محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
پہلے علماء نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد و اذا قراٗ فانصتوا(5) (جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا: جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا ۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ۔۔
پس یہ بھی ثابت شدہ بات ہے کہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا ۔الآیۃ مقتدی کو خاموش رہ کر امام کی قراءت کی طرف توجہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔ الحمدللہ
اب رہی بات یہ کہ یہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا ۔الآیۃ مدنی ہے یا مکی؟ تو پہلے میں اک سوال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہو
سوال: سورہ اعراف کو مکی سورۃ کہنے والی شخصیت کا نام بتائیے؟
مجھے یقین ہے کہ پچھلے سوال کی طرح اس سوال کا جواب بھی نہیں آئے گا ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ رحمه الله أنا عبد الرحمن بن الحسن القاضي ، نا إبراهيم بن الحسين ، نا آدم بن أبي إياس ، نا ورقاء ، عن ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عن مجاهد ، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الصلاة فسمع قراءة فتى من الأنصار فنزل وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا
(کتاب القراءۃ للبیھقی ؛ص107)
اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم جب قراءت فرما رہے تھے تو ایک انصاری نوجوان کی قراءت سنی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بات واضح ہے کہ انصار مدینہ منورہ ہی میں تھے یا مکہ میں ؟ یقینا مدینہ میں ہی تھے ۔ تو ثابت کیا ہوا ؟ کم از کم مزکورہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی۔
امید ہے اب کوئی نام کا ہی سہی، اہل حدیث میرے سوال کا جواب دے ہی دے گا۔ کہ واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟
شکریہ
دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبداللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے (1) ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے
امام قرطبی نے “واذا قرافانصتوا” کو غیر محفوظ ثابت کیا ہے اور اس الفاظ کو سلیمان تیمی کی زیادتی ثابت کیا ہے:
"جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا"
پھر قتادہ کہ شاگردوں کی غیر متابعت ثابت کر کہ یہ ثابت کیا کہ “[HL]واذا قرافانصتوا” زیادتی ہے سلیمان تیمی کی طرف سے[/HL]:
"۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا"
پھر ان حفاظ حدیث میں جو افراد شامل ہیں جنہوں نے سلیمان تیمی کی متعابت نہیں کی انکے نام پیش کیے:
"حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ"
پھر دارقطنی سے اجماع ثابت کیا ان حفاظ کی طرف سے اور سلیمان تیمی ان الفاظ کو وہم ثابت کیا:
"دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے"
پھر ابو داؤد سے بھی یہ ثابت کیا ہے جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو کہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں:
"ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوامحفوظ نہیں ہے
Last edited: