فالجواب : أن معنى قوله : بحق السائلين عليك أنك وعدت السائلين بالإجابة ، وأنا من جملة السائلين ، فأجب دعائي ، بخلاف قوله : بحق فلان - فإن فلاناً وإن كان له حق على الله بوعده الصادق - فلا مناسبة بين ذلك وبين إجابة دعاء هذا السائل . فكأنه يقول : لكون فلان من عبادك الصالحين أجب دعاي ! وأي مناسبة في هذا وأي ملازمة ؟ وإنما هذا من الاعتداء في الدعاء ! وقد قال تعالى : ادعوا ربكم تضرعاً وخفية ، إنه لا يحب المعتدين . وهذا ونحوه من الأدعية المبتدعة ، ولم ينقل عن النبي صلى الله عليه وسلم ، ولا عن الصحابة ، ولا عن التابعين ، ولا عن أحد من الأئمة رضي الله عنهم ، وإنما يوجد مثل هذا في الحروز والهياكل التي يكتب بها الجهال والطرقية . والدعاء من أفضل العبادات ، والعبادات مبناها على السنة والإتباع ، لا على الهوى والإبتداع .
وإن كان مراده الإقسام على الله بحق فلان ، فذلك محذور أيضاً ، لأن الإقسام بالمخلوق لا يجوز ، فكيف على الخالق ؟! وقد قال صلى الله عليه وسلم : من حلف بغير الله فقد أشرك . ولهذا قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم : يكره أن يقول الداعي : أسألك بحق فلان ، أو بحق أنبيائك ورسلك ، وبحق البيت الحرام ، والمشعر الحرام ، ونحو ذلك حتى كره أبو حنيفة و محمد رضي الله عنهما أن يقول الرجل : اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ، ولم يكرهه أبو يوسف رحمه الله لما بلغه الأثر فيه . وتارة يقول : بجاه فلان عندك ، يقول : نتوسل إليك بأنبيائك ورسلك وأوليائك . ومراده أن فلاناً عندك ذو وجاهة وشرف ومنزلة فأجب دعاءنا . وهذا أيضاً محذور ، فإنه لو كان هذا هو التوسل الذي كان الصحابة يفعلونه في حياة النبي صلى الله عليه وسلم لفعلوه بعد موته ، وإنما كانوا يتوسلون في حياته بدعائه ، يطلبون منه أن يدعو لهم ، وهم يؤمنون على دعائه ، كما في الاستسقاء وغيره . فلما مات صلى الله عليه وسلم قال عمر رضي الله عنه - لما خرجوا يستسقون - : اللهم إنا كنا إذا أجدبنا نتوسل اليك بنبينا فتسقينا ، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا . معناه بدعائه هو ربه وشفاعته وسؤاله ، ليس المراد أنا نقسم عليك [به] ، أو نسألك بجاهه عندك ، إذ لو كان ذلك مراداً لكان جاه النبي صلى الله عليه وسلم أعظم وأعظم من جاه العباس .
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
ابوالجوزاء کا سماع اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے ثابت نہیں ہے اس حوالے سے میں نے پہلے بھی اسکین لگائی تھی دوبارہ پڑھ لیں

abo joza.jpg



اس کے مطابق ایک مجہول شخص کے واسطے سے ابو الجوزاء اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کرتا تھا اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے دوئم اس سے ابو الجوزاء اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کے درمیان انقطاع ثابت ہوتا ہے اور اس بات کو امام بخاری نے اپنی تاریخ میں "اسنادہ فیہ نظر" سے تعبیر کیا ہے۔
رہی بات امام مسلم کا اس روایت ابو الجوزاء عن اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی سند سے حدیث لینا تو اصول سمجھنا ضروری ہے امام مسلم امکان القاء کے قائل تھے یعنی معصرین میں ملاقات کا امکان ہو سکتا ہے تو اس کو سماع پر محمول کرتے تھے چاہے ملاقات ثابت نہ بھی ہو مگر جمہور اس کے مخالف تھے ان کے نذدیک ایک بار ملاقات ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مسند احمد کی تخریج میں شیخ شیعب نے شرط مسلم پر قرار دیا تھا تو جمہور کے نزدیک ملاقات ایک بار ضروری ہے اب رہی بات پھر مسلم کی یہ حدیث صحیح کیسے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے الفاظ دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں اس بنا پر مسلم کی یہ روایت صحیح ہے اگر آپ چاہیں تو ان الفاظ کے مفہوم کی احادیث پیش کر دی جائیں گی۔ آخر میں یہ بھی واضح کودوں جو اپ نے ابن حجر کے حوالے سے یہ لکھا ہے۔​


اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے بھی فتح الباری میں قحط میں ایک صحابی رسول کا روضہ مصطفیٰ پر آکر انکا توسل اختیار کیا جسکی اسناد کو ابن حجر عسقلانی و ابن کثیر نے بالکل صحیح قرار دیا ہے ۔ لیکن وہابیہ یہاں بھی امام ابن حجر عسقلانی جیسے محدث سے محمود بن اسحاق کی توثیق ثابت کرنے کے لیے صرف امام ابن حجر عسقلانی کا روایت کو حسن کہنے کا سہارہ لیتے ہیں وہی اس روایت کو بالکل صحیح کا حکم لگانے والے امام ابن حجر عسقلانی کے حکم کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔

محدثین کا کسی روایت کو "اسناد صحیح" کہنے سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ یہ حدیث ہی صحیح ہے اس میں علت قادحہ یا شذوذ باقی رہتا ہے چنانچہ امام ابن صلاح فرماتے ہیں


abn salah.png

مقدمہ ابن الصلاح ص ۳۸


چنانچہ جس مالک دار والی روایت کو اپ صحیح سمجھ رہے ہیں اس میں علت قادحہ الاعمش کی تدلیس ہے اور مالک دار کا مجہول ہونا ہے اس لئے یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ ابن حجر نے اس روایت کو صحیح کہا ہے
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
محترم،
میرے اس حوالے سے چند اشکالات ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہونے کے باوجود صحابہ کرامرضی اللہ عنھم نے عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ کیوں لیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں۔
جناب آپ کے اشکلات کے جوابات دیئے جائیں گے پہلے آپ یہ کنفرم کر دیں کہ کھڑکی والی حدیث کی سند پر آپ کو کوئی اعتراض باقی تو نہیں۔۔۔؟[H1/]

دوئم سب سے بڑا وسیلہ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہونے کے باوجود چھوٹے وسیلہ کی جانب کیوں گئے ۔
جواب۔وسیلہ افضل سے بھی جائز ہے اور مفضول سے بھی۔۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہی ایسا کیوں کیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونیاوی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی اور کو وسیلہ بنایا ہو۔
انکے جواب مطلوب ہیں اگر طبعیت پر گراں نہ گزرے

اپ نے یہ کہا کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا جائز ہے تو جب انبیاء کا توسل موجود ہو تو کیا غیر انبیاء کا توسل اننیاء کی شان میں گستاخی نہیں ہوگی؟

اس پر میرے طرف الزامی جواب اگر آپ بھی انبیاء کا وسیلہ مانتے ہیں تو تو پھر کیا الله کی گستاخی نہیں۔۔۔؟
صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے ابن عباس والی روایت۔۔۔
صحیح مسلم کی روایت ہے جس میں نبی پاک نے اپنے ہوتے ہوئے صحابہ کرام کو اویس قرنی کا وسیلہ لینے کا کہا۔۔

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، - وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ - عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏ إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ ‏"‏ ‏.‏


صحیح مسلم
یہ آپ کے اشکلات کے جواب مزید کوئی کمی بیشی رہ گئی ہو تو بتایئے گا جناب کی تسلی کروا دیں گے ان شاءالله۔۔۔

اخر میں یہ عبارت لگا رہا ہوں یہ شرح عقیدہ الطحاویہ کی عبارت ہے جس میں امام ابن ابی العز حنفی نے اپ کے پیش کیے ہوئے وسیلہ کا رد کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں توسل سے مراد دعا کا توسل ہے نہ کہ ذات اور مرتبہ کا تو کیا اپ اپنے امام کی بات مانیں گے اگر عربی سمجھ نہ آئے تو میں حاضر ہوں۔

ابن ابی العز مجسمی تھا ان کی بات میرے لئے کوئی حجت نہیں۔۔۔






 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
محترم،
میرے اس حوالے سے چند اشکالات ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہونے کے باوجود صحابہ کرامرضی اللہ عنھم نے عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ کیوں لیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں۔
دوئم سب سے بڑا وسیلہ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہونے کے باوجود چھوٹے وسیلہ کی جانب کیوں گئے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہی ایسا کیوں کیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونیاوی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی اور کو وسیلہ بنایا ہو۔
انکے جواب مطلوب ہیں اگر طبعیت پر گراں نہ گزرے

