- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
دنیوی اغراض کے پیش نظر کوئی بھی عمل شرک کی تعریف میں آتا ہے۔
باب:مِنَ الشِّرْکِ اِرَادَۃُ الْاِنْسَانِ بِعَمَلِہِ الدنیا
باب:مِنَ الشِّرْکِ اِرَادَۃُ الْاِنْسَانِ بِعَمَلِہِ الدنیا
اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان اگر دنیوی اغراض کے پیش نظر کوئی عمل کرے تو یہ بھی شرک کی تعریف میں آتا ہے۔
قولہ تعالٰی مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا الدُّنْیَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (سورئہ ھود:۱۵تا۱۶)
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس میں اور اس سے پہلے کے ترجمہ باب میں کیا فرق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ یہ دونوں حقیقت میں مشترک ہیں کہ جب انسان اپنے کسی عمل سے لوگوں کی نظر میں اپنے لئے تزین و تصنع اور ثنا و توصیف کی توقع رکھے تو، جیسا کہ پہلے باب میں منافقین کے سلسلے میں گزر چکا ہے، یہ ریاکاری ہے۔ لوگوں کے سامنے اطہارِ تصنع کر کے طلب ِ دنیا کرنا اور ان سے مدحت و تکریم کے خواہاں ہونا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ اس نے اگرچہ نیک عمل کیا مگر ریاکاری اس میں تفریق پیدا کر دے گی۔ کیونکہ اس سے اُس نے ساز و سامانِ دنیا کی تمنا کی۔ مثلاً حصولِ مال کے لئے جہاد کیا، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’بندئہ دینار ہلا ک ہو گیا‘‘۔ یا غنیمت اور دیگر چیزوں کو حاصل کرنے کی غرض سے میدانِ جہاد میں نکلا۔جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کیلئے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ اُنہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
اس ترجمہ اور اس سے بعد کے ترجمہ سے مصنف رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے لئے کوئی عمل کرنا شرک ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کمالِ توحید کے منافی ہے اور اس سے ذخیرئہ اعمال ضائع ہو جاتا ہے۔ اعمال کے معاملے میں مفادِ دنیا کے حصول کی طلب کا جذبہ دِل میں پیدا کرنا بہت بڑی ریاکاری ہے اور ایسے شخص کے کردار پر دُنیا مسلط ہو جاتی ہے جس سے محفوظ رہنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی اور مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اس قسم کے اُمور سے ہمیشہ دامن کشاں رہتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں کہ:
مندرجہ بالا آیت عام تھی اور اس کو درج ذیل آیت نے خاص اور مقید کر دیا کہ:’’جو شخص دنیاوی زندگی میں اپنے اعمال کا بدلہ اور اس کی زیب و زینت کی خواہش کرتا ہے، ہم اُس کے اعمال کا بدلہ صحت و تندرستی، اہل و عیال اور مال و متاع میں مسرت و بہجت کی صورت میں عطا کرتے ہیں اور وہ اس میں گھاٹے میں نہیں رہتے‘‘۔
جناب قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(ترجمہ) ’’جو کوئی دنیا کا خواہشمند ہو اُسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں‘‘۔
