• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
۔


پس یہ بھی ثابت شدہ بات ہے کہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا ۔الآیۃ مقتدی کو خاموش رہ کر امام کی قراءت کی طرف توجہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔ الحمدللہ

اب رہی بات یہ کہ یہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا ۔الآیۃ مدنی ہے یا مکی؟ تو پہلے میں اک سوال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہو


سوال: سورہ اعراف کو مکی سورۃ کہنے والی شخصیت کا نام بتائیے؟
مجھے یقین ہے کہ پچھلے سوال کی طرح اس سوال کا جواب بھی نہیں آئے گا ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ رحمه الله أنا عبد الرحمن بن الحسن القاضي ، نا إبراهيم بن الحسين ، نا آدم بن أبي إياس ، نا ورقاء ، عن ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عن مجاهد ، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الصلاة فسمع قراءة فتى من الأنصار فنزل وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا
(کتاب القراءۃ للبیھقی ؛ص107)
اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم جب قراءت فرما رہے تھے تو ایک انصاری نوجوان کی قراءت سنی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بات واضح ہے کہ انصار مدینہ منورہ ہی میں تھے یا مکہ میں ؟ یقینا مدینہ میں ہی تھے ۔ تو ثابت کیا ہوا ؟ کم از کم مزکورہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی۔​

امید ہے اب کوئی نام کا ہی سہی، اہل حدیث میرے سوال کا جواب دے ہی دے گا۔ کہ واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟

شکریہ







پہلے علماء نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد و اذا قراٗ فانصتوا(5) (جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا: جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا ۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ۔
دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبداللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے (1) ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے

امام قرطبی نے واذا قرافانصتوا” کو غیر محفوظ ثابت کیا ہے اور اس الفاظ کو سلیمان تیمی کی زیادتی ثابت کیا ہے:

"جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا"

پھر قتادہ کہ شاگردوں کی غیر متابعت ثابت کر کہ یہ ثابت کیا کہ “[HL]واذا قرافانصتوا” زیادتی ہے سلیمان تیمی کی طرف سے[/HL]:

"۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا"

پھر ان حفاظ حدیث میں جو افراد شامل ہیں جنہوں نے سلیمان تیمی کی متعابت نہیں کی انکے نام پیش کیے:

"حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ"

پھر دارقطنی سے اجماع ثابت کیا ان حفاظ کی طرف سے اور سلیمان تیمی ان الفاظ کو وہم ثابت کیا:

"دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے"

پھر ابو داؤد سے بھی یہ ثابت کیا ہے جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو کہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں:

"ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوامحفوظ نہیں ہے
 
Last edited:

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
پہلے علماء نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد و اذا قراٗ فانصتوا(5) (جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا: جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا ۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ۔
دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبداللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے (1) ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے

امام قرطبی نے واذا قرافانصتوا” کو غیر محفوظ ثابت کیا ہے اور اس الفاظ کو سلیمان تیمی کی زیادتی ثابت کیا ہے:

"جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا"

پھر قتادہ کہ شاگردوں کی غیر متابعت ثابت کر کہ یہ ثابت کیا کہ “[HL]واذا قرافانصتوا” زیادتی ہے سلیمان تیمی کی طرف سے[/HL]:

"۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا"

پھر ان حفاظ حدیث میں جو افراد شامل ہیں جنہوں نے سلیمان تیمی کی متعابت نہیں کی انکے نام پیش کیے:

"حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ"

پھر دارقطنی سے اجماع ثابت کیا ان حفاظ کی طرف سے اور سلیمان تیمی ان الفاظ کو وہم ثابت کیا:

"دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے"

پھر ابو داؤد سے بھی یہ ثابت کیا ہے جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو کہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں:

"ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوامحفوظ نہیں ہے
محمد علی جواد صاحب حد کردی ہے آپ نے بھی ۔ابتسامہ
سر جی انتہائی آسان سا سوال پوچھا تھا آپ سے کہ امام کے پیچھے قراءت کو مقتدی کے لئے واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟ مگر اس آسان سے سوال کا جواب دینے کی بجائے جو کہ یقینا ایک ہی سطر میں آجاتا ، آپ نے پوسٹوں کی سنچری پوری کردی اور اب ڈیڑھ سنچری ہونے کو جارہی ھے ۔
لیکن ثابت ہو چکا ہے اک بار پھر کہ
1:اس بارے میں نام نہاد اہل حدیثوں کے پاس فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ھے"واجب" ثابت کرنے کےلئے ۔
2:امتیوں کی انی تقلید کئے بغیر کوئی نام نہاد اہل حدیث قراءت خلف الامام کو واجب ثابت نہیں کرسکتا ۔
3:اب تک جتنی بھی باتیں پیش کی ہیں "واجب" ثابت کرنے کو وہ سب امتیوں کی ہی ہیں۔
4:موضوع سے فرار کے لئے ادھر ادھر دوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اب تک۔

اگر ادھر ادھر نہیں دوڑے
اگر قرآن و حدیث کے انبار لگادئیے ہیں
اگر صراحت کے ساتھ دلیل پیش کرچکے ہوئے ہیں آپ حضرات نام نہاد اہل حدیث
تو
تو
تو

نشان لگا کر دکھاؤ کہ کس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقتدی پر امام کے پیچھے قرآن پڑھنا واجب ہے ،جس پر آپ لوگوں کا عمل ہے؟


چلیں شاباش اب سارے نام نہاد اہل حدیث بھائی لوگ مل کر کوشش کریں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں ۔
بس اب اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں چلے گی۔
شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
محمد علی جواد صاحب حد کردی ہے آپ نے بھی ۔ابتسامہ
سر جی انتہائی آسان سا سوال پوچھا تھا آپ سے کہ امام کے پیچھے قراءت کو مقتدی کے لئے واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟ مگر اس آسان سے سوال کا جواب دینے کی بجائے جو کہ یقینا ایک ہی سطر میں آجاتا ، آپ نے پوسٹوں کی سنچری پوری کردی اور اب ڈیڑھ سنچری ہونے کو جارہی ھے ۔
لیکن ثابت ہو چکا ہے اک بار پھر کہ
1:اس بارے میں نام نہاد اہل حدیثوں کے پاس فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ھے"واجب" ثابت کرنے کےلئے ۔
2:امتیوں کی انی تقلید کئے بغیر کوئی نام نہاد اہل حدیث قراءت خلف الامام کو واجب ثابت نہیں کرسکتا ۔
3:اب تک جتنی بھی باتیں پیش کی ہیں "واجب" ثابت کرنے کو وہ سب امتیوں کی ہی ہیں۔
4:موضوع سے فرار کے لئے ادھر ادھر دوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اب تک۔

اگر ادھر ادھر نہیں دوڑے
اگر قرآن و حدیث کے انبار لگادئیے ہیں
اگر صراحت کے ساتھ دلیل پیش کرچکے ہوئے ہیں آپ حضرات نام نہاد اہل حدیث
تو
تو
تو

نشان لگا کر دکھاؤ کہ کس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقتدی پر امام کے پیچھے قرآن پڑھنا واجب ہے ،جس پر آپ لوگوں کا عمل ہے؟


چلیں شاباش اب سارے نام نہاد اہل حدیث بھائی لوگ مل کر کوشش کریں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں ۔
بس اب اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں چلے گی۔
شکریہ
کیا مقلد میں عقل ہوتی ہے ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محمد علی جواد صاحب حد کردی ہے آپ نے بھی ۔ابتسامہ
سر جی انتہائی آسان سا سوال پوچھا تھا آپ سے کہ امام کے پیچھے قراءت کو مقتدی کے لئے واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟ مگر اس آسان سے سوال کا جواب دینے کی بجائے جو کہ یقینا ایک ہی سطر میں آجاتا ، آپ نے پوسٹوں کی سنچری پوری کردی اور اب ڈیڑھ سنچری ہونے کو جارہی ھے ۔
لیکن ثابت ہو چکا ہے اک بار پھر کہ
1:اس بارے میں نام نہاد اہل حدیثوں کے پاس فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ھے"واجب" ثابت کرنے کےلئے ۔
2:امتیوں کی انی تقلید کئے بغیر کوئی نام نہاد اہل حدیث قراءت خلف الامام کو واجب ثابت نہیں کرسکتا ۔
3:اب تک جتنی بھی باتیں پیش کی ہیں "واجب" ثابت کرنے کو وہ سب امتیوں کی ہی ہیں۔
4:موضوع سے فرار کے لئے ادھر ادھر دوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اب تک۔

اگر ادھر ادھر نہیں دوڑے
اگر قرآن و حدیث کے انبار لگادئیے ہیں
اگر صراحت کے ساتھ دلیل پیش کرچکے ہوئے ہیں آپ حضرات نام نہاد اہل حدیث
تو
تو
تو

نشان لگا کر دکھاؤ کہ کس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقتدی پر امام کے پیچھے قرآن پڑھنا واجب ہے ،جس پر آپ لوگوں کا عمل ہے؟


چلیں شاباش اب سارے نام نہاد اہل حدیث بھائی لوگ مل کر کوشش کریں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں ۔
بس اب اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں چلے گی۔
شکریہ
محترم -

اگر آپ میرا اور نصر الله خالد صاحب کا نیچے دیا گیا مراسلہ اچھی طرح پڑھ لیتے توشاید مزید سوال و جواب کی نوبت نہ آتی-

http://forum.mohaddis.com/threads/ہر-نماز-میں-سورہ-فاتحہ-پڑھنا-واجب-ہے.18263/page-1

اگر احناف سمیت سب کے سب اہل حدیث بھی آپ کی نظر میں حقیقی طور پر کسی نہ کسی کے مقلد ہیں- تو ذرا اپنے امام ابو حنیفہ کے بارے میں بھی بتا دیں کہ وہ کس کٹیگری میں آتے ہیں -غیر مقلدین کی یا مقلدین کی؟؟؟ اگر مقلد تھے تو کس کے ؟؟- اور یہ انہی کی زبانی بیان کریں تو بہتر ہو گا -(یعنی میں نعمان بن ثابت فلاں کا مقلد ہوں)-

ہو سکتا کل کو آپ کہیں کہ

لا نبی بعدی۔۔۔
میرے بعد کوئی نبی نہیں -

ان الفاظ میں واجب کا لفظ نہیں ہے - لہذا ہم نبی صل الله علیہ و آلہ وسلم کو اس وقت تک آخری نبی نہیں مانیں گے جب تک اس حدیث میں واجب کا لفظ نہیں دکھائیں گے -

کیا کہتے ہیں آپ؟؟؟
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
سہج بھائی کی اس پوسٹ پڑھیں:
محمد علی جواد صاحب حد کردی ہے آپ نے بھی ۔ابتسامہ
سر جی انتہائی آسان سا سوال پوچھا تھا آپ سے کہ امام کے پیچھے قراءت کو مقتدی کے لئے واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟ مگر اس آسان سے سوال کا جواب دینے کی بجائے جو کہ یقینا ایک ہی سطر میں آجاتا ، آپ نے پوسٹوں کی سنچری پوری کردی اور اب ڈیڑھ سنچری ہونے کو جارہی ھے ۔
لیکن ثابت ہو چکا ہے اک بار پھر کہ
1:اس بارے میں نام نہاد اہل حدیثوں کے پاس فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ھے"واجب" ثابت کرنے کےلئے ۔
2:امتیوں کی انی تقلید کئے بغیر کوئی نام نہاد اہل حدیث قراءت خلف الامام کو واجب ثابت نہیں کرسکتا ۔
3:اب تک جتنی بھی باتیں پیش کی ہیں "واجب" ثابت کرنے کو وہ سب امتیوں کی ہی ہیں۔
4:موضوع سے فرار کے لئے ادھر ادھر دوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اب تک۔

اگر ادھر ادھر نہیں دوڑے
اگر قرآن و حدیث کے انبار لگادئیے ہیں
اگر صراحت کے ساتھ دلیل پیش کرچکے ہوئے ہیں آپ حضرات نام نہاد اہل حدیث
تو
تو
تو

نشان لگا کر دکھاؤ کہ کس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقتدی پر امام کے پیچھے قرآن پڑھنا واجب ہے ،جس پر آپ لوگوں کا عمل ہے؟


چلیں شاباش اب سارے نام نہاد اہل حدیث بھائی لوگ مل کر کوشش کریں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں ۔
بس اب اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں چلے گی۔
شکریہ

