• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اضافیت اور کائنات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نظریہ اضافیت کی مساواتوں کی درستگی کا سب سے بڑا ثبوت آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E = mc² (جہاں E توانائی m کمیت اور c روشنی کی رفتار کے لیے) ہے.. اس مساوات نے اس کائنات کے بہت سے راز افشاء کیے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں.. اگرچہ ہم نے اس کے رموز مختصراً بیان کیے ہیں مگر یہ شاید ہمارے لیے کوئی معنی نہ رکھے، مگر ریاضی کے عجائبات سے با خبر لوگوں کے لیے اس میں بہت کچھ پنہاں ہے، بعض لوگ اس چھوٹی سی مساوات کو ایک ایسی پہیلی قرار دیتے ہیں جسے لاگو نہیں کیا جاسکتا.. مساوات میں تین محدود چیزیں ہیں: روشنی کی رفتار، توانائی اور کمیت (یا مادہ) .. اور یہ ایک عجیب ریاضیاتی جوڑ ہے.. کہ جب ہم توانائی اور مادے کی بات کر رہے ہیں تو پھر اس میں روشنی کی رفتار کا کیا عمل دخل ہے؟ .. شاید روشنی کی رفتار ہی وہ گمشدہ کڑی ہے جو توانائی اور مادے کو ایک ساتھ جوڑتی ہے، مگر یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں، ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ مساواتوں کی یہی زبان ہی ہمیں وہ راستہ دکھاتی ہے جس کی بنیاد پر ساری کائنات کھڑی ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس مساوات کے ذریعے ہم کسی بھی قسم کے ایک کلو گرام مادے کی توانائی کی مقدار معلوم کر سکتے ہیں چاہے وہ مادہ پتھر ہو، لوہا ہو، گوشت ہو یا کوئی مائع.. نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے ایک کلو گرام مادے کی توانائی نو سو ہزار بلین بلین توانائی یونٹ ہے، اس عدد کو اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی میں محسوس کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے مادے کا ایک کلو گرام اگر مکمل طور پر فنا ہوجائے اور اپنی مادی حالت کو چھوڑ کر موجی (موج یا لہر) حالت میں آجائے تو اس سے جو توانائی برآمد ہوگی وہ کچھ یوں ہوگی:

- یہ توانائی 22 ہزار ملین ٹن دھماکے دار مادے T.N.T کے برابر ہوگی!

- اس توانائی سے آپ اپنی گاڑی (بشرطیکہ آپ کے پاس ہو) پر دنیا کا چار لاکھ مرتبہ چکر لگا سکتے ہیں.. یعنی اگر آپ بغیر رکے 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے رہیں تو 20 ہزار سال میں آپ 16 ہزار ملین کلو میٹر طے کریں گے.. اللہ آپ کی اور آپ کی گاڑی کی عمر دراز کرے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس فہرست میں اور بہت سی شماریات شامل کی جاسکتی ہیں جن سے مادے میں چھپی بے پناہ توانائی کا اندازہ ہوتا ہے.. مگر کیا کبھی ہم ان توانائیوں کو آزاد کر سکیں گے؟

یہاں وہ بحث پیش کرنی بے جا نہ ہوگی جو آئن سٹائن اور اس کی مذکورہ مساوات کا مذاق اڑانے والے کچھ لوگوں کے درمیان ہوئی تھی، ایک صاحب نے کہا: آپ دعوی کرتے کہ مٹھی بھر کوئلے میں جو توانائی ہے وہ تمام جرمن فوجیوں کے ہتھیاروں سے زیادہ ہے.. اگر یہ درست ہوتا - جیسا کہ آپ اپنی مساوات کے ذریعے دعوی کر رہے ہیں - تو پھر ہم اسے نوٹ (محسوس) کیوں نہیں کرتے؟

آئن سٹائن جواب دیتے ہیں: اگر کسی امیر آدمی کی تمام دولت کہیں دفن ہو اور کسی نے اسے ایک مارک بھی کبھی صرف کرتے نہ دیکھا ہو تو اس صورت میں کوئی بھی اس دولت کا اندازہ یا تخمینہ نہیں لگا سکے گا، یہی صورت مادے کی ہے.. جب تک وہ اپنی توانائی آزاد نہیں کرتی، تب تک اسے نوٹ یا محسوس نہیں کیا جاسکے گا.

