• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھِدایۃ المُستفید اُردُو ترجمہ فتح المجید شرح کتابُ التوحید

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دنیوی اغراض کے پیش نظر کوئی بھی عمل شرک کی تعریف میں آتا ہے۔
باب:مِنَ الشِّرْکِ اِرَادَۃُ الْاِنْسَانِ بِعَمَلِہِ الدنیا

اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان اگر دنیوی اغراض کے پیش نظر کوئی عمل کرے تو یہ بھی شرک کی تعریف میں آتا ہے۔
قولہ تعالٰی مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا الدُّنْیَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (سورئہ ھود:۱۵تا۱۶)
جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کیلئے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ اُنہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس میں اور اس سے پہلے کے ترجمہ باب میں کیا فرق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ یہ دونوں حقیقت میں مشترک ہیں کہ جب انسان اپنے کسی عمل سے لوگوں کی نظر میں اپنے لئے تزین و تصنع اور ثنا و توصیف کی توقع رکھے تو، جیسا کہ پہلے باب میں منافقین کے سلسلے میں گزر چکا ہے، یہ ریاکاری ہے۔ لوگوں کے سامنے اطہارِ تصنع کر کے طلب ِ دنیا کرنا اور ان سے مدحت و تکریم کے خواہاں ہونا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ اس نے اگرچہ نیک عمل کیا مگر ریاکاری اس میں تفریق پیدا کر دے گی۔ کیونکہ اس سے اُس نے ساز و سامانِ دنیا کی تمنا کی۔ مثلاً حصولِ مال کے لئے جہاد کیا، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’بندئہ دینار ہلا ک ہو گیا‘‘۔ یا غنیمت اور دیگر چیزوں کو حاصل کرنے کی غرض سے میدانِ جہاد میں نکلا۔
اس ترجمہ اور اس سے بعد کے ترجمہ سے مصنف رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے لئے کوئی عمل کرنا شرک ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کمالِ توحید کے منافی ہے اور اس سے ذخیرئہ اعمال ضائع ہو جاتا ہے۔ اعمال کے معاملے میں مفادِ دنیا کے حصول کی طلب کا جذبہ دِل میں پیدا کرنا بہت بڑی ریاکاری ہے اور ایسے شخص کے کردار پر دُنیا مسلط ہو جاتی ہے جس سے محفوظ رہنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی اور مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اس قسم کے اُمور سے ہمیشہ دامن کشاں رہتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص دنیاوی زندگی میں اپنے اعمال کا بدلہ اور اس کی زیب و زینت کی خواہش کرتا ہے، ہم اُس کے اعمال کا بدلہ صحت و تندرستی، اہل و عیال اور مال و متاع میں مسرت و بہجت کی صورت میں عطا کرتے ہیں اور وہ اس میں گھاٹے میں نہیں رہتے‘‘۔
مندرجہ بالا آیت عام تھی اور اس کو درج ذیل آیت نے خاص اور مقید کر دیا کہ:
(ترجمہ) ’’جو کوئی دنیا کا خواہشمند ہو اُسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں‘‘۔
جناب قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس شخص کی نیت، خواہش اور مقصود صرف دنیا ہی ہو، اللہ تعالیٰ اُس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں چکا دیتا ہے۔ ایسا شخص دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے۔ اس کے اعمال نامہ میں کوئی قابل ذکر عمل نہیں ہوتا جس کا اسے معاوضہ ملنا باقی ہو، البتہ مومن کو دنیا میں بھی اعمال حسنہ کا بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اجر جزیل کا حقدار ہوگا‘‘۔
ابن جریر رحمہ اللہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث بیان کرتے ہیں:
’’شفی بن ماتع اصبحی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے دیکھا کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر ایک شخص کے ارد گرد کثیر تعداد میں لوگ جمع ہیں۔ پوچھا کہ لوگوں نے کس شخص کو گھیر رکھا ہے؟ جواب دیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ درسِ حدیث دے رہے ہیں۔ شفی بن ماتع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں بالکل قریب جا کر اُن کے سامنے بیٹھ گیا۔ جب درس ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے وہ حدیث سنائیں جو آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی اور یاد کی ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے: میں آپ کو وہی حدیث سناؤں گا جو میں نے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھی۔ اس وقت میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی اور شخص نہ تھا۔ یہ کہہ کر وہ بیہوش ہو گئے۔ کافی دیر بعد سنبھلے اور فرمانے لگے کہ آج میں تم کو وہی حدیث سناؤں گا جسے میں نے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا تھا اور اُس وقت میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ یہ کہہ کر پھر بیہوش ہو گئے۔ کافی دیر بعد ہوش میں آئے تو فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عرشِ عظیم سے اُتر کر اپنے بندوں کے پاس آئے گا تاکہ ان کا فیصلہ کر دیا جائے اور ہر اُمت گھٹنوں کے بل گری ہو گی۔ سب سے پہلے ان تین اشخاص کو بلایا جائے گا۔ قاری قرآن کو، شہید فی سبیل اللہ کو اور مالدار کو۔ سب سے پہلے قاری قرآن سے سوال ہو گا کہ میں نے جو قرآن اپنے رسول پر اتارا تھا کیا تجھے اس کا علم نہیں سکھایا؟ قاری کہے گا کہ ہاں ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا، علم کے مطابق عمل کیا؟ قاری جواب دے گا اے رب کریم میں نے تمام دن اور رات تلاوت کرتا رہتا تھا اللہ تعالیٰ کہے گا، تو جھوٹ بولتا ہے۔ فرشتے بھی یہی کہیں گے، تو جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تو اس لئے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں وہ دُنیا میں کہا جا چکا۔ مالدار شخص کو پیش کیا جائے گا اور سوال ہو گا، کیا تم کو اتنی وسعت مال نہ دی گئی کہ تو کسی کا محتاج نہ رہا؟ وہ جواب دے گا اے اللہ تو بالکل ٹھیک اور صحیح کہتا ہے! اللہ تعالیٰ پوچھے گا،جو کچھ تم کو ملا اُس کے مطابق عمل کیسا کیا؟ بندہ جواب دے گا کہ اے رب کریم! میں صلہ رحمی کرتا اور صدقہ دیتا رہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تم جھوٹ کہتے ہو۔ فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا تمہارا ارادہ یہ تھا کہ تمہیں سخی کہا جائے چنانچہ یہ دنیا میں کہا جا چکا۔ اب اس شخص کوپیش کیا جائے گا جو اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا۔ اللہ کریم پوچھے گا، تم کیوں قتل ہوئے؟ بندہ جواب دے گا، اے رب کریم! تو نے جہاد کا حکم دیا اور میں تیرے راستہ میں دین کے دُشمنوں سے لڑ کر شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو جھوٹ بولتا ہے۔ فرشتے بھی کہیں گے تو جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرا ارادہ یہ تھاکہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور وہ کہا جا چکا۔ یہ واقعہ بیان فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا: اے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) یہی وہ تین قسم کے افراد ہیں جن کو قیامت کے دِن سب سے پہلے جہنم کی آگ جلائے گی۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ سے زیر نظر آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جن کا خلاصہ ہم قارئین کریم کے سامنے پیش کرتے ہیں؛ آپ نے فرمایا: ’’سلف سے کچھ اعمال ایسے منقول ہیں جن پر عوام عمل کرتے ہیں مگر ان کا مطلب اور مفہوم نہیں سمجھتے مثلاً : ٭ جب ایک شخص کوئی عمل صالح اللہ کی رضا کے لئے انجام دیتا ہے جیسے صدقہ و خیرات، روزہ، نماز، رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور اُن سے حسن سلوک، یا کسی پر ظلم کرنے سے رُک گیا۔ علی ھٰذا القیاس بہت سے اعمالِ حسنہ کرتا ہے لیکن ان اعمال کی بجا آوری میں آخرت کے اجر و ثواب کا متمنی نہیں ہوتا بلکہ چاہتا ہے کہ دُنیا میں ہی اُسے اس کا بدلہ مل جائے جیسے کہ وہ اپنے مال و متاع کی حفاظت کا خواہشمند ہو، اس میں اضافے کا طلبگار ہو، اپنے اہل و عیال کی عزت و آبرو، ان کی حفاظت ذہن میں ہو اور چاہتا ہو کہ وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کریں، ان اعمالِ حسنہ سے نہ تو وہ جنت کا طلبگار ہو اور نہ جہنم کے عذاب سے بچنے کی تمنا ہو۔ پس ایسے شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں چکا دیا جاتا ہے۔ اور آخرت میں اس کا قطعاً کوئی حصہ نہ ہو گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس نوع کا ذکر فرمایا ہے۔ ٭دوسری قسم پہلی قسم سے زیادہ خطرناک ہے، وہ یہ کہ انسان عمل صالح انجام دے مگر نیت میں رِیاکاری اور لوگوںکو دکھلاوا ہو، آخرت میں کامیابی مد نظر نہ ہو۔ ٭تیسری صورت یہ ہے کہ انسان اعمالِ صالحہ کی بجاآوری سے دنیاوی مال و متاع کا خواہشمند ہو، جیسے سفر حج میں مال و متاع حاصل کرنا مقصود ہو، یا دنیا کے حصول کی خاطر، یا کسی عورت سے شادی رچانے کی غرض سے ہجرت کرے یا مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لئے جہاد جیسے حولِ عظیم میں جان خطرہ میں ڈال دے یا دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض یہ ہو کہ بال بچوں کا پیٹ پال سکے، یا قرآن کریم حفظ کر کے کسی مسجد کی امامت کا خواہشمند ہو، جس سے اسے اچھی خاصی تنخواہ ملنے کی توقع ہو، جیسا کہ آج کل علمائے کرام اور ائمہ مساجد کا دستور ہے۔ ٭ چوتھی قسم یہ ہے کہ عمل صالح تو رضائے الٰہی کے لئے کرے، لیکن ان اعمالِ حسنہ کے ساتھ ساتھ ایسا عمل بھی کر رہا ہو جس سے وہ دین اسلام سے خارج سمجھا جائے گا جیسے یہود و نصاریٰ کا عبادتِ الٰہی کرنا، ان کا روزے رکھنا، ان کا صدقہ و خیرات کرنا جس سے ان کی اصل مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کر لیں اور آخرت میں کامران ہو جائیں۔ یا اسلام کا دعویٰ کرنے والے وہ افراد جو کفر و شرک میں مبتلا ہیں جس سے انسان دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہو جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ کوئی ایسا عمل صالح کریں جس سے آخرت کے عذاب سے نجات اور اللہ کی رضا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کے کفر و شرک میں ملوث اعمال کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال بھی برباد ہو رہے ہیں۔
سلف صالحین رحمہم اللہ اس قسم کے اعمال سے بہت ڈرا کرتے تھے جن کی وجہ سے صحیح اور درست اعمال بھی ضائع ہو جائیں۔ ایک بزرگ کا قول مشہور ہے: ’’اگر مجھے علم ہو جائے کہ میرا صرف ایک سجدہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا ہے تو میں موت کی آرزو کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ صرف متقین ہی کے اعمال قبول فرماتا ہے‘‘۔ ٭پانچویں اور آخری قسم یہ ہے کہ انسان پانچوں نمازوں کی پابندی، روزہ، حج، زکوۃ اور صدقہ و خیرات اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے اور آخرت میں اجر و ثواب کا متمنی ہوتا ہے اس کے بعد کچھ ایسے اعمال کرتا ہے جن سے دنیا کا مال و متاع حاصل کرنا مقصود ہو، جیسے فرض حج ادا کرنے کے بعد نفلی حج کرتا ہے جس سے دنیا کمانا مقصود ہو جیسا کہ اکثر لوگ آج کل کر رہے ہیں تو اس عمل پر اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ بعض علمائے کرام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم تین قسم کے لوگوں کا حال بیان کرتا ہے: ۱۔اہل جنت، ۲۔اہل جہنم کا ۔ اور۔ ۳۔ تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جن میں دونوںصفتیں پائی جاتی ہیں، ان کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے۔ اس تیسری قسم میں مذکورہ بالا پانچویں قسم شامل ہے‘‘۔
