• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھِدایۃ المُستفید اُردُو ترجمہ فتح المجید شرح کتابُ التوحید

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مصائب و مشکلات میں صبر و بردباری اختیار کرنے کی تلقین۔
باب:ما جاء فی اللو

اس باب میں انسان کو مصائب و مشکلات کے وقت صبر و بردباری اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور جو لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو تقدیر کی گرفت سے آزاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی مذمت کی گئی ہے۔
قولہ تعالیٰ یَقُوْلُوْنَ لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰھُنَا (آل عمران:۱۵۴)۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کئے جاتے۔
مصائب و مشکلات کے وقت جزع فزع کرنا شریعت اسلامیہ میں منع ہے اور اس پر سخت ترین وعید سنائی گئی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کر کے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ انجام دے اس کی صورت صرف یہ ہے کہ انسان مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے اور سخت ترین حالات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے۔ کیونکہ ایمان کے چھ اُصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کا تقدیر الٰہی پر کامل ایمان ہو۔
جنگ اُحد میں خوف اور بزدلی اور ڈر سے منافقین نے یہ جملہ کہا تھا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جنگ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھا اور دُشمن کا حملہ زبردست تھا کہ اچانک ہم پر نیند کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور ہم میں سے ہر مجاہد کی ٹھوڑی غلبہء نیند کی بنا پر سینے سے لگ گئی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ حلفیہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے متعب بن قشیر منافق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’اگر ہمارے بس کی بات ہوتی ہم یہاں قتل ہی نہ کئے جاتے‘‘۔ اس سے سن کر یہ الفاظ میں نے اچھی طرح یاد کر لئے۔ چنانچہ اسی پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کئے جاتے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے۔ مطلب یہ ہے کہ تقدیر الٰہی تھی جس سے کسی کو مفر نہیں اور یہ ایسا فیصلہ کن امر تھا جس کا بہر کیف پورا ہونا ضروری تھا۔
اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا (آل عمران:۱۶۸)۔
ان کے جو بھائی بند جنگ لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے۔
منافقین نے کہا کہ اگر یہ لوگ جنگ نہ کرنے کے بارے میں ہمارا مشورہ قبول کر لیتے اور اپنے گھروں سے نہ نکلتے تو یہ صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔
اس کے جواب میں اللہ کریم نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا‘‘۔
یعنی گھر بیٹھنے رہنے سے موت سے نجات مل سکتی ہے تو تمہیں بالکل نہیں مرنا چاہیئے اور یاد رکھو کہ موت بہرحال آنی ہے اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں جا کر پناہ لے لو۔ اگر تمہارے قول میں سچائی کی ذرا سی مقدار بھی باقی ہے تو موت سے بچ کر تو دکھلاؤ؟۔
مجاہد رحمہ اللہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’زیر نظر آیت کریمہ مشہور منافق عبداللہ بن ابی اور اُس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی‘‘۔ یعنی یہ الفاظ عبداللہ بن ابی نے کہے تھے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے جنگ اُحد کا نقشہ یوں بیان فرمایا کہ:
’’جنگ اُحد کے میدان میں ہم دشمن کے مقابلہ پر صف آراء تھے کہ ہم پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی یہاں تک کہ میری تلوار ہاتھ سے بار بار گرتی اور میں اُسے بار بار پکڑتا اور منافقین کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بچاؤ کی تدابیر میں مصروف تھے ساری فوج میں زیادہ بزدل ڈرنے والے اور حق و انصاف کو پامال کرنے میں پیش پیش یہی لوگ تھے۔ (اللہ کریم کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیوں میں مبتلا تھے یہ خالص جاہلیت کی عادت ہے) منافقین کا یہ گروہ اللہ تعالیٰ کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہو کر رہ گیا۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’غزوہ اُحد کے موقع پر مشہور منافق عبداللہ بن اُبی مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ: ’’دیکھئے نہ تو اپنی بات پر عمل کیا اور نہ میری بات کو تسلیم کیا، بلکہ بچوں کی رائے کو اوّلیت دی‘‘۔ اس منافق کی یاوہ گوئی سن کر بہت سے سادہ دِل مسلمان اس کے ساتھ ہو گئے جو اس سے قبل منافق نہ تھے بلکہ وہ مسلمان تھے اور ان کے دلوں میں ایمان تھا ایمان ایک ایسا نور ہے جس کی مثال قران کریم میں متعدد بار بیان کی گئی ہے۔ اگر یہ لوگ اس امتحان اور نفاق سے قبل فوت ہو جاتے تو ان کی موت اسلام پر متصور ہوتی البتہ ان کا ایمان اس مرتبہ کا نہ ہوتا جن کا امتحان ہوا اور وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے، اور نہ یہ ان منافقین کی طرح ہوتے جو آزمائش کے وقت مرتد ہو گئے تھے۔ آجکل اکثر مسلمانوں کا تقریباً یہی حال ہے کہ بوقت آزمائش اُن کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں جس سے ایمان میں کمزوری اور نقص پیدا ہو جاتا ہے اور ان میں کی اکثریت اپنے اُوپر نفاق کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور بعض تو دشمن کا غلبہ اور طاقت سے مرغوب ہو کر ارتداد کا برسرعام اعلان کر دیتے ہیں یہ بات ہمارے اور دوسرے لوگوں کے ذاتی تجربہ میں بھی آ چکی ہے کہ اگر میدانِ جنگ میں مسلمانوںکا غلبہ ہو اور کسی بڑی تکلیف کا سامنا نہ ہو تو پھر ایسے کمزور مسلمان ہی رہتے ہیں۔ ظاہر اور باطن میں انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ایسا ایمان آزمائش کے وقت ثابت نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ فرائض کے تارک اور محارم کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہا گیا کہ ’’تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے اور تمہارے دلوںمیں ایمان داخل ہی نہیں ہوا‘‘۔ (الحجرات) ۔ اس آیت میں اس ایمان کا ذکر ہے جو سچے مومنین کا امتیازی نشان ہے۔ کتاب و سنت میں جب بھی ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے یہی ایمان مراد ہوتا ہے ایسے سچے مومنین آزمائش اور امتحان کے وقت شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوتے، اس لئے کہ یہ چیز تو ایمان کو کمزور کر دیتی ہے‘‘۔
شارح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس قسم کے کمزور ایمان والے لوگوں کا مشاہدہ ہم نے بھی کیا ہے کہ دشمن کی قوت و طاقت اور ان کا غلبہ دیکھ کر ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف اُن کی مدد کی اور دین اسلام کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی کا علی الاعلان اظہار کیا اور پھر انہوں نے اسلام کے نور کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی ان کا سب سے بڑا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ اہل اسلام میں سے اہم افراد کو ختم کیا جائے‘‘۔ واللہ المستعان۔
وفی الصحیح عن ابی ھریرۃ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَ اسْتَعِنْ بِاﷲِ وَ لَا تَعْجَزَنَّ وَ اِنْ اَصَابَکَ شیْیئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ اَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا وَ کََذا لَکَانَ کَذَا وَ کَذَا وَ لٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اﷲُ وَ مَا شَآءَ فَعَلَ فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطٰنِ
صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: نفع بخش چیز کی حرص کر اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگ اور عاجز نہ بن اور کسی وقت اگر مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو یہ نہ کہا کرو ’’اگر میں ایسا کرتا تو یوں ہوتا‘‘ بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا اور جو اُس نے چاہا وہی ہوا کیونکہ ’’اگر‘‘ شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
فیہ مسائل
کسی ناگہانی مصیبت پر یہ کہنا سخت جرم اور گناہ ہے کہ ’’اگر میں یوں کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی‘‘۔ ٭ لفظ ’’اگر‘‘ استعمال نہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے شیطانی اعمال کا دروازہ کھلتا ہے۔ ٭ اچھی گفتگو کی ترغیب۔ ٭اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے ایسے اعمال کا شوق دلایا گیا ہے جو نفع بخش ہیں۔ ٭ جو اس کے اُلٹ ہے، اُس یعنی عجز سے روکنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہوا اور آندھی کو گالی دینے سے سختی سے روکا گیا ہے۔
باب:النھی عن سب الریح

اس باب میں ہوا اور آندھی کو گالی دینے سے سختی سے روکا گیا ہے۔
عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا تَسُبُّوا الرِّیْحَ فَاِذَا رَاَیْتُمْ مَّا تَکْرَھُوْنَ فَقُوْلُوْا اللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ مِنْ خَیْرِ ھٰذِہِ الرِّیْحِ وَ خَیْرِ مَا فِیْھَا وَ خَیْرِ مَآ اُمِرَتْ بِہٖ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ ھٰذِہِ الرِّیْحِ وَ شَرِّ مَا فِیْھَا وَ شَرِّ مَآ اُمِرَتْ بِہٖ
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہوا کو گالی نہ دو۔ اگر تمہیں کوئی ناپسند چیز دکھائی دے تو یہ دعا پڑھا کرو۔اے اللہ ہم تجھ سے اس ہوا سے اور جو اس میں ہے اُس کی بہتری چاہتے ہیں اور اُس چیز کی بھی بھلائی چاہتے ہیں جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور ہم پناہ مانگتے ہیں اِ س ہوا کے شر سے اور جو اِس میں ہے اور اُس چیز کے شر سے بھی پناہ مانگتے ہیں جس کا اِسے حکم دیا گیا ہے۔ (الترمذی)۔
ہوا کو گالی دینے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک ہے اور اُس کے حکم کے مطابق چلتی ہے لہٰذا ہوا کو گالی دینا، اس کے پیدا کرنے والے کو گالی دینے کے مترادف ہے جیسا کہ سابقہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ زمانہ کو گالی دینا ایسا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کو گالی دے دی۔ اس قسم کی غلط حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اُس کے دین سے بالکل کورے ہیں چنانچہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ جاہل اور ظالم لوگوںکی طرح ہوا کو گالی نہ دیں نہ اُس کو بُرا کہیں۔

فیہ مسائل
٭ ہوا کو گالی دینے کی ممانعت۔ ٭ جب انسان ناپسندیدہ چیز کو دیکھے تو اُس وقت نفع مند دُعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ ٭ اس بات سے بھی انسان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ہوا اللہ تعالیٰ کے حُکم کی پابند ہے۔ ٭ اس راز سے بھی پردہ اُٹھایا گیا ہے کہ ہوا کو کبھی بھلائی اور خیر کا اور کبھی تباہی مچانے کا بھی حکم ملتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کے متعلق جاہلانہ گمان کرنا …
باب:یَظُنُّوْنَ بِاﷲِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْیئٍ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ ِﷲِ یُخْفُوْنَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَکَ (آل عمران:۱۵۴)

اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگے جو سراسر خلافِ حق تھے۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟ ان سے کہو (کسی کا کوئی حصہ نہیں) اِس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ دراصل یہ لوگ اپنے دِلوںمیں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اِسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر نہیں کرتے۔
یہ آیاتِ بینات اللہ تعالیٰ نے جنگ اُحد کے واقعہ کے ربط میں نازل فرمائیں، غزوئہ اُحد میں ایک خاص واقعہ پیش آیا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ نے غم و رنج کے بعد تم پر تسلی نازل فرمائی یعنی غنودگی کی کیفیت تم پر طاری کی‘‘۔ (آل عمران:۱۵۴)۔
غنودگی کی یہ حالت ایمان والوں میدانِ جنگ میں ثابت قدم رہنے والوں، اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھنے والوں،مصائب و مشکلات میںصبر کرنے والوں اور سچائی کے خوگر افراد پر طاری ہو۔ یہ وہی حضرات تھے جنہیں یقین تھا کہ رب ذوالجلال اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور مدد فرمائے گا اور تمام وعدوں اور توقعات کو پورا کرے گا اور دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا گیا:
(ترجمہ) ’’اور ایک فرقہ کو اپنی جانوں کا فکر تھا‘‘۔ (آل عمران:۱۵۴)۔
ان کو یہ نعمت عظمیٰ نصیب نہ ہوئی کیونکہ وہ جزع فزع، قلق و اضطراب اور خوف و ہراس کا شکار ہو کر اللہ تعالیٰ کے بارے میں اہل جاہلیت کے سے سوءِ ظن اور بدگمانی میں مبتلا ہو گئے ان کے اس سوء ظن کی تصدیق خود اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: (ترجمہ)
’’اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگے‘‘۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
(ترجمہ) ’’بلکہ تم نے یہ خیال کیا کہ رسول اور مومن اب کبھی اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر نہ آئیں گے اور یہ چیز تمہارے دِلوں کو بڑی خوشنما معلوم ہوئی اور تم برے برے گمان کرنے لگے اور تم ہلاک ہونے والی قوم تھے‘‘۔ (الفتح:۱۲)۔
منافقین کے اس بزدل گروہ نے جب دیکھا کہ وقتی طور پر مشرکین کو غلبہ حاصل ہو رہا ہے تو انہوں نے اس کو آخری فیصلہ سمجھا۔ ان کے دلوں میں یہ بات گھر کر گئی کہ اب اسلام اور اہل اسلام کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا۔ شکوک و شبہات میں گرفتار لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ اہل اسلام جب کسی مصیبت میں گھر جاتے ہیں تو ان سے اسی قسم کی لغو گفتگو، اور نامعقول باتیں سرزد ہوتی ہیں۔

فیہ مسائل
٭ برے گمان کی بیشمار قسمیں ہیں جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ٭ان برے گمانوں سے وہی شخص محفوظ رہ سکتاہے جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اپنے نفس کی معرفت سے بہرہ مند ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
باب: تقدیر کا انکار کرنا شریعت اسلامی سے انکار کے مترادف ہے۔
باب :ما جاء فی منکری القدر