اپ نے یہ کہا کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا جائز ہے تو جب انبیاء کا توسل موجود ہو تو کیا غیر انبیاء کا توسل اننیاء کی شان میں گستاخی نہیں ہوگی؟

اخر میں یہ عبارت لگا رہا ہوں یہ شرح عقیدہ الطحاویہ کی عبارت ہے جس میں امام ابن ابی العز حنفی نے اپ کے پیش کیے ہوئے وسیلہ کا رد کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں توسل سے مراد دعا کا توسل ہے نہ کہ ذات اور مرتبہ کا تو کیا اپ اپنے امام کی بات مانیں گے اگر عربی سمجھ نہ آئے تو میں حاضر ہوں۔


فإن قيل : فأي فرق بين قول الداعي : بحق السائلين عليك وبين قوله : بحق نبيك أو نحو ذلك ؟ فالجواب : أن معنى قوله : بحق السائلين عليك أنك وعدت السائلين بالإجابة ، وأنا من جملة السائلين ، فأجب دعائي ، بخلاف قوله : بحق فلان - فإن فلاناً وإن كان له حق على الله بوعده الصادق - فلا مناسبة بين ذلك وبين إجابة دعاء هذا السائل . فكأنه يقول : لكون فلان من عبادك الصالحين أجب دعاي ! وأي مناسبة في هذا وأي ملازمة ؟ وإنما هذا من الاعتداء في الدعاء ! وقد قال تعالى : ادعوا ربكم تضرعاً وخفية ، إنه لا يحب المعتدين . وهذا ونحوه من الأدعية المبتدعة ، ولم ينقل عن النبي صلى الله عليه وسلم ، ولا عن الصحابة ، ولا عن التابعين ، ولا عن أحد من الأئمة رضي الله عنهم ، وإنما يوجد مثل هذا في الحروز والهياكل التي يكتب بها الجهال والطرقية . والدعاء من أفضل العبادات ، والعبادات مبناها على السنة والإتباع ، لا على الهوى والإبتداع .
وإن كان مراده الإقسام على الله بحق فلان ، فذلك محذور أيضاً ، لأن الإقسام بالمخلوق لا يجوز ، فكيف على الخالق ؟! وقد قال صلى الله عليه وسلم : من حلف بغير الله فقد أشرك . ولهذا قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم : يكره أن يقول الداعي : أسألك بحق فلان ، أو بحق أنبيائك ورسلك ، وبحق البيت الحرام ، والمشعر الحرام ، ونحو ذلك حتى كره أبو حنيفة و محمد رضي الله عنهما أن يقول الرجل : اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ، ولم يكرهه أبو يوسف رحمه الله لما بلغه الأثر فيه . وتارة يقول : بجاه فلان عندك ، يقول : نتوسل إليك بأنبيائك ورسلك وأوليائك . ومراده أن فلاناً عندك ذو وجاهة وشرف ومنزلة فأجب دعاءنا . وهذا أيضاً محذور ، فإنه لو كان هذا هو التوسل الذي كان الصحابة يفعلونه في حياة النبي صلى الله عليه وسلم لفعلوه بعد موته ، وإنما كانوا يتوسلون في حياته بدعائه ، يطلبون منه أن يدعو لهم ، وهم يؤمنون على دعائه ، كما في الاستسقاء وغيره . فلما مات صلى الله عليه وسلم قال عمر رضي الله عنه - لما خرجوا يستسقون - : اللهم إنا كنا إذا أجدبنا نتوسل اليك بنبينا فتسقينا ، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا . معناه بدعائه هو ربه وشفاعته وسؤاله ، ليس المراد أنا نقسم عليك [به] ، أو نسألك بجاهه عندك ، إذ لو كان ذلك مراداً لكان جاه النبي صلى الله عليه وسلم أعظم وأعظم من جاه العباس .
محترم سند پر اپ کا اتفاق ہے کہ اس روایت کی سند بلکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔؟[H1/]