اب ایک غیر مقلد عقل کے دشمن کا جواب پڑھیں :
کیا مقلد میں عقل ہوتی ہے ؟

کسی بھی منصف مزاج آدمی سے فیصلہ کر والیں وہ یہی کہے گا کہ مندرجہ بالا پوسٹ کا یہ جواب(کیا مقلد میں عقل ہوتی ہے ؟) لکھنے والا شخص خود عقل سے پیدل ہے!!!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
سہج بھائی کی اس پوسٹ پڑھیں:
محمد علی جواد صاحب حد کردی ہے آپ نے بھی ۔ابتسامہ
سر جی انتہائی آسان سا سوال پوچھا تھا آپ سے کہ امام کے پیچھے قراءت کو مقتدی کے لئے واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟ مگر اس آسان سے سوال کا جواب دینے کی بجائے جو کہ یقینا ایک ہی سطر میں آجاتا ، آپ نے پوسٹوں کی سنچری پوری کردی اور اب ڈیڑھ سنچری ہونے کو جارہی ھے ۔
لیکن ثابت ہو چکا ہے اک بار پھر کہ
1:اس بارے میں نام نہاد اہل حدیثوں کے پاس فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ھے"واجب" ثابت کرنے کےلئے ۔
2:امتیوں کی انی تقلید کئے بغیر کوئی نام نہاد اہل حدیث قراءت خلف الامام کو واجب ثابت نہیں کرسکتا ۔
3:اب تک جتنی بھی باتیں پیش کی ہیں "واجب" ثابت کرنے کو وہ سب امتیوں کی ہی ہیں۔
4:موضوع سے فرار کے لئے ادھر ادھر دوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اب تک۔

اگر ادھر ادھر نہیں دوڑے
اگر قرآن و حدیث کے انبار لگادئیے ہیں
اگر صراحت کے ساتھ دلیل پیش کرچکے ہوئے ہیں آپ حضرات نام نہاد اہل حدیث
تو
تو
تو

نشان لگا کر دکھاؤ کہ کس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقتدی پر امام کے پیچھے قرآن پڑھنا واجب ہے ،جس پر آپ لوگوں کا عمل ہے؟


چلیں شاباش اب سارے نام نہاد اہل حدیث بھائی لوگ مل کر کوشش کریں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں ۔
بس اب اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں چلے گی۔
شکریہ

اب ایک غیر مقلد عقل کے دشمن کا جواب پڑھیں :
کیا مقلد میں عقل ہوتی ہے ؟

کسی بھی منصف مزاج آدمی سے فیصلہ کر والیں وہ یہی کہے گا کہ مندرجہ بالا پوسٹ کا یہ جواب(کیا مقلد میں عقل ہوتی ہے ؟) لکھنے والا شخص خود عقل سے پیدل ہے!!!

مقتدى كے ليے امام كے پيچھے سورۃ فاتحہ كے علاوہ اور قرآت كرنى جائز نہيں

كيا جب امام قرآت لمبى كرے تو مقتدى كے ليے امام كے ساتھ قرآن پڑھنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

جھرى نمازوں ميں مقتدى كے ليے سورۃ الفاتحہ سے زيادہ قرآت كرنى جائز نہيں، بلكہ مقتدى سورۃ الفاتحہ كے بعد خاموشى سے امام كى قرآت سنے( يعنى سورۃ الفاتحہ پڑھنے كے بعد ) كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" لگتا ہے تم اپنے امام كے پيچھے قرآت كرتے ہو ؟
ہم نے عرض كيا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم سورۃ الفاتحہ كے علاوہ نہ پڑھا كرو، كيونكہ جو سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "


اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے خاموشى سے سنو تا كہ تم پر رحم كيا جائے﴾.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب امام قرآت كرے تو تم خاموش رہو "

مندرجہ بالا حديث اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان:

" جو فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "

متفق على صتحہ.

كے عموم كى بنا پر سورۃ الفاتحہ مستثنى ہو گى.


واللہ اعلم .
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا فتوى ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 291 ).

ھماری بات نہیں تو عرب علماء کا فتویٰ ہی مان لو

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
سوال: کیا سورہ فاتحہ کے بغیر نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ اور امام کے پیچھے پڑھنے کا کیا کیا حکم ہے؟ جبکہ قرآن میں ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو؟


فتاو یٰ سیریز:(سوال و جواب) مفتی محمد یوسف طیبی
( حفظہ ا ﷲ)فاضل مدینہ یونیوورسٹی(مدینہ) اور مدیر جامعہ الدراسات لاسلامیہ ، کراچی

 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
پہلے علماء نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد و اذا قراٗ فانصتوا(5) (جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا: جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا ۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ۔
دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبداللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے (1) ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے

امام قرطبی نے واذا قرافانصتوا” کو غیر محفوظ ثابت کیا ہے اور اس الفاظ کو سلیمان تیمی کی زیادتی ثابت کیا ہے:

"جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا"

پھر قتادہ کہ شاگردوں کی غیر متابعت ثابت کر کہ یہ ثابت کیا کہ “[HL]واذا قرافانصتوا” زیادتی ہے سلیمان تیمی کی طرف سے[/HL]:

"۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا"

پھر ان حفاظ حدیث میں جو افراد شامل ہیں جنہوں نے سلیمان تیمی کی متعابت نہیں کی انکے نام پیش کیے:

"حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ"

پھر دارقطنی سے اجماع ثابت کیا ان حفاظ کی طرف سے اور سلیمان تیمی ان الفاظ کو وہم ثابت کیا:

"دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے"

پھر ابو داؤد سے بھی یہ ثابت کیا ہے جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو کہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں:

"ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوامحفوظ نہیں ہے
جواد میاں : اسی فورم پر بڑی شد و مد کے ساتھ ایک بحث چلتی رہی ہے(اجماع !صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے !!!) اس دھاگہ میں بار ہا یہ بات لکھی گئی کہ

شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔

صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں تمام محد ثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام احادیث متصل ہیں اور مر فو ع ہیں اور تمام کی تمام یقینا صحیح ہیں یہ دونوں کتا بیں اپنے مصنفین تک متواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کر ے وہ مسلمان کی راہ کے خلاف چلتا ہے

ملا علی قاری الحنفی کہتے ہیں :

پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔

حوالہ: مرقاۃ المفاتیح ، 58/1 ۔
امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی المتوفی 408ھ ، فرماتے ہیں :

فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔
امام نسائی فرماتے ہیں :

اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین
بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔

محدثین کا یہ دعوی ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

جمیع ما حکم مسلم بصحتہ من ھذا الکتاب فھو مقطوع بصحتہ و العلم النظری حاصل بصحتہ فی نفس الأمر و ھکذا ما حکم البخاری بصحتہ فی کتابہ و ذلک لأن الأمة تلقت ذلک بالقبول سوی من لا یعتد بخلافہ و وفاقہ فی الاجماع۔(صیانة صحیح مسلم' امام ابن صلاح' ص٨٥'دار الغرب الاسلامی)

وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
امام الحرمین 'امام جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔
(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)

اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم میں کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے 'تو ایسی صورت میں اس کی بیوی نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص حانث ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔
(قطر الولی'ص٢٣٠٭)

اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہوناامت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول ' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔
محدث العصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصلالمرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔
(مقدمة تحفة الأحوذی'ص٤٧'دار الکتب العلمیة' بیروت)

جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو بھی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔
پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر أئمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہاء کا اتفاق ہوتا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعوی متأثر نہ ہوگا جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں أصل اعتبار فقہاء کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بارے مقدمہ اصول تفسیر میں بحث کی ہے۔

ان تمام حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ بخاری مسلم کی تمام مرفوع احادیث قطعی صحیح ہیں اور ان پر محدثین کا اجماع ہے ۔اب اس محدثین کے اجماع کے خلاف جناب "مسلم " کی حدیث کو ضعیف ثابت کرنے پر تُلے ہیں اور اس اجماع کے مُنکر بن رہے ہیں
http://forum.mohaddis.com/threads/اجماع-صحیح-بخاری-قرآن-کے-بعد-سب-سے-صحیح-کتاب-ہے.21439/

 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
محترم -

اگر آپ میرا اور نصر الله خالد صاحب کا نیچے دیا گیا مراسلہ اچھی طرح پڑھ لیتے توشاید مزید سوال و جواب کی نوبت نہ آتی-

http://forum.mohaddis.com/threads/ہر-نماز-میں-سورہ-فاتحہ-پڑھنا-واجب-ہے.18263/page-1

اگر احناف سمیت سب کے سب اہل حدیث بھی آپ کی نظر میں حقیقی طور پر کسی نہ کسی کے مقلد ہیں- تو ذرا اپنے امام ابو حنیفہ کے بارے میں بھی بتا دیں کہ وہ کس کٹیگری میں آتے ہیں -غیر مقلدین کی یا مقلدین کی؟؟؟ اگر مقلد تھے تو کس کے ؟؟- اور یہ انہی کی زبانی بیان کریں تو بہتر ہو گا -(یعنی میں نعمان بن ثابت فلاں کا مقلد ہوں)-