اس باب میں بتایا گیا ہے کہ تقدیر کا انکار کرنا شریعت اسلامی سے انکار کے مترادف ہے منکرین تقدیر الٰہی کی حیثیت اسلام میں وہی ہے جو مجوسیوں کی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قدریہ اُمت محمدیہ کے مجوسی ہیں۔ اگر یہ بیمار ہو جائیں تو ان کی تیمارداری نہ کرو اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شرکت نہ کرو‘‘۔
ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ہے:
’’ہر اُمت میں مجوسی گزرے ہیں۔ اُمت محمدیہ کے مجوسی وہ ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قضاء و قدر کچھ نہیں ہے۔ ان میں سے اگر کوئی مر جائے تو اس کے جنازے میں مت جاؤ۔ اور کوئی بیمار ہو جائے تو اس کی بیمار پرسی نہ کرو یہ لوگ دجال کے ساتھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر یہ واجب ہے کہ ان کو دجال سے ملا دے‘‘۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ فرمایا کہ اُس ذاتِ واحد کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کسی شخص کے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اُسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو اُس کی یہ خیرات اُس وقت تک قبول نہ ہو گی جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد)۔
یہ کہہ کر فرمانے لگے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت ہی سفید تھے اور بال انتہائی سیاہ تھے، اُس پر سفر کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اُسے نہیں پہچانتا تھا وہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھٹنے سے گھٹنا ملا کر بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھے اور عرض کناں ہوا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اسلام کے بارے میں کچھ بتائیے؟ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو۔ رمضان المبارک کے روزے رکھو اور طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو (یہ جواب سن کر) کہنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ ہم سب سننے والے اُس پر متعجب تھے کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ اُس نے پھر سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پر، آخرت پر اور تقدیر پر، خواہ اچھی ہو یا بری، ایمان لائے۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ اُس نے پھر کہا احسان کے بارے میں مجھے بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا اُسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ تصور پیدا نہ ہو تو یہ سمجھو کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر سوال کیا کہ قیامت کے بارے میں بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں مسئول سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے سوال کیا کہ قیامت کے آثار اور نشانات بتا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔ اور یہ کہ تو دیکھے گا کہ پاؤں سے ننگے اور نادار آدمی بکریوں کے چرواہے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کریں گے۔ راوی کہتا ہے، یہ باتیں کر کے وہ شخص چلا گیا اور میں تین دن وہاں ٹھہرا۔ ایک روایت میں ہے کہ کچھ وقت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے عمر: تمہیں معلوم ہے یہ سائل کون تھا؟ میں نے عرض کی، اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبریل علیہ السلام تھے تمہیں تمہارے دین کی باتیں سمجھانے کے لئے آئے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تقدیر پر ایمان لانا ایمان کے مذکورہ چھ اصولوں میں سے ایک ہے۔ لہٰذا جس کا تقدیر پر خواہ وہ خیر ہو یا شر، ایمان نہیں ہے، یوں سمجھئے کہ اس نے دین کے ایک اصول کو چھوڑ دیا اور اس کا منکر ٹھہرا۔ ایسا شخص ان لوگوں کی طرح ہو گا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو‘‘؟۔
(البقرۃ:۵۸)۔
مسند احمد میں عبادہ بن الولید بن عبادہ کہتے ہیں کہ
’’میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس اُن کی تیمارداری کے لئے گیا تو مجھے خدشہ ہوا کہ اب آپ فوت ہو جائیں گے۔ چنانچہ میں عرض کی کہ ابا جان! مجھے وصیت فرمائیے اور خوب اچھی طرح سے وصیت فرمائیے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بٹھا دو (اور بیٹھ کر) فرمانے لگے کہ بیٹا دیکھو! تم اس وقت تک ایمان کا مزہ اور اللہ کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم تقدیر الٰہی پر خواہ اچھی ہو یا بری ایمان نہ لاؤ۔ عبادہ نے سوال کیا: اباجان! میں تقدیر کی اچھائی اور برائی کا کیسے پتا چلاؤں؟ سیدنا عبادہ بن صامترضی اللہ عنہ بولے اس طرح کہ تم کو یقین ہو کہ جو تکلیف تمہیں نہیں پہنچی وہ نہیں پہنچ سکتی تھی، اور جس تکلیف میں تم گرفتار ہو گئے وہ ٹل نہیں سکتی تھی۔ اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا فرمایا اور اُسے کہا کہ لکھ تو قلم نے اُسی وقت لکھنا شروع کر دیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا سب کچھ لکھ دیا۔ لہٰذا اے بیٹے! اگر اس پر ایمان کے بغیر تمہیں موت آ گئی تو جہنم میں جاؤ گے۔ (مسند احمد جلد۵ صفحہ ۳۱۷)۔
اس حدیث اور ایسی دوسری احادیث سے ثابت ہوا کہ جو کچھ ہو چکا اور قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے احاطہء علم میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جس نے سات آسمان اور سات ہی زمینیں پیدا فرمائیں ان میں رب کریم کے احکام نازل ہوتے رہتے ہیں تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ وہ اپنے علم کے ذریعہ سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے۔ (الطلاق:۱۲)۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے تقدیر کے متعلق جب سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’تقدیر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا دوسرا نام ہے‘‘۔
امام ابن عقیل رحمہ اللہ نے اس جواب کو بہت پسند فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے کوئی چیز زیادہ طاقتور نہیں ہے منکرین تقدیر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار کر کے گمراہ ہو گئے بعض علمائے سلف کا کہنا ہے کہ منکرین تقدیر سے علم اور دلائل سے مناظرہ کرو۔ اگر یہ لوگ مان جائیں تو مغلوب ہو جائیں گے اور اگر انکار پر اڑے رہے تو کافر قرار پائیں گے۔

فیہ مسائل
٭ تقدیر پر ایمان لانے کی فرضیت۔ ٭ ایمان کی کیفیت کا بیان۔ ٭ جو شخص تقدیر پر ایمان نہیں رکھتا اُس کے اعمال کا اکارت جانا۔ ٭ اس بات کی وضاہت کہ جو شخص تقدیر پر ایمان نہیں رکھتا وہ ایمان کے مزے سے بالکل محروم ہے۔ ٭ اس چیز کا ذکر جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا (یعنی قلم)۔ ٭ قلم نے حکم الٰہی سنتے ہی اُس وقت سے لے کر جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب اُسی وقت لکھ دیا۔ ٭ جس شخص کا تقدیر پر ایمان نہیں اُس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار۔ ٭ سلف صالحین کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ علمائے کرام سے دریافت فرما کر شبہات کا ازالہ کرتے۔ ٭ تقدیر کے متعلق جتنے شبہات پیدا ہو سکتے تھے، علمائے کرام نے اِن سب کا ایک ایک کر کے اس کا جواب دیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے دلائل کو براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
باب: تصویر اُتارنے اور اُتروانے والے اللہ کے نزدیک سخت ترین عذاب …
باب:ما جاء فی المصورین

اس باب میں اس مسئلہ شرعی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں کہ تصویر اُتارنے اور اُتروانے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت ترین عذاب کے مستوجب قرار دیئے گئے ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذَھَبَ یَخْلُقُ کَخَلْقِیْ فَلْیَخْلُقُوْا ذَرَّۃً اَوْ لِیَخْلُقُوْا حَبَّۃً اَوْ لِیَخْلُقُوْا شَعِیْرَۃً (بخاری و مسلم)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو میرے جیسی بناوٹ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جو تو بنا کر دکھلائیں؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کی ممانعت اور حرمت کی وجہ خود بیان فرمائی کہ مصور تصویر کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق جیسی بنانے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ تخلیق کائنات اور تدبیر امر سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کا مالک، پالنے والا، خالق اور تمام مخلوق کو جدا جدا تصویریں بنانے والا ہے۔ وہی اجسامِ خاکی میں روح پھونکتا ہے جس سے ان میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ:
(ترجمہ) ’’(اللہ تعالیٰ وہ ذاتِ کبریا ہے) جس نے ہر چیز کو بہت عمدہ طریقے سے پیدا کیا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل حقیر پانی سے پیدا کی۔ پھر اس کو درست اور ٹھیک کیا پھر اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی پھر تمہارے فائدہ کے لئے کان، آنکھ اور دِل بنایا مگر تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو‘‘۔ (السجدہ:۷ تا ۹)۔
ولھما عن عائشۃ رضی اللہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ الَّذِیْنَ یُضَاھِھُوْنَ بِخَلْقِ اﷲ (متفق علیہ)
صحیحین میں اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
سب سے زیادہ سخت عذاب اُن لوگوں کو ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے بنانے میں اُس کی مشابہت کرتے ہیں۔
و لھما عن ابن عباس رضی اللہ عنہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ کُلُّ مُصَوّرٍ فِی النَّارِ یُجْعَلُ لَہٗ بِکُلِّ صُوْرَۃٍ صَوَّرَھَا نَفْسٌ یُّعَذَّبُ بِھَا فِیْ جَھَنَّمَ و لھما عنہ مرفوعا مَنْ صَوَّرَ صُوْرَۃً فِی الدُّنْیَا کُلِّفَ اَنْ یَّنْفُخَ فِیْھَا الرُّوْحَ وَ لَیْسَ بِنَافِخٍ (متفق علیہ)
صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
ہر تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا، اس کے لئے ہر تصویر کے عوض ایک ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعے اُسے جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔
صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جو شخص دنیا میں کوئی تصویر بناتا ہے تو قیامت کے دن اُس سے کہا جائے گا کہ اس تصویر میں رُوح پھونکے لیکن وہ ان میں رُوح ہرگز نہ پھونک سکے گا۔
مصور جب کسی انسان یا کسی چوپائے وغیرہ کی تصویر بناتا یا فوٹو کھینچتا ہے تو اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو بنایا ہے، یہ اس کی مثل اور اس کے ہم شکل ہوں، اس میں ذرہ بھی فرق نہ ہو، یہی تصویر مصور کے لئے قیامت کے دن بہت بڑی شکل اور عذاب کا سبب بن جائے گی اور مصور کو اس کا مکلف ٹھہرایا جائے گا کہ اس تصویر میں رُوح ڈالے لیکن وہ ایسا ہرگز نہ کر سکے گا۔ لہٰذا اس کو سخت ترین سزا دی جائے گی کیونکہ تصویر بنانا کبیرہ گناہوںمیں سے ہے۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ جاندار چیز کی تصویر بنانے کی جب یہ سزا ہے تو اُس شخص کی سزا کا کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کو اس کے برابر قرار دے لے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کو مشابہ ٹھہرائے، تمام عبادات کو یا کسی ایک عبادت کو غیر اللہ کے لئے انجام دے۔ اس کو اور دوسری تمام مخلوق کو تو اللہ کریم نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا تھا عبادت کا مستحق تو اللہ کے سوا کوئی نہیں۔