فی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ تَعِسَ عَبْدُ الدِّرْھَمِ تَعِسَ عَبْدُ الْخَمِیْصَۃِ تَعِسَ عَبْدُ الْخَمِیْلَۃِ اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَ سَخِطَ تَعِسَ وَ انْتُکِسَ وَ اِذَا شِیْکَ فَلَا اُنْتُقِشَ طُوبٰی لِعَبْدٍ اَخَذَ بِعَنَانِ فَرَسِہٖ فیْ سَبِیْلِ اﷲ اَشْعَثَ رَاْسُہٗ مُغْبَرَّۃً قَدَمَاہُ اِنْ کَانَ فِی الْحِرَاسَۃِ کَانَ فِی الْحِرَاسَۃِ وَ اِنْ کَانَ فِی السَّاقَۃِ کَانَ فِی السَّاقَۃِ اِنِ اسْتَاْذَنَ لَمْ یُؤْذَنْ لَہٗ وَ اِنْ شَفَعَ لَمْ یُشَفَّعْ
صحیح (بخاری) میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو روپے پیسے اور کپڑے لتے کا بندہ ہے وہ بدبخت ہے۔ اگر اُسے دے دیا جائے تو خوش، اگر نہ دیا جائے تو ناخوش۔ یہ بدبخت ہو اور ٹھوکر کھائے، اگر اُسے کانٹا لگے تو نہ نکالا جائے۔خوشخبری ہو اس بندے کو کہ اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے ہے۔ پراگندہ سر، خاک آلود قدم۔ اگر پہرے پر ہے تو پہرے پر، اور اگر فوج کے پچھلے حصے میں ہے تو اِسی میں اپنی ذمہ داری نبھا رہاہے اگر رخصت مانگے تو رخصت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے۔
ہلاک ہو جانے، شقی اور بدبخت ہوجانے اور منہ کے بل گرجانے کو تَعِسَ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے لئے بددعا کرنا۔
ابوالسعادات رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’طوبیٰ جنت کے مقامات میں سے ایک جگہ کا نام ہے اور بعض علماء کا خیال ہے کہ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت کا نام ہے‘‘۔
طوبیٰ کو ایک درخت سمجھنے کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے ابن وہب نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طوبی کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت میں ایک درخت کا نام ہے، جس کے نیچے سو سال تک چلنے کی مسافت ہے، اس کے خوشوں سے اہل جنت کے کپڑے برآمد ہوں گے‘‘۔
مسند احمد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک ہے وہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لے آیا اس کے لئے طوبی ہے اور وہ شخص جس نے مجھے دیکھا نہیں لیکن صرف سن کر ایمان لے آیا اس کے لئے تین بار طوبیٰ کی خوشخبری ہے۔ اُس شخص نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طوبیٰ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طوبیٰ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جس کا سایہ سو سال تک چلنے کی مسافت ہے۔ اس کے خوشوں سے اہل جنت کی پوشاکیں برآمد ہوں گی۔
صحیح بخاری، مسلم اور دوسری کتب حدیث میں بھی احادیث مروی ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا ایک عجیب و غریب اثر نقل فرمایا ہے، جسے ہم قارئین کرام کے استفادہ کے لئے یہاں پورا نقل کرتے ہیں۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے۔ اُس کے سایہ میں گھڑ سوار سو سال تک بھی چلتا رہے تو اُس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔ اُس کے پھول ریشمی کپڑے ہوں گے۔ اُس کے پتے چادریں ہوں گی۔ اُس کی ٹہنیاں عنبر کی ہوں گی۔ اُس کے کنکر یاقوت ہیں۔ اُس کی مٹی کافور کی ہے۔ اُس کا کیچڑ کستوری ہے۔ اُس درخت کی جڑوں سے شراب، دودھ اور شہد کی نہریں نکلتی ہیں۔ اہل جنت کے باہم مل بیٹھنے کی یہ جگہ ہے۔ ایک دفعہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوں گے کہ اُن کے رب کی طرف سے فرشتے آجائیں گے۔ وہ بڑی تیز رفتار اونٹنیاں لائیں گے جن کی مہاریں سونے کی زنجیریں ہوں گی، اُن کے چہرے خوبصورتی کے لحاظ سے چراغ کی طرح روشن ہوں گے۔ اُن کی اون نرمی میں مرعزی ریشم کی طرح ہو گی۔ اُن پر کجاوے ہوں گے جن کی پھٹیاں یاقوت کی ہوں گی۔ پالکیاں سونے کی ہوں گی۔ اُن کے اوپر سندس، استبرق ریشم کے کپڑے ہوں گے۔ فرشتے اُن کو بٹھاتے ہوئے اہل جنت سے عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی زیارت اور اُسے سلام عرض کر لیں۔ اہل جنت اُن پر سوار ہو جائیں گے یہ سواریاں پرندوں سے بھی زیادہ تیز رفتاری چلیں گی۔ بستر سے بھی زیادہ نرم و نازک ہوں گی۔ وہ بغیر کسی تکلیف کے دوڑیں گی۔ ہر ایک سوار اپنے ساتھی کے پہلو بہ پہلو باہم گفتگو کرتا ہوا جا رہا ہو گا۔ کسی سوار کا کان دوسری سواری کے ساتھ نہ چھوئے گا۔ کسی کا پہلو کسی کے پہلو سے نہ لگے گا۔ چلتے چلتے اگر کہیں راستے میں کوئی درخت آجائے تو خود وہ درخت راستے سے ہٹ جائے گا تاکہ ان دونوں بھائیوں میں دُوری پیدا نہ ہو جائے۔ چلتے چلتے رحمن و رحیم کی بارگاہِ اقدس میں پہنچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنا روشن چہرہ اُن کے سامنے کھول دے گا۔ تاکہ یہ لوگ اُس کے چہرے کو دیکھ لیں۔ جب زیارت کر لیں گے تو کہیں گے کہ اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور تجھ سے ہی سلامتی حاصل ہوتی ہے۔جلال و اکرام کا صرف تو ہی حقدار ہے۔ اہل جنت کی یہ بات سن کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں ہی سلام ہوں اور سلامتی مجھ سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ میری جنت اور رحمت تمہارے لئے واجب ہو چکی ہے۔ میں اپنے بندوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو مجھے دیکھے بغیر مجھ سے ڈرتے رہے اور میرے احکام پر عمل کرتے رہے۔ اہل جنت عرض کریں گے کہ اے اللہ! ہم تیری کماحقہ عبادت نہ کر سکے اور تیری قدر کا بھی حق ادا نہ کر سکے۔ لہٰذا ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے تجھے سجدہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ جگہ عبادت اور تکلیف کی نہیں ہے۔ یہ ایسا گھر ہے جہاں سے انعام و اکرام کی بارش ہو گی۔ میں نے اب عبادت کرنے کا بوجھ ختم کر دیا ہے۔ اب جو چاہتے ہو سوال کرو کیونکہ اس وقت جو مانگو گے وہ ملے گا۔ چنانچہ کم ازکم جس کا سوال ہو گا وہ یہ ہو گا کہ اے اللہ! دنیا والے دنیا کے حصول میں ایک دوسرے کی ریس کرتے رہے اور باہم خطرہ میں مبتلا رہے۔ اے میرے رب تو مجھے ہر وہ چیز عطا کر چکا جو دنیا والوں کو تو نے ابتدائے آفرینش سے لے کر دنیا ختم ہونے تک دی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج تیری آرزوئیں بڑی مختصر ہیں۔ تو نے اپنے مرتبہ کے مطابق سوال نہیں کیا۔ یہ تو میں نے تجھے دیا اور میں تجھے اپنے مرتبے کے مطابق تحفہ دوں گا۔ کیونکہ میری عطا میں بخیلی اور کوتاہی نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے بندوں کے سامنے وہ چیزیں پیش کرو جہاں تک اُن کی آرزوئیں نہیں پہنچیں اور ان کے دل میں ان کا خیال تک بھی نہیں آیا۔ پھر دوسرے ان کو یاد دلائیں گے۔ یہاں تک کہ ان کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی۔ یعنی وہ ساری چیزیں جو اُن کے دل میں ہو گی پھر جو وہ ان پر پیش کریں گے ان میں گھوڑے بھی ہوں گے۔ ہر چارجتے ہوئے گھوڑوں پر ایک ہی یاقوت کا تخت بچھا ہوا ہو گا۔ اور ہر تخت پر خالص سونے کا ایک قبہ ہو گا ان میں سے ہر قبے میں جنتی بستر بچھے ہوں گے۔ ان میں سے ہر قبے میں نوجوان سفید رنگ موٹی موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔ ان میں سے ہر لڑکی پر جنتی کپڑوں میں سے دو کپڑے ہوں گے اور جنت کا کوئی رنگ ایسا نہ ہو گا جو اِن دونوں کپڑوں میں نہ ہو۔ اور کسی عطر کی خوشبو ایسی نہ ہو گی جس کی مہک ان کپڑوں سے نہ آتی ہو۔ ان کے چہروں کی چمک قبے کی دبیز تہوں سے پار ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ جو اُن کو دیکھے گا وہ سمجھے گا کہ یہ قبے سے باہر ہیں۔ ان کی ہڈی کا گودا پنڈلی کے اوپر سے ایسا نظر آئے گا جیسے سرخ یاقوت میں سفید دھاگہ پرو رکھا ہو۔ وہ عورتیں اپنے شوہر کو دیکھ کر محسوس کریں گی کہ اس کو اپنی سہیلیوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے سورج کو پتھر کے ٹکڑے پر، یا اس سے بھی بہتر اور وہ بھی ان دونوں کو ایسا ہی دیکھے گا۔ پھر جنتی شخص اُن کے پاس جائے گا تو وہ اُسے سلام کہیں گی۔ اُس کا بوسہ لیں گی۔ اور اُس سے بغل گیر ہوں گی اور اس سے کہیں گی اللہ کی قسم! ہمارے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ نے تجھ جیسے آدمی پیدا کئے ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا اور وہ فرشتے ان اہل جنت کو جنت میں صف بناکر لے چلیں گے۔ اور چلتے چلتے اُس مقام تک جا پہنچیں گے جو اُن کے لئے رب کریم نے تیار کیا ہے‘‘۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے بھی اس اثر کو وہب بن منبہ سے ہی روایت کیا ہے۔ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی روایت میں مندرجہ ذیل الفاظ زائد ہیں:
’’اپنے رب کریم کے عطیات کو دیکھو جو تمہیں دیئے گئے ہیں۔ بلند بارگاہ میں قبے ہوں گے اور موتی اور مونگے سے بنے ہوئے بالاخانے ہوں گے اور ان کے دروازے سونے کے ہوں گے ان کی چارپائیاں یاقوت کی ہوں گی۔ ان کے ستر سندس اور استبرق کے ہوں گے اور ان کے منبر نور کے ہوں گے ان کے دروازوں اور صحنوں سے اس طرح کا نور نکلے گا کہ سورج کی شعائیں اس کے مقابل ایک ستارے کی حیثیت رکھتی ہوں گی، جبکہ وہ دن کی تیز روشنی میں ہو۔ پھر اعلیٰ علیین میں یاقوت کے بلند محل ہوں گے۔ ان کی روشنی چمکتی ہو گی۔ اگر وہ روشنی تابع فرمان نہ ہوتی تو آنکھیں چندھیا جاتیں۔ پھر ان محلوںمیں جو محل سفید یاقوت کے ہوں گے اُن میں فرش بھی سفید ریشم کا ہو گا اور جو محل سبز یاقوت کے ہوں گے وہاں فرش بھی سبز سندس کا ہو گا اور جو محل زرد ریشم کے ہوں گے اُن میں فرش بھی زرد ریشم کا ہو گا اُن کے دروازے سبز زمرد اور سرخ سونے اور سفید چاندی کے ہوں گے اُن کے ستون اور گوشے جواہرات کے ہوں گے اور اُن کے بالاخانے موتیوں کے قبے ہوں گے اور اُن کے برج مونگے کے کمرے ہوں گے پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے عطیات کی طرف واپس آنا چاہیں گے تو سفید یاقوت کے گھوڑے ان کے پاس لائے جائیں گے جن میں روح ہو گی ان کے نیچے ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہوں گے۔ ہر بچے کے ہاتھ میں ان گھوڑوں میں سے ایک ایک گھوڑے کی لگام ہو گی اور ان کی لگامیں سفید چاندی کی ہوں گی جن پر موتی اور یاقوت جڑے ہوں گے اور ان پر بلند تخت بچھے ہوں گے سندس اور استبرق پڑا ہو گا وہ گھوڑے ان جنتیوںکو لے کر دوڑتے آئیں گے۔ جنت کے باغوں کو دیکھیں گے جب اپنے اپنے محلات تک پہنچیں گے تو سامنے فرشتوں کو بیٹھا ہوا پائیں گے جو نور کے منبروںپر بیٹھے اُن کا انتظار کر رہے ہوں گے تاکہ ان کی زیارت کر یں اور ان سے مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کریں اور رب کریم کی تکریم پر مبارکباد پیش کریں جب اپنے اپنے محلات میں داخل ہوں گے تو اُس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جو اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل و احسان کیا ہو گا۔ اور جو انہوں نے مانگا ہو گا اور جس کی خواہش کی ہو گی وہ دیکھیں گے کہ ان محلوں میں سے ہر محل کے دروازے پر چار چار باغ ہوں گے دو باغ تو بڑے لمبے ٹہنوں والے ہوں گے اور دو باغ نہایت سرسبز ہوں گے اور اس میں دو چشمے جوش ما رہے ہوں گے اور اس میں ہر میوے کے جوڑے ہوں گے۔ اور سیاہ آنکھوں والی حوریں خیموں میں ہوں گی جب یہ لوگ اپنے محلات میں آرام سے بیٹھ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہارے رب نے جو تم سے وعدہ کیا تھا وہ پور ہو گیا یا نہیں؟ اہل جنت عرض کریں گے کہ اللہ کی قسم وہ پورا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ پھر سوال کرے گا کہ کیا تم اپنے رب کے اجر و ثواب پر خوش ہو؟ اہل جنت عرض کریں گے اے اللہ! ہم راضی ہیں تو بھی ہم پر راضی ہو جا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری رضا کی وجہ سے ہی تم کو میں نے اپنے گھر میں جگہ دی ہے اور میری رضا کی بدولت ہی تم کو میرا چہرہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اہل جنت عرض کریں گے: تمام تعریفیں اُس اللہ کے لئے ہیں جو ہم سے غم کو لے گیا، بیشک ہمارا رب بخشنے والا اور قدردان ہے۔ وہ جس نے ہمیںمستقل گھر میں اپنے فضل و کرم سے اتارا، ہمیں یہاں کبھی تکلیف نہ ہو گی اور نہ ہمیں کبھی تھکاوٹ ہو گی‘‘۔
یہ عجیب و غیرب اثر جو نقل کیا گیا ہے اس کے اکثر الفاظ کی تصدیق صحیحین کی روایات سے بھی ہوتی ہے۔

