شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,013
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلام
محترم جناب سہج صاحب آپ کو میرے مضمون پر اصل اعتراض یہ تھا:
مطلب یہ کہ میرے مضمون میں جو کچھ آپ کو قابل اعتراض اور غلط لگا اس پر آپ نے اعتراض کیا اور جو کچھ صحیح لگا یا پھرصحیح تو نہیں لگا لیکن اس پر اختلاف کرنے کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اورنہ ہی آپ میں اس پر بحث کرنے کی سکت تھی، لہذا اسے چھوڑ دیا۔ اس طرح اس موضوع پر ہمارے اور آپ کے درمیان بحث و مباحثہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیااور جو بحث ہونی تھی وہ ہو چکی اس لئے مزید کسی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔لیکن آپ مجھے اصطلاحی چکروں میں الجھا کر ایک نئی بحث کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے آج تک کسی اہل حدیث کو غیر اہل حدیث کے سامنے لاجواب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ اہل حدیث تو ہمیشہ غالب رہتے ہیں، اس میں اہل حدیثوں کا کوئی کمال نہیں بلکہ کمال تو اس وحی کا ہے جس کی اہل حدیث اتباع کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی ناقابل شکست بننا چاہتے ہیں تو وحی کی اتباع شروع کردیں، کوئی بھی آپ کو زیر نہیں کرسکے گا۔
لیکن اگر آپ فقہ حنفی کے ذریعے اہل حدیثوں کو مغلوب کرنا چاہتے ہو تو یہ محض آپ کی خام خیالی ہے اس میں کامیابی ناممکن ہے۔ کیونکہ باطل افکار و نظریات کے مقدر میں ہمیشہ کے لئے ذلت، رسوائی اور مغلوبیت ہے۔
لیکن یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع یہی ہے کہ جو کام نبی کریم ﷺ نے کثرت سے کیا ہمیں بھی وہ کام کثرت سے کرنا چاہیے اور جسے کبھی کبھی یا کسی عذر کی بنا پر سر انجام دیا، ہمیں بھی اس کام کو کبھی کبھی اور اسی عذر کے لاحق ہو جانے کی بنا پر کرنا چاہیے۔
لیکن ایسا کسی صورت میں درست نہیں کہ کوئی شخص اپنے خود ساختہ مذہب کی وجہ سے اس جائز عمل کو غلط اور گناہ قرار دے دے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔
جس کام کو رسول اللہ ﷺ نے ناجائز اور گناہ نہیں کہا اسے اپنے طور پر گناہ قرار دینا شریعت سازی ہے اور شریعت سازی کفر اور شرک ہے کیونکہ یہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے۔
اس کے علاوہ آپ نے جو صرف بغیر عذر کے کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کو گناہ اور ناجائز کہا ہے۔ اوّل تو یہ بلادلیل ہے اس لئے آپکو اس بات کو حدیث سے ثابت کرنا پڑے گا کہ بلاعذر یہ عمل گناہ ہے اور عذر کی وجہ سے جائز ہے۔ کیونکہ ایسی کوئی تفریق ہمیں احادیث میں نہیں ملتی۔
دوم: عذر کے ساتھ اور عذر کے بغیر والی آپ کی خود ساختہ شرط خود آپ کے فقہی ابن نجیم اور اکابرین دیوبند کے خلاف ہے۔ ابن نجیم نے مطلقاً (چاہے عذر کے ساتھ ہو یا بغیر عذر کے) کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ قرار دیا ہے اور اکابرین دیوبند نے اپنی تصدیقات کے ذریعے اس موقف کی موافقت کی ہے۔ اگر ابن نجیم کے نزدیک یہ عمل عذر کی وجہ سے جائز ہوتا اور بغیر عذر کے گناہ ہوتا تو یقیناً وہ اس کا اظہار کرتے لیکن جیسا کہ انہوں نے ایسا کوئی اظہار یا وضاحت نہیں کی اس لئے ثابت ہوا کہ اکابرین دیوبند اور ان کے بہت بڑے فقہی کے نزدیک ہر حال میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا گناہ ہے۔