صحیح مسلم میں ابو الھیاج اسدی رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ
مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا؟ (پہلا یہ کہ) جو تصویر نظر آئے اُسے مٹا دو۔دوسرا یہ کہ ہر وہ قبر جو بلند ہو اُسے زمین کے برابر کر دو۔
اس حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جس بڑی مہم کو سر کرنے کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوالہیّاج کو روانہ فرمایا اسی مہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی بھیجا تھا۔ تصاویر کو اس لئے مٹانے کا حکم دیا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے مشابہت و مماثلت پائی جاتی ہے۔ قبور کو زمین کے برابر کرنے میں حکمت یہ تھی کہ اس سے عوام کے دلوں میں قبروں اور اہل قبور کی تعظیم اور فتنے میں گرفتار ہونے کا خدشہ تھا کیونکہ شرک میں ملوث ہونے کے لئے سب سے بڑا سبب قبور کی تعظیم ہی ہے۔ لہٰذا انسان کو ان تمام اُمور کی طرف عنانِ توجہ مرکوز کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی جو دین اسلام اُس کے مقاصد اور اس کے فرائض و واجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث بن سکتے تھے۔جن اُمور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا تھا ان میں جب سے تساہل اور سستی واقع ہوئی ہے، اس وقت سے عوام ان میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یہ وہ اُمور ہیں جن سے بچنا ضروری قرار دیا گیا تھا۔ قبریں اہل قبور کے لئے ایک آزمائش و ابتلا بن کر رہ گئیں۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ آہستہ آہستہ قبروں کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی اور بڑی بڑی عبادتیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے انجام دینی چاہئیں تھیں وہ اہل قبور کے لئے انجام دی جانے لگیں جیسے: دُعا کرنا، مدد مانگنا، فریاد اور استغاثہ کرنا، جانوروں کو ذبح کرنا، نذرونیاز دینا، اور ان کے علاوہ دوسری عبادات جن سے انسان مشرک ہو جاتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل اور آج کل لوگوں نے جو قبور سے متعلق رویہ اختیار کر رکھا ہے ان دونوں کے درمیان موازنہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور دونوں کے طریق کار ایک دوسرے سے جدا ہیں اور یہ دونوں طریق ہائے عمل کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ٭قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے لیکن آجکل کا مسلمان قبروں کی طرف منہ کر کے بلکہ قبرستان میں جا کر نماز پڑھنے کا عادی ہو چکا ہے۔ ٭ قبرستان کو عبادت گاہ بنانے سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے لیکن آجکل قبرستان میں مسجدیں بنائی جا رہی ہیں اور ان کا نام مشاہد رکھا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے گھروں سے مشابہت ہو جائے۔ ٭قبر پر چراغاں کرنے کو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے روکا اور منع فرمایا تھا لیکن یارلوگوں نے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کر رکھیں ہیں جن کی آمدنی سے قبروں پر چراغاں ہوتا ہے۔ ٭ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان پر میلے ٹھیلے لگانے سے منع فرمایا لیکن انہوں نے ایک خاص قسم کے میلے رچا رکھے ہیں جہاں بڑی دھوم دھام سے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جیسے مسلمان عید یا حج کے لئے اجتماع کرتے ہیں بلکہ آجکل ان میلوں میں عیدین سے بھی زیادہ چہل پہل نظر آتی ہے۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو زمین کے برابر رکھنے کا حکم فرمایا جیسا کہ زیر مطالعہ حدیث میں مذکور ہے۔ اس کی تائید صحیح مسلم کی ثمامہ بن شفی والی حدیث بھی کرتی ہے جس میں ابن شفی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرزمین روم میں سفر کر رہے تھے کہ رودسؔ کے مقام پر ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا۔ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق اس کی قبر زمین کے برابر کر دی گئی پھر فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ لیکن آجکل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں حدیث کی مخالفت میں پورا پورا زور لگا رہے ہیں اور قبر کو اتنا اونچا کر دیتے ہیں جیسے کسی کا گھر ہو اور قبروں پر بڑے بڑے مزار اورقبے بنا رہے ہیں۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے اور اس پر کسی قسم کی تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’قبروں کو چونا گچ کرنے، ان پر بیٹھنے اور ان پر کسی قسم کی تعمیر کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے‘‘۔ نیز یہ کہ قبر پر لکھنے سے بھی روکا ہے جیسا کہ ابوداؤد میں سیدنا جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے اور ان پر کسی قسم کی عبارت لکھنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔
لیکن آجکل بڑی بڑی تختیوں پر قرآن کریم کی آیات لکھ کر قبروںپر لگاتے ہیں۔ ٭ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تو یہ ہے کہ قبر پر صرف قبر والی مٹی ہی ڈالی جائے، اس کے علاوہ دوسری جگہ کی مٹی نہ ڈالی جائے۔ جیسا کہ ابوداؤد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے، اور اس پر کسی قسم کی عبارت لکھنے اور دوسری جگہ کی مٹی ڈالنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (ابوداؤد)۔
لیکن آجکل لوگ بڑی بڑی اینٹیں اور پتھر رکھنے سے باز نہیں آتے بلکہ قبر کو چونا گچ کرنے سے بھی نہ رُکتے۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی قبروں پر اینٹ وغیرہ رکھنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قبروں کی تعظیم کرنے والے قبروں پر میلے رچانے والے اور ان پر چراغاں کرنے والے ایسے افراد جو قبروں پر مسجدیں تعمیر کرواتے ہیں، اور بڑے بڑے قبے بنانے سے نہیں رکتے اصل میں یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں اور شریعت مطہرہ سے برسرجنگ ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہو رہا ہے کہ قبرستان میں مسجدیں بنا رہے ہیں اور پھر ان پر چراغاں بھی ہو رہا ہے حالانکہ یہ سب چیزیں کبائر میں سے ہیں۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے شاگروں اور دوسرے فقہاء نے ان اُمور کو حرام قرار دیا ہے۔ ابو محمد المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’قبروں پر چراغاں کرنا اگر جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چراغاں کرنے والے پر لعنت نہ کرتے۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ مال بیکار ضائع ہوتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ تیسرا نقصان یہ ہے کہ قبروں کی تعظیم اس طرح کی جاتی ہے جیسے مشرکین بتوں کی تعظیم کیا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’یہود و نصاریٰ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے ملعون قرار دیا کہ وہ انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ اور مسجدیں بنا لیتے تھے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو خبردار کیا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)۔
قبرستان میں نماز پڑھنے کی ممانعت کو خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر کیا ہے کہ اس سے بت پرستوں سے مشابہت پائی جاتی ہے جیسے بت پرست اپنے بتوں کو پوجتے ہیں اور ان سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، ان سے مشابہت ہو جاتی ہے اس لئے ممانعت کر دی گئی۔
ہم یہ بات واضح کر آئے ہیں کہ بت پرستی کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب کہ لوگوں نے اپنے مردوں کی بے انتہا تعظیم کی اور ان کی صورتیں اور شکلیں بنا کر رکھ لیں اور پھر وقتاً فوقتاًان کو چومتے چاٹتے رہے، اور اِن کے پاس جا کر عبادت کرتے رہے۔


فیہ مسائل
٭ تصویر بنانے والوں کے لئے سخت وعید۔ ٭تصویر نہ بنانے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی بے ادبی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری بناوٹ جیسی بنانا چاہتا ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مخلوق کی عاجزی کا اظہار اس طرح فرمایا کہ ایک ذرہ (ایک دانہ) یا کم از کم ایک ’’جَو‘‘ ہی بنا کر دکھلائیں۔ ٭ اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ تصویر بنانے والے کو دُوسرے لوگوں سے سخت عذاب ہو گا۔ ٭ دنیا میںمصور نے جتنی تصویریں بنائی ہوں گی،اتنی ہی جانیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بنائے گا جن کے ذریعہ مصور کو دوزخ میں عذاب دیا جائے گا۔ ٭مصور کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان تصاویر میں رُوح ڈالے۔ ٭ جہاں بھی تصویر ملے اُسے مٹا دینے کا حکم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بکثرت قسمیں کھانے کی ممانعت
باب:ما جَآ فی کَثْرَۃِ الْحَلْفِ