فیہ مسائل
٭ وہ عمل جو آخرت کے لئے تھا اُس سے دنیا طلب کرنا۔ ٭ بعض اوقات مسلمان کا نام بھی درہم و دینار کا بندہ رکھا جاتا ہے۔ ٭ اس کی صورت یہ ہے کہ اگر اس کی آرزو پوری ہو گئی تو راضی ورنہ ناراض۔ ٭ جو مجاہد مذکورہ صفات کا حامل ہو اُس کی تعریف۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیرعلماء اور اُمراء کی اطاعت شرک ہے۔
باب:من اطاع العلماء والامرا فی تحریم ما احل اﷲ او تحلیل ما حرم اﷲ فقد اتخذھم اربابا من دون اﷲ

اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر علما اور اُمراء کی اطاعت کرتا ہے وہ مشرک ہے کیونکہ اُس نے اللہ کے سوا اُن لوگوںکو رب قرار دے لیا ہے۔
و قال ابن عباس رضی اللہ عنہ یُوْشِکَ اَنْ تَنْزِلَ عَلَیْکُمْ حِجَارَۃٌ مِّنَ السَّمَآءِ اَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ تَقُوْلُوْنَ قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ وَّ عُمَرُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں میں کہتا ہوں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے یوں کہا۔
اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو شخص اللہ کی طرف سے حلال اور حرام کی پرواہ کئے بغیر علماء اور امراء کی اطاعت کرتا ہے وہ مشرک ہے کیونکہ اس نے اللہ کے سوا ان لوگوںکو رب قرار دے لیا ہے۔اس کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:
(ترجمہ) ’’انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں‘‘ (التوبہ:۳۱)۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج تمتع کے قائل نہ تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ تمتع سے حج اِفراد افضل ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ تمتع کرنا واجب ہے۔ چنانچہ بعض صحابہ کرام نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما تو حج اِفراد کو افضل قرار دیتے ہیں اور آپ تمتع کو کیوں واجب ٹھہراتے ہیں؟ اس کے جواب میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا جملہ ارشاد فرمایا۔
واضح احادیث کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ علمائے کرام یا ائمہ عظام کے دلائل اور ان کے اقول کو ان پر ترجیح دے کیونکہ قرآنِ کریم نے اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے:
(ترجمہ) ’’اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اُسے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔ (النساء:۵۹)۔
چنانچہ بعض لوگوں نے جب سیدنا ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما کی بات سے صحیح حدیث کا معارضہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے پیش کیا تو اس وقت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا:
’’قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں‘‘۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد واضح ہو جائے تو اُسے چاہیئے کہ وہ کسی شخص کے قول کی بنا پر ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ترک نہ کرے‘‘
۔ امام مالک رحمہ اللہ نے (مدینہ منورہ مسجد نبوی میں درس دیتے ہوئے) فرمایا تھا کہ
’’ہم میں سے ہر شخص کی بات کو ردّ کر کیا جا سکتا ہے اور قبول بھی جا سکتا ہے، مگر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) اس صاحب قبر کی حدیث کو ترک نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
علمائے کرام وقوعِ مسائل کے وقت ہمیشہ اجتہاد کرتے رہے۔ پس جس شخص کا اجتہاد صحیح ہوا اُسے دُہرا اجر ملے گا اور جس شخص نے اجہتاد میں غلطی کھائی اُسے اس کی محنت اور اجہتاد کا اجر ملے گا جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور ہے۔ لیکن مجتہد علماء کا یہ دستور تھا کہ جب ان پر کوئی دلیل واضح ہو گئی تو اس پر عمل کر لیا اور اجتہاد ترک کر دیا۔ ائمہ کرام نے اجتہاد سے اُس وقت کام لیا جب کہ ان کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فرمان نہ تھا، یا علم تھا لیکن اس میں دوسرا فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود پایا تو اس صورت میں اُنہوں نے اجتہاد سے مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش فرمائی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پوری وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا جائے اور پھر بھی وہ اپنے امام کی تقلید کی وجہ سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم نہ کرے تو اس کی سختی سے تغلیط کرنی چاہیئے کیونکہ وہ جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو ترک کر رہا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم میں سے ہر شخص کی بات کو قبول اور ردّ کیا جا سکتا ہے، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کے‘‘۔
پس ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے کسی عالم یا امام کے قول کو ترجیح دیتا ہے، اس سے انکار کرنا واجب ہے کیونکہ کسی مجتہد یا امام کی بات کو تسلیم کرنا صرف ان مسائل اجتہاد ی تک جائز ہے جن میں کتاب اﷲ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت نہ ملتی ہو، لیکن جس مسئلہ میں کتاب و سنت سے واضح رہنمائی ہوتی ہو اُس میں اجتہاد کی تردید ضروری ہے جیسا کہ سابقہ صفحات میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تصریحات سے ثابت ہو چکا ہے۔
و قال الامام احمد رحمہ اللہ عَجِبْتُ لِقَوْمٍ عَرَفُوا الْاِسْنَادَ وَ صِحَّتَہٗ وَ یَذْھَبُوْنَ اِلٰی رَاْیِ سُفْیَانَ وَ اﷲُ تَعَالٰٰی یَقُوْلُ فَلْیَحذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (النور:۶۳) لَعَلَّہٗ اِذَا رَدَّ بَعْضَ قَوْلِہٖٓ اَنْ یَّقَعَ فِیْ قَلْبِہٖ شَیْئٌ مِّنَ الزَّیْغِ فَیَھْلِکُ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اُن لوگوں پر سخت تعجب ہے جو صحت حدیث کے بعد بھی جناب سفیان رحمہ اللہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیئے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا اُن پر دردناک عذاب نہ آجائے۔ جب انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو چھوڑ دے تو اُس کے دل میں کجی پیدا ہو جانے کا امکان اُبھر آتا ہے جس سے اس کی ہلاکت یقینی ہے‘‘۔
امام صاحب نے اس آیت میں مذکور فتنے کو شرک سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:
(ترجمہ) ’’نہیں، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن ہو نہیں سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصل نہ مان لیں پھر آ پ جو بھی فیصلہ کریں اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربسر تسلیم کر لیں‘‘۔ (النساء:۶۵)۔
امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول ان لوگوں کی سخت تردید کر رہا ہے جو کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے آئمہ کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس سے انسان کا دل قبول حق سے برگشتہ ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ آج کل مسلمانوں کی اکثریت اسی مرض میں مبتلا دکھائی دیتی ہے خصوصاً جن لوگوں کو اہل علم کہا جاتا ہے، وہ اس کی عین زد میں ہیں، انہوں نے ایک ایسا جال بچھا رکھا ہے جس سے گزر کر عام آدمی کتاب و سنت اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتا اور نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی کی پوری طرح عظمت کر سکتا ہے اس قسم کے علماء کے اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ: ’’قرآن و حدیث سے استدلال مجتہد ہی کر سکتا ہے، اور اجتہاد کا دروازہ اب بند ہو چکا ہے‘‘۔
ان لوگوں نے اس مسئلہ میں غلطی کھائی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہو گا:
’’میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، ان کی مخالفت کرنے اور اُنہیں رُسوا کرنے والا انہیں کوئی گزند نہ پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے‘‘۔
ان لوگوں کے خطرناک اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے:
’’جس کی میں تقلید کر رہا ہوں وہ حدیث اور حدیث کے ناسخ و منسوخ کو تم سے بہتر سمجھتا تھا‘‘۔
اسی قسم کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو وہ کرتے ہیں اور جن کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے، جن کی صفت ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے:
(ترجمہ) ’’ہمارا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتا‘‘
دُور ہٹ جائے۔ یہ لوگ اُن افراد پر اعتماد کرتے ہیں جن سے خطا اور غلطی کا ہر وقت امکان ہے کیونکہ ہر امام کے پاس شریعت کا پورا علم نہیں بلکہ کچھ حصہء علم ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیئے کہ جب اُس کے سامنے کتاب و سنت کا حکم واضح ہو جائے تو وہ تمام آئمہ کے اقوال کو چھوڑ کر کتاب و سنت کو اپنا رہبر بنائے اور اس پر عمل کرے اور اس سلسلے میں کسی بڑے سے بڑے امام اور مجتہد کی مخالفت کی پروا نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’لوگو! جوکچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو‘‘۔ (اعراف:۳)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اور کیا ان لوگوں کے لئے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ہے اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں‘‘۔ (عنکبوت:۵۱)۔
سابقہ صفحات میں اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ کے اجماع کا فیصلہ گزر چکا ہے اور یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ مقلد کو اہل علم میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ابوعمر بن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ پر اجماعِ اُمت بیان کیا ہے۔

علامہ الشیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’کتاب و سنت کے احکام واضح ہو جانے کے بعد اس بارے میں کسی کو اختلاف نہیں کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں ائمہ کے قول کو چھوڑ دیا چاہیئے البتہ مقلدین کا گروہ اپنی بات پر مصر رہتا ہے خواہ کتاب و سنت کی مخالفت ہی ہو رہی ہو۔ کیونکہ یہ لوگ کتاب و سنت سے بے بہرہ ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن و حدیث سے کوئی شغف اور محبت نہیں رکھتے بلکہ صرف اپنے امام کے قول کو تسلیم کرتے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ائمہ کی اتباع کر رہے ہیں حالانکہ یہ لوگ ائمہ کرام کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی راہ سے بالکل دُور ہیں۔ البتہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی عبارت سے کچھ اشارہ ملتا ہے کہ اگر کتاب و سنت کی کوئی واضح دلیل سامنے نہ ہو تو کسی بھی امام کی بات کو وہ صحیح سمجھتا ہو عمل کیا جا سکتا ہے۔ ہاں! جس شخص کے سامنے کتاب و سنت کے دلائل موجود ہوں اور پھر وہ کسی امام کے قول کی وجہ سے کتاب و سنت پر عمل نہ کرے تو ایسے شخص کی مخالفت کرنی چاہیئے۔ مقلدین چونکہ کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کناں ہیں اور اس کا مطالعہ نہیں کرتے، اور مطالعہ کا موقع ملتا بھی ہے تو علما اور فقہا کی کتب کے مطالعہ میں ڈوبے رہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے اعمال میں ترکِ سنت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل یہود و نصاریٰ جیسی ہے
جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو اللہ کے سوا رَبّ بنا لیا ہے۔
اس آیت کریمہ کی مزید تشریح سیدنا عدی بن حاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کرتی ہے جو آئندہ صفحات میں آ رہی ہے۔ ان شاء اللہ۔
پس جو شخص اپنی اصلاح کا خواہشمند ہے اُسے چاہیئے کہ علمائے کرام اور آئمہ عظام کی کتب کا مطالعہ کرتے وقت ان کے دلائل کی کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطابقت پیدا کر لے کیونکہ مجتہدین اور ان کے متبعین اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی بات کہتے وقت اس کی دلیل بھی ذکر کریں۔ اس لئے کہ مسائل میں حق بات تو ایک ہی ہوتی ہے۔ حق کے متلاشی اور انصاف پسند شخص کو چاہیئے کہ وہ آئمہ اور علماء کے دلائل کو خوب پرکھ لے اور کتاب و سنت سے ملا لے تاکہ کتاب و سنت کے مطابق مسئلہ کی صحت واضح ہو جائے اور خطا و غلطی کا امکان باقی نہ رہے۔ اس چھان بین کے سلسلے میں کتاب و سنت میںبیشمار دلائل موجود ہیں۔
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ نے بھی تقلید کی تردید اور مخالفت میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔ کتاب و سنت کی موجودگی میں وہ تقلید کے بالکل قائل نہ تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں بعض مسائل کا علم نہیں ہے جس کا کسی دوسرے شخص کو علم ہو سکتا ہے۔ اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو بہت سے مسائل کا علم تھا اس سلسلے میں اُن کے لئے بیشمار اقوال موجود ہیں چنانچہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب حدیث مل جائے تو سرآنکھوں پر، جب صحابہ کرام کا عمل ہمارے سامنے ثابت ہو جائے تو سر آنکھوں پر، اور اگر تابعین کا قول ہو تو پھر وہ اور ہم سب انسان (برابر) ہیں‘‘
۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’اگر میں ایک بات کہوں اور کتاب اللہ اس کے خلاف ہو تو میرا قول اس کے مقابلے میں مسترد کر دو۔ امام صاحب سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ کا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہو تو؟ امام صاحب نے کہا کہ پھر بھی میرے قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں ترک کر دو۔ سوال کیا گیا کہ اگر آپ کا قول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف ہو تو؟ امام صاحب نے فرمایا کہ صحابہ کے قول کے ہوتے ہوئے میرے قول کو چھوڑ دو‘‘۔
ربیع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ:
’’اگر میری کتاب میں میرا کوئی قول سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دیکھو تو میرے قول کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق عمل کرو‘‘۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا مندرجہ ذیل قول سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے، آپ فرماتے ہیں
’’اگر میرا قول صحیح حدیث کے خلاف ہو تو میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔ ہر آدمی کی بات پر عمل بھی کیا جا سکتا ہے اور اُس کو چھوڑا بھی جا سکتا ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو تسلیم کرنا فرض ہے‘‘۔
آئمہ کرام رحمہم اللہ کی اِن تصریحات کے بعد کسی شخص کی پاس کوئی وجہ جواز نہیں کہ وہ خواہ مخواہ کسی امام کے قول کو کتاب و سنت کے مقابلے میں تسلیم کرے۔تقلید کے ردّ میں علمائے کرام نے جو اِرشادات فرمائے ہیں اگر ہم ان سب کا یہاں ذکر کریں تو اختصار سے دُور نکل جائیں گے لہٰذا ایک طالب حق اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرنے والے کے لئے آئمہ کے مندرجہ بالا ارشادات کافی ہیں۔
اگر کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کو ٹھکرا دیا تو پھر اس کے قلب میں کجی کا واقع ہو جانا لازمی ہے جس کا نتیجہ ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو ترک کرنے سے انسان کے دل میں کجی اور ٹیڑھ پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دُنیا اور آخرت میں ہلاکت یقینی ہے۔ قرآن کریم اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل ٹیڑھے کر دیئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا‘‘۔(الصف:۵)۔
قرآن کریم کی آیت ’’فَلْیَحذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ ‘‘کی تفسیر بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کرنے والے کو شرک و کفر اور عذابِ الیم سے ڈرایا گیا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کفر کا موجب ہو سکتی ہے اور عذاب الیم میں مبتلا کر سکتی ہے۔ یاد رہے محض معصیت، عذاب ِ الٰہی کا باعث بن جاتی ہے، اور اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کو حقارت سے ردّ کر دے تو اس سے وہ کفر کی کی دلدل میں پھنس جاتا ہے‘‘۔
عن عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْرَاُ ھٰذِہِ الْاٰیَۃَ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہ اِلَّا ھُوْ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ فَقُلْتُ لَہٗ اِنَّا لَسْنَا نَعْبُدُھُمْ قَالَ اَلَیْسَ یُحِرِّمُوْنَ مَآ اَحَلَّ اﷲُ فَتُحَرِّمُوْنَہٗ فَقُلْتُ بَلٰی قَالَ فَتِلْکَ عِبَادَتُھُمْ (رواہ الترمذی و حسنہ، و احمد)۔
عدی بن ابی حاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا کہ: ’’انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ اُن کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں پاک ہے وہ اُن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ تو عدی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے عدی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال اور حلال کردہ اشیاء کو حرام قرار دیتے وقت تم ان کی بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے؟ عدی ر ضی اللہ عنہ بولے یہ تو درست ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی اُن کی عبادت ہے
چنانچہ جن آئمہ کرام کی تقلید کی جارہی ہے وہاں یہ شرک پوری طرح پایا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے امام کی مخالفت میں کتاب و سنت کی پروا نہیں کرتے۔ اور نہ قرآن و حدیث کے دلائل پر ان کو اعتماد ہے۔ اور بعض غالی قسم کے مقلد اپنے امام کی مخالفت کی صورت میں کتاب و سنت پر عمل کرنا مکروہ بلکہ حرام سمجھتے ہیں اور یہ کہہ کر کتاب و سنت کو ترک کر دیتے ہیں کہ ’’ہمارے امام کو ان دلائل کا زیادہ علم تھا، دلائل پر غور کرنا صرف مجتہد کا کام ہے‘‘۔ جو شخص ان کے سامنے کتاب و سنت کے دلائل پیش کرتا ہے، اکثر اوقات اس کی مذمت اور مخالفت پر اُتر آتے ہیں بلا شبہ یہ اسلام سے بُعد (یعنی دُوری) اختیار کرنے کی بہت بڑی دلیل ہے؟ حالات اس قدر متغیر ہو چکے ہیں کہ نتیجہ ہر شخص کے سامنے ہے، اور سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اکثر لوگ پیروں کی اس عبادت کو تمام اعمال سے افضل سمجھتے ہیں۔ اس کا نام بدل کر ولایت رکھ دیا گیا ہے۔ علماء کی عبادت ان کے علم و فقہ کو ماننا ہے حالات کی سنگینی یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اب ایسے لوگوں کی عبادت کی جانے لگی ہے جو صالحین میں سے بھی نہیں اور اب علماء کی جگہ جہلا کی عبادت بھی شروع ہو چکی ہے۔
کتاب و سنت کے مقابلے میں اُمراء اور سلاطین کی اطاعت کرنا کوئی نئی بات نہیں خلفائے راشدین کے بعد سے آج تک مسلسل اس عذاب میں اُمت گرفتار ہے۔