سہج صاحب اب آپ خود غور فرمالیں کہ آپ کا موقف کچھ اور ہے اور آپکے اکابرین کا موقف کچھ اور۔ میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپکا موقف کون سا ہے؟ وہ جو آپ کے اکابرین کا ہے یا وہ جو اس کے خلاف ہے؟
اور یہ بھی بتا دیجئے گا کہ دیوبندیت کو آپ زیادہ جانتے ہیں یا آپ کے اکابرین؟ یا اگر کسی معاملے میں آپ اپنے اکابرین سے اختلاف کریں تو آپ کی مانی جائے گی یا آپ کے اکابرین کی؟
جب آپ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کر کوئی فیصلہ کرلیں تو ہمیں مطلع فرما دیجئے گا تاکہ آگے بحث ممکن ہوسکے۔ لیکن اگر آپ اسی طرح تناقضات کے سمندر میں غوطہ زن رہے تو بحث کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل سنت بھی ہوتا ہے اور نہیں بھی۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لغوی طور پر ہر حدیث پر سنت کا اطلاق ہوتا ہے اور اسے سنت کہا جاتا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ابوالحسن علوی حفظہ اللہ کا یہ مضمون: http://www.kitabosunnat.com/forum/یونیکوڈ-فارمیٹ-میں-119/اہل-سنت-کا-تصور-سنت-888/
آپ کے شہید دیوبندیت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رقم طراز ہیں: جب کہا جائے کہ فلاں چیز سنت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ’’بدعت‘‘ نہیں اور جب کہا جائے کہ یہ چیز ’’بدعت‘‘ ہے تو اس کے دوسرے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ چیز خلاف سنت ہے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٥)
محمد یوسف لدھیانوی کی سنت کی اس تشریح کا اطلاق اگر ہم زیر بحث مسئلہ پر کریں اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو ’’سنت‘‘ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ عمل ناجائز اور گناہ (یعنی بدعت) نہیں ہے۔ یعنی یہاں لفظ سنت کو بطور لغوی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت شدہ عمل کو اس لئے سنت کہا جاتا ہے کہ اسے رسول اللہﷺ نے خود کیا یا اس کا حکم دیا یا اس پر خاموشی اختیار فرمائی۔ اسی بات کو مولانا محمد یوسف لدھیانوی یوں بیان کرتے ہیں: سنت طریقہ کو کہتے ہیں۔ پس عقائد۔اعمال۔ اخلاق۔ معاملات اور عادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ اپنایا وہ ’’سنت‘‘ ہے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٦)
یوسف لدھیانوی صاحب مزید فرماتے ہیں: جس مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ صورتیں منقول ہوں، وہ سب سنتیں کہلائیں گی۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)
پس دیوبندیوں کے اکابر کی اس تصریح اور وضاحت سے ثابت ہوا کہ احادیث صحیحہ سے ہر ثابت شدہ عمل کو عام طور پر سنت کہا جاتا ہے۔ اس طرح الحمداللہ ہمارے دعویٰ کا ایک حصہ ثابت ہوا۔ اب چلتے ہیں دوسرے حصےّ کی طرف۔
یوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں: ایک کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول تھا مگر دوسرا کام آپ نے کبھی ایک آدھ مرتبہ کیا، اس صورت میں اصل ’’سنت‘‘ تو آپ کا اکثری معمول ہوگا، مگر دوسرے کام کو بھی، جو آپ نے بیان جواز کے لئے کیا، ’’بدعت‘‘ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ اسے ’’جائز‘‘ کہیں گے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)