Sent from my iPhone using Tapatalk
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
جواب۔وسیلہ افضل سے بھی جائز ہے اور مفضول سے بھی۔۔
محترم،
میں جائز ناجائز کا فتوی نہیں پوچھ رہا میں یہ عرض کر رہا ہوں ایسا کیوں کیا گیا کہ بڑے وسیلہ کو چھوڑ کر چھوٹے کی جانب کیوں گئے اس کی وجہ کیا تھی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانےکے بعد ایسی وجہ کیوں پیش آئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہے تو وہاں کیوں نہ گئے؟

دوسری بات اپ نے اویس قرنی والی جو روایت نقل کر کے اس کو اپنی دلیل بنایا ہے یہ اپ کی نہیں میرے اعتراض کو مضبوط کرتی ہے کیونکہ اگر یہ روایت پوری دیکھیں تو اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد ایک غیبی خبر دے رہے ہیں کہ ایک شخص یمن سے آئے گا اس سے اپنے لیے مغفرت کی دعا کروانا تو پھ وہی بات کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک موجود ہے تو کسی چھوٹے دعا کی وجہ؟

owais qarni.png


اس میں کونسا وسیلہ ہے آپ بتائیں گے اس میں فقط دعا کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ اپ جس ابو الجوزاء کی روایت کو صحیح کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں اس میں وسیلہ بعد از وصال ہے جبکہ اپ اپنی دلیل کے لیےسامنے موجود شخص سے دعا کروانے والی روایت پیش کر رہے ہیں۔

تو پہلے یہ طے کر لیں کہ ہم بات کس پر کر رہے ہیں کسی سے دعا کروانا جائز ہے یا اس روایت میں موجود وسیلہ بعد از وصال پر اگر اپ سامنے موجود سے دعا کروانے کو وسیلہ کہہ رہے ہیں تو اپ کا میرا اختلاف باقی نہ رہے گا مگر اگر اپ ابو الجوزاء کی اس روایت سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ بعد از وصال وسیلہ جائز ہے تو پھر تو اپ کا استدلال قطعی غلط ہے کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے اس کی دلیل میں دے چکا ہوں اور برائے کرم اب آپ بھی سامنے موجود سے دعا کروانے والی قسم کی روایات سے دلیل نہ دیں کیونکہ میں اس کا قائل ہوں اپ فقط اس قسم کی روایات پیش کریں جن میں بعد از وصال وسیلہ مانگا گیا ہو جیسے یہ ابو الجوزاء والی روایت ہے۔

آخر میں آپ نے کہا کہ ابن ابی العز حنفی اپ کے لئے حجت نہیں ہے مگر امام ابو حنیفہ تو اپ کے لئے حجت ہیں اور ان کا قول بھی اس میں موجود ہے کہ" قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم : يكره أن يقول الداعي : أسألك بحق فلان ، أو بحق أنبيائك ورسلك ، وبحق البيت الحرام ، والمشعر الحرام ، ونحو ذلك حتى كره أبو حنيفة و محمد رضي الله عنهما أن يقول الرجل : اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك "
امام ابو حنیفہ کسی کے بھی انبیاء اور کسی کے بھی وسیلہ سے مانگنے کو مکروہ قرار دے رہے ہیں تو کیا اپ اپنے امام کی بھی نہیں مانیں گے۔
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
جواب۔وسیلہ افضل سے بھی جائز ہے اور مفضول سے بھی۔۔
محترم،
میں جائز ناجائز کا فتوی نہیں پوچھ رہا میں یہ عرض کر رہا ہوں ایسا کیوں کیا گیا کہ بڑے وسیلہ کو چھوڑ کر چھوٹے کی جانب کیوں گئے اس کی وجہ کیا تھی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانےکے بعد ایسی وجہ کیوں پیش آئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہے تو وہاں کیوں نہ گئے؟

دوسری بات اپ نے اویس قرنی والی جو روایت نقل کر کے اس کو اپنی دلیل بنایا ہے یہ اپ کی نہیں میرے اعتراض کو مضبوط کرتی ہے کیونکہ اگر یہ روایت پوری دیکھیں تو اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد ایک غیبی خبر دے رہے ہیں کہ ایک شخص یمن سے آئے گا اس سے اپنے لیے مغفرت کی دعا کروانا تو پھ وہی بات کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک موجود ہے تو کسی چھوٹے دعا کی وجہ؟