ایک دوسرا سوال کرتا ہے: تو اس توانائی کو آزاد کرنے کے لیے آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟

آئن سٹائن: اسے آزاد کرنے کے امکانات کی میرے پاس کوئی دلیل یا تصور نہیں ہے.

ایک اور سوال: کیا اپنی لیبارٹری میں تجربات کے دوران آپ پہلے بھی کبھی مادے اور توانائی کے حوالے سے اس مساوات کے نتیجے پر پہنچے؟

تب حاضرین حیران رہ گئے جب انہوں نے کہا: میں کبھی لیبارٹری میں نہیں گیا، اور نا ہی کبھی کوئی ایک تجربہ ہی کیا ہے.. علمِ طبیعات دراصل ایک نظریاتی نظام کے علاوہ کچھ نہیں جو ہمیشہ ترقی اور ارتقاء کی حالت میں رہتا ہے، اور اس کی ترقی کا انحصار آزاد دریافتوں پر ہے.. چنانچہ مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ میں درست ہوں!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں قدرت کا کوئی سربستہ راز چھپا ہوا ہے اور ہمیں مادے اور توانائی کے حوالے سے اپنے مفہوم پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی.. ایک عام عقیدہ یہ تھا کہ کائنات میں دو ہی بنیادی عناصر ہیں، مادہ اور توانائی.. مادہ ایک جامد اور محسوس چیز ہے اور کمیت کی تمام تر خوبیوں کا حامل ہے جسے ہم سب جانتے ہیں، مگر توانائی اس کے برعکس ہے.. یہ آزاد ہے اور نظر نہیں آتی مگر موجوں کی صورت میں سفر کرتی ہے اور اس کی کمیت نہیں ہے.

جبکہ مساوات کہتی ہے کہ: مادہ اور توانائی ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں.. جب مادہ فنا ہوتا ہے تو توانائی نمودار ہوجاتی ہے، اور اگر توانائی "مجسم" ہوجائے تو مادہ نمودار ہوجاتا ہے، گویا جو مادہ ہمیں اور ساری کائنات کو تشکیل دیتا ہے وہ جسیموں میں مقید کثیف توانائی ہے.. اور جسیمے ذرات تشکیل دیتے ہیں، اور ذرے مادہ.. مختصراً یہ کہ مادہ توانائی ہے، اور توانائی مادہ ہے، ان دونوں میں تفریق ایک وقتی حالت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ہی لے جاتے ہیں.. یہ کوئی مشکل مساوات نہیں ہے، اس کا دایاں، بائیں کے مساوی ہے.. ایک طرف تونائی ہے، اور دوسری طرف مادہ، گویا قدرت ہمارے ساتھ لکا چھپی کھیل رہی ہو یا ہمیں مرغی اور انڈے کی پہیلی پیش کر رہی ہو.. پہلے کیا آیا تھا: انڈا یا مرغی؟ .. پہلے کیا نمودار ہوا: مادہ یا توانائی؟ .. پہلے سوال میں کچھ بے وقوفی جھلکتی ہے، اور دوسرے میں حقیقت کی تلاش جسے جب بھی انسان نے یہ سمجھا کہ وہ اس کے قریب پہنچ گیا ہے وہ سراب بن کر دھوکہ دے جاتی ہے، یا مختلف پیچیدہ شکلوں میں ظہور پذیر ہوکر اپنے پیچھے کائنات کی واحد مساوات چھپا دیتی ہے.

E = mc² صرف تین حروف جن کے جب راز کھلے تو جنت اور جہنم کے دروازے ایک ساتھ کھل گئے.. تعمیر اور تخریب، شر اور تباہی.. ہمارا انتخاب کیا ہوگا؟ .. اس کا انحصار انسان کی حکمت پر ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ان تین حروف نے دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ کیا، اور انہی سے جاپان کی عظیم قوم کے صبر کا امتحان لیا گیا، اس کے دو شہر نیست ونابود کردیے گئے اور اس نے خاموشی سے شکست تسلیم کر لی.

اس مساوات کے نمودار ہونے کے چالیس سال بعد انسان مادے کو توانائی کی صورت میں آزاد کر سکا، اس نے ذرے کا دل چیرا اور مادے کا بہت کم حصہ غائب ہوکر ایسی تباہ کن توانائی کی شکل میں سامنے آیا کہ جس کی تاریخ میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی، انسانیت ششدر رہ گئی.. ایٹمی بھوت آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے کہ مغرب اور مشرق نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ لگا رکھی ہے، اگر ان ہتھیاروں کی توانائیاں غلطی سے بھی آزاد ہوگئیں تو کرہ ارض کے ہر انسان کے حصے میں 15 ٹن T.N.T شدید دھماکے دار مادہ آئے گا.. مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ ابھی تک قید ہے اور دعا کریں کہ یہ قید ہی رہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مادے سے آزاد کی گئی توانائی کا استعمال انسانیت کی بھلائی اور اس کی ترقی کے لیے کیا جائے.

ازل سے جو روشنی کائنات کو منور کیے ہوئے ہے وہ کھربوں ستاروں کے بطن سے نکلتی ہے جو دراصل مادے کی توانائی میں تبدیلی کی وجہ سے ہی ہے.. ہمارا سورج جو اپنے گرد بے پناہ مقدار میں روشنی، حرارت اور شعاعیں پھیلا رہا ہے وہ اس عام ایندھن سے نہیں چلتا جو ہم استعمال کرتے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو وہ کب کا بجھ چکا ہوتا، وہ اسی مساوات کی بنیاد پر ہی چلتا ہے.. مادے کا کچھ حصہ غائب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بے پناہ توانائیاں نمودار ہوتی ہیں جو کروڑوں سال اسی طرح چلتی رہیں گی.

مادے کی توانائی میں تبدیلی کی یہ ایک چھوٹی سی تصویر تھی جو مساوات کی درستگی کا ثبوت ہے.. مگر، کیا اس کے برعکس ہونے کی کوئی دلیل ہے.. یعنی توانائی کو مادے کی صورت میں مجسم کرنا؟

ایک سے زیادہ دلیل ہے.. ایٹمی ری ایکٹروں میں سائنسدان دن رات مادے کے ایسے جسیموں یا پارٹیکلز کے ساتھ وقت گزارتے ہیں جو روشنی کی رفتار کے قریب چھوٹتے ہیں، اور اگر اچانک کسی ہدف سے ٹکرا کر رک جائیں تو اپنی جس توانائی سے وہ دوڑ رہے ہوتے ہیں فنا یا ضائع نہیں ہوتی، بلکہ پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکلز کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں، مگر.. یہ اینٹی پارٹیکل کا کیا مطلب ہے؟

دراصل یہ ایک طویل موضوع ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں، مختصراً یہ کہ سائنسدانوں نے مادے کے ہر پارٹیکل کا جو ہماری کائنات تشکیل دیتے ہیں رد یا اینٹی پارٹیکل دریافت کیا ہے، دونوں ہی توانائی کی ایک معینہ مقدار سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جن کا حساب اسی مساوات (E = mc²) سے کیا جاسکتا ہے.. تاہم یہ رد جسیمے ہماری دنیا کے جسیموں کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے بالکل جس طرح برف جہنم میں گزارہ نہیں کر سکتی، یہ رد جسیمہ جیسے ہی ظاہر ہوتا ہے اپنے متضاد جسیمے سے اس کا ٹکرانا حتمی ہوتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ہی ایک دوسرے کو مکمل فنا کردیتے ہیں، اور اپنی مجسم (مادی) حالت کو چھوڑ کر موجی حالت میں آجاتے ہیں.. یعنی توانائی بن کر کائنات میں روشنی کی رفتار سے نکل کھڑے ہوتے ہیں.. اس میں مساوات کی درستگی کا کھلا ثبوت ہے جسے لوگ پاگل پن یا ایک ایسی پہیلی قرار دیتے رہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
زمان کی اضافیت

ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیز رفتاریں چیزوں کی حالت پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان کی کمیت بڑھ جاتی ہے، یا وہ سمٹ یا سکڑ جاتی ہیں.. اسی طرح اب ہم کہتے ہیں کہ: تیز حرکت آپ کے وقت کو سست کردے گی!