’’پھر اگر یہ لوگ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہو گا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص:۵۰)۔
زیادہ بن حُدیر کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’تمہیں معلوم ہے کہ کون سی چیز اسلام کو مٹا دیتی ہے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ فرمایا: عالم کی لغزشِ قدم، منافق کا قرآن کریم کو جھگڑے کا ذریعہ بنانا اور گمراہ حکمرانوں کا فیصلہ اسلام کی عمارت کو گرانے کا سبب بنتا ہے‘‘۔
(رواہ دارمی)۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کو قبول کرنے والوں، اور اس کی اطاعت کرنے والوں میں سے بنا دے۔ آمین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
طاغوت سے کفر
باب:اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۶۰ (سورۃ النساء:۶۰)

اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کیلئے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ اُنہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دُور لے جانا چاہتا ہے۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو کتاب و سنت سے اعراض کر کے باطل جگہوں سے فیصلہ کراتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے طاغوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں گذر چکا ہے جس میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ طاغوت کے بارے میں وضاحت سے فرماتے ہیں کہ:
’’اپنے معبود و متبوع اور مطاع کی مقرر کردہ حدود سے آگے نکل کر کوئی شخص کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے فیصلہ کراتا ہے تو گویا وہ اپنا فیصلہ طاغوت کے ہاں لے گیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو انکار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ فیصلہ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہونا چاہیئے اور جس شخص نے کتاب و سنت کو نظر انداز کر دیا اور دوسرے دروازوں پر دستک دی تو اس نے حدود مقررہ سے آگے قدم زن ہونے کی جسارت کی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حدود متعین فرمائی تھیں ان حدود سے باہر نکل گیا اور کتاب و سنت کہ خلاف احکام کو وہ حیثیت دی جس کے وہ ہرگز مستحق نہ تھے‘‘۔
یہی صورت حال اُس شخص کی ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ بھی اصل میں طاغوت ہی کی عبادت میں مشغول ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں۔ غیر اللہ کی عبادت دو حال سے خالی نہیں پہلی صورت یہ ہے کہ ایسے شخص کا معبود اگر صالح انسان ہے تو اس کی عبادت شیطان کی عبادت تصور ہو گی ایسی عبادت کرنے والوں کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے:
(ترجمہ) ’’جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ اپنی عدالت میں اکٹھا کریں گے پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی پھر ہم انکے درمیان اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ ’’تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے! ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔ اُس وقت ہر شخص اپنے کئے کا مزہ چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیئے جائیں گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے گم ہو جائیں گے‘‘ (یونس:۲۸ تا ۳۰)۔
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور خواہش کی عبادت کی طرف لوگوں کو دعوت دے یا شجر وحجر یا کسی ولی اللہ کی قبر کی عبادت کرنے کا پرچار کرے، جیسے مشرکین اپنے اصنام وغیرہ کی، جو صالحین اور ملائکہ کی شکل و صورت میں بنا کر رکھے گئے تھے، عبادت کرتے تھے تو یہ وہ طاغوت ہے جس کی عبادت کرنے سے خود اللہ تعالیٰ نے روکا ہے لوگوں کو ان سے اظہارِ برات کا حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی ہو، اگر اس کی عبادت کی گئی تو یہ شیطانی فعل ہو گا۔ شیطان نے اپنے ان قبیح افعال اور مذموم اعمال کو بڑے مزین اور انتہائی خوبصورت بنا رکھا ہے یہ ایسے افعال ہیں جو توحید اور کلمہ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے بالکل الٹ ہیں۔ توحید کی اصل یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر طاغوت کا انکار کر دے جس کی کسی نہ کسی صورت میں عبادت کی جا رہی ہو۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے:
(ترجمہ) ’’تم لوگوں کے لئے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا : ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘۔ (الممتحنہ:۴)۔
لہٰذا جو شخص غیر اللہ میں سے کسی کی عبادت کرتا ہے، وہ ان حدود سے تجاوز کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کو معبود گردانتا ہے جس کا وہ مستحق نہیں تھا۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے طاغوت کہلاتی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے فیصلہ کرانے والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے پوری شریعت اسلامیہ کا انکار کر دیا ہو، اور مزید برآں یہ کہ اس نے غیر اللہ کو اپنی اطاعت میں شریک ٹھہرا لیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے‘‘۔
دوسری جگہ پر فرمایا:
(ترجمہ) ’’اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلیم کر لیں‘‘۔ (النساء:۶۵)۔
پس جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بایں طور پر کرتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور جگہ سے فیصلہ کرواتا ہے یا اپنی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے تو گویا اس نے عملاً ایمان اور اسلام کی رسی کو گردن سے اتار پھینکا ہے۔ اس کے بعد خواہ وہ کتنا ہی ایمان اور اسلام کا دعویٰ کرے بیکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ لفظ یَزْعُمُوْنَ وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں عمل دعویٰ کے خلاف کیا جارہا ہو۔ ہمارے اس دعویٰ کی دلیل قرآن کریم کی زیر نظر آیت ’’و قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طاغوت کا انکار کرنا توحید کا سب سے اہم رکن ہے جب تک کسی شخص کے اندر یہ رکن نہ ہو گا اس وقت تک اسے موحد کہنا غلط ہے تمام اعمال اور ایمان کی اساس اور مرکزی حیثیت توحید کو حاصل ہے۔ اعمال کی صحت اور عدمِ صحت کا دارومدار توحید ہی پر ہے اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘ (البقرۃ:۲۶۵) ۔
اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جانے والے کا اس پر ایمان ہے۔
طاغوت کے پاس اپنے متنازعہ معاملات لے جانے اور وہاں سے فیصلہ طلب کرنے کا اصل محرک شیطان ہوتا ہے اور وہ اس قسم کی باتیں بہت ہی خوبصورت انداز میں انسان کے دل میں ڈالتا ہے۔ اس طرح شیطان بیشمار لوگوں کو گمراہ کر چکا ہے۔ کتاب و سنت کو پس پشت ڈال کر طاغوت کو فصیل ماننے اور فیصلہ کن طاقت قرار دینے سے بڑی گمراہی اور ہدایت سے دُور کر دینے والی اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی ہے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا۝۶۱ۚ فَكَيْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِيْبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ ثُمَّ جَاۗءُوْكَ يَحْلِفُوْنَ۝۰ۤۖ بِاللہِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسَانًا وَّتَوْفِيْقًا۝۶۲ (النساء:۶۱۔۶۲)۔
جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آؤ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، تو اُن منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔ پھر اُس وقت کیا ہوتا ہے جب ان کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت اُن پر آن پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے منافقین کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ ان کے سامنے جب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی جاتی ہے تو اس سے اغماض کرتے ہیں اور جو شخص ایسا کرے گا خواہ وہ کتنا ہی مدعی ایمان ہو حقیقت میں وہ ایمان کی دولت سے بالکل محروم ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس شخص کے سامنے متنازعہ فیہ مسائل میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی جائے اور وہ تسلیم نہ کرے تو وہ شخص منافق ہے‘‘۔
لوگوں کی اکثریت اس جرم میں گرفتار ہے اور خصوصاً علماء پر نہایت افسوس ہے جو علم کے ہوتے ہوئے ایسے لوگوں کے اقوال کو سامنے رکھ کر کتاب و سنت سے اعراض کئے ہوئے ہیں جو کئی مسائل میں مرتکب خطا ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے آپ کو آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کا پابند کر رکھا ہے حالانکہ ان میں سے کسی کی تقلید کا کوئی جواز نہیں اور ایسے لوگوں کے اقوال کو قابل اعتماد ٹھہرا لیا ہے جن پر اعتماد کی ضرورت نہ تھی۔ مقلدین کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ نصوصِ کتاب و سنت کے مقابلے میں آئمہ کے اقوال کو پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قواعد شرعیہ ہی ایسے قواعد ہیں جن پر کلی اعتماد کیا جا سکتا ہے اور ان کے بغیر کسی اور چیز پر فتویٰ صادر کرنا قرین صحت نہیں۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ سنت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع کی حیثیت ایک اجنبی اور مسافر کی سی ہو کر رہ گئی ہے ایسے شخص کو اس دَور میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کتاب و سنت سے روگرداں ہے اور اکثر مقامات پر ان دو بنیادی نصوصِ شرعیہ پر عمل متروک ہو چکا ہے۔ (واللہ المستعان)۔
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝۱۱ (البقرۃ:۱۱)
جب کبھی اُن سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو اُنہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی پر اُکساتا ہے تو گویا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور زمین و آسمان میں اِصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’ان بھائیوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں‘‘ (یوسف:۷۳)۔
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر نافرمانی فساد فی الارض ہے۔ زیر نظر آیت کریمہ کا باب سے تعلق یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ سے فیصلہ کروانا منافقین کا کام ہے جو درحقیقت فساد فی الارض ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ خواہشات کے بندوں کے اقوال سے ہوشیار اور چوکس رہنا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ اپنے دعوؤں کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اہل خواہش کے فریب سے بھی ہوشیار رہنا چاہیئے جب تک کہ وہ اپنی بات کی دلیل کتاب و سنت سے پیش نہ کریں۔ کیونکہ اُن کی یہ عادت ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ فساد فی الارض کی اس سے بڑی اور کیا صورت ہو سکتی ہے۔ فساد فی الارض سے خود بخود ایسے اُمور مرتب ہوتے ہیں جن سے انسان دائرہ حق سے باہر نکل کر باطل کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ لوگوں کی اکثریت اسی وہم میں گرفتار ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و یقین کی پختگی کی نعمت عطا فرما دی ہو ، شہواتِ نفس کے غلبہ کے وقت ان کی عقل کامل اور شکوک و شبہات کے مقابلے میں وہ بصیرت تامہ سے بہرہ ور ہوں۔ بس یہی وہ افراد ہیں جو شبہات اور وساوس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم۔
قول اﷲ تعالیوَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۵۶ (الاعراف:۵۶)
زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اِصلاح ہو چکی ہے اور اللہ ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے ابوبکر بن عیاش رقمطراز ہیں کہ:
’’زمین کے چپہ چپہ پر فساد برپا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر زمین اور اہل زمین کی اصلاح فرمائی اور اب جو شخص کتاب و سنت کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے وہ فساد فی الارض کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے‘‘۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں زندگی برباد کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور شریعت اسلامیہ کی وضاحت سے اہل زمین کی اصلاح کے بعد کسی کا غیر اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دینا فساد فی الارض کی بدترین شکل ہے کیونکہ غیراللہ کی عبادت اور اس کی طرف دعوت دینا شرک ہے اور کتاب و سنت کی مخالفت درحقیقت فساد فی الارض اور شرک ہے۔ پس شرک کرنا غیر اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دینا، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو معبود ٹھہرانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرنا سب سے بڑا فساد فی الارض ہے۔ اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو معبود مانا جائے، اسی کی توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے، اس کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی شخص کی بات پر عمل کرنے سے پہلے بڑے غور و فکر سے یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت تو نہیں کر رہا اور اگر کتاب و سنت کے برعکس بات کہہ رہا ہو تو اُس کی بات کو چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں کسی کی سمع و اطاعت ہرگز نہیں کرنا چاہیئے۔ دنیا کے حالات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اصلاحِ حال کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنے اوپر لازم قرار دے لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی توحیدکا انکار یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد برپا ہو جاتا ہے، قحط سالی کا دور دورہ ہوتا ہے اور خصوصاً دشمن اسلام مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے‘‘۔
زیرنظر آیت کریمہ کا ترجمۃ الباب والی آیت سے تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر دوسروں سے فیصلہ کروانا تمام گناہوں سے بدترین گناہ ہے جو حقیقی طور پر فساد فی الارض ہے۔ اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان اپنے تمام متنازع فیہ مسائل میں صرف کتاب و سنت کی طرف رجوع کرے۔ تمام مومنین کا یہی طریقہ اور دستور رہا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اور جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حال یہ کہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔ (النسا:۱۱۵)۔
اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ۧ (المائدۃ:۵۰)
(اگر یہ اللہ کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔
زیر نظر آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی تردید کرتا ہے جو اس کے ان احکامات سے اعراض کرتے ہیں جن میں خیر ہی خیر ہے جن میں ہر قسم کے شر سے روکا گیا ہے اور ایسی آرا، اقوال اور اصطلاحات کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کو ان لوگوں نے وضع کیا ہے جو شریعت اسلامیہ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں جیسے تاتاریوں نے چنگیز خان کی تقلید اور اس کی آراء کے مطابق فیصلے کرنے شروع کر دیئے۔ چنگیز خان نے یاسق کے نام سے ایک دستور مرتب کیا جو حقیقت میں مختلف مذاہب مثلاً یہودیت و نصرانیت اور ملت اسلامیہ سے مقتبس تھا اور اس انتخاب میں بھی اس نے اپنی خواہشات اور ذاتی نظریہ کو ملحوظ رکھا یہ ایسا مجموعہ ہے جسے اس کے پیروکار کتاب و سنت پر مقدم قرار دیتے ہیں اور اس کو مقدس سمجھتے ہیں۔ پس جو شخص ایسے فعل کا مرتکب ہو گا وہ کافر ہے جس سے اس وقت تک جنگ کی جائے گی جب تک کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع نہ کر لے اور معمولی سے معمولی اور بڑے سے بڑے تنازع میں کتاب و سنت کو حکم نہ مان لے‘‘۔
جو شخص عقل و خرد سے اور غور و فکر سے کام لے گا اس کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے زیادہ عدل کہیں نہیں۔ اللہ احکم الحاکمین ہے اور ماں سے بھی زیادہ اپنی مخلوق پر رحمت و شفقت کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی حاجتوں کو خوب جانتا ہے، وہ ہر چیز کے کرنے پر قدرتِ تامہ رکھتا ہے اس کے اقوال و افعال اور قضاء و قدر میں بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس آیت کریمہ میں جاہلیت کے تمام فیصلوں کو کتاب و سنت کے فیصلوں یک مقابلے میں ترک کر دینے کی وضاحت کی گئی ہے اور جس شخص نے جاہلیت کے فیصلہ کو اپنایا اس نے حق اور احسن فیصلہ سے اعراض کیا اور باطل کو حق کے مقابلے میں ترجیح دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اس شخص کا حکم جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا منکر ہے۔
باب:مَنْ جَحَدَ شَیْئًا مِّنَ الْاَسْمَآءِ وَ الصِّفَاتِ