ابن جریر رحمہ اللہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث بیان کرتے ہیں:’’جس شخص کی نیت، خواہش اور مقصود صرف دنیا ہی ہو، اللہ تعالیٰ اُس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں چکا دیتا ہے۔ ایسا شخص دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے۔ اس کے اعمال نامہ میں کوئی قابل ذکر عمل نہیں ہوتا جس کا اسے معاوضہ ملنا باقی ہو، البتہ مومن کو دنیا میں بھی اعمال حسنہ کا بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اجر جزیل کا حقدار ہوگا‘‘۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ سے زیر نظر آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جن کا خلاصہ ہم قارئین کریم کے سامنے پیش کرتے ہیں؛ آپ نے فرمایا: ’’سلف سے کچھ اعمال ایسے منقول ہیں جن پر عوام عمل کرتے ہیں مگر ان کا مطلب اور مفہوم نہیں سمجھتے مثلاً : ٭ جب ایک شخص کوئی عمل صالح اللہ کی رضا کے لئے انجام دیتا ہے جیسے صدقہ و خیرات، روزہ، نماز، رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور اُن سے حسن سلوک، یا کسی پر ظلم کرنے سے رُک گیا۔ علی ھٰذا القیاس بہت سے اعمالِ حسنہ کرتا ہے لیکن ان اعمال کی بجا آوری میں آخرت کے اجر و ثواب کا متمنی نہیں ہوتا بلکہ چاہتا ہے کہ دُنیا میں ہی اُسے اس کا بدلہ مل جائے جیسے کہ وہ اپنے مال و متاع کی حفاظت کا خواہشمند ہو، اس میں اضافے کا طلبگار ہو، اپنے اہل و عیال کی عزت و آبرو، ان کی حفاظت ذہن میں ہو اور چاہتا ہو کہ وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کریں، ان اعمالِ حسنہ سے نہ تو وہ جنت کا طلبگار ہو اور نہ جہنم کے عذاب سے بچنے کی تمنا ہو۔ پس ایسے شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں چکا دیا جاتا ہے۔ اور آخرت میں اس کا قطعاً کوئی حصہ نہ ہو گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس نوع کا ذکر فرمایا ہے۔ ٭دوسری قسم پہلی قسم سے زیادہ خطرناک ہے، وہ یہ کہ انسان عمل صالح انجام دے مگر نیت میں رِیاکاری اور لوگوںکو دکھلاوا ہو، آخرت میں کامیابی مد نظر نہ ہو۔ ٭تیسری صورت یہ ہے کہ انسان اعمالِ صالحہ کی بجاآوری سے دنیاوی مال و متاع کا خواہشمند ہو، جیسے سفر حج میں مال و متاع حاصل کرنا مقصود ہو، یا دنیا کے حصول کی خاطر، یا کسی عورت سے شادی رچانے کی غرض سے ہجرت کرے یا مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لئے جہاد جیسے حولِ عظیم میں جان خطرہ میں ڈال دے یا دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض یہ ہو کہ بال بچوں کا پیٹ پال سکے، یا قرآن کریم حفظ کر کے کسی مسجد کی امامت کا خواہشمند ہو، جس سے اسے اچھی خاصی تنخواہ ملنے کی توقع ہو، جیسا کہ آج کل علمائے کرام اور ائمہ مساجد کا دستور ہے۔ ٭ چوتھی قسم یہ ہے کہ عمل صالح تو رضائے الٰہی کے لئے کرے، لیکن ان اعمالِ حسنہ کے ساتھ ساتھ ایسا عمل بھی کر رہا ہو جس سے وہ دین اسلام سے خارج سمجھا جائے گا جیسے یہود و نصاریٰ کا عبادتِ الٰہی کرنا، ان کا روزے رکھنا، ان کا صدقہ و خیرات کرنا جس سے ان کی اصل مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کر لیں اور آخرت میں کامران ہو جائیں۔ یا اسلام کا دعویٰ کرنے والے وہ افراد جو کفر و شرک میں مبتلا ہیں جس سے انسان دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہو جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ کوئی ایسا عمل صالح کریں جس سے آخرت کے عذاب سے نجات اور اللہ کی رضا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کے کفر و شرک میں ملوث اعمال کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال بھی برباد ہو رہے ہیں۔’’شفی بن ماتع اصبحی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے دیکھا کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر ایک شخص کے ارد گرد کثیر تعداد میں لوگ جمع ہیں۔ پوچھا کہ لوگوں نے کس شخص کو گھیر رکھا ہے؟ جواب دیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ درسِ حدیث دے رہے ہیں۔ شفی بن ماتع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں بالکل قریب جا کر اُن کے سامنے بیٹھ گیا۔ جب درس ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے وہ حدیث سنائیں جو آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی اور یاد کی ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے: میں آپ کو وہی حدیث سناؤں گا جو میں نے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھی۔ اس وقت میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی اور شخص نہ تھا۔ یہ کہہ کر وہ بیہوش ہو گئے۔ کافی دیر بعد سنبھلے اور فرمانے لگے کہ آج میں تم کو وہی حدیث سناؤں گا جسے میں نے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا تھا اور اُس وقت میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ یہ کہہ کر پھر بیہوش ہو گئے۔ کافی دیر بعد ہوش میں آئے تو فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عرشِ عظیم سے اُتر کر اپنے بندوں کے پاس آئے گا تاکہ ان کا فیصلہ کر دیا جائے اور ہر اُمت گھٹنوں کے بل گری ہو گی۔ سب سے پہلے ان تین اشخاص کو بلایا جائے گا۔ قاری قرآن کو، شہید فی سبیل اللہ کو اور مالدار کو۔ سب سے پہلے قاری قرآن سے سوال ہو گا کہ میں نے جو قرآن اپنے رسول پر اتارا تھا کیا تجھے اس کا علم نہیں سکھایا؟ قاری کہے گا کہ ہاں ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا، علم کے مطابق عمل کیا؟ قاری جواب دے گا اے رب کریم میں نے تمام دن اور رات تلاوت کرتا رہتا تھا اللہ تعالیٰ کہے گا، تو جھوٹ بولتا ہے۔ فرشتے بھی یہی کہیں گے، تو جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تو اس لئے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں وہ دُنیا میں کہا جا چکا۔ مالدار شخص کو پیش کیا جائے گا اور سوال ہو گا، کیا تم کو اتنی وسعت مال نہ دی گئی کہ تو کسی کا محتاج نہ رہا؟ وہ جواب دے گا اے اللہ تو بالکل ٹھیک اور صحیح کہتا ہے! اللہ تعالیٰ پوچھے گا،جو کچھ تم کو ملا اُس کے مطابق عمل کیسا کیا؟ بندہ جواب دے گا کہ اے رب کریم! میں صلہ رحمی کرتا اور صدقہ دیتا رہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تم جھوٹ کہتے ہو۔ فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا تمہارا ارادہ یہ تھا کہ تمہیں سخی کہا جائے چنانچہ یہ دنیا میں کہا جا چکا۔ اب اس شخص کوپیش کیا جائے گا جو اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا۔ اللہ کریم پوچھے گا، تم کیوں قتل ہوئے؟ بندہ جواب دے گا، اے رب کریم! تو نے جہاد کا حکم دیا اور میں تیرے راستہ میں دین کے دُشمنوں سے لڑ کر شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو جھوٹ بولتا ہے۔ فرشتے بھی کہیں گے تو جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرا ارادہ یہ تھاکہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور وہ کہا جا چکا۔ یہ واقعہ بیان فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا: اے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) یہی وہ تین قسم کے افراد ہیں جن کو قیامت کے دِن سب سے پہلے جہنم کی آگ جلائے گی۔