20714 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

اس میں کونسا وسیلہ ہے آپ بتائیں گے اس میں فقط دعا کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ اپ جس ابو الجوزاء کی روایت کو صحیح کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں اس میں وسیلہ بعد از وصال ہے جبکہ اپ اپنی دلیل کے لیےسامنے موجود شخص سے دعا کروانے والی روایت پیش کر رہے ہیں۔

تو پہلے یہ طے کر لیں کہ ہم بات کس پر کر رہے ہیں کسی سے دعا کروانا جائز ہے یا اس روایت میں موجود وسیلہ بعد از وصال پر اگر اپ سامنے موجود سے دعا کروانے کو وسیلہ کہہ رہے ہیں تو اپ کا میرا اختلاف باقی نہ رہے گا مگر اگر اپ ابو الجوزاء کی اس روایت سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ بعد از وصال وسیلہ جائز ہے تو پھر تو اپ کا استدلال قطعی غلط ہے کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے اس کی دلیل میں دے چکا ہوں اور برائے کرم اب آپ بھی سامنے موجود سے دعا کروانے والی قسم کی روایات سے دلیل نہ دیں کیونکہ میں اس کا قائل ہوں اپ فقط اس قسم کی روایات پیش کریں جن میں بعد از وصال وسیلہ مانگا گیا ہو جیسے یہ ابو الجوزاء والی روایت ہے۔

آخر میں آپ نے کہا کہ ابن ابی العز حنفی اپ کے لئے حجت نہیں ہے مگر امام ابو حنیفہ تو اپ کے لئے حجت ہیں اور ان کا قول بھی اس میں موجود ہے کہ" قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم : يكره أن يقول الداعي : أسألك بحق فلان ، أو بحق أنبيائك ورسلك ، وبحق البيت الحرام ، والمشعر الحرام ، ونحو ذلك حتى كره أبو حنيفة و محمد رضي الله عنهما أن يقول الرجل : اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك "
امام ابو حنیفہ کسی کے بھی انبیاء اور کسی کے بھی وسیلہ سے مانگنے کو مکروہ قرار دے رہے ہیں تو کیا اپ اپنے امام کی بھی نہیں مانیں گے۔

ماشاءالله۔۔

چلیں آپ یہ تو مان گئے کہ حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم غیب جانتے تھے۔ اور غیبی خبر دی تھی۔۔۔

جناب پھر آپ کیا فتوی دیں گے حضرت عمر رضی الله عنہما پر کیونکہ حضرت عمر رضی الله عنما خلیفہ سوئم اور خلیفہ چہارم کو چھوڑ کر جو کے حضرت عباس رضی الله عنہما سے افضل ہیں ان کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی الله عنہام سے دعا کروانے گئے۔۔۔
پھر ان پر فتوی دیجئے۔۔۔
مزید آپ نے یہ رٹ لگائی ہوئی کہ حدیث ضعیف ہے جناب حدیث ضعیف سند سے ہے یا متن سے۔۔۔؟
میرے سوال کا جناب نے جواب نہیں دیا۔۔۔ کہ آپ کو سند پر کوئی اختلاف ہے یا صرف متن پر۔۔۔؟
پھر آپ کو قرآن و حدیث سے جواب دیتے ہیں۔۔۔
آپ نے خود ہی کہا کہ آپ کہتے انبیا اور غیر انبیاء دونوں کا وسیلہ جائز ہے تو یہ انبیاء کی گستاخی نہیں۔۔
جناب اب یا تو فتوی پیش کریں حضرت عمر رضی الله عنہما پر کے یہ گستاخی انہوں نے کیوں کی جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہوا۔
اس کا جواب بھی آپ نے نہیں دیا کہ اگر انبیاء کا وسیلہ جائز ہے تو یہ الله کی گستاخی نہیں۔۔
جناب ایسے نہیںچلے گا۔۔
نام حدیث کا دفاع تو رکھ لیا مگر جواب اپ سے بن نہیں پا رہا۔۔
اب برائے مہربانی فرما کر مجھے اس کا جواب دیں کہ سند سے حدیث حعیف پے یا متن سے۔۔۔؟
حضرت اویس قرنی رضی الله عنہما والی حدیث کو اس لئے پیش کیا کیونکہ جناب کا کہنا تھا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں تھا لیکن حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا کہ اس سے دعا کروانا۔۔۔ تو جناب اب بتائیں حضور صلی الله عکیہ والہ وسلم نے خود اپنی گستاخی کرنے کی تعلیم دی تھی۔۔۔
واہ جناب واہ بہت منطق چلائے آپ نے لیکن یہ سب بے سود ہیں۔۔۔۔