اس باب میں اُس شخص کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا منکر ہے۔
و قول اﷲ تعالی وَ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ قُلْ ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ مَتَابِ (الرعد:۳۰)
اور یہ لوگ رحمن کو نہیں ما نتے، ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے۔
پیش نظر آیت ِ کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین قریش نے عناد اور بغض کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے نام الرحمن کا انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اِن سے کہو اللہ کہہ کر پکارو یا، رحمن کہہ کر۔ جس نام سے بھی پکارو، اس کے لئے سب اچھے ہی نام ہیں‘‘۔
الرحمن: اللہ کا نام بھی اور صفت بھی اس نام سے پتا چلا کہ رحمت، اللہ کی صفاتِ کاملہ میں سے ایک صفت ہے۔ مشرکین نے اللہ کے اسماء میں سے ایک ایسے اسم کا انکار کیا جو اللہ کی حمد اور اس کے کمال پر دلالت کرتا ہے، الرحمن کا انکار اصل میں اُس کی صفت اور معنی کا انکار ہے۔ جہم بن صفوان اور اس کے ساتھیوں کا گمانِ باطل یہ تھا کہ الرحمن، اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت نہیں جو اللہ کی ذات سے قائم ہو۔ اس کی دیکھا دیکھی معتزلہ، اور اشاعرہ نے بھی اس صفت کا انکار کر دیا۔ اسی وجہ سے اکثر اہل سنت نے ان دونوں فرقوں کو کافر قرار دیا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مختلف شہروں میں ان کے کفر کی تقلید پانچ سو علماء نے کی۔ امام لالکائی نے ان سے اس کو بیان کیا ہے بلکہ اس سے پہلے طبرانی نے بھی بیان کیا ہے‘‘۔
فرقہ جہمیہ اور ان کے پیروکاروں نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا تعطیل کی وجہ سے انکار کیا، جن صفات کو خود رَبِّ کریم نے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا، اس انکار، اور تعطیل کے لئے انہوں نے ایسے اصول مرتب کئے جو بالکل غلط اور باطل تھے۔ انکار کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی صفات اجسام کی ہوتی ہیں، ان صفات کو مان لینے سے اللہ تعالیٰ کا جسم ماننا پڑے گا۔ اس نوع کے دلائل ان کی کم عقلی کی دلیل ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق جیسی صفات خیال کیا۔ شروع شروع میں تو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو بھی مخلوق سمجھ لیا تھا۔ آہستہ آہستہ صفاتِ کاملہ کا انکار کیا، اور ناقصات یعنی جمادات اور معدومات سے تشبیہ دی۔ پہلے تشبیہ دی اور پھر تعطیل تک پہنچ گئے اور تیسری مرتبہ ان کو ناقص اور معدوم اشیاء سے تشبیہ دینے کی جسارت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نصوص کا انکار کر دیا جس میں خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی صفات بیان کی ہیں جو حقیقت میں اس کی عظمت اور جلالت قدر کے لائق ہیں۔ سلف صالحین اور آئمہ کرام ان تمام صفات کو تسلیم کرتے ہیں جو خود اللہ تعالیٰ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بیان فرمائی ہیں۔ آئمہ کرام نے ان تمام صفات کو بلا تمثیل اور بلا تعطیل مانا ہے۔ کیونکہ صفات میں بحث کرنا ذات میں بحث کرنے کے مترادف ہے۔ فرقہ معطلہ والے اللہ تعالیٰ کی ذات کو ثابت کرتے ہیں لیکن تشبیہ کے قائل نہیں ہیں۔پس اہل سنت کا بھی یہی مسلک ہے لیکن اہل سنت ان صفات کو بھی بلا تشبیہ و تمثیل مانتے ہیں جو صفات کہ اللہ نے اپنے لئے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے بیان فرمائی ہیں۔ ان صفات کو مخلوق سے تشبیہ نہیں دیتے، اس لئے کہ اہل سنت کتاب و سنت پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میں تناقص کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن معطلہ سرے سے کتاب و سنت کا ہی انکار کرتے ہیں۔ اور اس میں تناقض ثابت کرنے کیلئے کوشاں ہیں لہٰذا عقل اور نقل دونوں لحاظ سے معطلہ کا مذہب باطل ٹھہرا۔ اس پر اہل سنت، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔ فللّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔
اہل حدیث علمائے کرام اور ان کے متاخرین جیسے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن قدامہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب میں کثیر علماء نے اس موضوع پر وافر ذخیرہ چھوڑا ہے۔
اہل بدعت کی کثرت، اور مختلف آراء کے باوجود ان پاکباز لوگوں نے سنت خیرالوریٰ کو بالکل پاک و صاف اور منزہ رکھنے میں اپنی عزیز عمریں کھپا دیں۔ فجزاھم اﷲ احسن الجزاء۔
و فی صحیح البخاری قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّکَذَّبَ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ
صحیح بخاری میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول مذکور ہے کہ
لوگوں کو وہ باتیں سناؤ جنہیں وہ پہچانیں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا جائے؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زیر نظر جملہ اِرشاد فرمانے کی ضرورت اس لئے محسوس فرمائی کہ ان کے دَورِ خلافت میں لوگ احادیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے، وعظ و ارشاد میں عام قصے کہانیاں بیان کرتے وقت ایسی ایسی باتیں احادیث کے نام سے بیان کرنا شروع کر دی تھیں جن کا کوئی اصل نہ تھا۔ لوگوں نے بعض روایات کو بالکل عجوبہ خیال کیا اور ان کی تردید بھی کی، تاہم ان میں بعض صحیح روایات بھی بیان کی جاتی تھیں۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے واعظین کو ہدایات جاری فرمائیں کہ وعظ و ارشاد میں صرف وہ احادیث بیان کی جائیں جن کی صحت پر یقین ہو، اور جن سے ایک عام آدمی کو دین کے سمجھنے میں مدد ملے۔ جیسے حلال و حرام کی وضاحت کرنا، جس کا ہر شخص مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ بالکل گہرے اور پیچیدہ مسائل کو زیر بحث نہ لایا جائے جن سے ایک عام آدمی حق کو قبول کرنے میں پس و پیش کرے اور جو اس کو تکذیب کی سرحدوں میں پہنچانے کا موجب بنتے ہوں۔ بالخصوص وہ باتیں ہرگز بیان نہ کی جائیں جن میں اختلاف پایا جاتا ہے اور جدل و نزاع کا موجب بنتی ہیں۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی بھی یہی عادت تھی کہ وہ ایسے مسائل بیان فرماتے جن کا تعلق انسان کے دین، عبادات اور معاملات سے ہوتا تھا، اور جن کا جاننا ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔عام لوگوں کو ابن جوزی کی کتب مثلاً المنعش، المرعش، اور تبصرہ کے مطالعہ سے روکا کرتے تھے، کیونکہ ان میں ضروری اور انفع اُمور سے اعراض کیا گیا ہے اور ایسی چیزیں درج کی گئی ہیں جن کا عقیدے سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔
امیر المؤمنین سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ واعظین کو عام قصے کہانیاں بیان کرنے سے روکا کرتے تھے کیونکہ یہ لوگ احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’خود امیر یا امیر کا نمائندہ ہی تقریر و وعظ بیان کر سکتا ہے‘‘۔
اس قسم کی روک تھام کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ صراط مستقیم کی علم و عمل اور یقین محکم کے ذریعے سے حفاظت کی جائے اور یہ بدعت و خرافات سے بچ کر زندگی بسر کی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کسی کو درست اور صحیح رکھ سکتا ہے اور اِسی سے اس کی توفیق مانگتے رہنا چاہیئے۔
متشابہ آیات میں علمائے سلف کے اقوال
مندرجہ ذیل حدیث الدرالمنثور میں موجود ہے، جس کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’پہلی کتاب، ایک ہی دروازے سے ایک ہی طریقے پر نازل ہوئی تھی۔ لیکن قرآن مجید، سات ابواب سے، سات طریقوں پر نازل ہوا اور وہ ہیں: زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال کو حلال قرار دو اور حرام کو حرام سمجھو۔ جو حکم ملتا ہے اس پر عمل کرو۔ جس عمل سے روکا جائے اس سے رُک جاؤ ، جو امثال بیان کی گئی ہیں ان سے نصیحت حاصل کرو۔ محکم آیات پر عمل کرو۔ اور متشابہات پر ایمان رکھو اور اس بات کا اِقرار کرو کہ ہم سب آیات پر ایمان لائے اور تمام قسم کی آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہیں‘‘۔
فیہ مسائل
٭ جو شخص اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دے تو وہ شخص ایمان سے بالکل خالی ہو جاتا ہے۔ ٭ جس بات کو مخاطب نہیں سمجھ سکتا اُسے چھوڑ دینا۔ ٭ اُس علت کا تذکرہ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب تک پہنچا دیتی ہے، اگرچہ انکار کرنے والے کا یہ ارادہ نہ ہو۔ ٭سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا کلام کہ جو شخص ان میں سے کسی کا انکار کرے وہ اُسے ہلاک کر دے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دنیا میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
باب:قال اﷲ تعالی یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اﷲِ ثُمَّ یُنْکَرُوْنَھَا وَ اَکْثَرُھُمُ الْکَافِرُوْنَ

یہ اللہ تعالیٰ کے اِحسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔
قول اﷲ تعالی یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اﷲِ ثُمَّ یُنْکَرُوْنَھَا وَ اَکْثَرُھُمُ الْکَافِرُوْنَ (النحل:۸۳)
یہ اللہ تعالیٰ کے اِحسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اس آیت کریمہ میں جس نعمت کا تذکرہ کیا گیا ہے اس میں علمائے کرائم کی آراء مختلف ہیں۔ سفیان عن السدّی سے منقول ہے کہ اس نعمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی مراد ہے‘‘۔
بعض علمائے کرام کا بیان ہے کہ اس سورت میں جن انعامات کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی حقیقی منعم ہے۔ لیکن اِن مشرکین کا گمانِ باطل یہ ہے کہ وہ ان اِنعامات کے آباؤ اجداد کی طرف سے وارث ہیں۔
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
میں نے اپنا مصحف (قرآن مجید) بارہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو سنایا، میری عادت یہ تھی کہ میں ہر ایک آیت پر رُک جاتا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کرتا کہ: اس آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ اس آیت کے نازل ہونے کی وجہ کیا ہوئی؟ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ جب میری تسلی ہو جاتی تو پھر آگے دوسری آیت پڑھتا۔ زیر بحث آیت کریمہ کے بارے میں ابن جریر رحمہ اللہ مجاہد کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’اس نعمت الٰہی سے گھربار، چوپائے وغیرہ، کھانے پینے کی تمام اشیاء، لوہے اور روئی وغیرہ سے بنے ہوئے کپڑے مراد ہیں۔ کفارِ قریش یہ جاننے کے باوجود کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، اس سے یوں انکار کرتے ہیں کہ ’’یہ تمام اشیاء ہمارے آباؤاجداد کی ہیں جو ہمیں وارث بنا گئے ہیں‘‘۔
بعض علماء نے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ
جب کفار سے پوچھا جاتا کہ تمہیں رزق کون دیتا ہے؟ تو جواب دیتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق رساں ہے، لیکن اس کا بایں طور اِنکار کر دیتے کہ ’’ہم کو یہ رزق ہمارے معبودوں کی سفارش سے ملا ہے‘‘۔
پیش نظر آیت ’’یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اﷲِ ثُمَّ یُنْکَرُوْنَھَا ‘‘ کے متعلق عون بن عبداللہ لکھتے ہیں:
’’مشرکین کا انکارِ انعامات یہ کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر فلاں آدمی نہ ہوتا تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔ یا اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو مجھ پر یہ مصیبت نہ ہوتی‘‘۔
ابن جریر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو پسند کیا ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرے علماء نے اس آیت کریمہ کو عام رکھا ہے۔ کسی ایک معنی میں منحصر نہیں۔ یہی زیادہ بہتر ہے کہ اس آیت میں عمومت کو برقرار رکھا جائے۔ واللہ اعلم ۔