اس باب میں بکثرت قسمیں کھانے کی ممانعت، اور اس پر وعید اور تہدید کی گئی ہے
وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ (المائدہ:۸۹)
اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بغیر کفارہ ادا کئے اپنی قسموں کو یوں ہی نہ چھوڑ دیا کرو‘‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مفہوم نقل فرمایا ہے کہ:
’’خواہ مخواہ قسمیں نہ کھائی جائیں‘‘۔
بعض اہل علم نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ:
’’اپنی قسمیں توڑا نہ کرو‘‘۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے زیر نظر آیت کے وہی معنی مراد لئے ہیں جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کئے ہیں کیونکہ زیادہ قسمیں کھانا اور باربار قسم توڑنا آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اس میں ایک برائی تو یہ ہے کہ قسم کو بالکل ہلکا سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا خیال نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی برائیاں ہیں جو کمالِ توحید کے منافی ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ یَقُوْلُ الْحَلْفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلْکَسَبِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قسم کھانے سے سامانِ تجارت فروخت تو ہو جاتا ہے لیکن برکت ختم ہو جاتی ہے(بخاری ومسلم)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسان اپنے مال کے بارے میں یوں قسم اٹھاتا ہے کہ میں نے اس مال کو اتنی قیمت دے کر خریدا ہے اور مجھے اتنی قیمت مل رہی ہے تو خریدار اس کی قسم پر اعتبار کرتے ہوئے اور اس کو سچا سمجھتے ہوئے اصل قیمت سے زیادہ ادا کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنی قسم میں سچا نہیں ہوتا بلکہ جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کو زیادہ قیمت ملے۔ اس نے یہ جھوٹی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اس کو اس کی سزا یہ ملتی ہے کہ اس کے مال سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔ برکت کا ختم ہو جانا اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس نے جو جھوٹی قسم اٹھا کر معمولی سی قیمت زیادہ وصول کی تھی، وہ برکت ختم ہو جانے کی تلافی نہیں کر سکتی۔ بعض اوقات تو اس قدر سزا ملتی ہے کہ راس المال ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ رہا وہ اجر و ثواب جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ملے گا تو وہ اطاعت الٰہی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیا کی زیب و زینت گنہگار کے لئے اپنی پوری رعنائی اور خوشنمائی کے ساتھ جلوہ گر ہے لیکن اس کا انجام ہلاکت اور عذابِ الٰہی کے سوا کچھ نہیں۔
و عن سلمان رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَّا یُکَلِّمُھُمُ اﷲُ وَ لَا یُزَکِّیْھِمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌاُشَیْمِطُ زَانٍ وَ عَآئِلٌ مُّسْتَکْبِرٌ وَ رَجُلٌ جَعَلَ اﷲَ بِضَاعَتَہٗ لَا یَشْتَرِیْ اِلاَّ بِیَمِیْنِہٖ وَ لَا یَبِیْعُ اِلاَّ بِیَمِیْنِہٖ (رواہ الطبرانی بسند صحیح)
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ تین قسم کے انسانوں سے بات نہ کرے گا، نہ اُن کو پاک کرے گا اور اُن کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ ۱۔ بوڑھا زانی۔ ۲۔ تکبر کرنے والا فقیر۔ ۳۔ وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا مال سمجھا ہوا ہے۔ بایں صورت کہ مال کو خریدتے اور بیچتے وقت قسم ضرور اُٹھاتا ہے۔
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِیْئُ قَوْمٌ تَسْبِقَ شَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَ یَمِیْنُہٗ شَھَادَتَہٗ
صحیح مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
بہترین دَور وہ ہے جس میں میں خود موجود ہوں، پھر وہ دَور جو میرے بعد آنے والا ہے، پھر وہ دَور جو اُس کے بعد آئے گا، اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی گواہی قسم سے اور قسم گواہی سے پہلے ہو گی۔
فیہ مسائل
٭ اپنی قسم کی حفاظت کرنے کی وصیت کی گئی ہے۔ ٭ خواہ مخواہ اور جھوٹی قسم اٹھانے سے مال کی قیمت تو اچھی مل جاتی ہے لیکن برکت ختم ہو جاتی ہے۔ ٭ اُس شخص کو سخت ڈانٹ پلائی گئی ہے جو مال خریدتے اور بیچتے وقت خواہ مخواہ قسمیں اٹھاتا ہے۔ ٭ اس بات کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے کہ جس شخص میں گناہ میں ملوث ہونے کے امکانات انتہائی قلیل اور تھوڑے ہوں اور وہ پھر بھی گناہ کی طرف زیادہ میلان رکھے تو اُس کا یہ گناہ صغیرہ نہ ہو گا بلکہ کبیرہ گناہ شمار ہو گا۔ ٭ اُن لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جن سے قسم طلب نہیں کی جاتی لیکن وہ اس کے باوجود قسمیں اٹھاتے ہیں۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب ترین تین یا چار اَدوار کی تعریف فرمائی ہے اور جن نئی نئی بدعات کا ظہور ہونے والا تھا، اس کی پیشگوئی بھی فرما دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اپنے عہدو پیمان توڑنا ہلکا گناہ ہے بنسبت اللہ و رسول کے عہدو پیمان توڑنے کے۔
باب:ما جاء فی ذمۃ اﷲ و ذمۃ نبیہ