مزید ایک اور بات بھی کلئر کر دیجئے کہ جناب آپ یہ مانتے ہیں کہ کوئی شخص جو سامنے ہو وہ انبیاء کا وسیلہ پیش کر کے دعا کریں۔۔ کیا آپ اسے جائز سمجھتے یا نا جائز۔۔۔؟

اور جناب اب جواب دے دیجئے گا کہ سند سے حدیث ضعیف ہے یا متن سے۔۔۔۔

مزید یہ کہ مجھے آپ کی باتوں سے یہی لگ رہا کہ حدیث ضعیف متن سے ہے سند پر اپ کو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔

Sent from my iPhone using Tapatalk
 
Last edited:

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
ماشاءالله۔۔

چلیں آپ یہ تو مان گئے کہ حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم غیب جانتے تھے۔ اور غیبی خبر دی تھی۔۔۔
محترم،
موضوع کے حوالے سے بات کی جائے تو بہتر ہے علم الغیب کو موقوف رکھیں


آپ نے خود ہی کہا کہ آپ کہتے انبیا اور غیر انبیاء دونوں کا وسیلہ جائز ہے تو یہ انبیاء کی گستاخی نہیں۔۔
جناب اب یا تو فتوی پیش کریں حضرت عمر رضی الله عنہما پر کے یہ گستاخی انہوں نے کیوں کی جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہوا۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
میں نے اپ سے سوال کیا تھا کہ ایسا کیوں کیا گیا اور آپ اس کا جواب دینے کے بجائے مجھ سے ہی فتوی مانگ رہے ہیں وللعجب

اپ شاید مناظر قسم کے لگے رہے ہیں اور مناظر قسم کے لوگ صرف وقت کی بربادی کرتے ہیں نہ اپنی اصلاح اور نہ دوسروں کی۔
تو میں آپ سے آخر بار وہی سوال کر رہا ہوں کہ صحابہ کرام نے ایسا کیوں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں تو کسی اور سے دعا نہیں کروائی مگر ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کیوں کسی اور سے دعا کروائی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں موجود ہیں۔


اس کا جواب بھی آپ نے نہیں دیا کہ اگر انبیاء کا وسیلہ جائز ہے تو یہ الله کی گستاخی نہیں۔۔
میں نے اپ کی اس بات کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ یہ کوئی ایسا سوال تھا جو میری نظر میں قابل التفاء ہو مگر چونکہ اپ نے اصرار کیا ہے تو جواب حاضر ہے
یہ بات کہ انبیاء کے توسل سے اللہ کی شان میں گستاخی ہوتی ہے اس کا جواب بھی اپ کو دینا ہے کیونکہ کسی نیک آدمی سے اس کی زندگی میں دعا کروانے کا قائل ہوں اور اس کی دلیل اپ نے خود دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم دی اویس قرنی والی روایت اس کی دلیل ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ ان سے ملے تو دعا کروائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی حیات مبارکہ ان سے دعا کرواتے تھے میں اس بعد از وصال وسیلہ کی قبر پر جاکر دعا کرنے کا قائل نہیں ہوں کیونکہ اس قسم کی کوئی بھی حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے اور یہ ابو الجوزاء والی روایت بھی ضعیف ہے اور اس کی اسنادی حیثیت میں نے اوپر مراسلہ نمبر ۶۵ میں واضح کر دی ہے اور اپ کو ذاتی گفتگو میں بھی جواب دے دیا ہے تو برائے مہربانی میرے اس جواب کے یہ بنیادی نقاط بنتے ہیں ان کا جواب عنایت کر دیں

"۱" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں تو کسی اور سے دعا نہیں کروائی مگر ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کیوں کسی اور سے دعا کروائی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں موجود ہیں۔

"۲" ابو الجوزاء کا سماع اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے ثابت نہیں ہے اس حوالے سے علم الحدیث سے جواب عنایت کریں۔


"۳" آپ جس توسل یعنی "بعد از وصال" کے قائل ہیں اس حوالے سے اگر کوئی صحیح دلیل اپ کے پاس ہے تو پیش کر سکتے ہیں اگر صحیح دلیل مجھے مل گئی تو میں اپ کے اس موقف کا قائل ہو جاوں گا۔
 
Top