فیہ مسائل
٭ نعمت کی پہچان اور اس کے اِنکار کی جتنی صورتیں ممکن تھیں، ان کی وضاحت کرنا۔ ٭اِنکار کی جتنی صورتیں ہیں وہ اکثر لوگوں کی زبان پر جاری ہیں۔ ٭ایسے کلام کا نام انکارِ نعمت ہے۔ ٭ دِلوں میں اجتماع ضدین پایا جانا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
پس جب تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مقابل نہ ٹھہراؤ۔
باب:فَلَا تَجْعَلُوْ ِﷲِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

پس جب تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھہراؤ۔
فَلَا تَجْعَلُوْ ِﷲِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:۲۲)۔
پس جب تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھہراؤ۔
الند: مثل اور نظیر کو کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ’’ند‘‘ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تمام عبادات کو یا کسی ایک عبادت کو غیر اللہ کے لئے ادا کرے۔ جیسے بتوں کے پجاری اپنے معبودانِ باطل سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کو نفع پہنچانے اور ان سے تکلیف دُور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کرتے ہیں۔ پوری آیت اس طرح ہے:
’’لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے۔ تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت سے ہو سکتی ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھہراؤ‘‘۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابوالعالیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:
’’اللہ کے شریک نہ بناؤ یعنی اس کے برابر شریک‘‘۔
ربیع بن انس، قتادہ، السدی، ابومالک اور اسماعیل بن ابی خالد نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’اپنے معبودانِ باطل کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراؤ کیونکہ وہ نہ تو نفع دے سکتے ہیں اور نہ تکلیف میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ تم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو اور سمجھتے ہو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس توحید خالص کی تمہیں دعوت دے رہے ہیں، وہ حق ہے جس میں کوئی شک نہیں‘‘۔
قتادہ رحمہ اللہ اور مجاہد اس آیت کی تشریح میں انداد کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ
انسان لوگوں میں سے کسی کی اس طرح اطاعت کریں جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو‘‘۔
انداد کے بارے میں ابن زید کا قول یہ ہے کہ
’’انداد، مشرکین کے وہ الٰہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا گیا ہو اور جو صفات اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں، اُن صفات کو اِن انداد میں تسلیم کر لیا گیا ہو‘‘۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انداد کے معنی شبیہ کئے ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ ’’یہود و نصاریٰ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ الٰہ ایک ہی ہے، جیسا کہ تورات اور انجیل میں مذکور ہے‘‘۔
مجاہد رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کے مفہوم کی مزید وضاحت کے لئے ایک حدیث نقل کی ہے جو مسند احمد میں حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو پانچ کلمات کا حکم دیا کہ وہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اِسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیں۔ ممکن ہے کہ وہ اس میں تاخیر کر دیتے کہ اتنے میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ کلمات کا حکم دیا ہے کہ ان پر خود بھی عمل کرو اور بنی اِسرائیل کو بھی اِ ن پر عمل کرنے کا حکم دو۔ یا تو یہ کلمات تم بنی اِسرائیل کو پہنچا دو یا میں پہنچا دوں۔ یحییٰ بن زکریا علیہ السلام بولے: میرے بھائی! مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ اس معاملے میں مجھ سے سبقت لے گئے تو ایسا نہ ہو مجھے اللہ کی طرف سے عذاب دیا جائے یا زمین میں دھنسا دیا جائے۔ چنانچہ سیدنا یحییٰ بن زکریا علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا حتی کہ مسجد بھر گئی۔ انہوں نے ایک بلند مقام پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اور پھر قوم سے اس طرح خطاب فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے پانچ کلمات کا حکم دیا ہے کہ خود بھی اِن پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم دوں۔ پہلا حکم یہ ہے کہ ’’تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ مشرک کی مثال اُس غلام کی سی ہے جسے کوئی شخص اپنے خالص مال سے خرید کر اپنے کاروبار کا مختار بنا دے، لیکن یہ غلام شام کے وقت فروخت شدہ مال کی رقم اپنے آقا کی بجائے دُوسرے کسی شخص کے حوالے کرتا جائے۔ کیا غلام کی اس حرکت کو کوئی عقلمند شخص برداشت کرے گا؟ ہرگز نہیں! پس اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا فرمایا اور وہی رزق دیتا ہے۔ لہٰذا اسی کی خالص عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ ’’میں تم کو نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہوں‘‘۔ جب تک انسان نماز کی حالت میں ہوتا ہے اور دُوسری طرف التفات نہیں کرتا، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ پس جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو کسی دُوسری طرف عنانِ توجہ مبذول نہ کرو۔ تیسرا حکم یہ ہے ’’میں تم کو روزے کا حکم دیتا ہوں‘‘۔ روزہ دار کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے پاس کستوری کی تھیلی ہو اور اُس کے تمام ساتھی اس کی خوشبو محسوس کر رہے ہوں۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے۔ چوتھا حکم یہ ہے ’’میں تم کو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا ہوں‘‘ ۔ صدقہ و خیرات کرنے والے شخص کی مثال اُس قیدی کی سی ہے جس کے ہاتھ دُشمن نے اُس کی گردن سے باندھ دیئے ہوں اور اُسے قتل کرنے کے لئے مقتل کی طرف لے جا رہے ہوں وہ قیدی دشمن سے کہے کہ کیا میں اپنی جان جرمانہ ادا کر کے بچا سکتا ہوں؟ اور وہ دشمن کے کہنے پر اپنا سب چھوٹا موٹا مال دے کر اپنے آپ کو بچا لے۔ پانچواں حکم یہ ہے ’’میں تم کو اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیتا ہوں‘‘۔ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے والے شخص کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس کو پکڑنے کے لئے دشمن اس کا پیچھا کر رہا ہو اور یہ شخص ایک قلعہ میں آکر پناہ گزین ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے، وہ شیطان کی شرارتوں سے ایسا محفوظ رہتا ہے جیسے کسی مضبوط قلعہ میں محفوظ ہو گیا ہو‘‘۔
یہ حدیث حسن ہے اور اس آیت سے اس کی شہادت ملتی ہے:
’’کہ یقینا اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور اسی نے تمہیں رِزق عطا فرمایا۔ پس تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘‘۔
زیرنظر آیت کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنی چاہیئے کیونکہ وہ یکتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
زیر بحث آیت کریمہ سے اکثر مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت سی آیات موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں ابو نواس سے پوچھا گیا تو اُس نے فی البدیہہ اشعار میں اس کا جواب یوں دیا:
(ترجمہ) زمین کی انگوری میں غور کر، اور دیکھ ان آثار کو کہ شاہ کی کاریگری نے کیا کچھ کر دیا۔ چاندی کی آنکھیں ایسی نگاہوں سے دیکھتی ہیں جو پگھلا ہوا سونا معلوم ہوتی ہیں۔ سونے کے منبر پر شہادت دینے والے کھڑے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے۔
اللہ کے وجود پر ابن المعتز نے جو اشعار کہے وہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں وہ کہتا ہے:
(ترجمہ) تعجب ہے کہ منکر کیسے اللہ کی نافرمانی کرتا ہے یا کیسے اس کا انکار کرتا ہے۔ حالانکہ ہر چیز میں اس کی ایک علامت موجود ہے جو بتاتی ہے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے۔
جناب عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اس آیت کے بارے میں کہا ہے کہ
’’انداد شرکِ مخفی ہے جیسے کہ سیاہ چیونٹی اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر چلے اور وہ اس طرح کہ تم کہو، اللہ کی قسم، تیری ماں کی قسم، اے فلانی، میری جان کی قسم۔ اور یہ کہے کہ اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو ہمارے ہاں چور آجاتے اور اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو ہمارے ہاں چور آجاتے۔ اور یہ کہ انسان اپنے ساتھی سے کہے ’’جو اللہ چاہے اور تم چاہو‘‘ اور یہ کہ ’’اللہ اور فلاں شخص نہ ہوتا‘‘ تو اس میں ’’فلاں‘‘ نہ رکھ کیونکہ یہ سب باتیں اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تعریف میں آتی ہیں‘‘۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
یہ سب شرک ہے اور اِس دَور میں اس قسم کے الفاظ لوگ کثرت سے استعمال کرتے ہیں جو نہ توحید کی معرفت رکھتے ہیں اور نہ شرک کی سنگینی سے واقفیت۔ لہٰذا ہر شخص کو ان اُمور سے بچتے رہنا چاہیئے کیونکہ یہ گناہ اکبر الکبائر میں سے ہیں اس لئے ان سے سختی سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیئے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کیا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میرے لئے غیر اللہ کی قسم کھانے سے اللہ کی جھوٹی قسم کھانا زیادہ بہتر ہے‘‘۔
ہر شخص کو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسمیں کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لیکن شرک تمام بڑے بڑے گناہوں سے زیادہ سنگین ہے اگرچہ شرکِ اصغر ہی کیوں نہ ہو۔ شرکِ اصغر جب تمام کبیرہ گناہوں سے زیادہ سنگین ہے تو اس سے شرکِ اکبر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو خلودِ جہنم کا موجب ہے۔
شرکِ اکبر میں سے چند اعمال مندرجہ ذیل ہیں: ٭غیر اللہ کو مصائب و مشکلات میں پکارنا۔ ٭غیر اللہ سے استغاثہ کرنا۔ ٭غیر اللہ کی طرف توجہ اور رغبت کرنا۔ ٭ اپنی حوائج اور ضروریات کو غیر اللہ کے سامنے پیش کرنا۔ ٭ قبروں کی تعظیم کرنا۔ ٭قبروں کی بایں طور پر تعظیم کرنا کہ ان کو وثن بنا لیا جائے۔ ٭قبروں پر تعمیرات کرنا اور بڑے بڑے قبے بنا ڈالنا۔ ٭قبروں میں مساجد تعمیر کرنا اور ان کو سجدہ گاہ قرار دینا۔ ٭صاحب قبر کے نام پر قبہ بنانا تاکہ صاحب قبر کی عظمت باقی رہے۔ ٭اور صاحب قبر کی طرف اقوال و اعمال اور دل سے متوجہ ہونا وغیرہ۔
اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثریت ان افعال و اعمالِ شرکیہ میں غرق ہو چکی ہے۔ یہ ایسا شرک ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ یہ ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ نام نہاد مسلمانوں نے قرآن کریم کی واضح اور بین آیات کو جن میں سے اس شرک کی نفی کی گئی ہے ترک کر دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے:
(ترجمہ) ’’اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھٹلائے۔ ایسے لوگ اپنے نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے، یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائے کی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی رُوحیں قبض کرنے کے لئے پہنچیں گے اُس وقت اُن سے پوچھیں گے کہ بتاؤ اب کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم اللہ کے بجائے پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ’’سب ہم سے گم ہو گئے‘‘۔ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکر حق تھے‘‘۔ (الاعراف:۲۷)۔
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو کافر قرار دیا ہے جو اِس دُنیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارا کرتے تھے۔ ایک مقام پر ارشادِ الٰہی ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو‘‘۔ (الجن:۱۸)۔
ایک مقام پر فرمایا:
(ترجمہ) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو کہ میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔ کہو ’’میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں، نہ بھلائی کا‘‘۔ (الجن:۲۰ تا ۲۱)۔
مشرکین کا بُرا ہو کہ اُنہوں نے احکام الٰہی اور فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی مخالفت کی اور جس چیز سے روکا گیا تھا اُس پر عمل کیا جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، اور غیر اللہ پر توکل اور بھروسہ کرنا وغیرہ۔ افسوس کہ بعض لوگوں نے اپنے اشعار میں یوں کہا:
’’اے معزز ترین مخلوق! تیرے سوا میرا کوئی ایسا نہیں جس کی میں عام مصیبتوں کے آنے پر پناہ لے سکوں۔ اگر تو مہربانی فرما کر قیامت کو میرا ہاتھ نہ پکڑے تو کہہ، ہائے قدم کا پھسلنا۔ تیری سخاوت میں سے دُنیا اور اس کی سوت (آخرت) ہے اور تیرے ہی علم میں سے لوح و قلم ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا اشعار میں کس قدر جہالت اور گمراہی بھری ہوئی ہے۔ شاعر اپنا عقیدہ بیان کرتا ہوا کہتا ہے کہ نجاتِ اُخروی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ غیر اللہ کی پناہ حاصل نہ کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر اُن حدود سے تجاوز کر گیا ہے جن سے تجاوز کرنا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’میری تعریف میں غلو نہ کرنا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق غلو کیا تھا۔ میں صرف ایک بندہ ہوں، مجھے صرف اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہا کرو‘‘۔ (رواہ مالک وغیرہ)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں‘‘۔ (انعام:۵۰)۔
مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی اور (ترجمہء) اشعار میں بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے بلکہ حقیقت میں یہ اشعار اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہیں۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ ’’جو اللہ چاہے اور فلاں شخص چاہے‘‘۔ بلکہ یہ کہو ’’جو اللہ چاہے اور پھر جو فلاں شخص چاہے‘‘۔