اس پر بحث کرنے سے پہلے چلیے کچھ سوال اٹھاتے ہیں: ہم میں سے کون وقت کے معنی متعین کر سکتا ہے؟ .. اور اگر کر سکتا ہے تو کیا وقت کی کوئی ابتدا یا انتہاء ہے؟ .. اور اگر ہے تو یہ کیسے اور کہاں سے شروع ہوا اور کب ختم ہوگا؟ .. اور کیا وقت کا بہاؤ مطلق ہے یا نسبتی؟ .. یعنی کیا کائنات میں اسے دیکھنے والوں کے لیے یہ ساکن ہے جو نہیں بدلتا، یا یہ پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے؟ .. اور ایسے ہی دیگر بہت سے پریشان کن سوال جن کا ہم کوئی قطعی جواب حاصل نہیں کر پاتے حالانکہ ہم سب ہی وقت کے گزرنے کو محسوس کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت متعین کرنے سے قاصر رہتے ہیں.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
زمان یا وقت پر فلاسفر، علماء اور ادیب ایک طویل عرصے سے بحث کرتے چلے آئے ہیں.. کوئی کہتا ہے کہ: وقت ایک بہتی نہر کی طرح ہے جو منظم طریقے سے اپنے منبع یا مصدر سے مخرج تک بہتا رہتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وقت کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی، تو اگر اس کی ابتداء ہے تو یہ کہاں سے آیا ہے؟ اور انتہاء ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب وقت نہیں ہوگا.. لیکن عقل یہ بات قبول نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ تصور کرنا بہت مشکل ہے کہ کوئی لمحہ سابقہ لمحے کے بغیر آگیا، یا آنے والا کوئی ایسا لمحہ جس کے بعد کوئی لمحہ نہ ہو.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کوئی کہتا ہے کہ: جن واقعات سے ہم گزرتے ہیں وہی ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتے ہیں.. ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ ماضی میں ہوا، اور یہ اب ہو رہا ہے، اور بہت کچھ مستقبل میں ہوگا.. تو کیا جن واقعات سے ہم گزرتے ہیں پہلے سے تیار یا مقدر ہیں؟ .. بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے، یعنی واقعات پہلے سے ہی مرتب اور منظم ہیں جن کے درمیان وقت کے متعین زمانے حائل ہیں، یا جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ: واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے، بلکہ ہم ان سے گزرتے ہیں!.

جیسے انسان (اس صورت میں) زندگی کے سفر کا کوئی سیاح ہے، اور وہ زبردستی یہاں وقت کی "ٹرین" پر سوار ہونے آیا ہے.. وہ راستوں میں کچھ سٹیشنوں (واقعات) سے گزرے گا جو جلد ہی غائب ہوجائیں گے، مگر وہ واقعی غائب نہیں ہوئے، یہ اب بھی وہاں ہیں.. ہوا صرف یہ ہے کہ ہم ان سے گزر گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں.. اور یہی.. اپنے واقعات کے ساتھ (یا سٹیشنوں کے ساتھ).. ماضی ہے جو کبھی گم یا ضائع نہیں ہوتا.

جس سٹیشن سے اس وقت ہم گزر رہے ہیں یہی اپنے تمام تر واقعات کے ساتھ حال ہے، ابھی وقت کی ٹرین کے سامنے بہت سارے سٹیشن ہیں، لازم ہے کہ وہ ان سے اور ہم سے گزرے، اور یہی اپنے واقعات کے ساتھ مستقبل ہے.. یہ ابھی وہاں ہے، لیکن ہم ابھی اس سے نہیں گزرے، مگر ہم اس سے گزریں گے جس سے مستقبل حال بن جائے گا اور پھر ایسا ماضی جو کہ وہ بھی ضائع نہیں ہوگا.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: وقت ایک ساکن چیز ہے جو حرکت نہیں کرتا، بلکہ ہم اس میں حرکت کرتے ہیں.. کچھ کا خیال ہے کہ وقت کا کوئی وجود نہیں، بلکہ جو چیزیں ہمارے احساسات ہم تک منتقل کر کے کسی صورت میں دکھاتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں وجود ہی نہیں رکھتیں.. ایسے حضرات سے ہم کہتے ہیں: آپ کو مثلاً ثابت کرنا ہوگا کہ پانی کا کوئی وجود نہیں، اور پھر دریا میں کود جائیے، یا آگ محض ایک خیال ہے، تو خود کو جلا ڈالیے، یا ٹرین دھوکہ ہے، تو اس کے راستے میں کھڑے ہوجائیے، پھر اس کے بعد آپ کبھی ایسا فلسفہ نہیں جھاڑیں گے!

ان تمام تصورات پر ہم ایک بھی علمی دلیل کھڑی نہیں کر سکتے.. اس کے با وجود ہم اس موضوع پر علمی بحث کریں گے.. کائنات کی حرکت کا وقت سے گہرا تعلق ہے، ہمیں زمان ومکان میں ہر متحرک چیز کا مقام اور اس کا وقت متعین کرنا ہوگا.
 
Top