اس باب میں وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنے عہد و پیمان توڑ دے تو یہ گناہ ہلکا ہے بنسبت اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و پیمان توڑنے کے۔
وقولہ تعالی وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اﷲِ اِذَا عَاھَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوْا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اﷲَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا اِنَّ اﷲَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ (النحل:۹۱)۔
اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اُس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تعالیٰ سب افعال سے باخبر ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تاکیدی حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے قول و قرار اور عہد ومیثاق کو پورا کریں اور قسموں کی کاملاً حفاظت کریں۔
اسی لئے حکم فرمایا کہ دیکھو:
(ترجمہ) ’’قسم اٹھانے کے بعد اُسے توڑو نہیں‘‘۔ (النحل:۹۱)۔
اس آیت کریمہ اور میں مندرجہ ذیل آیت میں کوئی تعارض نہیں ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ‘‘۔ (البقرۃ:۲۲۴)۔
اور آیت
(ترجمہ) ’’یہ ہے تمہاری قسموں کا کفارہ۔ جب کہ تم قسم اٹھاؤ۔ اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو‘‘۔ (المائدہ:۸۹)۔
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی اور ان آیات میں بھی کوئی تناقض نہیں ہے:
’’اگر قسم اٹھانے کے بعد کوئی دوسرا پہلو بہتر دکھائی دے تو میں قسم کو توڑ کر بہتر پہلو اختیار کر لیتا ہوں، اور میں اپنی پہلی قسم کا کفارہ ادا کر دیتا ہوں‘‘۔
ان آیات اور حدیث پاک میں فی الواقع کوئی تعارض یا تناقض نہیں ہے کیونکہ ان آیات میں وہ قسمیں مراد ہیں جو کسی عہد و پیمان میں داخل ہیں۔ اور جن قسموں کو توڑنا جائز بلکہ بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے، ان سے وہ قسمیں مراد ہیں جو کسی کو ترغیب دینے یا کسی چیز کے نہ دینے کے بارے میں اٹھائی جائیں۔ اسی بنا پر اس آیت میں جن قسموں کی ممانعت کی گئی ہے اُن کے متعلق مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جاہلیت کی قسمیں ہیں۔ مجاہد کے اس قول کی تائید وہ روایت کرتی ہے جو امام احمد رحمہ اللہ نے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’اسلام میں کوئی حلف نہیں، اور جاہلیت کی تمام قسموں کو اسلام نے مزید سخت کر دیا ہے‘‘ـ۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ایسا صاف ستھرا اور نکھرا ہوا مذہب ہے جسے جاہلیت کی قسموں کی قطعاً ضرورت اور احتیاج نہیں ہے کیونکہ اسلام سے تمسک اور اس پر عمل کی دیواریں استوار کرنا، انسان کو زمانہ جاہلیت کی تمام چیزوں سے محفوظ کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں
’’تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اُس کو جانتا ہے‘‘
ان لوگوں کے لئے سخت تہدید اور وعید پنہاں ہے جو قسم کھانے کے بعد، اُسے توڑ دیتے ہیں۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو ایک بڑی فوج یا چھوٹے لشکر پر امیر مقرر کرتے تو اُسے اللہ سے تقوی اور اپنے ماتحت لشکر کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی بطورِ خاص وصیت فرماتے۔ پھر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اُسی کا نام لے کر غزوہ کرو اور ہر شخص سے جنگ کرو جو اللہ تعالیٰ سے کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔ غزوہ کرو (اور یاد رکھو) کہ نہ خیانت کرنا، نہ عہد و پیمان توڑنا، نہ کسی کو مثلہ کرنا اور نہ بچوں کو قتل کرنا۔ اور جب مشرک دشمن سے آمنا سامنا ہو تو اُس کے سامنے تین شرطیں پیش کرنا۔ اگر ان میں سے ایک بھی قبول کر لے تو اُسے منظور کر لینا۔ پھر جنگ سے رُک جانا۔ اسلام کی طرف دعوت دینا، اگر اُسے قبول کر لیں تو اس کو منظور کر لینا اور پھر انہیں دارالکفر سے دارُالسلام یعنی مہاجرین کے مقام (مدینہ طیبہ) کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دینا اور یہ بتانا کہ اگر یہ لوگ ہجرت کریں گے تو ان کو وہ سب حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور جو بار مہاجرین کو برداشت کرنا پڑتا ہے اُنہیں بھی برداشت کرنا ہو گا۔ اگر ہجرت سے انکار کریں تو پھر یہ لوگ اُن بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہوتا ہے اور ان کو مالِ غنیمت اور مالِ فئ میں سے حصہ نہیں ملے گا بجز اُس کے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں۔ اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو پھر اُن سے جزیہ طلب کرنا۔ اگر جزیہ دینے پر راضی ہو جائیں تو قبول کر لینا اور جنگ سے رُک جانا۔ اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ان سے جنگ کرنا۔ اور اگر تم کبھی کسی قلعہ بند دُشمن کا محاصرہ کر لو اور دُشمن یہ چاہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ لے لو تو ایسا ہرگز نہ کرنا بلکہ اپنا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ لے لینا کیونکہ اگر تم اپنا یا اپنے ساتھیوں کا ذمہ توڑ دو گے تو اس کا گناہ بہرحال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ توڑنے سے ہلکا ہو گا اور جب تم کسی قلعہ بند دُشمن کا محاصرہ کر لو اور وہ یہ چاہے کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتار لو تو ایسا ہر گز نہ کرنا، اس لئے کہ تمہیں کیا معلوم کہ تو اُن میں اللہ کا حکم پا سکتا ہے یا نہیں؟ (رواہ مسلم)۔
فیہ مسائل
٭ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ اور عام مسلمانوں کے ذمہ میں فرق۔ ٭ دو خطرناک کاموں میں سے جو زیادہ ہلکا ہو اُسے اختیار کرنے کی طرف رہنمائی۔ ٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’بسم اللہ‘‘ کہہ کر اور صرف رضائے الٰہی کو مدنظر رکھ کر جہاد میں حصہ لو۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ جو اللہ سے کفر کرتا ہے اُس سے جنگ کرو۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور کفار سے جنگ کرو۔ ٭ اللہ تعالیٰ اور علماء کے حُکم میں فرق۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس بات کی ممانعت کہ ’’اللہ کی قسم اللہ فلاں شخص کو کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘۔
باب :مَا جَآءَ فی الْاِقْسَامِ عَلَی اﷲِ

اس باب میں اس بات کی سخت مذمت کی گئی ہے کہ کوئی شخص کسی کے بارے میں اس طرح اللہ کی قسم کھائے کہ وہ فلاں شخص کو معاف نہیں کرے گا۔
عن جندب بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ رَجُلٌ وَ اﷲِ لَا یَغْفِرُ اﷲُ لِفُلَانٍ فَقَالَ اﷲُ تَعَالٰی مَنْ ذَا الَّذِیْ یَتَاَلّٰی عَلَیَّ اَنْ لاَّا اَغْفِرَ لِفُلَانٍ اِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَہٗ وَ اَحْبَطْتُ عَمَلَکَ
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ایک شخص نے کہا کہ
’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ فلاں شخص کی مغفرت نہیں کرے گا‘‘
اللہ عز و جل نے فرمایا کہ
یہ کون ہوتا ہے جو میرے متعلق قسم کھائے کہ میں فلاں شخص کی مغفرت نہیں کروں گا؟ میں نے اُسکی مغفرت کر دی اور تیرے (قسم کھانے والے کے) اعمال ضائع کر دیئے۔ (رواہ مسلم)
شرح السنۃ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہے جو صحیح ہے اور جس کی سند سیدنا عکرمہ بن عمار رضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہے۔ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
’’میں ایک دفعہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوا تو مجھے ایک شخص نے آواز دی ’’اے یمامی! اِدھر آؤ‘‘ لیکن میں اس کو نہیں پہچانتا تھا۔ اُس نے کہا دیکھو! کسی سے یہ الفاظ نہ کہو کہ ’’اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ تجھے کبھی نہ بخشے گا اور تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا‘‘۔ میں نے عرض کی: اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ کون ہیں؟ اُس نے جواب دیا میرا نام ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) ہے۔ عکرمہ بن عمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ جملہ تو عام بولا جاتا ہے جب کوئی شخص اپنے خاندان میں سے کسی پر یا اپنی بیوی پر، یا خادم پر ناراض ہوتا ہے تو یہ الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’بنی اسرائیل میں سے دو شخص آپس میں دوست تھے۔ اُن میں سے ایک بہت عبادت گزار تھا اور دوسرے کے متعلق آپ کا ارشاد تھا کہ وہ گنہگار تھا۔ عابد اُسے ہمیشہ یہ کہتا کہ یہ عادتِ معصیت ترک کر دو۔ وہ جواب دیتا کہ تم میرا معاملہ اللہ کے سپرد کر دو۔ ایک دن ایسا ہوا کہ اُسے کسی ایسے گناہ میں مبتلا دیکھا جس کو وہ گناہ کبیرہ سمجھتا تھا کہنے لگا: تم باز آجاؤ۔ گنہگار نے جواب دیا تو مجھے اللہ کے حوالے کر دے۔ کیا تجھے میرا نگران مقرر کیا گیا ہے؟ عابد نے کہا: اللہ کی قسم نہ تو اللہ تمہاری مغفرت کرے گا اور نہ تجھے کبھی جنت میں داخل کرے گا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی طرف فرشتے کو بھیجا اور اُس نے ان کی روحیں قبض کر لیں، دونوں اللہ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ گنہگار سے کہا: تم میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جاؤ اور عبادت گزار سے فرمایا کیا تم میری رحمت کو میرے بندوں سے روک سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں اے میرے رب!!! اللہ نے فرشتوں سے کہا اِسے دوزخ کی طرف لے جاؤ‘‘۔ یہ واقع بیان کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس شخص نے ایسی بات زبان سے نکالی جس نے اُس کی دنیا اور آخرت کو تباہ کر ڈالا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے یہ الفاظ حدیث کے اِن الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اَحَدُھُمَا مُجْتَھِدٌ فِی الْعِبَادَۃِ یعنی ان میں سے ایک بہت عبادت گزار تھا۔ ان احادیث میں لغزش زبان کا بیان ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو گفتگو میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔ جیسا کہ
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’کیا ہم اپنی گفتگو کی وجہ سے بھی پکڑے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! تیری ماں تجھے گم پائے!! تجھے معلوم نہیں کہ لوگوں کو دوزخ میں منہ کے بل یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نتھنوں کے بل، ان کی زبانوں کی کترن (یعنی گفتگو) ہی گرائے گی۔
فیہ مسائل
٭ اللہ تعالیٰ پر قسم کھانے سے ڈرنا۔ ٭ عذابِ دوزخ ہمارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ٭ جنت کا بھی یہی حال ہے۔ ٭انسان بعض اوقات ایسا جملہ کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ عذاب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ٭ بعض اوقات ایسے معاملے میں بھی بخشش ہو جاتی ہے جو انسان کے نزدیک بہت برا ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کو کسی کے سامنے سفارشی مت بناؤ
باب:لَا یُسْتَشْفَعُ بِاﷲِ عَلٰی خَلْقِہٖ