فیہ مسائل
٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ وہ شرکِ اکبر کے متعلق جو آیت نازل ہوتی اسے شرکِ اصغر پر بھی محمول کرتے۔ ٭غیراللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے۔ ٭غیر اللہ کے نام کی سچی قسم کھانا، اللہ کی جھوٹی قسم کھانے سے بھی بدترین فعل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
باب: باپ دادا کی قسم کی ممانعت اور قسم لینے کے بعد حسن ظن رکھنے کے متعلق…
باب:ما جاء فیمن لم یقنع بالحلف باﷲ

اس باب میں کہ بیان کیا گیا ہے کہ اپنے آباؤاجداد کی قسم نہیں کھانی چاہئے اور قسم لینے والے کا فرض ہے کہ قسم کے بعد اپنے مخالف سے متعلق حسن ظن رکھے
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا تَحْلِفُوْا بِاٰبَآئِکُمْ مَنْ حُلِفَ لَہٗ بِاﷲِ فَلْیُصَدِّقْ وَمَنْ حُلِفَ لَہٗ بِاﷲِ فَلْیَرْضَ وَ مَنْ لَّمْ یَرْضَ فَلَیْسَ مِنَ اﷲ (ابن ماجہ بسند حسن)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اپنے باپ دادوں کی قسمیں نہ کھاؤ۔ جو اللہ کی قسم کھائے وہ سچ بولے۔ اور جس کے لئے اللہ کی قسم کھائی، اُسے راضی رہنا چاہیئے اور جو راضی نہ ہو، وہ عباد اللہ (اللہ کے نیک بندوں) میں سے نہیں ہے۔
غیراللہ کے نام کی قسم اٹھانے کی نفی اور تردید کے بارے میں گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے۔ سچی بات ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کریم نے اپنے نبیوں پر واجب قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں اِس عمل کی خصوصی طور پر ترغیب دی ہے، فرمایا:
(ترجمہ) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ (توبہ:۱۱۹)۔ ’’راست باز مرد اور عورتیں‘‘۔ (الاحزاب:۳۵)۔ ’’اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے سچے رہتے تو اُن کے لئے بہت ہی بہتر تھا‘‘۔ (محمد:۲۱)۔ متقی اور پرہیزگار افراد کی یہی علامتیں ہیں۔ ایسے ہی افراد کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ قیامت اور ملائکہ اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو اور اُس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال، رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق اور باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘ (البقرۃ:۱۷۷)۔
شریعت اسلامیہ کی ہدایات اور احکام کی روشنی میں جب مدعا علیہ سے قسم اٹھوانے کی نوبت آجائے اور وہ اس سے قسم لے تو مدعی کو لازم ہے کہ اس کی قسم کا اعتبار کرے اور راضی ہو جائے۔ جب صورتِ حال یہ ہو کہ ایک دوسرے کے معاملات چل رہے ہوں تو مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ اس کا عذر قبول کرتے ہوئے یا تہمت و برائی سے اس کے اظہارِ برات کے پیش نظر قسم کھانے والے کی قسم منظور کرے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اُس کے ساتھ حسن ظن رکھے جب تک کہ اُس کے خلاف کوئی بات واضح نہ ہو جائے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثر میں بتایا گیا ہے۔
’’مسلمان کی زبان سے جو بات نکلے اُس سے شر کا مفہوم نہ لو جب تک کہ تم اِس سے خیرکا محل پاتے ہو‘‘۔
اس حدیث میں تواضع، انکساری، اُلفت اور محبت وغیرہ اوصاف پنہاں ہیں جو اللہ کریم کو انتہائی محبوب اور پسندیدہ ہیں۔ صاحب عقل و بصیرت شخص سے یہ باتیں پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہ ایسے اسباب اور اعمال ہیں جنکے انجام دینے سے لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر جمع ہو جاتے ہیں یہ اوصاف جس خوش نصیب کے دل میں ودیعت کر دیئے جائیں وہ حسن اخلاق کے اُس بلند ترین مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال میں یہ اوصاف سب سے وزنی ہوں گے۔ یہ مکارمِ اخلاق کی آخری کڑی ہیں جیسا کہ حدیث میں موجود ہے۔
ترمذی میں سیدنا ابی الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’قیامت کے دن مومن کی میزان میں حسن خلق سے زیادہ اور کوئی شے وزنی نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ بداخلاق، بدگو پر سخت غصے کا اظہار کرتا ہے‘‘۔
اے نفس کے خیر خواہ! ان باتوں پر غوروفکر کر، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری صلاح و خیر خواہی کا باعث ہوں، جیسے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری، ایسے کام کر، جن سے عام مسلمانوں میں خوشی اور مسرت پیدا ہو، ایسے اُمور سے اجتناب کر جن سے اپنی برتری اور دُوسروں سے اِنقباض نمایاں ہو کیونکہ ان اُمور میں ایسا خطرناک پہلو ہے جو نہ عقل میں آتا ہے اور نہ اسے دل ہی محسوس کرتا ہے۔

فیہ مسائل
٭ والدین کی قسم اُٹھانے کی ممانعت۔ ٭ جس شخص کے لئے اللہ کے نام کی قسم لی گئی اُسے قسم کے بعد راضی ہونے کا حکم۔ ٭ جو شخص قسم لینے کے بعد بھی راضی نہ ہو اُس کو وعید۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
’’جو اللہ چاہے اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ چاہیں‘‘ کے الفاظ شرک ہے۔
باب:قول ما شاء اﷲ و شئت

جو اللہ چاہے اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ چاہیں کے الفاظ زبان سے نکالنا شرک ہے۔ زمانہ نبوی کے یہودی اور عیسائی بھی ان الفاظ کو شرک قرار دیتے تھے۔
عن قتیلہ رضی اللہ عنہا اَنَّ یَھُوْدِیًّا اَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنَّکُمْ تُشْرِکُوْنَ تَقُوْلُوْنَ مَاشَآءَ اﷲُ وَ شِئْتَ وَ تَقُوْلُوْنَ وَالْکَعْبَۃِ فَاَمَرَھُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَرَادُوْا اَنْ یَّحْلِفُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ وَ اَنْ یَّقُوْلُوْا مَا شَاؓءَ اﷲُ ثُمَّ شِئْتَ (رواہ النسائی و صححہ)۔
سیدہ قتیلہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا:
کہ تم لوگ بایں طور مرتکب شرک ہوتے ہو کہ کہتے ہو، جو اللہ چاہے اور تم چاہو نیز کہتے ہو کعبہ کی قسم! پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانا چاہیں تو (کعبہ کی قسم نہ کہیں بلکہ) ربِّ کعبہ کی قسم کہیں اور یہ کہیں کہ جو اللہ چاہے اور پھر تو چاہے۔
زیر نظر حدیث سے پتا چلتا ہے کہ ٭ حق بات کہنے والا کوئی بھی ہو اُسے تسلیم کر لینا چاہیئے۔ ٭ کعبہ کی قسم نہ اُٹھانی چاہییے، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہی وہ بیت اللہ ہے کہ حج و عمرہ کرنے کے لئے جس کا قصد کرنا فرض ہے۔ اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے کی ممانعت عام ہے نہ کسی مقرب فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو، نہ بیت اللہ کو، غرض یہ کہ کسی کو بھی اللہ کریم کے ساتھ شریک بنانا حرام ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل عوام بیت اللہ کی قسمیں اٹھانا اور اس سے ایسا سوال کرنا جسے صرف اللہ تعالیٰ ہی پورا کر سکتا ہے، جیسے قبیح عمل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہر عقلمند، اور صاحب بصیرت شخص کے سامنے یہ مسئلہ واضح ہے کہ بیت اللہ نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے اور نہ کسی کو ادنیٰ سی مصیبت میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اللہ کریم نے تو صرف اس کا طواف کرنا اور اس کے اندر عبادت کرنا جائز قرار دیا ہے اور اس کو اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قبلہ مقرر فرمایا ہے۔ بیت اللہ کا طواف کرنا جائز اور اس کے نام کی قسم اٹھانا اور اس سے دعا و التجاء کرنا حرام ٹھہرا دیا ہے۔ لہٰذا ہر عقلمند شخص کو ان اُمور میں جو بیت اللہ میں جائز، اور بعض ممنوع ہیں فرق کرنا ضروری ہے اگرچہ ساری دُنیا مخالف اور دشمن ہو جائے۔
انسان کتنی بھی تدبیریں سوچے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اِرادہ، اللہ کریم کے ارادے کے تحت اور تابع ہے۔ انسان کو اپنے ارادے کے انجام دینے کی قطعاً قدرت نہیں ہے جب تک کہ اللہ کریم نہ چاہے۔ اور وُہی کام ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ جیسے فرمایا:
’’اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ ربُّ العالمین نہ چاہے‘‘۔ (التکویر:۲۹)۔
ایک دوسرے مقام پر اِرشادِ الٰہی ہے: ’’یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔ یقینا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے‘‘۔
ان آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، قدریہ، اور معتزلہ کی تردید ہوتی ہے۔ یہ دونوں فرقے تقدیر الٰہی کے منکر ہیں۔ ان گمراہ فرقوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیت کے خلاف، انسان کام کر سکتا ہے۔ ان کے اس باطل عقیدہ کی تردید آئندہ صفحات میں تفصیل سے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
یہ فرقے اُمت محمدیہ کے مجوسی ہیں۔ اہل سنت والجماعت کا وہی عقیدہ اور موقف ہے جسے قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ شریعت کے مخالف اور موافق اعمال و اقوال میں انسان کے تمام ارادے اللہ تعالیٰ کے ارادے کے تابع ہیں۔ انسان کے وُہ ارادے جو شریعت مطہرہ کے موافق ہیں اللہ کریم ان سے راضی اور خوش ہوتا ہے اور وہ عزائم جو شریعت اسلامیہ سے متصادم ہیں ان کو اللہ ناپسند کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے لیکن وہ اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (الزمر:۷)۔
زیرنظر حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کعبہ کی قسم اٹھانا شرک ہے کیونکہ آنے والے یہودی نے یہی کہا تھا ’’تم شرک کرتے ہو‘‘۔ اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشادِ گرامی بھی گزشتہ حدیث کی تائید کرتا ہے کہ غیر اللہ کی قسم اُٹھانا اور مَا شَآءَ اﷲ وَ شِئْتَ کہنا شرک ہے۔
اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ جو شخص کسی بندے کو اللہ کریم کے برابر قرار دے، اگرچہ یہ برابری شرکِ اصغر میں ہی کیوں نہ ہو گویا اُس نے اللہ تعالیٰ کا ’’ند‘‘ اور مثیل قرار دیا۔ خواہ یہ شخص مانے یا انکار کرے، اس سلسلے میں کم عقل اور جاہل لوگوں کی اس بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جن کا کہنا ہے کہ جب تک ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کریں اور شرک اکبر و شرک اصغر میں سے کسی منہیہ عنہ کا ارتکاب نہ کریں اس وقت تک ہم مشرک نہ ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے ’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘۔
و لابن ماجۃ عن الطفیل اخی عائشۃ رضی اللہ عنہا قال رَاَیْتُ فِیْمَا یَرَ النَّآئِمُ کَاَنِّیْ اَتَیْتُ عَلٰی نَفَرٍ مِّنَ الْیَھُوْدِ قُلْتُ اِنَّکُمْ لَاَنْتُمْ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ عُزَیْرُ ابْنُ اﷲِ قَالُوْا وَ اِنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ مَاشَآءَ اﷲُ وَ شَآءَ مُحَمَّدٌ ثُمَّ مَرَرْتُ بِنَفَرٍ مِّنَ النَّصَارٰی فَقُلْتُ اِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ الْمَسِیْحُ ابْنُ اﷲِ قَالُوْا وَ اِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ مَاشَآءَ اﷲُ وَ شَآءَ مُحَمَّدٌ فَلَمَّا اَصْبَحْتُ اَخْبَرْتُ بِھَا مَنْ اَخْبَرْتُ ثُمَّ اَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَخْبَرْتُہٗ قَالَ ھَلْ اَخْبَرْتَ بِھَا اَحَدًا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَحَمِدَ اﷲَ وَ اَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ طُفَیْلاً رَاٰی رُؤْیًا اَخْبَرَ بِھَا مَنْ اَخْبَرَ مِنْکُمْ وَ اِنَّکُمْ قُلْتُمْ کَلِمَۃً کَانَ یَمْنَعْنِیْ کَذَا وَ کَذَا اَنْ اَنْھَاکُمْ عَنْھَا فَلَا تَقُوْلُوْا مَاشَآءَ اﷲُ وَ شَآءَ مُحَمَّدٌ وَلٰکِنْ قُوْلُوْا مَاشَآءَ اﷲُ وَحْدَہٗ
سنن ابن ماجہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادر زاد بھائی سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس پہنچا میں نے کہا تم بہتر لوگ ہو اگر سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہ کہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ تم بھی بہتر لوگ ہو اگر یہ نہ کہو کہ
’’جو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں‘‘۔
پھر عیسائیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا،میں نے کہا تم بہت اچھے لوگ ہو اگر سیدنا مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہ کہو۔ انہوں نے کہا کہ تم بھی اچھے لوگ ہو، اگر ’’جو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہے‘‘ کے الفاظ نہ کہو۔ صبح ہوئی تو میں نے یہ بات کچھ لوگوں کو بتائی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات عرض کی۔ فرمایا کسی اور کو بھی بتایا؟ عرض کی جی ہاں! (آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا:
اما بعد! طفیل (رضی اللہ عنہ ) نے ایک خواب دیکھا ہے جو تم میں سے بعض کو بتا بھی دیا ہے، تم ایک ایسا جملہ بولتے تھے کہ میں اِس سے تم کو روکنے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ تم آئندہ ’’جو اللہ اور محمد چاہے‘‘ نہ کہا کرو بلکہ کہا کرو ’’جو اکیلا اللہ چاہے‘‘
پیش نظر حدیث میں جس خواب کا تذکرہ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کیا ہے وہ سچا خواب تھا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق فرمائی اور اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید بھی فرمائی۔ اس حدیث میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت سے فرمایا: ’’وہی کام ہو گا جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ چاہیں گے، کہنا حرام ہے‘‘۔ بلکہ اس حدیث اور گزشتہ حدیث دونوں میں فرمایا کہ صرف ’’جو اللہ اکیلا چاہے کہا کرو‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ اس حدیث میںجس عمل پر حکم کرنے کو کہا گیا ہے وہ اخلاص کا مکمل اور اعلیٰ ترین مقام ہے اور شرک سے بہت دُور ہے۔ کیونکہ اِس میں اس توحید کی صراحت ہے جو تہدید کے ہر پہلو کی نفی کرتی ہے۔ لہٰذا ہر عقلمند اور صاحب بصیرت شخص توحید اور اخلاص کے اعلی مقام کو ہی اپنے لئے پسند کرے گا۔
طفیل رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کی خواب سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں اس مذکورہ حدیث میں مذکور الفاظ کہنے کو سختی سے منع فرمایا اور دِین اسلام کے مکمل ہونے تک اس مسئلہ کو بار بار ذہن نشین کرواتے رہے، اور اس کی تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔
طفیل بن عبداللہ کے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی جھلک پائی جاتی ہے! جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’اچھا خواب نبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے۔