سلف صالحین رحمہم اللہ اس قسم کے اعمال سے بہت ڈرا کرتے تھے جن کی وجہ سے صحیح اور درست اعمال بھی ضائع ہو جائیں۔ ایک بزرگ کا قول مشہور ہے: ’’اگر مجھے علم ہو جائے کہ میرا صرف ایک سجدہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا ہے تو میں موت کی آرزو کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ صرف متقین ہی کے اعمال قبول فرماتا ہے‘‘۔ ٭پانچویں اور آخری قسم یہ ہے کہ انسان پانچوں نمازوں کی پابندی، روزہ، حج، زکوۃ اور صدقہ و خیرات اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے اور آخرت میں اجر و ثواب کا متمنی ہوتا ہے اس کے بعد کچھ ایسے اعمال کرتا ہے جن سے دنیا کا مال و متاع حاصل کرنا مقصود ہو، جیسے فرض حج ادا کرنے کے بعد نفلی حج کرتا ہے جس سے دنیا کمانا مقصود ہو جیسا کہ اکثر لوگ آج کل کر رہے ہیں تو اس عمل پر اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ بعض علمائے کرام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم تین قسم کے لوگوں کا حال بیان کرتا ہے: ۱۔اہل جنت، ۲۔اہل جہنم کا ۔ اور۔ ۳۔ تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جن میں دونوںصفتیں پائی جاتی ہیں، ان کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے۔ اس تیسری قسم میں مذکورہ بالا پانچویں قسم شامل ہے‘‘۔
فی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ تَعِسَ عَبْدُ الدِّرْھَمِ تَعِسَ عَبْدُ الْخَمِیْصَۃِ تَعِسَ عَبْدُ الْخَمِیْلَۃِ اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَ سَخِطَ تَعِسَ وَ انْتُکِسَ وَ اِذَا شِیْکَ فَلَا اُنْتُقِشَ طُوبٰی لِعَبْدٍ اَخَذَ بِعَنَانِ فَرَسِہٖ فیْ سَبِیْلِ اﷲ اَشْعَثَ رَاْسُہٗ مُغْبَرَّۃً قَدَمَاہُ اِنْ کَانَ فِی الْحِرَاسَۃِ کَانَ فِی الْحِرَاسَۃِ وَ اِنْ کَانَ فِی السَّاقَۃِ کَانَ فِی السَّاقَۃِ اِنِ اسْتَاْذَنَ لَمْ یُؤْذَنْ لَہٗ وَ اِنْ شَفَعَ لَمْ یُشَفَّعْ
صحیح (بخاری) میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہلاک ہو جانے، شقی اور بدبخت ہوجانے اور منہ کے بل گرجانے کو تَعِسَ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے لئے بددعا کرنا۔جو روپے پیسے اور کپڑے لتے کا بندہ ہے وہ بدبخت ہے۔ اگر اُسے دے دیا جائے تو خوش، اگر نہ دیا جائے تو ناخوش۔ یہ بدبخت ہو اور ٹھوکر کھائے، اگر اُسے کانٹا لگے تو نہ نکالا جائے۔خوشخبری ہو اس بندے کو کہ اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے ہے۔ پراگندہ سر، خاک آلود قدم۔ اگر پہرے پر ہے تو پہرے پر، اور اگر فوج کے پچھلے حصے میں ہے تو اِسی میں اپنی ذمہ داری نبھا رہاہے اگر رخصت مانگے تو رخصت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے۔
ابوالسعادات رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
طوبیٰ کو ایک درخت سمجھنے کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے ابن وہب نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’طوبیٰ جنت کے مقامات میں سے ایک جگہ کا نام ہے اور بعض علماء کا خیال ہے کہ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت کا نام ہے‘‘۔
مسند احمد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:’’ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طوبی کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت میں ایک درخت کا نام ہے، جس کے نیچے سو سال تک چلنے کی مسافت ہے، اس کے خوشوں سے اہل جنت کے کپڑے برآمد ہوں گے‘‘۔