اس باب میں اِس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے سامنے سفارشی کی حیثیت نہیں دینی چاہیئے خواہ وہ شخص اپنے طور پر کتنی بھی اہمیت کا مالک ہو۔
عن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ قَالَ جَآءَ اَعْرَابِیٌّ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲ نُھِکَتِ الْاَنْفُسُ وَ جَاعَ الْعِیَالُ وَ ھَلَکَتِ الْاَمْوَالُ فَاسْتَسْقِ لَنَا رَبَّکَ فَاِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِاﷲِ عَلَیْکَ وَ بِکَ عَلَی اﷲِ فَقَالَ النَّبِیُّ سُبْحَانَ اﷲِ سُبْحَانَ اﷲِ فَمَا زَالَ یُسَبِّحُ حَتّٰی عُرِفَ ذَالِکَ فِیْ وُجُوْہِ اَصْحَابِہٖ ثُمَّ قَالَ وَیْحَکَ اَتَدْرِیْ مَا اﷲُ اِنَّ شَاْنَ اﷲِ اَعْظَمُ منْ ذَالِکَ اِنَّہٗ لَا یُسْتَشْفَعُ بِاﷲِ عَلٰی اَحَدٍ (ابوداؤد)۔
سیدنا جبیر ابن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر ایک دیہاتی عرض کرنے لگا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانیں تلف ہو گئیں، بچے بھوکے مر گئے اور مال برباد ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا کیجئے ہم اللہ تعالیٰ کو آپ کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سن کر بار بار سبحان اللہ پڑھا، یہاںتک کہ اس کا اثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چہروں پر بھی نمودار ہوا پھر فرمایا ’’تجھ پر افسوس! تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کتنی بلند ہے؟ اُس کی شان اتنی بلند ہے کہ اُسے کسی کے حضور سفارشی نہیں لے جایا جاتا‘‘۔
حدیث میں ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کو فرمایا: ’’تجھ پر افسوس! اللہ تعالیٰ کو اس کی کسی مخلوق کے پاس سفارشی نہیں بنایا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان اسے سے کہیں بلند ہے۔ تجھ پر افسوس ہو کیا جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی شان کیا ہے؟ اُس کا عرش آسمانوں کے اُوپر قبے کی طرح ہے۔ وہ عرش اس طرح چرچراتا ہے جیسے کُجَاوا (زین) سوار کے بوجھ کی وجہ سے آواز کرتا ہے‘‘۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’مفتاح دارالسعادۃ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’جب انسان اپنی اندرونی بصیرت سے اپنے آپ کی، اور اپنے رب کی معرفت تامہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر اس کے سامنے بابِ آسمان کھل جاتے ہیں اور اِنسان آسمان کے چپے چپے، اس کے ملکوت اور فرشتوں پر نگاہ ڈالتا ہے اور پھر یکے بعد دیگرے تمام دروازے کھلتے جاتے ہیں۔حتی کہ قلب انسانی ربِّ ذوالجلال کے عرش تک جا پہنچتا ہے۔ عرش کی وُسعت، اُس کی عظمت، اُس کا جلال، اُس کی بلندی اور بزرگی دل کی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے۔ اُس وقت اُس کے مقابل ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے کسی چٹیل اور وسیع و عریض میدان میں چھوٹا سا گول حلقہ پڑا ہو۔ اور اللہ ذوالجلال کے عرش کے ارد گرد ملائکہ کی فوجیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ فرشتوں کے تسبیح و تحمید اور تکبیر و تقدیس کہنے کی وجہ سے ایک شور بپا ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے تمام عالم کی تدابیر جاری ہوتی ہیں، اور تمام جہان کے لشکر کے لئے جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے، احکام صادر ہوتے ہیں، قوموں کی موت و حیات اور عزت و ذلت کے فیصلے یہیں کئے جاتے ہیں۔ ایک کو بادشاہ بنانے اور دوسرے سے مملکت چھین لینے کا حکم یہیں سے صادر ہوتا ہے۔ نعمتوں کے اَدل بدل کا مرکز یہی ہے۔ انسانی ضروریات مختلف اندازوں سے پورا کرنے کا فیصلہ یہیں سے ہوتا ہے۔ نقصانات کی تلافی کرنا اور محتاج کو تونگر اور غنی بنانا سب اسی مقام پر کیا جاتا ہے۔ مریضوں کو شفا دینا، کسی کی تکالیف کو دور کرنا، کسی گنہگار کو معاف کرنا، کسی کی مشکل کو حل کرنا، مظلوم کی فریاد رسی اور امداد کرنا، بھولے ہوئے کو راہ دکھانا، جاہل کو عالم بنانا، بھاگے ہوئے کو واپس لانا، خوفزدہ کو امان دینا، پناہ کے طالب کو محفوظ جگہ عطا کرنا، کمزور کی مدد کرنا، عاجز اور درماندہ کی اعانت کرنا، پریشان حال کی پریشانی رفع کرنا، ظالم سے بدلہ لینا، اور سرکش کی زیادتیوں کو روکنے کے فیصلے یہیں سے صادر ہوتے ہیں۔ یہ سب فیصلے عدل و انصاف اور حکمت کے عین مطابق جاری اور تمام عالم میں نافذ ہوتے ہیں۔ ربِّ ذوالجلال کی ذات ایسی بے مثل ذات ہے کہ بیک وقت مختلف زبانوں سے نکلی ہوئی مختلف دعائیں اور عرض داشتیں اسے کسی کا کلام سننے میں حائل نہیں ہو سکتیں۔ اور بلحاظ اختلافِ لغات اور کثرت مسائل و حاجات، اور طرفہ یہ کہ بیک وقت پکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں خلط ملط نہیں ہوتیں۔ رب کریم اصرار سے مانگنے والوں سے اُکتاتا نہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ سب کی حاجات و ضروریات کو پورا کر دے تو اُس کے خزانہ میں ذرہ بھر کمی پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس کی سب سے نمایاں صفت یہ کہ وہ لَا اِلٰہ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہے۔
انسان یہاں پہنچ کر ربِّ ذوالجلال کی خشیت و ہبیت کی وجہ سے اُس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے، اس کی بے پناہ عزت و عظمت کے پیش نظر انتہائی خشوع و خضوع سے اُس کے حضور کھڑا ہو جاتا اور اللہ ذوالجلال والاکرام کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا سجدہ ہوتا ہے جو قیامت تک کے لئے انسان کو سر اُٹھانے کا نام نہیں لینے دیتا۔ یہ تھا دل کا سفر جبکہ انسان اپنے وطن، گھربار اور اہل و عیال میںہوتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے نشانات اور اس کی کاریگری کے بے مثل عجائب ہیں۔ پس مبارک ہو اس سفر کو، کتنا بابرکت ہے یہ سفر، اس کے نتائج و ثمرات بہت ہی زیادہ ہیں۔ اس کے فوائد اور اس کا انجام عدیم النظیر ہے۔ یہ ایسا بابرکت سفر ہے جس سے رُوح کو نئی زندگی ملتی ہے اور جو سعادت و خوش بختی کی کلید ہے، عقلمندوں کا مال غنیمت ہے۔
رہا مسئلہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کی زندگی میں سفارش کرائی جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفیع بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعا کرائی جائے۔
باقی رہا مسئلہ فوت شدہ شخص کا تو شریعت مطہرہ نے اس کے جنازہ اور اس کی قبر پر اس کے لئے دُعا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ میت کے لئے بس اتنا ہی حکم ہے کہ اس کے لئے دُعا کی جائے البتہ میت سے دُعا کی التجا کرنے کی شریعت اسلامیہ نے اجازت نہیں دی بلکہ اس کی ممانعت کر دی گئی ہے اور کتاب و سنت میں ایسے شخص کے لئے سخت وعید آئی ہے جو مُردے سے دُعا کی التجا کرتا ہے۔ قرآن کریم اس کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ کو چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اُنہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو اُن کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے‘‘ (فاطر:۱۴تا۱۵)۔
اسی طرح فرمایا:
’’جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے اُس وقت وُہ اپنے پکارنے والوں کے دُشمن اور اُن کی عبادت کے منکر ہوں گے‘‘۔ (الاحقاف:۶)۔
پس ہر میت اور غائب شخص نہ تو سن سکتا ہے اور نہ دُعا قبول کرنے کی اُسے قدرت و طاقت ہے۔ اور نہ وہ کسی کو نفع دے سکتا ہے اور نہ کسی کو تکلیف میں مبتلا کر سکتا ہے۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور خصوصاً خلفائے راشدین میں سے کسی سے بھی منقول نہیں ہے کہ اُنہوں نے کسی وقت بھی اپنی حاجات اور مشکلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر اُن کی خدمت میں پیش کی ہوں، خصوصاً قحط سالی کے وقت۔
جیسا کہ دَورِ خلافت فاروق ہی میں قحط سالی ہوئی۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ لوگوں کو لے کر میدان میں مدینہ سے باہر نکلے تاکہ نمازِ استسقٰی پڑھی جائے۔ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ نماز استسقٰی پڑھائیں اور دُعا کریں کیونکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ زندہ موجود تھے۔ ثابت ہوا کہ اگر کسی شخص کے مرنے کے بعد اس سے بارش وغیرہ کے لئے دُعا کرانا جائز ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو نہ کہتے بلکہ سیدھے قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خود بھی آتے اور لوگوں کو بھی لاتے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں کیا گیا۔ نہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے کیا اور نہ کسی دُسرے صحابی نے کیا۔
اس واقعہ سے زندہ اور فوت شدہ کے درمیان جو امتیازی فرق ہے وہ واضح ہو جاتا ہے کیونکہ زندہ شخص سے سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ موجود ہو تو دعا کرے۔