الحمداللہ ثم الحمداللہ آپ ہی کے اکابر کی تحریر سے ہمارے موقف کا دوسرا اور آخری حصّہ بھی ثابت ہوگیا۔
یاد رہے کہ ہم نے بار بار یہی کہا کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز عمل ہے۔ جیسا کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے بھی کہا کہ جو کام آپ ﷺ نے جواز کے لئے کیا اسے جائز کہیں گے۔ اسے سنت اس لئے نہیں کہا کہ اصطلاح میں سنت اسی عمل کو کہا جاتا ہے جس عمل کو رسول اللہ ﷺ نے اکثر کیا ہو اور جسے کبھی کبھی کیا ہو وہ عمل جواز کے درجے میں ہوتا ہے اور اسے اصطلاحی معنوں میں سنت نہیں کہا جاتا۔
نبی کریم ﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا امت کے لئے رحمت ہے کیونکہ اس سے ہمیں جواز مل گیا کہ کبھی کبھی یا بوقت ضرورت کھڑے ہوکر بھی پیشاب کیا جاسکتا ہے اور اس میں کچھ گناہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس پر عمل کی وجہ سے یہ جائز ہوگیا۔ والحمداللہ
نوٹ: نبی ﷺ کے کئے ہوئے فعل کو کفار کے فعل سے تشبیہ دینا یا اس جائز عمل کو گناہ اور ناجائز کہنا شریعت کا مذاق اڑانا ہے اور سب سے بڑھ کر نبی ﷺ پر طعن کرنا ہے جو کہ مقلدین کا وطیرہ اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔
محترم جناب سہج صاحب آپ کو میرے مضمون پر اصل اعتراض یہ تھا:
حالانکہ آپ کے اس اعتراض کی بنیاد کذب بیانی اور دھوکہ دہی پر تھی، یہی وجہ ہے کہ ہمارے مسلسل اصرار کے باوجود بھی آپ اپنے دعویٰ اور الزام جو آپ نے مذکورہ بالا سطور میں ہم پر عائد کیا،کو ثابت کرنے سے مکمل طور پر عاجز رہے۔ پھر آپ نے اپنے الزام کو مختلف انداز میں کئی مرتبہ دھرایا جس کا آپ کو جواب دیا گیا۔ اس کے علاوہ میرا جو اصل موضوع تھا کہ مقلدین اپنے مذہب کے دفاع اور تعصب میں صحیح احادیث کا مذاق اڑاتے اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان کا انکار کرتے ہیں ، اس پر بھی آپ نے کوئی بحث نہیں کی اور نہ ہی کوئی اظہار خیال فرمایا۔جس میں آپ نے کھڑے ھو کر پیشاب کرنے کو (معاذ اللہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک ثابت کرنے کی کوشش کی ھے ۔ بلکہ آپ کے مراسلے اور بعد والے مراسلوں سے یہی ظاھر ھوتا ھے کہ آپ لوگ کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کو ہی سنت سمجھتے ہیں۔
مطلب یہ کہ میرے مضمون میں جو کچھ آپ کو قابل اعتراض اور غلط لگا اس پر آپ نے اعتراض کیا اور جو کچھ صحیح لگا یا پھرصحیح تو نہیں لگا لیکن اس پر اختلاف کرنے کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اورنہ ہی آپ میں اس پر بحث کرنے کی سکت تھی، لہذا اسے چھوڑ دیا۔ اس طرح اس موضوع پر ہمارے اور آپ کے درمیان بحث و مباحثہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیااور جو بحث ہونی تھی وہ ہو چکی اس لئے مزید کسی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔لیکن آپ مجھے اصطلاحی چکروں میں الجھا کر ایک نئی بحث کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ منکرین حدیث کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج مقلدین نے اپنے گرتے ہوئے اور شکست خوردہ مذہب کو کچھ باطل اصولوں کے ذریعے سہارا دینے کے لئے جو حدیث اور سنت میں فرق کیا ہے پھر اس کے لئے جو جو مغالطے دئے ہیں۔ آپ بھی انہیں مغالطوں کے جوہر دکھا کر اپنے مناظرانہ جذبات کی تسکین کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کو اطمینان حاصل ہو کہ آپ نے اہل حدیثوں کو بحث میں الجھا کر لاجواب کر دیا۔جناب شاھد نذیر صاحب السلام علیکم