ہو سکتا کل کو آپ کہیں کہ

لا نبی بعدی۔۔۔
میرے بعد کوئی نبی نہیں -

ان الفاظ میں واجب کا لفظ نہیں ہے - لہذا ہم نبی صل الله علیہ و آلہ وسلم کو اس وقت تک آخری نبی نہیں مانیں گے جب تک اس حدیث میں واجب کا لفظ نہیں دکھائیں گے -

کیا کہتے ہیں آپ؟؟؟
وہ غیر مقلد ہی کیا جو ضد چھوڑ دے ؟
مسٹر محمد علی جواد صرف یہ بتائیے کہ امام کے پیچھے قرآن پڑھنے کو مقتدی کے لئے واجب کس نے کہا ؟
اللہ تعالٰی نے ؟
رسول اللہ ﷺ نے؟
امتی نے ؟

اب ان شاء اللہ اگر جواب نہیں دیا موضوع کے مطابق تو پھر سوالات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔بس اب کسی ڈھکوسلے کا جواب نہیں دیا جائے گا۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم فجر کی نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے آپ ﷺ نے قرآءت شروع کی تو دوران قرآت آپ ﷺ کو پریشانی سی ہوئی چنانچہ نماز سے فراغب کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا!۔۔۔ شاید تم بھی میرے پیچھے قرآءت کرتے ہو؟؟؟۔۔ ہم نے کہا ہاں تو آپ ﷺ نے فرمایا۔۔۔
لاتفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب فان لاصلاۃ لمن لم یقرآ بھا
ایسے نہ کیا کرو، ہاں سورۃ فاتحہ کو ضرور پڑھو کیونکہ جو آدمی اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی (رواہ ابوداؤد، ترمذی، نسانی، احمد، ابن خزیمہ وغیرہ)۔

اسے مسلم، ابن خزیمہ، اور ابن حبان نے"الصحیح" میں روایت کیا ہے اور خود علماء احناف مثلا الزیلعی، ملاعلی قاری، شاہ عبدالحق، انور شاہ کشمیری، اور عبدالحئی لکھنوی وغیرہ نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا اور یہی وہ حدیث ہے جسے احناف نے “بسملہ“ کے مسئلے میں شافعیہ کے خلاف دلیل بنایا ہے۔

اس حدیث کو اہلسنت والجماعت نے صحیح قرار دیا ہے اور احناف علماء میں سے مولانا عبدالحئی لکھنوی اور مولانا قاسم نانوتوی نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔

کبار صحابہ کرام مثلا! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ، سیدنا عبادۃ رضی اللہ عنہ، سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرھم۔

بھی اس موقف کے قائل ہیں اور اکابر احناف میں سے امام محمد اور خود امام ابوحنیفہؒ سری نمازوں میں قرآءت فاتحہ کو مستحسن خیال کرتے تھے نیز علامہ عینی، ملاعلی قاری، ابن ھمام، نظام الدین اولیاء، شاہ ولی اللہ، اور شیخ عابد سندھی وغیرہ بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں۔

لہذا اس مسئلے میں مولانا عبدالحئی لکھنوی کا فتوٰی ملاحظہ کیجئے!۔
سو یہ بات واضح طور پر کھل گئی ہے کہ سب سے قوی مسلک جسے ہمارے اساتذہ نے اختیار کیا ہے وہ دوسری نمازوں میں قرآءت فاتحہ کو مستحسن قرار دینا ہے جیسا کہ امام محمد بن الحسن سے یہ مروی ہے اور اسے فقہا کی بہت بڑی جماعت نے پسند کیا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ امام محمد نے جب سری نمازوں میں قرآءت فاتحہ کو جائز اور مستحسن خیال کیا ہے تو جہری نمازوں میں بھی وہ اسے جائز تصور کرتے ہونگے جب ان میں سکتات موجود ہوں کیونکہ جہری نمازوں میں سکتات موجودگی میں سری اور جہری نمازوں میں کوئی فرق نہیں رہتا اور یہی مذہب محدثین کی جماعت اہلسنت والجماعت کا ہے اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر دے (امام الکلام صفحۃ ٢١٦)۔
 
Top