فیہ مسائل
٭ شرک اصغر سے یہودیوں کا آگاہ ہونا۔ ٭ خواہشات کے دباؤ کے وقت اِنسان کا شرک سے متعلق خوب آگاہ ہونا۔ ٭ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا ہے ۔ ٭ ماشاء اﷲ و شاء محمد کہنا شرک اصغر ہے نہ کہ شرک اکبر۔ ٭ اچھا خواب وحی کی اقسام میں سے ہے۔ ٭ اچھا خواب بعض اوقات کسی حکم کی وضاحت اور تشریح کے لئے دکھائی دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
زمانے کو گالی دینا اللہ تعالیٰ کو ایذا رسانی کے مترادف ہے۔
باب:من سب الدھر فقد اذی اﷲ

اس باب میں اس اہم بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ زمانے کو گالی دینا اللہ تعالیٰ کو ایذا رسانی کے مترادف ہے۔
وقول اﷲ تعالی وَ قَالُوْا مَا ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا یُھْلِکُنَااِلاَّ الدَّھْرُ وَ مَا لَھُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ھُمْ اِلاَّ یٍَظُنُّوْنَ (الجاثیۃ:۲۴)۔
اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دُنیا ہی کی ہے کہ یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں، صرف گمان سے کام لیتے ہیں۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’اللہ تعالیٰ دھریہ اور کفار، اور ان کے ہمنوا مشرکین عرب کے قیامت کے انکار کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ دنیوی زندگی کو ہی اصل قرار دیتے ہیں جس میں ایک کے بعد دوسری قوم آتی اور اپنی زندگی گزار کر چلی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک دوبارہ اٹھائے جانے، اور قیامت کے برپا ہونے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے‘‘۔
یہ تھا مشرکین عرب کا عقیدہ جو معاد کے منکر تھے اور فلاسفہ الٰھیین کا بھی یہی عقیدہ ہے جو نہ تو ابتدائے آفرنیش کے قائل ہیں اور نہ قیامت کو مانتے ہیں۔ نیز فلاسفہ دہریہ یا فلاسفہ دَوریہ کا بھی یہی عقیدہ ہے یہ لوگ صانع حقیقی کے منکر ہیں۔ مزید برآں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد دوبارہ ہر چیز اپنی پہلی شکل و صورت میں آجاتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے اور رہے گا۔پس ان لوگوں نے ہر معقول بات اور منقول دلائل کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ
’’ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے‘‘
۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ان کو اس کا کچھ بھی علم نہیں وہ صرف ایک گمان رکھتے ہیں‘‘۔
ان مشرکین کی یہ اپنی خیالی باتیں ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
و فی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی یُؤْذِیْنِی ابْنُ اٰدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَ اَنَا الدَّھْرُ اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ و فی روایۃ لَا تَسُبُّوا الدَّھْرَ فَاِنَّ اﷲَ ھُوَ الدَّھْرُ
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: کہ ابن آدم زمانہ کو گالی دے کر مجھے تکلیف دیتا ہے کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں دِن اور رات میں تبدیلی میں ہی کرتا ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’زمانہ کو گالی نہ دو کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے‘‘۔
صحیحین، ابوداؤد، اور نسائی کی وہ روایت جو سفیان بن عینیہ، عن الزہری عن سعید بن المسیب عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ فرماتا ہے کہ: ’’ابن آدم زمانے کو گالی دے کر مجھے تکلیف پہنچاتا ہے کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام اُمور کی باگ ڈور ہے، دن اور رات میں تبدیلی میرا کام ہے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ
زمانے کو گالی نہ دیا کرو کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ
ابن آدم کو یہ بات نہ کہنی چاہیئے کہ اے زمانے! تیرا ستیاناس ہو، کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں۔ دن رات کو میں ہی بھیجتا ہوں، میں جب چاہوں گا اِن کو ختم کر دوں گا‘‘۔
مشرکین عرب کا یہ دستورتھا کہ وہ زمانے کی مذمت کیا کرتے تھے۔ جب بھی اُن پر کوئی آفت اور مصیبت نازل ہو جاتی تو زمانے کو گالی دینا شروع کر دیتے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ان مصائب و مشکلات کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ ہم کو زمانے کے نشیب و فراز نے تباہ کر دیا ہے۔ تو نتیجتاً ان کی گالیوں کا براہِ راست ہدف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی ہوتی کیونکہ حقیقی طور پر وہ تمام اُمور جو مشرک سرانجام دیتے ہیں ان کا فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا زمانے کو گالیاں دینے سے روک دیا گیا‘‘۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے اپنے بندے سے قرض طلب کیا اور اُس نے مجھے نہیں دیا۔ اور الٹا مجھے یوں گالی دی کہ ’’ہائے زمانہ‘‘ کیونکہ میں ہی حقیقت میں زمانہ ہوں۔
ابن حزم رحمہ اللہ اور ان کے ہمنوا علمائے ظاہریہ نے اسی حدیث کو سامنے رکھ کر الدہرؔ کو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں شمار کیا ہے۔ ان کا یہ قیاس اور اجتہاد درست نہیں۔ الدہرؔ کے معنی کی خود اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ ’’رات اور دن کو میں ہی بدل کر لاتا ہوں‘‘۔ زمانے میں انقلاب و تغیر صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ ان میں بعض تغیرات کو لوگ اچھا سمجھتے ہیں اور بعض کو ناگوار قرار دیتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جو کچھ زمانے میں خیر و شر کا وقوع ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور اُس کے علم میں ہے اور اس کی حکمتوں کے مطابق ہو رہا ہے۔ جس میں کسی غیراللہ کو قطعی طور سے شرک نہیں ہے۔ کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا دونوںصورتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اُس سے حسن ظن رکھنا چاہیئے اور انتہائی درماندگی اور بے بسی کی حالت میں اس کی رحمت کی اُمید ہونی چاہیئے اور اسی سے توبہ و استغفار کرنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اور ہم آسائشوں اور تکلیفوں (دونوں) سے اُن کی آزمائش کرتے رہے تاکہ وہ ہماری طرف رجوع کریں‘‘۔ (الاعراف:۱۶۸)۔
ایک مقام پر ارشادِ ربانی ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (الانبیاء:۳۵)۔
فیہ مسائل
٭ زمانے کو گالی دینے سے روکنا۔ ٭ زمانہ کو گالی دینا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو ایذا دینا ہے۔ ٭ زمانے کو برا کہنا بعض اوقات گالی ہی ہوتا ہے اگرچہ انسان کے دِل میں گالی دینا مقصود نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
کسی کو ’’قاضی القضاہ‘‘ یعنی چیف جسٹس کہنے کی ممانعت۔
باب:التسمی بقاضی القضاۃ و نحوہٖ

مصنف رحمہ اللہ نے کسی کو ’’قاضی القضاۃ‘‘ کہنے کی ممانعت میں یہ عنوان تجویز کیا ہے۔ آئندہ سطور میں آنے والی حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس کی خالق حقیقی سے مشابہت پائی جاتی ہے۔
وفی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اَخنَعَ اِسْمٍ عِنْدَ اﷲِ رَجُلٌ تُسَمّٰی مَلِکَ الْاَمْلَاکِ لَا مَالِکَ اِلاَّ اﷲُ قَالَ سُفْیَانُ مِثْلَ شَاھَانِ شَاہْ و فی روایۃ اَغْیَظُ رَجُلٍ عَلَی اﷲِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ اَخْبَثُہٗ قولہ اَخْنَعَ یَعْنِیْ اَوْضَعَ
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ حقیر شخص وہ ہے جو اپنے آپ کو شہنشاہ کہلاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی شہنشاہ نہیں ہے۔ سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں،
جیسے شاہانِ شاہ۔ ایک روایت میں ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب اور خبیث کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ اخنع کے معنی سب سے زیادہ ذلیل و خوار۔
مَلِکُ الْاَمْلَاکِ کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بولا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے بڑا، اور عظیم کوئی بادشاہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ مالک الملک ذوالجلال والاکرام ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور وہ بھی عارضی طور پر اور جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے کہ وہ اقتدار کو ایک سے چھین کر دوسرے کے سپرد کر دیتا ہے۔ ثابت ہوا کہ دنیا کی سلطنت عارضی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ البتہ ربُّ العالمین اور احکم الحاکمین کی بادشاہت کامل اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس کی نہ کوئی انتہا ہے اور نہ اس کو کبھی ختم ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں انصاف ہے وہ اس کی وجہ سے کسی کو بلند کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر کسی کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کی تفصیلات کو اپنے علم اور اپنے فرشتوں یعنی کراماً کاتبین کے ذریعہ محفوظ رکھتا ہے۔ ان ہی اعمال کے مطابق انسان کو بدلہ ملے گا۔ اگر اچھے کام کئے تو اجر ملے گا ورنہ عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے اللہ! تمام حمدیں تیرے ہی لئے ہیں اور ساری کائنات کی بادشاہت تیری ہی ہے ہمہ قسم کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے تمام اُمور کی باگ ڈور تیرے ہی قبضے میں ہے۔ اے اللہ! میں تمام بھلائیاں تجھی سے مانگتا ہوں اور ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
پس ایسے شخص کے بارے میں یہ دو اُمور بیک وقت جمع ہونے کی دو وَجہیں تھیں۔ ایک یہ کہ اُس نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھا، اور دوسری یہ کہ لوگ اس کلمہ کی وجہ سے اسے بڑا سمجھیں چانچہ یہ دونوں وصف ایسے ہیں جن کا یہ اہل نہ تھا۔ نتیجہ یہ شخص تمام مخلوقِ الٰہی سے زیاد خبیث اللہ کے نزید مغضوب علیہ اور حقیر ترین بن گیا اور خبیث اور مبغوض شخص قیامت کے دن تمام مخلوق سے زیادہ حقیر اور ذلیل متصور ہو گا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بنا پر مخلوقِ الٰہی کے سامنے اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرتا رہا۔
زیر بحث حدیث میں ہر اُس امر سے ڈرایا گیا ہے جس میں اپنے آپ کو بڑا بنانے کا اظہار کیا گیا ہو۔ اس سلسلے میں سنن ابی داؤد میں ابن ابی مجلز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا ابن زبیر اور ابن عامر رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لائے تو ابن عامر نے کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ لیکن ابن زبیر رضی اللہ عنہ بدستور بیٹھے رہے۔ یہ دیکھ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عامر سے کہا کہ آپ بھی بیٹھ جائیں کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:
’’جو شخص یہ چاہے کہ دوسرے لوگ اُس کے لئے کھڑے ہوں تو اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم قرار دے لینا چاہیئے‘‘۔ (ترمذی)۔
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عصا پر ٹیک لگائے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عجمیوں کی طرح کسی کی تعظیم کے لئے کھڑے نہ ہوا کرو جس سے ایک دوسرے کی عظمت ہوتی ہو‘‘ (ابوداؤد)
یہ صفت ان صفات سے ہے جن کو جوں کا توں سمجھنا ضروری ہے۔ اسی طرح کتاب و سنت میں جو صفات مذکور ہیں ان کا اتباع اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کو لائق ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو بلا تمثیل و تنزیہہ، اور بلا تعطیل ثابت مانتے ہیں۔ اہل سنت، صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین اور ان کے بعد تمام اسلامی فرقوں کا یہی مسلک اور مذہب ہے۔ اور وہ اختلاف جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے،یہ تیسری صدی ہجری کے آخری دَور کی پیداوار ہے۔ اور اسی تفریق اور اختلاف کی وجہ سے اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم صراط مستقیم سے ہٹ گئی ہے۔ یہ بات ہر اُس شخص کو معلوم ہے جو تاریخ پر گہری نگاہ رکھتا ہے۔ واللہ المستعان۔

فیہ مسائل
٭ کسی کو مَلِکَ الْاَمْلَاکِ یعنی شہنشاہ یا شاہانِ شاہ کے نام سے موسوم کرنے کی ممانعت۔ ٭ہر وہ لفظ یا جملہ جس سے مَلِکَ الْاَمْلَاکِ کے معنی ظاہر ہوں، اس کی ممانعت۔ ٭اس باب میں اور دوسرے تمام مقامات پر جہاں اس قسم کی شدت اختیار کی گئی ہے، اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت۔ اگرچہ دِلی کیفیت اس کے مفہوم و معنی کی متحمل نہ بھی ہو پھر بھی اس قسم کے القاب و اسماء کا استعمال ممنوع ہے۔ ٭اس بات کو بھی خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ اس نوعیت کی تمام شدتیں صرف اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت ہی کی وجہ سے اختیار کی گئی ہیں۔
 
Top