صحیح بخاری، مسلم اور دوسری کتب حدیث میں بھی احادیث مروی ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا ایک عجیب و غریب اثر نقل فرمایا ہے، جسے ہم قارئین کرام کے استفادہ کے لئے یہاں پورا نقل کرتے ہیں۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک ہے وہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لے آیا اس کے لئے طوبی ہے اور وہ شخص جس نے مجھے دیکھا نہیں لیکن صرف سن کر ایمان لے آیا اس کے لئے تین بار طوبیٰ کی خوشخبری ہے۔ اُس شخص نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طوبیٰ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طوبیٰ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جس کا سایہ سو سال تک چلنے کی مسافت ہے۔ اس کے خوشوں سے اہل جنت کی پوشاکیں برآمد ہوں گی۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے بھی اس اثر کو وہب بن منبہ سے ہی روایت کیا ہے۔ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی روایت میں مندرجہ ذیل الفاظ زائد ہیں:’’جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے۔ اُس کے سایہ میں گھڑ سوار سو سال تک بھی چلتا رہے تو اُس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔ اُس کے پھول ریشمی کپڑے ہوں گے۔ اُس کے پتے چادریں ہوں گی۔ اُس کی ٹہنیاں عنبر کی ہوں گی۔ اُس کے کنکر یاقوت ہیں۔ اُس کی مٹی کافور کی ہے۔ اُس کا کیچڑ کستوری ہے۔ اُس درخت کی جڑوں سے شراب، دودھ اور شہد کی نہریں نکلتی ہیں۔ اہل جنت کے باہم مل بیٹھنے کی یہ جگہ ہے۔ ایک دفعہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوں گے کہ اُن کے رب کی طرف سے فرشتے آجائیں گے۔ وہ بڑی تیز رفتار اونٹنیاں لائیں گے جن کی مہاریں سونے کی زنجیریں ہوں گی، اُن کے چہرے خوبصورتی کے لحاظ سے چراغ کی طرح روشن ہوں گے۔ اُن کی اون نرمی میں مرعزی ریشم کی طرح ہو گی۔ اُن پر کجاوے ہوں گے جن کی پھٹیاں یاقوت کی ہوں گی۔ پالکیاں سونے کی ہوں گی۔ اُن کے اوپر سندس، استبرق ریشم کے کپڑے ہوں گے۔ فرشتے اُن کو بٹھاتے ہوئے اہل جنت سے عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی زیارت اور اُسے سلام عرض کر لیں۔ اہل جنت اُن پر سوار ہو جائیں گے یہ سواریاں پرندوں سے بھی زیادہ تیز رفتاری چلیں گی۔ بستر سے بھی زیادہ نرم و نازک ہوں گی۔ وہ بغیر کسی تکلیف کے دوڑیں گی۔ ہر ایک سوار اپنے ساتھی کے پہلو بہ پہلو باہم گفتگو کرتا ہوا جا رہا ہو گا۔ کسی سوار کا کان دوسری سواری کے ساتھ نہ چھوئے گا۔ کسی کا پہلو کسی کے پہلو سے نہ لگے گا۔ چلتے چلتے اگر کہیں راستے میں کوئی درخت آجائے تو خود وہ درخت راستے سے ہٹ جائے گا تاکہ ان دونوں بھائیوں میں دُوری پیدا نہ ہو جائے۔ چلتے چلتے رحمن و رحیم کی بارگاہِ اقدس میں پہنچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنا روشن چہرہ اُن کے سامنے کھول دے گا۔ تاکہ یہ لوگ اُس کے چہرے کو دیکھ لیں۔ جب زیارت کر لیں گے تو کہیں گے کہ اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور تجھ سے ہی سلامتی حاصل ہوتی ہے۔جلال و اکرام کا صرف تو ہی حقدار ہے۔ اہل جنت کی یہ بات سن کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں ہی سلام ہوں اور سلامتی مجھ سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ میری جنت اور رحمت تمہارے لئے واجب ہو چکی ہے۔ میں اپنے بندوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو مجھے دیکھے بغیر مجھ سے ڈرتے رہے اور میرے احکام پر عمل کرتے رہے۔ اہل جنت عرض کریں گے کہ اے اللہ! ہم تیری کماحقہ عبادت نہ کر سکے اور تیری قدر کا بھی حق ادا نہ کر سکے۔ لہٰذا ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے تجھے سجدہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ جگہ عبادت اور تکلیف کی نہیں ہے۔ یہ ایسا گھر ہے جہاں سے انعام و اکرام کی بارش ہو گی۔ میں نے اب عبادت کرنے کا بوجھ ختم کر دیا ہے۔ اب جو چاہتے ہو سوال کرو کیونکہ اس وقت جو مانگو گے وہ ملے گا۔ چنانچہ کم ازکم جس کا سوال ہو گا وہ یہ ہو گا کہ اے اللہ! دنیا والے دنیا کے حصول میں ایک دوسرے کی ریس کرتے رہے اور باہم خطرہ میں مبتلا رہے۔ اے میرے رب تو مجھے ہر وہ چیز عطا کر چکا جو دنیا والوں کو تو نے ابتدائے آفرینش سے لے کر دنیا ختم ہونے تک دی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج تیری آرزوئیں بڑی مختصر ہیں۔ تو نے اپنے مرتبہ کے مطابق سوال نہیں کیا۔ یہ تو میں نے تجھے دیا اور میں تجھے اپنے مرتبے کے مطابق تحفہ دوں گا۔ کیونکہ میری عطا میں بخیلی اور کوتاہی نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے بندوں کے سامنے وہ چیزیں پیش کرو جہاں تک اُن کی آرزوئیں نہیں پہنچیں اور ان کے دل میں ان کا خیال تک بھی نہیں آیا۔ پھر دوسرے ان کو یاد دلائیں گے۔ یہاں تک کہ ان کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی۔ یعنی وہ ساری چیزیں جو اُن کے دل میں ہو گی پھر جو وہ ان پر پیش کریں گے ان میں گھوڑے بھی ہوں گے۔ ہر چارجتے ہوئے گھوڑوں پر ایک ہی یاقوت کا تخت بچھا ہوا ہو گا۔ اور ہر تخت پر خالص سونے کا ایک قبہ ہو گا ان میں سے ہر قبے میں جنتی بستر بچھے ہوں گے۔ ان میں سے ہر قبے میں نوجوان سفید رنگ موٹی موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔ ان میں سے ہر لڑکی پر جنتی کپڑوں میں سے دو کپڑے ہوں گے اور جنت کا کوئی رنگ ایسا نہ ہو گا جو اِن دونوں کپڑوں میں نہ ہو۔ اور کسی عطر کی خوشبو ایسی نہ ہو گی جس کی مہک ان کپڑوں سے نہ آتی ہو۔ ان کے چہروں کی چمک قبے کی دبیز تہوں سے پار ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ جو اُن کو دیکھے گا وہ سمجھے گا کہ یہ قبے سے باہر ہیں۔ ان کی ہڈی کا گودا پنڈلی کے اوپر سے ایسا نظر آئے گا جیسے سرخ یاقوت میں سفید دھاگہ پرو رکھا ہو۔ وہ عورتیں اپنے شوہر کو دیکھ کر محسوس کریں گی کہ اس کو اپنی سہیلیوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے سورج کو پتھر کے ٹکڑے پر، یا اس سے بھی بہتر اور وہ بھی ان دونوں کو ایسا ہی دیکھے گا۔ پھر جنتی شخص اُن کے پاس جائے گا تو وہ اُسے سلام کہیں گی۔ اُس کا بوسہ لیں گی۔ اور اُس سے بغل گیر ہوں گی اور اس سے کہیں گی اللہ کی قسم! ہمارے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ نے تجھ جیسے آدمی پیدا کئے ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا اور وہ فرشتے ان اہل جنت کو جنت میں صف بناکر لے چلیں گے۔ اور چلتے چلتے اُس مقام تک جا پہنچیں گے جو اُن کے لئے رب کریم نے تیار کیا ہے‘‘۔