الگ بحث نہ سمجھئے میں اس بحث کو سمیٹ کر ایک نقطہ پر لارہا ھوں ، اور یہ اس وقت ھوگا جب آپ سنت اور حدیث کے بارے میں بتادیں گے کہ “صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل“ کیا کہلاتا ھے “سنت“ یا “حدیث“؟
لیکن! حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے۔
میں نے آج تک کسی اہل حدیث کو غیر اہل حدیث کے سامنے لاجواب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ اہل حدیث تو ہمیشہ غالب رہتے ہیں، اس میں اہل حدیثوں کا کوئی کمال نہیں بلکہ کمال تو اس وحی کا ہے جس کی اہل حدیث اتباع کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی ناقابل شکست بننا چاہتے ہیں تو وحی کی اتباع شروع کردیں، کوئی بھی آپ کو زیر نہیں کرسکے گا۔
لیکن اگر آپ فقہ حنفی کے ذریعے اہل حدیثوں کو مغلوب کرنا چاہتے ہو تو یہ محض آپ کی خام خیالی ہے اس میں کامیابی ناممکن ہے۔ کیونکہ باطل افکار و نظریات کے مقدر میں ہمیشہ کے لئے ذلت، رسوائی اور مغلوبیت ہے۔
میرے بھائی آپ اپنی ناقص عقل اور باطل قیاس کے زور پر اپنے موقف کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔ جس جگہ جھوٹ بولنا جائز ہے اور جس جگہ ناجائز اور گناہ ہے وہ تمام جگہیں اور مواقع احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ یہی حال غیب کا بھی ہے۔ جیسے تجارت اور سود میں بظاہر کوئی فرق نہیں لیکن ایک چیز کو اللہ نے حلال اور دوسری چیز کو حرام کیا ہے۔ ان تمام مثالوں میں ہر کیفیت ثابت شدہ ہے۔ لیکن کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا معاملہ ان مثالوں سے بالکل مختلف ہے۔ اسی لئے آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو ان مثالوں پر قیاس نہیں کرسکتے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا اور اس سے اپنی امت کو روکا نہیں لہٰذا یہ جائز عمل ہوا۔جیسے بعض موقعوں اور معاملات میں جھوٹ بولنا جائز ھے لیکن ہر جگہ جھوٹ بولا جائے تو گناہ ھوتا ھے ۔ جیسے سچ بولنا ہمیشہ ثواب کا باعث ھے لیکن “غیبت“ میں سچ بولنا بھی گناہ ھے ۔
ایسے ہی ہر حال میں کھڑے ھوکر پیشاب کرنا ناجائز اور گناہ ھے، یعنی بغیر عزر کے کھڑے ھوکر پیشاب کرنا ۔ جیسا کہ کفار اور ان کے ناقل مسلمان پبلک اور رہائشی مقامات پر دیوار میں چھوٹا کموڈ لگاتے ہیں جس میں مرد کھڑے ھوکر پیشاب کرلیتے ہیں ۔
لیکن یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع یہی ہے کہ جو کام نبی کریم ﷺ نے کثرت سے کیا ہمیں بھی وہ کام کثرت سے کرنا چاہیے اور جسے کبھی کبھی یا کسی عذر کی بنا پر سر انجام دیا، ہمیں بھی اس کام کو کبھی کبھی اور اسی عذر کے لاحق ہو جانے کی بنا پر کرنا چاہیے۔
لیکن ایسا کسی صورت میں درست نہیں کہ کوئی شخص اپنے خود ساختہ مذہب کی وجہ سے اس جائز عمل کو غلط اور گناہ قرار دے دے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔
جس کام کو رسول اللہ ﷺ نے ناجائز اور گناہ نہیں کہا اسے اپنے طور پر گناہ قرار دینا شریعت سازی ہے اور شریعت سازی کفر اور شرک ہے کیونکہ یہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے۔
اس کے علاوہ آپ نے جو صرف بغیر عذر کے کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کو گناہ اور ناجائز کہا ہے۔ اوّل تو یہ بلادلیل ہے اس لئے آپکو اس بات کو حدیث سے ثابت کرنا پڑے گا کہ بلاعذر یہ عمل گناہ ہے اور عذر کی وجہ سے جائز ہے۔ کیونکہ ایسی کوئی تفریق ہمیں احادیث میں نہیں ملتی۔
دوم: عذر کے ساتھ اور عذر کے بغیر والی آپ کی خود ساختہ شرط خود آپ کے فقہی ابن نجیم اور اکابرین دیوبند کے خلاف ہے۔ ابن نجیم نے مطلقاً (چاہے عذر کے ساتھ ہو یا بغیر عذر کے) کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ قرار دیا ہے اور اکابرین دیوبند نے اپنی تصدیقات کے ذریعے اس موقف کی موافقت کی ہے۔ اگر ابن نجیم کے نزدیک یہ عمل عذر کی وجہ سے جائز ہوتا اور بغیر عذر کے گناہ ہوتا تو یقیناً وہ اس کا اظہار کرتے لیکن جیسا کہ انہوں نے ایسا کوئی اظہار یا وضاحت نہیں کی اس لئے ثابت ہوا کہ اکابرین دیوبند اور ان کے بہت بڑے فقہی کے نزدیک ہر حال میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا گناہ ہے۔
سہج صاحب اب آپ خود غور فرمالیں کہ آپ کا موقف کچھ اور ہے اور آپکے اکابرین کا موقف کچھ اور۔ میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپکا موقف کون سا ہے؟ وہ جو آپ کے اکابرین کا ہے یا وہ جو اس کے خلاف ہے؟
اور یہ بھی بتا دیجئے گا کہ دیوبندیت کو آپ زیادہ جانتے ہیں یا آپ کے اکابرین؟ یا اگر کسی معاملے میں آپ اپنے اکابرین سے اختلاف کریں تو آپ کی مانی جائے گی یا آپ کے اکابرین کی؟
جب آپ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کر کوئی فیصلہ کرلیں تو ہمیں مطلع فرما دیجئے گا تاکہ آگے بحث ممکن ہوسکے۔ لیکن اگر آپ اسی طرح تناقضات کے سمندر میں غوطہ زن رہے تو بحث کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔
جناب والا یہ مسئلہ سنت یا غیر سنت کا نہیں بلکہ جائز اور ناجائز و گناہ کا ہے جیسا کہ میں نے اوپر تفصیل سے وضاحت کر دی ہے۔ لیکن یہ بات اور ہے کہ آپ کا موقف آپکے اکابرین کے خلاف ہو اور آپ خود ایک مستقل مجتہد ہوں!حضور یہاں آپ نے واقعی سمجھداری کا مظاھرہ کیا ھے ۔ جائز اور ناجائز کا تو مسئلہ ھے ہی نہیں بلکہ سنت اور غیر سنت کا ھے۔
یہاں بحث کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ ایک دوسری بحث کا آغاز ہوگا، بہرحال چونکہ آپ بضد ہیں کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں تو میرے بھائی جواب حاضر ہے:امید ھے آپ میری بات کو سمجھ گئے ھوں گے اور اپنے اگلے مراسلے میں میرے واحد سوال کا جواب دے کر اس بحث کا خاتمہ کردیں گے ۔
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل سنت بھی ہوتا ہے اور نہیں بھی۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لغوی طور پر ہر حدیث پر سنت کا اطلاق ہوتا ہے اور اسے سنت کہا جاتا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ابوالحسن علوی حفظہ اللہ کا یہ مضمون: http://www.kitabosunnat.com/forum/یونیکوڈ-فارمیٹ-میں-119/اہل-سنت-کا-تصور-سنت-888/
آپ کے شہید دیوبندیت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رقم طراز ہیں: جب کہا جائے کہ فلاں چیز سنت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ’’بدعت‘‘ نہیں اور جب کہا جائے کہ یہ چیز ’’بدعت‘‘ ہے تو اس کے دوسرے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ چیز خلاف سنت ہے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٥)
محمد یوسف لدھیانوی کی سنت کی اس تشریح کا اطلاق اگر ہم زیر بحث مسئلہ پر کریں اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو ’’سنت‘‘ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ عمل ناجائز اور گناہ (یعنی بدعت) نہیں ہے۔ یعنی یہاں لفظ سنت کو بطور لغوی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت شدہ عمل کو اس لئے سنت کہا جاتا ہے کہ اسے رسول اللہﷺ نے خود کیا یا اس کا حکم دیا یا اس پر خاموشی اختیار فرمائی۔ اسی بات کو مولانا محمد یوسف لدھیانوی یوں بیان کرتے ہیں: سنت طریقہ کو کہتے ہیں۔ پس عقائد۔اعمال۔ اخلاق۔ معاملات اور عادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ اپنایا وہ ’’سنت‘‘ ہے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٦)
یوسف لدھیانوی صاحب مزید فرماتے ہیں: جس مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ صورتیں منقول ہوں، وہ سب سنتیں کہلائیں گی۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)
پس دیوبندیوں کے اکابر کی اس تصریح اور وضاحت سے ثابت ہوا کہ احادیث صحیحہ سے ہر ثابت شدہ عمل کو عام طور پر سنت کہا جاتا ہے۔ اس طرح الحمداللہ ہمارے دعویٰ کا ایک حصہ ثابت ہوا۔ اب چلتے ہیں دوسرے حصےّ کی طرف۔
یوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں: ایک کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول تھا مگر دوسرا کام آپ نے کبھی ایک آدھ مرتبہ کیا، اس صورت میں اصل ’’سنت‘‘ تو آپ کا اکثری معمول ہوگا، مگر دوسرے کام کو بھی، جو آپ نے بیان جواز کے لئے کیا، ’’بدعت‘‘ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ اسے ’’جائز‘‘ کہیں گے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)
الحمداللہ ثم الحمداللہ آپ ہی کے اکابر کی تحریر سے ہمارے موقف کا دوسرا اور آخری حصّہ بھی ثابت ہوگیا۔
یاد رہے کہ ہم نے بار بار یہی کہا کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز عمل ہے۔ جیسا کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے بھی کہا کہ جو کام آپ ﷺ نے جواز کے لئے کیا اسے جائز کہیں گے۔ اسے سنت اس لئے نہیں کہا کہ اصطلاح میں سنت اسی عمل کو کہا جاتا ہے جس عمل کو رسول اللہ ﷺ نے اکثر کیا ہو اور جسے کبھی کبھی کیا ہو وہ عمل جواز کے درجے میں ہوتا ہے اور اسے اصطلاحی معنوں میں سنت نہیں کہا جاتا۔
نبی کریم ﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا امت کے لئے رحمت ہے کیونکہ اس سے ہمیں جواز مل گیا کہ کبھی کبھی یا بوقت ضرورت کھڑے ہوکر بھی پیشاب کیا جاسکتا ہے اور اس میں کچھ گناہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس پر عمل کی وجہ سے یہ جائز ہوگیا۔ والحمداللہ
نوٹ: نبی ﷺ کے کئے ہوئے فعل کو کفار کے فعل سے تشبیہ دینا یا اس جائز عمل کو گناہ اور ناجائز کہنا شریعت کا مذاق اڑانا ہے اور سب سے بڑھ کر نبی ﷺ پر طعن کرنا ہے جو کہ مقلدین کا وطیرہ اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