فیہ مسائل
٭ جس شخص نے یہ کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفارشی بناتے ہیں اِس پر ناراض ہونا اور اس کی اس بات کو خلافِ شریعت قرار دینا۔ ٭رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور کا اس طرح متغیر ہو جانا کہ صحابہ کرام کے چہروں پر بھی اس کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ ناپسند نہیں فرمایا کہ ’’ہم اللہ تعالیٰ کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارشی بناتے ہیں‘‘۔ ٭سبحان اللہ کے معنی و مفہوم کی وضاحت۔ ٭ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر بارش کی دُعا کروایا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے پہلو کو کیونکر ثابت کیا اور کس طرح …
باب:مَا جَآءَ فی حمایۃ النبی حمی التوحید و سدہ طرق الشرک

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے پہلو کو کیونکر ثابت کیا اور کس طرح اُس راہ کو بند کر دیا ہے جو شرک کی طرف لے جاتی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن اقوال و اعمال کی جو عقیدئہ توحید میں نقص و اضمحلال کا باعث بنتے ہیں، کس طرح بیخ کنی کی اور شجر توحید کی آبیاری کے لئے کیا کیا کوششیں فرمائیں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشمار ارشادات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
’’میری تعریف میں غلو سے کام نہ لینا جیسا کہ نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا تھا، میں تو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو‘‘۔
گزشتہ صفحات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل ارشادِ گرامی ذکر کیا جا چکا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’مجھ سے استغاثہ نہ کیا جائے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی سے استغاثہ کیا جائے‘‘۔
ایک دوسرے کے منہ پر تعریف کرنے سے بھی سختی سے روکا ہے چنانچہ ایک شخص نے کسی کی اس کے سامنے تعریف کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہے تو نے اپنی بھائی کی گردن کاٹ ڈالی‘‘
۔ ابوداؤد میں عبدالرحمن بن ابی بکر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے دُوسرے کی تعریف کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کرنے والے کو تین بار فرمایا کہ
’’تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تعریف میں مبالغہ کرنے والوں سے ملو تو اُن کے منہ مٹی سے بھر دو‘‘۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)۔
عن عبداﷲ بن الشخیر رضی اللہ عنہ قَالَ اِنْطَلَقْتُ فِیْ وَفْدِ بَنِیْ عَامِرٍ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْنَا اَنْتَ سَیِّدُنَا فَقَالَ السَّیِّدُ اﷲ تَبَارکَ وَ تَعَالٰی قُلْنَا وَ اَفْضَلنَا فَضْلًا وَّ اَعْظَمُنَا طَوْلاً فَقَالَ قُوْلُوْا بِقَوْلِکُمْ اَوْ بَعْضَ قَوْلِکُمْ وَ لَا یَسْتَجْرِیَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ
سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بنی عامر کے ایک وفد کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ہم نے عرض کی آپ ہمارے سردار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سردار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بابرکت اور بلند ہے۔ ہم نے پھر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے افضل ترین اور بیشمار احسان کرنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ یا اس طرح کی مناسب باتیں کرو اور یاد رکھنا کہ کہیں شیطان کے پھندے میں نہ آجانا۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بالکل پسند نہیں فرمایا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر مدح اور تعریف کریں تاکہ وہ غلو میں مبتلا ہو جائیں اور اس کی صراحت فرمائی کہ کسی کے منہ پر تعریف کرنے والا اگرچہ جس معاملے میں تعریف کی جا رہی ہے، وہ اس میں موجود ہی ہو، شیطانی عمل کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ تعریف کرنے والا اپنے ممدوح کو بہت ہی پر عظمت اور اعلیٰ و ارفع سمجھے گا تو اس کی تعریف کے گا اور یہ کمالِ توحید کے منافی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عبادت کا ایک مخصوص انداز اور خاص مرکز و محور ہے جس کے اردگرد عبادت کا پورا نظام گھومتا ہے اور وہ محور ہے کسی کی محبت میں اس کے سامنے انتہائی عجز و تذلل سے پیش آنا اور یہ عجز و تذلل خضوع و خشیت اور مسکنت کو مستلزم ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔
جب تعریف اور مدح کی وجہ سے انسان کے دماغ میں بڑا پن یا فخر و عجب کی کیفیت ابھر آئے گی تو عبدیت کے خاصہ میں عظیم نقص پیدا ہو جائے گا جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’بڑائی میری چادر اور عظمت میرا لباس ہے، جو شخص میری ان دونوں (صفات) میں سے کسی ایک کو چھیننے کی کوشش کرے گا میں اُسے عذاب دوں گا‘‘۔ (مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ)۔
ایک روایت میں یوں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘ (مسند احمد)
اپنی مدح اور تعریف کو پسند کرنا بعض اوقات ذہنی اور دینی آفات و مصائب میں مبتلا ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہیئے کہ عُجب اور فخر اعمالِ صالحہ کو اس طرح کھا جاتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو۔
یہ احتیاطی تدابیر اس لئے اختیار کی گئیں تاکہ عقیدئہ توحید کی پوری طرح حفاظت کی جا سکے اور اس میں کوئی ایسی بات شامل نہ ہو جائے جو بنیادی طور پر اس کے مزاج کے منافی ہو۔ اور پھر کہیں نوبت یہاں تک نہ پہنچ جائے کہ شرک اور اس کے جراثیم، اس کی اساس کو کمزور کر دیں۔
کسی شخص کو ’’السید‘‘ کہہ کر پکارنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب: ’’بدائع الفوائد‘‘ میں لکھتے ہیں: بعض علماء نے یہ لفظ کہنا ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ علمائے کرم اس باب میں اسی حدیث کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاسیدنا کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’السید اللہ تبارک و تعالیٰ‘‘۔ اور بعض علمائے کرام نے اس کو جائز ٹھہرایا ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انصاری ساتھیوں سے فرمایا تھا کہ ’’اپنے سید کے لئے کھڑے ہو جاؤ‘‘۔ یہ حدیث پہلی سے زیادہ قوی اور صحیح ہے۔ مگر دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہاں سیادت اضافی مراد ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے۔ لفظ ’’السید‘‘ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو گا تو اس وقت اس کے معنی: مالک، مولی اور ’’ربّ‘‘ کے ہوں گے۔ وہ معنی مراد نہیں ہوں گے جو مخلوق پر استعمال کرتے وقت مراد لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جن کے لئے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا: وہاں سیادت کے وہ معنی نہیں ہیں جن معنی میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

فیہ مسائل
٭ مبالغہ آمیزی سے لوگوں کو ڈرانا۔ ٭باوجود اس کے کہ لوگوں نے سچی اور حق بات کہی تھی لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہیں تم کو شیطان بہکا نہ دے‘‘۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ’’میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اُس مرتبہ سے جس پر اللہ کریم نے مجھے فائز کیا ہے، بڑھاؤ‘‘ کی وضاحت۔
 
Top