یہ عجیب و غیرب اثر جو نقل کیا گیا ہے اس کے اکثر الفاظ کی تصدیق صحیحین کی روایات سے بھی ہوتی ہے۔’’اپنے رب کریم کے عطیات کو دیکھو جو تمہیں دیئے گئے ہیں۔ بلند بارگاہ میں قبے ہوں گے اور موتی اور مونگے سے بنے ہوئے بالاخانے ہوں گے اور ان کے دروازے سونے کے ہوں گے ان کی چارپائیاں یاقوت کی ہوں گی۔ ان کے ستر سندس اور استبرق کے ہوں گے اور ان کے منبر نور کے ہوں گے ان کے دروازوں اور صحنوں سے اس طرح کا نور نکلے گا کہ سورج کی شعائیں اس کے مقابل ایک ستارے کی حیثیت رکھتی ہوں گی، جبکہ وہ دن کی تیز روشنی میں ہو۔ پھر اعلیٰ علیین میں یاقوت کے بلند محل ہوں گے۔ ان کی روشنی چمکتی ہو گی۔ اگر وہ روشنی تابع فرمان نہ ہوتی تو آنکھیں چندھیا جاتیں۔ پھر ان محلوںمیں جو محل سفید یاقوت کے ہوں گے اُن میں فرش بھی سفید ریشم کا ہو گا اور جو محل سبز یاقوت کے ہوں گے وہاں فرش بھی سبز سندس کا ہو گا اور جو محل زرد ریشم کے ہوں گے اُن میں فرش بھی زرد ریشم کا ہو گا اُن کے دروازے سبز زمرد اور سرخ سونے اور سفید چاندی کے ہوں گے اُن کے ستون اور گوشے جواہرات کے ہوں گے اور اُن کے بالاخانے موتیوں کے قبے ہوں گے اور اُن کے برج مونگے کے کمرے ہوں گے پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے عطیات کی طرف واپس آنا چاہیں گے تو سفید یاقوت کے گھوڑے ان کے پاس لائے جائیں گے جن میں روح ہو گی ان کے نیچے ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہوں گے۔ ہر بچے کے ہاتھ میں ان گھوڑوں میں سے ایک ایک گھوڑے کی لگام ہو گی اور ان کی لگامیں سفید چاندی کی ہوں گی جن پر موتی اور یاقوت جڑے ہوں گے اور ان پر بلند تخت بچھے ہوں گے سندس اور استبرق پڑا ہو گا وہ گھوڑے ان جنتیوںکو لے کر دوڑتے آئیں گے۔ جنت کے باغوں کو دیکھیں گے جب اپنے اپنے محلات تک پہنچیں گے تو سامنے فرشتوں کو بیٹھا ہوا پائیں گے جو نور کے منبروںپر بیٹھے اُن کا انتظار کر رہے ہوں گے تاکہ ان کی زیارت کر یں اور ان سے مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کریں اور رب کریم کی تکریم پر مبارکباد پیش کریں جب اپنے اپنے محلات میں داخل ہوں گے تو اُس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جو اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل و احسان کیا ہو گا۔ اور جو انہوں نے مانگا ہو گا اور جس کی خواہش کی ہو گی وہ دیکھیں گے کہ ان محلوں میں سے ہر محل کے دروازے پر چار چار باغ ہوں گے دو باغ تو بڑے لمبے ٹہنوں والے ہوں گے اور دو باغ نہایت سرسبز ہوں گے اور اس میں دو چشمے جوش ما رہے ہوں گے اور اس میں ہر میوے کے جوڑے ہوں گے۔ اور سیاہ آنکھوں والی حوریں خیموں میں ہوں گی جب یہ لوگ اپنے محلات میں آرام سے بیٹھ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہارے رب نے جو تم سے وعدہ کیا تھا وہ پور ہو گیا یا نہیں؟ اہل جنت عرض کریں گے کہ اللہ کی قسم وہ پورا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ پھر سوال کرے گا کہ کیا تم اپنے رب کے اجر و ثواب پر خوش ہو؟ اہل جنت عرض کریں گے اے اللہ! ہم راضی ہیں تو بھی ہم پر راضی ہو جا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری رضا کی وجہ سے ہی تم کو میں نے اپنے گھر میں جگہ دی ہے اور میری رضا کی بدولت ہی تم کو میرا چہرہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اہل جنت عرض کریں گے: تمام تعریفیں اُس اللہ کے لئے ہیں جو ہم سے غم کو لے گیا، بیشک ہمارا رب بخشنے والا اور قدردان ہے۔ وہ جس نے ہمیںمستقل گھر میں اپنے فضل و کرم سے اتارا، ہمیں یہاں کبھی تکلیف نہ ہو گی اور نہ ہمیں کبھی تھکاوٹ ہو گی‘‘۔
فیہ مسائل
٭ وہ عمل جو آخرت کے لئے تھا اُس سے دنیا طلب کرنا۔ ٭ بعض اوقات مسلمان کا نام بھی درہم و دینار کا بندہ رکھا جاتا ہے۔ ٭ اس کی صورت یہ ہے کہ اگر اس کی آرزو پوری ہو گئی تو راضی ورنہ ناراض۔ ٭ جو مجاہد مذکورہ صفات کا حامل ہو اُس کی تعریف۔